لیبیا میں قیامِ امن کے لیے دنیاوی کوششیں اور خلفائے احمدیت کے مشعلِ راہ ارشادات
لیبیا پر کرنل معمر قذافی نے 1969ء سے 2011ء تک مضبوط گرفت کے ساتھ حکومت کی۔ انہیں کبھی مغربی ممالک کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ کسی زمانے میں اہلِ مغرب لیبیا کو شمالی افریقہ میں داخل ہونے کا دروازہ گردانتے تھے لیکن زمانے کی ستم ظریفی کہ اب وہ افریقہ سے یورپ نقل مکانی کرنے والے بے حال لوگوں کے لیے ایک دروازے کا کام دے رہا ہے۔ لیبیا کے ساحلوں سے ربڑ کی کشتیوں پر ہر ماہ سینکڑوں لوگ اٹلی کے ساحلوں کا رُخ کرتے ہیں۔ اُن میں سے کچھ منزل پر پہنچ پاتے اور کئی اپنی آنکھوں میں ان گنت خواب سموئے سمندر کی لہروں کی نظر ہو جاتے ہیں۔
لیبیا کچھ عرصے سے دوبارہ عالمی خبروں میں نمایاں ہے۔ پہلے قذافی۔ امریکن دشمنی نے اس ملک کو برباد کیاجس میں امریکہ کو بعض مسلمان ملکوں کی حمایت حاصل تھی۔ لیبیا کو عرب لیگ سے نکالنے کے بعد سے کرنل معمر قذافی بعض حکمرانوں کے نشانے پر تھے۔ چنانچہ جب امریکہ نے کرنل قذافی سے بدلہ لینے کی ٹھانی تو لیبیا کی بربادی میں انہوں نے امریکہ کا پورا پورا ساتھ دیا۔
2011ء میں قذافی کے قتل کے بعد لیبیا شدید خانہ جنگی کا شکار رہا۔ یہاں 2014ء میں اقوام متحدہ کی زیرنگرانی الیکشن کروائے گئے اور اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت Governament of National Accord یا GNA وجود میں لائی گئی جس میں وزیراعظم کی ذمہ داری فائز السراج (Fayez al-Sarraj)کو سونپی گئی جو اب بھی وہاں حکمران ہیں لیکن لیبیا اب بھی شدید سیاسی بحران کا شکار ہے۔ وہاں نہ تو کوئی مخصوص پولیٹیکل سسٹم ہے اور نہ ہی ایک حکمران اتھارٹی۔ نہ حکومت کی رِٹ ہے اور نہ ملک کی متحد فوج۔ ہتھیاروں کو خریدنے اور اُسے اپنے ہی شہریوں پر استعمال کرنے کے لیے کسی قانون اور ضابطے کی ضرورت نہیں۔ قبائل اسلحہ بنانے اور فروخت کرنے والوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ ہمسایہ ممالک اسلحہ، بارود اور گاڑیوں کے کانوائے خرید کر خلیفہ حفتر کو مدد فراہم کر رہے ہیں جبکہ روس اور بعض دیگر ممالک جنہوں نے موجودہ حکومت کے ساتھ Mediterranean Gas Fields کے معاہدے کیے ہیں فائز السراج کی حکومت کو بچانے کے لیے میدان میں موجود ہیں۔
الیکشن 2014ء کے بعد شروع ہونے والی خانہ جنگی میں آٹھ ہزار آٹھ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ تیل کی یومیہ پیداوار جو 1.2 ملین بیرل روزانہ تھی کم ہوکر پانچ لاکھ بیرل روزانہ پر آچکی ہے۔
موجودہ خانہ جنگی کا سرغنہ خودساختہ فیلڈ مارشل خلیفہ حفتر ہے جو اب 80 فیصد علاقے پر قابض ہے اور دارالحکومت کی طرف پیش قدمی کررہا ہے۔
خلیفہ بلقاسم حفتر 1943ء میں بن غازی کے مغرب میں آباد چھوٹے سے گاؤں اجدابیا میں پیدا ہوا۔ ستمبر 1969ء میں قذافی کو برسراقتدار لانے والے ٹروپس میں بطور لیفٹیننٹ شامل تھا۔ 1987ء میں قذافی کے حکم پر ہمسایہ ملک چاڈ(Chad)میں حکومت کا تختہ اُلٹنے کی ایک سازش کو ناکام بنانے میں بطور کرنل حصہ لیا لیکن چاڈ کی افواج کے ہاتھوں ساتھیوں سمیت گرفتار ہوا۔ جب امریکہ کی مداخلت پر سازش کے دوران قید کیے جانے والوں کو رہائی ملی تو لیبیا سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کی اکثریت امریکہ چلی گئی۔ کرنل حفتر نے بھی ورجینیا کو اپنا مسکن بنایا۔ امریکہ میں بیٹھ کر حفتر نے قذافی کے خلاف نیشنل فرنٹ ترتیب دیا اور خود کو لیبیانیشنل آرمی کا کمانڈر بنایا۔ اس نے امریکہ میں رہتے ہوئے بیرون از لیبیا رہائش رکھنے والے سابق فوجی افسران اور اندرون ملک حاضر سروس فوجی افسران سے رابطے بڑھاکر ملک میں فوجی انقلاب کا پلان بنایا۔ اکتوبر 1993ء میں جب یہ گروہ فوجی انقلاب برپا کرنے کے قریب تھا تو ان کا راز فاش ہوگیا اور ملک کے اندر سازش کرنے والے گرفتار کرلیے گئے۔ اس منصوبے کے ناکام ہونے کے بعد کرنل حفتر نے مصر کی حکومت کے توسط سے کرنل قذافی کو یقین دہانی کروائی کہ وہ اس کے خلاف کسی نئے پلان کا حصہ نہیں بنے گا۔ کرنل حفتر نے خود ہی مصر میں سکونت اختیار کرلی۔
کرنل قذافی کے خوف ناک انجام کے بعد کرنل حفتر لیبیا کے شہر بن غازی چلا آیا اور اپنے حمائتیوں کو یک جا کرکے ایک ملیشیا فورس تیار کی جس کو دوسری طاقتوں نے داعش کے خلاف کامیابی کے ساتھ استعمال کیا۔ لیبیا کے مغرب میں جو چند اسلامی گروپ تھے اُن کو بھی اس نے شکست دی۔ خود کو پہلے جنرل اور پھر فیلڈ مارشل ہونے کا اعلان کیا۔ اس کی طاقت اور اسّی فی صد علاقے پر قبضے کے بعد بہت سارے قبائلی لیڈر ،پرانے ساتھی، سیاست دان حتیٰ کہ پارلیمنٹ کے سپیکر بھی جنرل حفتر کا ساتھ دے رہے ہیں۔ قذافی دور کے آخری وزیرداخلہ جنرل عبدالفاتحہ یونس کو بھی اس نے ڈھونڈ نکالا ہے اور اپنے ساتھ ملالیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قائم کردہ حکومت صرف طرابلس (Tripoli)تک محدود ہے۔ تیل کے کنویں ہاتھ سے نکلنے کے بعد مغرب کو نظر آرہا ہے کہ جلد لیبیا مکمل طور پر جنرل حفتر کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ حفتر نے تیل پر قبضہ کرنے کے بعد ملٹری کونسل تشکیل دے دی ہے جو نظام ِحکومت چلا رہی ہے۔ کونسل نے کہا ہے کہ ہم سیاسی اسلام اور دہشت گردی کے مخالف ہیں۔
ستمبر 2017ء میں اقوام متحدہ نے Ghassan Salamé کو اقوام متحدہ کا خصوصی نمائندہ برائے لیبیا مقرر کیا تھا لیکن وہ UNO کی کوئی بات حفتر اور اس کی قائم کردہ ملٹری کونسل سے منوانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ خطرناک صورت حال میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی لیبیا کا دورہ کیا لیکن جنرل حفتر کو رام کرنا اتنا آسان نہ تھا۔ اب تک تو مصر۔ سعودی عرب۔ عرب امارات کی حکومتیں جنرل حفتر کے ساتھ ہیں جبکہ ترکی اور قطر یو این او کی قائم کردہ حکومت کا ساتھ دے رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ حفتر کی لیبیا کے عوام میں پوزیشن جاننے کے لیے فرانس کے ٹیلی ویژن پر خبر نشر کروائی گئی کہ حفتر زخمی ہوکر علاج کے لیے فرانس آگیا ہے۔ اس خبر کے نشر ہونے پر لیبیا میں عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ حفتر کے لیے لیبیا کا نیا لیڈر ہونے کے بھرپور مظاہروں نے مغرب کو باور کروادیا کہ حفتر محض طاقت کے بل پر ہی نہیں بلکہ عوام کے دلوں پر بھی حکومت کر رہا ہے۔ گو بعد میں اس خبر کی تردید کردی گئی لیکن ہر طرف سے حفتر کے ساتھ صلح کرنے کی آوازیں بھی اُٹھنے لگیں۔ ترکی جس نے وزیراعظم کی مدد کے لیے اپنی افواج روانہ کی تھیں وہ بھی روس کے ساتھ مل کر صلح پر آمادگی ظاہر کرنے لگا۔ اس حوالے سے روس میں جو اجلاس ہوا اس میں جنرل حفتر نے شرکت تو کی لیکن کسی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔
