کامل تعلیم وہ ہے جس میں منفی اور مثبت دونو پہلو بتائے جائیں
ایک فرقۂ مذہبی کا ذکر آیا کہ وہ صرف چند باتوں کے ترک پر زور دیتے ہیں اور بس۔ فرمایا:
یہ تعلیم ناقص ہے۔ صرف ترک سے وصول نہیں ہوتا کیونکہ ترک مستلزم وصول نہیں۔ اس کی مثال اس طرح سے ہے کہ ایک شخص نےلاہور جانا ہے اور گورداسپور نہیں جانا۔ صرف اتنے سے کہ وہ گورداسپور نہیں گیا یہ امر حاصل نہیں ہو سکتا کہ وہ لاہور پہنچ گیا ہے۔ ترک معاصی اور شئے ہے اور نیکیوں کا حصول اور قرب الٰہی دوسری شئے ہے۔ عیسائیوں نے بھی اس معاملہ میں بڑا دھوکا کھایا ہے اور اسی واسطے انہوں نے کفارہ کا غلط مسئلہ ایجاد کیا ہے کہ یسوع کے پھانسی ملنے سے ہمارے گناہ دُور ہو گئے۔ اول تو یہ بات ہی غلط ہے کہ ایک شخص کا پھانسی ملنا سب کے گناہ دُور کر دے۔ دوم اگر گناہ دُور بھی ہو جاوے تو صرف گناہ کا موجود نہ ہونا کوئی خوبی کی بات نہیں ہے۔ بہت کیڑے مکوڑے اور بھیڑ بکریاں دنیا میں موجود ہیں جن کے ذمہ کوئی گناہ نہیں لیکن وہ خدا تعالیٰ کے مقربوں میں سے نہیں شمار ہو سکتے اور ایسا ہی کثرت سے اس قسم کے ابلہ اور سادہ لوح لوگ موجود ہیں جو کوئی گناہ نہیں کرتے نہ چوری، نہ زنا، نہ جھوٹ، نہ بدکاری ، نہ خیانت۔ لیکن ان گناہوں کے نہ کرنے کے سبب وہ مقربان الٰہی میں شمار نہیں ہو سکتے۔ انسان کی خوبی اس میں ہے کہ وہ نیکیاں اختیار کرے اور خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے کام کرے اور معرفت الٰہی کے مدارج حاصل کرے اور روحانیت میں ترقی کرے اور ان لوگوں میں شامل ہو جاوے جو بڑے بڑے انعام حاصل کرتے ہیں۔ اس کے واسطے قرآن شریف میں دونو باتوں کی تعلیم دی گئی ہے۔ ایک ترکِ گناہ اور دوم حصول قرب الٰہی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ابرار کی دو صفتیں ہیں ایک یہ کہ وہ کافوری شربت پیتے ہیں جس سے گناہوں کے جوش ٹھنڈے ہو جاتے ہیں اور پھر زنجبیلی شربت پیتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں مشکل گھاٹیوں کو طے کرتے ہیں۔ وہ آیت کریمہ اس طرح سے ہے۔
اِنَّ الۡاَبۡرَارَ یَشۡرَبُوۡنَ مِنۡ کَاۡسٍ کَانَ مِزَاجُہَا کَافُوۡرًا۔ عَیۡنًا یَّشۡرَبُ بِہَا عِبَادُ اللّٰہِ یُفَجِّرُوۡنَہَا تَفۡجِیۡرًا۔(الدھر:7-6)
پھر فرمایا:
وَ یُسۡقَوۡنَ فِیۡہَا کَاۡسًا کَانَ مِزَاجُہَا زَنۡجَبِیۡلًا (الدھر:18)
ایسے لوگ جو خدا میں محو ہیں خدا تعالیٰ نے اُن کو وہ شربت پلایا ہے جس نے ان کے دل اور خیالات اور ارادات کو پاک کر دیا۔ نیک بندے وہ شربت پی رہے ہیں جس کی مِلَونی کافور ہے وہ اس چشمہ سے پیتے ہیں جس کو وہ آپ ہی چیرتے ہیں۔ اور مَیں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ کافور کا لفظ اس واسطے اس آیت میں اختیار فرمایا گیا ہے کہ لغت عرب میں کفر دبانے اور ڈھانکنے کو کہتے ہیں۔ سو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے ایسے خلوص سے انقطاع اور رجوع الی اللہ کا پیالہ پیا ہے کہ دنیا کی محبت بالکل ٹھنڈی ہو گئی ہے۔ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ تمام جذبات دل کے خیال سے ہی پیدا ہوتے ہیں اور جب دل ان نالائق خیالات سے بہت ہی دُور چلا جاوے اور کچھ تعلقات ان سے باقی نہ رہیں تو وہ جذبات بھی آہستہ آہستہ کم ہونے لگتے ہیں یہانتک کہ نابود ہو جاتے ہیں۔ سو اس جگہ خدا تعالیٰ کی یہی غرض ہے اور وہ اس آیت میں یہی سمجھاتا ہے کہ وہ اس کی طرف کامل طور سے جھک گئے۔ وہ نفسانی جذبات سے بہت ہی دُور نکل گئے ہیں اور ایسے خدا تعالیٰ کی طرف جھکے کہ دنیا کی سر گرمیوں سے اُن کے دل ٹھنڈے ہو گئے اور ان کے جذبات ایسے دب گئے جیسا کہ کافور زہریلے مادوں کو دبا دیتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ وہ لوگ اس کافوری پیالہ کے بعد وہ پیالے پیتے ہیں جن کی ملونی زنجبیل ہے۔
