حضرت امّاں جان (امّ المومنین حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا)
خدا تعالیٰ جو کہ مالک ہے آسمانوں اور زمین کااور اس میں چلنے والے نظام کا۔ ہر امر کا فیصلہ اُسی کے حکم اور اِذن سے ہوتا ہے۔ تقدیر الٰہی بالخصوص اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسولوں اور برگزیدوں کی زندگیوں میںایک خاص رنگ میں کام کرتی ہے۔ ایک عام انسان اس کی کنہ تک پہنچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اور عام انسان تو کیا بعض دفعہ تو انبیاء بھی ان حکمتو ں اور بشارتوں کو سمجھ نہیں پاتے۔ ہاں جب خود خدا تعالیٰ ان رازوں کو افشا ءفرماتا ہے تو بے ساختہ سبحا ن اللہ! اور اللہ اکبر! کی صدائیں دلوں سے اٹھتی ہیں اور عرش سے جا ٹکراتی ہیں ۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو 1865ء میں ایک الہام کے ذریعہ خداتعالیٰ نے یہ بشارت دی کہ ثَمَانِیْنَ حَوْلاًاَوْقَرِیْبًامِّنْ ذَالِکَ وَتَزِیْدُ عَلَیْہِ سِنِیْنًاوَّتَرٰی نَسْلاً بَعِیْدًا(تذکرہ۔ ص5)۔ کہ تیری عمر اسّی یا اس سے قریب ہوگی۔ اور تو اس قدر عمر پا ئے گا کہ ایک دور کی نسل کو دیکھ لے گا۔ دوسری طرف اُسی رحمان خدا کی رحمانیت نے ایک اور فیصلہ فرمایا اور اُسی سال 1865ء میں دہلی کے ایک سادات خاندان میں حضرت میر ناصر نواب صاحب کےہا ں ایک بچی کی ولادت باسعادت ہوئی۔ یعنی حضرت نصرت جہا ں بیگم صاحبہ جس نے آگے چل کر اُسی مبشر اور مبارک نسل کی ماں بننا تھا جس کی خوشخبری خداتعالیٰ نے اپنے پیارے مسیح کو دی تھی۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ان کے با رے میں فرمایا کہ خداتعالیٰ نے مجھے لڑکو ں کی بشارت دی اور وہ اس بی بی کے بطن سے پیدا ہوئے۔ اس لیے میں اِسے شعائراللہ سے سمجھ کر اس کی خاطرداری رکھتا ہوں۔
حضرت اُم المومنین نصرت جہاں بیگم صاحبہ کا تعلق سادات سے تھا۔ آپ کے بزرگوں کی ابتداخود آنحضرتﷺ کے وجود مبارک سے ہوئی۔ حضرت اُم المومنین کا خاندان حسینی سادات کا خاندان تھا۔ اس خاندان کے مورث اعلیٰ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ اس طرح حضرت مسیح موعودؑ کی وہ عظیم الشان پیشگوئیاں اپنی پوری سچائی کے ساتھ ظاہر ہوئیں جن میں خدائے ذو الجلال و الاکرام نے آپ کومخاطب کر کے فرمایاتھا:
1۔میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری ایک اَور شادی کروں۔ یہ سب سامان میں خود ہی کروں گا۔ اور تمہیں کسی بات کی تکلیف نہیں ہو گی۔
2۔اُشْکُرْ نِعْمَتِیْ رَأَیْتَ خَدِیْجَتِیْ یعنی تُو میرا شکر کر کہ تُونے میری خدیجہ کو پایا۔
آپؑ فرماتےہیں یہ بشارت کئی سال پہلے اس نکاح کی طرف تھی جو سادات کے گھر دہلی میں ہوا۔ اور خدیجہ اس لیے میری بیوی کا نام رکھا کہ وہ ایک مبارک نسل کی ماں ہے۔
3۔پھر الہام ہوا یعنی وہ خداسچا خدا ہے جس نے تمہاری دامادی کا تعلق ایک شریف قوم سے جو سید تھے کیا اور خود تمہارے نسب کو شریف بنایا جو فارسی خاندان اور سادات سےمعجون مرکب ہے۔
حضرت اُم المومنین کے آباؤ اجداد میں بڑے بڑے ولی اور بزرگ گزرے جن میں ایک بہت بڑا اور بلند مرتبہ نام حضرت خواجہ سید محمد ناصر عندلیب کا تھا۔
حضرت خواجہ ناصر صاحب دن رات عبادت اور ریاضت میں گزارتے، روزے رکھتے، چلّہ کشی کرتے، ساری ساری رات نوافل پڑھتے اور مراقبے کھینچتے۔ مسجد کے نمازی اور گھر کے لوگ حجرے میں جھانک کر دیکھتے کہ کہیں فوت تو نہیں ہوگئے۔ ایک دفعہ اسی طرح حجرے میں بیٹھے بیٹھے سات دن اور چھ راتیں گزرگئیں، ساتویں رات بھی آدھی گزر چکی تھی۔ موسم سخت گرم تھا۔ بھوک اور پیاس کی سختی سے آپ پر ضعف کی حالت طاری تھی کہ آزمائش کی گھڑی ختم ہو گئی۔ تاریک کمرہ ایک دم غیر معمولی روشنی سے منور ہو گیا اور ایک خوبصورت نو جوان جس کے سر پر ایک جواہر نگار تاج تھاسامنے آیا اور آگے بڑھ کر آپ کا ہاتھ پکڑلیا اور اپنے سینہ سے لگا کر علومِ معرفت ان کے سینہ میں بھر دیے ۔اور عالم روحا نی میں ان کی بیعت بھی لی۔اور پوچھنے پر بتایا کہ میں حسن مجتبیٰ ابن علی مرتضیٰ ہوں اور آنحضرتﷺ کی منشا سے خدا تعالیٰ نے تمہارے پاس بھیجا ہےتا تجھے ولایت اور معرفت میں مالامال کروں۔ اور ایک خاص نعمت تھی جو خانوادۂ نبوت نے تیرے واسطے محفوظ رکھی تھی۔ اس کی ابتدا تجھ پر ہو ئی ہے اور انجام اس کا مہدی معہودپر ہو گا۔
حضرت خواجہ ناصر عندلیب کا انتہائی مبارک کشف اُس وقت حقیقت بن کر ظاہر ہوا جب اس خاندان کی بیٹی ‘نصرت جہاں’ مہدی معہود کے نکا ح میں آئیں۔ اور وہ خاص نعمت جس کی ابتدا حضرت خواجہ ناصر عندلیب سے ہوئی تھی اس کا انجام مہدی معہود پر ہوا۔
حضرت امّاں جان کا نام حضرت میر ناصر نواب صاحب نے نصرت جہاں بیگم رکھا۔ جس کےبارے میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ سادات کی دادی کا نام شہربانو تھا۔ اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہو گی اس کا نام نصرت جہا ں بیگم ہے۔ یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہےکہ خدانے تمام جہانوں کی مددکے لیے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے۔ یہ خداتعالیٰ کی عادت ہےکہ کبھی نامو ں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے۔
