شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
حضرت اقدس ؑکی نمازوں کا بیان
اذان
“مسجد مبارک باوجود اپنی پہلی تنگی کے ہم پر فراخ رہا کرتی تھی۔ جس میں بارہا خدا کا اولوالعزم نبی جری اللہ فی حلل الانبیاء تن تنہا نماز کے لیے تشریف لے آیا کرتا تھا۔ اور بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ باوجود انتظار کے جب اور کوئی نہ پہنچا تو حضور نے کسی کو بلوا کر اذان کہلوائی۔ بلکہ ایک مرتبہ تو مجھے یاد ہے کہ حضور نے خود بھی اذان کہی۔ حضور کی آواز گو ہلکی تھی مگر نہایت دلکش اور سریلی آواز تھی۔ جس میں لحنِ داؤدی کی جھلک اور گویا نفخ صور کا سماں بندھ رہا تھا۔”
(اصحاب احمد جلد 9صفحہ 153)
نمازکاطریق، نماز کی ادائیگی اور باقاعدگی کا اہتمام، امامت، نمازجمع
حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی نماز کی چشمدید کیفیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
نماز کی ابتداء:
جب صلوٰۃ پڑھتے ہیں تو کعبہ کی طرف رخ کر کے اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھاتے ہیں یہاں تک کہ انگلیاں دونوں کانوں کے برابر ہو جاتی ہیں اور پھر دونوں کو نیچے لا کر سینہ یعنی دونوں پستانوں کے اوپر یا ان کے متصل نیچے اس طور پر باندھ دیتے ہیں کہ بایاں ہاتھ نیچے اور دایاں اوپر ہوتا ہے۔اور عموماً ایسا ہوتا ہے کہ دہنے ہاتھ کی تینوں درمیانی انگلیوں کے سرے بائیں کہنی تک یا اس سے کچھ پیچھے ہٹے ہوئے ہوتے ہیں اور انگوٹھے اور کنارے کی انگلی سے پکڑا ہوتا ہے۔اور اگر اس کے خلاف اوپر یا نیچے یا آگے بڑھا کر یا پیچھے ہٹا کر یا ساری انگلیوں سے کوئی پکڑ کر ہاتھ باندھتا ہے تو کوئی اس پر اعتراض نہیں کرتا۔
ہاتھ باندھ کر
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ وَ تَبَارَکَ اسْمُکَ وَ تَعَالٰی جَدُّکَ وَ لَا اِلٰہَ غَیْرُکَ۔
(اے اللہ مَیں تجھے پاک ہونے کے علاوہ بڑی تعریفوں والا یقین کرتا ہوں اور تیرا نام بڑا بابرکت ہے اور تیری ذات بڑی بلند ہے اور تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے)یا
اَللّٰھُمَّ بَاعِدْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ اَللّٰھُمَّ نَقِّنِیْ مِنْ خَطَایَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الْاَ بْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ۔
تعوذ ، تسمیہ اور سورۃ فاتحہ:
اس کے بعد اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ (مَیں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں دھتکارے ہوئے شیطان سے)اور بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ(مَیں اللہ کے نام کے ساتھ پڑھتا ہوں جو بن مانگے اور بے کئے دینے والا اور مانگنے اور کرنے پر عمدہ دینے والا ہے)اور
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ۔غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔ اٰمِیْنَ
(سب تعریفیں اللہ کے لیے ہی ہیں جو سب جہانوں کا پیدا کر کے پالنے والا اور بن مانگے اور بے کئے دینے والا اور مانگنے اور کرنے پر بہت عمدہ دینے والا اور دین کے دن (یا یوں کہو کہ جزا کے دن)کا مالک ہے۔ہم تو تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں ۔ہم کو سیدھی راہ بتا (اور اس پر چلا)جو کہ تجھ سے انعام پانے والوں کی راہ ہے (یعنی نبیوں ، صدیقوں، شہیدوں ، صالحوں کی)نہ غضب شدہ لوگوں کی اور نہ گمراہوں کی (یعنی نہ یہود کی اور نہ عیسائیوں کی)
اور اس کے بعد کوئی سورۃ یا قرآن مجید کی کچھ آیتیں پڑھتے ہیں ۔اور فاتحہ میں جو اِھْدِنَا الخ کی دعا ہے اس کو بہت توجہ سے اور بعض دفعہ بار بار پڑھتے ہیں اور فاتحہ کے اول یا بعد سورۃ کے پہلے یا پیچھے غرض کھڑے ہوتے ہوئے اپنی زبان میں یا عربی زبان میں علاوہ فاتحہ کے اور اور دعائیں بڑی عاجزی و زاری اور توجہ سے مانگتے ہیں۔اور پھر اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہتے ہوئے رکوع میں جاتے ہیں ۔
رکوع اور قیام:
