حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پاکیزہ انداز تربیت
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی حیات طیبہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی زندگی دراصل کلمۂ طیبہ کا عکس تھی۔جہاں ایک طرف آپ یار نہاں میں نہاں تھے وہیں دوسری طرف آپ آنحضور ﷺ کے لیے بطور مرایا متقابلہ اور آپﷺ کے ظل اور بروز تھے۔یہی معاملہ آپ کے اخلاق عالیہ میں ہمیشہ منعکس رہا۔ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے تمام معاملات میں اپنی ذات سے بالا ہو کر ؎
اسلام چیز کیا ہے خدا کے لیے فنا
ترک رضائے خویش پئے مرضیٔ خدا
کی حقیقی تصویر تھے وہیں آپ کے اخلاق فاضلہ آنحضور ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی حقیقی تصویر اور عکس تھے۔
آپؑ فرماتے ہیں:
‘‘ہم بھی بعض دفعہ کسی پر ناراض ہوتے ہیں مگر ہماری ناراضگی دین کے واسطے اور اللہ کے لیے ہے جس میں نفسانی جذبات کی ملونی نہیں اور دنیوی خواہشات کا کوئی حصہ نہیں۔ ہمارا بغض اگر کسی کے ساتھ ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے واسطے ہے اور اس واسطے وہ بغض ہمارا نہیں بلکہ خود خدا تعالیٰ کا ہی ہے کیونکہ اس میں کوئی ہماری نفسانی یا دنیوی غرض نہیں۔ ہم کسی سے کچھ لینا نہیں چاہتے نہ کسی سے کوئی خواہش رکھتے ہیں’’۔
( ملفوظات جلد 5 صفحہ 171)
مزید فرماتے ہیں کہ
حدیثوں میں لکھا ہےکہ مہدی موعود خَلق اورخُلُق میں ہمرنگ آنحضرتﷺ ہو گا۔
( ایک غلطی کا ازالہ ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 213)
اسی لیے فرماتے ہیں:
من تو شدم تو من شدی
من تن شدم تو جاں شدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں
من دیگرم تو دیگری
کہ میں آپ ہو گیا ہوں اور آپ میں ہو گئے ہیں میں تن یعنی جسم بن گیا ہوں اور آپ بمرتبہ جاں ہو گئے ہیں، تا کہ کوئی بعد میں یہ نہ کہے کہ میں کوئی اَور ہوں اور آپ کوئی اَور۔
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک دیرینہ صحابی اور گھر کے فرد تھے فرماتے ہیں :‘‘میَں نے آپ کو اس وقت دیکھا جب میں دو برس کا بچہ تھا پھر آپ میری آنکھوں سے اس وقت غائب ہوئے جب میں 27 سال کا جوان تھا مگر میں خدا کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں کہ میں نے آپ سے زیادہ خلیق، آپ سے زیادہ نیک، آپ سے زیادہ بزرگ، آپ سے زیادہ اللہ اور رسول کی محبت میں غرق کوئی شخص نہیں دیکھا۔ آپ ایک نور تھے جو انسانوں کے لیے دنیا پر ظاہر ہوا اور ایک رحمت کی بارش تھے جو ایمان کی لمبی خشک سالی کے بعد اس زمین پر برسی اور اسے شاداب کر گئی۔ اگر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ بات سچی کہی تھی کہ کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْآنتو ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت اسی طرح کہہ سکتے ہیں کَانَ خُلُقُہٗ حُبَّ مُحمدٍ وَاِتِّبَاعَہ۔(سیرت المہدی جلد 1 روایت975)
آنحضورﷺ سے محبت آپ نے ہمیں کیسے سکھائی، اس کے لیے حضور علیہ السلام کے فرمائے ہوئے کلمات اور آپ کی تصانیف لطیفہ شاہد ناطق ہیں۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ
آریہ سماج لاہور نے دسمبر 1907ء میں اپنے جلسہ سالانہ کے ساتھ ایک مذہبی کانفرنس کی جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ایک مضمون بھی پڑھا گیا۔جو سرتاپا امن و آشتی تھا مگر افسوس کہ بدسگال آریہ سماجی نمائندے نے اپنی تقریر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت شوخی اور بے باکی سے گالیاں دیں۔ حضرت اقدس کو علم ہوا تو آپ نے اس مجلس میں بیٹھنے والے احمدی وفد پر انتہائی خفگی کا اظہار کیا اور فرمایا:
‘‘تمہیں اسی وقت کھڑے ہوجانا چاہیے تھا اور اس ہال سے باہر نکل آنا چاہیے تھا۔’’
