خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 31؍جنوری2020ء
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 31؍جنوری2020ء بمطابق 31؍صلح 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت المبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، (سرے)، یوکے
اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ
میں نے اسلام میں آج تک کسی عورت کے بارے میں نہیں سنا کہ اس کا مہر ایسا قابل عزت ہو جیسا کہ اُمِ سُلَیم ؓ کا مہر تھا
حضرت ابوطلحہؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جہاد کی وجہ سے نفلی روزہ نہیں رکھا کرتے تھے تا کہ طاقت کم نہ ہو جائے اور حضرت انسؓ مزید فرماتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو میں نے سوائے عیدالفطر یا عیدالاضحی کے دن کے کبھی ان کو بے روزہ نہیں دیکھا
اپنے کام کے ماہر، سلیقہ اور انہماک کے ساتھ باسٹھ سال کے قریب وقفِ زندگی کی روح کے ساتھ خدمتِ دین کی توفیق پانے والے، سابق اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری (ربوہ) مکرم باؤ محمد لطیف صاحب کی وفات۔ مرحوم کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج جن صحابی کا میں ذکر کروں گا ان کا نام ہے حضرت ابوطلحہؓ۔ حضرت ابوطلحہ انصاریؓ کا اصل نام زید تھا۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج سے تھا اور یہ قبیلے کےنقیب تھے۔ آپؓ اپنی کنیت ابوطلحہ کے نام سے زیادہ مشہور تھے۔ حضرت ابوطلحہؓ کے والد کا نام سہل بن اسود اور والدہ کا نام عبادہ بنت مالک تھا۔ حضرت ابوطلحہؓ نے بیعتِ عقبہ ثانیہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی توفیق پائی۔ آپؓ غزوۂ بدر اور دیگر تمام غزوات میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک ہوئے۔ جب حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حضرت ابوطلحہؓ کے ساتھ مؤاخات قائم فرمائی۔ حضرت ابوطلحہؓ کا رنگ گندمی اور قد متوسط تھا، درمیانہ تھا۔ آپؓ نے کبھی سر اور داڑھی کے بالوں پر خضاب نہیں لگایا۔(اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 183،184 ابو طلحہؓ انصاری، جلد 2 صفحہ 150 زید بن سہلؓ دارالفکر بیروت لبنان 2003ء)جس طرح بال تھے ویسے ہی رکھے۔
حضرت انسؓ حضرت ابوطلحہؓ کے ربیب یعنی بیوی کے پہلے خاوند سے بیٹے تھے۔ حضرت اُمِ سُلَیمؓ کے پہلے خاوند مالک بن نَضرتھے۔ ان کے فوت ہونے کے بعد حضرت ابوطلحہؓ سے ان کی شادی ہوئی جن سے ان کے ہاں عبداللہ اور ابوعمیر کی ولادت ہوئی۔
(الاستیعاب فی معرفة الاصحاب جلد 2 صفحہ 124 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2010ء)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 383 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 1990ء)
(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الصلاۃ جلد 4 صفحہ 124 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء)
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ابوطلحہ نے اُمِ سُلَیم کو نکاح کا پیغام بھجوایا۔ اُمِ سُلَیمؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! مجھے آپ جیسے آدمی سے نکاح کا انکار نہ ہوتا لیکن آپ مشرک ہیں اور میں مسلمان۔ یہ سنن نسائی کی روایت ہےاَور میں مسلمان عورت ہوں۔ میرے لیے جائز نہیں ہے کہ میں آپ سے نکاح کروں۔ اگر آپ اسلام قبول کر لیں تو یہی میرا مہر ہو گا اور میں اس کے سوا کچھ نہیں مانگوں گی۔ حضرت ابوطلحہؓ نے اسلام قبول کر لیا اور یہی ان کا مہر مقرر ہوا۔ حضرت ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہا کرتے تھے کہ میں نے اسلام میں آج تک کسی عورت کے بارے میں نہیں سنا کہ اس کا مہر ایسا قابلِ عزت ہو جیسا کہ اُمِ سُلَیمؓ کا مہر تھا۔
(سنن النسائی کتاب النکاح باب التزویج علی الاسلام حدیث: 3341)
حضرت ابوطلحہؓ غزوۂ بدر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل تھے۔ حضرت ابوطلحہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگِ بدر کے دن سردارانِ قریش میں سے چوبیس آدمیوں کی نسبت حکم دیا اور انہیں بدر کے کنووں میں سے ایک ناپاک کنویں میں ڈال دیا گیا اور آپؐ جب کسی قوم پر غالب آتے تو میدان میں تین راتیں قیام فرماتے۔ جب آپؐ بدر میں ٹھہرے اور تیسرا دن ہوا تو آپؐ نے اپنی اونٹنی پر کجاوہ باندھنے کا حکم دیا اور چنانچہ اس پر کجاوہ باندھا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور آپؐ کے صحابہ بھی آپؐ کے ساتھ چلے اور کہنے لگے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ آپؐ کسی غرض کے لیے چلے تھے۔ آپؐ اسی کنویں کی منڈیر پر پہنچ کر کھڑے ہو گئے جہاں ان چوبیس آدمیوں کی لاشیں ڈالی گئی تھیں۔ بند کنواں تھا۔ آپؐ ان کے اور ان کے باپوں کے نام لے کر پکارنے لگے کہ اے فلاں، فلاں کے بیٹے! اے فلاں، فلاں کے بیٹے! کیا اب تم کو اس بات سے خوشی ہو گی کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کی ہوتی کیونکہ ہم نے تو سچ سچ پا لیا جو ہمارے رب نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔ آیا تم نے بھی واقعی وہ پا لیا ہے جو تمہارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا؟ ابوطلحہؓ کہتے تھے کہ حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہ !آپؐ ان لاشوں سے کیا باتیں کر رہے ہیں جن میں جان نہیں ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے! کہ تم ان سے زیادہ ان باتوں کو نہیں سن رہے جو میں کہہ رہا ہوں یعنی یہ باتیں اب اللہ تعالیٰ آگے ان تک پہنچا بھی رہا ہے کہ کیا تمہارا بد انجام ہوا۔
