2019ء کے ڈوبتے سورج کی آخری شام پروفیسر چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی کے نام
31؍دسمبر 2019ء کے ڈھلتے سائے بالآخر ملگجی شام کے اندھیروں میں گم ہوتے چلے گئے۔
ٹورانٹو شہر کے باسیوں کی نوجوان اکثریت سال کی آخری شب کو الودع اور نئے سال کو خوش آمدید کہنے اور “ہلّاگُلّا’’کرنے، اندرون شہرٹورانٹو کا رخ کرتی ہے۔ لیکن وہیں ، بعض اردو ادب کے متوالے سال کی اس آخری شام کے وقت احمدیہ ابوڈ آف پیس (abode of peace)ٹورانٹو میں جمع ہو رہے تھے۔ آج مکینوں کے علاوہ باہر سے آنے والے مہمانوں کی وجہ سے نماز مغرب پر کافی رونق دکھائی دے رہی تھی۔ یہ سب مہمان شعرائےکرام ، لکھاری و شائقین وہ تھے ، جو تعلیم الاسلام کالج قادیان/ربوہ کے سابقہ ہردلعزیز پروفیسرو پرنسپل جناب چودھری محمد علی صاحب مضطرؔ عارفی کی یاد میں منعقدہ ایک مجلس مذاکرہ و مشاعرہ میں شرکت کی غرض سے جوق در جوق کھنچے چلے آئے تھے ۔ جس میں غیر از جماعت شعرائے کرام بھی شامل تھے۔ آج کی متذکرہ مجلس مذاکرہ و مشاعرہ کے روح رواں تھے تعلیم الاسلام کالج اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کینیڈا کے جناب بریگیڈیئر(ریٹائرڈ)عبدالغفور احسان ؔصاحب۔ جن کی کاوشوں کی بدولت ، گزرتے سال کی اس آخری شام میں یہ ادبی محفل برپا کی گئی تھی ۔
مغرب و عشاء کی نمازوں کے بعد سٹیج سیکرٹری مکرم عبدالحمید حمیدی ؔؔنے محترم امیر جماعت احمدیہ کینیڈا ملک لال خان صاحب اور نائب امیر مکرم ہادی علی چودھری صاحب کے علاوہ ٹی آئی کالج کے سینئر اساتذہ کرام مقیم ٹورانٹو ، مکرم پروفیسر مبارک احمد انصاری،مکرم پروفیسر ناصراحمد خان پرویز پروازی، مکرم پروفیسر محمد اسلم صابرؔ ، اردو/پنجابی کےمعروف شاعر مکرم عبدالکریم قدسیؔ نیز جناب تسلیم الٰہی زلفی کو سٹیج پر تشریف لانے کی دعوت دی۔ آج کی یہ ادبی شام دو حصوں پر مشتمل تھی ۔ پہلے حصہ میں شرکاء نے استاذی المکرم چودھری محمد علی صاحب مضطر ؔؔؔؔعارفی کے متعلق اپنے ذاتی تاثرات کی روشنی میں ان کا ذکرِ خیر کیا۔ جبکہ دوسرے دور میں تمام شعرائے کرام نےاپنااپنا کلام پیش کرکےمہمان سال 2019ءکورخصت کیا ۔
استاذی المکرم پروفیسرچودھری محمد علی صاحب کی متنوع الصفات ذات کے متعلق کچھ کہنا بلاشبہ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے ۔ جن کی تعلیمی ، ادبی و مختلف کھیلوں کے فروغ کے سلسلہ میں لامتناہی خدمات کا سلسلہ ، ٹی آئی کالج کے قیام یعنی 1944ء سے لے کر تا دمِ واپسیں تک پھیلا پڑا ہے ۔ گویا معمولی تصرف کے ساتھ۔۔۔۔۔۔ ع
“ پچھتر سال ’’ کا قصہ ہے کوئی دو چار دن کی بات نہیں !
