اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
{2019ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب}
ملاں کی طرف سے انتظامیہ کی بے عزتی
اٹک میں ایک خاتون اسسٹنٹ کمشنرکو نہ صرف اپنے بیان سے پیچھے ہٹنا پڑا بلکہ اسے چند داڑھی رکھے ہوئے نوجوان طلباء کے ذریعے سخت تذلیل اور تضحیک کا نشانہ بھی بنایا گیا اور انتظامیہ کی موجودگی میں ان نوجوانوں نے ملاں کی تعصب زدہ، نفرت انگیز اور انتہا پسندی پر مشتمل زبان استعمال کی۔اس واقعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئی تھی ۔ یہ واقعہ 2019ء میں پاکستانی معاشرے اور ریاست کے کردارکی عکاسی کرتا ہے۔
10؍ دسمبر 2019ء کا واقعہ ہے کہ انسانی حقوق کا عالمی دن منانے کے سلسلے میں اٹک میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا اور اسسٹنٹ کمشنر جنت حسین نیکو کارہ نے مجمع سے خطاب کیا ۔ موصوفہ نے انسانی حقوق ، باہمی رواداری ، اقلیتوں سے حسنِ سلوک اور فرقہ پرستی سے دوررہنے کی بات کی ۔ انہوں نے نصیحت کی کہ باوجود اکثریت کہ ہمیں تمام اقلیتوں کو خواہ وہ سنی، شیعہ یا احمدی ہوں برابر حقوق دینے چاہئیں۔
رواداری ،انسانی حقوق ، اتحاد اور خصوصاً احمدیوں کے تذکرے والا یہ لیکچر مجمعے میں سے بہت سے لوگوں پر گراں گزرا۔ انہوں نے بات کا بتنگڑ بناتے ہوئے احتجاج کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے چند جوشیلے اور انتہا پسند طلباء کو اکسایا کہ وہ ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ایک ملاقات کا مطالبہ کریں، تاکہ اسسٹنٹ کمشنر کے معاملے کو طول دیاجاسکے۔ اس بات سے ضلعی انتظامیہ کے پسینے چھوٹ گئے۔ انہوں نے طلباء کے اس جتھے کو میٹنگ کے لیے بلایا جہاں ضلع کے تما م بڑے عہدیدارن بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ تمام حال میڈیا میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یونیفارم پہنے تقریبا ًبیس طلباء وہاں موجود ہیں ۔ ان میں سےایک کو آگے بڑھ چڑھ کر بولتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ باقی کرسیوں پر دیوار کے ساتھ براجمان دکھائی دیتے ہیں ۔ ان میں سے ایک طالب علم بولا کہ یہ اتحاد کی بات کر رہی تھی کیا ہم نبی کے دشمنوں سے اتحاد کر لیں …ختم نبوت پر کسی طرح کا compromiseنہیں ہے …نبی کا گستاخ اگر اپنا سگا باپ بھی ہو تو اس کی گردن اڑا کے پھینک دو…ہم تو عاشق رسول ابوبکر صدیق کی گستاخی کرنے والے کو معاف نہیں کرتے۔ یہ (اسسٹنٹ کمشنر)یہاں پہ کھڑے ہو کراس ملک کے اند انتشار پھیلاناچاہتے ہیں ۔ ان کو فی الفور اس postسے side پر کیا جائے…دشمن کو یہ ہمارے ساتھ اتحاد کرا رہی ہیں…۔
