سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام: حضرت اقدس ؑ کی نمازوں کا بیان(حصہ دوم)

(’اے ولیم‘)

حضرت اقدس ؑ کی نمازوں کا بیان(حصہ دوم)

رفع یدین

جیسا مَیں نے بیان کیا ہے کہ ہاتھ باندھنے میں اختلاف ہے۔اور حضرت مسیح موعود ؑ اور ان کے مذکورہ بالا خدام فلاں طرز پر باندھتے ہیں ۔اسی طرح یہ بھی جاننا چاہیے کہ رفع یدین میں بھی اختلاف ہے (یعنی رکوع کو جاتے ہوئے اور اٹھنے کے بعد نیچے جاتے ہوئے) اور دوسری رکعت کے بعد بیٹھ کر پھر اٹھتے ہوئے تکبیر کہتے ہوئے کانوں تک ہاتھوں کو اس طرح اٹھانا جیسا کہ پہلی تکبیر کے وقت اٹھاتے ہیں )اور اختلاف یہ ہے کہ بعض ان مقاموں پر ہاتھ اٹھاتے ہیں اور بعض نہیں اٹھاتے۔اور حضرت مسیح موعودؑ اور ان کے مذکورہ بالا خدام ان مقاموں پر رفع یدین نہیں کرتے ہاں اگر کوئی ان کے سامنے کرے تو اس پر اعتراض بھی نہیں کرتے…

بلند آواز سے آمین کہنا

امام کے ساتھ نماز پڑھنے کی حالت میں ایک اَور مسئلہ میں بھی بہت کچھ نزاع ہے اور وہ ہے بلند آواز سے آمین کہنے کا۔لیکن حضرت مسیح موعود ؑ کا عمل درآمد (جو کہ ترجیح اور ثبوت کے لیے حجت قاطعہ ہے اور حجت قاطعہ بھی ایسی کہ جس پر ہر ایک عقلمند مومن حلف کھا سکتا ہے کہ خدائے علیم کو یہ پسند ہے) یہی ہے کہ آپ بلند آواز سے آمین نہیں کہتے اور نہ کسی کہنے والے پر کوئی اعتراض کرتا ہے…

سجدہ سہو

سجدہ سہو یوں ہوتا ہے کہ آخری اَلتَّحِیَّاتُ ختم کر کے سلام پھیر کر یا سلام سے پہلے اَللّٰہُ اَکْبَرُکہہ کر نماز کے دو سجدوں کی مانند دو سجدے کرے اور پھر سلام پھیر دے۔عام طور پر حنفی لوگ ایسا کرتے ہیں کہ اگر نماز میں امام سے کوئی بھول ہو گئی ، اور نماز ختم کر کے کوئی بات ہو گئی، تو پھر نئے سرے نماز پڑھتے ہیں ۔اور باتوں کے بعد سجدہ سہو کافی نہیں سمجھتے خواہ وہ اس سہو ہی کے متعلق ہوں ۔

لیکن یہاں پر حدیث کے موافق سہو کے متعلق بات چیت ہو کر بھی نماز کو دہراتے نہیں بلکہ سجدہ سہو کر لیتے ہیں ۔سفر میں سوا مغرب کی نماز کے اور سب نمازیں دو رکعت پڑھتے ہیں ۔اور سنتیں نہیں پڑھتے ہاں وتر پڑھتے ہیں ۔اور سفر میں اکثر اوقات ظہر اور عصر کو اور مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھتے ہیں ۔یعنی ایک ہی وقت میں پہلے ایک اور پھر دوسری نماز پڑھ لیتے ہیں ۔اور جب جمع کرتے ہیں تو اذان ایک ہی ہوتی ہے اوراقامت دو دفعہ۔اور کبھی سخت بارش یا بیماری کی وجہ سے بھی جمع کرتے ہیں ۔جیسی سفر میں جمع کرتے ہیں اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔

سفری نماز اور حد سفر

سفر میں بارہا ایسا اتفاق ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ بہت دن ایک مقام پر رہے ہیں اور حضرت سے دریافت کرتے رہے ہیں کہ سفری نماز پڑھیں یا پوری۔تو حضور ؑ نے فرمایا ہے کہ چونکہ ہمارا خود رہنے کا مصمم ارادہ نہیں تو ایسے تردد کی حالت میں خواہ بہت دن رہیں تو بھی قصر یعنی سفری نماز پڑھنی چاہیے۔حد سفر کی نسبت بہت دفعہ سوال ہوا ہے تو حضور ؑ نے یہی فرمایا ہے کہ شریعت میں کوئی حد مقرر نہیں جس کو عرف عام میں سفر کہا جاتا ہے اس میں قصر کرنا چاہیے۔چنانچہ حضور کا معمول یہی دیکھا ہے کہ گورداسپور ، بٹالہ کو جب تشریف لے جاتے ہیں تو سفری نماز پڑھتے ہیں ۔

