اصلاحِ اعمال کی تلقین (قسط نمبر 3)
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
قرب کا اثر
قُربِمکانی اور زمانی کے اثر کا عام اور ظاہری ثبوت اس سے مل سکتا ہے کہ آپ لوگوں نے کئی دفعہ تجربہ کیا ہوگا اگر کسی کو کوئی کام کرنے کے لیے خط لکھا جائے تو وہ انکار کر دیتا ہے اگر خود اس کے پاس جا کر کہا جائے تو کام کر دیتا ہے۔ ہر ایک کہنے والا نہیں جانتا کہ اس کی کیا وجہ ہے اور کہا جاتا ہے کہ منہ دیکھے کا لحاظ کیا گیا ہے لیکن دراصل وہ رَو کا اثر ہوتا ہے جو قرب کی وجہ سے زیادہ پڑتا ہے اور اس طرح جس کو کچھ کہا جائے وہ مان لیتا ہے۔ اسی طرح وہی تقریر جو ایک جگہ مقرر کے منہ سے سنی جائے جب چھپی ہوئی پڑھی جائے تو اس کا وہ اثر نہیں ہوتا جو سننے کے وقت ہوتا ہے۔ اس وقت بڑا مزا اور لطف آتا ہے لیکن چھپی ہوئی پڑھنے سے ایسا مزا نہیں آتا جس پر کہہ دیا جاتا ہے کہ لکھنے والے نے اچھی طرح نہیں لکھی لیکن بات یہ ہوتی ہے کہ لکھنے والا تو صرف الفاظ ہی لکھتا ہے۔ وہ لہریں جو تقریر کرنے والے سے نکل رہی ہوتی ہیں ان کو محفوظ نہیں کر سکتا۔ اس لیے صرف الفاظ کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا لہروں کے ساتھ ملنے سے ہوتا ہے جو قرب کی وجہ سے سننے والے تک پورے طور پر پہنچ رہی ہوتی ہیں۔ اس لیے تقریر سننے سے زیادہ اثر ہوتا ہے اور پڑھنے کے وقت ایک تو بُعد ہوتا ہے اور دوسرے صرف لفظ ہوتے ہیں اس لیے وہ لطف نہیں آتا نہ اتنا اثر ہوتا ہے۔
مجددین کے مبعوث ہونے کی وجہ
یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ اسلام میں مجددین مبعوث کیے جاتے رہے ہیں کیونکہ قرآن کریم کے صرف الفاظ سے وہ اثر نہیں ہو سکتا جو خدا کے صاف کیے ہوئے کسی انسان کے منہ سے نکلنے پر ہو سکتا ہے۔ تو جو لہر کسی وجود سے نکلتی ہے وہ ضرور اثر کرتی ہے اور کبھی ضائع نہیں جاتی۔ یہ الگ بات ہے کہ جو لہر زیادہ زور دار ہوتی ہے وہ زیادہ اثر کرتی ہے اور جو کمزور ہوتی ہے وہ کم اثر کرتی ہے۔ اسی طرح قریب کی چیزوں پر زیادہ اثر ہوتا ہے اور بعید پر کم۔ لیکن اثر ہوتا ضرور ہے جس سے صاف طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کوئی شخص اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ کر یہ خیال نہ کرے کہ میں جو کچھ کہتا ہوں اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
سخت غلطی کرنے والا انسان
ایک ایساشخص جو فتنہ و فساد کی کوئی بات منہ سے نکال کر یہ کہہ دیتا ہے کہ میرا کیا ہے میں تو ایک غیر ذمہ دار شخص ہوں۔میری بات کا کوئی اثر نہیں ہے۔ وہ سخت غلطی کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی بات کا ظاہراً اثر نہ ہو مگر اس سے جو لہر چلتی ہے وہ ضرور ایسے لوگوں کو خراب کرتی ہے جو کمزور ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ خواہ اس کے پاس ہوں یا دُور ان پر ضرور کچھ نہ کچھ اثر ہوگا اور جن میں زیادہ طاقت ہوگی وہ تو اس لہر کا مقابلہ کریں گے لیکن اگرکم ہوگی تو متاثر ہو جائیں گے پس کسی کو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ وہ غیر ذمہ دار ہے اور اس کی بات کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔ اثر ضرور ہوتا ہے۔
