حضرت مصلح موعود ؓ

عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے (قسط نمبر4۔ آخر)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

اس زمانہ کا فتنہ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حضرت نوحؑ سے لے کر آپؐ تک کے سب نبیوں نے اس فتنہ کی خبر دی تھی۔ جو حضرت مسیح موعود کے وقت آئے گا۔(بخاری کتاب الفتن باب ذکر الدجال)اب دیکھ لو کہ اتنے بڑے فتنہ کے دور کرنے کے لیے کس قدر کوشش کی ضرورت ہے۔ آج کل ہماری جماعت کے مردوں سے جس قدر ہوسکتا ہے کوشش کر رہے ہیں۔

عورتیں دعا ئیں کریں

لیکن ضرورت ہے کہ عورتیں بھی ان کی مدد کریں اور اس کام میں ان کا ساتھ دیں۔درد دل سے دعائیں مانگا کریں کہ اسلام کی ترقی ہو۔ خدا تعالیٰ حق کے قبول کرنے کے لیے لوگوں کے دل کھولے۔ دنیا سے بدیاں اور برائیاں دور ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا نام دنیا میں پھیلے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نور آیا ہے لوگ اس سے فائدہ اٹھاویں۔

چندہ دیں

اس کے علاوہ جہاں تک ان سے ہوسکے مالی خدمت بھی کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مردوں سے چندہ لیا کرتے تھے تو عورتوں سے بھی وصول کرتے تھے اور یہ چندہ وہ اپنے لیے نہ لیتے تھے اور نہ اللہ کے پیارے اپنی ذات کے لیے مانگا کرتے ہیں ان کا انتظام خدا تعالیٰ خود کرتا ہے۔ تو نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے کبھی مانگا نہ آپؐ سے پہلے انبیاء نے اپنے لیے مانگا نہ اس زمانہ میں جس کو خدا نے مسیح موعود کر کے بھیجا ، اس نے اپنے لیے کچھ طلب کیا اور نہ وہ جو آپ کے بعد کھڑے ہوئے، انہوں نے ایسا کیا بلکہ سب دین کے لیے ہی مانگتے رہے اور میں بھی اسی غرض کے لیے کہتا ہوں کہ جن عورتوں کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ اس کے راستہ میں اپنے مالوں سے دیں۔ پچھلے دنوں مَیں نے مستورات کو چندہ دینے کی تحریک کی تو مجھے بتایا گیا کہ مرد عورتوں کو روپیہ نہیں دیتے بلکہ جس چیز کی ضرورت ہو وہ لادیتے ہیں۔ اس لیے وہ چندہ کہاں سے دیں لیکن یہ بات شریعت کے خلاف ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کا یہ طریق تھا کہ عورتوں کو اپنے مال میں سے حصہ دیا کرتے تھے۔ اب بھی اسی طرح کرنا چاہیے اور خواہ کتنی ہی تھوڑی آمدنی ہو۔ اس سے عورتوں کو ان کا حصہ دینا چاہیے۔ پھر اس میں سے عورتیں خدا کی راہ میں دیا کریں اور اس بات کا ہرگز خیال نہ ہو کہ اس قلیل رقم سے کیا بنے گا۔ خواہ ایک دمڑی دینے کی توفیق ہو تو وہی دے دی جائے۔ اللہ تعالیٰ اخلاص کو دیکھتا ہے نہ مال کو۔ اگر کسی کے پاس صرف ایک روٹی ہو اور وہ اس کا ایک چوتھائی حصہ خدا کی راہ میں دے دے تو خدا کے حضور وہ ثواب کا ویسا ہی مستحق ہے جیسا کہ سو روپیہ رکھنے والا پچیس روپے دے کر۔ اس لیے تھوڑے مال کا خیال نہ کرنا چاہیے۔ ہاں نیت اور اخلاص کا خیال رکھنا چاہیے کہ خدا انہیں کو دیکھتا ہے اور انہیں کے مطابق اجر دیتا ہے۔