حضورؑ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ‘چشمہ معرفت ’کے نام سے ایک لاجواب کتاب لکھی جس کے شروع میں بد باطن آریہ نمائندہ کے اعتراضات کا مسکت جواب لکھا۔ اور علم و معرفت کے دریا بہا دیے ۔آخر میں اپنا اصل مضمون بھی شائع کیا تاکہ موازنہ ہو سکے کہ آپؑ کے پیش فرمودہ پاک خیالات کے مقابل آریوں نےکس درجہ بے شرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ کتاب 15؍ مئی 1908ء کو شائع ہوئی۔(سوانح حضرت مسیح موعود ومہدی موعود علیہ السلام از مولانا دوست محمد صاحب شاہد صفحہ 25)
یہ تو آپ علیہ السلام کی آنحضورﷺ سے محبت تھی، اس کے بالمقابل اپنی ذات کے لیے آپ علیہ السلام کیونکر پیکر حلم ورأفت ورحمت تھے، اس بارہ میں آپ علیہ السلام کے جلیل القدر صحابی حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی فرماتے ہیں:
میں مختلف شہروں اور ناگوار نظاروں میں آپؑ کے ساتھ رہا ہوں۔ دہلی کی نا شکر گزار اور جلد باز مخلوق کے مقابل پٹیالہ، جالندھر ،کپورتھلہ ،امرتسر ،لاہور اور سیالکوٹ کے مخالفوں کی متفق اور منفرد دل آزار کوششوں کے مقابل میں آپؑ کا حیرت انگیز صبر اور حلم اور صبر ثبات دیکھا ہے۔ کبھی آپ نے خلوت میں یا جلوت میں ذکر تک نہیں کیا کہ فلاں شخص یا فلاں قوم نے ہمارے خلاف یہ ناشائستہ حرکت کی اور فلاں نے زبان سے یہ نکالا۔ میں صاف دیکھتا تھا کہ آپ ایک پہاڑ ہیں کہ ناتواں پست ہمت چوہے اس میں سرنگ کھود نہیں سکتے۔ ایک دفعہ آپ نے جالندھر کے مقام میں فرمایا: ‘‘ابتلاء کے وقت ہمیں اندیشہ اپنی جماعت کے بعض ضعیف دلوں کا ہوتا ہے۔ میرا تو یہ حال ہے کہ اگر مجھے صاف آواز آوے کہ تو مخذول ہے اور تیری کوئی مراد ہم پوری نہ کریں گے تو مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ اس عشق و محبت الٰہی اور خدمت دین میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی اس لیے کہ میں تو اسے دیکھ چکا ہوں اورپھر یہ پڑھا ھَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِیًّا (سیرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت مولانا عبد الکریم سیالکوٹی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ 55)
ایک دفعہ ایک دوست کی درشت مزاجی اور بدزبانی کا ذکر ہوا کہ وہ اپنی بیوی سے سختی سے پیش آتا ہے۔ حضرت اس بات سے بہت کشیدہ خاطر ہوئے اور فرمایا: ‘‘ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہیے’’۔
جن دنوں امرتسر میں ڈپٹی آتھم سے مباحثہ تھا ایک رات خان محمد شاہ مرحوم کے مقام پر بڑا مجمع تھا۔اطراف سے بہت سے دوست مباحثہ دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ حضرت اس دن جس کی شام کا واقعہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں معمولًا سر درد سے بیمار ہو گئے تھے۔شام کو جب زیارت کا اشتیاق رکھنے والے ہمہ تن چشم انتظار ہورہے تھے حضرت صاحب مجمع میں تشریف لائے منشی عبد الحق صاحب لاہور ی پنشنر نے کمال محبت اور رسم دوستی کی بنا پر بیماری کی تکلیف کی نسبت پوچھنا شروع کیا اور کہا آپ کا کام بہت نازک اور آپ کے سر پر بھاری فرائض کا بوجھ ہے ۔آپ کو چاہیے کہ جسم کی صحت کی رعایت کا خیال کریں اور ایک خاص مقوی غذا لازما ًآپ کے لیے ہر روز تیار ہونی چاہیے ۔حضرت نے فرمایا :‘‘ہاں بات تو درست ہے اور ہم نے کبھی کبھی کہا بھی ہے مگر عورتیں کچھ اپنے ہی دھندوں میں ایسی مصروف ہوتی ہیں کہ اَور باتوں کی چنداں پروا نہیں کرتیں’’۔ اس پر ہمارے پرانے موحد خوش اخلاق نرم طبع مولوی عبداللہ غزنوی کے مرید منشی عبد الحق صاحب فرماتے ہیں :اجی حضرت آپ ڈانٹ ڈپٹ کر نہیں کہتے اور رعب پیدا نہیں کرتے ۔میرا یہ حال ہے کہ میں کھانے کے لیے خاص اہتمام کیا کرتا ہوں اور ممکن ہے کہ میرا حکم کبھی ٹل جائے اور میرے کھانے کے اہتمام خاص میں کوئی سرموفرق آجائے ورنہ ہم دوسری طرح خبر لے لیں۔ میں ایک طرف بیٹھا تھا منشی صاحب کی اس بات پر اس وقت خوش ہوا اس لیے کہ یہ بات بظاہر میرے محبوب آقا کے حق میں تھی اور میں خود فرط محبت سے اسی سوچ بچار میں رہتا تھا کہ معمولی غذا سے زیادہ عمدہ غذا آپ کے لیے ہونی چاہیے اور ایک دماغی محنت کرنے والے انسان کے حق میں لنگر کا معمولی کھانا بدل ما یتحلل نہیں ہوسکتا۔ اسی بنا پر میں نے منشی صاحب کو اپنا بڑا مؤید پایا اور بے سوچے سمجھے(درحقیقت ان دنوں الٰہیات میں میری معرفت ہنوز بہت سا درس چاہتی تھی) بوڑھے صوفی اور عبداللہ غزنوی کی صحبت کے تربیت یافتہ تجربہ کار کی تائید میں بول اٹھا کہ ہاں حضرت منشی صاحب درست فرماتے ہیں حضور کو بھی چاہیے کہ درشتی سے یہ امر منوائیں۔ حضرت نے میری طرف دیکھا اور تبسم سے فرمایا: ‘‘ہمارے دوستوں کو تو ایسے اخلاق سے پرہیز کرنا چاہیے’’۔(سیرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت مولانا عبد الکریم سیالکوٹی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ 19،18)
