شاہراہِ ریشم (Silk Route)۔ ایک تعارف
سفر انسان کا شوق بھی ہے اور ضرورت بھی۔اسی لیے انسان اپنی جبلت کے ہاتھوں مجبور ہو کر زمین کی حدود سے نکل کر خلاؤں اور اجرام فلکی کا سفر بھی کر رہا ہے۔مگر ماضی میں جب ذرائع آمد و رفت محدود تھے تب بھی انسان کبھی نچلا نہیں بیٹھا۔کبھی تجارت،کبھی دینی اغراض اور کبھی ہوس ملک گیری کی تسکین کے لیےنئے نئے راستے اور منزلیں تراشتا رہا ہے۔
انہی راستوں میں سے ایک مشہور و معروف سلسلہ کا نا م شاہراہ ریشم بھی ہےجس کا نام بہت پرانا تو نہیں مگر اس نام سے جو سفری لکیریں زمین کے چہرے پر انسان نے کھینچی ہیں وہ آج بھی ورطۂ حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔اس شاہراہ کا مرکزی مقصدتو تجارت تھا مگر اس کے بیسیوں فوائد تھے۔
تاریخ سے ثابت ہے کہ قدیم زمانہ سے ایشیا اور یورپ کے درمیان متعدد تجارتی اور مواصلاتی راستے موجود تھے جن کی مدد سے مشرق اور مغرب کے لوگوں اور تاجروں کا آپس میں رابطہ تھا۔ان راستوں کی بدولت ریشم کی مصنوعات ،مصالحہ جات،اناج،ہتھیار،دھاتوں اوراوزار وغیرہ کا تبادلہ ہوتارہتا تھا۔ زمینی اور سمندری دونوں راستے اس نیٹ ورک کا اہم حصہ تھے۔ ان رابطوں ،سڑکوں،راستوں ،سمندری گزر گاہوں کے ایک مشہور سلسلہ کو آج سلک روٹ (Silk Route)یا شاہراہ ِریشم کے نام سے جانا جاتا ہےجو دوسری صدی قبل مسیح سے اٹھارویں صدی عیسوی تک دنیا کی اہم ترین تجارتی گزر گاہ تھی۔
زمانہ قدیم سے موجود ان تجارتی راستوں اور رابطوں کا کوئی ایک خاص نام نہیں تھا۔‘‘شاہراہ ریشم’’کی اصطلاح زیادہ پرانی نہیں ہے۔ 1877ء میں جرمن ماہر ارضیات بیرن فرڈینینڈ وان ریکٹففن (Ferdinand von Richthofen)نے ان تجارتی اور مواصلاتی راستوں کو Seidenstraße یا شاہراہ ریشم یعنی The Silk Roadکا نام دیا ۔ اس کے بعد یہ اصطلاح کثرت سے استعمال کی گئی۔
سلک روٹ یا شاہراہ ریشم کسی ایک سڑک یا گزر گاہ کا نام نہیں ہے۔بلکہ یہ ایک وسیع نیٹ ورک کا نام ہے جس کا پھیلاو ٔچین سے شروع ہوتا ہوا ہندوستان ،وسط ایشیاء ،مشرق وسطیٰ،مشرقی یورپ کواپنی لپیٹ میں لیتا ہوا افریقہ کے مشرقی ساحلوں تک پہنچتا تھا۔ان راستوں کا اولین مقصد تجارت تھا۔چین سے یورپ تک اس تجارتی راستہ کی لمبائی تقریباً 6500؍کلو میٹر تھی۔ چین میں اس کا آغاز Changanنامی ایک شہر (یہ شہر قدیم چینی سلطنت کا دارالحکومت ہوتا تھا)سے ہوتا تھا۔ پھر یہ شاہراہ وسط ایشیا،ایران ،ترکی سے گزرتی ہوئی یورپ تک پہنچتی تھی ۔شاہراہ ریشم پر 33؍مشہور شہر آتے تھے۔ جن میں Dunhuang(چین)، میرو (ترکمانستان)، بخارا، سمرقند(ازبکستان)، بلخ (افغانستان)، ٹیکسلا(پاکستان)، رئے، نیشاپور،ہمدان (ایران)، دمشق(شام)، بغداد، موصل(عراق)،قسطنطنیہ،ازمیر(ترکی)اسکندریہ(مصر)وغیرہ شامل ہیں۔قرون اولیٰ میںاس شاہراہ پر ایرانی زبانSoghianبطورLingua Francaاستعمال کی جاتی تھی۔ اسلام کے عروج کے بعد اس کی جگہ فارسی نے لے لی۔ دیوار چین کی تعمیر کا اہم مقصد اس تجارتی راستہ کی حفاظت کرنا تھا اور تجارتی قافلوں کو ڈاکوؤں سے بچانا تھا۔