(صحیح البخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جھل حدیث: 3976)
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب احد کی جنگ ہوئی تو لوگ شکست کھا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہو گئے اور حضرت ابوطلحہؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپؐ کو اپنی ڈھال سے آڑ میں لیے کھڑے رہے۔ اور حضرت ابو طلحہؓ ایسے تیر انداز تھے کہ زور سے کمان کھینچا کرتے تھے۔ انہوں نے اس دن دو یا تین کمانیں توڑیں۔ یعنی اتنی زور سے کھینچتے تھے کہ کمان ٹوٹ جاتی تھی اور جو کوئی آدمی تیروں کا ترکش اپنے ساتھ لیے گزرتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرماتے کہ ابو طلحہؓ کے لیے پھینک دو یعنی کہ دوسروں کو بھی نصیحت کرتے کہ یہ بہت تیر انداز ہیں۔ اپنے تیر بھی انہی کو دے دو۔ یہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے تھے۔ حضرت انسؓ کہتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سر اٹھا کر لوگوں کو دیکھتے تو حضرت ابوطلحہؓ کہتے
بِأَبِیْ أَنْتَ وَأُمِّيْ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ، لَا يُصِيْبُكَ سَهْمٌ، نَحْرِيْ دُوْنَ نَحْرِكَ
میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! سر اٹھا کر نہ دیکھیں۔ مبادا ان لوگوں کے تیروں میں سے کوئی تیر آپؐ کو لگے۔ میرا سینہ آپؐ کے سینے کے سامنے ہے۔
(ماخوذ ازصحیح البخاری کتاب المغازی باب اذ ھمت طائفتان منکم ان تفشلا … الخ حدیث 4064)
(ماخوذ از الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 384-385 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 1990ء)
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہؓ ایک ہی ڈھال سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے تھے اور حضرت ابو طلحہؓ اچھے تیر انداز تھے۔ جب وہ تیر چلاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم جھانکتے اور ان کے تیر پڑنے کی جگہ کو دیکھتے۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔ پہلی بھی بخاری کی تھی۔
(صحیح البخاری کتاب الجھاد والسیر باب المجن ومن یترس بترس صاحبہ حدیث: 2902)
غزوۂ احد میں حضرت ابو طلحہؓ کے اس شعر کے پڑھنے کا بھی ذکر آتا ہے کہ
وَجْهِيْ لِوَجْهِكَ الْوِقَاءُ
وَنَفْسِيْ لِنَفْسِكَ الْفِدَاءُ
میرا چہرا آپؐ کے چہرے کو بچانے کے لیے ہے اور میری جان آپؐ کی جان پر قربان ہے۔
(مسند احمد بن حنبل ،جلد 4 مسند انس بن مالک حدیث: 13781عالم الکتب بیروت لبنان 1998ء)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوطلحہؓ سے فرمایا کہ اپنے لڑکوں میں سے میرے لیے کوئی لڑکا تلاش کرو جو میری خدمت کرے تا میں خیبر کا سفر کروں۔ حضرت ابوطلحہؓ سواری پر مجھے یعنی حضرت انسؓ کو پیچھے بٹھا کر لے گئے۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں میں اس وقت لڑکا تھا اور بلوغت کے قریب پہنچ چکا تھا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ جب آپؐ اترتے مَیں اکثر آپؐ کو یہ دعا مانگتے سنا کرتا تھا کہ
اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَضَلَعِ الدَّيْنِ وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ
کہ اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ لیتا ہوں غم و اندوہ سے درماندگی اور سستی سے اور بخل اور بزدلی سے اور قرض داری کے بوجھ سے اور لوگوں کی سختی سے۔
(صحیح البخاری کتاب الجھاد والسیر باب من غزا بصبی للخدمۃ حدیث 2893)
ایک دوسری روایت میں اس طرح بھی آیا ہے۔ یہ حضرت انسؓ کی روایت ہے۔ پہلی بھی بخاری کی تھی اور یہ بھی بخاری کی ہی ہے ۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آئے۔ آپؐ کا کوئی خادم نہ تھا۔ حضرت ابوطلحہؓ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ؐ! انس سمجھ دار لڑکا ہے۔ یہ آپؐ کی خدمت کرے گا۔ حضرت انسؓ کہتے تھے چنانچہ میں نے سفر میں بھی آپؐ کی خدمت کی اور حضر میں بھی۔ جو کام بھی میں کرتا آپؐ مجھے کبھی نہ فرماتے تُو نے یہ کام اس طرح کیوں کیا اور جو کام میں نے نہ کیا ہوتا اس کی نسبت آپؐ مجھے کبھی نہ فرماتے کہ تم نے اس کو اس طرح کیوں نہیں کیا یعنی کبھی کوئی روک ٹوک نہیں کی۔
(صحیح بخاری کتاب الوصایا باب استخدام الیتیم فی السفر والحضر… الخ حدیث 2768)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جب آپؐ عُسفان (عُسفان مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔) وہاں سے لوٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور آپؐ نے حضرت صفیہ بنت حُیَیکو پیچھے بٹھایا ہوا تھا۔ آپؐ کی اونٹنی نے ٹھوکر کھائی اور دونوں گر پڑے۔ حضرت ابوطلحہؓ یہ دیکھ کر فوراً اونٹ سے کُودے اور بولے یا رسول اللہؐ! میں آپؐ پر قربان۔ آپؐ نے فرمایا پہلے عورت کی خبر لو۔ حضرت ابوطلحہؓ نے اپنے منہ پر کپڑا ڈال لیا اور حضرت صفیہؓ کے پاس آئے اور وہ کپڑا ان پر ڈالا یعنی ان کو پردے کا اتنا لحاظ تھا اور ان دونوں کی سواری درست کی جس پر وہ سوار ہو گئے اور ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد حلقہ بنا لیا۔ جب ہم مدینے کی بلندی پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
آئِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ۔
ہم لوٹ کر آنے والے ہیں۔ ہم اپنے رب کے حضور توبہ کرنے والے ہیں۔ اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اپنے رب کی ستائش کرنے والے ہیں۔
آپؐ اس وقت تک کہ مدینے میں داخل ہوئے یہی کلمات فرماتے رہے۔
(صحیح البخاری کتاب الجھاد والسیر باب ما یقول اذا رجع من الغزو حدیث: 3085)
(لغات الحدیث جلد 3 صفحہ 172 از علامہ وحید الزمان نعمانی کتب خانہ لاہور 2005ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
‘‘ایک دفعہ جبکہ آپؐ غزوۂ خیبر سے واپس تشریف لا رہے تھے اور آپؐ کی بیوی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی آپؐ کے ساتھ تھیں تو راستے میں اونٹ بدک گیا اور آپؐ اور حضرت صفیہؓ دونوں گر گئے۔ حضرت ابوطلحہ انصاریؓ کا اونٹ آپؐ کے پیچھے ہی تھا۔ وہ فوراً اپنے اونٹ سے کود کر آپؐ کی طرف گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! میری جان آپؐ پر قربان آپؐ کو کوئی چوٹ تو نہیں آئی؟ جب ابو طلحہؓ آپؐ کے پاس پہنچے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوطلحہ! پہلے عورت کی طرف، پہلے عورت کی طرف۔’’ دودفعہ فرمایا ‘‘وہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق تھے۔’’ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت طلحہؓ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق تھے ‘‘جب آپؐ کی جان کا سوال ہو تو اس وقت انہیں کوئی اَور کیسے نظر آسکتا تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اور پہلے عورت کو اٹھاؤ۔ ’’
(اسوۂ حسنہ، انوارالعلوم جلد 17 صفحہ 126،127)
یہ واقعہ آپؓ نے اس وقت بیان فرمایا جب آپ عورت کے حقوق کے بارے میں بیان فرما رہے تھے۔
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پر حملہ کیا اور ہم نے اس کے قریب جا کر صبح کی نماز پڑھی جبکہ ابھی اندھیرا ہی تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور حضرت ابوطلحہؓ بھی سوار ہوئے اور میں حضرت ابوطلحہؓ کے ساتھ پیچھے سوار تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی گلی میں گھوڑا دوڑایا اور میرا گھٹنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کے ساتھ چُھو رہا تھا۔ دونوں اتنے قریب قریب تھے اور پھر آپؐ نے گرمی کی وجہ سے یا ویسے آرام کی وجہ سے اپنی ران سے اپنا تہ بند ہٹایا یعنی ٹانگ سے، گھٹنے سے ذرا اوپر کیا تو کہتے ہیں یہاں تک کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کی سفیدی دیکھی۔ ران سے مراد یہاں گھٹنے سے اوپر کا حصہ ہے۔ جب آپ گاؤں میں داخل ہوئے اور فرمایا
اَللّٰهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ المُنْذَرِيْنَ۔
اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔ خیبر ویران ہو گیا ہم جب کسی قوم کے آنگن میں ڈیرہ ڈالتے ہیں تو پھر ان لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے جن کو قبل از وقت عذابِ الٰہی سے ڈرایا گیا ہو۔
یہ آپؐ نے تین بار فرمایا۔
حضرت انسؓ کہتے تھے کہ لوگ اپنے کاموں کے لیے باہر نکلے تو انہوں نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور عبدالعزیز کہتے تھے کہ ہمارے بعض ساتھیوں نے محمدؐ کے ساتھ خمیس کا لفظ بھی کہا تھا یعنی فوج۔ حضرت انسؓ کہتے تھے کہ ہم نے اسے لڑ کر فتح کیا اور قیدیوں کو اکٹھا کیا گیا تو حضرت دحیہ کلبیؓ آئے اور کہا اے اللہ کے نبیؐ! مجھے ان قیدیوں میں سے ایک لونڈی دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا جاؤ اور ایک لڑکی لے لو۔ انہوں نے حُیَیکی بیٹی صفیہ لی۔ اس پر ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا اے اللہ کے نبیؐ ! آپؐ نے دحیہ کو قریظہ اور نضیر کی سردار صفیہ بنت حُیَی دی ہے۔ وہ تو صرف آپؐ ہی کے لائق ہے۔ آپؐ نے فرمایا اسے مع صفیہؓ بلا لاؤ۔ وہ صفیہؓ کو لے آئے اور حضرت دحیہؓ بھی ساتھ تھے۔ آپؐ نے حضرت دحیہؓ کو فرمایا کہ ان قیدیوں میں سے کوئی اَور تم لے لو۔ حضرت انسؓ کہتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہؓ کو آزاد کر دیا اور پھر ان سے شادی کی۔ اس پر حضرت ثابتؓ نے حضرت انسؓ سے پوچھا کہ ابوحمزہ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیا مہر دیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ آپؐ نے ان کو آزاد کر دیا تھا اور ان سے شادی کر لی اور ان کی آزادی ہی ان کا مہر تھا۔ آخر جب آپؐ ابھی راستے میں ہی تھے تو حضرت ام سُلیمؓ نے حضرت صفیہؓ کو آپؐ کی خاطر آراستہ کیا اور پھر وہاں شادی ہوئی۔ وہاں آپؐ کے پاس بھیج دیا اور پھر اس کے بعد کہتے ہیں اگلے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے پاس کوئی چیز ہو وہ اسے لے آئے اور آپؐ نے چمڑے کا دستر خوان بچھا دیا۔ کوئی شخص کھجوریں لانے لگا، کوئی گھی۔ عبدالعزیز نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ انہوں نے ستو کا بھی ذکر کیا تھا۔ کہتے تھے پھر انہوں نے ان سب کو آپس میں ملا کر گوندھ دیا اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ولیمے کی دعوت تھی۔