حضرت امّاں جان کا بچپن بہت ہی نیک، متقی، پرہیزگار، عبادت گزار والدین کی زیر تربیت گزرا۔ یوں تو خدائی تقدیر کے ماتحت ان کی حفاظت خود خداتعالیٰ کے فرشتے کررہے تھے کیو نکہ فاطمہ کی اس بیٹی نے آگے چل کر مسیح کی دلہن بننا تھا۔ اور اس اولاد کی ماں بننا تھا جس کی خبر خود خداتعالیٰ نے چودہ سو سال پہلے دی تھی کہ یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُلَہُ (ترجمہ) وہ شادی کرے گا اور اس کی اولاد ہوگی۔ حضرت امّاں جان کا دل ہمیشہ خداتعالیٰ کے ان احسانو ں پر حمدوثنا کے گیت گاتا رہا۔ خود حضرت امّاں جان نے اپنےدلی جذبا ت کا نقشہ اس طرح کھینچاہے:
ہے عجب میرے خدا میرے پہ احساں تیرا
کس طرح شکر کروں اے میرے سلطاں تیرا
سر سے پا تک ہیں الٰہی تیرے احساں مجھ پر
مجھ پہ برسا ہے سدا فضل کا باراں تیرا
تُو نے اس عاجزہ کو چار دیے ہیں لڑکے
تیری بخشش ہے اور یہ فضل نمایاں تیرا
چُن لیا تو نے مجھے اپنے مسیحا کے لیے
سب سے پہلے یہ کرم ہے مرے جاناں تیرا
(الحکم 17؍ نومبر 1900ء)
حضرت امّاں جان کی تعلیم گھر کی چار دیواری میں قرآن کریم اور اردو لکھنے پڑھنے سے شروع ہوئی جو حضرت میر ناصر نوا ب صاحب نے خود ہی کروائی۔ حضرت اُمّ المومنین بچپن ہی سے زیرک، ذہین و فہیم اور سلیقہ شعار تھیں۔ باوجود پنجاب میں پرورش پا نے کے آپ کا طرز زندگی بالکل دہلی کی قدیم تہذیب کے مطابق رہا۔ باوجود اس کے کہ آپ کو پنجابی زبان پر ایک قدرت حاصل تھی۔ لیکن اردو زبان پر آپ کو ایسا اقتدار حاصل تھا گویا کہ وہ دہلی سے کبھی جداہو ئی ہی نہیں۔
وہ پیشگوئیاں اور خدائی وعدے جو حضرت مسیح موعود ؑ سے آپ کی دوسری شادی کے متعلق کیے گئے تھے وہ اوپر بیان کیے جا چکے ہیں۔ اس کا انتظام خداتعالیٰ نے ایسے فرمایا کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں ایک خط لکھا کہ مجھے اپنی لڑکی کے واسطے بہت فکر ہے۔ آپ دعاکریں کہ خدا کسی نیک آدمی کے ساتھ تعلق کی صورت پیدا کر دے (حضرت میر صاحب ملازمت کے سلسلہ میں جب قادیان رہے تب ان کا تعلق حضور سے بنا اور وہ حضورؑکی نیکی اور تقویٰ کے بہت معتقد تھے)
اس کے جواب میں حضرت مسیح موعودؑ نے تحریر فرمایا میرا تعلق میری بیوی سے گویا نہ ہونے کے برابر ہے۔ مَیں اَور نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے خداتعالیٰ نے الہام فرمایا ہے کہ جیسا تمہارا عمدہ خاندان ہے ایسا ہی تم کو سادات سے عالی شان خاندان میں سے زوجہ عطا کروں گا اور اس نکاح میں بہت برکت ہوگی … اور یہ بھی لکھا کہ آپ مجھ پر نیک ظنی کر کے اپنی لڑکی کا نکاح مجھ سے کردیں۔ حضرت میر صاحب لکھتے ہیں پہلے تومیں نے کچھ تامل کیا کیو نکہ مرزا صاحب کی عمر کچھ زیادہ تھی اور بیوی بچہ موجود تھے اور ہماری قوم کے بھی نہ تھے۔ مگر پھرحضرت مرزا صاحب کی نیکی اور نیک مزاجی پر نظر کر کے جس کا میں دل سے خواہاں تھا میں نے اپنے دل میں مقررکر لیا کہ اسی نیک مرد سے اپنی دختر نیک اختر کا رشتہ کردوں۔
ایک روایت میں آتاہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے ایک دن حضرت میر ناصر صاحب سے دریافت کیا کہ کیا آپ کوئی ایسی نیکی بتا سکتے ہیں جس کے باعث آپ کی صاحبزادی حضرت مسیح موعودؑ کے نکاح میں آئیں۔ اس پر میر صاحب نے فرمایا اَور تو مجھے کچھ یاد نہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ جب سے یہ پیدا ہو ئی اُس دن سے لے کر جس دن میں نے ان کو ڈولی میں ڈالایہی دعا روزانہ کرتا رہا ہو ں کہ اے خدا تو اس کو بہت نیک کے پلّے باندھیو۔
جس تاریخ کو حضرت میر صاحب نے ہاں کا خط لکھا اس سے آٹھ دن بعد حضرت مسیح موعودؑ دوتین آدمیوں کولے کر دہلی آئے اور عصر اور مغرب کے درمیان خواجہ میر درد کی مسجد میں مولوی نذیر حسین صاحب محدث دہلوی نے نکاح پڑھایا۔ دونوں طرف سے رسم و رسوم نہ ہوئیں۔ ہر کام سیدھا سادھا اللہ اور اس کے رسول کے حکم کےمطابق ہوا۔ جہیز کا سامان ایک صندوق میں بند کرکے چابیاں حضرت صاحب کو دے دی گئیں اور حضرت امّاں جان حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ رخصت ہوکر قادیان تشریف لے آئیں۔ گوکہ دونوں جانب کے خاندان اس تعلق پر خوش نہیں تھے مگر آسمان پر خداکے فرشتے حمدوثنا کے گیت گا رہے تھے۔ دنیاوی لحاظ سےاس سادہ ترین رخصتی کے بعد حضرت اماں جان کی ایک نئی زندگی کا آغاز ہواجس میں ہمیں روحانیت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آتا ہے۔
معین وقت پر خالق نے مِضرابِ حسین چھیڑا
محبت اور اُخوت کے ہوئے نغمات پھر پیدا
چھٹے ظلمت کے بادل مہر حق بالائے بام آیا
زمین والو ں کو پھر سے نور و رحمت کا پیام آیا
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ لکھتے ہیں:
حضرت اُمّ المومنین کی روحا نی پاکیزگی اس قدر بڑھی ہو ئی تھی کہ خداتعالیٰ بہت سی باتیں آپ پر بھی کھول دیتا تھا جس طرح حضرت مسیح موعودؑ پر کھولا کرتا تھا۔ اس سے اس مناسبت کا پتہ چلتا ہے جو آپ کی روح کو حضرت مسیح موعودؑ کی روح سے تھی نیز اس روحانیت اور اس قلب کی طہارت کا پتہ چلتا ہے جس کی وجہ سے آسمانی طاقتوں کا وقتاً فوقتاً انعکاس ہوا کرتا تھا۔
قرآن نے جو مقصد انسان کے پیدا کر نے کا بیان فرمایا ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ حضرت اماں جان ہر رنگ میں اس مقصد پیدائش کو پورا کرنے والی ہستی تھیں۔
چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓبیان فرماتے ہیں:
‘‘آپ کی نیکی اور دینداری کا مقدم ترین پہلو نماز اور نوافل میں شغف تھا۔ پانچ نمازوں کا تو کیا کہنا۔ حضرت امّاں جان نماز تہجد اور نماز ضحی کی بھی بے حد پابند تھیں اور اُنہیں اس ذوق و شوق سے ادا کر تی تھیں کہ دیکھنے والوں میں بھی ایک خاص کیفیت پیدا ہونے لگتی تھی۔ بلکہ ان نوافل کے علاوہ بھی جب موقع ملتا نماز میں دل کا سکون حاصل کر تی تھیں … پھر دعا میں بھی حضرت اماں جان کو بے حد شغف تھا۔ اپنی اولاد اور ساری جماعت کے لیے جسے وہ اولاد کی طرح سمجھتی تھیں بڑے درد و سوز کے ساتھ دعا کیا کر تی تھیں اور احمدیت کی ترقی کے لیے ان کے دل میں غیر معمولی تڑپ تھی۔ اپنی ذاتی دعاؤں میں جو کلمہ ان کی زبان پرسب سے زیا دہ آتا ہے وہ یہ مسنون دعا تھی۔ یَاحَیُّ یَا قَیُّومُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ۔ یعنی اے میرے زندہ خدا اور میرے زندگی بخشنے والے آقا مَیں تیری رحمت کا سہارا ڈھونڈتی ہوں۔
صاحبزادی امۃ القیوم صاحبہ بیگم مرزا مظفر احمد صاحب تحریر کر تی ہیں :
حضرت اما ں جان کی نمازپڑھنے کی کیفیت بیان کرنا تو میرےبس کی بات نہیں۔ اتنی عاجزی اور انکساری ہوتی تھی جیسے سچ مچ اللہ میاں کے پاؤں پکڑے فریاد کر رہی ہوں۔ اتنا محکم یقین اور بھروسہ تھا اپنے قادر خداپر۔ یہ کیفیت محسوس تو کی جاسکتی ہے مگر بیان کرنا ممکن نہیں۔ حضرت امّاں جان قرآن شریف کثرت سے پڑھتی تھیں۔ جب نظر کمزور ہوگئی توآپ کسی نہ کسی کو بٹھا کر قرآن کریم کی تلاوت سنتی تھیں۔
حضرت مولوی غلام نبی صاحب بیان فرماتے ہیں جو انہوںنے اپنی بیگم کے ذریعہ معلوم کیا کہ جب ‘‘حضرت امّاں جان کو حضرت مسیح موعودؑ کی یاد کسی واقعہ یا ذکر کی وجہ سےآتی تو آپ فورًا قرآن شریف پڑھنے لگ جاتی تھیں اور کو ئی حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر کرتا اور اس سے بشری حالت کےتحت صدمہ محسوس کرتیں توبھی قرآن کریم کھول کر پڑھنے لگتی ہیں۔ حضرت اماں جان کا یہ عمل ہم سب کے لیےخضر طریقت ہے۔ قرآن کریم میں اطمینان اور تسلی کا ذریعہ ذکر اللہ بتایا گیا ہے اور قرآن مجید تو الذکر ہی ہے۔ حقیقت میں یہ نہایت ناقابل خطا نسخہ فکر و غم سے نجات پا نے کا ہے۔ جو چاہے اس کو آزماکر دیکھ لے’’۔
آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ نیک محمد صاحب غزنوی تحریر کرتی ہیں جب حضرت امّاں جان کی نظر کمزور ہوگئی تو فرمایا تم مجھے قرآن شریف سنایا کرو۔ اکثر اوقات آپ کی طبیعت نا ساز یا بےچین ہوتی تو ایک دفعہ سورۃ یٰس سنانے کو کہا۔ میں کچھ ہچکچائی۔ جس پر آپ نے فرمایاکہ یہ ایک خاص وقت کے لیے نہیں بلکہ یہ تو بے چینی، تکلیف اور گھبراہٹ کو دور کرتی ہے۔ اس ضمن میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں۔ ایک دفعہ حضرت امّاں جان کی آنکھیں دکھنے کو آئیں۔ بہت تکلیف تھی۔ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعودؑ دن میں تین تین بار حضرت اماں جان کو سورۃ یٰس سناتے تھے۔ حضرت اماں جان فرماتی تھیں کہ لوگوں نے اس سورۃ مبارکہ کو یوں ہی صرف موت کے لیے مخصوص کر دیا ہے۔
آپ کی بیماری اور کمزوری کے دنوں میں خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے کئی لڑکوں کو آپ کو قرآن کریم سنانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ان میں صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب اور مکرم میر محمود احمدصاحب کے نام شامل ہیں۔
ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب تحریر کر تے ہیں :
‘‘وفات کے دن صبح کے وقت جب میں ٹیکہ کر نے لگا تو آپ نے فرمایا قرآن شریف لے آؤ۔ میں نے عرض کی اماں جان ٹیکہ کر لیں پھر سن لیں۔ جس پر آپ نے اثبات میں سر سے اشارہ کیا۔ چنانچہ ٹیکہ کے بعد میر محمود صاحب نے قرآن شریف پڑھ کر سنایا اور وفات سے ایک گھنٹہ قبل رات 10:30بجے بھی امّاں جان نے فرمایا قرآن شریف سناؤ۔ جس پر میر محمود صاحب نے قرآن شریف سنایا’’۔
حضرت امّاں جان کو حضرت محمدﷺ سے حد درجہ محبت تھی۔ جس طرح آپ قرآن کریم سنتیں اس طرح صاحبزادگان سے کتب احادیث روزانہ سنتیں۔ کئی یتیم بچیوں سے جن کو آپ نے خود پالا تھا کسی ایک کو پاس بٹھا کر اس سے حدیث پڑھواکر سنتیں۔ نہ صرف احادیث سنتیں بلکہ بھر پور انداز میں ان پر عمل پیرا بھی ہوتیں۔ ایک مرتبہ ایک آدمی نے باغ کا پھل جبکہ آموں کو ابھی بُور ہی لگا تھا 600روپے میں خریدنے کے لیے منشی صاحب کی معرفت کہلا بھیجا۔ حضرت امّاں جان نے جواب میں انکار کردیا کہ یہ تو ناجائز ہے۔ جب باغ کو پھل لگا تو وہ بہت ہی کم قیمت میں بِکا۔ اس آدمی نے منشی صاحب سے کہا کہ 600روپے لے لیتے تو اچھا تھا اب دیکھیں کتنے کم روپے ملے ہیں۔ اس پر منشی صاحب نے جواب دیا ‘‘اماں جان اس کو ناجائز سمجھتی ہیں ایسے روپے کیسے لے لیتا’’۔
آپؓ کی رمضان المبارک کے مہینہ کی کیفیت کے بارے میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓبیان فرماتی ہیں :
رمضان المبارک میں آپ بہت زیادہ خیرات دیتیں۔ تین چار آدمیوں کا کھانا اکثر اپنے ہاتھ سے پکا کر دیتیں۔ ویسے نقدی اور جنس کی صورت میں بھی بے حد خیرات کرتیں۔ رمضان المبارک کے علاوہ محرم میں بھی صدقہ و خیرات بہت فرماتیں اور گھر میں بھی نوکروں وغیرہ کو اچھا کھلاتیں۔ فرماتیں ‘‘سال شروع ہے اور حضرت مسیح موعودؑ فرماتے تھے جو شروع سال میں خیرات کرے گا اور اپنے پر فراخی کر ے گا اس کو سال بھر فراخی رہے گی۔’’
