’’خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے‘‘
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 03؍جنوری2020ء بمطابق 03؍صلح 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن، (سرے)لندن
تحریکِ وقفِ جدید کے باسٹھ ویں سال کے دوران کُل جماعتہائے احمدیہ کی طرف سے چھیانوے لاکھ تینتالیس ہزار پاؤنڈز کی بے مثال قربانی
دنیا کی بگڑتی صورت حال کے پیشِ نظر دعاؤں کی تلقین
نئے سال کی حقیقی مبارک باد اور ایک احمدی کی ذمہ داریوں کا بیان
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ٪﴿۷﴾
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی معرکة الآراء تصنیف ‘اسلامی اصول کی فلاسفی’ میں خدا تعالیٰ کو پانے، اُسے پہچاننے، اُس پر ایمان مضبوط کرنے کے جو وسائل خدا تعالیٰ نے رکھے ہیں ان کا ذکر کرتے ہوئے آٹھ وسائل بیان فرمائے ہیں جو انسان کے مقصدِ پیدائش کو پورا کرنے والے بھی ہیں۔ اس وقت میں اپنے مضمون کے حوالے سے ایک وسیلے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس پیش کروں گا جو پانچویں وسیلے کے طور پر آپؑ نے بیان فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ
‘‘پانچواں وسیلہ اصل مقصود کے پانے کے لیے خدا تعالی نے مجاہدہ ٹھہرایا ہے۔ یعنی اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی طاقتوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی عقل کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اس کو ڈھونڈا جائے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔
جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ (التوبہ:41) وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ (البقرہ۔ 4) وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70)
یعنی اپنے مالوں اور اپنی جانوں اور اپنے نفسوں کو مع ان کی تمام طاقتوں کے خدا کی راہ میں خرچ کرو۔ اور جو کچھ ہم نے عقل اور علم اور فہم اور ہنر وغیرہ تم کو دیا ہے ۔ وہ سب کچھ خدا کی راہ میں لگاؤ۔ جو لوگ ہماری راہ میں ہر ایک طور سے کوشش بجا لاتے ہیں ہم ان کو اپنی راہیں دکھا دیا کرتے ہیں۔’’
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 418-419)
پھر خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا طریق بتاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک موقعے پر فرمایا کہ
‘‘تمہارے لیے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خدا سے بھی۔ صرف ایک سے محبت کر سکتے ہو۔ پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے ۔اور اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کر کے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی۔ کیونکہ مال خود بخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے۔ پس جو شخص خدا کے لیے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گا لیکن جو شخص مال سے محبت کر کے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں لاتا جو بجا لانی چاہیے تو وہ ضرور اس مال کو کھوئے گا۔’’
(مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 497)
پھر آپؑ نے فرمایا کہ چاہیے کہ ہماری جماعت کا ہر ایک متنفس، ہر شخص یہ عہد کرے کہ میں اتنا چندہ دیا کروں گا۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے عہد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں برکت دیتا ہے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 6 صفحہ 41)
آپؑ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جن کو علم نہیں، جو نئے آنے والے ہیں، جو لاپروائی کرتے ہیں یا لاپروائی نہیں بھی کرتے توبعض دفعہ مالی قربانی کرنے کااحساس نہیں ہوتا ۔ ایسے لوگوں کو سمجھانا چاہیے کہ اگر تم سچا تعلق رکھتے ہو تو خدا تعالیٰ سے پکا عہد کر لو کہ اس قدر چندہ ضرور دیا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں مخلصین ہیں جن کو جب چندے کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی جائے تو اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے کے لیے مالی قربانی میں بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مَیں گذشتہ کئی سال سے جماعتی نظام کو اس طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ نئے آنے والوں کو مالی نظام یا مالی قربانی کے نظام میں ضرور شامل کرنا چاہیے۔ کوئی چاہے ایک پینس (pence)دینے کی ہی استطاعت رکھتا ہو تو وہ اپنی استطاعت کے مطابق ایک پینس دے۔ بعض جگہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض دفعہ مالی کشائش کے لوگ یہ کہہ دیتے ہیں یا جماعتی نظام افریقہ میں یا غریب ملکوں میں بعض جگہوں پہ بعض لوگوں کو بعض دفعہ یہ کہہ دیتا ہے یہاں بعض لوگ اپنے غریب رشتہ داروں کی طرف سے چندے کی ادائیگی کر دیتے ہیں یا غریبوں کی طرف سے رقم دے دیتے ہیں کہ اچھا یہ ہماری طرف سے چندہ ہے۔ ٹھیک ہے یہ بھی ایک نیکی ہے لیکن ان لوگوں کو، چاہے وہ غریب ہیں خود حصہ لینا چاہیے جتنی بھی اس کی استطاعت ہو۔ صرف مال جمع کرنا مقصد نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی محبت کی خاطر اس کے دین کے لیے قربانی کرنا مقصد ہے۔ پس جہاں جماعتی نظام اس طرح چندہ وصول کرتا ہے اور بعض دفعہ ایسی باتیں میرے علم میں آ جاتی ہیں کہ لوگوں سے کہہ دیا اور کسی کے نام پہ ڈال دیا وہ غلط کرتا ہے۔
