الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
چند شہدائے احمدیت
ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم چودھری عبدالرزاق صاحب شہید
مکرم چودھری عبد الرزاق صاحب شہید (آف بِھریاروڈ۔ سندھ)مکرم عبد الستار صاحب کے ہاں 1929ء میں گوکھووال ضلع فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کرکے پہلے ایک دوست کے پاس بطور اکاؤنٹنٹ کام شروع کیا جو آپ کی دیانت، معاملہ فہمی اور قابلیت سے اتنا متاثر ہوئے کہ آپ کو اپنے کاروبار میں حصہ دار بنالیا۔ بعد ازاں آپ نے سندھ جاکر بھریاروڈ میں کپڑے کا کاروبار شروع کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اتنی برکت دی کہ آپ ایک کاٹن فیکٹری، کھاد کی ایجنسیوں اور تقریباً دو سو ایکڑ اراضی کے مالک بن گئے۔ غلّہ منڈی بھریاروڈ کے منتخب صدر بھی رہے۔
مکرم چودھری صاحب ایک صابر و زاہد انسان تھے۔ تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ غرباء اور مساکین کا بہت خیال رکھتے۔ خلیفہ وقت کے ہر حکم پر لبیک کہتے۔ آپ شروع سے ہی بھریاروڈ ضلع نوابشاہ کی جماعت کے مقامی صدر تھے۔ شہادت سے ایک سال قبل امیر ضلع بھی مقرر ہوئے۔
1984ء کے آرڈیننس کے بعد آپ کو گمنام خطوط کے ذریعہ متواتر دھمکیاں ملتی رہتی تھیں کہ مسلمان ہو جاؤ ورنہ قتل کردیے جاؤ گے مگر آپ کبھی بھی ان دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں ہوئے۔ 7؍اپریل1985ء کو حسب معمول اپنی آڑھت کی دکان پر بیٹھے تھے کہ دن کے گیارہ بجے ایک بدبخت نے آپ پر گولی چلادی جس سے آپ موقع پر ہی شہید ہوگئے۔واردات کے بعد قاتل میر محمد کو لوگوں نے پکڑ کر پولیس کے حوالہ کردیا جس کا تعلق شر قوم سے تھا۔قاتل نے کہا کہ چودھری عبدالرزاق قادیانی اور کافر تھا اس لیے اُس کو قتل کرکے میں نے اپنے لیے جنت میں جگہ بنائی ہے۔
شہید مرحوم نے پسماندگان میں ضعیف والدہ اور بیوہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور پانچ بیٹے یادگار چھوڑے۔
مکرم محمود احمد صاحب اٹھوال شہید
مکرم محمود احمد صاحب اٹھوال شہید کی اہلیہ مکرمہ رشیدہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ محمود صاحب کو شہادت کا بہت ہی شوق تھا۔ 1974ء کے فسادات میں آپ نے ہر موقع پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن یہ مخالفت کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی گئی اور آپ کے ماموں زاد بھائی مقبول احمد صاحب کو فروری 1982ء میں پنوں عاقل میں شہید کردیا گیا۔ جب آپ اپنے بھائی کی نعش کو بہشتی مقبرہ میں قبر میں اتار رہے تھے تو کہا: اے مقبول! یہ رتبہ خوش نصیبوںکو نصیب ہوتا ہے۔ پھر اپنے آپ سے کہا کہ اے محمود! کاش تجھے بھی یہ رتبہ حاصل ہو جائے اور تُو بھی یہیں پر آئے۔