چودھری صاحب کے متعلق یہ فقرہ جس نے بھی کہا بہت بر محل کہا۔
آج کی تقریب کی کارروائی کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک کے ساتھ ہوا جومکرم معتزقزقؔ صاحب نے کی ۔ جبکہ مکرم ڈکٹراحسن حاشر ؔصاحب نے اس کا اردو ترجمہ پیش کیا ۔ بعد ازاں خاکسار ناصر وینس نے حضرت امام آخرالزمان علیہ السلام کا منظوم کلام “کس قدر ظاہر ہے نور اس مبدءالانوار کا ’’ پیش کیا ۔ اسی طرح مکرم شفیق اللہ خان نے محترم چودھری صاحب کے مجموعہ کلام “اشکوں کے چراغ ’’سے ایک نظم : “آؤ حسنِ یار کی باتیں کریں !’’ خوش الہانی سے سنائی ۔
ازاں بعد بریگیڈیئر (ر ) عبدالغفور احسان صاحب نے تمام شعرا و دیگر احباب کو خوش آمدید کہا۔ نیز چودھری محمد علی صاحب کے ساتھ اپنے زمانہ طالب علمی کے گزرے ماہ وسال کی خوبصورت یادیں تازہ کیں ۔۔۔ع
ذکرِ حبیب کم نہیں وصلِ حبیب سے
بعینہ آپ کی یہ دلآویز یادیں اور باتیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کچھ کو احاطہ تحریر میں لائے بغیر ، یہ داستاں ادھوری رہ جائیگی ۔۔۔
محترم بریگیڈیئر عبدالغفور احسانؔ صاحب نے بیان کیا کہ چودھری محمد علی صاحب نہایت پیارے اور نفیس انسان تھے۔ شاہوں میں فقیر اور فقیروں میں شاہ ۔ کبھی گدڑی میں تو کبھی شاہانہ لباس میں ۔ آپ صرف ایک شخصیت ہی نہیں بلکہ باغ و بہارِ انجمن تھے۔ بلند پایہ انشاءپرداز اور نہایت قادرالکلام شاعر بھی تھے ۔ چھوٹی بحر میں آپکا کلام بلاشبہ آسمان کی بلندیوں کو چھوتا محسوس ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ ؎
جانتا ہوں دعا کے موسم میں
وہ اکیلا کدھر گیا ہو گا
اس کی آواز کی صداقت پر
لفظ لذت سے بھر گیا ہو گا
آپ کو یہ سعادت حاصل تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کےہمراہ پہاڑی سفروں اور ہائیکنگ پر جاتے رہے۔ نیزکوہ ہمالیہ کی چوٹیاں بھی سر کیں۔ آپ نہایت متقی ، پاک باز، عابد اور تہجد گزار انسان تھے ۔ ہمیشہ توبہ و استغفار اور قرآنی دعائوں سے زبان و لب کو تر رکھتے تھے ۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے عظیم روحانی فرزند حضرت امام آخرالزمان مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپؑ کے خلفاء کاذکر آتا تو آپ کی آنکھیں بے اختیارنم ہو جاتیں ۔بعض اوقات تو شدتِ جذبات سے ہونٹ پھڑ پھڑاتے صاف دیکھے جا سکتے تھے۔ یہ وہ مناظرہیں جو ان کے شاگردوں اور ساتھی اساتذہ کرام کی نگاہوں نے بار ہا مشاہدہ کیے اور ان کی لطیف اوراَن مٹ یادیں اب تک ذہن کے دریچوں سے جھانکتی محسوس ہوتی ہیں ۔
محترم بریگیڈئیر صاحب کے دلی تاثرات پر مبنی بیان کے بعد مختلف احباب نے محترم چودھری صاحب کی بابت اپنے اپنے ذاتی تأثرات کا اظہار کیا ۔ جن میں محترم امیر و نائب امیر صاحبان کے علاوہ کرنل (ر )دل دار احمد صاحب ، ٹورانٹوکے شاعراور براڈکاسٹر جناب تسلیم الٰہی صاحب زلفی اور کالج کے تین سابقہ پروفیسر صاحبان شامل تھے۔
