توہین رسالت کی سزا (قسط سوم۔ آخر)
توہین رسالت کے جرم میں قتل کی سزا کی کوئی بھی مثال سنت خلفاء راشدین یاکسی حدیث صحیح سے ثابت نہیں،نہ تاریخی لحاظ سے کوئی ایسی قابل اعتماد روایت موجود ہے کہ اسے قرآنی تعلیمات کے برخلاف ایک حجت شرعی قرار دے کر اس سزا کو نافذ کیا جاسکے
فتح مکہ پر بعض دشمنوں کے قتل کا حکم
فتح مکہ پر واجب القتل قرار دیےجانےوالے 14؍افراد میں سے بعض روایات کے مطابق 9؍کو رسول کریمﷺ نے معاف فرما دیا۔نہ صرف معاف فرمایا بلکہ بعض پر تو عنایات بھی کیں۔امام ترمذی کے مطابق اس موقع پرصرف چار قتل ہوئے۔بعض محققین کے نزدیک صرف تین قتل ہوئے۔اور وہ بھی مختلف جنگی جرائم اور قصاص کی وجہ سے واجب القتل تھے۔ اگر توہین رسالت کی سزا قتل بطور حد کے ہوتی تو رسول اللہﷺ ہرگز انہیں معاف نہ کرتے۔
ابن خطل کا قتل
فتح مکہ کے موقع پر ابن خطلکو کعبہ کے پردوں سے لٹکے ہونے کے باوجود قتل کردیا گیا۔
(بخاری کتاب الجھاد والسیر بَابُ قَتْلِ الأَسِيرِ، وَقَتْلِ الصَّبْرِ)
اگر یہ بدبخت بھی معافی مانگتا توبخشاجاتا کیونکہ جنہوں نے رسول اللہﷺ سےمعافی مانگی ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جسے معاف نہ کیا گیا۔
بعض محققین کے نزدیک فتح مکہ کے موقع پر صرف ایک بدبخت قتل ہوا تھا۔چنانچہ امام المحدثین حضرت امام بخاری جن کی تحقیق کا معیار سب سے بلند اور اعلیٰ ہے، نے صرف ابن خطل کے قتل کا ذکر فرمایا ہے۔(بخاری کتاب الجھاد والسیر بَابُ قَتْلِ الأَسِيرِ، وَقَتْلِ الصَّبْرِ)ابو داؤد کی روایت میں مذکور ہے کہ فتح مکہ پرقتل کا حکم صرف چار آدمیوں کے بارہ میں تھا۔(ابوداؤدکتاب الجہاد بَابُ قَتْلِ الْأَسِيرِ وَلَا يُعْرَضُ عَلَيْهِ الْإِسْلَامُ) اس کے راویوں میں احمد بن فضل،اسباط بن نصر اور سدی تینوں پر علمائے حدیث نے جرح کی ہے۔یہ تینوں راوی شیعہ ہیں اور حاکمنے مستدرکمیں اس پہلو سے اظہار کیا ہے۔ احمد بن المفضلکو ازدی نے منکر الحدیث لکھا ہے۔ اسباطکے بارے میں نسائی لکھتے ہیں کہ یہ قوی نہیں ہے۔ابوداؤد کی ایک اور روایت میں بھی فتح مکہ پرچارافرادکے قتل کے حکم کا ذکر ہے مگر اس روایت کے بعد لکھا ہے کہ اس کی سند جیسی چاہیے تھی مجھے نہیں مل سکی۔ابوداؤد کی تیسری روایت میں صرف ابن خطلکے قتل کا ذکر ہے۔ عبداللّٰہ بن خطل اہانت رسولؐ کی سزا میں نہیں بلکہ قصاص میں قتل ہواجس نے ایک مسلمان انصاری غلام کو قتل کیا تھا۔
ابن خطل کی لونڈی کا قتل
ابن خطل کی دو لونڈیاں تھیں جو ہجویہ اشعار گاگاکر مسلمانوں کے خلاف کفار کو اکساتیں۔اس طرح تحریک جنگ اور اقدام قتل کی مسلسل مرتکب ہوتی رہیں۔یادرہے کہ اس زمانے میں ہجویہ اشعار کوئی معمولی جرم نہ تھا بلکہ ان کی وجہ سے قبائل میں اس قدر اشتعال پیدا ہو جاتا کہ تلواریں بے نیام ہوجایا کرتی تھیں۔ پس ان لونڈیوں کا جرم کوئی معمولی نہ تھا بلکہ فساد فی الارضکے زمرے میں آتا تھا ایسی اشتعال انگیزی کی وجہ سے تین جنگوں میں بہت سے بے گناہ مسلمانوں کا خون ہوچکا تھا۔مگر دراصل کسی لونڈی کا قتل واضح طور پر ثابت ہی نہیں۔