ربوہ سے واپسی پر پنوں عاقل کی پولیس نے آپ سے کہا کہ آپ اپنی زمینیں فروخت کرکے کہیں اور چلے جائیں کیونکہ پہلے آپ کے رشتہ دار بھائی کو شہید کیا جاچکا ہے اور ہم مولویوں کی وجہ سے مجبور ہیں کچھ نہیں کر سکتے۔ اس پر آپ نے انہیں جواب دیا کہ احمدیت کی مخالفت تو ہر جگہ ہے اگر مجھے شہادت ملنی ہے تو یہاں کیوں نہ ملے۔
آپ کے دو بیٹے سکول جاتے تو مولویوں کے کہنے پر کچھ لڑکے ان کوتھپڑ مارتے اور گالیاں دیتے۔ سکول کے اساتذہ بھی مذہبی مخالفت کی بِنا پر سختی کرتے۔ اوباشوں کے گروہ ان کے گھروں پر فائرنگ بھی کرتے رہتے۔ دشمن رات کو چھپ کر ان کے کھیتوں کا پانی بند کر دیتے۔ پکی ہوئی فصلوں کو آگ لگا دیتے یا کاٹ کر اُجاڑتے تاکہ ان پر ذریعہ معاش تنگ ہو جائے۔
ایک رات دروازہ کھٹکا تو آپ کا بھتیجا سعید باہر گیا۔ دروازے کے پاس دو آدمی کھڑے تھے جنہوں نے سعید کو پکڑ کر اس کے منہ اور ناک کو ہاتھوں اور کپڑے سے باندھ دیا اور مارتے اور گھسیٹتے ہوئے پندرہ گز دُور لے گئے۔ سعید نے آزاد ہونے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ آخر جب مارنے والے نے خنجر نکالا تو اُس نے اللہ کو یاد کرتے ہوئے آخری کوشش کی اور منہ آزاد کروانے میں کامیاب ہوگیا۔ اُس کی آوازیں سن کر اُس کے والد اور چچا یعنی محمود احمد صاحب شہید باہر نکلے تو ایک آدمی تو بھاگ نکلا لیکن دوسرے کو پکڑ لیا گیا۔ مجرم نے پولیس کو بتایا کہ میں گھوٹکی ضلع سکھر کے ایک مدرسہ کا طالبعلم ہوں اور مولویوں نے ہمیں اس نوجوان کو قتل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔
بہرحال ملاّں بازار میں مسلسل لوگوں کو بھڑکاتے رہے کہ محمود قادیانی کو قتل کرنا واجب اور باعثِ ثواب ہے۔ چنانچہ 29؍جولائی1985 ء کی شام کو جب آپ اپنے چودہ سالہ بیٹے کے ہمراہ ایک دوست کو مل کر واپس آرہے تھے تو تین آدمیوں نے اچانک حملہ کردیا اور آپ وہیں شہید ہوگئے۔ شہادت کے وقت آپ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ بیٹے احمدیت نہ چھوڑنا خواہ تمہیں بھی جان دینی پڑے۔
شہید مرحوم نے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ چھ بیٹیاں اور چار بیٹے چھوڑے ۔
مکرم مرزا منور بیگ صاحب شہید
مکرم مرزا منور بیگ صاحب شہید سکنہ چونگی امرسدھو لاہور کے بیٹے مکرم مرزا اقدس بیگ صاحب لکھتے ہیں کہ میرے والد مرزا منور بیگ صاحب کی کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہ تھی لیکن چونکہ تبلیغ کا شوق تھا اس لیے ایک مولوی امین اور اس کے چیلے آپ کو پسند نہیں کرتے تھے۔ شہادت سے پندرہ روز قبل آپ کا ایک غیراحمدی دوست جو مولوی امین کا پیروکار تھا، آپ کے پاس آیا اور پوچھا کہ کیا کوئی اسلحہ وغیرہ گھر پر ہے۔ والد صاحب نے جواب دیا میری کسی سے کیا دشمنی ہے؟ اُس نے کہا کہ سارا علاقہ تمہارا دشمن ہے اس لیے اسلحہ بناؤ۔ آپ نے جواب دیااچھا بنالیں گے۔ غالباً وہ بھی ٹوہ لینے کے لیے آیا ہوگاکہ گھر پر ان کے اسلحہ ہے کہ نہیں۔