حضرت مولوی صاحب سے متعلق ہی دو مزید واقعات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انداز تربیت کو پوری طرح کھول کر بیان کرتے ہیں:
ایک دفعہ کا ذکر ہے آپ کو سخت درد سر ہو رہا تھا اور میں بھی اندر آپ کے پاس بیٹھا تھا اور پاس حد سے زیادہ شور و غل برپا تھا۔ میں نے عرض کیا جناب کو اس شور سے تکلیف تو نہیں ہوتی؟ فرمایا: ہاں، اگر چپ ہوجائیں تو آرام ملتا ہے۔ میں نے عرض کیا، تو جناب کیوں حکم نہیں کرتے؟ فرمایا: آپ ان کو نرمی سے کہہ دیں، میں تو کہہ نہیں سکتا۔(سیرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت مولانا عبد الکریم سیالکوٹی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ 25)
اس کے بالمقابل دوسرا واقعہ بھی حضرت مولوی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کی زبانی سنتے ہیں:
چار برس کا عرصہ گزرتا ہے کہ آپ کے گھر کے لوگ لدھیانہ گئے ہوئے تھے۔ جون کا مہینہ تھا اور اندر مکان نیا نیا بنا تھا۔ دوپہر کے وقت وہاں چارپائی بچھی ہوئی تھی مَیں اس پر لیٹ گیا ۔حضرت ٹہل رہے تھے میں یک دفعہ جاگا تو آپ فرش پر میری چارپائی کے نیچے لیٹے ہوئے تھے۔ میں ادب سے گھبرا کر اٹھ بیٹھا ۔آپ نے بڑی محبت سے پوچھا آپ کیوں اٹھے ہیں ؟میں نے عرض کیا آپ نیچے لیٹے ہوئے ہیں میں اوپر کیسے سوئے ر ہوں؟ مسکرا کر فرمایا میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا۔ لڑکے شور کرتے تھے انہیں روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آوے۔(سیرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت مولانا عبد الکریم سیالکوٹی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ 41)
تو گویا کسی دوسرے کے آرام کو مدنظر رکھنا بھی آداب میں شامل ہے جو ان دونوں واقعات سے ظاہر ہے۔آپ کے صحابہ نے اس بات کو کیسے سمجھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر کیسے عمل کر کے دکھایا اس کے لیے ایک اور ایمان افروز واقعہ عرض ہے۔ حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ فرماتےہیں :
’’ ابتدائی زمانہ کا واقعہ ہے اور ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اس عاجز نے حضور مرحوم و مغفور کی خدمت میں قادیان میں کچھ عرصہ قیام کے بعد رخصت حاصل کرنے کے واسطے عرض کیا ..
…..حضور نے فرمایا کہ چلو آ پ کو چھوڑ آئیں۔ میں نے عرض کیا کہ حضور اب میں سوار ہو جاتاہوں اور چلا جاؤں گا حضور تکلیف نہ فرمائیں مگر اللہ رے کرم و رحم کہ حضور مجھ کو ساتھ لے کر روانہ ہو پڑے۔
باقی احباب جو موجود تھے ساتھ ہو لیے اور یہ پاک مجمع اسی طرح اپنے آقا مسیح موعود کی محبت میں اس عاجز کے ہمراہ روانہ ہوا۔ حضور حسب عادت مختلف تقاریر فرماتے ہوئے آگے آگے چلتے رہے یہاں تک کہ بہت دور نکل گئے ۔ تقریر فرماتے تھے اور آگے بڑھتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت سیدناو مولانا مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ نے قریب آ کر مجھے کان میں فرمایا کہ آگے ہو کر عرض کرو اور رخصت لو جب تک تم اجازت نہ مانگو گے حضور آگے بڑھتے چلے جائیں گے۔ میں حسب ارشاد والا آگے بڑھا اور عرض کیا کہ حضور اب سوار ہوتاہوں حضور تشریف لے جائیں۔ اللہ اللہ ! کس لطف سے اور مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ‘‘اچھا ہمارے سامنے سوار ہو جاؤ’’۔ میں یکہ میں بیٹھ گیااور سلام عرض کیا تو پھر حضور واپس ہوئے۔(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از قلم حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ 130)