عورتوں میں تبلیغ کریں

پھر عورتوں کو چاہیے کہ تبلیغ کریں۔ مرد تو عورتوں میں تبلیغ نہیں کرسکتے اس لیے یہ کام عورتوں کا ہی ہے۔ انہیں چاہیے کہ غیر احمدی، ہندو، عیسائی وغیرہ عورتوں کو اسلام کی تعلیم بتائیں اور ایسی دلیلیں یاد رکھیں جو انہیں تبلیغ کرتے وقت کام آئیں۔ خواہ عورت اَن پڑھ ہو تو بھی موٹی باتیں اپنے خاوند، باپ، بھائی سے سیکھ لے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض اَن پڑھ احمدی دین سے ایسی واقفیت پیدا کر لیتے ہیں کہ غیر احمدی پڑھے ہوئے ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ایک احمدی زمیندار جو بالکل اَن پڑھ ہے اور یوں بھی سیدھا سادہ معلوم ہوتا ہے۔ اس نے سنایا کہ میرے رشتہ دار مجھے ایک شیعہ مولوی کے پاس لے گئے کہ وہ مجھے سمجھائیں۔ اس نے مجھ سے پوچھا بتاؤ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے کیا لگتے ہیں۔ میں نے کہا باپ ۔ پھر اس نے پوچھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی مسلمانوں کی کیا لگتی ہے۔ میں نے کہا بہن۔ وہ کہنے لگا اچھا مرزا صاحب نے جو سیدانی سے نکاح کیا ہے وہ کس طرح جائز ہوسکتا ہے۔ میں نے کہا حضرت علی ؓ نے تو رسول کریم کی خاص بیٹی سے نکاح کیا تھا۔ اسے آپ کیا سمجھتے ہیں۔ حضرت مرزا صاحب نےتو نہ معلوم کتنی پشتوں کے بعد جا کر نکاح کیا ہے۔ مولوی نے کہا حضرت علیؓ تو ایک بزرگ انسان اور خدا کے پیارے تھے۔ میں نے کہا حضرت مرزا صاحب کو ہم ان سے بھی بڑھ کر مانتے ہیں۔ اس پر وہ لاجواب ہوگیا اور کہنے لگا جا تیری عقل ماری گئی ہے۔ اسی قسم کی اور کئی ایک مثالیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر انسان سچائی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لے تو پھر کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ سچائی ایک تلوار ہے جس کے ہاتھ میں ہوگی وہ دشمن کا سر اڑا دے گا۔ اور اگر بچہ بھی مارے گا تو زخمی ضرور کردے گا۔ اسی طرح گو پڑھا ہوا انسان دشمن کے مقابلہ میں بڑا کام کر سکتا ہے۔ مگر اَن پڑھ بھی اگر دین سے واقفیت حاصل کر لے تو غالب ہی رہے گا۔ اس لیے اَن پڑھ عورتوں کو بھی موٹی موٹی دلیلیں سیکھ لینی چاہئیں۔ اور جہاں عورتیں مل جائیں ان کو تبلیغ کرنی چاہیے۔

تبلیغ کرنے کے مواقع

آج کل ریلوں میں عورتوں کو خوب تبلیغ کا موقع مل سکتا ہے۔ یہاں آتے ہوئے راستہ میں دوستوں نے مجھے بتایا کہ ایک عیسائی عورت مسلمان عورتوں سے گفتگو کررہی ہے جو اسے کوئی جواب نہیں دے سکتیں۔ میں نے اپنے گھر سے اس کمرہ میں بھیج دیا۔ اور مختصر طور پر بتا دیا کہ اول تو وہ تمہیں مسلمان دیکھ کر خودبخود اعتراض کرے گی۔ اس کا اس طرح جواب دینا اور اگر وہ اعتراض نہ کرے تو تم خود یہ اعتراض کرنا۔ لیکن اتفاق کی بات ہے عیسائیوں کا سب سے بڑا اعتراض اور اس کا جواب مجھے بھول گیا۔ جب وہ گئیں تو اس نے وہی اعتراض کر دیا۔ اس کا جواب میں نے کسی وقت عورتوں کے درس میں بیان کیا ہوا تھا۔ جو انہوں نے دے دیا اس نے کہا تمہارے قرآن میں لکھا ہے کہ عورتوں میں روح نہیں ہے اس لیے ان کو اپنے اعمال کا کوئی بدلہ نہیں ملے گا۔ انہوں نے کہا قرآن میں تو صاف لکھا ہے کہ کسی مومن مرد و عورت کے عمل کو ضائع نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کا بدلہ دیا جائے گا تم نے یہ کہاں سے نکالا کہ عورت میں روح ہی نہیں۔ عیسائی عورت نے کہا قرآن میں یہ بات موجود ہے۔ تم کو علم نہیں۔ انہوں نے کہا میں تمہارے سامنے قرآن کی آیت پیش کر رہی ہوں اور تم کہتی ہو تمہیں علم نہیں۔ اگر کوئی ایسی آیت قرآن کریم میں ہے تو نکال دیجئے۔ اس نے کہا اگر تم لکھنؤ آؤ تو میں تمہاری تسلی کرسکتی ہوں۔ انہوں نے کہا اگر تم قادیان آؤ تو میں تمہیں سمجھانے کی کوشش کروں گی پھر اس نے کہاں تم نوجوان ہو اور میں بوڑھی ہوگئی ہوں۔ اس لیے تمہاری باتوں کا جواب نہیں دے سکتی۔ انہوں نے کہا اس لحاظ سے تو آپ کو ضرور جواب دینا چاہیے تھا کیونکہ آپ نے بہت سی عمر مذہبی باتوں میں گزاری ہے۔ مگر وہ خاموش ہوگئی اورکوئی جواب نہ دے سکی