17؍ اپریل 1986ء کو گھر کے باہر مولوی امین کے ایک چہیتے شاگرد منشاء نے مکرم مرزا منور احمد صاحب کو گولی مار دی۔ شہید کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا جہاں اگلے روز آپ نے شہادت پائی۔ آپ نے پسماندگان میں اہلیہ محترمہ مجیدہ بیگم صاحبہ کے علاوہ چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔
مکرم سید قمرالحق صاحب شہید اور مکرم راؤ خالد سلیمان صاحب شہید
مکرم راؤ خالد سلیمان صاحب گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے رہنے والے تھے۔ آپ اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ شہادت سے دو تین سال قبل بیعت کی لیکن اپنے اخلاص سے السابقون الاوّلون میں شمار ہونے لگے۔ آپ کراچی میں ملازم تھے اور سکھر میں شدید مخالفانہ حالات کے پیش نظر مقامی احمدیوں کی حفاظت کے لیے رضاکارانہ طور پر بھجوائے گئے تھے۔ آپ غیرشادی شدہ تھے۔
مکرم سید قمرالحق صاحب شہید ابن مکرم حکیم سید عبدالہادی صاحب مونگھیری کے ہاں چندور ضلع مونگھیر میں پیدا ہوئے۔ دس سال کی عمر میں قادیان آئے اور مڈل تک وہیں تعلیم حاصل کی۔ تقسیم ملک کے بعد ملتان سے میٹرک کیا جس کے بعد چھ سال تک مرکز سلسلہ ربوہ میں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری، دفتر وصیت اور دفتر خزانہ میں خدمات سرانجام دیں۔ 1956ء میں سکھر چلے گئے اور وہاں پرائیویٹ طور پر M.A. اور B.T کرکے گورنمنٹ کامران ہائی سکول میں انگلش ٹیچر لگ گئے اور بوقت شہادت اسی ادارے میں ملازمت کر رہے تھے۔
مکرم سیّد قمرالحق صاحب نوعمری ہی میں نظام وصیت سے منسلک ہوگئے تھے۔ نماز روزہ کی بڑے خلوص سے پابندی کرتے تھے۔ بہت کم گو اور سنجیدہ مزاج تھے۔ سکھر میں قائمقام امیر اور زعیم انصاراللہ کے طور پر بھی خدمات کی توفیق پائی۔ آپ مکرم سید شمس الحق صاحب (مرحوم) کارکن دارالافتاء اور مکرم نجم الحق صاحب مرحوم امیر ضلع کے بھائی تھے۔
11؍مئی 1986ء (یکم رمضان)کی صبح آپ اپنے گھر سے سکول جانے کے لیے پیدل روانہ ہوئے۔ مکرم راؤ خالد سلیمان صاحب بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ راستے میں پانچ نامعلوم افراد نے اچانک خنجروں اور کلہاڑیوں سے حملہ کردیا۔ مکرم خالد سلیمان صاحب کچھ دیر تک ان حملہ آوروں کے خلاف دفاع کرتے رہے۔ مگر حملہ آوروں نے پستول سے گولیاں چلا کر اور خنجروں اور کلہاڑیوں سے پے در پے وار کرکے دونوں کو شہید کردیا۔ بوقتِ شہادت سیّدقمرالحق صاحب کی عمر 53 سال تھی۔ اگلے روز دونوں شہداء کے جنازے ربوہ لائے گئے جہاں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد شہداء کے قبرستان میں تدفین ہوئی۔ پولیس نے کسی قاتل کو گرفتار نہیں کیا۔