مومن کو احتیاط کرنی چاہیے
اس لیے مومن کو چاہیے کہ اپنا ہر ایک کام ہر ایک فعل اور ہر ایک بات کرتے وقت نہایت احتیاط کرے اور کوئی ایسی بات نہ کرے جس سے کسی قسم کا فتنہ پیدا ہوتا ہو کیونکہ جو ایسا نہیں کرتا وہ اپنے ہاتھ، اپنے پاؤں، اپنی زبان اور اپنے خیال سے زہر پھیلاتا ہے اور بہت سوں کو ہلاک کردیتا ہے۔ وہ اسلام میں روک ڈالتا ہے اور جو لوگ اشاعت اسلام کی کوشش کرتے ہیں ان کے مقابلہ میں روک بنتا ہے کیونکہ جہاں اشاعت اسلام کرنے والے لوگوں کے دلوں میں اسلام کے پھیلانے کی رَو پیدا ہوتی ہے وہاں اس کے دل میں ایسے خیالات پیدا ہوتے ہیں جن سے فتنہ و فساد و شرارت اور بدامنی پیدا ہوتی ہے۔ پس ہرشخص کوچاہیے کہ اپنے خیالات اور افعال کو نہایت احتیاط کے دائرہ میں رکھے اور کوئی بات اور کوئی فعل ایسا نہ کرے جس سے چھوٹے سے چھوٹا فتنہ پیدا ہونے کااحتمال بھی ہو اور ہر ایک برے خیال کا مقابلہ کرتے ہوئے نیک خیالات اور اچھے ارادے اپنے دل میں پیدا کرے۔ ایسا شخص اگر اپنے گھر میں بیٹھا ہو تو بھی دور دور اسلام کی تبلیغ کا موجب بن رہا ہوگا کیونکہ اس کے دل سے جواچھی رَو نکلے گی وہ دور دور پھیلے گی اور لوگوں کو متاثر کرے گی۔
نیت اور عمل میں فرق
یہی وجہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے کہا ہے۔ نِیَّۃُ الۡمُؤۡمِنِ خَیۡرٌمِّنۡ عَمَلِہٖ۔ (مجمع بحار الانوار جلد 3صفحہ 407)کہ مومن کی نیت اس کے عمل سے اچھی ہے۔ بعض لوگوں نے اسے رسول کریمؐ کی حدیث قرار دیا ہے لیکن یہ حدیث نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ کا قول ہے۔ ظاہری نظر سے دیکھنے والا انسان تو کہے گا کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ نیت عمل سے اچھی ہو اور صرف اچھی نیت کرنا عمل کرنے سے اچھا ہو۔ لیکن بات دراصل یہ ہے کہ جو انسان قلب میں اصلاح کرلے وہ اعمال صالحہ تو کرے گا ہی لیکن چونکہ اس کے قلب کا اثر دور دور تک پہنچے گا۔ جس سے لوگوں میں ایسی کشش پیدا ہوگی کہ اسلام کی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔ اس لیے نیت کا درجہ عمل سے اعلیٰ بتایا گیا ہے کیونکہ عمل صرف دیکھنے والوں پر اثر ڈال سکتا ہے جو بہت محدود ہوتے ہیں مگر قلب کا اثر دور دور تک پہنچتا ہے تو چونکہ نیتوں، ارادوں اور باتوں کااثر بہت وسیع ہوتا ہے اس لیے ان کے متعلق مومن کو بہت محتاط رہنا چاہیے مگر عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کسی کے دل میں جو خیال آتا ہے خواہ وہ کیسا ہی فتنہ انگیز ہواُسے پھیلانا شروع کردیا جاتا ہے اور دوسروں کو بھی اس میں شریک کرلیا جاتا ہے۔ یہ مومن کی شان نہیں ہے۔
مومن کی شان