بہرحال عمومی طور پر مَیں نے دیکھا ہے بلکہ مالی قربانیوں کی جو رپورٹس آتی ہیں ان میں خاص طور پر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ غریب لوگوں کی مالی قربانیوں کا ذکر زیادہ ہوتا ہے۔ انہیں زیادہ احساس ہوتا ہے کہ ہم نے مالی قربانی کرنی ہے اور میں اکثر اپنے خطبات میں ان کا ذکر بھی کر دیتا ہوں، بیان بھی کر دیتا ہوں۔ بعض کی قربانیاں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اگر کسی کے پاس مال کی فراوانی ہو، بے شمار مال ہو، دولت ہو اور اس میں سے کچھ دے دیا جائے تو یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے لیکن تنگی کے حالات ہوں، غربت کی حالت ہو اور پھر خدا تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے کے لیے خدا تعالیٰ کے دین کے لیے مالی قربانی کی جائے تو یہ اصل قربانی ہے جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایسی مثالیں دیکھنے میں آتی تھیں۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کچھ کتب کی اشاعت کے لیےکچھ رقم کی ضرورت پڑی اور جب کسی دوست کو کہا گیا کہ یہ ضرورت ہے، اپنی جماعت میں تحریک کریں تا کہ اتنا چندہ وہ جماعت ادا کردے تو بجائے جماعت میں تحریک کرنے کے اپنی طرف سے انہوں نے اپنے جو تنگ حالات تھے، اتنی کوئی کشائش بھی نہیں تھی یا کہنا چاہیے کہ تنگ حالات ہی تھے لیکن اس کے باوجود وہ رقم مہیا کر دی اور تاثر یہ دیا کہ جس طرح اس شہر کی جماعت نے یہ رقم دی ہو اور پتا بھی نہیں لگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم میں بھی نہیں آیا اور یہ ذاتی قربانی پھر اس وقت ظاہر ہوتی ہے، اس وقت اس کا پتا چلتا ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی جماعت کے ایک دوسرے شخص کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کی جماعت نے عین ضرورت کے وقت بڑی مدد کی ہے۔ اور جب ان کو پتا چلا کہ وہ قربانی تو ایک شخص نے ہی کی تھی تو باقی جماعت کے لوگ اس پہ ناراض ہوئے کہ ہمیں اس خدمت کا موقع کیوں نہیں دیا گیا۔یہ ادائیگی کرنے والے منشی ظفر احمد صاحبؓ تھے جنہوں نے اس وقت اپنی بیوی کا زیور فروخت کر کے یہ رقم مہیا کی تھی۔ یقینا ًان کی بیوی بھی اس قربانی میں شامل تھی۔ منشی اروڑا صاحبؓ منشی ظفر صاحبؓ کے دوست تھے اور اسی جماعت کے تھے انہیں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پوچھا جب آپؑ کے ذریعہ اس قربانی کا پتا چلا تو وہ کئی مہینے تک منشی ظفر احمد صاحبؓ سے ناراض رہے کہ کیوں ہمیں نہیں بتایا اور کیوں خود ہی یہ رقم مہیا کی۔
(ماخوذ از اصحاب احمد جلد 4 صفحہ 97-98)
تو ایسے ایسے لوگ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عطا فرمائے جو خدا کی محبت کے حصول کے لیے ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہتے تھے۔ یہ وہ نمونہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے قائم فرمایا اور جس پر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں نے عمل کیا۔ اور یہ اس وقت کی بات نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ کس طرح مختلف تحریکات میں مالی قربانیاں دیتے ہیں اور اپنے پر تنگیاں وارد کر کے مالی قربانیاں کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ بھی جو کسی کا ادھار نہیں رکھتا ان کو کس طرح لوٹا بھی دیتا ہے۔ چند واقعات اور چند مثالیں اس وقت مَیں آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ آج کیونکہ وقفِ جدید کے نئے سال کا اعلان بھی ہونا ہے اس لیے عموماً یہ واقعات وقفِ جدید کے حوالے سے ہیں۔
گیمبیا کے ایک لوکل مشنری کیباجالو (Kebba Jallow) صاحب ہیں۔ وہ واقعہ بیان کرتے ہیں اور اس واقعہ میں پتا لگتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے، قربانی کرنے والوں سے سلوک ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک نومبائع احمدی دوست عبداللہ ای جاوو (Abdullie Jawo) صاحب جن کا تعلق ایک گاؤں سے ہے وہ مکئی اور گراؤنڈ نَٹ کی فصل بوتے تھے لیکن گذشتہ چند سالوں سے کوئی خاص فصل نہیں اُگ رہی تھی۔ اس سال انہوں نے گراؤنڈ نَٹ کے بیج فروخت کر کے اپنا وقفِ جدید کا چندہ ادا کر دیا جو تقریباً سات سو ڈلاسی تھا تا کہ اللہ تعالیٰ ان کے کھیتی کے کام میں، زمیندارے میںبرکت ڈالے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اس مالی قربانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی فصل میں اتنی برکت ڈالی کہ گذشتہ سال کی نسبت انہیں تین گنا منافع ہوا۔ چنانچہ فصل کاشت کرنے کے بعد انہوں نے مزید ایک ہزار ڈلاسی وقف جدید میں ادا کیا۔
پھر گیمبیا کے شمال میں واقع ایک گاؤں ہے وہاں کے ایک دوست عثمان صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ گذشتہ سال انہوں نے وقف جدید کے لیے ایک بالٹی مکئی دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اب امیر آدمی کے پاس کشائش ہے اگر کوئی لاکھوں پاؤنڈ رکھنے والا ہزار ڈالر یا ہزار پاؤنڈ یا پانچ ہزار پاؤنڈ بھی دے دیتا ہے تو اس کے لیے کوئی ایسی خاص قربانی نہیں لیکن یہ لوگ جو اپنے کھانے کے لیے، اپنے زمینداری کے لیے جنس رکھتے ہیں۔ اب ایک بالٹی مکئی جو ہے اس کی ایک شہر میں رہنے والے کے لیے، یورپ میں رہنے والے کے لیے کوئی حیثیت نہیں لیکن ان کے لیے ایک بہت بڑی قربانی ہے۔ اس کا، ایک بالٹی مکئی کا انہوں نے وعدہ کیا تھا جو شاید یہاں آپ کو پانچ، چھ پاؤنڈز میں مل جائے۔ کہتے ہیں اگرچہ گذشتہ سال بہت کم فصل ہوئی تھی اور صرف بارہ بوریاں آمد ہوئی تھی۔ مشکل سے ان کے گھر کے خرچ پورے ہو رہے تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ کہتے ہیں کہ نتیجہ یہ نکلا کہ اس سال تیس بوریاں مکئی کی ان کو مل گئیں اور اس کے علاوہ بھی ایک فصل ہے، کوئی چیز ہے اس کی پندرہ بوریاں ملیں۔ تو اخلاص میں دیا ہوا یہ تھوڑا سا بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسا قبول ہوتا ہے کہ پھر کئی گنا بڑھا کر اللہ تعالیٰ واپس کرتا ہے اور یہی پھر ان کے لیے اللہ تعالیٰ کو پہنچنے، اللہ تعالیٰ پر ایمان مضبوط کرنے کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔
کیمرون کے معلم ہیں وہ ایک اَور مثال اللہ تعالیٰ کے فضل کی لکھتے ہیں۔ ڈگوئی گاؤں کے ایک نومبائع احمدو صاحب ہیں۔ ان کو جب چندہ وقف جدید کے لیے بتایا گیا تو انہوں نے دو بالٹیاں مکئی چندے میں دے دیں۔ اب یہ چھوٹی چھوٹی قربانی ہے جو لوگ کر رہے ہیں، اور معلم کو بتایا کہ میرا فارم جو ہے اچھا نہیں ہے کیونکہ میرے پاس پیسے نہیں تھے تو میں اس پہ زیادہ تر توجہ نہیں دے سکا۔ گورنمنٹ مدد کرنا چاہتی ہے لیکن اس کے لیے بھی حکومت کو کچھ رقم جمع کرانی پڑتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں پھر حکومت بھی اپنا حصہ ڈالتی ہے۔ وہ کہتے ہیں میرے پاس یہ رقم نہیں تھی۔ میں یہ بھی دے نہیں سکتا تھا۔ میرا نام اس لسٹ میں تو تھا لیکن مجھے ملے گا کچھ نہیں کیونکہ میں نے رقم جمع نہیں کرائی۔ پھر کہتے ہیں معلم صاحب نے انہیں کہا کہ آپ تہجد بھی پڑھنا شروع کریں اور دعا بھی کریں۔ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا تو معلم صاحب کہتے ہیں نتیجہ یہ ہوا کہ چند دن پہلے میرے پاس آئے اور انہوں نے بتایا کہ خدا تعالیٰ نے ہماری دعائیں سن لیں اور میں نے حکومت کو رقم ادا بھی نہیں کی تھی جو کچھ ادا کرنی ضروری تھی اس کے باوجود جو متعلقہ محکمہ ہے اس نے کھیتوں کے لیے، پانی کے لیے جو پمپنگ مشین تھی وہ بھی ان کو دے دی اور اس کے علاوہ پانچ لاکھ فرانک سیفا فصلوں کے بیج کے لیے بھی دے دیے اور انہوں نے اپنے فارم پر بڑی محنت سے کام شروع کر دیا اور امید ہے کہ اس کی وجہ سے ان کی فصل اچھی بھی ہو گی۔ کہنے لگے خدا تعالیٰ نے میری حقیر سی قربانی کو قبول کیا اور اس کے بدلے میں مجھے انعامات سے نوازا اور اس کے نتیجہ میں انہوں نے اپنے چندہ وقفِ جدید کو دوگنا کر کے ادا کیا۔