اس کے بعد چودھری محمد علی صاحب کی ایک ویڈیو دکھائی گئی۔ جس میں وہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی بابرکت موجودگی میں لندن (برطانیہ )میں منعقدہ ایک خصوصی نشست میں اپنا کلام سنا رہے تھے ۔
مزید برآں آج کی نشست میں شعرائے کرام سمیت بعض احباب کو محترم امیر صاحب نے پھولوں کے گلدستے پیش کیے۔ بعد ازاں محترم امیر صاحب کینیڈا نے محترم چودھری صاحب کی بابت اپنے زمانہ طالب علمی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بیان کیا کہ ‘چودھری صاحب نے مجھے اہم ترین نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ مرکز میں جب بھی موقع ملے ضرور آیا کرو ۔ بالخصوص مشاورت پر تو ضرور آیا کرو۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے ۔ آمین ’
محترم امیر صاحب کے بعد مہمان شاعر و ٹی وی ہوسٹ جناب تسلیم الٰہی صاحب زلفی نے بھی چودھری صاحب کے متعلق اپنے نیک و پرخلوص جذبات کا اظہار کیا ۔
چودھری صاحب کی بابت اب ٹی آئی کالج کے تین ریٹائرڈ پروفیسر صاحبان کے تأثرات بھی ملاحظہ فرمائیے گا ۔ چودھری صاحب کے متعلق اپنی یادداشتوں کو تازہ کرتے ہوئے استاذی المکرم پروفیسر مبارک احمد صاحب انصاری نے بتایا کہ
کالج ہوسٹل کے بھی سپرنٹنڈنٹ رہے ۔ قادیان میں بطور ہوسٹل جو عمارت بنی اس میں پیغامیوں کے مولوی محمد علی صاحب (لاہوری)بھی رہتے رہےہیں۔ جس کے ہوسٹل کا افتتاح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا ۔ افتتاح کے موقع پر حضور ؓنے کچھ اس طرح فرمایا :
اس میں رہنے والے دونوں اشخاص کا نام محمد علی ہے۔ دونوں نے ایم اے کیا ہوا ہے۔ اور دونوں کا تعلق آرائیں فیملی سے ہے ۔ جن میں سےایک کاایک قَول یہ تھا کہ “ہمارے بعد اب یہاں (قادیاں میں )اُلّو بولیں گے ۔۔۔ !”جبکہ دوسرے کا عزم یہ تھا کہ یہاں سے وہ لوگ پیدا ہوں گے جو اسلام اور احمدیت کے صحیح وارث ہوںگے اور اس کی خدمت کریں گے۔۔۔ ! اب کس کی بات سچ نکلی ؟ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
استاذی المکرم پروفیسر پرویز پروازی صاحب نے اپنی یادوں کو کریدتے ہوئے بتایا کہ محترم چودھری صاحب اپنا کلام چھپوانے کے سخت خلاف تھے ۔ ایک دفعہ طالب علمی کے زمانے میں جب میں کالج کے مجلہ ‘المنار ’کا ایڈیٹر تھا تو میں نے چودھری صاحب کا کلام المنار میں چھاپ دیا ۔ چودھری صاحب نے دیکھا تو مجھ پر ناراض ہوئے اور کئی ماہ تک مجھ سے بات نہیں کی۔ بڑی مشکل سے چودھری صاحب کو راضی کیا ۔
چودھری صاحب کے متعلق اپنی یادوں کو کریدتے ہوئے پروفیسر محمد اسلم صاحب صابرؔنے بیان کیا کہ جن دنوں خاکسار ٹی آئی کالج کے ہوسٹل میں بطور طالب علم مقیم تھا اس دوران میں سردیاں آ گئیں۔ ہم میں سے بعض سٹوڈنٹس کے پاس گرم کوٹ نہیں تھے ۔ چودھری صاحب ہوسٹل سپرنٹنڈنٹ بھی تھے ۔ انہی دنوں صدر انجمن کے دفاتر میں کہیں سے نئے کوٹ آ گئے ۔ چودھری صاحب نے دفتر والوں کے نام رقعہ لکھ کرہم کودفتر بھجوا دیا ۔ یوں ہم سب کو نئے کوٹ مل گئے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چوہدری صاحب طلباء کے ساتھ ایک باپ کی طرح شفقت فرماتے تھے ۔