ایک سینئر حکومتی اہل کار نے کہا کہ وہ معذرت کریں گی جس پر طالب علم بولا کہ معذرت کریںگی پورے میڈیا میں کریں گی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان ‘نوجوانوں’کے پر زوراحتجاج کے دوران کوئی ضلعی عہدیدار ان انہیں سمجھانے کی جرأ ت نہ کر سکا ۔ یہ سارا واقعہ پاکستان اور حکومت پنجاب کے علامتی جھنڈوں کے سامنے رونما ہوا۔ ریاست کا ایسے سنجیدہ معاملات سے لاپروائی کے ساتھ جان چھڑانا نہایت افسوس ناک ہے۔
ایک ٹویٹر صارف نے اس واقعہ کے متعلق کیا ہی اچھی ٹویٹ کی کہ یہ حکومتی اہل کاربجائے طلباء کو سمجھانے اور انہیں ایجوکیٹ کرنے کے اسسٹنٹ کمشنر سے معافی مانگنے کو کہہ رہے ہیں۔ دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون کے ساتھی اور سینئر افسران نے اس کو تنہا چھوڑ دیا ہے جب کہ اس مشکل وقت میں اسے ان کی سخت ضرورت تھی۔
کچھ دیر بعد ہی اسسٹنٹ کمشنر کو کمرےمیں ایک مجرم کی طرح لایا گیا ۔ شدّت پسند نوجوانوںسے بھرے کمرہ میں خوفزدہ اسسٹنٹ کمشنر نے معذرت کرتے ہوئے اپنا بیان کچھ یوں دیا:
‘ہم بات کر رہے تھے ہیومن رائٹس کی، ہم بات کر رہے تھےNon-Muslim Pakistanisکی۔سب سے پہلے میں نے کشمیرپر بات کی۔ اس کے بعد women rightsپر، پھر میں نے minorities کے رائٹس پر بات کی۔میں نے بات کی non-Muslim Pakistanis کے rights پر …ٹھیک ہوگیا…اسی میں مجھے احمدی کا wordشائد mention ہی نہیں کرنا چاہیے تھا…میں نے اس کے بعد بات کی کہ ہمیں آپس میں unityسے رہنا چاہیے۔ کسی بھی قسم کی discrimination میں نہیں پڑنا چاہیے تاکہ ہم external enemyکا مقابلہ کر سکیں ۔’
طالبعلم نے جارحانہ انداز میں کہا ‘بات سنیں آپ…جب 1973ءکا آئین کہہ رہا ہے کہ (احمدی)غیر مسلم ہیں وہ، کافر ہیں، تو آپ پھر unity کیوں کہہ رہے ہیں؟’
پھر پوچھا گیا کہ آپ کی نظر میں احمدی مسلمان ہیں یا غیر مسلم ہیں؟
خوفزدہ اسسٹنٹ کمشنر نے جوابا ًکہا کہ
‘آئین کی نظر میں بھی وہ غیر مسلم ہیں میری نظر میں بھی غیر مسلم ہیں، میرا خود اپنا بچہ ہے اس کا نام میں نے محمد رکھا ہوا ہے۔ ایسی کوئی بات ہی نہیں ہے ۔ آپ کو misunderstandingہوئی ہے۔ اس قسم کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ نہ میرا ایسا ایمان ہےنہ میرا یقین ہے۔’
اس پر بھی وہ لڑکا بولا کہ نام بیٹے کا محمد رکھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ نام ان کا بھی احمد ی ہی ہے۔ لیکن وہ ہیں قادیانی۔
خاتون نے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ
‘بالکل قادیانی ہیں اور وہ غیر مسلم ہیں۔غیر مسلم ہیں کافر ہیں کافر ہیں قادیانی ۔ کوئی ایسی بات ہی نہیں ہے۔’
کسی افسر نے معاملہ ختم کرنا چاہا اور طالبعلم کو خاموش کرنا چاہا
‘Thank you بیٹے یہ آن دی ریکارڈ بول دیا ہے۔’
احتجاج کرنے والے نوجوانوں کی طرف سے بحث کا رخ بدلا گیا اور کہا گیا
‘اچھا میڈم جو آپ نے وہاں speech میں کہا ہے اس کو آپ repeatکر سکتی ہیں ۔’
اسسٹنٹ کمشنرنے کہا:
‘جی میں نےبات یہ کی تھی کہ ہمیں آپس میں اختلافات میں نہیں پڑنا چاہیے تبھی ہم جو externalدشمن ہے اس کا مقابلہ کر سکیں گے۔’