انڈونیشیا کے مربی سلسلہ نور خیر صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک میاں بیوی جو سادہ زندگی گزار رہے ہیں لیکن باقاعدہ چندہ ادا کرتے ہیں۔ جو بھی کمائی ہوتی ہے اس میں سے کچھ رقم چندے کے لیے الگ کر کے ایک بکس میں ڈال دیتے ہیں اور جب بھی مبلغ ان کے پاس دورے پر جائے تو وہ رقم چندے میں پیش کردیتے ہیں۔ کہیں دور دراز جزیرے میں رہتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک سال سے زیادہ عرصے کے لیے اس جماعت میں کوئی مبلغ نہیں جا سکا لیکن اس کے باوجود چندے کی رقم باقاعدگی سے جمع کرتے رہے اور ایک سال کے بعد جب مبلغ وہاں دورے پر گیا تو اس بکس میں کافی رقم جمع ہو گئی تھی جو انہوں نے چندوں میں ادا کر دی۔ کہنے لگے کہ اس دفعہ ہمیں کافی منافع ہوا ہے اور ہمیں اس وجہ سے چندے کی برکات پر یقین بھی آگیا ہے اور ایمان مزید مضبوط ہوا ہے اور ہم نے ان برکات کا مشاہدہ کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہمیں کسی نے دھوکا دیا۔ تو سوچا کہ کیا وجہ ہے دھوکے کی۔ غور کیا تو ہمیں پتا چلا کہ ہم نے چندہ صحیح طرح ادا نہیں کیا تھا ۔ اس لیے ہمارا نقصان ہوا ہے۔ چنانچہ اسی وقت سے انہوں نے بڑی احتیاط سے اپنی جو آمد تھی اس کے صحیح حساب کے مطابق ڈبہ کو بھرنا شروع کیا، اس میں رقم ڈالنی شروع کی اور کہتے ہیں جب تک ہم چندے کی رقم علیحدہ نہ کر لیں ہمیں سکون اور اطمینان نہیں ملتا تو اس طرح اللہ تعالیٰ ان کے نقصانات کو بعضوں کی اصلاح کا بھی ذریعہ بناتا ہے اور پھر اس سے ان کا ایمان مضبوط ہوتا ہے۔
انڈونیشیا کے مبلغ بشیر الدین صاحب ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک دوست نے اپنا چندہ وقفِ جدید پانچ لاکھ انڈونیشین روپیہ ادا کیا۔ انڈونیشین روپے کی ویلیو بہت کم ہے۔ بہرحال ان کے حساب سے یہ بھی کافی ہے۔ چند دنوں کے بعد کسی نے اپنی زمین ان کو بیچی جو انہوں نے پندرہ ملین میں خریدی اور چند ہفتوں کے بعد ہی پچاس ملین میں کسی اَور شخص نے یہ زمین ان سے خرید لی۔ کہتے ہیں ان کا اب یہ یقین ہے کہ چندہ وقف جدید کی برکت سے تھوڑے ہی وقت میں مجھے پینتیس ملین کا منافع ہو گیا۔ ایک دنیادار اس کو اپنی کاروباری ہوشیاری سمجھے گا کہ دیکھو مَیں نے کتنا ہوشیاری سے کاروبار کیا کہ چند ہفتوں میں پندرہ ملین سے پینتیس ملین بنا لیا لیکن جو اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنا چاہتے ہیں، جو اس کی محبت حاصل کرنا چاہتے ہیں، جو اس کی خاطر قربانیاں کرتے ہیں ان کے دل میں کیا احساس پیدا ہوا؟ یہ کہ کیونکہ میں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر چندہ دیا تھا، قربانی کی تھی تو اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے بڑھا کر ادا کر دیا۔
ایمان میں مضبوطی کی ایک اَور مثال انڈونیشیا کی ہی ہے۔ معصوم صاحب وہاں ہمارے مبلغ ہیں لکھتے ہیں کہ ایک احمدی نے روزگار کے حصول کی خاطر ایک جزیرہ سولہ بیسی میں ہجرت کی۔ شروع میں بہت تنگ حالات تھے۔ یہاں تک کہ رہنے کے لیے ان کے پاس جگہ نہیں تھی اور انہیں مشن ہاؤس میں رہنا پڑا۔ پھر انہوں نے مچھلیوں کو خرید کر آگے بیچنا شروع کیا۔ معمولی سا کاروبار شروع کیا۔ بڑی محنت کی۔ بہت کم آمدنی کے باوجود یہ مالی قربانی میں پیچھے نہیں ہٹے اور کچھ عرصے بعد ہی ان کے حالات بدلنے لگے۔ یہ کہتے ہیں کہ اب ان کا وقفِ جدید کا چندہ اس علاقے میں سب سے زیادہ ہے اور موصی بھی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ سب میری مالی قربانی کا نتیجہ ہے۔
گیمبیا میں ایک دوست عبدالرحمٰن صاحب ہیں۔ کہتے ہیں انہیں اپنے بچے کی سکول فیس بھرنے میں بہت دشواری محسوس ہو رہی تھی۔ لہٰذا انہوں نے سینٹرل مبلغ صاحب کو بتایا کہ مجھےبڑی مشکل پیش آ رہی ہے۔ مالی حالات ٹھیک نہیں تو مبلغ نے انہیں کہا کہ چلیں آپ یہ دیکھیں کہ مالی قربانی کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ پہ فضل کرے گا۔ انہوں نے دو سو پچاس ڈلاسی چندہ وقفِ جدید ادا کر دیا۔ کہتے ہیں کہ چندہ ادا کرنے کے ٹھیک ایک ہفتے کے بعد انہیں پانچ ہزار ڈلاسی ماہانہ اجرت پر ملازمت مل گئی جس سے وہ بآسانی اپنے بچے کی سکول فیس بھی ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ روزمرہ کی دیگر ضروریات بھی مہیا ہو گئیں اور موصوف اللہ تعالیٰ کے فضل کو لوگوں میں بہت بیان کرتے پھرتے ہیں کہ چندے کی برکات سے مجھ پہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور جہاں میرے ایمان کو مضبوط کیا وہاں میرے رزق میں بھی بہت برکت ڈالی۔
غریب کس طرح قربانی کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے اور پھر کس طرح اللہ تعالیٰ اس توکل کا مان رکھتا ہے ۔گنی بساؤ کے مشنری صاحب ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دوست مونٹیرو کمارا (Monteiro Camara) صاحب کو ان کے وقفِ جدید کے وعدے کی ادائیگی کے حوالے سے توجہ دلائی گئی تو کہنے لگے کہ میرے پاس اس وقت چار ہزار فرانک سیفا ہیں جو میں نے آج کے کھانے کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ بہت معمولی اس کی ویلیو ہے۔ ان کے خاندان بھی بڑے ہوتے ہیں۔ ان کے کھانے کے لیے چار ہزار سیفا رکھے ہوئے تھے۔ تو بہرحال کہتے ہیں کچھ کرتا ہوں۔ کچھ دیر کے بعد انہوں نے وہی رقم چندے میں ادا کر دی جو کھانے کے لیے رکھی تھی اور کھانا کھانے کے لیے کسی سے ادھار لے لیا بلکہ ادھار لینے کے لیے چلے گئے۔ کہتے ہیں کہ اگلے دن ہی ان کی بیٹی شہر سے آئی جو ان کے لیے دو بوریاں چاولوں کی اور ایک کنستر تیل کا اور کچھ پیسے اور دوسری چیزیں لے کر آئی اور ان کو اس بات پہ یقین ہو گیا کہ جو پیسے مَیں نے اپنے کھانے کے لیے رکھے تھے اللہ تعالیٰ نے اس میں چندہ دینے کی وجہ سے ایسی برکت ڈالی کہ بے شمار چیزیں مجھے اگلے دن ہی کھانے کے لیے مل گئیں یعنی یہ بھوکے رہ کر قربانی کرنے والے لوگ ہیں۔