جبکہ ان دو لونڈیوں میں سے کمزور روایات کے مطابق ایک کا نام قریبہبتایا جاتا ہے وہ ماری گئی مگر دوسری لونڈی سارہنامی بھاگ گئی ۔پھرجب اس نے بھی معافی مانگی تو رحمة للعالمینﷺ نے اسے معاف فرما دیا ۔چنانچہ وہ اسلام لے آئی۔(السیرةالحلبیہجزء3صفحہ131)بعض کہتے ہیں کہ دونوں قتل ہوگئی تھیں یہ درست نہیں ہے ۔بعض کے مطابق سارہ ابن خطلکی نہیں بلکہ بنی عبد المطلب کی لونڈی تھی اس نے امان چاہی تو اسے امان دی گئی۔(جامع)اور ابن خطل کی لونڈیوں کے نام‘‘فرتنی’’اور قریبة’’بتائے ہیں ان میں سے ایک قتل ہوگئی۔(جوامع السیرة جزء1 صفحہ185)دوسری کے لیے امان مانگی گئی تو رسول اللہﷺنے امان دے دی۔وہ اس کے بعد ایک مدت تک زندہ رہی اور رسول اللہﷺ کی زندگی میں وفات پاگئی۔
سارہ کے قتل کا مبینہ واقعہ
دوسری لونڈی سارہنامی جو عمرو بن ہشام کی بتائی گئی ہے، اس کے بارے میں دلچسپ روایت درج ہے جو توہین رسالت کی سزا کے نظریے کو کلیةً رد کرتی ہے۔لکھا ہے کہ یہ مکہ کی نوحہ خواں عورت تھی جو حضورﷺ کے خلاف ہجویہ اشعار بھی گاتی تھی۔مگر یہ خود رسول اللہﷺ کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوئی اور امداد کا مطالبہ کیا۔حضورؐ نے فرمایا ‘‘کیا تیرے لیے وہ کچھ کافی نہیں جو تجھے گانے اور نوحہ کرنے پر ملتا ہے۔’’اس نے کہا جب سے بدر کی جنگ ہوئی ہے قریش کے سرداروں نے گانا سننا چھوڑ دیا ہے۔
(الصارم المسلولجزء 1صفحہ128)
باوجودیکہ حضورﷺ کے خلاف ہجویہ اشعار گاتی تھی۔ توہین کی شدید مرتکب ہوئی تھی اور خود مکہ سے چل کر مدینہ آئی تھی ۔ان فتووں کے مطابق تو اسے فوراً قتل کردینا چاہیے تھا۔ مگر دیکھیے رحمة للعالمین ﷺکیا فیصلہ فرماتے ہیں۔آپؐ نے صحابہ کواس کی امداد کے لیے ارشاد فرمایا جس پر اتنا زیادہ اناج اکٹھا ہوگیا کہ ایک اونٹ پر لادا گیا۔وہ اونٹ سامان سمیت آپﷺ نے سارہ کو بطور امداد دے کر رخصت فرمایا۔
(الصارم المسلولجزء 1صفحہ128)
اوریہ واپس مکہ جاکر شرک پر قائم رہی۔اب جس روایت کے مطابق نبی کریمﷺکے حکم پر وہ فتح مکہ کے روز قتل کی گئی۔اس پرحیرت ہوتی ہے کہ ایسی نامعقول بات کوئی سلیم فطرت انسان کیسے قبول کرسکتا ہے کہ وہی سارہ جب مشرکہ ہونے کی حالت میں مدینہ آئی اوراپنے جرم کے باوجود دربار نبویؐ سے فیضیاب ہوکر واپس لوٹی تو بعد میں یہ بات اس کے لیے سزائے موت کا جرم کیسے بن گئی۔حالانکہ مدینہ آنے پر اس کے شرک پر کوئی اعتراض نہ ہوا۔بلکہ انسانی ہمدردی کے تحت اس کی مدد کی گئی مگر وہی شرک بعد میں اتنا بڑا جرم کیسے بن گیاکہ اس کی سزا قتل ٹھہری جو لَا اِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِکے قرآنی اصول کے خلاف ہے۔پس یہ من گھڑت روایت ہے۔