چین سے شروع ہونے والے تجارتی راستوں کو مشرق میں پہلے سےموجود دو عوامل نے بہت مدد فراہم کی۔ ہخامنشی عہد سلطنت (Achaemenid Empire 550-330B.C)کے عرو ج کے زمانہ میں فارسیوں نے ایران سے لے کر ترکی اور یورپ کی سرحد تک ایک تجارتی شاہراہ بنائی تھی جسے شاہی سڑک(Royal Road)کہتے تھے۔سلک روٹ کے اس تجارتی شاہراہ سے ملنے سے چینی مصنوعات آسانی سے روم تک پہنچنا شروع ہو گئیں۔ دوسرا یہ کہ تیسری صدی قبل مسیح میں سکندر اعظم نے اپنی فتوحات کے دوران مصر میں اسکندریہ شہر کی بنیاد ڈالی اورپھر مشرق کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے ہندوستان تک آیا۔اسکندریہ شہر آنے والے وقتوں میں تجارت کا اہم مرکز بنا۔سکندر کی مشرق میں آمد نے بھی رومی تاجروں کو مشرق کی طرف آنے پر ابھارا۔ رومی مؤرخ Florusنے بادشاہ Augustus(اغسطس)(27 ق۔م تا14عیسوی) کےزمانہ میں رومی حکومت میں ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سن عیسوی سے قبل چینیوں اور رومیوں کا تجارتی رابطہ ہو چکا تھا۔
سلک روٹ کا بانی
سلک روٹ کے ذریعہ ریشم کی منظم تجارت کا سہرا چینی جنرل جانگ کیان(Zhang Qian)کے سر باندھا جاتا ہے۔چینی روایات کے مطابق دوسری صدی قبل مسیح میں چین کے ہن(Han)بادشاہ ووڈی (Wudi)نے اپنے ایک جنرل جانگ کیان(Zhang Qian)کو ایک سفارتی مشن پر مغرب میں وسط ایشیائی ریاستوں کی طرف بھیجا جہاں اس کو قید کر لیا گیا۔13سال قید کے بعد یہ جنرل فرار ہو کر واپس بادشاہ کے پاس پہنچا۔اس نے بادشاہ کو اپنے حالات سے آگاہ کیا اور مغربی ریاستوں سے ریشم کی تجارت کرنے کی تجویز پیش کی۔اس پر بادشاہ نے 119قبل مسیح میں ایک تجارتی وفد روانہ کیا جس سے ریشم کی باقاعدہ تجارت شروع ہوئی۔بعد ازاں ہن خاندان (Han Dynasty 206BC- 220AD)کے دور حکومت میںریشمی مصنوعات چینی برآمدات کا اہم حصہ بن گئیں۔
ریشم کی تجارت
ریشم کی تجارت ان تجارتی شاہراہوں کا اولین محرک تھی اسی لیے اس کو شاہراہ ریشم کہا گیا۔ریشم کا کپڑا سب سے پہلے چین میں تیار ہونا شروع ہوا۔ چینی روایات کے مطابق ریشم کا کپڑا پہلی مرتبہ تقریباً2700قبل مسیح میں تیار ہوا تھا۔ ریشم کو بہت زیادہ قیمتی اور نایاب خیال کیا جاتا تھا۔ریشم کی تیاری کے عمل کو ایک طویل عرصہ تک خفیہ رکھا جاتا رہاتاکہ اس کی تیاری ،تجارت اور صنعت پر چینی لوگوں کی اجارہ داری قائم رہے۔چین میں یہ شاہی حکم لاگو تھا کہ اگر کسی چینی باشندے نےاس طریقہ کار کو کسی غیر ملکی کو بتایا تو اس کو موت کی سزا دی جائے گی۔چین میں تیار کردہ ریشم کی مصنوعات کو قریبی ممالک میں تجارت کی غرض سے بھیجا جاتا، نیز بادشاہوں کو تحائف وغیرہ بھی بھجوائے جاتے۔
https://www.britannica.com/topic/Silk-Road-trade-route