ایک مُزکِّی اپنے پیرو کاروں کا تزکیہ صرف اسی صورت میں کر سکتا ہے جب وہ ان کی فطرت اور طبع سے پوری طرح آگاہ ہو۔ اس ضمن میں ایک نہایت ہی ایمان افروز واقعہ حضرت شہزادہ عبد اللطیف شہید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق ہے۔
’’ایک دفعہ ایک ہندوستانی مولوی قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس حاضر ہو کر کہنے لگا کہ میں ایک جماعت کی طرف سے نمائندہ ہو کر آپ کے دعویٰ کی تحقیق کے لیے آیا ہوں اور پھر اس نے اختلافی مسائل کے متعلق گفتگو شروع کر دی اور بڑے تکلف سے خوب بنا بناکر موٹے موٹے الفاظ استعمال کرتاتھا۔ اس کے جواب میں حضرت صاحب نے کچھ تقریر فرمائی تو وہ آپ کی بات کاٹ کرکہنے لگا کہ آپ کومسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ ہے مگر آپ الفاظ کا تلفظ بھی اچھی طرح نہیں ادا کر سکتے۔ اس وقت مولوی عبداللطیف صاحب شہید بھی مجلس میں حضرت صاحب کے پاس بیٹھے تھے ان کو بہت غصہ آگیا اور انہوں نے اسی جوش میں اس مولوی کے ساتھ فارسی میں گفتگو شروع کر دی ۔ حضرت اقدس نے مولوی عبداللطیف صاحب کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا اور پھر کسی دوسرے وقت جبکہ مولوی عبداللطیف صاحب مجلس میں موجود نہ تھے فرمانے لگے کہ اس وقت مولوی صاحب کوبہت غصہ آ گیا تھا۔ چنانچہ میں نے اس ڈر سے کہ کہیں وہ ا س غصہ میں اس مولوی کو کچھ مار ہی نہ بیٹھیں مولوی صاحب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دبائے رکھا تھا’’۔ (سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ 52)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے خدا کے ساتھ کیساپیار کا تعلق تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سے کس طرح آشنا تھے کہ آپؑ کے دشمنوں کی دشمنی آپؑ کے حق میں ایک مہمیز کا کام کر رہی ہے اور اس سے آپؑ کے مقاصد عالیہ حاصل ہونے میں خداتعالیٰ کے فضل سے مدد مل رہی ہے۔ چنانچہ جب کسی نے آپ علیہ السلام سے مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب کے تنگ کرنے کی شکایت کر کے ان کے لیے بد دعا کرنے کی بات کی تو فرمایا :
نہیں، وہ ہماری بہت خدمت کرتے ہیں۔ ان کے ذریعہ سے ہمارے دعویٰ کا ذکر ان لوگوں میں بھی ہو جاتا ہے جو نہ ہماری بات سننے کو تیار ہیں اور نہ ہماری کتابیں پڑھتے ہیں۔ وہ تو ہمارے کھیت کے لیے کھاد کا کام دے رہے ہیں۔ بد بو سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ (ماخوذ از سیرۃ المہدی حصہ چہارم صفحہ 140)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک تربیت کیا ہے اور کیسے کی جا سکتی ہے حضور علیہ السلام اس کے بارہ میں کیا ہی دلنشین اپنا اسوہ بنفس نفیس ہمارے سامنے رکھتے ہیں، فرماتے ہیں:
میں التزامًا چند دعائیں ہر روز مانگا کرتا ہوں۔ اول اپنے نفس کے لیے دعا مانگتا ہوں کہ خدا مجھ سے وہ کام لے جس سے اس کی عزت و جلال ظاہر ہو اور اپنی رضا کی پوری توفیق عطا کرے۔ پھر اپنے گھر کے لوگوں کے لیے مانگتا ہوں کہ ان سے قرۃعین عطا ہو اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات کی راہ پر چلیں پھر اپنے بچوں کے لیے دعا مانگتا ہوں کہ یہ سب دین کے خدام بنیں۔ پھر اپنے مخلص دوستوں کے لیے نام بنام اور پھر ان سب کے لیے جو اس سلسلے سے وابستہ ہیں خواہ ہم انہیں جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔ اور اسی ضمن میں فرمایا حرام ہے مشیخی کی گدی پر بیٹھنا اور پیر بننا اس شخص کو جو ایک منٹ بھی اپنے متوسلین سے غافل رہے، ہاں، پھر فرمایا ہدایت اور تربیت حقیقی خدا کافعل ہے۔ سخت پیچھا کرنا اور ایک امر پراصرار کو حد سے گزار دینا یعنی بات بات پر بچوں کو روکنا اور ٹوکنا یہ ظاہر کرنا ہے کہ گویا ہم ہی ہدایت کے مالک ہیں ہم اس کو اپنی مرضی کے مطابق ایک راہ پر لے آئیں گے یہ ایک قسم کا شرک خفی ہے اس سے ہماری جماعت کو پرہیز کرنا چاہیے۔ آپ نے قطعی طور پر فرمایا اور لکھ کر بھی ارشاد کیا کہ ہمارے مدرسے میں جو استاد مارنے کی عادت رکھتا اور اپنے اس ناروا فعل سے باز نہ آتا ہو اسے یکلخت موقوف کر دو۔ فرمایا ہم تو اپنے بچوں کے لیے دعا کرتے ہیں اور سرسری طور پر قواعد اور آداب تعلیم کی پابندی کراتے ہیں۔ بس اس سے زیادہ نہیں اور پھر اپنا پورا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھتے ہیں جیسا کسی میں سعادت کا تخم ہو گا وقت پر سرسبز ہو جائے گا۔(سیرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت مولانا عبد الکریم سیالکوٹی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ 38)
