ذکرِ حبیب۔خدائی نصرت کے آئینہ میں
خدا تعالیٰ کے سچے مامور کو جس قدر خدا تعالیٰ کی ذات اور پھر اپنی ماموریت پر ایمان اور یقین ہوتا ہے اس قدر شاید کسی اَور کو نہیں ہو سکتا۔ ذیل میں حضرت اقدس مسیح موعود ؑکی سیرت مبارکہ سے چند ایسے واقعات درج کیے جاتے ہیں جن سے حضرت مسیح موعود ؑکی صداقت کے ساتھ ساتھ آپؑ کا خدا کے ساتھ پختہ تعلق اور اس پر ایمان محکم کا ثبوت ملتا ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ یقین جو آپؑ کو اپنے خدا دادمشن کے متعلق تھا وہ اس کمال کو پہنچا ہوا تھا کہ حضور اقدسؑ کے ہر قول و فعل اور ہر حرکت و سکون میں اس کا ایک زبردست جلوہ نظر آتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ ؑ اپنے اس یقین کی وجہ سے بڑے سے بڑے پہاڑ کے ساتھ ٹکرانے کے لیے تیار ہیں۔ اکثر اوقات اپنے خداداد مشن اور اپنے الہامات کے متعلق مؤکّد بعذاب قسم کھا کر فرماتے تھے کہ مجھے ان کی بابت ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ کسی کو سورج اور چاند پر ہو سکتا ہے اور اپنی پیشگوئیوں کا ذکر اس طرح فرماتے تھے کہ چونکہ وہ خدا کے منہ سے نکلی ہوئی ہیں اس لیے وہ ضرور پوری ہونگی اور اگر وہ سنت اللہ کے مطابق پوری نہ ہوں تو میں اس بات کے لیے تیار ہوں کہ مجھے مفتری قرار دے کر پھانسی کے تختہ پر لٹکا دیا جائے۔ (سیرت طیبہ از میاں بشیر احمد صاحب ؓ)
غور کا مقام ہے کہ یہ کس درجہ کا ایمان اور کیسا پختہ یقین ہے جس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کفر و ایمان کی بازی لگاتے ہوئے شدید سزاکے لیے بھی تیار ہو جاتے ہیں ۔ پس جس شخص میں نور ضمیر کی معمولی سی روشنی بھی باقی ہو وہ حضور اقدس علیہ السلام کو دھوکہ دینے والا قرار نہیں دے سکتا۔
چنانچہ پیشگوئیوں اور الہامات کی بابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
‘‘ان پر میری سچائی کا حصہ ہے وہ یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تو مغلوب ہو کر یعنی مغلوبوں کی طرح حقیر ہو کر پھر غالب ہو جائے گا اور انجام تیرے لیے ہو گا اور ہم وہ تمام بوجھ تجھ سے اتار لیں گے جس نے تیری کمر توڑ دی۔ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ تیری توحید تیری عظمت تیری کمالیت پھیلاوے۔ خدا تعالیٰ تیرے چہرہ کو ظاہر کرے گا اور تیرے سایہ کو لمبا کرے گا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ عنقریب اسے ایک ملک عظیم دیا جائے گا…اور خزائن اس پر کھولے جائیں گے …میں تجھے زمین کے کناروں تک عزت کے ساتھ شہرت دوں گا اور تیرا ذکر بلند کروں گا اور تیری محبت دلوں میں ڈال دوں گا۔’’
(ازالہ اوہام ، صفحہ 441روحانی خزائن جلد 3)
پھر حضور اقدس علیہ السلام نے اس کتاب کے صفحہ 563پر یو ں فرمایا:
‘‘اس نے اپنی پیشگوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے کہ اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزار ہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا۔ وہ خود اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کو نشوونما دے گا یہاں تک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی اور وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کے چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لیے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے … اور ہمیشہ قیامت تک ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کو قبولیت اور نصرت دی جائے گی۔ اُس رب جلیل نے یہی چاہا ہے وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ہر ایک طاقت اور قدرت اسی کو ہے۔’’
(ازالہ اوہام صفحہ 563۔ روحانی خزائن جلد 3اول ایڈیشن)
خدائی نصرت کاعجیب واقعہ
اس تعلق میں ایک ایمان افروز واقعہ اس طرح پر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بٹالہ شہر میں عیسائی مشنریوں کا بڑا زور تھا۔ بٹالہ شہر قادیان کے قریب ہی واقع ہے۔ حضور اقدس علیہ السلام اور آپ کے سلسلہ سے پادریوں کو سخت بغض تھا اور بحث میں بار بار شکست کھا چکے تھے۔ انہوں نے حضور علیہ السلام کے دلائل اور زور دار علم کلام سے عاجز آکر ایک چال چلی اور منصوبہ بنایا کہ عام لوگوں کو دھوکہ میں ڈالا جائے۔ چنانچہ ان عیسائی پادریوں نے حضور اقدس علیہ السلام کی خدمت میں یہ چیلنج بھیجا کہ اگر واقعی آپؑ خدا کی طرف سے عیسیٰ روح اللہ کی جگہ مبعوث ہوئے ہیں تو ہم عیسائی ایک بند لفافہ کے اندر کوئی عبارت لکھ کر سر بمہر کر کے آپ ؑ کے سامنے میز پر رکھیں گے تب لوگوں کے سامنے اپنی روحانی قوت کے ذریعہ بند شدہ مضمون بتا دیں گے تو ہم سمجھیں گے کہ آپ کا مذہب سچا ہے اور صادق ہونا بھی واضح ہو جائیگا۔ (آئینہ کمالات اسلام ، جلد 5)
اُن پادریوں کا خیال تھا کہ حضرت مرزا صاحبؑ اس انوکھے چیلنج کو ٹال دیں گے۔ کہ ایسا کرنا انسانی طاقت سے باہر ہے اور پھر مرزا صاحب کے ٹالنے پر ہم ان کے خلاف شور شرابا برپا کریں گے اس طرح ان کی ترقی رک جائے گی اور جاہل لوگ مرزا صاحب سے بد ظن ہو جائیں گے ۔
مگر ان لوگوں کو کیا معلوم تھا کہ وہ خدا جو اپنے ماموروں اور انبیاء کو دنیا میں مبعوث کرتا ہے وقت یا ضرورت پڑنے پر غیب کا علم ایک حد تک ان معصوموں کو بھی عنایت کر دیا کرتا ہے۔ قرآن پاک کی رو سے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو علمِ غیب حاصل نہیں۔ لیکن وہی خدا اپنے پیاروں کو اس میں سے کچھ حصہ عطا فرما کر ان کی تصدیق فرماتا ہے۔
حضرت اقدس علیہ السلام اور چیلنج
عیسائی پادریوں کے اس پیغام کے ملتے ہی حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا ‘‘میں اس چیلنج کو قبول کرتا ہوں اور اس مقابلہ کے لیے تیار ہوں کہ آپ کے بند لفافہ کے اندر کا مضمون بتائوں۔ مگر شرط یہ ہے کہ اس کے بعد آپ لوگوں کو مسلمان ہونا ہو گا۔’’
(سیرت طیبہ)
حضرت مسیح موعود ؑکا یہ کوئی رسمی جواب نہ تھا بلکہ آپ ؑ کی صداقت اور آپؑ کے اپنے خالق و مالک کی ذات پر پختہ ایمان کی زبردست دلیل تھی ۔ یقینًا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے رب کے اشارہ سے ہی اس چیلنج کو قبول کیا ہو گا۔
چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس جلالی جواب کا ان پادریوں پر ایسا رُعب پڑا کہ بالکل ہی خاموش ہو گئے اور پھر حضور اقدس علیہ السلام کے سامنے آنے کی جرأت نہ کر سکے اور ڈر کر میدان سے بھاگ گئے۔