اور دونوں ہاتھوں سے اپنے دونوں گھٹنوں کو انگلیاں پھیلا کر پکڑتے ہیں اور دونوں بازؤں کو سیدھا رکھتے ہیں اور پیٹھ اور سر کو برابر رکھتے ہیں اور سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ (مَیں اپنے رب کو سب نقصوں سے پاک یقین کرتا ہوں جو کہ بہت بڑا ہے)یا سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَ بِحَمْدِکَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ (اے ہمارے رب ہم تجھے سب نقصوں سے پاک جاننے کے علاوہ سب تعریفوں والا یقین کرتے ہیں ۔اے اللہ تُو مجھے میری کمزوریوں کے بد نتائج سے اور آئندہ کمزوریوں سے بچا) تین یا تین سے زیادہ دفعہ پڑھتے ہیں ۔اور رکوع کی حالت میں اپنی زبان میں یا عربی زبان میں جو دعا کرنا چاہیں کرتے ہیں ۔
اس کے بعد سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ۔(اللہ سنتا ہے اس کی جو اس کی حمد کرتا ہے)کہتے ہوئے سیدھے کھڑے ہو جاتے ہیں اورکھڑے کھڑے رَبّنَا لَکَ الْحَمْدُ (اے ہمارے رب تیرے ہی لیے سب تعریف ہے)یا اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ (اے اللہ اے ہمارے رب تیرے ہی لیے سب تعریف ہے) یا اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًا مُّبَارَکًا فِیْہِ کَمَا یُحِبُّ رَبُّنَا وَ یَرْضٰی۔(اے اللہ اے ہمارے رب تیرے ہی لیے سب تعریف ہے اور مَیں تیری بہت تعریف کرنی چاہتا ہوں جس میں برکت ہو جیسا کہ ہمارا رب پسند اور خوش رکھے)یا اس کے سوا اور کوئی ماثور کلمات کہتے ہیں اور اس کے بعد جو دعا کرنی چاہتے ہیں اپنی زبان میں یا عربی زبان میں کرتے ہیں ۔
پہلاسجدہ:
اور پھر اَللّٰہُ اُکْبَرُ کہتے ہوئے نیچے جاتے ہیں اور پہلے گھٹنے اور پھر ہاتھ اور پھر ناک اور پیشانی یا پہلے ہاتھ اور پھر گھٹنے اور پھر ناک اور پیشانی زمین پر رکھ کر سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی (مَیں اپنے رب کو پاک یقین کرتا ہوں جو بہت بلند ہے)یا
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَ بِحَمْدِکَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ
(اے اللہ اے ہمارے رب تجھے سب نقصوں سے پاک جاننے کے علاوہ بڑی تعریف والا یقین کرتے ہیں اے اللہ میری کمزوریوں کے بد نتائج سے اور آئندہ کمزوریوں سے مجھے بچا دے)کم سے کم تین دفعہ یا اس سے زیادہ طاق پڑھتے ہیں ۔
اور چونکہ صحیح حدیثوں میں آیا ہے کہ سجدہ میں بندہ اپنے رب سے بہت قریب ہوتا ہے اور یہ بھی آیا ہے کہ سجدہ میں دعا بہت قبول ہوتی ہے۔
(صحیح المسلم کتاب الصلاۃ باب مایقال فی الرکوع والسجود حدیث نمبر482)
لہٰذا سجدہ میں اپنی زبان یا عربی زبان میں بہت دعائیں کرتے ہیں ۔اور سجدہ کی حالت میں اپنے دونوں پاؤں کو کھڑا رکھتے ہیں اور ان کی انگلیوں کو قبلہ کی طرف متوجہ رکھتے ہیں اور دونوں ہاتھوں کے درمیان سر رکھتے ہیں اور دونوں بازؤوں کو اپنے دونوں پہلوؤں سے جدا کر کے اور دونوں کہنیوں کو زمین سے اٹھا کر رکھتے ہیں ۔ہاں جب لمبا سجدہ کرتے ہوئے تھک جاتے ہیں تو اپنی دونوں کہنیوں کو دونوں گھٹنوں پر رکھ کر سہارا لے لیتے ہیں ۔
دو سجدوں کے درمیان قعدہ:
اس کے بعد اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہتے ہوئے سر اٹھا کر گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے ہیں اس طور پر کہ داہناں پاؤں کھڑا رکھتے ہیں اور بایاں پاؤں بچھا کر اس کے اوپر بیٹھ جاتے ہیں۔اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھ لیتے ہیں اور بیٹھ کر
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَ ارْحَمْنِیْ وَ اھْدِنِیْ وَ ارْفَعْنِیْ وَ اجْبُرْنِیْ وَ ارْزُقْنِیْ۔
(اے اللہ میری کمزوریوں کے بد نتائج سے اور آئندہ کمزوریوں سے بچا اور مجھ پر رحم کر اور مجھے ہر ایک امر کی سیدھی راہ بتا اور مجھے رفعت اور عزت دے اور میرے نقصوں کا تدارک کر دے اور مجھے رزق دے)یا اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ تین دفعہ پڑھتے ہیں ۔اس کے علاوہ اپنی زبان میں یا عربی زبان میں جو دعا چاہتے ہیں دعا مانگتے ہیں ۔