آپ کے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ ایک بیٹا اور تین بیٹیاں شامل تھے۔
مکرمہ رخسانہ طارق صاحبہ شہید
مکرمہ رخسانہ طارق صاحبہ کو مردان میں 9؍جون 1986ء کو عید کے دن شہید کیا گیا۔ شہیدمرحومہ کا تعلق سرگودھا سے تھا اور آپ مکرم مرزا خان محمد صاحب کی بیٹی تھیں۔ ان کے والد کہتے ہیں کہ اپنی شادی کے چند دن بعد ہی رخسانہ نے اپنے جہیز کا سارا سامان غریب لڑکیوں میں تقسیم کردیا۔ پوچھنے پر کہنے لگیں کہ میں نے امی جان سے کہا تھا کہ مجھے صرف ایک چارپائی دے دیں۔ زندگی فانی ہے، اس کا کیا بھروسہ! جتنی بھی غریبوںکی خدمت کرلوں مجھے راحت ہوتی ہے۔ شہیدہ کے میاں طارق صاحب بتاتے ہیں کہ غریبوں کی خدمت کرکے ان کے چہرے پر اتنی خوشی چمکتی تھی جیسے سورج نکل آیا ہو۔
عید کے دن رخسانہ نے عید پر جانے کا ارادہ ظاہر کیا مگر طارق کے بڑے بھائی نے مخالفت کی اور ڈانٹ کر منع کردیا مگر یہ نہ رُکیں اور پرانے کپڑوں میں ہی عید کی نماز کے لیے چلی گئیں حالانکہ شادی کے بعد یہ ان کی پہلی عید تھی۔ عید کی نماز میں وہ بہت روئیں مگر گھر واپس آتے ہوئے بہت خوش تھیں۔ سب کے لیے ناشتہ تیار کیا۔ ان کے خاوند بتاتے ہیں کہ میں حیران تھا آج اتنی خوش کیوں ہیں؟ گھر میں سب کو خوشی سے ملیں۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ ان کے آخری لمحات ہیں۔ اتنے میں طارق کا بڑا بھائی آیا اور آتے ہی اس نے رخسانہ پر گولیوں کی بارش برسا دی۔ طارق کا بیان ہے کہ مجھے اکثر کہا کرتی تھیں کہ جب میں اللہ کو پیاری ہو جاؤں تو مجھے پہاڑوں کے دامن میں دفن کرنا۔ وہ ربوہ ہی کے پہاڑ تھے جن کے دامن میں وہ بالآخر دفن کی گئیں۔
مکرم بابو محمد عبدالغفار صاحب شہید
آپ ماسٹر خدا بخش صاحب کے ہاں کانپور (انڈیا) میں 1906ء میں پیدا ہوئے۔ 1916ء میں ان کے والد صاحب نے تمام افراد خانہ سمیت حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر شرفِ بیعت حاصل کیا۔
تقسیم ہند کے بعد آپ حیدرآباد (سندھ) میں آکر آباد ہوئے۔ پیشہ کے اعتبار سے فوٹوگرافر تھے۔ قرآن کریم سے بہت محبت رکھتے تھے۔ بہت ملنسار ، ہمیشہ جماعت کی خدمات پر کمربستہ ۔ ایک لمبے عرصہ تک جماعت کی امارت آپ کے سپرد رہی۔ حیدرآباد میں آپ جماعت کی روح و رواں تھے۔ ایک نڈر داعی الی اللہ اور موصی بھی تھے۔
9؍ جولائی 1986ء کی دوپہر اپنے شو روم میں بیٹھے تھے کہ ایک درندہ صفت مُلاّں نے چھری سے پے در پے وار کرکے آپ کو شہید کردیا۔ آپ کے ہاتھوں کے نشانات سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ آپ نے آخری وقت تک حملہ آور کا مقابلہ کیا۔ اُس وقت آپ کا ایک ملازم ڈارک روم میں تھا۔ وہ جب باہر نکلا تو آپ کو دیکھ کر شور مچایا۔ فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا لیکن آپ راستہ ہی میں شہید ہوگئے۔ آپ کی تدفین ربوہ میں عمل میں آئی۔ آپ نے ایک بیٹا اور پانچ بیٹیاں پسماندگان میں چھوڑے جو سب صاحب اولاد اور دینی اور دنیوی نعمتوں سے متمتع ہیں۔