روس کے صدر نے جرمن چانسلر کو خصوصی دعوت پر ماسکو بلاکر ایک انٹرنیشنل کانفرنس کے انعقاد کی درخواست کی۔ جرمن حکومت نے اقوام متحدہ کی طرف سے درخواست کی شرط رکھی۔ چنانچہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی رضامندی سے 19؍ جنوری 2020ء اتوار کے روز برلن میں لیبیا کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس میں امریکہ۔ روس۔ برطانیہ۔ فرانس۔ چین۔ یو اے ای۔ ترکی۔ کانگو۔ اٹلی۔ مصر۔ الجیریا۔ اقوام متحدہ۔ یورپی یونین۔ افریقن یونین۔ عرب لیگ۔ لیبیا کے وزیراعظم فائز السراج اورجنرل خلیفہ حفتر شریک ہوئے۔
اس کانفرنس میں ایک عجیب یہ بات تھی کہ فائز السراج اور جنرل حفتر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔دونوں کانفرنس ہال سے باہر علیحدہ علیحدہ کمروں میں موجود تھے۔ جرمن چانسلر کو میزبان ہونے کے ناطے بار بار ایک سے دوسرے کمرے میں جاکر بات سنبھالنی پڑتی۔اس کانفرنس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ جنرل حفتر باہمی معاہدے پر دستخط کرنے پر تیار ہوگئے جبکہ ماسکو میں وہ ایسا کرنے سے انکار کرچکے تھے۔ اس باہمی معاہدے پر سولہ ممالک کے دستخط ہیں۔ امریکہ کے وزیرخارجہ کے علاوہ باقی سربراہانِ حکومت ہیں جنہوں نے اس معاہدے کی پاسداری کا بھرم رکھنا ہے۔ جس کی پہلی شِق یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے 2011ء میں لیبیا میں اسلحے کی ترسیل پر جو پابندی لگائی تھی اس پر سختی سے عمل کروایا جائے گا۔ نگرانی کے لیے انٹرنیشنل فالو اَپ کمیٹی بنائی جائے گی۔ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بیرونی مداخلت کی وجہ سے لیبیا کی سلامتی کو خطرات درپیش ہوئے اب لیبیا میں بیرونی مداخلت بند کردی جائے گی۔ لیبیا کے مستقبل اور سلامتی کا فیصلہ لیبیا کے عوام کو کرنے دیا جائے گا۔ لیبیا کے عوام اپنے ملک کے لیے سیاسی نظام کا انتخاب خود کریں گے اور گروپس کے سیاسی اختلافات بھی خود آپس میں طے پائیں گے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ لیبیا کی خانہ جنگی کا کوئی فوجی حل موجود نہیں۔ غیر ممالک اقوام متحدہ کے مبصر کی معرفت اپنی تجاویز لیبیا تک پہنچائیں گے۔ لیبیا کی خانہ جنگی میں موجود تمام گروپس سیز فائر کی حمایت کرتے ہیںاور اس حوالے سے بھاری اسلحہ۔ آرٹلری۔ ہوائی طیارے فوراً واپس کنٹونمنٹ میں بھجوادیے جائیں گے۔ اب کوئی فوجی نقل و حرکت نہیں ہوگی اور جنگ بندی کا اطلاق پورے لیبیا پر ہوگا۔
یوں تو اس معاہدے کی پچپن شقیں ہیں۔ کیا اس معاہدے کے بعد لیبیا میں خانہ جنگی بند ہوجائے گی اور وہاں امن قائم ہوجائے گا۔ عالمی مبصرین اس بارے میں مختلف آرا رکھتے ہیں۔ انہوں نے فالواَپ کمیٹی کے ناموں کا اعلان نہ کرنے پر تنقید کی ہے۔ جرمنی نے افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے پر 2001ء میں بون میں افغان کانفرنس منعقد کی جس کا اعادہ 2011ء میں دوبارہ بون ہی میں کیا گیا جس میں 50سے زائد ممالک شامل ہوئے تھے لیکن افغانستان آج بھی بدامنی اور افراتفری کا شکار ہے۔ جرمنی نے یوکرائن میں امن قائم کرنے کے لیے برلن کانفرنس منعقد کی تھی ۔ وہ کانفرنس اس لیے نتیجہ خیز رہی کہ وہاں بیرونی مداخلت کا دروازہ بند کردیا گیا تھا۔ کیا لیبیا میں ایسا ہوپائے گا۔ مبصرین اس بارے میں شکوک میں مبتلا ہیں۔