پھر ایک اَور مثال ہے امیر صاحب فرانس نے بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان کو کس طرح بڑھاتا ہے۔ فرانس کے ایک عرب دوست ہیں انہوں نے بیان کیا کہ مَیں نے وقف جدید کا پچھلا، گذشتہ سال کا میرا خطبہ سنا جس میں مَیں نے مالی قربانی والوں کی مثالیں بیان کی تھیں جیسے آج کر رہا ہوں۔ کہتے ہیں اس خطبے کا میرے پر بڑا اثر ہوا۔ ان کی عمر46سال ہے۔ کہتے ہیں مَیں شدید مالی مشکلات کا شکار تھا اور پہلے کبھی مجھے اتنی مالی تنگی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بینک سے بھی قرض لینا پڑا۔ بینک والے بھی میرے پیچھے پڑے ہوئے تھے کہ قرض واپس کرو۔ مجھے وارننگ مل چکی تھی کہ اگر میں نے اپنا حساب کلیئر نہ کیا تو میرا اکاؤنٹ بند کر دیں گے بلکہ بعض دفعہ پھر جرمانہ بھی ہو جاتا ہے۔ انہی دنوں کہتے ہیں کہ ہمارے حلقے میں اجلاسِ عام ہوا۔ اجلاس سے تھوڑی دیر قبل ہی میرے ایک دوست نے زبردستی مجھے 20 یورو دے دیے۔ مَیں نے یہ پیسے اپنی جیب میں رکھ لیے کہ اگلے چند دنوں میں میرے کام آئیں گے۔ اَور تو کچھ تھا نہیں میرے پاس۔ کہتے ہیں میں نے بیس یورو رکھ لیے لیکن جب میں اجلاس پر گیا تو وہاں سیکرٹری مال نے جب چندے کی بات کی تو میں نے وہ بیس یورو چندے میں دے دیے۔ چند دن کے بعد مجھے اپنے بینک سے ایک ٹیلی فون کال آئی تو کہتے ہیں مجھے کیونکہ بُری خبریں سننے کی عادت ہو گئی تھی۔ حالات بہت خراب ہو رہے تھے میں نے سوچا کہ کوئی بری خبر ہی ہو گی۔ بینک والوں نے اب مزید کوئی سختی مجھ پہ کرنی ہے لیکن بینک والوں نے مجھے بتایا کہ متعلقہ ادارے نے انہیں آرڈر کیا ہے کہ میرا بینک اکاؤنٹ بند نہ کیا جائے اور جو چھ سو یورو کی رقم منفی میں تھی ان کے اکاؤنٹ میں اس کو پلس کر دیں، اس کو جمع کر دیں، کریڈٹ کر دیں۔ کہتے ہیں میرے لیے یہ بڑی حیرانی والی بات تھی کیونکہ بینکوں کے رویے تو بڑے سخت ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کچھ ہی دن بعد میرے کام کی انشورنس نے مجھے ایک بڑی رقم ادا کر دی جو ایک مدت سے رُکی ہوئی تھی۔ کہتے ہیں کہ یہ سارے واقعات وقفِ جدید کا خطبہ سننے اور معمولی رقم چندے میں دینے کے بعد پیش آئے۔ پہلے میں سوچا کرتا تھا کہ میرے ساتھ بھی معجزات ہو سکتے ہیں؟ ان لوگوں کے معجزات کے بڑے واقعات سناتے رہتے ہیں۔ میرے ساتھ تو نہیں کبھی ہوا لیکن اب اللہ تعالیٰ نے مجھے چندے کی برکات کا نمونہ دکھایا ہے تو مجھے یقین ہو گیا کہ واقعی معجزات ہوتے ہیں۔
ہیٹی کے مبلغ قیصر صاحب لکھتے ہیں ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے سلوک اور ایمان مضبوط کرنے کا ایک اَور واقعہ ہے۔ اب یہ واقعات مختلف جگہوں کے ہیں، کوئی افریقہ میں ہے، کوئی امریکہ میں ہے، کوئی یورپ میں ہے، کوئی شمال میں ہے، کوئی جنوب میں ہے اور آپس میں ان کا رابطہ اور تعلق بھی کوئی نہیں لیکن ملتے جلتے واقعات ہیں۔ پورٹ آف پرنس کے ایک نَو احمدی ابراہیم صاحب چند دن قبل دفتر سے گھر جا رہے تھے۔ راستے میں ان کی ایک فائل گر گئی جس میں بعض ضروری کاغذات اور سندات تھیں اور 13ہزار گورد (gourde)کی رقم تھی، ان کے ہاں جو وہاں کرنسی ہے۔ انہوں نے واپس جا کر سارا رستہ چیک کیا۔ انہیںفائل نہیں ملی۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے دل میں عہد کیا کہ میں نے وقفِ جدید کا جو ایک ہزار گورد کا وعدہ کیا تھا وہ ضرور پورا کروں گا ۔چاہے میرے پاس پیسے ہوں یا نہ ہوں ۔کہیں سے لے کے کر دوں گا ۔چنانچہ میں نے کسی سے قرض لے کر وعدے کے مطابق اپنا چندہ ادا کر دیا۔ کہتے ہیں کہ چندہ دیا تھا تو اسی دن شام کو جس دن چندہ ادا کیا کسی نامعلوم شخص کا فون آیا کہ آپ کی فائل میرے پاس ہے۔ مجھ سے آ کر لے جائیں۔ کہتے ہیں میں فوراً پہنچا تو اس شخص نے مجھے فائل پکڑا دی اور کہنے لگا کہ مجھے آپ کا پتہ تلاش کرنے کے لیے فائل اندر سے دیکھنی پڑی تھی اس لیے میں نے آپ کی فائل بھی کھولی ہے۔ آپ اپنی رقم اور کاغذات چیک کر لیں۔ میں نے چیک کیا تو تمام رقم اور کاغذات فائل میں موجود تھے۔ کہتے ہیں اس پر میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ محض چندے کی برکت تھی جس کی وجہ سے میرے گم شدہ کاغذات جو ضروری کاغذات تھے وہ بھی مجھے مل گئے اور رقم بھی جن کا ملنا بظاہر مشکل تھا۔
مبلغ انچارج گنی کناکری کہتے ہیں کہ کنڈیا ریجن کے ایک گاؤں کے ایک احمدی دوست ابوبکر صاحب کو جب وقفِ جدید کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی گئی تو پہلے تو انہوں نے کچھ پس و پیش کیا۔ پھر اپنا وعدہ ادا کر دیا۔ چندے کی ادائیگی کے کچھ عرصے بعد انہوں نے ہمارے لوکل مشنری کو بتایا کہ جماعت احمدیہ واقعةً الٰہی جماعت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں حکومت کا ملازم ہوں اور عرصہ ہوا میری ایک ٹانگ حادثے میں ٹوٹ گئی تھی جو کہ مناسب میڈیکل سہولت نہ ہونے کی وجہ سے صحیح طور پر جڑ نہ سکی جس کی وجہ سے میری ایک ٹانگ چھوٹی رہ گئی جس کی مجھے مسلسل تکلیف رہتی تھی۔ اب کچھ عرصے سے مَیں پیسے جمع کر رہا تھا کہ مجھے ایک ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اس کا آپریشن ہو جائے تو یہ ٹھیک ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اس بار کچھ پیسے جمع ہو گئے تھے کہ میں اپنی ٹانگ کا آپریشن کروا لیتا لیکن جب مشنری نے چندے کی تحریک کی تو مَیں نے سوچا کہ اس دفعہ چندہ رہنے دیتا ہوں۔ نہیں دیتا اور اپنے آپریشن کی رقم رکھ لیتا ہوں لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے ہمت دی۔ پھر مجھے خیال آیا کہ نہیں اللہ پر توکّل کرتے ہوئے ساری رقم چندے میں ادا کر دی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ابھی اس بات کو دو دن نہیں گزرے تھے کہ میرے دفتر کی طرف سے مجھے خط آیا کہ میرے آپریشن کا سارا خرچ حکومت ادا کرے گی اور میں جہاں چاہتا ہوں اپنا علاج کروا سکتا ہوں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ صرف اور صرف چندے کی برکت سے ہی ہوا ہے۔ پس یہ کوئی اتفاقی باتیں نہیں ہیں۔ یہ ان لوگوں پر جو اس پر توکل کرتے ہیں ان کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے سلوک ہیں اور اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی بھی دلیل ہے۔