© North Wind Picture Archives
پہلی صدی قبل مسیح میں ریشم کو روم میں متعارف کروایا گیا۔جہاں اس کو بہت شہرت ملی ۔ ریشمی مصنوعات کو امارت اور عیش وعشرت کی نشانی سمجھا جانے لگا۔رومی حکومت میں اس کے استعمال اور شہرت نے یورپ سے مشرق کے درمیان ریشم کی تجارت کے لیے تجارتی راستے بنانے کے لیے تاجروں کو ابھارا۔جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے ریشم کی تیاری کی معلومات کوایک عرصہ تک مخفی رکھا گیا۔بالآخر چھٹی صدی عیسوی میں یہ ہنر ہندوستان ،فارس سے ہوتا ہوا مغرب تک پہنچ گیا۔چنانچہ مشہور مورخ Procopiusلکھتا ہےکہ
تقریباً550عیسوی میں بازنطینی بادشاہ Justinian نے دو راہب اس مقصد کے لیے بھیجےکہ وہ ریشم کے کیڑوں کےانڈے لائیں ۔چنانچہ یہ راہب خفیہ طور پر ریشم کے کیڑوں کے انڈے بانس کےتنے میں چھپا کر بازنطینی حکومت میں لائے۔اس طرح رومی حکومت میں ریشم کی تیاری شروع ہوئی۔
ریشم کے علاوہ ان تجارتی راستوں سے مشرق اور مغرب میں بہت ساری مصنوعات کی تجارت ہوتی رہی۔جن میں کپڑا ، مصالحے ، اناج ، سبزیاں اور پھل ، جانوروں کی کھالیں،ہتھیار، اوزار، لکڑی کی مصنوعات، دھاتی مصنوعات وغیرہ شامل ہیں۔اس وسیع نیٹ ورک اور مستقل رابطہ سے مختلف مذاہب، علوم ،زبانوں، خیالات و نظریات ،ثقافتوں اور تہذیبوں میں رابطہ اوران کا پھیلاؤ ہوا جس نے یورپ اور ایشیا کے باسیوں کی تاریخ اور تہذیب پر گہرا اثر ڈالا۔ بہت سے شہر ثقافت،تجارت اور علم کے مراکز میں تبدیل ہو گئے۔اسی طرح سائنس ، آرٹس اور ادب کے ساتھ ساتھ دستکاری اور ٹیکنالوجی (آبپاشی کا طریق ،کاغذ بنانے کا طریق،بارود بنانے کا طریق)بھی مختلف معاشروں اور ممالک میں پھیلی۔ یہ راستے وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے رہے ۔ملکی حالات،جغرافیائی تبدیلیوں،مختلف ممالک میں دوستی اور دشمنی کے مطابق تاجر اپنے راستے بدلتے رہتے اوراپنے سفر جاری رکھتے ۔ تاجر اپنے کاروبار میں کامیابی کے لیے دوسرے علاقوں کی زبانیں سیکھتے،مختلف علاقوں میں شادیاں کرتے۔
شاہراہ ریشم پر سفر کا طریق
قرون اولیٰ اور قرون وسطیٰ میں تاجر زیادہ تر گھوڑوں، گدھوں اور اونٹوں پر سفر کیا کرتے تھے۔ راستے میں آنے والے بڑے شہروں میں سرائے اور مہمان خانے مسافروں کو خوش آمدید کہنے کے لیے موجود ہوتے تھے۔عام طور پر ہر تیس سےچالیس کلو میٹر کے فاصلے پر سرائے وغیرہ موجود ہوتے تھے جن میں آرام و راحت کا مناسب انتظام ہوتا تھا۔انہی شہروں میں مقامی مارکیٹوں میں تاجر خرید و فروخت کرتے اور مقامی رسوم ورواج ،زبان اور ثقافت کے بارےعلم حاصل کرتے۔ تجارتی قافلے اپنی حفاظت کا مناسب سامان ساتھ رکھا کرتے تھے ۔تجارتی راستے جب منافع بخش ہو گئے تو مشرق سے مغرب، ہندوستان سے افریقہ،روس ،عرب وغیرہ تک مضبوط تجارتی روابط اور سڑکیں قائم ہو گئیں جن میں سے بہت سی آج بھی قائم ہیں۔