معاہدے تحریر کرکے اُن پر دستخط کرنے اور اُن معاہدوں پر تبصرے کرنے والے مبصرین معاملات کو مفادات کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس وہ جن کو خدا نے روحانی بصیرت عطا کی ہو اُن کی طرف سے مہیا کی جانے والی راہنمائی کو نظرانداز کرنے والی قوموں پر مشکلات کے دن یوں آسانی سے نہیں ٹلتے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے خلیج کی جنگ کے وہاں کے مسلمانوں اور مڈل ایسٹ پر دُوررس بدنتائج ظاہر ہونے کی پیش خبری دیتے ہوئے فرمایا تھا:
‘‘اللہ تعالیٰ دنیا کو امن عطا کرے اور امن سے مراد صرف ظاہری امن نہیں بلکہ امن سے مراد دل و دماغ کا امن ہے۔ کیونکہ مَیں قطعی طور پر اس بات کو ایک ٹھوس حقیقت کی طرح دیکھ رہا ہوں کہ دنیا کا امن دل اور دماغ کے امن پر منحصر ہے۔ وہ بنی نوع انسان جن کے دل امن میں نہ ہوں۔ جن کے دماغ امن میں نہ ہوں۔ اُن کا عالمی ماحول امن میں نہیں رہ سکتا۔ یا اُن سے دنیا کو ہوگا یا دنیا سے اُن کو خطرہ ہوگا۔ پس دماغ کے خلل اور دل کے خلل کے نتیجے میں بیرونی خلل واقع ہوا کرتے ہیں۔ پس یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی سوچوں کی اصلاح فرمادے۔ ان کے دلوں کی اصلاح فرمادے۔ اُن کے معاشرے کی اصلاح فرمادے اور ان کے دل و دماغ کو امن عطا کرے تاکہ بنی نوع انسان کو بحیثیت مجموعی امن نصیب ہو۔ اللہ تعالیٰ مسلمان ممالک کو اب بھی عقل دے اور وہ اس ظلم میں غیرمسلم قوموں کے شریک نہ بنیں۔ ان کے اعلیٰ مقاصد کی خاطر جو اُن کے مفادات سے تعلق رکھتے ہیں ایک عظیم مسلمان طاقت کو ملیامیٹ کردیں۔ اور اپنے اپنے انگوٹھے اس فیصلے پر ثبت کردیں۔ …… مؤرخ نے جو باتیں بعد میں لکھنی ہیں یہ آج ہمیں دکھائی دے رہی ہیں جو حل ہونے والی ہیں۔ اگر مسلمان ممالک نے ہوش نہ کی اور بروقت اپنے غلط اقدامات واپس نہ لیے اور اپنی سوچوں کی اصلاح نہ کی۔ اگر یہ انہی باتوں پر قائم رہے تو عراق مٹتا ہے یا نہیں مٹتا مگر اس سارے علاقے کا امن ہمیشہ کے لیے مِٹ جائے گا۔کبھی دوبارہ عرب اُس حال کو واپس نہیں لَوٹ سکیں گے۔’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ 11 فروری 1991ء)
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ نے جن سیاسی حکمرانوں اور راہنماؤں کو خطوط لکھے اُن میں مسلمان رہنماؤں کو لکھے جانے والے خطوط بھی انہی خطرات اور اُن کے حل کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ چنانچہ حضورِ انورنے ایران کے مذہبی سرپرست اعلیٰ کو توجہ دلاتے ہوئے تحریر فرمایا:
‘‘اگر تمام مسلمان اُمّت متحد ہوجائے اور مل جل کر کام کرے تو امنِ عالم کا قیام چنداں مشکل نہیں۔ ہمیں کبھی بھی بلاجہ کی دشمنیوں اور عداوتوں کو پروان نہیں چڑھانا چاہئے بلکہ قیام امن و آشتی کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں۔ کسی کی دشمنی اور مخالفت کو کبھی بھی انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہئے۔ قرآن کریم میں یہی تعلیم دی گئی ہے۔
(کتاب عالمی بحران اور امن کی راہ۔ صفحہ 240)
٭…٭…٭