مائی امام بی بی صاحبہ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت امّاں جان کا معمول ہے کہ روزہ کی حالت میں خاموش رہتی تھیں۔ آپ روزہ کی تقلید میں خاموشی ضروری سمجھتی ہیں۔ خاموشی میں ذکر الٰہی کر تی رہتی ہیں۔ خلوت میں ذکر الٰہی کو پسند کرتی ہیں جو اہل اللہ کا شیوہ ہے۔
حضرت امّاں جان کو حضرت مسیح موعودؑ پر پختہ اور بے مثال ایمان تھا آپ کو سب سے قریب سے دیکھنے والی آپ کی اہلیہ آپ کو آپ کے تمام دعاوی میں صادق اور راستباز یقین کرتیں۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ لکھتے ہیں مَیں نے والدہ صاحبہ سے دریافت کیاکہ آپ نے کب بیعت کی تھی۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا میرے متعلق مشہور ہے کہ میں نے بیعت سے توقف کیا اور کئی سال بعدبیعت کی ‘غلط ہے’ بلکہ میں کبھی بھی آپؑ سے الگ نہیں ہوئی۔ ہمیشہ آپؑ کےساتھ رہی اور شروع ہی سےاپنے آپ کو بیعت میں سمجھا اور اپنے لیے الگ بیعت کی ضرورت نہیں سمجھی۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ محمدی بیگم والی پیشگوئی کے بارے میں فرماتے ہیں:
حضرت امّاں جان کے تقویٰ اور توکل اور دینداری اور اخلاق کی بلندی کا سب سے زیادہ شاندار اظہار ذیل میں نظر آتا ہے۔
جب حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک دن دیکھا کہ حضرت امّاں جان علیحدگی میں نماز پڑھ کر بڑی گریہ و زاری اور سوز و گداز سے یہ دعا کر رہی ہیں کہ خدایا تو اس پیشگوئی کو اپنے فضل اور اپنی قدرت نمائی سے پورا فرما۔ جب وہ دعا سے فارغ ہوئیں تو حضرت مسیح موعودؑ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم یہ کیا دعا کر رہی تھی تم جانتی ہو کہ اس کے نتیجہ میں تم پر سوکن آتی ہے؟ حضرت امّاں جان نے بے ساختہ فرمایا خواہ کچھ ہو مجھے اپنی پروا نہیں۔ میری خوشی اسی میں ہے کہ خدا کے منہ کی بات اور آپ کی پیشگوئی پوری ہو … ’’اور شاید منجملہ دوسری باتوں کے یہ ان کی بےنظیر قربانی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مشروط پیشگوئی کو اس کی ظاہری صورت سے بدل کر دوسرے رنگ میں پورا فرمادیا’’۔
پھر حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نےاس واقعہ پر حسب ذیل نوٹ لکھا :
برادران یہ ایمان تو میں مسلمانوں کے مردوں میں بھی نہیں دیکھتا۔ کیا مبارک ہے وہ مرد اور مبارک ہے وہ عورت جس کا تعلق ایسا سچا اور ایسا مصفّا ہے۔
حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب چشم دید واقعہ تحریر کرتے ہیں :
جب حضرت مسیح موعودؑ کی وفات ہوگئی اور آپ کا جنازہ قادیان میں لایا گیا اور باغ کے کمرہ میں رکھا گیا مَیں حضرت کی آخری خدمت کے لیے وہاں بطور نگران متعیّن تھا۔ کیونکہ لوگ آتے اور زیارت کرتے جاتے تھے۔ اِسی اثناء میں حضرت اماں جان تشریف لے آئیں۔ آپ پائنتی کی طرف کھڑی ہو گئیں اور نہایت دردناک آواز میں فرمایا تُو نبیو ں کا چاند تھا تیرے سبب میرے گھر میں فرشتے اُترتے تھے۔
عشق الٰہی، خداتعالیٰ پر کامل یقین، قرآن کریم، آنحضرتﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کی عاشقہ صادقہ کو ان محبتوں اور حضرت مسیح موعودؑ کی حسین صحبت نے کُندن بنادیا تھا۔ اور آپ میں خُلق کا ہر پہلو ایسے اُجاگر ہوا جیسے چمکتا ہوا چاند آسمان پر۔
حضرت امّاں جان کے دل میں خلافت کے لیے حد درجہ عقیدت اور ادب و احترام تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاول ؓکی بیعت کےوقت مردوں کے بعد عورتوں کی بھی بیعت ہوئی اور سب سے پہلے حضرت امّاں جان نے بیعت کا شرف حاصل کیا۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓنے مستورات میں درس القرآن شروع کیا تو باوجود ضعف اور کمزوری کے سب سے پہلے حضرت امّاں جان دیگر خواتین مبارکہ کو ساتھ لے کر حضرت خلیفۃالمسیح الاول کے مکان پر حاضر ہوتیں۔ اور بعض اوقات درس کے انتظار میں دو دو گھنٹے صَرف ہو جاتے۔ آپ اپنے لیے کو ئی امتیاز روا نہ رکھتی تھیں۔ معمولی چٹائی کے فرش پر بیٹھ جاتی تھیں۔
سید محمود عالم صاحب صحابی بیان کر تے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓنے ایک مرتبہ فرمایا کہ مجھ سے حضرت اماں جان نے ایک دفعہ کہا کہ خداتعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے چاہتی ہوں کہ میں آپ کا کوئی کام کروں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓنے ایک طالب علم کی پھٹی پرانی رضائی مرمت کروانے کے لیے بھیج دی۔ حضرت اماں جان نے نہایت خوش دلی سے اس رضائی کی مرمت اپنے ہاتھ سے کی اور اُسے درست کر کے واپس بھیج دیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ نے بار ہا فرمایا کہ بیوی جی نے میری جو اطاعت اور ادب و احترام کیا وہ ایک مثال ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ اگرچہ آپ کے بیٹے تھے لیکن خلیفہ ہو نے کی وجہ سے آپ کا مقام نہایت ادب کا تھا جو حضرت اماں جان کو ہمیشہ پیش نظر رہتا۔ اور جو احکام اور ارشاد خلیفہ وقت کی طرف سے آتے آپ ان پر عمل کرنا ضروری سمجھتیں۔ وہ اخلاق فاضلہ جوقرآن بیان فرماتا ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت ﷺ کے بارہ میں گواہی دی تھی کہ آپ ﷺ کے اخلاق تو قرآن تھے۔