(صحیح البخاری کتاب الصلوٰة باب ما یذکر فی الفخذ حدیث 371)
ایک دوسری روایت میں اس طرح بھی آتا ہے کہ قلعہ کی فتح کے بعد حضرت صفیہؓ دحیہؓ کے حصہ میں آئیں۔ صحابہ کرامؓ نے، بہت سارے صحابی، ایک صحابی نہیں کافی لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر ان کی تعریف و توصیف کرنی شروع کی اور یہ بھی کہا کہ مقام و مرتبہ کے اعتبار سے حضرت صفیہؓ کے لیے یہ زیادہ مناسب ہے کہ آپؐ اپنے لیے انہیں منتخب فرما لیں۔ آپؐ ان سے شادی کریں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت دحیہؓ کے پاس پیغام بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات غلاموں کے عوض حضرت صفیہؓ کو خرید کر انہیں اُمِ سُلَیمؓ کے حوالے کیا تا کہ وہ انہیں اپنے ساتھ رکھیں۔ پھر جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ آپؐ نے پھر ان سے شادی کر لی۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 8 صفحہ 97-98 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 1990ء)
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن یعنی حنین کے دن فرمایا کہ جو شخص کسی کافر کو قتل کرے گا تو اس کافر کا مال و اسباب اسی شخص کو ملے گا۔ اس دن حضرت ابوطلحہؓ نے بیس کافروں کو قتل کیا اور ان کا سامان بھی لیا اور حضرت ابوطلحہؓ نے حضرت اُمِ سُلَیمؓ کو دیکھا کہ ان کے پاس ایک خنجر ہے۔ انہوں نے پوچھا اے اُمِ سُلَیمؓ! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا اللہ کی قسم! میرا ارادہ یہ ہے کہ اگر کوئی کافر میرے قریب آئے تو میں اس خنجر سے اس کا پیٹ پھاڑ دوں۔ حضرت ابوطلحہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی ۔ یہ سنن ابو داؤد کی روایت ہے۔
(سنن ابو داؤد کتاب الجھاد باب فی السلب یعطی القاتل حدیث 2718)
حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لشکر میں تنہا ابوطلحہؓ کی آواز ایک جماعت پر بھاری ہوتی ہے۔ بعض دوسری روایات میں ایک جماعت کی بجائے مِأَةَ رَجُل یعنی ایک سو آدمیوں اور أَلْف رَجُل یعنی ایک ہزار آدمی کا بھی ذکر ملتا ہے کہ ان کی اتنی بلند آواز تھی۔
(مسند احمد بن حنبل ،جلد 4 صفحہ 286 مسند انس بن مالک حدیث: 12119عالم الکتب بیروت لبنان 1998ء)
(الاستیعاب فی معرفة الاصحاب جلد 4 صفحہ 261 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2010ء)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 383 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 1990ء)
حضرت ابوطلحہؓ 34 ہجری میں مدینے میں فوت ہوئے اور حضرت عثمانؓ نے آپؓ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ اس وقت آپؓ کی عمر ستر سال تھی جبکہ اہل بصرہ کے نزدیک آپؓ کی وفات ایک سمندری سفر کے دوران ہوئی اور ایک جزیرے میں آپ کو دفن کیا گیا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 385 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 1990ء)
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جہاد کی وجہ سے نفلی روزہ نہیں رکھا کرتے تھے تا کہ طاقت کم نہ ہو جائے اور حضرت انسؓ مزید فرماتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو میں نے سوائے عیدالفطر یا عیدالاضحی کے دن کے کبھی ان کو بے روزہ نہیں دیکھا۔ اس کے بعد پھر باقاعدگی سے روزے رکھنے لگ گئے۔
(صحیح البخاری کتاب الجھاد والسیر باب من اختار الغزو علی الصوم حدیث: 2828)
حضرت ابوطلحہؓ کی مہمان نوازی کا ایک واقعہ یوں ملتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپؐ نے اپنی ازواج کی طرف کسی کو بھیجا۔ انہوں نے جواب دیا ہمارے پاس سوائے پانی کے اَور کچھ نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس مہمان کو کون اپنے ساتھ رکھے گا یا فرمایا اسے کون مہمان ٹھہرائے گا؟ انصار میں سے ایک شخص بولا مَیں۔ چنانچہ وہ اسے اپنے ساتھ لے کر اپنی بیوی کے پاس گیا اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی نہایت اچھی خاطر تواضع کرو۔ وہ بولی ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں مگر اتنا ہی کھانا ہے جو میرے بچوں کے لیے مشکل سے کافی ہو۔ اس نے کہا اپنے اس کھانے کو تیار کر لو اور چراغ بھی جلاؤ اور اپنے بچوں کو جب وہ شام کا کھانا مانگیں سلا دینا۔ چنانچہ اُس نے اپنا کھانا تیار کیا اور چراغ کو جلایا۔ پھر اپنے بچوں کو سلا دیا۔ اس کے بعد وہ اٹھی جیسے چراغ درست کرتے ہیں تو اس نے اس کو بجھا دیا۔ وہ دونوں اس مہمان پر یہ ظاہر کرتے رہے کہ گویا وہ بھی کھا رہے ہیں مگر ان دونوں نے خالی پیٹ رات گزاری۔ جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا۔ آپؐ نے فرمایا آج رات اللہ ہنس پڑا یا فرمایا تمہارے دونوں کے کام سے بہت خوش ہوا اور اللہ نے یہ وحی نازل کی کہ
وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَأُولٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ (الحشر:10)
اور وہ خود اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے باوجود اس کے کہ انہیں خود تنگی درپیش تھی۔ پس جو کوئی بھی نفس کی خساست سے بچایا جائے تو یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔
(صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار باب قول اللہ ویؤثرون علی انفسھم …… الخ حدیث 3798)
(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار جلد 16 صفحہ 364 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء)
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ جب بال اتروائے تو حضرت ابوطلحہؓ پہلے شخص تھے جنہوں نے آپؐ کے بالوں میں سے کچھ بال لیے۔
(صحیح البخاری کتاب الوضوء باب الماء الذی یغسل بہ شعر الانسان حدیث: 171)
حضرت انس بن مالکؓ نے بیان کیا کہ حضرت ابوطلحہؓ نے حضرت ام سُلیمؓ سے کہا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کمزور سنی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپؐ کو بھوک ہے۔ کیا تمہارے پاس کچھ کھانے کی چیز ہے؟ حضرت اُمِ سُلَیمؓ نے کہا ہاں۔ یہ کہہ کر جَو کی کچھ روٹیاں نکال لائیں۔ پھر انہوں نے اپنی ایک اوڑھنی نکالی۔ انہوں نے روٹیوں کو اس کے ایک کنارے میں لپیٹ دیا اور وہ میرے ہاتھ میں دے دیں اور اوڑھنی کا کچھ حصہ میرے بدن پر لپیٹ دیا۔ پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مجھے بھیجا۔ حضرت انسؓ کہتے تھے کہ میں وہ لے کر چلا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں پایا۔ آپؐ کے ساتھ کچھ لوگ تھے۔ میں پاس کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کیا ابوطلحہؓ نے تجھے بھیجا ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا کہ کھانا دے کر بھیجا ہے؟ میں نے کہا جی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے کہا جو آپؐ کے پاس تھے کہ چلو اٹھو۔ بجائے وہ کھانا لینے کے آپؐ نے ان کو بھی ساتھ لیا۔ وہ کھانا لے کر ہی آپؐ چل پڑے اور میں آپؐ کے آگے ہی چل پڑا اور حضرت ابوطلحہؓ کے پاس پہنچا اور ان کو بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو ادھر ہی آ رہے ہیں۔ حضرت ابو طلحہؓ کہنے لگے کہ اُمِ سُلَیم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو لے آئے ہیں اور ہمارے پاس اتنا کھانا نہیں جو اُن کو کھلائیں۔ چند روٹیاں تھیں وہ تو بھیج دی تھیں۔ وہی واپس آ رہی ہیں۔ وہ بولیں اللہ اور اس کا رسولؐ بہتر جانتے ہیں ۔ حضرت ابوطلحہؓ گئے اور جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔ پھر آپؐ جلدی جلدی گھر سے گئے۔ حضرت انسؓ پہلے پہنچ گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے۔ حضرت ابوطلحہؓ آپؐ کے ساتھ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اُمِ سُلَیم! جو تمہارے پاس ہے وہ لے آؤ۔ وہ روٹیاں لے آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق فرمایا توڑو ان کو۔ وہ توڑی گئیں۔ حضرت اُمِ سُلَیمؓ نے گھی کی ایک کُپی نچوڑی اور اس کو بطور سالن ان کے سامنے پیش کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان روٹیوں پر دعا کی جو دعا اللہ نے چاہی کہ کریں۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ دس آدمیوں کو اندر آنے کی اجازت دو۔ ان کو اجازت دی اور لوگوں نے اتنا کھایا کہ وہ سیر ہو گئے اور پھر باہر چلے گئے۔ پھر آپؐ نے فرمایا دس اَور آدمیوں کو اجازت دو۔ ان کو اجازت دی اور لوگوں نے اتنا کھایا کہ وہ سیر ہو گئے اور باہر چلے گئے۔ پھر آپؐ نے فرمایا دس اَور آدمیوں کو اجازت دو۔ ان کو اجازت دی اور انہوں نے اتنا کھایا کہ ان کے پیٹ بھر گئے۔ وہ باہر چلے گئے۔ پھر آپؐ نے فرمایا دس اَور آدمیوں کو اجازت دو۔ ان کو اجازت دی اور لوگوں نے اتنا کھانا کھایا کہ وہ سیر ہو گئے اور باہر چلے گئے۔ غرض ان سب لوگوں نے کھایا اور پیٹ بھر کر کھایا اور وہ لوگ ستّر یا اسّی آدمی تھے۔
(صحیح البخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة فی الاسلام حدیث: 3578)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکات کا بھی یہاں ذکر ملتا ہے۔ یہی وہ روایت ہے۔
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ابوطلحہ مدینے میں تمام انصاریوں سے کھجوروں کے زیادہ باغ رکھتے تھے اور ان کو سب سے زیادہ پیاری جائیداد بیرحاءکا باغ تھا جو مسجد کے سامنے تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میں آیا کرتے تھے اور وہاں کا صاف ستھرا پانی پیا کرتے تھے۔ حضرت انسؓ کہتے تھے کہ جب یہ آیت اتری کہ
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۔ (آل عمران:93)
تم ہرگز نیکی کو پا نہیں سکو گے یہاں تک کہ تم ان چیزوں میں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو۔ حضرت ابوطلحہؓ کھڑے ہو گئے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۔ تم ہرگز نیکی کو پا نہیں سکو گے یہاں تک کہ تم ان چیزوں میں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو اور میری جائیداد میں سے مجھے سب سے پیارا باغ بیرحاء ہے اور وہ اللہ کے لیے صدقہ ہے۔ اب میں اللہ کے لیے صدقہ دیتا ہوں۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ اللہ کے ہاں مقبول نیکی ہو گی اور بطور ذخیرے کے ہو گی۔ اس لیے جہاں اللہ تعالیٰ آپؐ کو سمجھائے وہاں اسے خرچ کریں۔ آپؐ نے فرمایا شاباش یہ فائدہ دینے والا مال ہے یا فرمایا ہمیشہ رہنے والا مال ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم نے کہا ہے میں نے سن لیا ہے۔ مَیں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے قریبیوں میں ہی بانٹ دو۔ ابوطلحہؓ نے کہا یا رسول اللہؐ! حضورؐ کے ارشاد کی تعمیل میں ایسے ہی کیے دیتا ہوں۔ چنانچہ ابوطلحہؓ نے اس باغ کو اپنے قریبیوں اور اپنے چچا کے بیٹوں میں تقسیم کر دیا۔
