احادیث مبارکہ لا ھجرۃ بعد الفتح اور لا نبی بعدی میں دلچسپ مناسبت
(اگر اوّل الذکر حدیث کے بعد ہجرت کا سلسلہ جاری ہے تو موخّر الذکر کے بعد نبی کیوں نہیں آ سکتا!)
جماعتِ احمدیہ کے معاندین اکثر اوقات ختمِ نبوت کےان معنوں کی تائید میں کہ آنحضرتﷺکے بعد کوئی نبی سِرے سے آہی نہیںسکتا حدیث نبوی لَا نَبِیَّ بَعْدِیپیش کرتے ہیں۔ اس سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ آنحضور ﷺ محض اپنی بعثت کے لحاظ سے آخری نبی ہیں اور آپؐ کے وصال کے بعد نبوت کا دروازہ قطعاً ہر لحاظ سے بند ہو چکا ہے جوکھل نہیں سکتا۔
تاہم عربی ترکیب کے لحاظ سے اس حدیث سے ملتی جلتی ایک اَورحدیث لَا ھِجْرَتَ بَعْدَ الْفَتْحِ بھی ہے۔مشہور دیوبند عالم مفتی محمد شفیع صاحب خود تسلیم کرتے ہیںکہ
‘‘لَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ کی ترکیب بعینہٖ لَا نَبِیَّ بَعْدِی کی ترکیب ہے۔’’(ختم نبوت صفحہ:251)
زیر نظر مضمون میں ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ علمائے امت نے لَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ کے کیا معنی بیان کیے ہیں۔ پھر ان کے موافق معنی کا اطلاق لَا نَبِیَّ بَعْدِی والی حدیث پر کیا جائے گا۔
علامہ ابن حجر، حضرت ابن عمرؓ کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
‘‘وَقد أفْصح بن عُمَرَ بِالْمُرَادِ فِيمَا أَخْرَجَهُ الْإِسْمَاعِيلِيُّ بِلَفْظِ انْقَطَعَتِ الْهِجْرَةُ بَعْدَ الْفَتْحِ إِلٰى رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَنْقَطِعُ الْهِجْرَةُ مَا قُوتِلَ الْكُفَّارُ۔’’(فتح الباری (7/230-229))
یعنی اسماعیلی نے حضرت ابن عمرؓ سے ایک فصیح قول اپنی سند سے نقل کیا ہے کہ فتح مکہ کے بعد حضرت اقدس رسول اللہﷺ کی طرف ہجرت ختم ہو گئی مگر جب تک کفار سے قتال جاری رہے گا ہجرت ختم نہیں ہو گی۔
اسی طرح امام حسن البصری کے متعلق علماءنے یہ لکھا ہے کہ آپ کا نظریہ تھا :
‘‘الْهِجْرَةُ غَيْرُ مُنْقَطِعَةٍ أَبَدًا’’
(مثلاً دیکھیں مفاتيح الغيب (15/ 220) ؛ تفسير الخازن (2/ 330) ؛ زاد المسير في علم التفسير (1/309))
علامہ الرازی حدیث اور امام حسن بصری کے قول کی تطبیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘وَأَمَّا قَوْلُهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ: ‘‘لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ’’ فَالْمُرَادُ الْهِجْرَةُ الْمَخْصُوصَةُ، فَإِنَّهَا انْقَطَعَتْ بِالْفَتْحِ وَبِقُوَّةِ الْإِسْلَامِ. أَمَّا لَوِ اتَّفَقَ فِي بَعْضِ الْأَزْمَانِ كَوْنُ الْمُؤْمِنِينَ فِي بَلَدٍ وَفِي عَدَدِهِمْ قِلَّةٌ، وَيَحْصُلُ لِلْكُفَّارِ بِسَبَبِ كَوْنِهِمْ مَعَهُمْ شَوْكَةٌ وَإِنْ هَاجَرَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ تِلْكَ الْبَلْدَةِ وَانْتَقَلُوا إِلَى بَلْدَةٍ أُخْرَى ضَعُفَتْ شَوْكَةُ الْكُفَّارِ، فَهَهُنَا تَلْزَمُهُمُ الْهِجْرَةُ عَلَى مَا قَالَهُ الْحَسَنُ، لِأَنَّهُ قَدْ حَصَلَ فِيهِمْ مِثْلُ الْعِلَّةِ فِي الْهِجْرَةِ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ۔’’(مفاتيح الغيب (15/ 220))