روایت کی کمزوری اس سے بھی ظاہرہےکہ تاریخ کی کئی کتب میں واضح لکھا ہوا ہے کہ اسے بھی معاف کردیا گیا تھا اوروہ فتح مکہ کے بعدحضرت ابوبکرؓ کے دورِ خلافت تک زندہ رہی۔
وسارّة مولاة لبعض بني عبد المطلب رضي اللّٰه تعالى عنها فإنها أسلمت بعد ذلك وعاشت إلى خلافة أبي بكر رضي اللّٰه عنه(السيرة الحلبية جزء3صفحہ117)پس ابن خطلکی صرف ایک لونڈی کے قتل ہونے کا مبہم ذکر ملتا ہے۔اس کی بھی تفصیلات معلوم نہیں کہ اسے کس نے کہاں اور کیسےقتل کیا تھا۔
جہاں تک اس کی دو گانے والی فاحشہ لونڈیوں کا تعلق ہے ، ان کے نام و انجام کے بارہ میں تاریخ سے کوئی واضح ثبوت نہیں ملتے ، ابن ہشام نے صرف ایک کا نام فرتنیاور ایک کے بھاگ جانے اور دوسری کے قتل ہونے کا ذکر کیاہے۔(السیرة النبویةجزء2صفحہ410)جب کہ ابن سعد نے دوسری لونڈی کا نام قریہہ لکھاہےجو فرتنہکی ہی دوسری قراءت معلوم ہوتی ہے، کیونکہ دوسری جگہ ابن سعد نے دوسری لونڈی کا نام بنانہ الفاسقہ بیان کیاہے۔
(الطبقات الکبریٰ جزء4صفحہ223)
علامہ ابن حجر نے دوسری لونڈی کا نام ارنب اور کنیت امّ سعد کا ذکر کیاہے۔(فتح الباری جلد8صفحہ11)
علامہ بیھقی نے ابن خطل کی بجائے مقیسکی لونڈیوں کا ذکر کیاہے۔
(بیھقیجلد 9صفحہ212، مجمع جلد6صفحہ173، دار قطنی جلد2صفحہ301، ابو داؤد،کتاب الجہاد باب قتل الاسیر)
بعض نے قریش کی ایک اور لونڈی سارہ یا امّ سارہ کو ابن خطلسے منسوب کردیا۔
(بیھقیجلد5صفحہ 60، مجمع جلد6صفحہ167)
زیادہ مستند روایت علامہ بلاذریکی ہے جس کے مطابق ابن خطلکی لونڈی بھیس بدل کر آئی اور بیعت کرکے اسلام قبول کرلیا۔اور پھر اسے معافی طلب کرنے پر امان ملی۔ وہ حضرت عثمان ؓ کے زمانہ تک زندہ رہی ۔
(فتوح البلدانصفحہ53تا54)
توہین رسالت کے بارہ میں روایات کی تحقیق
واقعات توہین رسالت کے عدم ثبوت کے بعد اب ہم ان روایات کی طرف آتے ہیں جن سے توہین رسالت کی سزا کا ثبوت لیاجاتاہے۔
رسول اللہﷺ پر تقسیم مال کی نکتہ چینی
فتح مکہ کے موقع پر آنحضرتﷺ مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ کسی نے اعتراض کیا کہ آپ عدل سے کام نہیں لے رہے۔آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا جاؤ اور اسے قتل کردو۔حضرت ابوبکرؓ گئے مگر وہ شخص ہاتھ نہ آیا۔
(الصارم المسلولجزء1صفحہ180)
اس روایت کی کمزوری کا یہ حال ہے کہ اس سند پر خود ابن تیمیہکو تسلی نہیں ہے۔وہ لکھتے ہیں:
‘‘یہ حدیث مرسلہے اس کے راوی مجالد میں ‘‘لین’’ یعنی کمزوری ہے۔’’(الصارم المسلول جزء1صفحہ180)
جہاں تک متن کا تعلق ہے تواس میں پھر اس شخص کا غائب ہوجانانا قابل فہم ہے۔
اسی کے آگے وہ واقعہ بھی درج ہے جو صحاح ستہ میں صحیح سند کے ساتھ آیا ہے کہ فتح مکہ پر جب آپ مال تقسیم فرما رہے تھے تو کسی بدبخت نے (جس کا حلیہ درج ہے)کہا کہ آپؐ عدل سے کام نہیں لے رہے تو حضرت عمرؓ نے اس کے قتل کی اجازت چاہی تو آپؐ نے انہیں منع فرمایا۔یہ ہے اس واقعہ کی اصل حقیقت!