طالب علم: ‘اس میں احمدی word useکیا تھا آپ نے۔’
اسسٹنٹ کمشنر : ‘میں نے کہا تھا کہ ہمیں discrimination میں …آپس میں نہیں کرنی چاہیے’
طالب علم :‘میم !اس بات کوclearکر لیں کہ باقی جو non- Muslims ہیں اور احمدی ، ان میں فرق ہے۔’
اسسٹنٹ کمشنر: ‘جی احمدی بھی Non-Muslims ہیں اور باقی بھی Non- Muslims ہیں ۔ اور احمدی زیادہ Non-Muslim اس طرح سے ہیں کہ وہ ختم نبوت کو denyکرتے ہیں۔ یہ ہمارا بہترین fundamental ایمان ہے’
طالب علم: ‘آپ کا ختم نبوت پر عقیدہ کیا ہے’
اسسٹنٹ کمشنر :‘کہ حضور پاک ﷺ حضرت محمدﷺ آخری نبی ہیں اور ان کے بعد جو…پیغمبری ہے وہ ہمیشہ کے لیےختم ہو چکی ہے۔ اور جو بھی کوئی کہے گا وہ جھوٹا ہوگا۔ اور جو بھی کوئی claimبھی کرے گا ۔ ذرا سا بھی وہ جھوٹا ہوگا۔
اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد ٹویٹر کےایک صارف نے اس طرح اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ‘کمال بات یہ ہے کہ تمام لوگ انتہائی بے بس نظر آرہے ہیں۔ میں نے آج تک اتنی بے بسی نہیں دیکھی’
بی بی سی نے13؍ دسمبر2019ء کو تصویری جھلکیوں کے ساتھ اس معاملے پر ایک مفصل رپورٹ مرتب کی اور Twitterسے تبصرہ جات بھی اس رپورٹ میں شامل کیے۔ مثال کے طور پر ایک ٹویٹر صارف عتیق احمد(ani-rajpool@)نے کہا جہاں ایک اسسٹنٹ کمشنر بھی علماء کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہے وہاں ایک عام شہری کے تحفظ کی کیا ضمانت ہے؟ کیا ہی انتہا درجہ کی شدت پسندی ہے کہ عوام کے محافظ خود ہی غیر محفوظ ہیں اور جہاں ایک بندہ کو خود کو مسلمان ثابت کرنے کے لیےدوسروں کی موجودگی میں مسلمان ظاہر کرنا پڑتا ہے؟
BBCنے افتخار نامی شخص کی ایک ٹویٹ کا حوالہ دیا کہ جس ملک میں ایک اسسٹنٹ کمشنر کو ا قلیتوں سے بہتر سلوک کے فروغ کی بات کا دفاع مذہبی متعصب لوگوں،بد بختوں اور بدمعاشوں کے سامنے کرنا پڑے۔ اس کو بھارتی RSS، ہندوتوا تنظیموں اور ریاستی اقدامات پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔
بلال فاروقی(bilalfqi@)کا کہنا تھا کہ کچھ مصدقہ ذرائع کے مطابق اٹک کی اسسٹنٹ کمشنر جنت حسین نیکوکارہ ایک نہایت قابل آفیسر ہیں، انہوں نے CSS- 2014 میں تیسری پوزیشن حاصل کی ، صدارتی گولڈمیڈل بھی حاصل کیا او ر ان کے خاندان کو دھمکیا ں موصول ہو رہی ہیں کیونکہ انہوں نے احمدیوں کے بارے میں بیان دیاکہ حکومت کو ان کا تحفظ یقینی بنا ناچاہیے۔
ضیاء الدین یوسف زئی جو کہ نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کے والد ہیں، انہوں نے اس واقعہ کے قصورواروں کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا کہ یہ شرمناک جارحانہ احتجاج اور کھلے عام ایک civil servantکو ہراساں کرنے کی حرکت نہایت ہی قابل مذمت ہے۔