قادیان سے مامون رشید صاحب سیکرٹری وقفِ جدید لکھتے ہیں کہ ایک صاحب ہیں سولیجہ صاحب ان کا اس سال چندہ وقف جدید بعض گھریلو پریشانیوں کی وجہ سے بقایا تھا۔ ان کے بھائی نے ان کو اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ اب سال کا اختتام ہے اس کی جلدی ادائیگی کرو لیکن ان کے اکاؤنٹ میں اس قدر رقم نہیں تھی کہ مکمل چندہ ادا کر سکیں بلکہ کل رقم کا صرف تیس فیصد ہی اکاؤنٹ میں موجود تھا۔ موصوف بڑے فکر مند تھے کہ کس طرح مکمل ادائیگی کریں۔ آخر جو رقم اکاؤنٹ میں تھی وہی انہوں نے چندہ ادا کر دی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزانہ طور پر چند ہی لمحات میں اکاؤنٹ میں اتنی مزید رقم آ گئی جس سے وہ بقایا بھی ادا کر سکتے تھے چنانچہ اسی وقت انہوں نے وہ رقم اپنے وعدہ کے مطابق ادا کر دی۔ کہتے ہیں کہ ہمیشہ وعدہ جات سال کے اختتام سے پہلے ادا کر دیا کرتے تھے لیکن اس سال ان کی اور ان کے بچے کی بیماری کی وجہ سے بقایا رہ گیا تھا۔ وہ اس بات سے بڑے پریشان بھی تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر اس کا انتظام کر دیا اور کہتے ہیں میرے ایمان میں یہ تقویت کا باعث بنا۔
انڈیا سے ہی عبدالمحمود صاحب انسپکٹر وقف جدید ہیں وہ بھی ایک دوست کا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ ضلع پیربھوم کے ایک گاؤں، بنگال کا ایک گاؤں ہے۔ اس کا یہ واقعہ ہے کہ ان صاحب کی کریانے کی ہول سیل کی دکان ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی چلتی ہے۔ موصوف روزانہ دکان کھولتے ہی سو روپیہ ایک صندوق میں باقاعدگی سے ڈالتے تھے جس سے اپنے وعدے کے مطابق چندے کی ادائیگی کر دیتے تھے۔ صبح آ کر پہلا کام یہ کرتے تھے کہ ایک بکس میںسو روپیہ ڈال دیا ۔ کہتے ہیں ایک دن ان کی دکان میں خریداری کے لیے بہت کم لوگ آئے اور جو خرچ تھا وہ پورا نہیں ہو رہا تھا۔ اگلے دن انہوں نے یہ نہیں کیا کہ سو روپیہ نہ ڈالے ہوں۔ اگلے دن دکان کھولتے ہی موصوف نے سو کے بجائے تین سو روپے اس صندوق میں ،بکس میں ڈال دیے اور دل میں سوچا کیوں نہ آج اللہ تعالیٰ کے ساتھ سودا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا کرم ایسا ہوا کہ اسی دن دوپہر کے بعد کہتے ہیں میرے پاس آٹھ خریدار آئے۔ تھوک کا کام تھا اور بڑا کاروبار تھا۔ اس میں وقت لگتا ہے، بوریاں اٹھوائی ہوں گی ۔کہتے ہیں میں اتنا مصروف ہو گیا کہ اس میں سے ایک خریدار کو یہ کہہ کر واپس بھیجنا پڑا کہ کل آ جانا اور باقی لوگوں کو سامان دیتے دیتے رات دیر ہو گئی اور کہتے ہیں کہ اللہ کے فضل سے اس دن کافی کمائی ہوئی اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب انسان پر خوش ہوتا ہے تو اتنا دیتا ہے کہ انسان دونوں ہاتھوں سے نہیں سنبھال سکتا۔
گنی بساؤ اوئیو (Oio) ریجن کے مشنری عبدالعزیز صاحب ہیں۔ کہتے ہیں ایک ضعیف بوڑھی خاتون مسکوتہ (Mascuta) صاحبہ ہیں۔ ان کو وقفِ جدید کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی گئی تو کہنے لگیںکہ مَیں نے وعدے کے مطابق رقم جمع کر کے رکھی ہوئی تھی لیکن کل رات اپنے بھائی کی طرف جا رہی تھی کہ راستے میں وہ رقم کہیں گم گئی ہے، گر گئی ہے۔ میں وہ رقم تلاش کر رہی ہوں۔ جونہی مجھے رقم ملے گی میں ادائیگی کر دوں گی۔ اس کے بعد وہ رقم تلاش کرتی رہیں لیکن کہیں نہیں ملی۔ اس پر انہوں نے اپنی بیٹی سے کچھ رقم ادھار لے کر وقفِ جدید میں ادا کر دی اور یہ رقم ادا کرنے کے بعد انہوں نے دوبارہ اپنی گری ہوئی تھیلی ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ کہتی ہیں ابھی میں چند میٹر دور گئی تھی کہ وہی رقم جو پلاسٹک کے ایک لفافے میں بند تھی سڑک کے درمیان میں پڑی ہوئی مل گئی۔ اس پر بہت خوش ہوئیں اور اگلے دن واپس آئیں اور اپنے وعدے کے مطابق ادائیگی مکمل کی اور پھر یہ لوگوں کو بتانے لگیںکہ چندے کی، وقفِ جدید کے چندے کی برکت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو گم شدہ رقم واپس دلا دی۔
مالی کے ریجن سکاسو کے ایک مبلغ احمد بلال صاحب لکھتے ہیں کہ ایک نومبائع احمد جَلَا صاحب مشن ہاؤس آئے اور انہوں نے بتایا کہ وہ پہلے باقاعدگی سے چندہ ادا کرتے تھے لیکن پھر کچھ مالی مشکلات کی وجہ سے چندہ ادا نہیں کر پائے۔ ایک روز انہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ لوگ ایک مجمع کے ساتھ ایک وسیع راستے پر چل رہے ہیں اور یہ راستہ آگے جا کر بہت سے راستوں میں تقسیم ہو گیا ہے لیکن آگے تقسیم ہونے والے سارے راستے انتہائی خراب اور دشوار گزار ہیں۔ اس موقعے پر انہوں نے دعا کی تو آسمان سے ایک سواری آئی جو انہیں لے کر آسمان کی طرف چلی گئی اور پھر جب خراب راستہ ختم ہو گیا تو اس سواری نے انہیں دوبارہ وسیع راستے پر اتار دیا۔ کہتے ہیں کہ وہاں انہوں نے ایک بزرگ کو دیکھا جنہوں نے انہیں بتایا کہ یہ سواری تمہیں تمہارے چندے کی ادائیگی کی وجہ سے لینے گئی تھی۔ کہتے ہیں بعض اوقات مشکل آتی ہیں مگر ایک احمدی جو باقاعدگی سے خدا کی راہ میں چندہ دیتا ہے اللہ تعالیٰ مشکلات کے وقت ان میں آسانی پیدا کر دیتا ہے۔ چنانچہ اس نومبائع نے چندہ ادا کیا اور کہا کہ آئندہ چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ چندے کی ادائیگی میں کبھی سستی نہیں کرے گا۔ کیا یہ بھی کوئی اتفاق ہے۔
تنزانیہ کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ اروشا ریجن کی ایک جماعت میں چندے کی تحریک کی گئی توایک غریب خاتون فاطمہ صاحبہ جو کیلے اور پھل بیچ کر گزارہ کرتی ہیں انہوں نے دو دن کی تمام آمدنی وقفِ جدید میں ادا کر دی اور اپنی فیملی کو بھی باقاعدہ وقفِ جدید میں شامل کروایا۔ اسی طرح جماعت کی ایک اَور ضعیف خاتون ہیں ان کو بھی تحریک کی گئی تو اگلے دن صبح آٹھ بجے خود مشن ہاؤس آئیں اور پانچ ہزار شلنگ وقفِ جدید میں ادا کیے۔ اب یہ وہ لوگ ہیں (جن کے متعلق) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ حیرت ہوتی ہے ان لوگوں کو دیکھ کر کہ کس طرح قربانیاں کرتے ہیں۔(ماخوذ از ضمیمہ رسالہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد11 صفحہ313 حاشیہ) اور توجہ دلانے پر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ توجہ دلائی جائے تو یہ لوگ قربانی بھی کرتے ہیں۔