مکرم غلام ظہیر احمد صاحب شہید
مکرم غلام ظہیر احمد صاحب آف سوہاوہ ضلع جہلم کے والد مکرم شیخ بشیر احمد صاحب تھے۔ 25؍ فروری 1987ء کی رات کو احمدیت کی مخالفت کے باعث بعض نامعلوم افراد نے فائر نگ کرکے انہیں سڑک پر شہید کردیا۔
شہید مرحوم نے بیوہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا پسماندگان میں چھوڑے۔ بیٹا مرحوم کی شہادت سے چھ ماہ بعد پیدا ہوا۔ شہید مرحوم کی بیوہ نے ان کے بڑے بھائی سے بعد میں شادی کرلی تھی۔
مکرم ڈاکٹر منور احمد صاحب شہید
آپ کے والد مکرم چودھری بشیر احمد صاحب اٹھوال ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے۔ آپ کی پیدائش 1957ء میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک گاؤں میں ہوئی۔ آپ کے خاندان میں احمدیت کا آغاز آپ کے پڑدادا کے ذریعہ ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے ابتدائی تعلیم سکرنڈ ضلع نوابشاہ میں حاصل کی جہاں آپ کے والد بسلسلہ روزگار مقیم تھے۔ میٹرک کے بعد طبیہ کالج ربوہ میں داخلہ لے کر ‘فاضل الطب و الجراحۃ’ کا امتحان پاس کرنے کے بعد سکرنڈ میں پریکٹس شروع کردی۔ 1984ء میں آپ کی شادی مکرمہ تنویر کوثر صاحبہ بنت چودھری فرزند علی صاحب سے ہوئی۔ وہ بتاتی ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی شہادت سے قبل مَیں نے خواب دیکھا کہ میری سونے کی چوڑیوں میں سے ایک چوڑی ٹوٹ کر گرگئی ہے اور ساتھ ہی بہت ہجوم ہے اور عورتیں باری باری میرے گلے لگ کر رو رہی ہیں لیکن میں سمجھ نہ سکی کہ وہ کیوں رو رہی ہیں۔ صبح اٹھ کر پریشان رہی، صدقہ بھی دیا مگر یوں محسوس ہوتاتھا کہ جسم سے جان نکل گئی ہو۔ ڈاکٹر صاحب شہید کو خواب سنائی تو کہنے لگے اللہ پر بھروسہ رکھو، جو رات قبر میں آنی ہے وہ باہر نہیں آئے گی۔ بہت بہادر انسان تھے کہا کرتے تھے کہ شہادتیں کسی کسی کو نصیب ہوا کرتی ہیں، کاش یہ رتبہ مجھے نصیب ہو۔
سکرنڈ کے حالات زیادہ خراب ہوئے تو بیوی سے کہنے لگے کہ ربوہ چلی جاؤ مگر اُنہوں نے کہا کہ آپ کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔ شہادت کے دن کلینک میں دو آدمی آئے اور گولیاں برسا کر آپ کو وہیں شہید کردیا۔ غم کا پہاڑ تھا جو اہل خانہ پر ٹوٹ پڑا۔ آپ نے بیوہ کے علاوہ ایک بیٹی اور تین بیٹے چھوڑے۔
مکرم نذیر احمد صاحب ساقی شہید، مکرم رفیق احمد صاحب ثاقب شہید اور عزیزہ نبیلہ شہید
ان تینوں کی شہادت 16؍جولائی1989ء کو ہوئی جب مخالفینِ احمدیت نے چک سکندر پر چاروں طرف سے حملہ کردیا۔ اس حملے کے دوران احمدیوں کے قریباً64مکانات جلائے گئے اور کھلے بندوں لوٹ مار کی گئی۔