اندرونی نصرت اور بیرونی نصرت
حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘بیرونی طور پر خدا تعالیٰ نے و ہ رُعب مجھے بخشا کہ کوئی پادری میرے مقابل پر نہیں آ سکتا… پس کیا روئے زمین میں مشرق سے لے کر مغرب کی انتہا تک کوئی پادری ہے جو خدائی نشان میرے مقابل پر دکھلا سکے۔ ہم نے میدان فتح کر لیا ہے ۔ کسی کی مجال نہیں جو ہمارے مقابل پر آوے۔
(حقیقۃ الوحی صفحہ 348۔روحانی خزائن ، جلد 22اول ایڈیشن)
علمی معجزات
چالیس ہزار عربی لغات کا عظیم معجزہ
حضرت مسیح موعود ؑکو جب خدا تعالیٰ نے اسلام کی برتری کے لیے مبعوث کیا تو آپؑ کو عربی زبان میں کمال بخشا اور حضور اقدس علیہ السلام کے مقابلہ کے لیے تمام اہل زبان عربوں کی زبانیں بھی عربی ادب ،کیا نثر اور کیا نظم ،میں گنگ ہو کر رہ گئیں۔
حضرت اقدس علیہ السلام اس خاص فضل کا ذکر کرتے ہوئے خود تحریر فرماتے ہیں:
عربی عبارت (ترجمہ) : ‘‘عربی زبان میں میرا کمال باوجود میری کوشش کی کمی اور میری سعی کی قلت کے خدا کی طرف سے ایک روشن نشان ہے تا کہ اس ذریعہ سے خدا تعالیٰ لوگوں پر میری خداداد علمی اور ادبی قابلیت ظاہر فرما ئے اور مجھے دنیا بھر کے لوگوں پر غالب کر دے۔ اب کیا میرے سارے مخالفوں میں سے کوئی ہے جو میرے مقابلہ پر اس میدان میں کھڑا ہو سکے؟ اس علمی اور ادبی کمال پر خدا کا مزید فضل یہ ہے کہ اس نے مجھے عربی زبان کی چالیس ہزار لغات (یعنی اَربَعِینَ اَلفاًمِنَ اللُّغَاتِ العَربِیَّۃِ ) کا معجزانہ رنگ میں علم عطا کیا اور مجھے علوم ادبیہ میں کامل وسعت بخشی ہے ۔ ’’(اول ایڈیشن ، کتاب انجام آتھم ، صفحہ 234، عربی حصہ ، روحانی خزائن جلد 11)
چنانچہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ان عربی لغات کا سکھایا جانا ایک معجزہ تھا جس کی صداقت پر حضور اقدس علیہ السلام کی تحّدی کے باوجود تمام مخالفوں نے باوجود سخت دشمنی کے اپنے گریز کے ساتھ خاموشی کی مہریں ثبت کر دیں۔ پھر خاص کر عرب ممالک میں سے کوئی اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے آگے نہیں آیا حالانکہ حضرت مسیح موعود ؑنے عربی نثر اور عربی قصیدہ جات کے مقابلہ کے لیے للکارا اور اشتہارات کے ذریعہ باربار ان کو بلایا۔ آپ ؑ نے بائیس سے اوپر کتب نہایت فصیح اور بلیغ عربی میں تصنیف فرمائیں اور تمام مولویوں، عالموں اور گدی نشینوں کو غیرت دلائی کہ تم سب مل کر عربی اور علمی فصاحت سے بھری ہوئی عبارتیں شائع کرو جیسا میں شائع کرتا ہوں ۔اگر تم مجھ اکیلے پر سبقت لے جائو تو میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں گا۔ آئو اور اس علمی میدان میں اکٹھے ہو جائو۔
اور پھر اس سبقت لے جانے والوں کے لیے کثیر رقم یعنی دس ہزار روپے تک کے انعام بھی مقرر فرمائے جو وقت کے لحاظ سے آج کے کروڑوں روپیہ میں بنتا ہے۔ حضورؑ نے اپنی عربی کتب کے بارہ میں جو چیلنجز دیے ان میں چند ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
اعجاز احمدی
