سیرت خلفائے کرام

سیرت حضرت مصلح موعود ؓ کا ایک عظیم الشان پہلو …الفضل کا اجرا

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

حضور کی اولوالعزمی کا شاہکار۔آپ کی محنت شاقہ اور خدائی نصرتوں کا آئینہ دار

پیشگوئی مصلح موعود عظیم الشان پیشگوئیوں کا وسیع اور لہر در لہر سلسلہ ہے جس میں صرف ایک وجود کی نہیں بلکہ اس کے ذریعہ قائم ہونے والے نظام اورجماعت کی لامتناہی ترقیات کی خبر دی گئی ہے۔پیشگوئی کا خاص حصہ جو حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب مصلح موعودؓ سے تعلق رکھتا ہے وہ اس جملہ سے شروع ہوتا ہے۔‘‘اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا’’اور واقعی مصلح موعود کی پیدائش کے ساتھ ہی فضلوں کی جھڑیاں لگ گئیں اور روحانیت کے ندی نالے ابل پڑے جو آج بیسیوں نہروں کی شکل میں گلشن احمدیت کو سیراب کر رہے ہیں۔ انہی روحانی نہروں میں سے ایک ‘الفضل ’بھی ہے جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعودؓ سے خلافت اولیٰ میں رکھوائی تاکہ حضرت خلیفة المسیح الاول ؓکی دعائیں اور برکات بھی اس کے شامل حال رہیں۔ یہ بھی تقدیر الٰہی ہے کہ اس کا نام پہلے ‘فضل’ سوچا گیا مگر بعد میں الفضل کے نام سے شائع ہوا۔ اس اخبار کا قیام خود اپنی ذات میں ایک معجزہ ہے۔ اخبار کی دنیا کے لیے25 سالہ ناتجربہ کار نوجوان کی دنیاوی اور صحافتی تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی۔ قادیان جیسی گمنام بستی جہاں سے کئی اخبارات پہلے سے نکل رہے تھے اور الحکم اور البدر کے کہنہ مشق ایڈیٹرز اور ان کا حلقہ احباب تھا۔

جماعت میں خریداری کی استعداد کم تھی۔ قادیان میں کاتب، پریس، اس کی مشینوں اور دیگر ٹیکنیکل امور سے تعلق رکھنے والے احباب قلیل تھے اور سارے اخبارات و رسائل مالی اور کئی قسم کے دباؤ کا شکار رہتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے کاموں اور مرمت کے لیے امرتسر یا لاہور جانا پڑتا تھا۔ متعدد رسائل جاری تھے مگر جماعت کے چھوٹا ہونے کی وجہ سے اخبارات کے لیے مضمون نگاروں کا حصہ رسدی بھی کم ہو گیا تھا۔خلافت کے خلاف ریشہ دوانیاں کرنے والوں کی نظر میں محمود ناقابل برداشت تھا کجا یہ کہ ایک اخبار کے ذریعہ وہ مزید شہرت پاتا۔ ان تمام حالات میں جس کی کسی قدر تفصیل آگے درج کی جائے گی الفضل کا اجرا معجزہ نہیں تو اور کیا ہے۔ پھر بعد میں حکومت کی طرف سے مشکلات اور 1947ء کے پُرآشوب دَور میں قادیان سے پاکستان لاہور منتقلی خدا کی نصرتوں اور فضلوں کا ایک دلکش باب ہے۔ پھر حکومت پاکستان کی طرف سے متعدد بار پابندیاں اور مقدمات اس کے سدراہ نہیں بنے بلکہ مہمیز لگاتے چلے گئے اور آج 106 سال بعد پہلے سے کہیں زیادہ عظمت اور شان کے ساتھ الفضل دنیا کے پردہ پر جلوہ گر ہو رہا ہے۔الفضل کے اجرا کی ابتدائی داستان خود حضرت مصلح موعود نے اپنے قلم معجز رقم سے تحریر فرمائی ہے۔ جو نہایت ایمان افروز اور روح پرور ہے۔ اس کی روشنی میں مزید معلومات احباب کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں۔