محترم چودھری صاحب کے کلام کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے لکھاکہ “آپ کی کس کس غزل پر کیسے اپنے ہاتھ سے لکھ کر داد دوں ؟ مَیں تو قلم توڑے بیٹھا ہوں’’
محبت ہو گئی ہے تجھ سے مضطرؔ
تو کس محبوب کا نوکر رہا ہے
آپ کی شائع شدہ بیاض “اشکوں کے چراغ’’کے شروع میں ہی پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز کا ایک خط بھی شاملِ اشاعت ہے جس میں حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز رقم فرماتے ہیں
“آپ کی طرف سے آپ کے شعری مجموعے کے لیے پیغام کا کہا گیا ہے ……آپ کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے جو تبصرہ فرمادیا وہ یقینا ًآپ کی شاعری پر مہر ہے کہ
‘‘آپ،آپ ہی ہیں۔ ہزاروں لاکھوں نے یہ مضمون باندھے ہوں گے مگر آپ کی تو ادا ہی الگ ہے ۔ ماشاء اللہ چشم بد دُور …’’
آپ کے شعروں میں ڈوب کر اپنے اپنے ذوق اور استعداد کےمطابق حکمت اور عرفان کی تلاش ہر پڑھنے سننے والا کرتا ہے ۔ اللہ کرے پڑھنے والے آپ کے اس مجموعے سے استفادہ کریں ۔’’
بعدازاں حضورِانورنےمحترم صدر صاحب مجلس انصار اللہ پاکستان کے نام اپنے مکتوب میں فرمایا کہ ‘اس مجموعے کا نام “اشکوں کے چراغ ’’ رکھ لیں ۔’
محترم چودھری صاحب نے “اشکوں کے چراغ’’کی افتتاحی سطور میں تخلص “ مضطر عارفی’’ کے متعلق لکھا ہے کہ
یہ وہ زمانہ تھا جب ماہوار نہیں تو ہر دوسرے مہینے تخلص تبدیل کیا جاتا تھا !
“عارفی”، برادرم عزیزم راجہ غالب احمد صاحب (مرحوم )کی عنایت ہے ۔ اور تقسیم ملک کے بعد کی بات ہے ۔ عارفی ہمارے جدِ امجد محمد عارف کی نسبت سے ہے ۔ 1940ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے دستِ مبارک پر بیعت کا شرف حاصل ہوا ۔ اس کے بعد کی داستاں اسی عشق کی داستاں ہے ۔
چودھری صاحب کی باغ و بہار شخصیت سے یوں تو ہر کوئی واقف ہے۔ مگر پھر بھی بعض نئے پڑھنے والوں کے اضافۂ معلومات کی خاطر چند معلومات درج ہیں ۔
آپ 1917ء کو ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے ۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا ۔ 1940ء میں نوجوانی میں احمدیت قبول کرنے اور پھر ساری عمر سلسلہ کی خدمات بجا لانے کی توفیق پائی۔1944ء میں جب قادیان میں تعلیم الاسلام کالج کا قیام عمل میں آیا تو آپ کو اس عظیم درس گاہ کے بانی اساتذہ میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ آپ پاکستان میں قومیائے جانے والےکالجز کے سینئر ترین اساتذہ میں شامل تھے ۔ اس کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی کی سینیٹ، اکیڈیمک کونسل اور بورڈ آف سٹڈیز (نفسیات) کے ممبر رہے ۔