مکرم نذیر احمد صاحب ساقی 1953ء میں مکرم محمود احمد صاحب کے ہاں چک سکندر ضلع گجرات میں پیدا ہوئے۔ پیدائشی احمدی تھے۔ آپ کے پڑدادا حضرت دُلاّ خان صاحبؓ اور دادا حضرت کالے خان صاحبؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر اُس وقت بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی جب حضورؑ ایک مقدمہ کے سلسلہ میں جہلم تشریف لائے تھے۔ مکرم نذیر احمد ساقی صاحب فوج میں ملازم تھے۔ اچھے کھلاڑی اور باکسر تھے۔ فوج میں ایک موقع پر حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف کسی نے بدزبانی کی تو آپ برداشت نہ کرسکے اور اسے مُکّا مارا جس سے وہ وہیں مرگیا۔آپ کو گرفتار کرلیا گیا اور کورٹ مارشل بھی ہوا لیکن پھر معجزانہ طور پر آپ کو بے قصور قرار دے کر اور پنشن وغیرہ دے کر ریٹائرڈ کر دیا گیا۔ آپ نے پسماندگان میں تین بیٹیاں اور دو بیٹے چھوڑے۔
دوسرے شہید مکرم رفیق احمد صاحب ثاقب تھے جو 1952ء میں چک سکندر میں مکرم خان محمد صاحب اور مکرمہ فتح بیگم صاحبہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ پیدائشی احمدی تھے۔ آپ کے پڑدادا حضرت محمد بوٹا صاحبؓ اور دادا حضرت محمد بخش صاحبؓ نے بھی حضرت مسیح موعودؑ کے سفرِ جہلم کے دوران حضورؑ کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی تھی۔ آپ فوج میں ملازم تھے اور بوقتِ شہادت رخصت پر گاؤں آئے ہوئے تھے۔ آپ نے بیوہ کے علاوہ چھ بیٹیاں اور دو بیٹے سوگوار چھوڑے۔
عزیزہ نبیلہ شہید بنت مکرم مشتاق احمد صاحب چک سکندر میں پیدا ہوئیںاور دس سال کی عمر میں جامِ شہادت نوش کرکے اپنے مولا کے حضور حاضر ہوگئیں۔
مکرم ڈاکٹر عبدالقدیر جدران صاحب شہید
آپ حضرت مولوی رحیم بخش صاحبؓ (یکے از صحابہ 313) آف تلونڈی جھنگلاں اور حضرت برکت بی بی صاحبہؓ کے ہاں 1924ء میں پیدا ہوئے۔ آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹری کا کورس پاس کیا اور کچھ عرصہ بطور واقفِ زندگی ناصر آباد اسٹیٹ کی ڈسپنسری میں خدمت بجالاتے رہے۔ اس کے بعد پہلے اپنے بڑے بھائی مکرم ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب شہید کے پاس نوابشاہ میں رہے اور پھر قاضی احمد ضلع نوابشاہ میں اپنا کلینک کھول لیا۔ بوقت شہادت مقامی جماعت کے صدر تھے۔
1984ء میں جب حالات خراب ہوئے تو ان کو کئی دھمکی آمیز خطوط آئے کہ ہم تمہیں قتل کردیں گے لیکن آپ تو نماز تہجد میں شہادت کی دعا مانگا کرتے تھے۔ 2؍ اگست 1989ء کو ایک شخص خود کو مریض ظاہر کرکے دکان میں آیا اور آتے ہی کئی فائر کرکے ڈاکٹر صاحب کو موقع پر ہی شہید کردیا۔ آپ آبِ زمزم سے دھلے ہوئے دو کفن مکہ سے لائے تھے۔ آپ کی خواہش تھی کہ انہی میں آپ کو دفنایا جائے۔ اصولاً توشہید کو کفن نہیںدیاجاتا اور وہ اپنے انہی کپڑوں میں مدفون ہوتاہے جن میں خون میں لت پت وہ شہید ہوتاہے لیکن اس کا سبب اللہ نے یہ بنا دیا کہ پولیس نے و ہ کپڑے اپنے قبضے میں لے لیے جن میں وہ شہید ہوئے تھے اور باوجود اصرار کے واپس نہ کیے ۔ نتیجۃً ان کو اسی مکہ والے کفن میں دفنایا گیا۔