تنزانیہ کے امیر صاحب نے ہی ایک اَور واقعہ لکھا ہے کہ گذشتہ سالوں سے ملک کے معاشی حالات نہایت تنگ ہیں لیکن احمدی بہت اخلاص سے مالی قربانی میں حصہ لیتے ہیں۔ اروشا شہر کے ایک دوست وزیری صاحب جو کہ اخبار بیچ کر اپنا گزارہ کرتے ہیں۔ ان کو جب وقفِ جدید کے حوالے سے تحریک کی گئی تو انہوں نے حسب توفیق ادائیگی کی اور ساتھ ہی کہنے لگے کہ میں آئندہ سے روزانہ ایک کپ چائے کا خرچ کم کر کے وہ رقم چندے میں ادا کروں گا۔ اب غریب آدمی اس طرح بھی پیسے بچاتے ہیں کہ ایک پیالی چائے کی نہیں پیوں گا اور اس کا جو خرچ ہے وہ چندے میں ادا کروں گا۔ یہ احساس ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کا قرب پانا ہے۔
امیر صاحب تنزانیہ ہی لکھتے ہیں کہ مارا ریجن کی جماعت کے ایک مخلص نوجوان ہیں۔ عموماً یہ وقفِ جدید کا سال ختم ہونے سے قبل ہی مکمل ادائیگی کر دیتے ہیں لیکن اس سال معاشی حالات کی تنگی کی وجہ سے ابھی پندرہ ہزار شلنگ ان کے بقایا تھے۔ ان کے پاس معمولی رقم تھی۔ شلنگ کی بھی کوئی ویلیو نہیں۔ بہت کم ویلیو ہے۔ انہوں نے حساب لگایا کہ مہینے کے اختتام پر اگر یہ رقم بھی چندے میں ادا کر دی تو ان کے پاس اخراجات کے لیے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ بہرحال انہوں نے اللہ پر توکّل کر کے یہ رقم چندے میں ادا کر دی۔ بیان کرتے ہیں کہ اگلے دن ہی ان کے دفتر سے فون آیا کہ گذشتہ تین ماہ سے ان کے کچھ بل واجب الادا ہیں وہ کلیئر ہو گئے ہیں اور اسی طرح نئے سال میں ان کی تنخواہ میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ ان کا بھی یہ ایمان ہے کہ چندے کی برکت سے ہی کچھ دنوں میں مجھے چھ گنا زیادہ رقم مل گئی۔ کہاں یہ حالت تھی کہ گھر کا خرچہ کس طرح چلے گا اور کہاں یہ حالت کہ اللہ تعالیٰ نے چھ گنا زیادہ رقم دے دی۔
برکینا فاسو کے کایا ریجن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک احمدی عبدو صاحب ہیں وہ بتاتے ہیں کہ چندہ جات کی ادائیگی میں حصہ تو لیتا تھا مگر باقاعدہ نہیں تھا۔ گذشتہ سال میں نے ارادہ کیا کہ آئندہ میں چندے کی تمام مدات میں شامل ہونے کی بھرپور کوشش کروں گا۔ کہتے ہیں کہ جب سے مَیں نے فیصلہ کیا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مَیں چندہ جات کی ادائیگی میں باقاعدہ ہوں اور جب سے میں باقاعدہ ہوا ہوں میرے تمام معاملات، میرے مال، میرے مویشی، فصل ہر چیز میں برکت شروع ہو گئی ہے۔ غرض یہ کہ کئی ایک مشکلات تھیں جن کی وجہ سے میں کافی پریشان تھا وہ بھی آہستہ آہستہ حل ہو گئی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ابھی گذشتہ ماہ ہی میری بیوی حاملہ تھی اور ہسپتال کے اخراجات کے لیے میرے پاس پیسے نہیں تھے مگر جب ڈلیوری کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے غیب سے مدد کی اور سارا انتظام ہو گیا اور ان کے ہاں بچی پیدا ہوئی اور بیوی بھی خیریت سے ہے۔ کہتے ہیں یہ سب کچھ مَیں نے دیکھا ہے اور مَیں یہی سوچتا ہوں کہ چندے کی برکات سے ہے۔
پھر رشیا کے مبلغ لکھتے ہیں کہ بَدَایَاںاَدْوَارَد صاحب آرمینین ہیں لیکن رشیا میں رہتے ہیں ۔انہیں کافی مطالعہ اور سوچ بچار کے بعد احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ قبولِ احمدیت کے ساتھ ہی انہیں جماعت میں مالی قربانی کے نظام سے متعارف کروایا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے باقاعدہ ہر ماہ چندہ وقف جدید اور تحریک جدید ادا کرنا شروع کر دیا۔ کام کے سلسلہ میں ملک کے اندر بھی اور ملک سے باہر بھی کافی سفر کرتے ہیں لیکن سفروں میں رہنے کے باوجود باقاعدگی سے چندہ ادا کرتے ہیں۔ ان کا چھوٹا موٹا کام ہے یہ نہیں کہ کوئی بہت صاحبِ حیثیت ہوں اس لیے سفر کرتے ہیں۔
اَدْوَار ُدصاحب بیان کرتے ہیں کہ جنوری 2020ء میں اپنے کام کے سلسلے میں انہوں نے آرمینیا جانا تھا اور وہاں سے کازان جانا تھا۔ یہ کام بہت ضروری تھا لیکن ان کے پاس سفر کے اخراجات کے لیے مناسب رقم میسر نہیں تھی۔ پریشانی بھی تھی دعا بھی کر رہے تھے۔ کہتے ہیں 30دسمبر والے دن ایک ایسی کمپنی سے ان کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کی گئی جس نے یہ رقم انہیں فروری میں ادا کرنی تھی۔ یہ کہتے ہیں کہ ان کے علاوہ اَور بھی لوگ ہیں جنہیں یہ رقم فروری میں ملنی ہے لیکن صرف ان کو یہ رقم فروری کے بجائے دسمبر میں ادا کر دی گئی اور یہ ان کا یقین ہے کہ یہ صرف اور صرف چندے کی برکت ہے ورنہ یہ بات سمجھ سے بالا ہے کہ اتنے لوگوں میں سے یہ رقم صرف مجھے تیس دسمبر کو کیوں دی گئی۔ اور وہ مزید لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سلوک اور پیار کا اندازہ صرف ایک احمدی مسلمان کو ہی ہوسکتا ہے۔ اس طرح بھی اللہ تعالیٰ ایمان مضبوط کرتا ہے۔
آئیوری کوسٹ سے سان پیدرو ریجن کے مبلغ وقار صاحب لکھتے ہیں کہ یہاں پیدرو ریجن میں 2014ء میں فتحاکرو گاؤں میں بیس افراد پر مشتمل ایک چھوٹی سی جماعت قائم ہوئی تھی اور یہاں ایک صاحب تھے جارہ صاحب۔ ان کا پیچھے سے تعلق برکینا فاسو سے تھا۔ اس جماعت کے ایک ایکٹو ممبر یہی تھے اور ایک سال ہو گیا۔ وہ برکینا فاسو واپس چلے گئے تھے۔ ان کے واپس جانے پر کافی پریشانی تھی کیونکہ باقی لوگ اس قدر فعال نہیں تھے۔ ان کی تربیت کی بھی ضرورت تھی۔ بہرحال ان کے بیٹے عیسیٰ جارا جو کہ شادی شدہ ہیں اور کاشتکاری کرتے ہیں ان سے رابطہ کیا گیاانہیں خدام الاحمدیہ کے نیشنل اجتماع پر جانے کے لیے آمادہ کیا گیا۔ انہیں چندے کی اہمیت اور برکات اور نظامِ جماعت کے ساتھ پختہ تعلق رکھنے اور دعا کرتے رہنے کے لیے کہا گیا۔ کہتے ہیں اس کے بعد دسمبر میں نیشنل جلسہ سالانہ سے قبل موصوف میرے پاس آئے اور دس ہزار فرانک سیفاکی رقم چندہ میں ادا کر دی۔ اس پر میں نے انہیں حیران ہو کر کہا کیونکہ بظاہر ان کے حالات کے مطابق بہت زیادہ تھی کہ یہ رقم آپ نےکس طرح دے دی؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ جب سے میں نے چندہ ادا کرنا شروع کیا ہے مجھ پر خدا تعالیٰ کے بے شمار فضل ہو رہے ہیں۔ مجھے میرے کھیت سے دوسروں کی نسبت زیادہ نفع حاصل ہو رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ جو نورانی چہرے والے ہیں لوگوں کو خیر کے راستے کی طرف بلا رہے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام تھے جو کہ دنیا کو ہدایت کی طرف بلا رہے ہیں۔ خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ مجھے جماعت احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق ملی اور کہتے ہیں اب میں باقاعدہ چندہ ادا کروں گا۔