مومن وہی ہے جو اپنے ہر قسم کے خیالات اور ارادوں پر پوری طرح قبضہ اور اختیار رکھتا ہے۔ اپنے دل میں نیک اور اچھے خیال کوآنے دیتا ہے اور بدکوروک دیتاہے اور یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ جب انسان خداتعالیٰ کی طرف جھک جائے تو دل خودبخود قابو میں آجاتا ہے اورنیک تحریکیں پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہیں۔
قلب کی اصلاح سب سے ضروری ہے
ہماری جماعت کے لوگوں کے لیے سب سے پہلے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ وہ اپنے خیالات اورارادوں کی اصلاح کریں۔ بہت لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ حالانکہ سب سے ضروری یہی بات ہے کہ انسان کو اپنے قلب پر قبضہ حاصل ہو اور جس کو دل پر قبضہ اور اختیار حاصل ہوگیا اسے سب کچھ حاصل ہوگیا۔ رسول کریم ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کے متعلق فرمایا کہ ابوبکرنماز،روزہ،زکوٰۃ اور حج کی وجہ سے فضیلت نہیں رکھتا بلکہ اس چیز کی وجہ سے فضیلت رکھتا ہے جو اس کے قلب میں ہے۔(نزھۃ المجالس مصنفہ شیخ عبدالرحمان الصفوری جلد2 صفحہ 153 مطبوعہ مصر)تو درحقیقت قلب میں پیدا ہونے والی چیز ہی ایسی ہے جو ظاہری اعمال پر بہت بڑی فضیلت رکھتی ہے۔ بہت لوگ نمازیں پڑھتے، روزے رکھتے، زکوٰۃ دیتے، حج کرتے ہیں لیکن انہیں کچھ نہیں حاصل ہوتا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کی نیت درست اور ارادہ ٹھیک نہیں ہوتا۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں ایک انسان ہوتا ہے جو ساری عمرجنتیوں والے کام کرتا رہتا ہے لیکن اس کے دل میں کوئی ایسی بات ہوتی ہے کہ مرتے وقت اسے ایسا دھکا لگتا ہے کہ دوزخ میں جاکرگرتا ہے۔ اسی طرح ایک انسان ساری عمر ایسے کام کرتا رہتا ہے جو بظاہر دوزخیوں والے ہوتے ہیں اور وہ دوزخ کے قریب پہنچ جاتا ہے لیکن اس کے قلب میں ایسی بات ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ اسے دوزخ میں گرنے سے کھینچ لیتا اور جنت میں داخل کردیتا ہے۔(ترمذی ابواب القدر باب ماجاء ان الاعمال بالخواتیم)اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ظاہری اعمال کامیابی کے لیے کافی نہیں ہوتے۔ ظاہری اعمال خواہ انسان کتنے ہی کرے اگر اس کے قلب میں نورایمان اور اخلاص نہ ہوتو چھوٹی چھوٹی باتوں سے اسے ٹھوکر لگ جاتی ہے اور کہیں سے کہیں جاپڑتا ہے اور چونکہ اس کے اعمال بہت ہی محدود اور سطحی ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کابہت کم نتیجہ نکلتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں روحانی لہریں بہت گہری اور پائیدار ہوتی ہیں اور وہ قلب سے نکلتی ہیں اس لیے قلب کی اصلاح سب سے ضروری اوراہم ہے۔ ایسا انسان جو ظاہری طورپراسلام کے احکام پرعمل کرتاہے۔ مگر اس کے قلب میں کوئی ایسی لہرپیداہوتی ہے جو اسلام کی اشاعت میں روک ہے تو وہ اسلام کی مخالفت کرنے والا ہے۔ اسی لیے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے۔ انسان کوہوشیار رہنا چاہیے۔ اس کے جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے کہ وہ خراب ہوجائے تو اس کا سارا جسم خراب ہوجاتاہے اور وہ اچھا ہو تو سارا جسم اچھا ہوتا ہے اور وہ دل ہے۔(ابن ماجہ کتاب الفتن باب الوقوف عند الشبھات) پس جب کسی کے دل میں بدخیال آتے ہیں تو اس کاسارا جسم برا بن جاتا ہے اور جب نیک خیال آتے ہیں تو اس کاسارا جسم اچھا ہوتا ہے۔ اس لیے قلب کا صیقل کرنا اور اس میں پاکیزگی پیداکرنا نہایت ضروری ہے اور میں نے بتایا ہے جس کا قلب صاف ہووہ گھربیٹھے بیٹھے دور دور تبلیغ کررہا ہوتا ہے وہ جاپان میں تبلیغ کرتا ہے۔ وہ چین میں تبلیغ کرتا ہے وہ یورپ میں تبلیغ کرتا ہے وہ امریکہ میں تبلیغ کرتا ہے گویا وہ ساری دنیا میں تبلیغ کررہا ہوتا ہے۔
حضرت مسیح موعوؑد کے ذریعہ چلی ہوئی رَو
دیکھو حضرت مسیح موعوؑد ساری دنیا میں تبلیغ کرنے نہیں گئے۔ لیکن آپ نے جو رَو چلائی وہ ہر جگہ پھیل رہی ہے اور تمام اقوام میں مذہب کاچرچا ہورہا ہے۔ چاہے لوگ اس وقت حضرت مسیح موعود کوسچا نہ سمجھیں اور آپ کو قبول نہ کریں لیکن جس طرح ایک بے ہوش کی آنکھ کھلتی ہے تو اس کا ہاتھ سب سے پہلے اسی چیز پرپڑتا ہے جو اس کے قریب ہوتی ہے۔ اسی طرح ان لوگوں کی غفلت سے جو آنکھ کھل رہی ہے تو گو ان کی توجہ انہیں باتوں کی طرف ہورہی ہے جو ان کے زیادہ قریب ہیں لیکن جب زیادہ آنکھ کھل جائے گی تو اصل بات کی طرف بھی توجہ کرنے لگیں گے لیکن اس سےیہ تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے جو رَو چلائی وہ ساری دنیا میں پھیل رہی ہے۔
پس اس میں شک نہیں کہ قلب کی رَو ساری دنیا میں پھیلتی ہے۔ اور اس میں بھی شک نہیں کہ پاس والوں پر زیادہ اثرڈالتی ہے۔ لیکن نبی چونکہ مرکز ہوتا ہے اس لیے ایک مقام پر کھڑا ہوکر رَو کو پھیلاتا ہے اور اس طرح اس کی رَو کا جواثر ہوتا ہے وہ اس کے جگہ جگہ پھرنے سے نہیں ہوسکتا۔ حضرت مسیح موعوؑد ابتدا میں کچھ عرصہ کئی جگہ گئے ہیں مگر بعد میں ایک مقام پر قائم ہوگئے۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ ابتدائی زمانہ میں تبلیغ کے لیے مختلف مقامات پر جاتے رہے مگر بعدمیں جنگوں کے لیے تو آپؐ کو جانا پڑا مگر تبلیغ کے لیے نہیں گئے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بھی کشمیر تک تو آئے مگر پھر ٹھہر گئے۔ تو انبیاء ابتدائی زمانہ میں پھرتے ہیں مگر بعدمیں ایک مرکز پر قائم ہوجاتے ہیں اور اسی جگہ بیٹھے ہوئے دور دور اپنا اثر پہنچاتے رہتے ہیں چنانچہ دیکھ لو حضرت مسیح موعوؑد نے ایک جگہ بیٹھ کر کس طرح ہر جگہ اپنا اثر پہنچا دیا ہے۔ گوآج وہ اثر ہر جگہ نظر نہیں آتا لیکن زمانہ بتائے گا اور بتا رہا ہے کہ کوئی جگہ نہیں جہاں آپ کا اثر نہیں پہنچ چکا۔ تو قلب کی اصلاح سب سے ضروری ہے جو اس کی اصلاح نہیں کرتا وہ غفلت میں پڑا سورہا ہے وہ اسلام کا دوست نہیں بلکہ دشمن ہے کیونکہ اس کا قلب ایسی بدبوپھیلا رہا ہے جس کا اثر دوسروں پربرا پڑتاہے اور وہ اسلام سے دور ہوجاتے ہیں۔
(…………باقی آئندہ)
٭…٭…٭