شہید مرحوم نے اپنی بیوہ غلام فاطمہ بی بی صاحبہ کے علاوہ چار بیٹے اور ایک بیٹی پسماندگان میں چھوڑے۔ ایک بیٹے مکرم ڈاکٹر عبدالمومن جدران صاحب کو نصرت جہاں سکیم کے تحت افریقہ میں تین سال کے لیے وقف کرنے کی توفیق بھی ملی۔
ضلع نوابشاہ کا وہ بااثر زمیندار جس کی ایماء پر ہی اس علاقہ کے اکثر احمدی ڈاکٹروں کی شہادتیں ہوئیں، اس کا عبرت ناک انجام یوں ہوا کہ اُس کے جوان بیٹے نے گھر والوں سے باہمی مشورے کے بعد اپنے باپ کو رات سوتے میں گولی ماری۔ گولی لگنے کے بعد وہ ذرا سا اٹھا تو اس کی بیوی اور بچوں نے سمجھا کہ اس کو گولی نہیں لگی اور اگر یہ بچ گیا تو ہمیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔ چنانچہ اُن سب نے مل کر اس کا گلا دبانا شروع کیا اور اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کی موت کا یقین نہیں ہو گیا۔
مکرم ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب شہید
آپ ڈاکٹر عبدالقدیر جدران کے بڑے بھائی تھے۔ تقسیم ملک کے بعد سندھ میں آکر آباد ہوئے اور شہادت کے وقت قاضی احمد ضلع نوابشاہ میں رہائش پذیر تھے۔
28؍ ستمبر1989ء کو آپ حسب معمول اپنے کلینک میں کام کر رہے تھے کہ ایک مریض کو دیکھنے کے لیے جانا پڑا۔ واپس آرہے تھے کہ راستہ میں تین افراد میں سے ایک نے آپ کی کمر کے ساتھ پستول رکھ کر فائر کردیا۔ آپ گِر گئے۔ لوگ ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال لے گئے لیکن آپ راستہ ہی میں دم توڑگئے۔ کسی دوست نے جو آپ کو پہچانتا تھا آپ کے گھر ٹیلیفون کے ذریعہ اس واقعہ کی اطلاع دی۔ شہید مرحوم نے اپنے پیچھے دو بیٹیاں اور چار بیٹے چھوڑے۔
مکرم نصیر احمد علوی صاحب شہید
مکرم نصیر احمد علوی شہید کے والد صاحب جو دوڑ ضلع نوابشاہ کے رہنے والے تھے، خود احمدی ہوئے تھے اور نہایت مخلص اور فدائی تھے۔ یہ اُن کی نیک تربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ نصیر احمد علوی صاحب بھی تبلیغ میں سرگرداں رہتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ اگر میں دن میں دو چار آدمیوں کو تبلیغ نہ کرلوں تو میرا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے دن بدن متعصّب لوگ آپ کی مخالفت میں بڑھتے رہے۔ ایک دو دفعہ دھمکی بھی ملی کہ اگر تبلیغ سے باز نہ آئے تو آپ کو مار دیا جائے گا لیکن آپ نے اس دھمکی کی کوئی پروا نہ کی۔