اسی طرح صحیح بخاری کی د وسری روایت کے مطابق جب حضرت خالد بن ولیدؓ نے آنحضورﷺ کے مال تقسیم کرنےپر نکتہ چینی کرنےوالے بدّوکو قتل کرنا چاہاتو رسول اللہﷺ نے فرمایا:نہیں،شاید کہ وہ نماز پڑھتا ہو۔حضرت خالدؓکے اصرار پر کہ یہ ظاہر کچھ کرتے ہیں اور ان کے باطن میں کچھ اور ہے۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا:‘‘إِنِّي لَمْ أُومَرْ أَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ وَلاَ أَشُقَّ بُطُونَهُمْ’’کہ مجھے لوگوں کے دلوں کو کریدنے اورتجسس کرنےکے لیے نہیں کہا گیا،نہ ہی مجھے اجازت ہے کہ میں ان کے پیٹ پھاڑوں۔
(صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ بَعْثِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍؓ ، وَخَالِدِ بْنِ الوَلِيدِ ؓ، إِلَى اليَمَنِ قَبْلَ حَجَّةِ الوَدَاعِ)
پس یہ روایت بخاری کے خلاف ہونے کی وجہ سے اور قابل ردّ ہے۔
بعض اور واقعات بھی جن سے توہین رسالت کی سزا کا استدلال کیا جاتا ہے قابل وضاحت ہیں۔
ایک حدیث رسولﷺ
حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
مَنْ سَبَّ نَبِیًّا فَاقْتُلُوْہٗ وَ مَنْ سَبَّ اَصْحَابِیْ فَاجْلِدُوْہٗ
(الشفا جزء2صفحہ221)
یعنی جو شخص کسی نبی کو گالی دے اسے قتل کر دو اور جو شخص میرے صحابہ میں سے کسی کو گالی دے اس کو قرار واقعی سزا دو۔
یہ روایت طبرانینے معجم الصغیر باب العین میں درج کی ہے۔ لیکن ساتھ یہ بھی بیان کردیا کہ
‘‘لا يُرْوَى عَنْ عَلِيٍّ ، إِلا بِهَذَا الإِسْنَادِ ، تَفَرَّدَ بِهِ ابْنُ أَبِي أُوَيْسٍ’’
پس یہ منفرد اورضعیف روایت حضرت علیؓ کی طرف منسوب ہے۔جس میں ابن ابی اویس منفرد ہیں۔خود امام ابن تیمیہ اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:‘‘اس سے دل میں کھٹک سی ہے کیونکہ اس اسناد پر غیر معروف متون جوڑے گئے ہیں اور اہل بیت سے روایت کرنے والا راوی ضعیف ہے۔’’
حضرت ابوبکرؓ کا قول
روایت ہے کہ مہاجر بن ابی امیہ حضرت ابوبکرؓ کے دور میں گورنر تھے انہیں علم ہوا کہ ایک عورت گستاخی کیا کرتی تھی انہوں نے اس کے ہاتھ کٹوا دیے اور اگلے دانت تڑوادیے۔جب حضرت ابوبکرؓ کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ کاش تم نے یہ نہ کیا ہوتا تو میں اسے قتل کروادیتا۔
(الشفاءجزء2صفحہ222)
اوّل تو اس روایت میں بیان واقعہ بھی بلا سند ہے۔راوی بھی نامعلوم ہے۔جہاں تک درایت کا تعلق ہے اگریہ واقعہ تسلیم بھی کرلیا جائے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کم ازکم حضرت ابوبکرؓ کی خلافت تک گستاخ رسولؐ کی سزا قتل نہیں تھی اس لیے مسلمان گورنر نے اسے قتل نہ کروایا۔اسی طرح حضرت ابوبکرؓ نے بھی قتل نہ کروایا حالانکہ وہ اس پر قادر تھے۔اسی طرح کسی صحابی یاتابعی نے بھی اس گورنر کواس نام نہاد سزا کی طرف توجہ نہ دلائی۔
حضرت عمرؓ سے منسوب ایک قول
ابن تیمیہنےبغیر سند کے ایک روایت درج کی ہے کہ مجاہد روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے پاس ایک شخص لایا گیا جو رسول اکرمؐ کو گالیاں دیتا تھا اس پر آپؓ نےا سے قتل کروادیا اور فرمایا
مَنْ سَبَّ اللّٰہَ اَوْ سَبَّ اَحَدًا مِّنَ الْاَنْبِیَاءِ فَاقْتُلُوْہٗ
(الصارم المسلولجزء1صفحہ201)
حضرت عمرؓ سے منسوب یہ روایت کسی معروف اور معتبر کتاب میں مذکورنہیں ہے۔اسی طرح کئی بے نام روایات ہیں جن میں مدعی،مدعا علیہ اور واقعہ کی صحیح تاریخ اور فیصلہ کنندہ کے بارے میں کوئی صراحت موجود نہیں۔لہذا وہ ناقابل قبول ہیں۔