وتروں کی ادائیگی کا طریق

وتروں کی نسبت بہت سوال ہوتا رہتا ہے کہ ایک پڑھا جائے یا تین۔اور یہ بھی کہ اگر تین ہوں تو پھر کس طرح پڑھے جائیں ۔تو ان میں حضور کا یہ حکم ہے کہ ایک رکعت تو منع ہے اور تین اس طور پر پڑھتے ہیں کہ دو رکعتوں کے بعد اَلتَّحِیَّاتْ پڑھ کر سلام پھیر دیتے ہیں ۔اورپھر اٹھ کر ایک رکعت پڑھتے ہیں اور کبھی دوکے بعد اَلتَّحِیَّاتْ پڑھتے ہیں اور سلام پھیرنے سے پہلے اٹھ کر تیسری رکعت پڑھتے ہیں ۔

نماز کے بعد پڑھے جانے والے مسنون کلمات:

صلوٰۃ کے ختم کے بعد مسنون طریق ہے کہ یہ کلمات پڑھے جائیں۔

رَبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَمْ وَ اَنْتَ خَیْرُ الرَّاحِمِیْنَ۔اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الْعَظِیْمَ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔اَللّٰھُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا اَعْطَیْتَ وَ لَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَ لَا رَآدّ لِّمَا قَضَیْتَ وَ لَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ۔اَللّٰھُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَ مِنْکَ السَّلَامُ وَ اِلَیْکَ یَرْجِعُ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْاِکْرَامِ۔

(اے میرے رب پہلے قصوروں کے بد نتائج سے اور آئندہ قصور سے بچا اور رحم کر اور تُو سب رحم کرنے والوں سے بہتر رحم کرنے والا ہے۔مَیں اللہ سے مغفرت چاہتا ہوں ۔ مَیں اللہ سے مغفرت چاہتا ہوں ۔مَیں اس اللہ عظیم سے مغفرت چاہتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اور اسکا کوئی شریک نہیں ہے اور مَیں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے بھیجے ہوئے ہیں ۔اے اللہ اس شے کو کوئی روکنے والا نہیں جو کہ تُو دے اور نہ اس کو کوئی دینے والا ہے جس کو تو روک دے اور نہ اس کو کوئی رد کر سکتا ہے جو کہ تُو حکم دے اور نہ کوشش والے کی کوشش اس کو تجھ سے بچا سکتی ہے۔اے اللہ تُو سلام ہے اور سلامتی تیری طرف سے ملتی ہے اور سلامتی کا مرجع تُو ہی ہے تُو بڑی برکت والا ہے اے جلال اور عزت والے)

اور 33دفعہ سُبْحَانَ اللّٰہِ (اللہ پاک ہے)اور 33 دفعہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ (سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے)اور 33دفعہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ (اللہ بہت بڑا ہے)اور ایک دفعہ کہے

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ ،لَہُ الْمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ

(اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے۔اور اس کاشریک کوئی نہیں ہے اس ہی کے لیے سب تعریفیں ہیں اور وہ ہر ایک چاہی ہوئی بات پر قادر ہے)

(رسالہ تعلیم الاسلام جلد1نمبر5صفحہ 188-171نومبر1906ء)

طریقِ نماز

حضرت حافظ صوفی غلام محمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“سادگی آپ پر قربان۔نماز میں بڑے اقبال علی اﷲ متوجہ الی اﷲ ہو کر کھڑے ہوتے۔سینے پر ہاتھ باندھتے۔بالکل اپنے محبوب کے آگے ہمہ تن متوجہ۔سب دنیا سے منقطع اور متبتل الی اﷲ۔تمام ارکان صلوٰۃ ٹھہر ٹھہر کر ادا کرتے۔نماز کے تشہد میں رفع السبابۃ کرتے۔اوّل وقت پر باجماعت نماز پڑھتے۔تہجد کی تاکید فرماتے۔میں نے خود دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اوّل رات کو عشاء کی نماز کے بعد وتر پڑھ لیا کرتے تھے۔دوسلاموں میں تین رکعت پڑھا کرتے۔پہلے دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیتے۔پھر تیسری رکعت پڑھتے اور رکوع کے بعد دُعائےقنوت پڑھتے۔اکثر سُنتیں گھر میں پڑھا کرتے۔سنن کی بارہ رکعات حضور پڑھا کرتے تھے۔ظہر کی چھ رکعات۔مغرب کی دو رکعتیں ۔عشاء کی دو اور فجر کی دو رکعتیں ۔جمعہ کی نماز فرض کے بعد دو رکعتیں مسجد میں پڑھا کرتے تھے۔مولوی نور الدین صاحب فرماتے تھے۔دو رکعت گھر میں پڑھتے ہیں ۔” (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد7صفحہ 282روایت حافظ صوفی غلام محمد صاحبؓ)