یعنی لَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ سے مراد وہ مخصوص ہجرت ہے جو اسلام کی فتح کے نتیجہ میں ختم ہو گئی ہے۔اگر کسی دور میں یہ اتفاق ہو کہ مسلمان کسی ملک میں کم تعداد میں ہوں اور ان کے وہاں موجود ہونے سے کفار کی مجموعی قوت میں اضافہ ہو رہا ہو۔ان کے وہاں سے ہجرت کر جانے سے کفار کی شان و شوکت کم ہو جائے تو حسن بصری کے قول کے موافق انہیں وہاں سے لازماً ہجرت کر جانی چاہیے کیونکہ وہاں بھی ہجرت کرنے کی وہی علت پیدا ہو گئی ہے جو مکہ سے مدینہ کرنے میں تھی۔
یہی تطبیق بہت سے علماء نے کی ہے مثلا ًدیکھیں علامہ سراج الدین الحنبلی۔
(اللباب في علوم الكتاب (9/ 581))
ذیل میں گزشتہ ہزار سال کے منتخب علماء کے حوالہ جات زمانی ترتیب کے ساتھ درج کیے جاتے ہیں۔کوشش کی گئی ہےکہ ہر صدی میں سے چند علماء کے بیان کردہ معانی نمونہ کے طور پر ضرور لکھے جائیں نیز طوالت سے بچنے کے لیے باقیوں کے اسماء اور حوالہ جات پر اکتفاء کیا گیا ہے۔آخر میں ان سے حاصل شدہ نتائج درج کیے جائیں گے ۔
پانچویں صدی
امام البیھقی لکھتے ہیں:‘‘فَإِنَّمَا أَرَادَ لَا هِجْرَةَ وُجُوبًا عَلَى مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ بَعْدَ فَتْحِهَا، فَإِنَّهَا قَدْ صَارَتْ دَارَ الْإِسْلَامٍ وَأَمْنٍ، وَهَكَذَا غَيْرُ أَهْلِ مَكَّةَ إِذَا صَارَتْ دَارُهُمْ دَارَ إِسْلَامٍ، أَوْ لَمْ يُفْتَنُوا عَنْ دِينِهِمْ فِي مُقَامِهِمْ فَإِذَا فُتِنُوا، وَقَدَرُوا عَلَى الْهِجْرَةِ، فَعَلَيْهِمُ الْهِجْرَةُ ’’
(السنن الصغير (3/ 372))
یعنی لَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ سے صرف فتح مکہ والی ہجرت کا وجوب ختم ہوا ہے نہ کہ مطلق ہجرت کا۔اگر کسی جگہ مسلمانوں کو اپنے دین کی وجہ سے فتنہ میں ڈالا جائے اور وہ ہجرت کرنے پر قادر ہوں تو ان پر ہجرت کرنا فرض ہے۔ ابن بطال لکھتے ہیں:
‘‘وَأَمَّا الْهِجْرَةُ الْبَاقِيَةُ إلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ فَقَوْلهٗ (صلى اللّٰه عليه وسلم) : (اَلْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللّٰهُ عَنْهُ)’’۔
(شرح صحيح البخارى (5/ 240))
یعنی جو ہجرت قیامت تک باقی ہے وہ (اَلْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللّٰهُ عَنْهُ یعنی )اللہ تعالی کی منہیات سے دور ہونے والی ہجرت ہے۔ علامہ ابن عبد البر لکھتے ہیں:
‘‘وَقَدْ بَقِيَ مِنَ الْهِجْرَةِ بَابٌ بَاقٍ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ…’’(التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد (8/ 390))
یعنی ہجرت کا ایک باب قیامت تک کھلا ہے اور آگے پھر اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔
چھٹی صدی
علامہ البغوی لکھتے ہیں:
‘‘فأراد به الهجرة من مكة إلى المدينة، وهي باقية في حق كل من أسلم في دار الحرب، ولم يقدر على إظهار دينه، وقدر على الهجرة؛ فيجب عليه أن يهاجر إلى دار الإسلام’’
(التهذيب في فقه الإمام الشافعي (7/ -445443))