بچوں کی تربیت کا ایک اچھوتا واقعہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ یوں بیان کرتے ہیں:
’’جب حضرت مسیح موعودؑ نے لدھیانہ میں دعویٰ مسیحیت شائع کیا تو ان دنوں میں چھوٹا بچہ تھا اور شاید تیسری جماعت میں پڑھتا تھا مجھے اس دعویٰ سے کچھ اطلاع نہ تھی ۔ ایک دن میں مدرسہ گیا تو بعض لڑکوں نے مجھے کہا کہ وہ جو قادیان کے مرزا صاحب تمہارے گھر میں ہیں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ فوت ہو گئے ہیں اور یہ کہ آنے والے مسیح وہ خود ہیں ۔ میں نے ان کی تردید کی کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے ۔ حضرت عیسیٰ تو زندہ ہیں اورآسمان سے نازل ہوں گے۔ خیر جب میں گھر آیا تو حضرت صاحب بیٹھے ہوئے تھے ۔میں نے آپ سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں نے سنا ہے آپ کہتے ہیں کہ آپ مسیح ہیں؟ میرا یہ سوال سن کر حضرت صاحب خاموشی سے اٹھے اورکمرے کے اندر الماری سے ایک نسخہ ‘فتح اسلام ’ کا لاکر مجھے دے دیا اور فرمایا اسے پڑھو۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی صداقت کی دلیل ہے کہ آپ نے ایک چھوٹے بچہ کے معمولی سوال پر اس قدر سنجیدگی سے توجہ فرمائی ورنہ یونہی کوئی بات کہہ کر ٹال دیتے’’۔(سیرت مسیح موعود ؑ از یعقوب علی عرفانی صاحب)
قرآن کریم کی تعلیم کی روح کو سمجھتے ہوئے اس پر عمل کر کے ان دشمنوں کے بالمقابل بھی جنہوں نے آپ کو تنگ کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا تھا آپ نے قرآنی اخلاق کو حقیقت میں پھر سے زندہ فرمایا۔ حضرت مولوی شیر علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ
’’ مارٹن کلارک کے مقدمہ میں ایک شخص مولوی فضل دین لاہوری حضور کی طرف سے وکیل تھا ۔ یہ شخص غیر احمدی تھا اور شاید اب تک زندہ ہے اور غیر احمدی ہے۔ جب مولوی محمد حسین بٹالوی حضرت صاحب کے خلاف شہادت میں پیش ہوا تو مولوی فضل دین وکیل نے حضرت صاحب سے پوچھا کہ اگر اجازت ہو تو میں مولوی محمد حسین صاحب کے حسب نسب کے متعلق کوئی سوال کروں۔ حضرت صاحب نے سختی سے منع فرمایا کہ میں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اور فرمایا لَایُحِبُّ اللّٰہُ الْجَھْرَ بِالسُّوْٓءِ۔ مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ یہ واقعہ خود مولوی فضل دین نے باہر آ کر ہم سے بیان کیا تھا اور اس پر اس بات کا بڑا اثر ہوا تھا۔ چنانچہ وہ کہتا تھا کہ مرزا صاحب نہایت عجیب اخلاق کے آدمی ہیں ایک پرلے درجے کا دشمن ہے اور وہ اقدام قتل کے مقدمہ میں آپ کے خلاف شہادت میں پیش ہوتا ہے اورمیں اس کا حسب نسب پوچھ کر اس کی حیثیت کو چھوٹا کر کے اس کی شہادت کو کمزور کرنا چاہتا ہوں اور اس سوال کی ذمہ داری بھی مرزا صاحب پر نہیں تھی بلکہ مجھ پر تھی مگر میں نے جب پوچھا تو آپ نے بڑی سختی سے روک دیا کہ ایسے سوال کی میں ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ (سیرۃ المہدی حصہ اول)
ہمدردئ خلق اور ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیےتربیت کا عملی اظہار، حضور علیہ السلام خود فرماتے ہیں:
میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوتا ہے اور میں نماز میں مصروف ہوں میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جاوے تو میں تو یہ چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو فائدہ پہنچاؤں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں۔ یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جاوے اگر تم کچھ بھی اس کے لیے نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا ہی کرو۔