(صحیح البخاری کتاب الوصایا باب اذا وقف ارضا لم یبین الحدود فھو جائز …… الخ حدیث 2769)
حضرت ابوطلحہؓ کو یہ اعزاز اور سعادت بھی حاصل ہے کہ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی کی وفات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر اس کی قبر میں اترے اور حضوؐر کی صاحبزادی کی نعشِ مبارک کو قبر میں اتارا۔
(ماخوذ ازصحیح البخاری کتاب الجنائز باب قول النبیﷺ یعذب المیت ببعض …… الخ حدیث 1285)
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار مدینہ والے یکایک گھبرا گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوطلحہؓ کے گھوڑے پر سوار ہوئے جو آہستہ چلتا تھا یا یہ کہا کہ جس کی رفتار سست تھی ۔ جب آپؐ لَوٹے تو آپؐ نے حضرت ابوطلحہؓ کو فرمایا کہ ہم نے تو تمہارے گھوڑے کو ایک دریا پایا ہے۔ بہت تیز چلتا ہے۔ اس کے بعد اس گھوڑے کا چلنے میں کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔
(صحیح البخاری کتاب الجھاد والسیر باب الفرس القطوف حدیث 2867)
حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے مل جل جاتے تھے۔ میرے چھوٹے بھائی سے مزاحاً فرماتے کہ اے ابوعمیر! نُغَیر نے کیا کِیا؟ ابو عمیر نے ایک چڑیا پالی ہوئی تھی۔ نُغَیر چڑیا کو کہتے ہیں۔ وہ مر گئی تو ان کو اس کا بڑا صدمہ تھا ۔ وہ یااڑ گئی یا مر گئی۔ تو بہرحال مذاقاً اسے یہ فرماتے تھے۔ اس کی وجہ سے اس بچے کو چھیڑتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ نماز کا وقت ہو جاتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں ہوتے تو آپؐ اس بستر کو بچھانے کا حکم فرماتے جس پر آپؐ تشریف فرما ہوتے۔ چنانچہ ہم اس کو بچھاتے اور صاف کرتے۔ پھر آپؐ نماز کے لیے کھڑے ہوتے اور ہم آپؐ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کرتے۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب المزاح حدیث 3720)
(صحیح البخاری کتاب الادب باب الکنیۃ للصبی وقبل ان یولد للرجل حدیث 6203)
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابو طلحہ انصاریؓ کی ولادت ہوئی۔ ان کے بھائی کی، ابو طلحہؓ کے بیٹے کی جو ان کی ماں کی طرف سے بھائی تھے تو مَیں اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عباء اوڑھے ہوئے تھے اور اپنے اونٹ کو تار کول لگا رہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کیا تمہارے پاس کھجور ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ میں نے چند کھجوریں آپ کی خدمت میں پیش کیں جنہیں آپؐ نے منہ میں ڈالا اور پھر انہیں اچھی طرح چبایا۔ پھر بچے کا منہ کھولا اور اسے بچے کے منہ میں ڈالا تو وہ بچہ اسے چوسنے لگا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انصار کی کھجور سے محبت۔ یعنی بچے کو بھی یہ پسند آئی اور آپؐ نے اس بچے کا نام عبداللہ رکھا۔
(صحیح مسلم کتاب الآداب باب استحباب تحنیک المولود عند ولادتہ وحملہ… الخ حدیث (2144))
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ ؓکا ایک بیٹا بیمار تھا۔ حضرت ابوطلحہ باہر گئے تو بچے کی وفات ہو گئی۔ جب حضرت ابوطلحہؓ واپس لوٹے تو انہوں نے بیوی سے پوچھا :بیٹے کا کیا حال ہے؟ حضرت اُمِ سُلَیمؓ نے کہا کہ پہلے سے زیادہ سکون میں ہے۔ پھر انہوں نے رات کا کھانا پیش کیا۔ انہوں نے کھایا۔ رات گزاری اور پھر بتایا کہ بچے کی وفات ہو گئی ہے اس کو جا کے دفنا آؤ۔ چنانچہ صبح حضرت ابوطلحہؓ نے یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اولاد کی دعا دی اور اس کے بعد پھر ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ۔
(صحیح مسلم کتاب الآداب باب استحباب تحنیک المولود عند ولادتہ وحملہ… الخ حدیث (2144))
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس واقعے کا یوں تذکرہ فرمایا ہے کہ مومن کے لیے جان کی قربانی پیش کرنا درحقیقت چیز ہی کوئی نہیں ہے۔ پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ غالب کے متعلق لوگ بحثیں کرتے ہیں کہ وہ شراب پیا کرتا تھا یا نہیں پیا کرتا تھا مگر آپؓ فرماتے ہیں میرا تو وہ رشتے دار ہے اور میں نے اپنی نانیوں اور پھوپھیوں سے سنا ہوا ہے کہ وہ شراب پیتا تھا۔ تو ایسا شخص جو شراب کا عادی تھا وہ بھی کہتا ہے کہ
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