یعنی حضورﷺ کی مراد مکہ سے مدینہ کی ہجرت ہے اور ہجرت کا جوا ز اس شخص کے لیے ہے جو دار الحرب میں اسلام لاتا ہے اور اپنے دین کو ظاہر نہیں کر سکتا۔اسے چاہیے کہ وہ دارِ اسلام کی طرف ہجرت کر لے۔
یہی بات علامہ ابن رشد (المقدمات الممهدات (2/ 153))،ابن العربی (القبس في شرح موطأ مالك بن أنس (صفحہ: 588-587)؛ المسالك في شرح موطأ مالك (5/26-25)،العمرانی(البيان في مذهب الإمام الشافعي (12/ 99)) وغیرہ نے بھی درج کی ہے۔ علامہ الحازمی لکھتے ہیں:
‘‘وَأَمَّا الْهِجْرَةُ فَكَانَتْ وَاجِبَةٌ فِي أَوَّلِ الاسلام عَلَى مَا دَلَّ عَلَيْهَا الْحَدِيثُ، ثُمَّ صَارَتْ مَنْدُوبًا إِلَيْهَا غَيْرَ مَفْرُوضَةٍ’’
(الاعتبار في الناسخ والمنسوخ من الآثار (صفحہ: 206))
یعنی ہجرت کی فرضیت ختم ہو گئی اور ندب باقی رہ گیا ہے۔
ساتویں صدی
علامہ الرجراجی لکھتے ہیں:
‘‘إن الهجرة باقية لازمة إلى يوم القيامة بإجماع المسلمين على كل مسلم يقيم عند المشركين’’
(مناهج التحصيل ونتائج لطائف التأويل في شرح المدونة وحل مشكلاتها (7/ 77))
یعنی ہر ایسےمسلمان پر ہجرت کرنا فرض ہےجو مشرکین کے ہاں مقیم ہو۔ہجرت کا جواز قیامت تک باقی رہے گا۔علامہ التوبشتی لکھتے ہیں:
‘‘ولم يرتفع بذلك فضل الهجرة إلى النبي صلى الله عليه وسلم لنيل شرف الصحبة والتفقه في الدين، والمسارعة إلى مرضاة اللّٰه ومرضاة رسوله؛ ألا ترى أنه قال لعكرمة بن أبي جهل- رضي الله عنه- لما قدم عليه، وكان قد فر منه يوم الفتح إلى اليمن (مرحباً بالراكب المهاجر)’’
(الميسر في شرح مصابيح السنة (3/ 880-879))
یعنی اس فرمان کے باوجود حضورﷺ کے پاس ہجرت کر کے آنے کی فضیلت ختم نہیں ہوئی جیسا کہ آپﷺ نے حضرت عکرمہ کو مرحباً بالراكب المهاجر فرمایا۔حضرت عکرمہؓ فتح مکہ کے وقت یمن ہجرت کر گئے تھے اور بعد میں حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔علامہ النووی لکھتے ہیں:
‘‘لا هجرة بعد الفتح كاملة الفضل وأما الهجرة من دار الكفار اليوم فواجبة وجوبا متأكدا على من قدر عليها إذا لم يقدر على إظهار دين الاسلام هنا ’’
(بستان العارفين (صفحہ:163))
یعنی فتح مکہ کے بعد کامل فضیلت والی ہجرت ختم ہو گئی ہے ہاں البتہ دار الکفار سے ہجرت کرنا اس شخص پر واجب ہے جو وہاں اسلام کا اظہار نہیں کر سکتا۔
اس سے ملتی جلتی تشریحات علامہ البیضاوی(تحفة الأبرار شرح مصابيح السنة (2/ 590))، الرازی(مفاتيح الغيب (15/ 220))وغیرہ نے درج کی ہیں۔
آٹھویں صدی
علامہ ابن الرفعۃ لکھتے ہیں:
‘‘قلنا: أراد بذلك كما قال بعضهم: لا هجرة واجبة، أو لا هجرة [من مكة] إلى المدينة.[و] كذلك نقول: لأن مكة يعد الفتح صارت دار إسلام.أو نقول: أراد: لا هجرة كاملة’’
(كفاية النبيه في شرح التنبيه (4/ 9)نیز دیکھیں (16/ 348))
یعنی بعض کے نزدیک اس کے معنی ہیں کہ اب ہجرت واجب نہیں ہے ،بعض کے نزدیک ہیں کہ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت نہیں اس وجہ سے کہ فتح کے بعد مکہ دار الاسلام بن گیا ہے۔یا ہم یہ کہیں گے کہ آپﷺ کی مراد ہے کہ اب کوئی کامل ہجرت نہیں۔