حضرت اماں جان بھی آنحضرت ﷺ کے مبارک نقشِ قدم پر چلنے کی ہر ممکن کو شش کرتی تھیں۔ اگر ان میں سےتمام اخلاق حسنہ کی تفصیل بیان کی جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جائے گی۔ اس مختصر مضمون میں توان اخلاق کےصرف نام بھی بیان نہیں کیے جاسکتے ہیں۔
مہمان نوازی کاذکر کروں تو سب سے پہلی ‘‘افسر لنگر خانہ’’ حضرت اماں جان تھیں۔ خلقت کا ایک ہجوم تھا جو دن اور رات دارالمسیح میں حاضر ہوتا تھا۔ شروع کا ایک لمبا عرصہ تو کھانا حضرت اماں جان کے گھر ہی سے جاتا تھا۔ ملک کے مختلف حصوں سے فرق فرق قوموں اور مزاجوں سے لوگ جمع ہوتےتھے۔ ان سب کی عادتوں اور خواہشوں کے مطابق ان کی مہمان نوازی اور وہ بھی پوری خوش دلی سے صرف خدا کی رضاکی خاطر ایک انتھک محنت چاہتی تھی اور پھر مالی مشکلات کی صورت میں اپنے زیور تک پیش کر دینا یہ اُمّ المومنین کا ہی حصہ تھا۔ جن کو خدانے خَدِیْجَتِیْ فرمایا تھا۔
حضرت خدیجہؓ کی طر ح آپ بھی ہر وقت اپنے مال کو خدا اور اس کے مسیح کی خدمت کے لیے حاضر کرنے کو تیار رہتیں۔
ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر خرچ نہ رہا۔ حضرت میر ناصر نواب صاحب نے آکر عرض کی کہ رات کو مہمانوں کےلیے کوئی سالن نہیں ہے۔ حضور ؑنے فرمایا :بی بی صاحبہ (حضرت اماں جان) سے کوئی زیور لے کر جو کفایت کر سکے فروخت کر کے سامان کر لیں۔ چنانچہ زیور فروخت یا رہن کرکے میر صاحب روپیہ لے آئے اور مہانوں کے لیے سامان بہم پہنچایا۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں :
جماعتی چندوں میں بھی حضرت امّاں جان بڑے ذوق و شوق سے حصہ لیتی تھیں اور تبلیغ اسلام کے کام میں ہمیشہ اپنی طاقت سے بڑھ کر چندہ دیتی تھیں۔
مکرمہ اُستانی سکینۃالنساء صاحبہ تحریر کر تی ہیں :
صدقہ وخیرات میں سب سے زیادہ حصہ لیتی ہیں، چندہ اپنی خاص جیب سے ادا فرماتیں یعنی ہر ایک نئی تحریک ضرورت قومی کا چندہ بلکہ کئی دفعہ یہ اراداہ ظاہر فرمایا ہے کہ حضرت زینب چمڑہ رنگ کر چندہ ادا فرماتی تھیں میرا بھی جی چاہتا ہےکوئی ایسا کام کر کے چندہ دوں کہ ثواب زیادہ ملے۔تحریک جدیدمیں ہزاروں روپیہ چندہ ادا فرمایا۔
مکرمہ امۃ القیوم ناصرصاحبہ جن کواپنے بچپن سے لے کرحضرت امّاں جان کے آخری دنوں تک مختلف مواقع پر آپ کی صحبت اور خدمت کی سعادت ملتی رہی اپنے ایک مضمون میں تحریر کرتی ہیں:
حضرت اماں جان ؓکی پاکیزہ نیک فطرت اور پھر حضرت مسیح موعودؑ کی صحبت اور تربیت نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شخصیت کوبہت پیارابنادیاتھا۔آپ نہایت خوش مزاج ،سلیقہ شعار،مخلوق خدا کی سچی خیرخواہ ،ہمدرد، خدمتگار اور ہر ایک سے محبت کا سلوک کر نےوالی تھیں۔ سب یہ سمجھتے تھے کہ بس سب سے زیادہ مجھ سے پیار ہے۔ آپ نہایت درجہ صابر شاکر تھیں۔کسی مصیبت میں نہ گھبراتیں ،خدا تعالیٰ پر کامل توکّل تھا ۔مشکل وقت میں دعا میں لگ جاتیں۔ آپ کادل محبت کا ایک سمندر تھا… پھر تحریر کر تی ہیں حضرت اماں جان نے حضرت مسیح موعودؑ کواپنے آقاحضرت محمد ﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دیکھا۔ چنانچہ آپ انہیں اخلاق کا نمونہ بن گئیں۔ مثلاً اُمّ المساکین، بیوہ عورتوں کی سرپرست،یتیموں کی ماں، قیدیوں کے لیے پُرشفقت۔ آپ قرآن کریم کی تعلیم اور اُسوۂ رسول پر عمل کرتے ہو ئے اور حضرت مسیح موعود ؑکی تر بیت کے اثر سے ہر شکستہ خاطراور مخلوق کے دھتکارے ہوئے بےکسوں کی پناہ تھیں۔کئی بیوہ عورتیں اور ضعیف بےسہارا خاندان آپ کی سر پرستی میں بڑھے ،پھلے پھولے اور آرام کی زندگی بسر کر تے رہے۔ آپ نے اُن بیوہ عورتوں کی ہر طرح سر پرستی کی،بچوں کی تعلیم و تربیت ان کی خوراک اور پو شاک اور شادیو ں میں مادرانہ شفقت کا عملی مظاہرہ کیا۔
پھر یہ مادرمہر بان فجر کی نما ز اور تلاوت قرآن کریم کے بعد صبح کی سیر کے لیے تشریف لے جاتیں۔ روزانہ کچھ خوش نصیبوں کی باری ہوتی کہ ان کے گھروں میں کچھ دیر ٹھہرتیں۔ گھر،لباس کی صفائی ستھرائی کے بارہ میں نصائح فرماتیں ان کو سلیقہ طریقہ بتاتیں اور ساری جماعت سے ایک تعلق رکھتیں ۔آپ کی صحبتو ں اور شفقتوں کا دائرہ تو اتنا وسیع تھا کہ جانور تک اس سے فیض پاتے تھے۔ چنانچہ خان صاحب حکیم عبدالعزیز صاحب نے ایک عجیب واقعہ لکھا ہے ۔وہ لکھتے ہیں مجھے بندوق کے شکار کا شوق تھا۔ صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے ساتھ شکار پر نکل جایا کرتا تھا ۔ایک دفعہ ماہ مئی کا مہینہ تھا۔ میں نے صاحبزادہ میاں شریف احمدصاحب سے کہا کہ میاں بندوق لاؤ شکار کو چلیں۔ اُن دنوں میاں صاحب چھٹی جماعت میں پڑھتے تھے ۔میاں صاحب شوق میں بندوق لینے چلے گئے۔ اور جلد واپس آئے اور کہنے لگے :امّاں جان بندوق نہیں دیتیں ۔اس پر میں نے خود کہلا بھیجاکہ تھوڑی دیر کے لیے بندوق بھیج دیں۔ فرمایا :‘‘آج کل پرندے انڈوں پر ہوتےہیں ۔میں بھی بچوں والی ہو ں۔ میں آج کل بندوق ہر گز نہیں دوں گی۔’’
صاحبزادی امۃ المتین صاحبہ تحریر کر تی ہیں :
ہفتہ میں ایک دن نابینا اور یتیم بچوں کو حضرت امّاں جان رضی اللہ عنہا دوپہر کے کھانے پر بلاتیں جو قطار میں ایک دوسروں کے کندھو ں پر ہاتھ رکھ کر آتے تھے۔ ان کے لیے دستر خوان بچھتا ۔پلاؤتو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پکتا تھا اورکیا ہوتا تھا مجھے یاد نہیں ۔