یعنی اگر ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دیتے ہیں تو کیا ہوا ۔یہ جان بھی تو اسی کی دی ہوئی تھی۔ پس خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں اگر کوئی شخص جان بھی دے دیتا ہے تو وہ کوئی بڑی قربانی نہیں کرتا کیونکہ وہ جان بھی اسی کی چیز ہے اور کسی کی امانت کو واپس کر دینا بڑی قربانی نہیں ہوتا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ احادیث میں ایک صحابیہ ام سلیمؓ کا ہی یہ قصہ آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے شوہر ابو طلحہؓ کو کسی اسلامی خدمت کے سلسلہ میں باہر بھیجا۔ ان کا بچہ بیمار تھا اور ان کواپنے بچے کی بیماری کا قدرتی طور پر فکر تھا۔ وہ صحابیؓ جب واپس آئے تو ان کی غیر حاضری میں ان کا بچہ فوت ہو چکا تھا۔ ماں نے اپنے مردہ بچے پر کپڑا ڈال دیا۔ وہ نہائی، دھوئی اور خوشبو لگائی اور بڑے حوصلے کے ساتھ اس نے اپنے خاوند کا استقبال کیا۔ وہ صحابیؓ جب گھر آئے تو انہوں نے آتے ہی سوال کیا کہ بچے کا کیا حال ہے؟ اس صحابیہؓ نے جواب دیا بالکل آرام سے ہے۔ انہوں نے کھانا کھایا۔ پھر تسلی کے ساتھ آرام سے لیٹ گئے اور تعلقات زوجیت بھی پورے کیے۔ جب وہ اپنی بیوی سے مل چکے تو بیوی نے کہا کہ میں آپ سے ایک بات دریافت کرنا چاہتی ہوں۔ خاوند نے جواب دیا کیا؟ بیوی نے کہا کہ اگر کوئی شخص کسی کے پاس امانت رکھ جائے اور کچھ عرصہ کے بعد وہ چیز واپس لینا چاہے تو کیا وہ چیز اسے واپس کی جائے یا نہ کی جائے؟ انہوں نے جواب دیا وہ کون بیوقوف ہو گا جو کسی کی امانت کو واپس نہیں کرے گا۔ بیوی نے کہا آخر اسے افسوس تو ہو گا کہ میں امانت واپس کر رہا ہوں۔ انہوں نے جواب دیا افسوس کس بات کا؟ وہ چیز اس کی اپنی نہیں تھی۔ اگر وہ اسے واپس کر دے تو اسے کیا افسوس ہو سکتا ہے۔ بیوی نے کہا اچھا اگر یہ بات ہے تو ہمارا بچہ جو خدا تعالیٰ کی ایک امانت تھی اسے خدا تعالیٰ نے ہم سے واپس لے لیا۔ اور یہ حوصلہ تھا جو اس وقت کی عورتوں میں پایا جاتا تھا۔ پس جان کا دینا تو کوئی چیز ہی نہیں خصوصاً مومن کے لیے تو یہ ایک معمولی بات ہوتی ہے۔
(ماخوذ از تقریر جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ لاہور 1948ء، انوارالعلوم جلد 21 صفحہ 53-54)
پھر جو حدیث پہلے بیان ہو چکی ہے اس کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ دعا دی بعد میں ان کے بچے پیدا ہوئے۔فوری طور پر کچھ عرصے بعدان کا بیٹا پیدا ہوا اور پھر اتنا نوازا اللہ تعالیٰ نے کہ انصار میں سے ایک شخص نے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت ابوطلحہ کے نو بچے دیکھے اور وہ سب نو لڑکے قرآن کے قاری تھے۔
(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب من لم یظھر حزنہ عند المصیبة حدیث: 1301)
عاصم احول بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیالہ حضرت انسؓ کے پاس دیکھا۔ اس میں دراڑ پڑ گئی تھی۔ حضرت انسؓ نے اسے چاندی سے جوڑ دیا تھا۔ وہ ایک خوبصورت چوڑا اور عمدہ لکڑی کا بنا ہوا پیالہ تھا۔ حضرت انسؓ نے بتایا کہ مَیں نے اس پیالے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بارہا پانی پلایا ہے۔ ابن سیرین کہتے ہیں کہ وہ پیالہ لوہے کی تار سے جڑا ہوا تھا۔ حضرت انس نے ارادہ کیا کہ اس کی جگہ سونے یا چاندی سے جڑوا دیں لیکن حضرت ابوطلحہؓ نے ان سے کہا کہ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنایا ہے اس میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ کرو۔ چنانچہ انہوں نے ارادہ چھوڑ دیا۔
(صحیح البخاری کتاب الاشربہ باب الشرب من قدح النبیﷺ وآنیتہ حدیث: 5638)
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابوطلحہ انصاریؓ ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ اور حضرت اُبی بن کعبؓ کو کھجور کی شراب پلا رہا تھا کہ اتنے میں ایک آنے والے شخص نے آ کر خبر دی کہ شراب حرام کر دی گئی ہے۔ حضرت ابوطلحہؓ نے اس شخص کی خبر سنتے ہی کہا کہ اے انس! ان مٹکوں کو توڑ دو۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے مٹکوں کے نچلے حصوں پہ ایک پتھر سے مار کے انہیں توڑ دیا۔
(صحیح البخاری کتاب اخبار الاحاد باب ما جاء فی اجازة خبر الواحد الصدوق فی الاذان حدیث: 7253)
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو مدینے میں ایک شخص تھا جو لحد بناتا تھا اور ایک اَور تھا جو سیدھی قبر بناتا تھا۔ صحابہؓ نے کہا کہ ہم اپنے رب سے استخارہ کرتے ہیں اور دونوں کو بلا بھیجتے ہیں۔ دونوں میں سے جو بعد میں آئے گا اس کو ہم چھوڑ دیں گے۔ یعنی جو پہلے آئے گا اس سے کام کروا لیں گے۔ چنانچہ دونوں کی طرف پیغام بھیجا گیا تو لحد والا پہلے آیا اس پر صحابہؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لحد بنائی۔ اس کی شرح میں علامہ بُوصیری نے لکھا ہے کہ لحدوالی قبر بنانے والے حضرت ابوطلحہؓ تھے اور سیدھی قبر بنانے والے حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ تھے۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ما جاء فی الشق حدیث: 1557)(شروح سنن ابن ماجہ جزء 1 کتاب الجنائز باب ما جاء فی الشق صفحہ 617 بیت الافکار الدولیہ اردن 2007ء) یہ ان کا مکمل ذکر ہے۔