انڈیا سے انسپکٹر وقف جدید ہیں انہوں نے بارہ سال کی ایک بچی کا ذکر کیا ہے کہ وہ کئی سال سے باقاعدگی سے وقف جدید کا چندہ دیتی ہے اور ایک تھیلی میں پیسے جمع کرتی رہتی ہے۔ نہ وہ بول سکتی ہے نہ سن سکتی ہے لیکن جو بھی اس کو رقم ملے وہ جب دوسروں کو چندہ دیتے دیکھتی ہے تو اس کو بھی شوق پیدا ہوا۔
اسی طرح لائبیریا سے ایک مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ کیپ ماؤنٹ کاؤنٹی کی ایک جماعت ہے اس میں مغرب عشاء کے بعد احبابِ جماعت کو مَیں نے وقف جدید کے چندے کے حوالے سے تحریک کی تو احباب نے حسبِ معمول باری باری اپنا اور اپنے فیملی ممبر کا چندہ ادا کرنا شروع کر دیا۔ اسی دوران دو چھوٹے لڑکے عزیزم سلیمان اور عزیزم عبداللہ کمارا مسجد سے اٹھ کر چلے گئے اور کچھ دیر کے بعد دونوں واپس آئے اور بیس بیس لائبیرین ڈالر چندہ ادا کردیا۔ کہتے ہیں کیونکہ عموما ًوہاں والدین بچوں کا چندہ دیتے ہیں اس لیے مجھے خیال آیا کہ ان بچوں سے پوچھوں کہ انہوں نے اپنا چندہ خود کیوں دیا ہے۔ اس پر دونوں بچے کہنے لگے کہ ہمیں یہ پتا چلا تھا کہ خلیفۂ وقت کا یہ ارشاد ہے کہ بچے بھی وقفِ جدید میں شامل ہوں۔ اس لیے ہم نے سوچا کہ اب ہم خلیفة المسیح کے ارشاد کے مطابق پیسے جمع کرکے خود اپنا چندہ ادا کریں گے۔ دور دراز کے علاقے میں بیٹھے ہوئے بچے جنہوں نے کبھی خلیفہ وقت کو دیکھا بھی نہیں لیکن اب یہ اخلاص اور تعلق ہے جو صرف اور صرف خدا تعالیٰ ہی ان کے دلوں میں پیدا کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوںکے اخلاص و وفا کو مزید بڑھائے۔ پس بچے ہیں یا بڑے، نومبائعین ہیں یا پرانے احمدی ان کو یہ ادراک حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کو پانے کا ایک ذریعہ اس کی راہ میں خرچ کرنا ہے اور پھر بعض کی تو خدا تعالیٰ خود رہ نمائی بھی کرتا ہے جیسے میں نے واقعات میں بھی بتایا۔ یہ لوگ ایسے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر کے قابلِ رشک کہلانے والے ہیں۔
اب میں وقفِ جدید کے حوالے سے گذشتہ سال کے دوران جو وقفِ جدید کے چندے کی قربانیاں ہوئی ہیں ان کی رپورٹ پیش کروں گا اور نئے سال کا اعلان بھی (کروں گا) ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقفِ جدید کا باسٹھ واں سال 31؍دسمبر کو ختم ہوا اور نیا سال یکم جنوری سے شروع ہو گیا ہے۔ اس دوران میں وقفِ جدید میں کُل دنیا کی جماعتہائے احمدیہ کو چھیانوے لاکھ تینتالیس ہزار پاؤنڈز کی مالی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی۔ گذشتہ سال سے یہ رقم پانچ لاکھ پاؤنڈز زیادہ ہے۔
اس سال برطانیہ دنیا کی جماعتوں میں مجموعی طور پر وصولی کے لحاظ سے سرِ فہرست ہے اور اس طرح تفصیل یوں ہے کہ برطانیہ نمبر ایک ہے۔ پھر پاکستان ہے۔ پھر جرمنی ہے۔ پھر امریکہ ۔پھر کینیڈا۔ پھر بھارت۔ آسٹریلیا۔ انڈونیشیا اور پھر مڈل ایسٹ کی دو جماعتیں ہیں۔ امیر صاحب نے کہا تھا وقفِ جدید میں بڑھ جائیں گے۔ انہوں نے اپنا قول پورا کر ہی دیا۔
دس بڑی جماعتیں جن کا گذشتہ سال کی نسبت مقامی کرنسی میں کافی اضافہ ہو اہے ان میں انڈونیشیا سرِفہرست ہے۔ پھر جرمنی ہے۔ پھر امریکہ ہے۔ اس کے بعد دوسری جماعتیں ہیں بہرحال تین بڑی جماعتیں یہ ہیں۔ بھارت نے بھی کافی، خاطر خواہ اضافہ کیا ہے اور کینیڈا، برطانیہ اور مڈل ایسٹ کی جماعتوں اور پاکستان اور آسٹریلیا کی نسبت بھارت کی مقامی کرنسی میں قربانی کا جو اضافہ ہے وہ ان ملکوں سے زیادہ ہے۔ اس لحاظ سے پانچویں نمبر پر بھارت ہے۔
اور افریقہ میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے نمایاں جماعتیں جو ہیں ان میں نمبر ایک گھانا ہے۔ نمبر دو نائیجیریا۔ نمبر تین برکینا فاسو ۔نمبر چار تنزانیہ ۔نمبر پانچ بینن۔ نمبر چھ گیمبیا ۔نمبر سات کینیا ۔نمبر آٹھ مالی۔ نمبر نو سیرالیون اور دس کانگو کنساشا۔
شاملین کی تعداد کے لحاظ سے اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو وقف جدید کے چندے میں شامل ہوئے ہیں۔ ان کی تعداد اٹھارہ لاکھ اکیس ہزار ہے اور اس سال ان کا اضافہ نواسی ہزار ہے۔ eighty-nine thousandکا اضافہ ہوا ہے اور تعداد میں اس سال اضافے کے لحاظ سے نمایاں جماعتوں میں کیمرون نمبر ایک پہ ہے۔ پھر سینیگال ہے۔ پھر سیرالیون ہے۔ پھر نائیجیریا ہے۔ پھر برکینافاسو ہے۔ پھر انڈونیشیا اور پھر اس طرح باقی جماعتیں ہیں۔
مجموعی وصولی کے لحاظ سے برطانیہ کی دس بڑی جماعتیں یہ ہیں نمبر ایک اسلام آباد۔ نمبر دو آلڈرشاٹ۔ نمبر تین ووسٹر پارک۔ پھر برمنگھم ساؤتھ۔ پھر مسجد فضل۔ پھر پٹنی۔ پھر جلنگھم۔ پھر نیو مولڈن۔ پھر برمنگھم ویسٹ اور ہاؤنسلو نارتھ۔ اور ریجنز کے لحاظ سے پہلے پانچ ریجنز یہ ہیں: بیت الفتوح ریجن نمبر ایک پہ۔ پھر مسجد فضل ریجن۔ پھر مڈلینڈ ریجن۔ اسلام آباد ریجن۔ پھر بیت الاحسان ریجن۔ دفتر اطفال کے لحاظ سے پہلی دس جماعتیں آلڈر شاٹ نمبر ایک پہ۔ پھرروہمپٹن۔ پھر پٹنی۔ اسلام آباد۔ مچم پارک۔ پھر چیم۔ پھر لیمنگٹن سپا ۔پھر ووسٹر پارک۔ پھر رینز پارک۔ پھر سربٹن۔
پاکستان میں چندہ بالغان کی جو پہلی تین جماعتیں ہیں ان میں اول لاہور ہے۔ پھر ربوہ ہے۔ پھر سوم کراچی ہے۔ پاکستان کرنسی کی ویلیو کی وجہ سے پیچھے چلا گیا ہے۔ اگر گذشتہ سال جتنی اس کی کرنسی کی ویلیو ہوتی تو اس دفعہ پاکستان پھر نمبر ایک پہ ہی ہونا تھا۔ برطانیہ کا اتنا زیادہ کمال بھی نہیں ہے۔ چندہ بالغان میں جو پاکستان کے اضلاع ہیں ان میں اسلام آباد ۔سیالکوٹ۔ راولپنڈی ۔گوجرانوالہ۔ ملتان۔ عمر کوٹ۔ حیدرآباد۔ ڈیرہ غازی خان۔ میر پور خاص اور پشاور۔ مجموعی وصولی کے لحاظ سے پہلی دس جماعتیں ہیں اسلام آباد شہر۔ ٹاؤن شپ لاہور۔ ڈیفنس لاہور۔ دارالذکر لاہور ۔گلشن اقبال کراچی ۔سمن آباد لاہور۔ راولپنڈی شہر۔ عزیز آباد کراچی۔گلشن جامی کراچی اور دہلی گیٹ لاہور۔
وہاں تو ہر طرح کے حالات خراب ہیں اس کے باوجود اللہ کے فضل سے وہاں بھی بڑی قربانیاں دینے والے لوگ ہیں۔ دفتر اطفال میں پاکستان کی تین بڑی جماعتیں جو ہیں اول لاہور۔ دوئم کراچی اور سوئم ربوہ اور اضلاع کی پوزیشنز اس طرح ہے سیالکوٹ نمبر ایک ۔گوجرانوالہ نمبر دو ۔پھر سرگودھا۔ پھر حیدرآباد۔ پھر ڈیرہ غازی خان۔ پھر شیخو پورہ۔ پھر میر پور خاص۔ پھر عمر کوٹ۔ پھر اوکاڑہ۔ پھر پشاور۔