اس طرح آپ کے اپنے گھر میں ایک ہی وقت میں کئی یتیم بچیاں پرورش پا تی تھیں۔ ان کا ہر طرح سے خیال رکھتیں۔ انہیں پڑھا تیںلکھاتیں اپنے پاس بٹھا کر کھا نا کھلاتیں۔ ایک دفعہ تو سیر پر جاتے ہو ئے ایک گاؤں سے چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی ایک گونگی بہری لڑکی جس کے والدین مرچکےتھے اور کو ڑے کے ڈھیر پر بیٹھی تھی کو اپنے ساتھ لے آئیں اور اس کو نہلا دھلا کر اس کی جوئیں نکا لیں اور صاف ستھرا کر دیا ۔پھر اس کا اتنا خیال رکھا کہ وہ اس قابل ہو گئی کہ اس کی شادی بھی کی اور وہ رحیم بی بی کہلائی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
میری آنکھو ں نے خود دیکھا کہ آپ خدا تعالیٰ کی محبت میں اور اسلام کی تعلیم کے عشق میں آٹھ،نو،دس سال کے بچوں کو اپنے پاس رکھتیں تو بعض دفعہ خود اپنے ہاتھ سے انہیں نہلاتیں۔
محترم حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب ؓبیان فرماتےہیں کہ غالباً 1914ء کا واقعہ ہے کہ حضرت اماں جان ممدوحہ پٹیالہ تشریف لے گئیں۔ آپ نے خاکسار سے دریافت فرمایاکہ کیا یہاں کے جیل کے قیدیو ں کو عمدہ قسم کے کھانا کھلانے کی اجازت مل سکتی ہے ۔خاکسار نے سرجن صاحب کے ذریعہ جو میرے افسر تھے اور جیل کے بھی بڑے ڈاکٹر تھے کوشش کی اور کھانا کھلانے کی اجازت حاصل کرکے عرض کی کہ مل سکتی ہے۔تب آپ نے 50روپےکی رقم مجھے دی اس طرح عمدہ قسم کا کھانا کھلایا گیا ۔
حضرت صاحبزادی امۃ القیوم صاحبہ بیان فرماتی ہیں :
ایک عورت مدت سے امّاں جان کے پاس رہتی تھیں۔ اُسے بھوک لگی تو آپاسردار کو کہا کہ آپا مجھے بھوک لگی ہے۔ آپاسردار نے کہا کہ میں ابھی مصروف ہو ں روٹی نہیں پکا سکتی۔ اس نے بے تکلف اماں جان سے کہہ دیا کہ اماں جان مجھے بھوک لگی ہے آپا کھانا پکا کر نہیں دیتی۔اماں جان نےفرمایا کوئی بات نہیں مَیں پکا دیتی ہوں اور اماں جان نے روٹی پکا کر اسے کھانا کھلایا ۔
حضرت اماں جان جماعت احمدیہ کی ان خواتین کی نہ صرف جسمانی بھوک کا خیال رکھتیں تھیں بلکہ ان کی روحانی بھوک کابھی خیال رکھتی تھیں۔اور جہا ں کہیں روحانی یا اخلاقی کمزوری دیکھتیں تو اس کو دور کرنے کی کوشش کر تیں ۔
اہلیہ محترم خان بہادر چوہدری ابو الہاشم صاحب آف بنگال ربوہ سے تحریر فرماتی ہیں :
ایک دفعہ کاذکر ہے کہ عاجزہ اپنی پہلی لڑکی کی پیدائش کے بعد پہلی دفعہ حضرت اماں جان کی خدمت میں حا ضر ہو ئی۔ بہت دیر تک ان کے پاس ان کی نماز کے اختتام تک بیٹھی رہی ۔حضرت اماں جان نماز پڑھ کر دوبارہ آئیں تو ہم سے دریافت فرمایا کہ لڑکیوکیا تم نے نماز ادا کر لی ہے؟ ہم نے کہا بچے نے پیشاب یاپاخانہ کر دیا ہو گا گھر چل کر پڑھ لیں گے ۔فرمانے لگیں بچوں کے بہانے سے نمازضائع نہ کیا کرو ۔اس طرح بچے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو تے ہیں ۔بچہ تو خدا کا ایک انعام ہے۔
اسی طرح مختلف مواقع پر خواتین کو قیمتی نصائح فرماتیں اور اتنے پیار سےکہ سب خوشی خوشی اس پر عمل کر نا اپنی سعادت سمجھتی تھیں ۔
حضرت اما ں جان صحابہ حضرت مسیح موعودؑ اور ان کے خاندانوں سے بھی بے انداز ہ محبت رکھتیں اور ان کی قدر فرماتیں ۔ان کے لیے خصوصی دعائیں کر تیں اور اگر ان میں سے کوئی تکلیف میں ہو تا تو آپ کی تڑپ اور بے قراری انتہا کو پہنچ جاتی۔ اپنے رب کے حضور اپنی جھو لی پھیلائے ان کے لیے دعائیں کر تی رہتیں۔
آپ کی وفات پر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نےیہ تاریخی فقرہ بیان فرمایاکہ‘‘خصوصاً حضرت مسیح موعودؑ کےزمانے کے لوگوں سے آپ کو بہت ہی پیار تھا ان کی اولادوں کو اب تک دیکھ کر شاد ہوجاتی تھیں ۔شاید آپ میں سے بعض کو اس کا احساس نہ ہو ۔مجھے پو چھیں آپ سچ مچ ایک اعلیٰ نعمت سے ایک ہزار ماں سے بہتر ماں سے محروم ہو گئے ہیں ’’۔
ہماری اماں جان کا جماعت کے لوگوں کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان سے بھی محبت کا ایک عجیب عالم تھا۔آپ کی مبشر اولاد کا ذکر تو آگے کروں گی۔مگر اپنی بہوؤں،دامادوں،بھائیوں، بھاوجوں، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں سے خاص تعلق تھا اور وہ بھی دل وجان سے آپ پر فداہو نے کوتیا ر رہتے۔
امۃ القیوم صاحبہ جرمنی سے لکھتی ہیں :
مَیں نے کبھی آپ کو اپنی بہو،بیٹی کا شکوہ کر تے نہیں سنا ۔نہ ہی کبھی آپ نے ان کے معاملا ت میں دخل اندازی کی،اور نہ ہی کبھی گھریلو حالات کی جستجو کی۔سب آپ ہی کے ساتھ رہتی تھیں۔ سب کے گھر حضرت اماں جان کے گھر کے ساتھ تھے ۔سب کے دروازے آپ کے گھر کی طر ف نکلتے تھے ۔شام کو آپ کے گھر میں عجیب رونق ہو تی ۔اس گھر میں جنت نظیر نظارہ لگتا۔