اب جاننا چاہیے کہ زنجبیل دو لفظوں سے مرکب ہے یعنی زَنَا اور جَبَلَ سے۔ اور زنا لغت عرب میں اوپر چڑھنے کو کہتے ہیں اور جبل پہاڑ کو۔ اس کے ترکیبی معنے یہ ہیں کہ پہاڑ پر چڑھ گیا۔ اب جاننا چاہیے کہ انسان پر ایک زہریلی بیماری کے فرو ہونے کے بعد اعلیٰ درجہ کی صحت تک دو حالتیں آتی ہیں۔ ایک وہ حالت جبکہ زہریلے مواد کا جوش بکلّی جاتا رہتا ہے اور خطرناک مادوں کا جوش رُو باصلاح ہو جاتا ہے اور سمی کیفیات کا حملہ بخیر و عافیت گزر جاتا ہے۔ اور ایک مہلک طوفان جو اٹھا تھا نیچے دب جاتا ہے۔ لیکن ہنوز اعضاء میں کمزوری باقی ہوتی ہے۔ کوئی طاقت کا کام نہیں ہو سکتا۔ ابھی مردہ کی طرح افتاںو خیزاں چلتا ہے۔ دوسری وہ حالت ہے کہ جب اصل صحت عود کر آتی ہے اور بدن میں طاقت بھر جاتی ہے اور قوت کے بحال ہونے سے یہ حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے کہ بلا تکلف پہاڑ کے اوپر چڑھ جاوے اور نشاط خاطر سے اونچی گھاٹیوں پر دوڑتا چلا جاوے۔ سو سلوک کے تیسرے مرتبہ میں یہ حالت میسر آتی ہے۔ ایسی حالت کی نسبت اللہ تعالیٰ آیت موصوفہ میں اشارہ فرماتا ہے کہ انتہائی درجہ کے باخدا لوگ وہ پیالے پیتے ہیں جن میں زنجبیل ملی ہوئی ہے یعنی وہ روحانی حالت کی پوری قوت پا کر بڑی بڑی گھاٹیوں پر چڑھ جاتے ہیں اور بڑے مشکل کام اُن کے ہاتھ سے انجام پذیر ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی راہ میں حیرت ناک جانفشانیاں دکھلاتے ہیں۔
اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ علم طب کی رو سے زنجبیل وہ دوا ہے جسے ہندی میں سونٹھ کہتے ہیں۔ وہ حرارت غریزی کو بہت قوت دیتی ہے اور دستوں کو بند کرتی ہے اور اس کا زنجبیل اسی واسطے نام رکھا گیا ہے کہ گویا وہ کمزور کو ایسا قوی کرتی ہے اور ایسی گرمی پہنچاتی ہے جس سے وہ پہاڑوں پر چڑھ سکے۔ ان متقابل آیتوں کے پیش کرنے سے جن میں ایک جگہ کافور کا ذکر ہے اور ایک جگہ زنجبیل کا، خدا تعالیٰ کی یہ غرض ہے کہ تا اپنے بندوں کو سمجھائے کہ جب انسان جذبات نفسانی سے نیکی کی طرف حرکت کرتا ہے تو پہلے پہل اس حرکت کے بعد یہ حالت پیدا ہوتی ہے کہ اس کے زہریلے مواد نیچے دبائے جاتے ہیں اور نفسانی جذبات روبکمیہونے لگتے ہیں جیسا کہ کافور سے زہریلے مواد کا جوش بالکل جاتا رہے۔ اور ایک کمزور صحت جو ضعف کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے حاصل ہو جاتی ہے تو پھر دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ وہ ضعیف بیمار زنجبیل کے شربت سے قوت پاتا ہے اور زنجبیلی شربت خدا تعالیٰ کے حسن و جمال کی تجلی ہے جو روح کی غذا ہے۔ جب اس تجلّی سے انسان قوت پکڑتا ہے تو پھر بلند اور اونچی گھاٹیوں پر چڑھنے کے لائق ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ایسی حیرت ناک سختی کے کام د کھلاتاہے کہ جب تک یہ عاشقانہ گرمی کسی کے دل میں نہ ہو، ہر گز ایسے کام دکھلا نہیں سکتا۔ سو خدا تعالیٰ نے اس جگہ ان دو حالتوں کے سمجھانے کے لیے عربی زبان کے دو لفظوں سے کام لیا ہے۔ ایک کافور جو نیچے دبانے والے کو کہتے ہیں اور دوسرے زنجبیل جو اوپر چڑھنے والے کو کہتے ہیں۔ اور اس راہ میں یہی دو حالتیں سالکوں کے لیے واقع ہیں۔
(ملفوظات جلد 9صفحہ 28۔32۔ایڈیشن 1984ءمطبوعہ انگلستان)
٭…٭…٭