اسی قسم کے معانی علامہ ابن سید الناس (النفح الشذي شرح جامع الترمذی (4/-258257))،ابن عادل الحنبلی (اللباب في علوم الكتاب (9/ 581))، الخازن(تفسير الخازن لباب التأويل في معاني التنزيل (2/ 331))، الطیبی (الكاشف عن حقائق السنن(6/ 2041))، ابن کثیر (السيرة النبوية (3/ 606))،الکرمانی(الكواكب الدراري في شرح صحيح البخاري (7/ 214)، (12/ 93))، الزرکشی(إعلام الساجد بأحكام المساجد (صفحہ183))وغیرہ نے بھی درج کیے ہیں۔
نویں صدی
علامہ ابن الملقن لکھتے ہیں:
‘‘معناه “لا هجرة بعد الفتح” فضلها كفضلها’’
(الإعلام بفوائد عمدة الأحكام (6/ 122))
یعنی فتح مکہ کے بعد کی ہجرت کی فضیلت اس کی طرح نہیں ہو گی۔
ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
‘‘وحديث “لا هجْرَةَ بَعْدَ الفَتْح” مُؤَوّلٌ: إمَّا على الكَمَال؛ وإمَّا على الهِجْرة من مَكَّةَ إذا صارت دار إسلام ’’(المعين على تفهم الأربعين (صفحہ: 90))
یعنی اس حدیث کی تاویل ہو گی یا تو کمال کے معنوں میں یعنی اس کے بعد کامل ہجرت نہیں ہو گی یا پھر اس سے مراد مکہ سے مدینہ کی طرف مخصوص ہجرت ہے جو کہ مکہ کے دار السلام بننے کی وجہ سے باقی نہیں رہی۔
اسی طرح علامہ الدمیری لکھتے ہیں:
‘‘لا هجرة كاملةُ الفضلِ كالتي قبل الفتح’’
(النجم الوهاج في شرح المنهاج (9/ 374))
یعنی فتح مکہ کے بعد کی ہجرت کی فضیلت اس سے پہلے کی گئی ہجرت کی طرح نہیں ہو گی۔
علامہ البرماوی لکھتے ہیں:
‘‘فالمنسوخ إنما هو الهجْرة من مكَّة، وأما غيرها فكلُّ موضعٍ لا يقدر المكلَّف على إقامة حدود الدِّين فالهجْرة عليه فيه واجبةٌ’’
(اللامع الصبيح بشرح الجامع الصحيح (5/ 404) ))
یعنی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت منسوخ ہوئی ہے۔جہاں تک مکہ کے علاوہ باقی مواضع کا تعلق ہے تو ہر ایسی جگہ پر جہاں پر حدودِ دین قائم نہیں کی جا سکیں تو وہاں سے ہجرت کرنا واجب ہے۔
علامہ البرماوییہ تصریح بھی کرتے ہیں کہ
‘‘فحکمھا باق اجماعا’’
یعنی دار الکفار سے دار الاسلام کی طرف ہجرت کا حکم باقی ہونے پر اجماع ہے۔
(اللامع الصبيح بشرح الجامع الصحيح (8/ -379378))
علامہ ابن ملک لکھتے ہیں:
‘‘المنفي فريضة الهجرة وفضيلتها التي كانت قبله’’(شرح مصابيح السنۃ (4/ 323))
یعنی اس حدیث میں ہجرت کی فرضیت کی نفی ہے اور فضیلت کی نفی ہے جو اس سے پہلے تھی۔یعنی اس کے بعد اس جیسی فضیلت نہیں رہے گی۔اسی قسم کے معانی علامہ ابن حجر( فتح الباري (6/ 39)، (6/ 190))، العینی(عمدة القاري شرح صحيح البخاري (10/ 191))، الکورانی (الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري (3/ 450))وغیرہ نے بھی کیے ۔
دسویں صدی
علامہ السیوطیلکھتے ہیں:
‘‘لَا هِجْرَة بعد الْفَتْح قَالَ الْعلمَاء الْهِجْرَة من دَار الْحَرْب إِلَى دَار السَّلَام بَاقِيَة إِلَى يَوْم الْقِيَامَة وَفِي تَأْوِيل هَذَا الحَدِيث قَولَانِ الأول لَا هِجْرَة بعد الْفَتْح من مَكَّة لِأَنَّهَا صَارَت دَار إِسْلَام وَإِنَّمَا تكون الْهِجْرَة من دَار الْحَرْب وَهَذَا يتَضَمَّن معْجزَة لَهُ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بِأَنَّهَا تبقى دَار إِسْلَام لَا يتَصَوَّر مِنْهَا الْهِجْرَة وَالثَّانِي مَعْنَاهُ لاهجرة بعد الْفَتْح فَضلهَا كفضلها مَا قبل الْفَتْح ’’