‘‘مَنْ سَبَّ الْاَنْبِیَاءَ قَتَلَ’’کی ثقاہت
یہ حضرت علیؓ سے منسوب منفردروایت ہے۔اس کا ایک راوی عبید اللّٰہ بن محمد العمری ضعیف ہے لکھا ہے رماہ النسائی بالکذب۔(مجمع الزوائد جزء6 صفحہ260)امام نسائی نے اس پر جھوٹ باندھنے کا الزام لگایا ہے۔امام دارقطنی نے بھی ان کو ضعیف کہا ہے۔نیز اس خاص روایت کے بارےمیں بھی کہا گیا ہے کہ یہ منکر ہے۔اور علامہ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں اس روایت کے تمام راوی ثقات ہیں سوائے عبیداللّٰہ بن محمد العمری کے۔
(لسان المیزانجزء4صفحہ112)
حضرت ابوہریرةؓ کی طرف منسوب روایت
حضرت ابوہریرةؓ کی طرف یہ روایت منسوب ہے کہ انہوں نے کہا:
‘‘ لَا يُقْتَلُ أَحَدٌ بِسَبِّ أَحَدٍ، إِلَّا بِسَبِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ’’(سنن الکبری للبیھقی جزء7 صفحہ97)
کہ کوئی شخص کسی اور کو گالی دینے کی وجہ سے قتل نہ کیا جائے گا ۔ہاں صرف رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی کی وجہ سے قتل ہوگا۔
اس روایت کی سند بھی کمزور اور غیر معتبر ہے جس کا ایک راوی عبد الملک بن محمد ضعیف ہے۔
(تہذیب الکمالجزء2صفحہ88)
نیز اس کے دوسرے راوی ابراہیم بن سعد ہیں جو امام زہریسے روایت کررہے ہیں حالا نکہ صالح بن محمد جزرہ کہتے ہیں سماعہٗ مِنْ الزھری لَیْسَ بِذَالِکَ لِاَنَّہٗ کَانَ صَغِیْرًا۔(سیر جزء7صفحہ313)ان کا سماع امام زہری سے ثابت نہیں کیونکہ وہ اس وقت بہت چھوٹے تھے۔امام احمد بن حنبلؒ کہتے ہیں کہ ابراہیم بن سعد کا ذکر یحی بن القطان کے سامنے کیا گیا تو انہوں نے اسے ضعیف بتایا۔(تھذیب التھذیب جزء1صفحہ121)ابن عدینے انہیں امام زہریسے عجیب و غریب روایت بیان کرنے والوں میں شمار کیا ہے۔
نیز امام بخاری نے کہا کہ ‘‘وَھُوَاسْنَادٌ لَا یعرف’’ کہ اس کی اسناد غیرمعروف ہیں۔
(میزان الاعتدالجزء1صفحہ37)
یہاں یہ بیان بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ دوسری روایات میں ذکر ہے کہ خودحضرت ابوہریرةؓ نے بھی رسول اللہﷺ کی خدمت میں بعینہ ٖاسی قسم کی شکایت اپنی والدہ کے بارہ میں کی تھی کہ آج تو انہوں نےاس قدر گستاخی کی کہ مجھ سے برداشت نہیں ہورہا تھا اس پر رسول اللہﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ جاؤ اسے قتل کردو بلکہ آپؐ نے اس کی ہدایت کے لیے دعا کی اور وہ اسلام لے آئی۔
ان تمام تفاصیل واقعات و روایات سے ظاہر ہے کہ توہین رسالت کے جرم میں قتل کی سزا کی کوئی بھی مثال سنت خلفاء راشدین یاکسی حدیث صحیح سے ثابت نہیں،نہ تاریخی لحاظ سے کوئی ایسی قابل اعتمادروایت موجودہے کہ اسے قرآنی تعلیمات کے برخلاف ایک حجت شرعی قرار دے کر اس سزا کو نافذ کیا جاسکے۔
اس مضمون کاایک نہایت اہم پہلویہ ہے کہ توہین رسالت کی تعیین کیسے ہو اور کس حد تک کی گئی اہانت رسول سزا کی مستوجب ٹھہرائی جائے۔ کیاآنحضرت ؐ کی تکفیر و تکذیب کو توہین قرار دیا جائے گا؟یا کیا ہر وہ شخص جو آپ کو معاذ اللہ جھوٹا اور جعلساز سمجھتا ہے وہ گردن زدنی قرار پائے گا؟ اگر ایسا ہے تو تمام وہ لوگ جو اختلاف عقیدہ کی بناء پر نبی کریم ؐپر ایمان نہیں لاتے اور آپ کو اپنے خیال میں سچا نہیں سمجھتے اور جن میں تمام یہودی ، عیسائی اور غیر مسلم شامل ہیں موت کی بھینٹ چڑھانے ہوں گے۔مگر یہ اسلام کے بنیادی اصول لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقرة :257)کے صریح خلاف ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں۔ اور اگر توہین کی یہ تعریف نہیں تو کیا پھر نبی کریم ؐکو برا بھلا کہنے والے اس کی زد میں آئیں گے۔ اس سوال پر غور کرتے ہوئے ہمیں عزت، ذلت کے فلسفہ پر نظر کرنی ہوگی کہ کیا کسی کے گالی گلوچ سے یا توہین آمیز کلمات سے کسی معزز و محترم انسان کی واقعی توہین ہوجاتی ہے؟ہر گز نہیں۔