اپنے تو درکنار، میں تو یہ کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھاؤ، اور ان سے ہمدردی کرو، لاابالی مزاج ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
ایک مرتبہ میں باہر سیر کو جا رہا تھا۔ ایک پٹواری عبدالکریم میرے ساتھ تھا۔ وہ ذرا آگے تھا اور میں پیچھے۔ راستے میں ایک بڑھیا کوئی 70 یا 75برس کی ضعیفہ ملی۔ اس نے ایک خط اسے پڑھنے کو کہا مگر اس نے اس کو جھڑکیاں دے کر ہٹا دیا۔ میرے دل پر چوٹ سی لگی۔ اس نے وہ خط مجھے دیا۔ میں اس کو لے کر ٹھہر گیا ۔اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا۔ اس پر اسے سخت شرمندہ ہونا پڑا کیونکہ ٹھہرنا تو پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا۔(ملفوظات جلد 4 صفحہ83,82)
حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقرب صحابہ اور صادقین میں سے تھے ۔ حضور علیہ السلام سے والہانہ عشق کا تعلق تھا اور حضورعلیہ السلام بھی حضرت مولوی صاحب سے بہت محبت رکھتے تھے ایک ظاہربین خادم و مخدوم اور محب و محبوب میں فرق نہیں کر سکتا تھا۔ حضرت مولوی صاحب 1905ء میں زیادہ بیمار ہو گئے اور دو ماہ بیمار رہ کر وفات پائی۔ آپ کی بیماری بڑی تکلیف دہ تھی۔ بعض دفعہ شدت تکلیف میں نیم غشی کی سی حالت میں وہ کہا کرتے تھے کہ سواری کا انتظام کرو میں حضرت صاحب سے ملنے کے لیے جاؤں گا ۔ بعض اوقات فرماتے اور ساتھ زار زار رو پڑتے تھے کہ دیکھو میں نے اتنے عرصہ سے حضرت صاحب کا چہرہ نہیں دیکھا ۔ ایک دن اپنی اہلیہ محترمہ سے فرمایا کہ جاکر حضرت صاحب سے کہو کہ میں مر چلا ہوں مجھے صرف دور سے کھڑے ہو کر اپنی زیارت کرا جائیں ۔ انہوں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی۔ حضرت صاحب نے جواباً فرمایا کہ کیا کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ میرا دل مولوی صاحب کو ملنے کو نہیں چاہتا؟ اصل بات یہ ہے کہ میں ان کی تکلیف کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ حضرت امّ المومنینؓ اس وقت پاس ہی تشریف رکھتی تھیں انہوں نے کہا کہ جب وہ اتنی خواہش رکھتے ہیں تو آپ کھڑے کھڑے ہو آئیں ۔ حضور ؑ نے فرمایا اچھا میں جاتا ہوں لیکن ان کی تکلیف دیکھنے سے میں بیمار پڑ جاؤں گا۔ یہ کہہ کر حضور اس طرف روانہ ہوئے تو مولوی صاحب کی اہلیہ نے آگے جا کر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کو اطلاع دی کہ حضور تشریف لا رہے ہیں۔ اس پر حضرت مولوی صاحب نے اپنی اہلیہ کو ملامت کی کہ کیوں حضرت صاحب کو تم نے تکلیف دی ۔ کیا میں نہیں جانتا کہ وہ کیوں تشریف نہیں لا تے۔ میں نے تو اپنے دل کا دُکھڑا رویا تھا تم فورًا جا کر عرض کرو کہ حضور تکلیف نہ فرمائیں۔ بسااوقات مسجد میں حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب کی ملاقات کو بہت دل چاہتا ہے مگر میں ان کی تکلیف نہیں دیکھ سکتا ۔ (سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 272,271)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوحضرت مولوی صاحب کی وفات کاایسا صدمہ ہوا جیسے ایک محبت کرنے والے باپ کوایک لائق بیٹے کی وفات کا ہواکرتا ہے مگر آپ کی محبت کا اصل مرکزی نقطہ خدا کا وجود تھا اس لیے آپ نے کامل صبر کا نمونہ دکھایا۔ اورجب بعض لوگوں نے زیادہ صدمہ کا اظہارکیا اوراس بات کے متعلق فکرظاہرکیا کہ مولوی عبدالکریم صاحب کی ذات کے ساتھ بہت کام وابستہ تھے اب ان کے متعلق کیا ہوگا تو آ پ نے ایسے خیالات پر توبیخ فرمائی اورفرمایا کہ
’’مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات پر حد سے زیادہ افسوس کرنا اور اس کی نسبت یہ خیال کر لینا کہ اس کے بغیر اب فلاں حرج ہوگا ایک قسم کی مخلوق کی عبادت ہے ۔ کیونکہ جس سے حد سے زیادہ محبت کی جاتی ہے یاحد سے زیادہ اس کی جدائی کا غم کیاجاتا ہے و ہ معبود کے حکم میں ہو جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ اگرایک کو بلا لیتاہے تو دوسرااس کے قائم مقام کردیتاہے۔ وہ قادر اوربے نیاز ہے’’۔(سلسلہ احمدیہ جلد اول صفحہ 145)