حضرت میاں علی محمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“ایک دفعہ میں نے حضور کو نماز سنت پڑھتے ہوئے دیکھا کہ حضور نے ہاتھ ناف سے اوپر باندھے ہوئے تھے اور اس طرح پر کہ دائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی بائیں کہنی تک نہیں پہنچتی تھی۔بلکہ کچھ پیچھے ہی رہتی تھی اور سجدہ کرتے وقت دونوں ہاتھوں کے درمیان ماتھا اور ناک زمین پر رکھتے تھے اور انگلیاں سیدھی کعبہ کی سمت ہوتی تھیں ۔جب آپ سجدہ سے اٹھتے تھے تو حضور کی دستار مبارک ڈھیلی ہونے کی وجہ سے پیچھے ہٹ جاتی تھی تو سجدہ سے اٹھنے کے ساتھ ہی انگلی سے دستار مبارک آگے کر لیتے تھے۔یہ سنت حضور نے مسجد اقصیٰ میں اپنے والد ماجد کی قبر کے جنوب میں کھڑے ہوکر پڑھیں اور پھر حضرت مولوی نورالدین صاحب نے نماز پڑھائی۔اور حضور حضرت میاں بشیر احمد صاحب ،حضرت میر محمد اسحاق صاحب اور حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کے ساتھ گھر کی طرف آگئے اور چھوٹی مسجد کے نیچے گلی والے دروازے میں سے حضور اندر تشریف لے گئے اور حضرت میاں بشیر احمد صاحب، حضرت میاں عزیز احمد صاحب، حضرت میر محمد اسحاق صاحب باہر کی طرف چلے گئے۔”(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد3صفحہ212روایت میاں علی محمد صاحبؓ)

حضرت منشی برکت علی صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“ایک دفعہ مسجد اقصیٰ میں مجھے نماز جمعہ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔نماز حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے پڑھائی۔حضرت مسیح موعودؑ تشریف لاکر قبر کے نزدیک بیٹھ گئے۔میں بھی موقع پاکر پاس ہی بیٹھ گیااور نماز میں حضورؑ کی حرکات کو دیکھتا رہا کہ حضور کس طرح نماز ادا فرماتے ہیں حضور نے قیام میں اپنے ہاتھ سینے کے اوپر باندھے مگر انگلیاں کہنی تک نہیں پہونچتی تھیں۔ آپ کی گردن ذرا دائیں طرف جھکی رہتی تھی۔نماز کے بعد یہ مسئلہ پیش ہوگیا کہ کیا نماز جمعہ کے ساتھ عصر بھی شامل ہوسکتی ہے یا نہیں ۔چنانچہ حضور کے ارشاد کے مطابق اس دن نماز عصر جمعہ کے ساتھ جمع کرکے ادا کی گئی۔”

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد4صفحہ 142روایت منشی برکت علی صاحبؓ)

حضرت حافظ نبی بخش صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“جماعت آپ نہ کرواتے تھے۔ایک دفعہ عصر کی نماز میں نے بھی پڑھائی تھی۔اور حضرت صاحب نے میرے پیچھے نماز ادا فرمائی تھی۔اکثر میاں جان محمد صاحب، حضرت مولوی عبدالکریم صاحب و حضرت مولوی نورالدین صاحب کروایا کرتے تھے۔حضرت صاحب نماز میں ہاتھ سینے پر باندھتے تھے۔رفع یدین نہ کرتے تھے۔آمین بھی آہستہ کہتے تھے۔کم ازکم میں نے اونچی کبھی نہیں سنی۔سنت گھر پر پڑھا کرتے۔سوائے اس کے کہ مسجد میں کوئی تقریر کرنی ہو۔نماز سے پہلے یا بعد۔”

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد6صفحہ 301روایت حافظ نبی بخش صاحبؓ)

حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوریؓ بیان کرتےہیں :

“حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک دفعہ میں نے نماز جمعہ سے پہلے دو رکعت سنت پڑھتے ہوئے دیکھا آپ کا رکوع۔قیام۔قومہ جلسہ درمیانہ تھا ہر ایک رکن میں اطمینان اور تسلی ہوتی تھی پھر میں نے ہاتھ باندھنے کی کیفیت دیکھی کہ سینے پر ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر تھا اور دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور چھنگلی سے بازو پکڑا ہوا تھا اور تینوں درمیانی انگلیاں سینے پر تھیں اور کہنیوں کے جوڑ سے ورلی طرف ملی ہوئی تھیں ۔

ایک دفعہ حضرت مسیح مو عود علیہ السلام نماز میں کھڑے ہوئے تھے کہ آپ نے ناک کو دائیں ہاتھ سے کھجلایا۔ایسا ہی ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ آپ نے قیام میں دائیں پاؤں سے بائیں پاؤں کو کھجلایا (اس سے معلوم ہوا کہ عندالضرورت آدمی کھجلا سکتا ہے)”

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد8صفحہ67 روایت محمد ابراہیم صاحبؓ بقاپوری)

حضرت میاں عبد الرشید صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز ادا کی ہے۔حضور کے ہونٹ حرکت کرتے تھے مگر آواز نہ سنائی دیتی تھی۔

میں نے نماز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ہے کہ آپ ہاتھ اس طرح باندھتے تھے کہ آپ کے بائیں ہاتھ کا پہنچا دائیں ہاتھ کے پہنچے کے بالکل نیچے ہوتا تھا۔”

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد11صفحہ 34روایت میاں عبدالرشید صاحبؓ)

……………………………………………………………(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button