اس تحریر کو ختم کرنے سے قبل نصیر خان(LHA#4@)کی ٹویٹ کا ذکر کرنا ضروری ہے جو کہ اس صورت حال کا خلاصہ ہے ۔انہوں نے لکھا کہ یہ سراسر طلباء کا قصور نہیں ہے، سیاست دانوں نے انتہاپسند مولویوں کو سیاسی مفاد کی خاطر استعمال کیا اور اب نتیجۃً اس طرح کے طلباء جنم لے رہے ہیں، یہ لوگ نفرت پھیلانے والے ظالم لوگ بن رہے ہیں۔ یہ ایک پریشان کن حقیقت ہے۔
مردان میں احمدیوں کو دشمنی کا سامنا
پاکستان سیٹیزن پورٹل پر شکایت درج کرانے کی وجہ سے مردان میں احمدیوں کو عوام کی طرف سے دھمکیوں کا سامنا ہے اور ان کی زندگی داؤ پر لگ چکی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ احمدی درخواست گزار نے احمدیہ مسجد کے لیے NOC کے حصول کے لیے درخواست دی تھی ۔
نسیم احمد کو کالعدم تنظیم کی جانب سے ایک خط ملا جس میں انہیں دھمکی دی گئی تھی کہ وہ اسلام قبول کر لیں یا مردان چھوڑ دیں بصورت دیگر انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔اسی طرح اس علاقہ کے دکانداروں کو بھی کہا گیا کہ وہ احمدیوں سے لین دین نہ کریں نیز ایک مسجد میں دکانداروں سے حلف لیا گیا کہ وہ احمدیوں سے کوئی کاروبار نہ کریں گے اور احمدیوں کے ساتھ بائیکاٹ پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے۔اس کے بعد ایک احمدی دکاندار کو دکان کے مالک کی طرف سے فی الفور دکان خالی کرنے کا کہا گیا ۔دکان کے مالک کا کہنا تھا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں دباؤکی وجہ سے وہ خود زبر دستی دکان خالی کرانے پر مجبور ہو گا۔
بیکن ہاؤس سکول میں عید میلاد النبیؐ کا اہتمام کیا گیا جس میں مولویوں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ۔اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملاں نے اس کانفرنس کو ختم نبوت کانفرنس میں تبدیل کر دیا اور احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز باتیں کی گئیں ۔اس سکول میں ایک احمدی خاتون ٹیچر ہیں جو اس واقعہ کے بعد اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں ۔
احمدی ماہر تعلیم نشانہ پر اور 14 احمدیوں اور SHO پولیس کے خلاف رٹ پٹیشن دائر
ڈیرہ گلاب خیل روڈہ، ضلع خوشاب ، دسمبر 2019ء:
محمد یونس یہاں2012ءسے شاد اکیڈمی نامی ایک پرائیویٹ سکول چلا رہے ہیں جس میں تقریبا ً170؍طلباء زیر تعلیم ہیں۔ ستمبر میں ایک کالعدم تنظیم نے حکام کو ایک خط میں مطلع کرتے ہوئے لکھا کہ ایک قادیانی یہاں سکول چلا رہا ہے جس میں بہت سے طلباء زیر تعلیم ہیں بچوں کو یہاں جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ اس کو فی الفور ختم کیا جائے۔ عدم تعاون کی صورت میں اگر اس پر حملہ کر دیا گیا ، یا کوئی بچہ اغوا ہو گیا یا پھر کسی طالب علم یا استاد کا کوئی نقصان ہو گیاتو تمام تر ذمہ داری SHOاور سول انتظامیہ کی ہو گی۔ چنانچہ حکام نے اس کا نوٹس لیا اور اقدامات کیے۔ اس پر ملا ں اور زیادہ دلیر ہو گئے اور اس اکیڈمی کے خلاف جال پھیلانا شروع کر دیا اور احمدیوں کو ہراساں کرنے کےلیے متعدد کوششیں کرنے لگے۔