قرآن شریف نے عبداللّٰہ بن ابیکے توہین آمیز کلمات کے معاً بعد اس خیال کی تردید فرما دی کہ کیاایسے بیہودہ، خلاف واقعہ کلمات سے رسول اللہ کی کوئی بے عزتی ہوئی؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ فرمایا کہ
وَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ (المنافقون:9)
کہ اصل عزت اللہ ، اس کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے۔اسی طرح فرمایا:
وَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِيعًا (يونس :66)
اور تجھے اُن کى بات غمگىن نہ کرے ىقىناً عزت تمام تر اللہ ہى کے اختىار مىں ہے۔
پس جس طرح چاند پر تھوکنے والے کا تھوک خود اس کے منہ پر پڑتا ہے اسی طرح پاک اور مقدس لوگوں کو برا بھلا کہنے والوں کو ان کے گندے کلمات واپس لوٹا ئے جاتے ہیں۔ جیسا کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ اگر کوئی کسی کے والدین کوگالی دے تو یہ گالی خود اس کے والدین پر لوٹائی جاتی ہے۔ (بخاری کتاب الادب بَابٌ لاَ يَسُبُّ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ)چنانچہ ایک دفعہ نبی کریم ؐکی موجودگی میں کوئی شخص حضرت ابو بکر ؓکو برا بھلا کہہ رہا تھا، پہلے تو حضرت ابو بکرؓ خاموش رہے مگر جب اس نے حد کر دی تو آپ نے بھی جواب دیا اس پر رسول اللہ ؐمجلس سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے سبب پوچھا تو فرمایا کہ جب تک آپ خاموش تھے فرشتے آپ کی طرف سے جواب دے رہے تھے آپ نے خود جواب دیا تو وہ فرشتے چلے گئے۔ لہذا میں بھی جاتا ہوں۔
(مسند احمدجزء15صفحہ390)
الغرض اسلامی تعلیم کا فلسفہ تو یہ ہے کہ گالی بکنے والا خود ذلیل ہے اور مظلوم و معصوم مومن کی طرف سے فرشتے ایسی توہین کا بدلہ لیتے اور جواب دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک مومن بندے کی طرف سے فرشتے اس کی توہین کا بدلہ لیتے ہیں تو کیا خدا اپنے رسول کا بدلہ لینے کے لیے کافی نہیں۔ ہاں وہ خدا جو اپنے مقدس رسول سے وعدہ فرماتا ہے کہ وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدة:68)کہ اللہ تعالیٰ آپ کی عصمت کی ضمانت خود لیتا ہے وہ آپ کو دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھے گا۔ ہاں وہی رسول کہ جس کے آگے اور پیچھے خدا نے حفاظت کے لیے فرشتے مامور کر چھوڑے ہیں جو اللہ کے خاص حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔
لَهٗ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُونَهٗ مِنْ أَمْرِ اللّٰهِ (الرعد:12)