اب ایک مختصر ذکر مَیں ایک مرحوم کا کروں گا اور نماز کے بعدان کا جنازہ بھی پڑھاؤں گا۔ مکرم باؤ محمد لطیف صاحب امرتسری ابن حضرت میاں نور محمد صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ ان کی وفات 26؍ جنوری 2020ء کو ربوہ میں نوّے سال کی عمر میں ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مرحوم موصی تھے۔ آپ سلسلے کے معروف مبلغ محترم مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب کے چھوٹے بھائی تھے۔ باؤ لطیف صاحب کے والد محترم میاں نور محمد صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے۔ وہ اوائل ِجوانی میں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی خدمت میں باؤ لطیف صاحب کو لے کر گئے۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی خدمت میں جوانی میں ہی وقف کے لیے پیش کیا۔ حضرت خلیفہ ثانیؓ نے انہیں کہا کہ آپ کے دو بیٹے ہیں۔ پہلے ایک بیٹا مربی ہو کے وقفِ زندگی ہے۔ یہ بھی ساری عمر وقفِ زندگی کی طرح ہی کام کرے گا۔ چنانچہ انہوں نے وقف کی طرح ہی کام کیا ۔ آپ کو ساڑھے چار سال بطور کلرک محکمہ ریلوے میں ملازمت کے بعد اکتوبر 1952ء میں آپ نے اپنے آپ کو بطور ِکارکن سلسلےکی خدمت کے لیے پیش کیا۔ 1952ء سے خدمتِ سلسلہ کی توفیق ملی اور ابتدائی تقرر نظارت بیت المال میں ہوا۔ پھر 1954ء میں دفتر روزنامہ الفضل میں تبادلہ ہوا۔ 61ء میں آپ کی ڈیوٹی بطور محرر پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں ہوئی۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے دورِ خلافت کے آخری تین سال پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں، پھر حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے دورِ خلافت میں، پھر حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد بھی ربوہ میں دفتر پی۔ایس قائم رہا اور ابھی تک وہاں قائم ہے۔2014ء تک یہاں ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ اور 85ء میں ان کو اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری کی خدمت دی گئی اور بڑی خوش اسلوبی سے انہوں نے اپنے یہ فرائض سرانجام دیے۔ ان کا کل عرصہ خدمت باسٹھ سال بنتا ہے جس میں سے تقریباً ترپن سال ان کو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں مختلف حیثیت سے خدمت کی توفیق ملی۔
اپنے کام کے بہت ماہر تھے۔ بڑے سلیقہ اور انہماک سے کام کیا کرتے تھے اور ساتھ ساتھ دینی مطالعہ کا بھی شوق تھا۔ سلسلہ کی کتب کا گہرا مطالعہ تھا۔ شوریٰ کے انتظامات کے سلسلہ میں ان کو خاص طور پرخلافتِ ثالثہ کے دور میں بھی اور بعد میں بھی بہت زیادہ خدمت کی توفیق ملی۔ پرائیویٹ سیکرٹری کے ذمہ مختلف کاموں کی سرانجام دہی کے سلسلے میں خرید و فروخت کے حوالے سے بھی بڑی باریکی سے اور بڑی محنت سے جماعتی اموال کی حفاظت کا خاص خیال رکھتے ہوئے چیزیں خریدا کرتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کو حفاظت مرکز قادیان کی بھی توفیق ملی۔ کچھ عرصہ یہ وہاں رہے۔ ان کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ ان کی وفات سے چند دن پہلے ان کی ایک بیٹی بھی وفات پا گئی تھیں جو ظریف احمد قمر صاحب کی اہلیہ تھیں۔ ان کا ایک بیٹا ہے جو مربی بھی ہے۔ لندن میں ہی تین بیٹیاں ہیں اور ایک بیٹا عتیق احمد وہ بھی یہیں کام کر رہا ہے۔
دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے کارکن رانا مبارک صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے بتیس سال ان کے ساتھ کام کیا اور عرصہ دراز تک مجلسِ مشاورت کے انتظامات کے سلسلہ میں بہت سا دفتری کام اکیلے ہی سرانجام دیتے رہے اور یہ کہتے ہیں کہ یہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ جب بھی دنیاوی مشکلات اور پریشانیاں لاحق ہوں تو دعا کے ساتھ ساتھ اپنے دفتری کام میں زیادہ محو ہو جاؤ تو اللہ تعالیٰ پریشانیاں دور کر دیتا ہے۔
کارکنوں سے بھی غلطی ہو جاتی تو بڑے پیار سے سمجھا دیا کرتے تھے۔ اسی طرح دوسرے کارکنان نے بھی یہی لکھا ہے کہ بہت محنت سے کام کرنے والے تھے۔ کارکنوں کی رہنمائی کرتے تھے۔ انجمن کے قواعد پر آپ کو بڑی دسترس تھی۔ تحریر بھی بہت عمدہ تھی۔ لفظوں کا انتخاب بھی بڑا اچھا کیا کرتے تھے۔ جب بھی کوئی نیا قلم لیتے تو پہلے اس سے بسم اللہ لکھا کرتے تھے پھر کام شروع کرتے اور وقت پر دفتر آنے کے بہت پابند تھے لیکن دفتر سے واپسی یہ نہیں کہ جب وقت ختم ہوا تو دفتر سے چلے گئے بلکہ جب تک کام نہیں ختم ہوتا تھا بیٹھے رہتے تھے اور بعض دفعہ ساری ساری رات بیٹھے رہتے تھے اور اگلے دن صبح گھر جاتے تھے۔ جب میں وہاں ربوہ میں تھا تو مختلف وقتوں میں یہی میں نے اُن کو کرتے دیکھا ہے۔ بڑی محنت سے دفتر میں آتے تھے اور مغرب کے وقت بھی نماز پڑھنے دفتر سے آ رہے ہیں، عشاء کے وقت بھی وہیں سے آ رہے ہیں۔ بعض دفعہ فجر کے وقت بھی آ رہے ہیں۔ بڑی محنت سے کام کرنے والے تھے۔ کبھی یہ پروا نہیں کی کہ گھر جانا ہے یا دفتر کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ اصل غرض تھی کام ، کہ جماعت کا کام کرنا ہے۔ اور ایک بہت بڑی خصوصیت ان کی یہ بھی تھی کہ کبھی دوسروں سے کوئی معاملہ ڈسکس (discuss)نہیں کرتے تھے۔ جو خط ہوتا وہ بصیغۂ راز ہوتا اور ہمیشہ راز رکھا کرتے۔ اسی طرح ناصر سعید صاحب نے لکھا ہے کہ 74ء میں جب حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ اسلام آباد قومی اسمبلی میں پیش ہوتے تھے تو یہ بھی اس میں پرائیویٹ سیکرٹری کے عملے کے طور پر وہاں تھے اور دفتری کام کے علاوہ یہ دوسروں کی مدد بھی کیا کرتے تھے۔ کارکنوں کے ساتھ مل کے برتن بھی دھو دیا کرتے تھے۔ غرض کہ بے نفس انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے درجات بلند کرے۔ ان کی اولاد کو بھی اور نسل کو بھی ان کی نیکیوں پر قائم کرے۔
(الفضل انٹرنیشنل 18؍فروری 2020ء صفحہ 5تا9)