حال ہی میں ایک مخالف ملا حافظ عزیز الرحمٰن نے سیشن کورٹ میں 14؍افراد جن میں سے اکثر احمدی ہیں اور SHOتھانہ مٹھہ ٹوانہ کے خلاف رٹ پٹیشن دائر کر دی ۔ 12؍صفحات پر مشتمل یہ پٹیشن اپنی تحریر کی وجہ سے قابل توجہ ہے۔اس پٹیشن سے درج ذیل باتیں ظاہر ہوتی ہیں کہ
٭…اس اکیڈمی کا پرنسپل ایک “مسلمان”ہے
٭…دو ٹیچر احمدی ہیں جبکہ دیگر پانچ مسلمان اساتذہ ہیں۔
٭…طلباء میں سے 83فیصد مسلمان جبکہ 17 فیصداحمدی ہیں۔
٭…پرنسپل نے تحریری بیان دیا ہے کہ احمدی اساتذہ نے کبھی کلاس میں احمدیت کے بارے میں بات نہیں کی اور صرف متعلقہ نصاب ہی پڑھاتے ہیں۔
٭…احمدی اکیڈ می کے احاطہ میں نماز ادانہیں کرتے۔
٭…ان تما م با توں کے با وجود، ملا ں اور درخواست گزار نے اکیڈمی بند کروانے کی درخواست دی ہے اور شکایت کی ہےکہ
٭…قرآنی اور اسلامی تحریرات عمارت میں آویزاں ہیں
٭…متعلقہ احمدیوں نے اپنے ڈیروں پر مساجد بنا رکھی ہیں جو کہ قانون کے خلاف ہیں۔
٭…SHOکو ان کے خلاف FIRدائر کرنے کا کہا گیا جو کہ تا دم تحریر درج نہیں کی گئی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ درخواست گزار کی پٹیشن اور پہلی درخواست جو کہ SHOکو کی گئی تھی جھوٹ ، دروغ، اور من گھڑت مفروضوں پر مبنی ہے۔ مثال کے طور پہ انہوں نے لکھا کہ یا اللہ اور یا محمد کے الفاظ نعوذباللہ غیر مناسب مقامات پر لکھے گئے ہیں۔ اور لوگ احمدیوں پر شدید غصہ ہیں۔ وغیرہ
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مذکورہ بالا حقائق کے باوجود، اسسٹنٹ کمشنر خوشاب نے DCکو رپورٹ بھجوائی جس میں لکھا گیا کہ ریونیو افسر کی رپورٹ کے مطابق میں بقلم خود یہ سوچتا ہوں کہ ان حالات میں صورت حال کسی بھی وقت بگڑ سکتی ہےاور کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو سکتا ہے۔ میری رائے میں یہ مناسب ہو گا کہ CEO خوشاب کو حکم دیا جائے کہ اس اکیڈمی کی رجسٹریشن کو فی الفور منسوخ کیا جائے تاکہ کسی بھی قسم کی فرقہ وارانہ صورتِ حال سے بچا جا سکے۔
یہ اسسٹنٹ کمشنر ہمیں جنت حسین نیکوکارہ ، اسسٹنٹ کمشنر اٹک کی یاد دلاتا ہے۔ کوئی ان سے یہ پوچھے کہ اگر اس طرح مظلوم طبقہ کے انسانی حقوق کو صرف چند اکثریتی جماعتوں کے ملاؤں کی درخواست پر ہی رد کیا جا تا رہا اور انتظامیہ اور پولیس امن قائم کرنے میں ناکام رہے تو پھر اکثریتی جماعتوں کی مذہبی رٹ کے مقابل پر ریاست کی رٹ کے ہونے کا کیا مطلب ہے ؟
انسانی حقوق کے دن کے موقع پر اسسٹنٹ کمشنر کی قیادت میں احمدی مخالف جلوس کا اہتمام