پس رسول خدا کو اپنی عزت کی حفاظت کے لیے سزائے موت کے ایسے انسانی قانون کی پناہ لینے کی چنداں ضرورت نہیں جس کے ذریعے الزام دہی سے کئی معصوم انسانی جانوں کو یہ الزام لگاکر تلف کرنے کا دروازہ بھی کھلتا ہو۔ ہاں !پیشوایانِ مذاہب کی عزت وحرمت کے قیام کے لیے بطور تعزیر کوئی سزا ضرورمقرر کی جاسکتی ہے جو اصولاً مقرر کردہ شرعی حدود سے بڑھ کرنہیں ہوسکتی۔لیکن اصل سوال پھر جوں کا توں ہے کہ توہین رسالت کی حدود کہاں سے شروع ہوتی ہیں اور ہر ہندو، سکھ ، عیسائی ، یہودی جو رسول کریم ؐکو اپنے دل میں نیک نیتی سے جھوٹا خیال کرتا اور کھلے بندوں اس کا اظہار کرتا ہے کیا وہ توہین کا مرتکب ہو گا؟ یا آپ کو برا بھلا کہنے اور فرضی مذمت کرنے والا سزا کا مستوجب ہو گا؟ کیا ‘مذمم ’کہنے والوں کوآنحضرت ؐنے ہمیشہ کے لیے یہ کہہ کر سزا سے بری نہیں کردیا کہ میرا نام تو محمد ہے جس کے معنی تعریف کیا گیا کے ہیں۔ وہ جس مذمم کو قابل مذمت قرار دیتے ہیں، دیتے رہیں۔
(بخاری کتاب المناقب بَابُ مَا جَاءَ فِي أَسْمَاءِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)
اسلامی تعریف کے مطابق حقیقی معززوہ ہے جو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اپنے اندر رکھتا ہے اورقرآن کے مطابق عزت و ذلت کا سرچشمہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے وہ جسے معزز کہے وہی عزت والا ہے اور فی الواقعہ دنیا میں سب سے محترم اور معزز ہستی خدا کے رسول ہوتے ہیں اور ان کی عزت مومنوں کے دلوں میں ہوتی ہے اور وہ دلوں پر حکومت کرتے ہیں۔ اسی لیے سب سے بڑھ کر ان کی اطاعت کی جاتی ہے ۔ اور ان کے ادنیٰ سے اشارے پر مومن اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں اس حقیقی عزت کے ہوتے ہوئے دنیوی عزتوں اور وجاہتوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ اگر خدا کی خاطر اس کے پیاروں اور فرستادوں کو کوئی ذلت برداشت بھی کرنی پڑے تو وہ یہ کہہ کر اسے مرحبا کہتے ہیں کہ
گروہ ہو ذلت پر راضی اس پہ سو عزت نثار
طائف کے روزجب نبی کریمؐ وہاں کے اوباشوں کی سنگ باری سے لہولہان ہوگئے اور کفار سے سخت اذیت اور ذلت اٹھا کر خدا کے حضور یہ شکوہ پیش کیا کہ اے میرے مولیٰ!میں اپنی ناتوانی اور لوگوں میں ذلت کی شکایت تیرے پاس کرتا ہوں ۔ ہاں اگر تو راضی ہے تو پھر مجھے پروا نہیں۔
توہین رسالت کے مضمون کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ مقدس ہستیوں کے تحفظ ناموس کے لیے قرآن شریف کیا اصول پیش کرتا ہے؟یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ قرآن شریف ایک کامل اور مکمل ضابطۂ حیات ہونے کا مدعی ہے اگر وہ اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا تو اس پر نقص کا الزام آئے گا۔ چنانچہ قرآن شریف پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے صرف اپنے رسول کی عزت کے تحفظ کی ہی ضمانت نہیں دی۔ بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے اس خالق کائنات نے اپنے ابدی اور دائمی کلا م قرآن شریف میں وہ عظیم الشان اصول پیش کیا ہے جس کے ذریعہ مذہبی مقدس ہستیوں کی عزت کی حفاظت ہوسکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے:
وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدۡوًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ؕ کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَہُمۡ ۪ ثُمَّ اِلٰی رَبِّہِمۡ مَّرۡجِعُہُمۡ فَیُنَبِّئُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ(الأَنعام:109)
‘‘اور تم انہیں جنہیں مشرک اللہ کے سوا پکارتے ہیں گالیاں نہ دو۔ ورنہ وہ دشمن ہو کر جہالت کی وجہ سے اللہ کو گالیاں دیں گے اس طرح ہم نے ہر ایک قوم کے لیے اس کے عمل خوبصورت کر کے دکھائے ہیں پھر انہیں اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے جس پر وہ انہیں ان کے اعمال کی خبر دے گا۔’’