(شرح السيوطي على مسلم (3/ 397))
یعنی علماء کے نزدیک دار الحرب سے دار الاسلام کی طرف ہجرت کا جواز قیامت تک باقی رہے گا۔اس حدیث کی تاویل دو طور سے کی گئی ہے اول یہ کہ یہ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے بارےمیں ہے۔یہ حضرت اقدس رسول اللہﷺ کا معجزہ ہے کیونکہ اس میں پیشگوئی تھی کہ مکہ قیامت تک دار الاسلام ہی رہے گا اور اس سے ہجرت کرنے کا تصور نہیں ہو سکتا۔دوم اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے بعد کی جانے والے ہجرت کی فضیلت وہ نہیں ہو گی جو اس سے پہلے تھی۔
گزشتہ علماء سے بیان کردہ معنوں سے ملتے جلتے معنی علامہالقسطلانی(إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري (3/ 307-308))،السنیکی(منحة الباري بشرح صحيح البخاري (4/ 285))،السفیری (المجالس الوعظية في شرح أحاديث خير البرية (1/ 128-130))،محمد طاھر الفتنی (مجمع بحار الأنوار(5/ 134))وغیرہ نے بھی کیے ہیں۔محمد طاھر الفتنی ایک مقام پر زائد معنی درج کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘الهجرة إما إلى المدينة لنصرة الدين أو للجهاد أو لطب العلم والرزق بنحو التجارة، فانقطعت الأولى وبقيت الأخريان’’ (مجمع بحار الأنوار (5/ 666))
یعنی طلب علم اور رزق کے حصول کی خاطر کی گئی ہجرت باقی ہے ۔
گیارھوریں صدی
ملا علی القاری لکھتے ہیں:
‘‘مَحْمُولٌ عَلَى خُصُوصِ الْهِجْرَةِ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ؛ لِأَنَّ عُمُومَ الِانْتِقَالِ مِنْ دَارِ الْكُفْرِ إِلَى دَارِ الْإِيمَانِ بَاقٍ عَلَى حَالِهِ، وَكَذَا الْهِجْرَةُ مِنَ الْمَعَاصِي ثَابِتَةٌ ’’(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 101))
یعنی اس حدیث میں خصوصیت کے ساتھ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا ذکر ہے کیونکہ عمومی طور پر دارالکفر سے دارالایمان کی طرف جانے کا حکم قائم و موجود ہے اور اسی طرح معاصی سے دور اور الگ ہونے کا حکم بھی قائم اور ثابت ہے۔
ملا علی القاری ایک زائد معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘وَأَمَّا الْهِجْرَةُ الَّتِي تَكُونُ لِصَلَاحِ دِينِ الْمُسْلِمِ فَإِنَّهَا بَاقِيَةٌ مَدَى الدَّهْرِ’’
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 595))
یعنی مسلمان کے دین کی خیر خواہی کے لیے ہجرت کرنا ہمیشہ جاری رہے گا۔
گذشتہ علماء سے بیان کردہ معنوں سے ملتے جلتے معنی علامہالمناوی(التيسير بشرح الجامع الصغير(2/ 502) ؛ فيض القدير (6/ 438))،ابن علان (دليل الفالحين لطرق رياض الصالحين (1/42))،الخفاجی(عنايه القاضي وكفاية الراضي (3/ 170))وغیرہ نے بھی درج کیے ہیں۔
بارھویں صدی
علامہ اسماعیل الحقی لکھتے ہیں:
‘‘واعلم ان الهجرة على قسمين. صورية وقد انقطع حكمها بفتح مكة كما قال عليه السلام.(لا هجرة بعد الفتح) . ومعنوية وهي السير عن موطن النفس الى الله افتح كعبة القلب وتخليصها من أصنام الشرك والهوى فيجرى حكمها الى يوم القيامة’’