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کتاب کے آخر میںدس ہزار روپے کے انعام کا اشتہار شائع کیا ۔ آپ ؑنے تحریر فرمایا:
‘‘پھر اگر بیس دن میں جو دسمبر 1902ء کی دسویں دن کی شام تک ختم ہو جائے گی انہوں نے اس قصیدہ اور مضمون کا جواب چھاپ کر شائع کر دیا تو یوں سمجھو کہ میں نیست و نابود ہو گیا اور میرا سلسلہ باطل ہو گیا اس صورت میں میری تمام جماعت کو چاہیے کہ مجھے چھوڑ دیں اور قطع تعلق کر لیں لیکن اگر اب بھی مخالفوں نے عمداً کنارہ کشی کی تو نہ صرف دس ہزار روپیہ کے انعام سے محروم رہیں گے بلکہ دس لعنتیں ان کا ازلی حصہ ہو گا۔ ’’
حضور اقدس کی تحدی
حضوراقدس علیہ السلام نے فرمایا :
‘‘دیکھو میں آسمان اور زمین کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ آج کی تاریخ سے اس نشان پر حصر رکھتا ہوں … کبھی ممکن نہ ہو گا …ایسا قصیدہ بنا سکیں اور … مضمون کا رد لکھ سکیں کیونکہ خدا تعالیٰ ان کی قلموں کو توڑ دے گا اور ان کے دلوں میں غبی کر دے گا ۔’’
حضور علیہ السلام کے ایک شعر کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔ فرمایا کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو ایسا قصیدہ بنا لا ئیگا ۔ اور اگر میں خدا کی طرف سے ہوں تو اُس کی سمجھ پر پردہ ڈالا جائے اور روکا جائے گا۔
(اعجاز احمدی ، روحانی خزائن جلد 19اول ایڈیشن)
اعجاز المسیح :
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اس کتاب میں پیر مہر علی شاہ گولڑوی کو دعوتِ مقابلہ دیتے ہوئے فصیح و بلیغ عربی زبان میں سورۃ الفاتحہ کی تفسیر بیان کی ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دی اور کہا مَنَعۃ مَانِع مِنَ السَّمّاء’’ کہ آسمان سے روکنے والے نے اسے روک دیا۔ حضورؑ نے فرمایا کہ مجھے اس سے یہ تفہیم ہوئی ہے کہ دشمن اس کی مثل لانے پر قادر نہیں ہو ں گے ۔
پھر حضور اقدس ؑ نے بطور تحدی تحریر فرمایا :
فَاِنّہُ کِتَاب لَیْسَ لَہُ جَوَابیعنی کہ یہ ایک لاجواب کتاب ہے ۔ وَمَنْ قَامَ لِلْجَوابِ وَ تَنَمَّرَ فَسَوْفَ یَرٰی اِنَّہُ تَنَدَّمَ وَ تَذَمَّرَ یعنی جو شخص بھی غصہ میں آکر اس کتاب کا جواب لکھنے کے لیے تیار ہو گا وہ نادم ہو گا اورحسرت کے ساتھ اس کا خاتمہ ہو گا۔ ’’(اعجاز المسیح ، روحانی خزائن جلد 18، اول ایڈیشن)
یہ بات یہاں بیان کرنا غیر مناسب نہ ہو گی کہ حضورؑ نے عربی کی فصاحت اور بلاغت کی کوئی امتیازی تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور نہ ہی اُس زمانہ میں قادیان کے ماحول میں ایسا کوئی سکول موجودتھا۔
عربی لکھنے کا امتحان
حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ بیان فرماتے ہیں کہ
نجف کے ایک فاضِل عبدالحی نام اپنے رشتہ دار عبداللہ عرب کی تلاش میں غالباً 1897ء میں پہلی دفعہ قادیان آئے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مباحثات کرتے رہے۔ ان کو یہ شبہ تھا کہ عربی کتابیں جو حضرت صاحب نے لکھیں ہیں وہ حضرت صاحب ؑ کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی نہیں ہیں۔ چنانچہ ایک دفعہ انہوں نے مسجد مبارک میں بیٹھے ہوئے حضرت صاحب ؑ سے عرض کی کہ یہ قلم دوات اورکاغذ ہے۔ آپ میرے ساتھ عربی لکھیں ۔ حضرت ؑ نے فرمایا کہ میں بغیر اذن الہٰی کے اس طرح لکھنا شروع کر نے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات بے نیاز ہے میرا ہاتھ یہیں شل ہو جائے یا مجھے سب علم ہی بھول جائیں۔