سمندری گزر گاہیں (Maritime Silk route)
زمینی راستوں کے ساتھ سمندری راستے بھی تاجروں کے زیر استعما ل تھے۔پہلی صدی قبل مسیح میں مشرقی چینی تاجروں نے سمندر ی راستوں کو بھی منظم تجارت کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔سمندری راستوں کی مدد سے تاجر جنوب مشرقی چین سے جنوب مشرقی ایشیاکے ممالک مثلاً انڈونیشیا اور ملائیشیا تک جاتے،پھر تجارتی جہاز بحر ہند سے ہوتے ہوئے جنوبی ہندوستان اور بنگال کی بندرگاہوں تک پہنچتے تھے ۔دوسری طرف مشرقی افریقہ کے ساحل سے لےکر عدن،بصرہ،فارس سےسمندری جہاز سامان تجارت کے ساتھ ہندوستان تک آتے جاتے تھے۔ آٹھویں صدی عیسوی کے آغاز سے ہی عرب سے چین تک مضبوط سمندری تجارتی روابط قائم تھے۔ سمندری راستے مصالحہ جات کی تجارت کے لیے بہت زیادہ فائدہ مند تھے۔اسی وجہ سےان سمندری تجارتی راستوں کو Spice Roadبھی کہا جاتا تھا جو انڈونیشیا اور ہندوستان سے دار چینی، کالی مرچ، ادرک ، لونگ اور جائفل وغیرہ لے کر دنیا بھر کی منڈیوں کو سپلائی کرتے ہیں۔ان سمندری راستوں سے جزیرہ نما عرب، دجلہ اور فرات اور دریائے سندھ کی تہذیبوں میں روابط اور تعلقات قائم ہوئے۔سمندری تجارتی راہداریوں سے navigation،ستارہ بینی،جہاز رانی کی تکنیک اور صنعت میں نمایاں ترقی ہوئی۔سمندری راستوں پر موجود ساحلی شہر بڑی بڑی منڈیوں پر مشتمل ہوتے تھے جو تجارتی مال، زبان، عقائد، خیالات وغیرہ کے تبادلے کے مرکز ہوا کرتے تھے۔
پندرھویں صدی کے آخر میں ، پرتگالی سیاح واسکو ڈے گاما نے کیپ آف گڈ ہوپ(South Africa)کا رخ کیا، اور پہلی بار یورپی ملاحوں کو ان جنوب مشرقی ایشیائی سمندری راستوں سے جوڑ دیا ۔اس طرح یورپی تاجر اور ملاح بھی ایشیائی تجارت سے جڑ گئے۔آنے والی صدیوں میں انگریز،پرتگالی،ڈچ اور فرانسیسی اقوام نے ان سمندری تجارتی راستوں پر راج کرتے ہوئے بہت دولت کمائی اور آہستہ آہستہ دنیا کے ایک بڑے حصے پر قبضہ بھی کر لیا۔
مذاہب کا پھیلاؤ
سلک روٹ کا ایک اہم ترین فائدہ مذاہب اور مذہبی افکار کی ترویج تھا۔ ان تجارتی راستوں کی بدولت کئی مذاہب پھیلے جن میں بد ھ ازم ،عیسائیت ، زرتشت ازم ،مانی ازم اور اسلام شامل ہیں۔بدھ ازم کی اشاعت میں ان تجارتی راستوں نے بہت اہم کام سر انجام دیا۔بدھ ازم سلک روٹ کے ذریعہ وسط ایشیائی ممالک اور چین میں پھیلا۔متعدد چینی بدھ راہب تحصیل علم اور بدھ کتب کے تراجم کے لیے چین سے وسط ایشیا،افغانستان سے ہوتے ہوئے ہندوستان آئے جن میں Huisheng,Xuanzang, Husantasang, Fa-hsienوغیرہ شامل ہیں۔Xuanzangراہب ہندوستان سے واپس جاتے ہوئے اپنے ساتھ 650کتب لے کر گیا۔ان مسافروں کےسفر نامے اِن علاقوں کے بارہ میں قیمتی معلوما ت سے بھر پور ہیں۔سلک روٹ کے کئی اہم شہروں مثلا Khotan , Khucha,Tarfan, Dunhuang(چین)سمرقند،بخارا(ازبکستان)بامیان (افغانستان)میں بدھ خانقاہیں، سٹوپا اور بدھ یادگاروں کے آثار ملتے ہیں۔