دوسرا سجدہ:
اور پھر اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہتے ہوئے پہلے سجدہ کی مانند سجدہ کرتے ہیں اور پہلے سجدہ کی مانند اس میں بھی وہی کچھ پڑھتے ہیں جو کہ پہلے سجدہ میں پڑھا تھا اور دوسرے سجدہ میں بھی دعائیں مانگتے ہیں ۔
دوسری رکعت :
اور پھر اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہتے ہوئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور سوائے پہلی تکبیر اور سُبْحَانَکَ اللّٰہُ اور اَعُوْذُ بِاللّٰہِ کے بعینہٖ پہلی رکعت کی مانند دوسری رکعت پڑھتے ہیں۔اور دونوں سجدوں کے بعد اس طرح بیٹھ جاتے ہیں جیسا کہ دو سجدوں کے درمیان بیٹھا کرتے ہیں ۔ہاں اس قدر فرق ہوتا ہے کہ پہلے سجدہ کے بعد جب بیٹھتے ہیں تو دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں پر اس طور پر رکھتے ہیں کہ دونوں ہاتھ کھلے ہوتے ہیں اوردونوں کی انگلیاں قبلہ کی طرف سیدھی ہوتی ہیں ۔اور دوسری رکعت کے دونوں سجدوں کے بعد جب بیٹھتے ہیں تو اپنے بائیں ہاتھ کو تو ویسا ہی رکھتے ہیں اور دائیں ہاتھ کی تین انگلیوں کو ہتھیلی سے ملا لیتے ہیں ۔اور درمیانی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ باندھ لیتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان کی انگلی کو سیدھا رکھتے ہیں اور پھر اَلتَّحِیَّاتْ پڑھتے ہیں۔اور وہ یہ ہے
اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَ الصَّلَوَاتُ وَ الطَّیِّبَاتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
(اور یہ کہتے ہوئے اس انگلی کو اٹھا کر اشارہ کرتے ہیں اور پھر ویسی ہی رکھ دیتے ہیں جیسی کہ پہلے رکھی ہوئی تھی)
وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہٗ
(سب تحفے اور نمازیں اور پاکیزہ اعمال اللہ ہی کے لیے ہیں۔ اے نبی تجھ پر سلام اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں ۔ہم پر اور اللہ کے صالح بندوں پر سلام ہو۔مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے اور مَیں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد علیہ الصلوٰۃ و السلام اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں )
پس اگر تین چار رکعتیں پڑھنی ہوتی ہیں تو اس کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور پھر باقی رکعتوں کو ویسا ہی پڑھتے ہیں جیسا کہ دوسری رکعت کو پڑھا تھا اور پھر ان کو ختم کر کے اخیر میں پھر اسی طریق سے یا دہنے پاؤں کو کھڑا کر کے اور بائیں پاؤں کو دہنے طرف باہر نکال کر زمین پر بیٹھ جاتے ہیں اور یہی التحیات پڑھتے ہیں ۔
نماز کا اختتام:
اور اگر دو ہی رکعت والی نماز ہوئی تو یہی آخری بیٹھنا ہوتا ہے۔اور آخری بیٹھنے میں التَّحِیَّاتْ مذکورہ کے بعد پڑھتے ہیں۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
(اے اللہ تُو اپنی بڑی رحمت نازل فرما حضرت محمد علیہ السلام پر اور ان کی آل پر جیسی کہ تُو نے رحمت نازل فرمائی ہے حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی آل پر بے شک تو صفت کیا گیا۔اور بزرگ ہے۔اے اللہ تُو برکت نازل فرما محمد علیہ السلام پر اور ان کی آل پر جیسی کہ تُو نے نازل فرمائی ہے حضرت ابراہیم ؑ اور آپ کی آل پر بے شک تُو صفت کیا گیا اور بزرگ ہے)
اس کے بعد پھر کوئی دعا مقرر نہیں بلکہ جو چاہتے ہیں وہ دعا مانگتے ہیں اور ضرور مانگتے ہیں ۔اس کے بعد دہنے طرف منہ پھیر کر کہتے ہیں اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ (تم پر اللہ کی رحمت اور سلام ہو)اور پھر بائیں طرف بھی اسی طرح منہ پھیر کر کہتے ہیں اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ…پس اَللّٰہُ اَکْبَرُ سے نماز شروع ہوتی ہے اوراَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ پر ختم ہو جاتی ہے۔یہ وہ نماز ہے جو کہ حضرت مسیح موعود ؑ اور ان کے اہل علم اور مخلص مہاجر اور رات دن ساتھ رہنے والے اصحاب پڑھتے ہیں ۔
……………………………………………………………(باقی آئندہ)
٭…٭…٭