کالج کے ہوسٹل کے علاوہ تیراکی،کشتی رانی ،کوہ پیمائی، باسکٹ بال ، یو ٹی سی اور آئی اے ٹی سی کے شعبوں کے انچارج اور پاکستان باسکٹ بال کے سینئر وائس پریذیڈنٹ رہے ۔ 1972ء میں ٹیم کو لے کر چین بھی گئے ۔ جس میں ٹی آئی کالج ربوہ کے سابقہ کھلاڑی بھی شامل تھے ۔
آپ کوحضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکے پرائیویٹ سیکرٹری رہنے کا شرف بھی حاصل ہوا ۔ حضور کے غیر ممالک کے سفروں میں ساتھ رہے اور روزنامہ الفضل کے لیے رپورٹس بھیجنے کا اعزاز حاصل رہا ۔ مزید برآں جامعہ احمدیہ ربوہ میں شعبہ انگریزی کے سربراہ ہونے کےساتھ ساتھ وکیلِ وقف نو کے طور پر تحریک جدید میں خدمات سرانجام دیتے رہے ۔ آپ نے سلسلہ کی بہت سی کتب کا اردو سے انگریزی اور انگریزی سے اردو میں ترجمہ بھی کیا ۔ جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے متعلق “اک مرد خدا ’’ نامی کتاب خاص طور پر قابل ذکر ہے جو کہ ایک معروف انگریز صحافی IainAdamson نے تحریر کی تھی ۔
مزید برآں اردو ادب کا نہایت اعلیٰ ذوق رکھنے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ قادرالکلام شاعر بھی تھے ۔ آپ کا کلام جماعت اور ملک کے ادبی حلقوں میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔
چودھری صاحب کے یہ اردو/پنجابی اشعار یقینا ًقابل توجہ ہیں ۔۔۔۔ ؎
آخر میں ان تمام احمدی و غیرازجماعت شعرا ء کرام کے اسماء گرامی ( جن میں سے بعض صاحب دیوان بھی ہیں) دیے جاتے ہیں جنہوں نے اس خصوصی تقریب میں شرکت کرکے اس محفل کو رونق بخشی ۔
عبدالحمید حمیدی ، محمدعثمان خان ، ریاض الوارث ، کفیل احمد ، قدرت اللہ عدنان ، مقصود چودھری ، بابر عطا ، نجیب اللہ ایاز ، شعیب ناصر ، بشارت ریحان ، کرنل وسیم شاہد، عاصم جاسر، انصر رضا ، سلمان اطہر، عبدالکریم قدسی، تسلیم الٰہی زلفی، سید مشیراشعر ملیح آبادی ، ہادی علی چودھری ، ڈاکٹر ناصر احمد پرویز پروازی۔
اور اب آخر میں صرف دو شاعر صاحبان کا نمونہ کلام دیا جارہاہے جنہوں نے محترم چودھری صاحب مرحوم کے متعلق اپنی تخلیقات سے سامعین کو نوازا۔
عبد الکریم قدسی :
جناب قدسی صاحب نے بتایا کہ انہوں نے محترم چودھری صاحب کے ایک اردو شعر کا پنجابی ترجمہ کرکے انہیں سنایا تو چودھری صاحب ازحد محظوظ ہوئے ۔ چوہدر ی صاحب کا ایک اردو شعر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎
فتوے کٹھ ملّاؤں کے
جوتے میرے پاؤں کے
چودھری صاحب کے اس شعر کو قدسی صاحب نے پنجابی میں یوں ڈھالا ۔۔۔۔۔۔ ؎
فتوے ملاواں دے لکھّاں
میں جُتی دی نوک تے رکھّاں
ہادی علی چودھری :
مکرم ہادی علی چودھری صاحب نے محترم چودھری صاحب مرحوم کی سیرت، اطاعتِ خلافت اور دلی جذبوں کا اظہار کرتے ہوئے آپ کے شعر
‘‘اسیں سائے شگر دوپہر دے ،سانوں کندھاں لیا لکو
سانوں یار نے جتھے آکھیا اسیں اوتھے رہے کھڑو’’
کی نہایت لطیف تشریح بھی بیان فرمائی۔