و جہ آغازاور بلند مقاصد

خلافت اولیٰ کے آغاز سے ہی منکرین خلافت کی طرف سے ریشہ دوانیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا۔ مدرسہ احمدیہ کو بندکرنے کی کوشش کی گئی۔ خلافت کے اختیارات کو کم کرنے اور مقام کو گھٹانے کی کوشش کی گئی۔ حضرت مسیح موعود ؑکے نام ، مقام اور حوالے کے بغیر اسلام کو پیش کرنے کے منصوبے بنائے گئے جس کا تبلیغ پر بھی بہت برا اثر پڑا۔ان حالات میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ ، حضرت خلیفة المسیح الاول ؓکے سلطان نصیر بن کر کھڑے ہو گئے اور ہر پہلو سے اپنے امام کی اطاعت اور فدائیت کے بے مثال نمونے پیش کیے۔حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:

‘‘مسیح موعود ؑسے بُعد اور نور نبوت سے علیحدگی نے جو بعض لوگوں کے دلوں پر زنگ لگا دیا تھا۔ اس نے اپنا اثر 1913ء میں دکھانا شروع کیا اور بظاہر یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ سلسلہ پاش پاش ہو جائے گا۔نہایت تاریک منظر آنکھوں کے سامنے تھا۔ مستقبل نہایت خوفناک نظر آتا تھا۔ بہتوں کے دل بیٹھے جاتے تھے۔ کئی ہمتیں ہار چکے تھے۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو سلسلہ کے کاموں کے سیاہ و سپید کے مالک تھے۔ دوسری طرف وہ لوگ تھے جو کسی شمار میں ہی نہ سمجھے جاتے تھے۔ حضرت مسیح موعود کی وفات پر جو عہد میں نے کیا تھا وہ بار بار مجھے اندر ہی اندر ہمت بلند کرنے کے لیے اکساتا تھا۔ مگر میں بے بس اور مجبور تھا۔ میری کوششیں محدود تھیں۔ میں ایک پتے کی طرح تھا جسے سمندر میں موجیں ادھر سے ادھر لیے پھریں۔‘‘بدر’’اپنی مصلحتوں کی وجہ سے ہمارے لیے بند تھا اور ‘‘الحکم’’تو ٹمٹماتے چراغ کی طرح کبھی کبھی نکلتا تھا اور جب نکلتا بھی تھا تو اپنے جلال کی وجہ سے لوگوں کی طبیعتوں پر جو اس وقت بہت نازک ہو چکی تھیں بہت گراں گزرتا تھا۔ ‘‘ریویو’’ایک بالا ہستی تھی جس کا خیال بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ میں بے مال و زر تھا۔ جان حاضر تھی۔ مگر جو چیز میرے پاس نہ تھی وہ کہاں سے لاتا۔ اس وقت سلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت تھی جو احمدیوں کے دلوں کو گرمائے، ان کی سستی کو جھاڑے۔ ان کی محبت کو ابھارے، ان کی ہمتوں کو بلند کرے اور یہ اخبار ثریا کے پاس ایک بلند مقام پر بیٹھا تھا۔ اس کی خواہش میرے لیے ایسی ہی تھی جیسے ثریا کی خواہش، نہ وہ ممکن تھی نہ یہ۔ آخر دل کی بے تابی رنگ لائی۔ امید بر آنے کی صورت ہوئی اور کامیابی کے سورج کی سرخی افق مشرق سے دکھائی دینے لگی۔’’

(انوارالعلوم جلد8صفحہ369)

ایک اَور موقعے پر فرمایا:

‘‘1913ء میں دو اور اہم واقعات ہوئے۔ حج سے واپسی کے وقت مجھے قادیان کے پریس کی مضبوطی کا خاص طور پر خیال پیدا ہوا جس کا اصل محرک مولوی ابوالکلام صاحب آزاد کا اخبار ‘‘الہلال’’تھا۔ جسے احمدی جماعت بھی کثرت سے خریدتی تھی اور خطرہ تھا کہ بعض لوگ اس کے زہریلے اثر سے متاثرہوجاویں۔ چنانچہ میں نے اس کے لیے خاص کوشش شروع کی اور حضرت خلیفة المسیح سے اس امر کی اجازت حاصل کی کہ قادیان سے ایک نیا اخبار نکالا جائے جس میں علاوہ مذہبی امور کے دنیاوی معاملات پر بھی مضامین لکھے جاویں تاکہ ہماری جماعت کے لوگ سلسلہ کے اخبارات سے ہی اپنی سب علمی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ جب میں حضرت خلیفة المسیح سے اجازت حاصل کرچکا تو مجھے معلوم ہوا کہ لاہور سے ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب بھی ایک اخبار نکالنے کی تجویز کررہے ہیں۔ چنانچہ اس بات کا علم ہوتے ہی میں نے حضرت خلیفة المسیح کو ایک رقعہ لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ لاہور سے مجھے اطلاع ملی ہے کہ فلاں فلاں احباب مل کر ایک اخبار نکالنے لگے ہیں چونکہ میری غرض تو اس طرح بھی پوری ہوجاتی ہے حضور اجازت فرماویں تو پھر اس اخبار کی تجویز رہنے دی جاوے۔ اس کے جواب میں جو کچھ حضرت خلیفة المسیح نے تحریر فرمایا اس کا مطلب یہ تھا کہ اس اخبار اور اس اخبار کی اغراض میں فرق ہے۔ آپ اس کے متعلق اپنی کوشش جاری رکھیں۔ اس ارشاد کے ماتحت میں بھی کوشش میں لگا رہا ’’۔

(آئینہ صداقت، انوارالعلوم جلد6صفحہ214)

استخارہ اور حضرت خلیفة المسیح الاوّل ؓ کی اجازت

اخبار کے اجرا سے قبل آپ ؓنے استخارہ کیا اور حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی خدمت میں اجازت کے لیے عرض کیا تو آپ نے فرمایا:

‘‘جس قدر اخبار میں دلچسپی بڑھے گی خریدار خود بخود پیدا ہوں گے۔ ہاں تائید الٰہی، حسن نیت، اخلاص اور ثواب کی ضرورت ہے۔ زمیندار، ہندوستان، پیسہ میں اور کیا اعجاز ہے وہاں تو صرف دلچسپی ہے اور یہاں دعا۔نصرت الٰہیہ کی امید بلکہ یقین۔ توکلا ًعلی اللہ کام شروع کردیں۔’’

الفضل کا نام بھی حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نے عطا فرمایا اور الفضل 1914ء کے ایک اداریہ میں درج ہے کہ حضرت خلیفة المسیح الاول نے فرمایا:‘‘مجھے رویا میں بتایا گیا ہے کہ الفضل نام رکھو’’(الفضل 19؍ نومبر 1914ء صفحہ3)چنانچہ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ اس مبارک انسان کا رکھا ہوا نام ‘‘الفضل’’ فضل ہی ثابت ہوا۔

(انوارالعلوم جلد8صفحہ371)