اٹک 10؍دسمبر 2019ء : پاکستان بھر میں انسانی حقوق کا دن منایا گیا جس میں مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا اور ریلیاں نکالی گئیں اسی قسم کی ایک ریلی اٹک میں بھی نکالی گئی جس میں اے سی اٹک مکرمہ جنت حسین بھی شامل تھیں ۔ریلی میں زیادہ تر طالبعلم شریک تھے ،جن کے مجمعےسے موصوفہ نے تقریر کی تھی اور احمدیوں سمیت تمام اقلیتوں کے مساوی حقوق پر بیان دیا تھا،کچھ طلباء کواس بات نے غیض و غضب میں بڑھا دیا تھابعد میں مجبوراً موصوفہ کو طالب علموں کے سامنے اپنے عقیدہ کے متعلق وضاحت دینا پڑی تھی۔اس پس منظر کے تحت ان طالب علموں نے ریلی میں احمدی مخالف نعرے لگائے ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں احمدیوں کے علاوہ سب کے انسانی حقوق مساوی ہیں ۔
نئے سال کے موقع پرپنجاب اسمبلی میں ایک ریزولیوشن
انگریزی اخبار روزنامہ ڈان نے یکم جنوری 2020ءکو ایک خبر شائع کی جس میں ذکر تھا کہ پنجاب اسمبلی میں متفقہ طور پر ایک ریزولیوشن پاس کی گئی ہے جس کے تحت وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ توہین رسالت کی سزا کو مزید سخت کیا جائے اور سعود ی عرب کی طرز پر مرکزی طور پر سکریننگ کا ایسا نظام قائم کیا جائے جس سے سوشل میڈیا پر موجود توہین رسالت پر مشتمل مواد کی روک تھا م ہو سکے ۔
یہ ریزو لیوشن صوبائی وزیر عمار یاسر نے پیش کی تھی ۔اس میں مزید یہ بھی کہا گیا کہ ملک میں نافذ توہین رسالت کے قوانین پر پوری طرح عمل نہیں ہو رہا اور بعض لوگ آزادی رائے کے نام پر توہین رسالت کرتے ہیں جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔اس ریزولیوشن میں یہ بھی ذکر تھا کہ توہین رسالت پر مشتمل مواد سوشل میڈیا پر موجود ہے اسی طرح انٹرنیشنل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی اس مواد کی اشاعت ہو رہی ہے اور بیرون ملک سے بھی اس قسم کی بعض کتب منگوائی جا رہی ہیں ،جس سے نہ صرف پاکستان میں موجود مسلمانوں کے جذبات مجروح ہو رہے ہیں بلکہ پاکستان سے باہر کے مسلمانوں کے بھی جذبات مجروح ہوتے ہیں ۔لہذا فوری طور پر ایکشن لیتے ہوئے سعودی عرب کی طرز کا مرکزی طور پر سکریننگ کا نظام قائم کیا جائے نیز علماء بورڈ اور وزارت مذہبی امور کے سرٹیفکیٹ کے بغیر لوکل یا انٹر نیشنل مذہبی کتب کی اشاعت اور خرید وفروخت پر پابندی لگائی جائے ۔توہین رسالت پر مشتمل کتب کو فوری طور پر ضبط کر لیا جائے ۔الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016ء اور 295 اور 298 کی دفعات میں مزید بہتری کر کے توہین رسالت کرنے والوں کو عبرت ناک قرار واقعی سزا دی جائے ۔
اس ریزولیوشن پر مزید کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں ۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے وکیل یاسر لطیف ہمدانی ملکی صورتِ حال کے متعلق کہتے ہیں کہ پاکستان میں مذہب کسی کے ذاتی ایمان کاحصہ ہونے کی بجائے حکومت وقت کے لیے ایک کاروبار کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
٭…٭…٭