اس آیت میں یہ اصول بتایا گیا ہے کہ کسی بھی مذہب یا دین میں مقدس سمجھی جانے والی ہستیوں کی عزت کی حفاظت صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ ہر ملک و مذہب کے لوگ یہ عہد کر لیں کہ وہ دوسرے مذہب کی مقدس ہستی کو گالی نہ دیں گے اور جس ہستی کو وہ مقدس سمجھتے ہیں اس کی توہین نہ کریں گے۔ خواہ وہ دوسروں کے نزدیک مقدس ہو یا نہ ہو۔ جیسے کفار کے وہ معبود جنہیں خدا کے سوا پکارا جاتاہے۔ چونکہ یہ کفار کے نزدیک قابل احترام ہیں اس لیے مسلمانوں کو کفار کے دلی جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے ان معبودان باطلہ کو بھی گالی دینے یا برا بھلا کہنے سے باز رہنا ہوگا۔
اب دیکھیں یہ کیسی عادلانہ اور منصفانہ تعلیم ہے اگر ہر مذہب و عقیدے کے لوگ اس پر کار بند ہوجائیں تو دنیا میں اختلاف مذہب یا عقیدے کی بنا پر کوئی فساد پیدا نہیں ہوسکتا۔
دوسری بات اس آیت میں یہ بیان کی گئی ہے کہ اگر تم کسی مذہب یا ملک کے نزدیک مقدس سمجھی جانے والی ہستی کی توہین کرو گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ لاعلمی میں عداوت و انتقام کی وجہ سے تمہاری مقدس ہستیوں کی توہین کریں گے اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق اپنے بدلے کا حق استعمال کریں گے۔
تیسری بات اس آیت سے یہ پتہ چلتی ہے کہ اگر تم نے ان کے معبودانِ باطلہ کو گالی دی تو وہ تمہارے خدا کو گالی دیں گے۔ مگر جواباً خدائے قدوس کو مشرکین کی گالی دینے کی کسی سزا کا یہاں ذکر نہیں جو واضح اشارہ ہے کہ مشرکین کی تمہارے خدا کو جوابی گالی کے نتیجہ میں بھی تمہیں ان پر گرفت کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ پس جب مسلمانوں کو خدا کی توہین کی کسی سزا کا حق اور اختیار نہیں دیا گیا تو رسول کی توہین کی سزا کا تصور بھی کیسے ممکن ہے؟ پہلے خدا کی توہین کی سزا معین کیجیے تو دنیا کی بہت بڑی آبادی جو دہریہ اورلا مذہب لوگوں پر مشتمل ہے ان پر گرفت کرنا ہوگی اور یہ کسی طرح ممکن نہیں۔ نہ ہی رسول اللہ ﷺنے ایسا کوئی قانون جاری فرمایا۔ پس اس صریح نص قرآنی کی موجودگی میں توہین رسول کی سزا کے قانون کی کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ ہاں اگر کوئی قانون نافذ کرنا ہے تو پھر اس آیتِ قرآنی کے مطابق تمام مذاہب کی مقدس ہستیوں کی عزت کی ضمانت دینے والا یہ قانون جاری ہونا چاہیےکہ قطع نظر اس کے کہ کوئی ہستی دوسرے مذہب کے نزدیک مقدس ہے یا نہیں اس کی اس لیے عزت کی جائے کہ وہ بعض لوگوں کے نزدیک قابل عزت ہے۔ یہ قانون بلاشبہ امن و آشتی اور صلح کا قانون ہوگا جس سے عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں گے اور تمام بنی نوع کے حقوق کی بلا امتیاز ضمانت دی جاسکے گی۔ کیونکہ اس قانون کا نافذکرنے والا وہ عالم الغیب خدا ہے جس کی تمام انسانی دلوں پر بھی نظر تھی اور آئندہ زمانوں پر بھی۔ اور وہ خدا جو ذرّہ برابر کسی پر ظلم نہیں کرتا اور جس سے بڑھ کر کسی ہستی سے عدل متصور نہیں ہوسکتا اس کے جاری فرمودہ اس قانون میں ہی انسان کی فلاح اور دائمی نجات ہے۔
(اس مضمون کی تیاری میں مکرم مسعود احمد سلیمان صاحب استاذ جامعہ احمدیہ اور مکرم باسل احمد بشارت صاحب مربی سلسلہ کا خصوصی تعاون شامل ہے۔فجزاھما اللّٰہ تعالیٰ احسن الجزاء)
٭…٭…٭