(روح البيان (1/ 337)، (6/ 464))
یعنی ہجرت دو اقسام کی ہے۔اول صوری ہجرت ہےجوفتح مکہ کے ساتھ ہی ختم ہو گئی اور دوسری معنوی ہجرت ہے یعنی اپنے نفس کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا اور اپنے دل کے کعبہ کو کھول کر اس کو شرک اور خواہشات نفسانی کے بتوں سے پاک کرنا۔یہ وہ ہجرت ہے جو قیامت تک جاری رہے گی۔
ان علماء کے بیان کردہ معانی علامہ حسین بن محمد المغربی(البدر التمام شرح بلوغ المرام (9/ 202))، الصنعانی(التحبير لإيضاح معاني التيسير (3/ 30))، السفارینی(كشف اللثام شرح عمدة الأحكام (4/ 182))وغیرہ نے بھی درج کیے ہیں۔
تیرھویں صدی
علامہ حسین بن غنام لکھتے ہیں:
‘‘وأقول: قد زعم قوم أن الهجرة من دار الكفر إلى دار الإسلام والإيمان ليست واجبة ولا متعينة في هذا الزمان…متمسكين من الدليل بما لا يبرد الغليل،ولا يشفي القلب العليل, وذلك ظاهر قول خير البرية: “لا هجرة بعد الفتح ولكن جهاد ونية”، وظاهر حديث “المهاجر من هجر ما نهى اللّٰه عنه”، وليس الأمر كما زعموا ولا المعنى كما فهموا…وإنما المراد المقصود،والمنهج المسدود الهجرة من مكة إلى المدينة بعد فتحها للمسلمين,…وأما الهجرة من بلاد المشركين والكفار, وعدم السكنى معهم والاستقرار،إلى ما للمسلمين من الديار،حيث لا يمكن إقامة دين للموحد ولا إظهاره،ولا تعزيز للإسلام وانتصاره،فحكمها إلى الآن ثابت الوجوب والإلزام، مستمر على ممر السنين والأعوام، كما صرح بذلك الأئمة الأعلام ’’
(العقد الثمين في شرح أحاديث أصول الدينصفحہ:73-74)
یعنی ایک طبقہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس زمانہ میں دار الکفر سے دارالسلام کی طرف ہجرت کرنا واجب نہیں ہے۔ان کی دلیل لاھجرۃ بعد الفتح اور المھاجر من ھجر والی حدیث کے ظاہر ی معانی ہیں۔ان کی یہ دلیل دل کی تشفی کے لیے کافی نہیں ہے…معاملہ ایسا نہیں جیسا کہ انہوں نے سمجھ لیا ہے بلکہ اس حدیث سے مراد ہے کہ فتح مکہ کے بعد مکہ سے مدینہ والی ہجرت بند ہے…جہاں تک اس ہجرت کا تعلق ہے جو مشرکین اور کفار کے ممالک سے مذہبی آزادی میں روکوں کے باعث کی جاتی ہے تو وہ ثابت اور واجب ہے جیسا کہ بڑے بڑے ائمہ نے اس کی صراحت کی ہے۔
محمد بن احمد علیش،ابن الرشد القرطبیکے حوالہ سے لکھتے ہیں:
قَالَ زَعِيمُ الْفُقَهَاءِ الْقَاضِي أَبُو الْوَلِيدِ بْنُ رُشْدٍ – رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى – فِي أَوَّلِ كِتَابِ التِّجَارَةِ إلَى أَرْضِ الْحَرْبِ مِنْ مُقَدِّمَاتِهِ فَرْضُ الْهِجْرَةِ لَيْسَ سَاقِطًا بَلْ الْهِجْرَةُ بَاقِيَةٌ لَازِمَةٌ إلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَاجِبٌ بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِينَ
(فتح العلي المالك في الفتوى على مذهب الإمام مالك(1/ 378))
یعنی ہجرت کی فرضیت ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ قیامت تک جاری وساری رہے گی اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔
گزشتہ علماء کے بیان کردہ معانی حسین بن ابراھیم المغربی(قرة العين بفتاوى علماء الحرمين (صفحہ -104103))، الشوکانی (نيل الأوطار (3/ -189188))وغیرہ نے بھی درج ہیں۔
چودھویں صدی
مولوی انور شاہ صاحب کشمیری لکھتے ہیں:
‘‘قوله: (لا هِجْرةَ بعد الفَتْح) أي الهجرة المَعْهُودة مِن مكَّة، أما الهجرةُ العامَّة مِن دار الحَرْب إلى دار الإِسلام، فهي باقية’’
(فيض الباري على صحيح البخاري(4/ 151))
یعنی یہاں ہجرت سے مراد مکہ سے مدینہ والی مخصوص ہجرت ہے جہاں تک دار الحرب سے دار الاسلام کی طرف ہجرت کا تعلق ہے تو اس کا حکم قائم ہے۔
یہی تشریح علامہ القاسمی (محاسن التأويل (1491-1495))،المبارکپوری (تحفة الأحوذي (5/ 178))، الشنقیطی(العذب النمير من مجالس الشنقيطي في التفسير (5/ 203))وغیرہ نے بھی کی ہے۔
نتائج
لَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ کی علمائے امت نے مندرجہ ذیل تشریحات نقل کی ہیں:
1) لَا ھِجْرَۃَ سے مراد مخصوص ہجرت ہے۔
2) لَا ھِجْرَۃَکے فرمان کے باوجود ایسے شخص پر ہجرت فرض ہے جس پر اپنے علاقہ میں دین پر عمل کرنا مشکل ہو۔
3) لَا ھِجْرَۃَسے مراد یہ ہے کہ اس کے بعد والی ہجرت فضیلت میں کم ہوں گی۔
4) لَا ھِجْرَۃَکے فرمان کے باوجود دار الحرب سے دار الاسلام کی طرف ہجرت کرنا جائز ہے۔
5) لَا ھِجْرَۃَ کے فرمان کے باوجود منکرات سے دور رہنے والی ہجرت قیامت تک جاری ہے۔
6) لَا ھِجْرَۃَکے فرمان کے با وجود رزق کی تلاش میں کی گئی ہجرت جاری ہے۔
7) لَا ھِجْرَۃَکے فرمان کے باوجود علم کی تلاش میں کی گئی ہجرت جاری ہے۔
8) جو بعد میں ہجرت کریں گے ان پر مہاجر کے نام کا اطلاق تو ہو گا مگر پہلی جیسی فضیلت نہیں ہو گی۔
تجزیہ
لَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ کے فرمان کے باوجود صرف ایک قسم کی ہجرت یعنی مکہ سے مدینہ کی ہجرت ہی بند ہوئی اور باقی ہر قسم کی ہجرت جاری ہے۔دوسری طرف مخالفین لا نبی بعدی کے متعلق کہتے ہیں کہ ہر قسم کی نبوت ختم ہے جبکہ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ لا نبی بعدی کے ارشاد کا منطوق یہ ہے کہ تمام نبوتیں بند ہیں سوائے ایک قسم کی نبوت کے۔
چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
‘‘محیی الدین ابن عربی نے لکھا ہے کہ نبوت تشریعی جائز نہیں دوسری جائز ہے۔مگر میرا مذہب یہ ہے کہ ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند ہے صرف آنحضرتﷺ کے انعکاس سے جو نبوت ہو وہ جائز ہے’’
(بدر 17؍اپریل 1903ء صفحہ102،فرمودہ 15؍اپریل 1903ء)
پس مخالفین جبلَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ کے ارشاد کے باوجود صرف ایک قسم کی ہجرت بند کر کے باقی ساری ہجرتوں کو جاری مانتے ہیں بلکہ بعض قسم کی ہجرتوں کے وجوب کے قائل ہیں۔ جبکہ دوسری طرف لَانَبِیَّ بَعْدِی سے ہر قسم کی نبوتوں کو بند قرار دیتے ہیں اور صرف ایک قسم کی نبوت کو جاری ماننے پر طعن کرتے ہیں۔پھر یہ تسلیم بھی کرتے ہیں کہ لَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ اورلَا نَبِیَّ بَعْدِی کی ترکیب ایک جیسی ہے۔
٭…٭…٭