محبت کے تیر
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
امریکہ کاا یک پریذیڈنٹ تھا اس کے دل میں غلامی کی رسم کے خلاف خیال پیدا ہوا اور اس نے ایک مسودہ قرار دیا کہ جس میں غلامی کی رسم کی ممانعت کا اعلان کیا ۔ لیکن امریکہ کہ جس کی تمام دولت کا انحصار غلاموں پر تھا اس کے رؤسا نے فیصلہ کے خلاف آواز اٹھائی اور انہوں نے کہا کہ ہماری ریاست علیحدہ کردو۔ پریذیڈنٹ نے کہا جب تم پہلے شامل ہو چکے ہوئے ہو تو اب تم علیحدہ نہیں ہو سکتے۔ آخر نتیجہ یہ ہوا کہ جنگ چھڑ گئی ۔ جس میں پہلے تو پریذیڈنٹ کے مقابل فریق کا پلہ بھاری رہا کیونکہ وہ لوگ بوجہ زمیندار کے مضبوط تھے لیکن آخر پھر پریذیڈنٹ کوہی کامیابی حاصل ہوئی اور اسے دوسرے علاقہ پر فتح حاصل ہوئی اور دوسروں کا لیڈر مارا گیا اور پریذیڈنٹ کی قوم نے بڑے بڑے افسروں نے بڑے جلوس نکالنے کا ارادہ کیا۔ اور اس میں پریذیڈنٹ کو بھی بڑی شان کے ساتھ نکالنے کا ارادہ کیا۔ بڑے بڑے لوگ ایک شاندار جلوس نکالنے کی تیاریاں کر چکے تو پریذیڈنٹ کو بلایا ۔ اس نے کہا یہ جلوس کیسا؟افسروں نے جواب دیا کہ آپ کے لیے جلوس نکالنا چاہتے ہیں ۔ تو اس نے جواب دیا کہ جب میں حبشیوں کو غلام بنانا پسند نہیں کرتا تو اپنے بھائیوں کو کیسے غلام بنا سکتا ہوں۔ یہ دوسرے لوگ میرے بھائی ہیں ۔ جس طرح میں نے ملک کی خدمت کی اسی طرح انہوں نے بھی اپنے خیال میں ملک کی خدمت کی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں ایک محبت کی رو چل گئی اور پھر تمام ملک ایک ہو گیا۔
پھر اس زمانہ میں بھی حضرت مسیح موعودؑ کی تازہ مثالیں موجود ہیں جس جس رنگ میں دشمنوں نے آپ کا مقابلہ کیا ۔ دوست جانتے ہیں دشمنوں نے گھماروں کو آپ کے برتن بنانے سے سقوں کو پانی دینے سے بند کر دیا ۔ لیکن پھر جب کبھی وہ معافی کے لیے آئے تو حضرت صاحب معاف ہی فرما دیتے تھے ایک دفعہ آپؑ کے کچھ مخالف پکڑے گئے۔ تو مجسٹریٹ نے کہا کہ میں اس شرط پر مقدمہ چلاؤں گا کہ مرزا صاحب کی طرف سے سفارش نہ آئے ۔ کیونکہ اگر انہوں نے بعد میں معاف کر دیا تو پھر مجھے خواہ مخواہ ان کو گرفتار کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔مگر دوسرے دوستوں نے کہا کہ نہیں اب انہیں سزا ضرور ہی ملنی چاہیے۔ جب مجرموں نے سمجھ لیا کہ اب سزا ضرور ملے گی تو انہوں نے حضرت صاحب کے پاس آکر معافی چاہی تو حضرت صاحب نے کام کرنے والوں کو بلا کر فرمایا کہ ان کو معاف کر دو۔ انہوں نے کہا ہم تو اب وعدہ کرچکے ہیں کہ ہم کسی قسم کی سفارش نہیں کریں گے تو حضرت اقدس ؑ فرمانے لگے کہ وہ جو معافی کے لیے کہتے ہیں تو ہم کیا کریں۔ مجسٹریٹ نے کہا دیکھا وہی بات ہوئی جو میں پہلے کہتا تھا مرزا صاحب نے معاف ہی کر دیا۔
کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوا تو ہم کہتے ہیں کہ بے شک آج دنیا اس کو محسوس نہیں کرتی ۔ لیکن ایک وقت آئے گا کہ جب تاریخوں میں واقعات پڑھے جائیں گے تو یہی واقعات لاکھوں آدمیوں کی ہدایت کا موجب ہوں گے ۔ آج اگر پچاس آدمیوں پر اس واقعہ کا اثر ہے تو کل ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اس میں ہزاروں آدمیوں پر واقعات اثر کریں گے۔
(خطباتِ محمود جلد 10صفحہ 276-277 خطبہ جمعہ فرمودہ 19 نومبر 1926ء)
(مرسلہ : محمد انور شہزاد۔ پاکستان )