17؍ نومبر1990ء کی رات دو بجے تین آدمی دیوار پھلانگ کر آپ کے گھر میں گھس آئے۔ ایک نے آپ کے منہ پر تکیہ رکھا اور دوسرے نے آپ کے دل کے بالکل قریب سے فائر کیا۔ آپ کی اہلیہ فائر کی آواز سن کر جاگ اٹھیں اور ایک قاتل کو پیچھے سے پکڑنا چاہا تو اُس نے کہنی مار کر انہیں نیچے گرادیا اور دیوار پھلانگ کر بھاگ گیا۔ اہلیہ نے جب علوی صاحب کے اوپر سے کپڑا ہٹایا تو زندگی کی رمق ابھی باقی تھی۔ فوراً ہسپتال پہنچایا گیا لیکن رستہ ہی میں آپ شہید ہوگئے۔
آپ نے پسماندگان میں بیوہ مکرمہ فہمیدہ بیگم صاحبہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور تین بیٹے چھوڑے۔
………٭………٭………٭………
بابل کی تہذیب
ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ جولائی 2011ء میں بابل کی تہذیب کے حوالے سے ایک تاریخی معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔ دراصل بابل کی تہذیب معروف اوّلین تہذیبوں میں سے ایک ہے جس کا آغاز قریباً چار ہزار سال قبل بابل (Babylon) نامی شہر میں ہوا جو قدیم کلدانی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔
بابل کی تہذیب کا دو ہزار سالہ دور 500 سے 2500 قبل مسیح پر محیط ہے۔ اس عرصے میں فلکیات، ریاضیات، انجینئرنگ، فن تحریر اور قانون میں انتہائی اہم پیش رفت ہوئی۔ آخری ایک سو سال میں تو بابل دنیا کا سب سے بڑا شہر بن چکا تھا اور سائنس، آرٹ، صنعت اور مذہب کا ایک بڑا مرکز تھا۔
اہلِ بابل نے میخی کا پیکانی (Cunei Form) ایک رسم الخط وضع کیا جو اُن کی ترقی کی بنیاد بنا۔ یہ حروف نما علامات کا ایک نظام تھا جسے ابلاغ اور ریکارڈ رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اسی کی بدولت بابل کے لوگ کتب خانے قائم کرنے، کتابیں لکھنے، تاریخ کو محفوظ کرنے اور تعلیم کو ترقی دینے کے اہل ہوئے اور انہوں نے وسیع تر ادب کی بنیاد ڈالی۔ بابلی تہذیب کی کچھ داستانیں مثلاً ‘‘زمین کی تخلیق اور طوفانِ نوح’’الہامی کتابوں کے کچھ واقعات سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہیں۔ قریباً 2100قبل مسیح میں بابلی تہذیب نے دنیا کا پہلا ضابطۂ قانون تحریر کیاجسے اِس قانون کے محرّک بادشاہ کے نام پر حمورابی (Hammurabi) کا ضابطۂ قانون کہا گیا ہے۔ بابل کے کھنڈرات پر تحقیق کرنے والے ماہرین آثار قدیمہ کو یہ ضابطۂ قانون شاہی محل کے ایک ستون پر کندہ ملا۔ انہیں 150000 سے زیادہ مٹی کی تختیاں بھی ملیں جو میخی رسم الخط میں کندہ تھیں۔
بابل کے لوگ فلکیات اور ریاضیات میں بہت آگے تھے۔ وہ ایک دائرے کو 360 درجوں اور ایک گھنٹے کو 60 منٹوں میں تقسیم کرتے تھے۔ کسور، جذر اور مربع کا علم بھی رکھتے تھے۔ علم نجوم کی ترقی اس قدر ہوچکی تھی کہ وہ چاند گرہنوں کی پیشگوئی بھی کرسکتے تھے۔ چونکہ ان کا دارالحکومت دریا کے دونوں کناروں پر آباد تھا اور اُن کی معیشت کا دارومدار زراعت پر تھا اس لیے بابل کے باشندے پُل تعمیر کرنے اور کاریز و نہریں تعمیر کرنے میں کمال حاصل کرچکے تھے۔ انہوں نے نکاسیٔ آب کا نظام بھی قائم کیا۔
………٭………٭………٭………