تو ریل میں عورتوں کو تبلیغ کا اچھا موقع مل سکتا ہے اور کسی جگہ تو شاید ہی اتنی عورتیں جمع ہوسکیں جتنی گاڑی میں ہوتی ہیں اور مختلف جگہوں کی ہوتی ہیں۔ اگر ان میں سے کسی کو ہدایت ہوجاوے تو وہ اس کے اثر کو دور دور پھیلا سکتی ہے۔ پھر گھروں میں یا اور عورتوں کے مجمع میں موقع مل سکتا ہے۔ اس کے لیے موٹے موٹے مسائل یاد کر لینے چاہئیں۔

تقویٰ حاصل کرنا

اس کے علاوہ تقویٰ اللہ حاصل کرنا ایک نہایت ضروری چیز ہے کیونکہ اسلام صرف باتیں سنانےکی اجازت نہیں دیتا بلکہ کہتا ہے کہ انسان کو خدا کا خوف اور محبت اپنے دل میں پیدا کرنی چاہیے۔ اس لیے یہ نہایت ضروری ہے اور جب تک یہ نہ ہو کوئی عمل عمل نہیں کہلا سکتا ۔ نماز نماز نہیں کہلا سکتی۔ روزہ روزہ نہیں کہلا سکتا۔ زکوٰۃ زکوٰۃ نہیں کہلا سکتی۔ حج حج نہیں کہلا سکتاکیوں؟ اس لیے کہ نماز اس غرض کے لیے نہیں رکھی گئی کہ انسان کی ورزش ہو۔ روزہ اس لیے نہیں کہ انسان کو بھوکا پیاسا رکھا جائے۔ زکوٰۃ اس لیے نہیں کہ مالی نقصان ہو اور حج اس لیے نہیں کہ سفر کی صعوبت برداشت کرنی پڑےبلکہ ان کی غرض اللہ کا تقویٰ اور نیکی پیدا کرنا ہے۔ حسد و کینہ، لڑائی اور فساد ، بدی اور برائی وغیرہ وغیرہ بری باتوں سے بچا کر انسان کو متقی بنانا ہے کیونکہ یہی سب نیکیوں کی جڑ ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ نے بھی لکھا ہے

ہر ایک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے

اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے

تویہ بہت ضروری چیز ہے اس کے لیے سوچنا چاہیے کہ ہمارے کسی کام کا یہ نتیجہ نہ ہو کہ خدا تعالیٰ ناراض ہوجائے یا کسی انسان کو تکلیف پہنچے۔ آج کل عورتوں میں یہ بات زیادہ پائی جاتی ہے کہ وہ دوسری کو تکلیف پہنچا کر خود کچھ حاصل کر لینااچھا سمجھتی ہیں۔ مگر تقویٰ ایسا کرنے سے روکتا ہے۔ پھر عورتیں ایک دوسرے کو طعنے دیتی ہیں ہنسی کرتی رہتی ہیں اور عیب نکالتی ہیں اور آخر کار لڑائی شروع کر دیتی ہیں یہ سب باتیں تقویٰ کے خلاف ہیں۔ اس قسم کے عیب تو عورتوں میں بہت سے ہیں۔ اگر ان کو بیان کرنے لگوں تو بہت دیر لگے گی اور آج میرے حلق میں درد بھی ہے۔ اس لیے میں یہ اصل بتا دیا ہے کہ ہر ایک ایسا کام جس سے خدا ناراض ہو یا خدا کی کسی مخلوق کے لیے دکھ اور تکلیف کا باعث ہو اس سے بچنا چاہیے۔ اگر یہ بات پیدا ہو جائے تو تقویٰ اللہ حاصل ہوجاتا ہے۔

خاتمہ

یہ چند ایک باتیں ہیں جو میں نے نصیحت کے طور پر بیان کر دی ہیں اگر ان کو یاد رکھو گی اور ان کے مطابق عمل کرو گی تو فائدہ اٹھاؤ گی۔

(الفضل 27؍اکتوبر 1917ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button