شرک کی باریک سے باریک راہوں سے بھی اجتناب کا حکم مسلمانوں کو دیا گیا ہے جیسے بت پرستی شرک ہے اسی طرح انسان پرستی بھی شرک میں داخل ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اس ارشاد میں جماعت کو اس طرف توجہ دلائی ہے ۔ یہ سبق بھلانے والانہیں۔
ایک مأمور من اللہ کے علاوہ کون ہے جو یہ انداز تربیت رکھتا ہو جو اگلے واقعہ سے ظاہر ہو رہا ہے۔مکرم ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کی ایک روایت ہے کہ میں ڈاکٹری کے امتحان میں کامیاب ہو کر قادیان گیا، چنانچہ مجھے ملازمت کا حکم بھی وہیں پہنچا۔ حکم لیتے ہی فورا ًحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے مجھے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
تمہارا تعلق لوگوں کے جسموں کے ساتھ ہو گا نہ کہ روحوں کے ساتھ۔ اس لیے تمہاری نظر میں جو شخص تمام رات خداتعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اور جو دن رات خدا کو گالیاں دیتا ہے ایک ہونے چاہئیں۔ (بحوالہ روزنامہ الفضل 6 مئی 2000ء)
اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود اتباع سنت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دے کر بھی عملی نصیحت فرماتے۔
سیرت المہدی میں بروایت مولوی عبداللہ صاحب سنوری لکھا ہے کہ
’’حضرت مسیح موعود بیت الفکر میں (مسجد مبارک کے ساتھ والا حجرہ جو حضرت صاحب کے مکان کا حصہ ہے) لیٹے ہوئے تھے اور میں پاؤں دبا رہا تھا کہ حجرہ کی کھڑکی پر لالہ شرمپت یا شاید لالہ ملاوا مل نے دستک دی ۔ میں اٹھ کر کھڑکی کھولنے لگامگر حضرت صاحب نے بڑی جلد ی اٹھ کر تیزی سے جا کر مجھ سے پہلے زنجیر کھول دی اور پھراپنی جگہ بیٹھ گئے اور فرمایا آپ ہمارے مہمان ہیں اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہیے۔ (جلد اول صفحہ72)
اکرامِ ضیف
حضرت منشی ظفراحمد صاحبؓ کپورتھلوی روایت کرتے ہیں :
ایک دفعہ منی پور آسام کے دور دراز علاقہ سے دو (غیر احمدی)مہمان حضرت مسیح موعوؑد کانام سن کر آپ سے ملنے کے لیے قادیان آئے اور مہمان خانہ کے پاس پہنچ کر لنگر خانہ کے خادموں کو اپنا سامان اتارنے اورچارپائی بچھانے کوکہا۔ لیکن ان خدام کو اس طرف فوری توجہ نہ ہوئی اور وہ ان مہمانوں کو یہ کہہ کر دوسری طرف چلے گئے کہ آپ یکہ سے سامان اتاریں چارپائی بھی آ جائے گی۔ اُن تھکے ماندے مہمانوں کو یہ جواب ناگوار گزرا اور وہ رنجیدہ ہو کر اسی وقت بٹالہ کی طرف واپس روانہ ہوگئے ۔ مگرجب حضرت صاحب کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی آپ نہایت جلدی ایسی حالت میں کہ جوتا پہننا بھی مشکل ہو گیا ان کے پیچھے بٹالہ کے رستہ پرتیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے چل پڑے۔چند خدام بھی ساتھ ہو لیے ۔حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ میں بھی ساتھ ہو لیا۔ حضرت صاحب اس وقت اتنی تیزی کے ساتھ ان کے پیچھے گئے کہ قادیان سے اڑھائی میل پرنہر کے پل کے پاس انہیں جا لیا اور بڑی محبت اور معذرت کے ساتھ اصرار کیا کہ واپس چلیں اور فرمایا آپ کے واپس چلے جانے سے مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے۔ آپ یکہ پر سوارہو جائیں میں آپ کے ساتھ پیدل چلوں گا۔ مگر وہ احترام اور شرمندگی کی وجہ سے سوارنہ ہوئے اور آپ انہیں اپنے ساتھ لے کر قادیان واپس آگئے اور مہمان خانہ میں پہنچ کران کا سامان اتارنے کے لیے آپ نے اپنا ہاتھ یکہ کی طرف بڑھایا مگرخدا م نے آگے بڑھ کر سامان اتار لیا۔ اس کے بعد حضرت صاحب ان کے پاس بیٹھ کر محبت اور دلداری کی گفتگو فرماتے رہے اورکھاناوغیرہ کے متعلق بھی پوچھا کہ آپ کیا کھاناپسندکرتے ہیں اور کسی خاص کھانے کی عادت تو نہیں؟ اور بڑی شفقت کے ساتھ باتیں کرتے رہے ۔
دوسرے دن جب یہ مہمان واپس روانہ ہونے لگے تو حضرت صاحب نے دودھ کے دوگلاس منگوا کر ان کے سامنے بڑی محبت سے پیش کیے اورپھر دو اڑھائی میل پیدل چل کر بٹالہ کے رستے والی نہر تک چھوڑنے کے لیے ان کے ساتھ گئے اوراپنے سامنے یکہ پرسوارکراکے واپس تشریف لائے۔