وصولی کے لحاظ سے جرمنی کی پانچ لوکل جماعتیں، لوکل امارات یہ ہیں نمبر ایک ہیمبرگ۔ نمبر دو فرینکفرٹ۔ نمبر تین ڈٹسن باخ۔ نمبر چار گروس گیراؤ اور نمبر پانچ ویزبادن۔ چندہ بالغان میں وقف جدید میں پہلی دس جماعتیں نوئیس ، روڈر مارک ، نیڈا ، مہدی آباد ، فلورس ہائم ، فریڈ برگ ، بینزہائم ، لانگن ، کوبلنز ، ہناؤ اور پنی برگ ہیں۔ دفتر اطفال میں پہلی پانچ ریجن ہیں، ہیسن ساؤتھ ایسٹ (سود اوسٹ) ہے۔ ہیسن مٹے۔ تاونس۔ پیسن ساؤتھ اور رائن لینڈ فالز۔ بہرحال جو بھی ان کے نام ہیں جرمن خود ہی اصلاح کر لیں۔
وصولی کے لحاظ سے امریکہ کی دس جماعتیں میری لینڈ نمبر ایک۔ پھر سیلیکون ویلی۔ پھر لاس اینجلس۔ پھر ہیوسٹن۔ پھر سینٹرل ورجینیا۔ پھر سیئٹل۔ پھر ڈیٹرائٹ۔ پھر ساؤتھ ورجینیا ۔پھر شکاگو۔پھر نارتھ ورجینیا۔
وصولی کے لحاظ سے کینیڈا کی امارتیں وان نمبر ایک پہ۔ کیلگری نمبر دو پہ۔ پیس ولیج نمبر تین۔ وینکوور نمبر چار۔ مسس ساگا نمبر پانچ اور بڑی جماعتیں ڈرہم، بریڈ فورڈ، ایڈمنٹن ویسٹ، ملٹن ویسٹ، ہیملٹن ماؤنٹین، آٹوا ایسٹ اور آٹوا ویسٹ۔ ایئر ڈری (Airdrie)، وینی پیگ اور ایبٹس فورڈ ہیں۔
اور دفتر اطفال کی پانچ نمایاں امارتیں ہیں واگن، میرا خیال ہے وان ہو گا انہوں نے اردو میں اس کو واگن بنا دیا ہے اور کیلگری۔ پھر پیس ولیج۔ پھرویسٹن۔ بریمپٹن ویسٹ۔ دفتر اطفال کی پانچ نمایاں جماعتیں ڈرہم، بریڈ فورڈ، ملٹن ویسٹ، اور ایئرڈری (Airdrie)، ہملٹن ماؤنٹین ہیں۔
بھارت کے صوبہ جات جو ہیں ان میں کیرالہ نمبر ایک پہ ہے، جموں کشمیر نمبر دو پہ، باوجود خراب حالات کے یہ نمبر دو پہ ہے۔ کرناٹکہ نمبر تین۔ پھر تامل ناڈو۔ پھر تیلنگانہ۔ پھر اڑیشہ۔ پھر پنجاب۔ پھر ویسٹ بنگال۔ پھر دہلی۔ پھر اتر پردیش۔ اور وصولی کے لحاظ سے بھارت کی جو جماعتیں ہیں ان میں پاٹھا پریام نمبر ایک پہ۔ پھر قادیان نمبر دو۔ پھر حیدرآباد۔ پھر کالی کٹ۔ پھر بنگلور۔ کوئمباٹور۔کولکتہ۔کیرولائی۔ کیرانگ۔ پینگاڈی (Payangadi)۔
آسٹریلیا کی دس جماعتیں نمبر ایک پہ میلبورن لانگ وارِن۔ کاسل ہِل۔ میلبورن بیروِک۔ مارسڈن پارک۔ ایڈیلیڈ ساؤتھ۔ MTڈروئٹ (Druitt)۔ پینرِتھ (Penrith)۔ بلیک ٹاؤن۔ کینبرا۔ پرتھ (Perth)۔ اطفال میں آسٹریلیا میں ملبرن لانگ وارِن، ایڈیلیڈ ساؤتھ، میلبرن بیروِک اور MTڈروئٹ اور پینرِتھ اور لوگن ایسٹ، پرتھ اور مارسڈن پارک، کاسل ہِل اور پھر لوگن ویسٹ ہیں۔ بالغان میں آسٹریلیا کی جماعتیں کاسل ہِل، میلبرن لانگ وارِن، مارسڈن پارک، میلبرن بیروِک، MT ڈروئٹ، بلیک ٹاؤن، ایڈیلیڈ ساؤتھ، پینرِتھ، کینبرا اور پرتھ ہیں۔
یہاں بھی آج کل آگ نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر بھی رحم کرے اور یہ لوگ حقیقت میں اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننے والے بھی ہوں۔ بہر حال اس کے باوجود احمدی وہاں اللہ کے فضل سے قربانیاں دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں تمام قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے۔
پاکستان کے حالات جیسا کہ مَیں نے کہا کہ معاشی لحاظ سے خراب ہو رہے ہیں۔ اسی وجہ سے کرنسی کی ویلیو کوئی نہیں اور اس لیے پوزیشن بھی ان کی پیچھے چلی گئی۔ اس کے باوجود قربانی میں یہ کمی نہیں کرتے۔ اسی طرح سیاسی حالات بھی خراب ہیں جس کا اثر معاشی حالات پر بھی پڑ رہا ہے۔ پھر اس ریجن میں بھارت پاکستان کی کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ بھارت میں اندرونی طور پر بھی خبروں کے مطابق حالات کافی خراب ہیں اور دنیا کی عمومی حالت بھی ایسی ہے کہ لگتا ہے کہ یہ سب اپنی تباہی کو آواز دے رہے ہیں۔ مڈل ایسٹ کے حالات بھی اب خراب ہو رہے ہیں۔ ایران اور امریکہ اور اسرائیل کی جنگ کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ مسلمان ملکوں میں آپس میں اتحاد نہیں ہے۔ پس دنیا کے تباہی سے بچنے اور خدا کی طرف آنے کے لیے ہمیں بہت دعا کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے اور ان کو عقل اور سمجھ دے۔
نیا سال شروع ہوا ہے۔ ہم ایک دوسرے کو مبارک بادیں دے رہے ہیں لیکن اندھیرے گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ پس اس سال کے بابرکت ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس سال کو اس طرح بابرکت فرمائے کہ دنیا کی حکومتیں اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے دنیا کو تباہی کی طرف نہ لے جائیں بلکہ دنیا میں امن اور انصاف قائم کرنے والی ہوں۔ اپنی ذاتی اناؤں میں پڑ کر اپنے ملکی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے انسانیت کو تباہ کرنے کے درپے نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے۔ مسلمان ممالک ہیں تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ِصادق اور مسیح موعود اور مہدی معہودؑ کے ساتھ جڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو دنیامیں لہرانے میں مددگار بنیں اور یہ لوگ توحید کو دنیا میں قائم کرنے والے ہوں نہ کہ مسیح موعودؑ کی مخالفت میں اتنے بڑھ جائیں کہ اب تو انتہا کردی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم پہلے سے بڑھ کر زمانے کے امام کو ماننے کا حق ادا کرنے والے ہوں اور یہ حق ادا کرتے ہوئے دنیا میں توحید کا جھنڈا لہرانے والے ہوں اور دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے لانے والے ہوں اور اس کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور وسائل کو استعمال کرنے والے ہوں۔ اگر ہم یہ سوچ نہیں رکھتے اور اس سوچ کے ساتھ دعائیں نہیں کرتے اور اپنی دعاؤں کے ساتھ نئے سال میں داخل نہیں ہوتے تو ہمارے نئے سال کی مبارک بادیں سطحی مبارک بادیں ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں۔
پس نئے سال کی حقیقی مبارک باد ہم پر جو ذمہ داری ڈال رہی ہے اس کا ہر احمدی بڑے چھوٹے مرد عورت کو احساس ہونا چاہیے اور اس کے لیے اپنی تمام کوششوں اور صلاحیتوں کو استعمال کرنا چاہیے اور اپنی دعاؤں میں اور خدا تعالیٰ سے تعلق میں ایک خاص کیفیت پیدا کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہیے ۔تبھی ہم اس سال کی حقیقی برکتیں حاصل کرنے والے ہو سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل 24؍جنوری2020ءصفحہ 5تا10)