اب آخرمیں حضرت مسیح موعودؑ اورسیّدہ نصرت جہا ں بیگم صاحبہ کی اس مبشر اولاد کامختصر ترین ذکر کرتی ہو ں جن کے بارے میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :سوچو نکہ خدا کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا۔اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گاجو آسمانی روح اپنے اندر رکھتاہو گا۔اس لیے اس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جو ان نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہو ئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلاوے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے 13مارچ 1906ءکو ایک رؤیا دیکھی کہ میر ناصر نواب صاحب اپنے ہاتھ پر ایک درخت رکھ کر لائے ہیں جو پھلدار ہے۔ جب مجھ کو دیا تو ایک بڑا درخت ہو گیا جو بیدانہ توت کے مشابہ تھا اور نہایت سر سبز تھا اور پھولوں اور پھلو ں سے بھرا ہوا تھا ۔اور پھل اس کے نہایت شیریں تھےاور عجیب تر یہ کہ پھول بھی شیریں تھے مگر معمولی درختوں میں سے نہیں تھا ایک ایسا درخت تھا کہ کبھی دنیا میں دیکھا نہیں گیا ۔میں اس درخت کے پھل اور پھول کھا رہا تھا کہ آنکھ کھل گئی۔
1۔آپ کی مبشر اولاد میں سب سے بڑے فرزند حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کو خدا تعالیٰ نے خلافت کی ردا پہنانے کے ساتھ ساتھ مصلح موعود کے مقام پر بھی فائز فرمایا ۔جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ صاحب ِشکوہ اورعظمت اور دولت ہوگا اور وہ دنیا میں آئے گااور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتو ں کو بیماریو ں سے صاف کرے گا…نور آتا ہے نور جس کو خدانے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا ۔ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گےاور خدا کا سایہ اس کےسر پر ہو گا…
حضرت امّاں جان کاایک تاریخی خط جس میں آپ کے دلی جذبات کا مکمل اظہار ہوتا ہے جب آپ حج پر تشریف لے گئے تو حضرت اماں جان نے آپ کو ایک خط تحریر فرمایا:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خط تمہارا پہنچا سب حال معلوم ہوا ۔مولوی صاحب کا مشورہ ہے کہ پہلے حج کو چلے جاؤ ۔اورمیرا جواب یہ ہے کہ میں تو دین کی خدمت کے واسطے تم کو اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دے چکی ہوں۔اب میرا کوئی دعویٰ نہیں۔ وہ جو کسی دینی خدمت کو نہیں گئے بلکہ سیر کو گئے ان کو خطرہ تھا اورتم کو کوئی خطرہ نہیں۔ خداوندکریم اپنے خدمتگاروں کی آپ حفاظت کرے گا۔میں نے خدا کے سپرد کردیا،میں نے خدا کے سپرد کردیا،میں نے خدا کے سپرد کردیا۔ اور سب یہاں خیریت ہے۔
والدہ محمود احمد4؍اکتوبر 1913ء۔
2۔حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ آپ کو خدا تعالیٰ نے قمر الانبیاء قرار دیا یعنی نبیوں کا چاند ۔
3۔حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔اُن کے بارے میں حضور اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں کہ شریف احمد کو خواب میں دیکھا کہ اس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے۔اور دو آدمی پاس کھڑے ہیں۔ایک نےشریف احمدکی طرف اشارہ کرکے کہا کہ ‘‘وہ بادشاہ آیا’’۔دوسرے نے کہا کہ ابھی تواس نے قاضی بننا ہے۔پھر فرمایا چند سال ہوئے ایک دفعہ ہم نےعالم کشف میں اسی لڑکے شریف احمد کے متعلق کہا تھا اب تُو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں ۔
4۔حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں 37واں نشان یہ ہےبعد اسکے حمل کے ایام کے ایک لڑکی کی بشارت دی اور اس کی نسبت یہ فرمایا تُنَشَّأُفِی الْحِلْیَۃِ یعنی زیور میں نشوونما پائے گی اور نہ خورد سالی میں فوت ہوگی اور نہ تنگی دیکھے گی۔الہام ہوا ‘‘نواب مبارکہ بیگم ’’ پھر فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ مبارکہ سلمہا پنجابی زبان میں بول رہی ہے کہ‘‘مینوں کوئی نہیں کہہ سکدا کہ ایسی آئی جس نے ایہہ مصیبت پائی’’۔
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی شادی کے موقع پر حضرت اُمّ المومنین حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے آپ کو نہایت قیمتی نصائح فرمائیں جن پر آپ نے بھر پور عمل کیا اور واقعۃً ایسی زندگی گزاری کہ کو ئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا ‘‘ایسی آئی جس نے ایہہ مصیبت پائی’’۔
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں :
مجھے جو شادی کے موقع پر چند نصائح فرمائیں وہ بھی تحریر کر دینا میرے خیال میں مفید ہو گا۔ فرمایا:
ا۔اپنے شوہر سےپو شیدہ یا وہ کام جس کو ان سے چھپانے کی ضرورت سمجھو ہر گز نہ کرنا۔شوہر نہ دیکھے خدادیکھتا ہے۔ اور بات آخر ظاہر ہو کر عورت کی وقعت کو کھو دیتی ہے۔
ب۔اگر کو ئی کام ان کی مرضی کے خلاف سرزد ہو جائے تو ہرگز نہ چھپانا۔ صاف کہہ دینا ۔کیو نکہ اس میں عزت ہے اور چھپانے میں بے عزتی اور بے وقری کا اندیشہ ہے۔
ج۔کبھی ان کے غصہ کے وقت نہ بولنا۔ تم پر یا کسی نوکر یا کسی بچے پر خفا ہو ں اور تم کو علم ہو کہ اس وقت یہ حق پر نہیں ہیں جب بھی ا س وقت نہ بولنا ۔غصہ تھم جا نے پر آہستگی سے حق بات اور ان کی غلطی پر ان کوسمجھا دینا ۔غصہ میں مرد سے بحث کر نے والی عورت کی عزت با قی نہیں رہتی۔ اگر غصہ میں کچھ سخت کہہ دیں تو کتنی ہتک کا موجب ہو۔
د۔ا ن کی عزیزوں کی اولاد کواپنا جاننا کسی کی برائی تم نہ سوچنا خواہ تم سے کوئی برائی کرے ۔تم دل میں سب کا بھلا چاہنا اور عمل سے بھی بدی کا بدلہ نہ دینا ۔دیکھنا پھر خدا تمہا را ہمیشہ بھلا ہی کرےگا۔
ر۔حضرت نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کا الہام تھا ‘‘دُختِ کرام’’۔حقیقۃ الوحی میں آپ ؑ نے اس نشان کو چالیسواں نشان قرار دیاہے۔
یہ تو تھی آپ کی مبشر اولاد جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود ؑنے فرمایا:
‘‘یہی ہیں پنج تن جن پر بنا ہے’’
اس تما م اولاد کی زندگیا ں،نیکیا ں ،تقویٰ اور خدمات دینیہ او ر ان پر اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعام واکرام تو خود حضرت اماں جان نے دیکھے۔ ان پر آپ گواہ بھی تھیں اور اپنے رب کی شکر گزار بھی۔مگر کچھ بچے ایسے بھی تھے جوخدائی پیشگو ئی کے تحت چھوٹی عمر میں ہی وفات پا گئے ۔ماں کے دل کی حالت تو مائیں خوب جا نتی ہیں کہ بچہ خواہ ایک دن کا ہی ہو اس کا فوت ہو جا نا ما ں کے لیے کتنا بڑا امتحان ہو تا ہے۔حضرت اماں جان کے پانچ بچے چھو ٹی عمروں میں وفات پا گئے مگر ان موقعوں پر آپ نے جس صبر اور رضا کامظاہرہ کیا وہ بھی تا ریخ میں سنہری الفاظ میں لکھے جانے کے قابل ہے۔
بشیر اوّل (عمرایک سال)کی وفات ایک ایسا واقعہ تھا کہ دشمنوں میں مخالفت کا ایک طوفان بر پا تھا اور دشمن تو ایک طرف چند اپنوں کے ایمان بھی خطرے میں پڑگئے تھے۔
اس وقت حضرت اماں جان کے غیر متزلزل ایمان کا یہ عالم تھا کہ جب آپ نے یہ دیکھا کہ بچےکے بچنے کی کوئی صورت نہیں تو آپ نے فرمایا تو میں پھر اپنی نماز کیوں ضائع کروں۔چنانچہ آپ نے وضو کر کے نماز شروع کر دی اور نہا یت اطمینان کےساتھ نماز ادا کر کے دریافت فرمایا کہ بچے کا کیا حال ہے؟ تواس کے جواب میں بتایا گیا کہ بچہ فوت ہو گیا ۔تو آپ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر خاموش ہو گئیں ۔
اسی طرح صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کی وفات پر جن کی عمر 8سال سے کچھ اوپر تھی اور وہ حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بہت لاڈلے بیٹے تھے اور جب ان کی وفات ہو ئی تو حضرت اماں جان نے فرمایا ‘‘میں خدا کی تقدیر پر راضی ہو ں’’۔
جب اس طرح آپ نے اس امتحان کو قبول کر لیا تو آسمان پر حضرت اُمّ المو منین کے بارے میں یہ وحی الٰہی نازل ہو ئی‘‘خدا خوش ہو گیا ’’۔حضرت مسیح موعودؑ نے یہ الہام حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سنایا تو آپ نے فرمایا ‘‘مجھے اس الہام سے اس قدر خوشی ہو ئی ہے کہ دو ہزارمبارک احمد بھی مر جاتاتو میں پروا نہیں کر تی۔’’
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو بچپن میں ہی حضرت اماں جان نے گودلے لیا تھا جب صاحبزادہ مبارک احمد کا انتقال ہوا تواس کے بعد حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت اماں جان کو بڑے وثوق سے فرمایا تھا کہ تم کو مبارک احمدکا بدلہ ضرور ملے گا۔جیسا کہ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں۔حضرت اماں جان بچپن میں ناصر احمد کو اکثر ہی ‘‘مبارک ’’کہا کر تی تھیں ۔اور فرماتی تھیں یہ میرا مبارک ہے ‘‘یحییٰ ہے جو مجھے بدلہ میں مبارک کے ملا ہے’’۔ حضرت اماں جان نے دعاؤں کے ساتھ صاحبزادہ ناصر احمد کی بہترین تربیت فرمائی۔
مبارک تھا وہ اُمّ المومنین کا
ہوا مقبول رب العالمین کا
(نواب مبارکہ بیگم صاحبہ)
آخر اس مبشر اولاد کی یہ مبشرماں جو خداکے مسیح کی پیاری بیوی اور خداکی خدیجہ تھی 20اپریل1952ءکو اپنے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہو گئیں ۔حضرت مصلح موعودؑ نے آپ کی وفات پر جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا:
اس سال احمدیت کی تاریخ کا ایک بہت ہی اہم واقعہ ہوا اور وہ ہے حضرت اماں جا ن کی وفات۔ان کاوجود ہمارے اور حضرت مسیح موعود ؑکے درمیان ایک زنجیر کی طرح تھا… وہ ہمارے اور حضرت مسیح موعود ؑ کے درمیان ایک زندہ واسطہ تھیں۔ یہ واسطہ ان کی وفات پر ختم ہو گیا۔
حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ نے آپ کی وفات پر تحریر فرمایا :حضرت اماں جان قریباً دوماہ بستر علالت میں رہیں جماعت نے اس عرصہ میں خاص طور پر دعاؤں اور صدقات کی طرف تو جہ دی اور انابت الی اللہ کا وہ بے نظیر نمونہ دکھلایا جس کی مثا ل صرف اور صرف الٰہی جماعتوں میں ملتی ہے۔جو اللہ تعالیٰ کے مامورکی قائم کردہ ہوتی ہیں۔ عام طور پر بیماریاں عام لوگوں کے لیے ابتلاؤں ،مصیبتوں اوربےصبریوں کے مظاہروں کا موجب بنتی ہیں لیکن حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کی علالت قوم کی قوم کو خالق حقیقی کے دروازہ پر جھکا دینے اور رجوع الی اللہ کا موجب ہوئی۔
اس وجود کی بیماری نے بھی قوم کو عظیم الشان نعمتو ں سے متمتع کر دیا ۔ہر کسی کو یہ مقام کہاں میسر ہو تا ہے اور ہر کسی کے وجود میں اتنی عظیم الشان نعمتیں کہاں مرکوز ہو تی ہیں ۔سلام علیکِ یا زوجۃَ نبی اللّٰہ۔
اللہ کے حضور التجاہے کہ ہم سب کو حضرت اماں جان کے نقشِ قدم پر چلنے اور اُن کی نیکیو ں اور اخلاق کو اپنےاندر پیدا کرنے اور زندہ رکھنے کی توفیق عطافرمائے۔اور ہم احمدی حضرت اماں جان کی تمام دعاؤں کے وارث ہوں۔ اورحضرت اماں جان کو حضرت مسیح موعودؑ کا ساتھ اس طرح نصیب ہو کہ جب بھی تمام دنیا میں اور تمام زمانوں میں کو ئی بھی آنحضرتﷺ اور آپؐ کی آل پردرودو سلام بھیجے تو جیسا کہ آپ کی آل میں سب سے اوّل یقیناً حضرت مسیح موعودؑ کا وجود مبارک ہے حضرت اماں جان پر بھی وہ رحمتیں اور برکتیں نازل ہو تی رہیں اور ہمیشہ آپ کے درجات بلند ہوتے چلے جائیں اور آپ کو حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ حضور ﷺ کی معیت نصیب ہو ۔
اللھم صل علیٰ محمد وعلیٰ آلِ محمد
٭…٭…٭