ایک مرتبہ ایک مہمان نے آ کر کہا کہ میرے پاس بسترا نہیں ہے ۔حضرت صاحب نے حافظ حامد علی صاحب کو کہا کہ اس کو لحاف دے دو۔ حافظ حامد علی صاحب نے عرض کیا کہ یہ شخص لحاف لے جائے گا وغیرہ وغیرہ ۔ اس پر حضرت نے فرمایا:
’’اگر لحاف لے جائے گا تو اس کا گناہ ہوگا اور اگر بغیر لحاف کے مر گیا تو ہمارا گناہ ہوگا’’۔
اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ وہ مہمان بظاہر کوئی ایساآدمی نہ معلوم ہوتاتھا جو کسی دینی غرض کے لیے آیاہو بلکہ شکل و صورت سے مشتبہ پایا جاتا تھا مگر آپ نے اس کی مہمان نوازی میں کوئی فرق نہیں کیا ۔ اور اس کی آسائش و آرام کو اپنے آرام پر مقدم کیا۔
ایک اور موقعہ پر فرمایا: ’’دیکھو یہ ہمارے مہمان ہیں اور تم میں سے ہر ایک کو مناسب ہے کہ ان سے پورے اخلاق سے پیش آوے اور کوشش کرتا رہے کہ ا ن کوکسی قسم کی تکلیف نہ ہو ‘‘۔(اخبار الحکم ،31؍جنوری 1902ء صفحہ4,3)
اکتوبر 1902ء میں ایک ہندوسادھو کوٹ کپورہ سے آیا اور حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ مسلمانوں کے لیے تو خاص تردد اور تکلیف نہیں ہو سکتی کیونکہ لنگر جاری تھا اور جاری ہے وہاں انتظام ہر وقت رہتاہے لیکن ایک ہندو مہمان کے لیے خصوصیت سے انتظام کرنا پڑتا ہے اور چونکہ وہ انتظام دوسروں کے ہاں کرانا ہوتا ہے اس لیے مشکلات ظاہر ہیں تاہم حضرت اقدس ہمیشہ ایسے موقعہ پر بھی پورا التزام مہمان نوازی کا فرماتے تھے ۔6؍اکتوبرکی شام کو اس نے حضرت اقدس سے ملاقات کی۔ آپ ؑ نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ :
یہ ہمارا مہمان ہے اس کے کھانے کا انتظام بہت جلد کر دینا چاہیے۔ ایک شخص کو خاص طورپر حکم دیا کہ ایک ہندو کے گھر اس کے لیے بندوبست کیا جاوے۔(ماخوذ ازملفوظات جلد2 صفحہ 315)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ اقتباس جس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقرب بننے کا نسخہ بتایا ہے کیا ہی پیارا ہے، فرماتے ہیں:
‘‘اگر کوئی تائید دین کے لیے ایک لفظ نکال کر ہمیں دے تو ہمیں موتیوں اور اشرفیوں کی جھولی سے بھی زیادہ بیش قیمت معلوم ہوتا ہے ۔جو شخص چاہے کہ ہم اس سے پیار کریں اور ہماری دعائیں نیازمندی اور سوز سے اس کے حق میں آسمان پر جائیں وہ ہمیں اس بات کا یقین دلاوے کہ وہ خادم دین ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے بارہا قسم کھا کر فرمایا کہ ہم ہر ایک شے سے محض خدا تعالیٰ کے لیے پیار کرتے ہیں بیوی ہو بچے ہوں دوست ہوں سب سے ہمارا تعلق اللہ تعالی کے لیے ہے’’۔(سیرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت مولانا عبد الکریم سیالکوٹی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ 46)
اس عاجزانہ تحریر کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عظیم نصیحت پر ختم کرتا ہوں۔ فرماتے ہیں:
‘‘آخر کار میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم دشمن کے مقابلے پر صبر اختیار کرو ۔تم گالیاں سن کر چپ رہو۔ گالی سے کیا نقصان ہوتا ہے؟! گالی دینے والے کے اخلاق کا پتہ لگتا ہے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر تم کو کوئی زدوکوب بھی کرے تب بھی صبر سے کام لو ۔یہ یاد رکھو کہ اگر خدا تعالی کی طرف سے ان لوگوں کے دل سخت نہ ہوتے تو وہ کیوں ایسا کرتے۔ یہ خدا کا فضل ہے کہ ہماری جماعت امن جو ہے۔ اگر وہ ہنگامہ پرداز ہوتی تو بات بات پر لڑائی ہوتی اور پھر اگر ایسے لڑنے والے ہوتے اور ان میں صبر و برداشت نہ ہوتی تو پھر ان میں اور ان کے غیروں میں کیا امتیاز ہوتا ؟
ہمارا مذہب یہی ہے کہ ہم بدی کرنے والے سے نیکی کرتے ہیں۔’’(ملفوظات جلد 5صفحہ 130)
آج بھی یہ تمام برکات خلافت کی صورت میں ہمارے درمیان زندہ موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مسیح الزّماں کے وجود سے وابستہ برکات سے حصہ پانے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔آمین
٭…٭…٭