اس کے چند روز بعد عرب صاحب ایک سوال عربی زبان میں لکھ کر مسجد میں لے کر گئے اور بعد نماز حضرت صاحبؑ کی خدمت میں پیش کیا اور قلم دوات بھی جواب لکھنے کے لیے حاضر کی ۔
حضرت صاحبؑ نے اسی وقت اس کا جواب نہایت فصیح اور بلیغ عربی میں تحریر کر دیا ۔ ایسا ہی چند روز کے بعد عرب صاحب پھر ایک سوال لکھ کر لے گئے اور حضرت صاحب ؑنے اس کا جواب بھی وہیں بیٹھے ہوئے نہایت فصاحت کے ساتھ مفصّل لکھ دیا ۔ تھوڑے تھوڑے دنوں کے وقفوں کے بعد اس طرح کے کئی ایک سوالات کے جوابات عربی زبان میں اپنے سامنے تحریر کرا کر عرب صاحب نے تشفّی پائی کہ بے شک حضرت صاحب کو خدا تعالیٰ نے فصیح اور بلیغ عربی لکھنے کی طاقت عطا فرمائی ہے اور اس کے بعد بیعت کر کے وہ داخل سلسلہ حقّہ ہوئے اور سلسلہ کی تائید میں کئی کتابیں اور رسالے تصنیف کیے ۔ ان کی ایک قابل قدر تالیف لغات القرآن بھی ہے۔
(ذکر حبیب صفحہ 36 مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ)
حضرت اقدس ؑ کا ایک اور اقتداری معجزہ
واقعہ تو چھوٹا سا ہے مگر خدائی نصرت کا اور اقتداری معجزہ کا عجیب و غریب جلوہ نظر آتا ہے ۔
حضرت مولوی نور الدین ؓ صاحب خلیفہ اول روایت کرتے ہیں:
‘‘ایک دفعہ کسی مناظرہ میں بحث کے دوران بدبخت شوخ مولویوں نے حضرت اقدس علیہ السلام سے حدیث بخاری شریف کا کوئی حوالہ فوری طلب کیا اور ساتھ ہی پُر زور مطالبہ کیا کہ اب دَم نقد حوالہ پیش کریں۔ وہ حدیث تو صحیح بخاری میں موجود تھی مگر اتفاق سے حضور اقدس ؑکو صفحہ یاد نہ تھا اور نہ ہی اس وقت حاضر صحابہ ؓ میں سے کسی کو یاد تھا۔ مولویوں کو کہا گیا کہ مناظرہ جاری رکھیں بعد مناظرہ حوالہ پیش کر دیا جائے گا حالانکہ ان مُلّائوں کو بھی علم تھا کہ بخاری شریف میں یہ حدیث موجود ہے مگر یہ فسادی کب ٹلتے تھے۔ ایک موقع ہاتھ آگیا تھا شور ڈالنے لگ پڑے پہلے حوالہ پھر مناظرہ!! ان کو تو کوئی بہانہ چاہیے تھا۔ لہٰذا وقتی طور پر شماتت اور شرمندگی کا اندیشہ پیدا ہو گیا۔ تب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے وقار کے ساتھ صحیح بخاری کی کتاب منگوائی اتنی بڑی کتاب سے فوری حوالہ نکالنا انتہائی مشکل امر تھا۔ بہر حال کتاب آئی اور خدا کے پیارے مسیح پاک علیہ السلام نے بخاری اپنے ہاتھ میں لے کر اس کی ورق گردانی جلدی جلدی شروع کر دی اور لمحہ بھر میں اُس ورق پر پہنچ کر وہ حدیث مولوی کو پیش کر دی۔ مناظرہ کرنے والا فسادی اور دوسرے کثیر تعداد لوگ اور سننے والے حاضرین اپنے بھی اور بیگانے بھی حیران تھے کہ بخاری کے صفحات پر نظر تک نہیں جمائی اور آخر کتاب میں سے حوالہ نکال کر مولویوں کو پیش کر دیا۔
جب مناظرہ ختم ہوا تو سننے والوں اور دیکھنے والوں نے عرض کی کہ حضور! یہ عجیب بات تھی کہ آپ ؑ پڑھنے کے بغیر ہی صحیح بخاری کے صفحات اُلٹتے گئے اور اصل جگہ پر فورًا پہنچ گئے۔ جس پر خدا کے پیارے مسیح موعود ؑ نے فرمایا:
یہ خدا تعالیٰ کی بر وقت نصرت تھی کہ جب مَیں نے بخاری شریف ہاتھ میں لے کر ورق الٹنے شروع کیے تو وہ تمام صفحات اور ورق صاف اور کورے کاغذ کی طرح ہو گئے گویا کہ ان پر کچھ لکھا اور چھپا ہوا نہیں ہے اس لیے بغیر دیکھنے اور نظر جمانے کے اس ورق پر پہنچ گیا جہاں صرف یہی ایک حدیث لکھی ہوئی تھی جس کی مجھے ضرورت تھی ۔ لہٰذا میں نے بلاتوقف وہ حوالہ مولویوں کے سامنے پیش کر دیا۔
حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلویؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک اور کیس میں ایک ہندو جج نے جو غالبًا پنڈت لیکھرام آریہ کے قتل کا بدلہ لینا چاہتا تھا بھری عدالت میں سوال کیا کہ کیا آپ کا کوئی ایسا الہام بھی ہے کہ ‘‘اِنِّی مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ۔یعنی میں خدا اس شخص کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلت کا ارادہ کرے گا۔’’ فرمایا۔ ہاںیہ میرا الہام ہے اور خدا کا کلام ہے۔ پھر مجسٹریٹ نے کہا کہ اگر میں بھی کروں ؟تو فرمایا کہ خواہ کوئی کرے۔ پھر اس نے پوچھا کہ خواہ میں بھی کروں؟ تو فرمایا خواہ کوئی ہو۔ یہ اس جلالی انداز سے فرمایا کہ مجسٹریٹ خاموش ہو گیا۔ اس کو توہین کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔
حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلویؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک آریہ ایم اے پڑھا ہواآیا اور حاضر خدمت ہو کر اعتراض کیا تو آپؑ مصروف تھے۔ حضرت مسیح موعود ؑنے ڈاکٹر صادق خان صاحب کو جو وہا ں موجود تھے فرمایا کہ اس کو جواب دو ۔ مگر اس آریہ نے ڈاکٹر صاحب کو لا جواب کر دیا۔ تو یہ دیکھ کر حضرت مسیح موعود ؑنے اپنا کام چھوڑا اور ادھر متوجہ ہوئے۔ تقریباً وہی دلائل دیے جو ڈاکٹر صاحب نے دیے تھے مگر ایسے رنگ میں پیش کیے کہ وہ آریہ نوجوان حضور ؑ کے پائوں میں گر گیا۔ تو حضور نے اسے اٹھایا اور وہ اتنا مرعوب ہوا کہ ہاتھ جوڑ کر سلام کر کے پیچھے کو چلتا ہوا باہر نکلا کہ کہیں حضور کی شان میں گستاخی نہ ہو جائے (کہ وہ دوسری طرف کو منہ کر کے باہر نکلے تو حضور کی طرف پیٹھ ہو جائے )۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ترین انسانؐ کے غلامِ صادق کو یہ فرمایا تھا کہ ‘تیری مدد رعب کے ساتھ کی گئی ہے’۔ چنانچہ ان چند واقعات سے ہمیں بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ جہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا تعالیٰ کی ذات پر پختہ یقین تھا وہاں خدا تعالیٰ نے بھی ہر جگہ آپ کی مدد و نصرت فرمائی اور ہمیشہ فریق مخالف کو مرعوب و مغلوب فرمایا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس پختہ ایمان میں سے حصہ عطا فرمائے کہ ہم اُس واحد و لاشریک خدا سے پختہ تعلق پیدا کرتے ہوئے اس پر کامل ایمان لائیں اور حضرت اقدس مسیح پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مشن ہم میں سے ہر ایک کی ذات میں پورا ہوتا ہوا دکھائی دے۔ آمین
٭…٭…٭