سلک روٹ سے کئی قدیم بدھ صحائف بھی ملے ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ بدھ کتب ان علاقوں میں کثرت سے پھیلی ہوئی تھیں۔کشان حکومت (30تا357ء)کے عروج سے چوتھی صدی عیسوی تک گندھاری زبان جنوبی سلک روٹ پر کثرت سے استعمال کی جاتی تھی ۔اس دور میں اس تما م علاقہ میں مہایانہ بدھ ازم کا بہت پھیلاؤ ہوا۔جبکہ شمالی سلک روٹ پر ہنایانہ بدھ ازم کے زیادہ آثار ملتے ہیں۔بعض سنسکرت بدھ کتب کے نسخے شمالی سلک روٹ کے ساتھ ساتھ چین اور سنٹرل ایشیا سے بھی ملے ہیں۔
عیسائیت کے پھیلاؤمیں بھی سلک روٹ نے بہت اہم کردار ادا کیا۔عیسائیت کا آغاز فلسلطین سے ہوا۔ حضرت عیسیٰؑ کی آمدسے قبل دو مرتبہ یہودیوں کو ارض مقدسہ سے جلا وطن کیا گیا۔ان جلا وطن یہودکی بڑی تعداد شام ،ایران،عراق، افغانستان، ہندوستان اور کشمیر میں پھیل گئی۔یہی علاقہ جات بعد میں سلک روٹ کا مرکزی حصہ بنے۔ حضرت عیسیٰ ؑکو 33سال کی عمر میں صلیب پرچڑھایا گیا مگر اللہ کی تائید و نصرت سے وہ بچ گئے۔واقعہ صلیب کے بعد آپؑ نے ان جلاوطن یہود کو پیغام پہنچانے کی خاطر ان علاقوں کی طرف سفر کیا ۔غالب طور پر آپؑ کا سفر بھی انہیں تجارتی شاہراوں پرہوا جن کو ہم سلک روٹ کے نام سے جانتے ہیں۔اسی وجہ سے حضرت عیسیٰؑ کو سیاح نبی بھی کہا گیا ہے۔
اسلام کی اشاعت میں بھی ان تجارتی راستوں نے بہت اہم کردار ادا کیا ۔ظہور اسلام سے بہت پہلے ہی عرب اور چین کے درمیان بحری اور برّی تجارتی روابط موجود تھے۔ مسلمان تاجروں نے ابتدا ئے اسلام میں ہی پیغام حق کو جزیرہ نما عرب سے نکال کر چین، ہندوستان اور سمندری راستوں سے ہوتے ہوئے انڈونیشیا اور ملائیشیا تک پہنچایا۔دور خلافت راشدہ میں پہلی مرتبہ چین میں اسلام کا پیغام پہنچا۔روایات کے مطابق مسلمان سفیروں اور تاجروں نے چین کے بادشاہ تک اسلام کا پیغام پہنچایا۔ان سفراء میں بعض صحابہ کرام بھی شامل تھے۔ بادشاہ Goazongنے اسلام کے پیغام کو خوش آمدید کہا اور ایک یادگاری مسجد بنانے کا حکم دیا ۔ہندوستان کے جنوبی علاقہ جات تک عرب تاجروں کی سمندری راستہ سے رسائی موجود تھی۔ہندوستان میں سب سے پہلے 630؍عیسوی میں مسلمان تاجر آئے۔ساتویں صدی عیسوی تک ہندوستان کے کئی سرحدی علاقہ جات میں مسلمان تاجروں کی قیام گاہیں موجود تھیں۔سب سے پہلی مسجد مالابار کے علاقہ میں 630؍عیسوی کے آس پاس قائم ہوئی۔بعض روایات کے مطابق گجرات ہندوستان میں اس سے قبل بھی مسجد قائم ہو چکی تھی۔انڈونیشیا اور ملیشیا میں آٹھویں صدی تک مسلمان تاجروں کے ذریعہ اسلام کا پیغام پہنچ چکا تھا۔اسی طرح افریقہ اور وسط ایشیائی ریاستوں میں فتوحات حاصل کرنے کے ساتھ مسلمان تاجروں، صوفیاء، ادبّاء، فلاسفروں، سیاحوں نےکثرت سے سفر کیے ۔ان کے ذریعہ بھی اسلام کی ترویج ہوئی اور سلک روٹ پر موجود شہر اسلام کے علمی اور ثقافتی مرکز میں تبدیل ہوئے۔
٭…٭…٭