ڈیکلریشن کا حصول

حضرت مصلح موعودؓ نے الفضل کے ڈیکلریشن کے سلسلہ میں ایک دلچسپ واقعہ کا یوں ذکر فرمایا ہے۔
1913ء میں حضرت خلیفہ اولؓ کے عہد خلافت میں جب میں نے ‘‘الفضل’’جاری کیا تو ڈیکلریشن کے لیے گورداسپور جانے لگا۔ ایک دوست نے دریافت کیا کہ آپ کہاں جاتے ہیں۔ میں نے بتایا تو کہنے لگے کہ آج تومنگل ہے، آج نہ جائیں۔ میں نے کہا کہ منگل ہے تو کیا حرج ہے۔ کہنے لگے کہ یہ تو بڑا منحوس دن ہے۔ آپ نہ جائیں۔ میں نے کہا میں نے تو اس کی نحوست کوئی نہیں دیکھی اور اگر اللہ تعالیٰ کی برکت ہو تو منگل کی نحوست کیا کرسکتی ہے اور میں تو ضرور آج ہی جاؤں گا۔ کہنے لگے کہ آپ چلے جائیں لیکن یاد رکھیں کہ اول تو ٹانگہ رستہ میں ہی ٹوٹے گا نہیں تو ڈپٹی کمشنر دورہ پر ہوگا اور اگر وہ دورہ پر نہ ہوا تو بھی اسے کوئی ایسا کام درپیش ہوگاکہ مل نہیں سکے گا اور اگر ملنے کا موقع بھی مل جائے تو مجھے ڈر ہے کہ وہ درخواست رد نہ کر دے مگر میں نے کہا کہ چاہے کچھ ہومیں تو ضرور منگل کو ہی جاؤں گا۔ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی بھی میرے ساتھ تھے۔ چنانچہ ہم گئے تو ڈپٹی کمشنر وہیں تھا۔ ہم اس کے مکان پر گئے اور جا کر اطلاع کرائی کہ ڈیکلریشن داخل کرنا ہے۔ اس نے کہا کہ آپ کچہری چلیں میں ابھی آتا ہوں۔ چنانچہ وہ فوراً کچہری آگیا اور چند منٹ میں اس نے ڈیکلریشن منظور کرلیا اور ہم جلدی ہی فارغ ہوگئے۔ یہاںسے کوئی سات آٹھ بجے چلے تھے اور کوئی تین چار بجے واپس آگئے۔ چونکہ ان دنوں اکوں میں سفر ہوتا تھا اور اس کے یک طرفہ سفر پر ہی کئی گھنٹے لگ جاتے تھے، جب اس دوست نے ہمیں واپس آتے دیکھا تو یقین کرلیا کہ یہ اس قدر جلد جو واپس آئے ہیں تو ضرور ناکام آئے ہوں گے اس لیے دیکھتے ہی کہا کہ اچھا آپ واپس آگئے۔ ڈپٹی کمشنر غالباً وہاں نہیں ہوگا۔ میں نے کہا کہ وہ وہیں تھا، مل بھی گیا اور کام بھی ہوگیا۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ میں مان ہی نہیں سکتا کہ اس نے اتنی جلدی آپ کو فارغ کر دیا ہو۔ میں نے کہا منگل جو تھا۔

(الفضل 22؍جون1938ء )

الفضل ایک چراغ ہے

الفضل کا اداریہ نویس لکھتا ہے:

‘‘الفضل ایک چراغ ہے اور چراغ بھی وہ جس کو خود مسیح موعود نے ایک رویا میں ملاحظہ فرمایا اور دیکھا کہ چند آدمی اندھیرے میں جارہے ہیں اور قریب ہے کہ وہ آگے آنے والے گڑھوں میں گر جائیں۔ اس وقت محمود (ہمارے موجودہ امام الفضل کے سابق ایڈیٹر)دوڑ کر ایک لیمپ اٹھا لائے اور ان کو راستہ دکھایا۔’’(الفضل 29؍ دسمبر 1914ء)

پہلا پرچہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓکی رہ نمائی

ہفت روزہ الفضل کا پہلا پرچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب ؓکی ادارت میں 18؍جون 1913ء بروز بدھ شائع ہوا۔ یہ 16صفحات پر مشتمل تھا۔ حضور خود ہی اس کے پروپرائٹر، پرنٹر اور پبلشر تھے۔ ہجری لحاظ سے یہ 12؍ رجب 1331ھ کا دن تھا۔

الفضل کے پہلے پرچے میں حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کا تازہ خطبہ جمعہ 13؍جون 1913ء درج کیا گیا اور حضور کی رہ نمائی اور دعائیں ہمیشہ اخبار کو میسر رہیں۔حضرت خلیفة المسیح الاول الفضل بڑی دلچسپی سے ملاحظہ فرماتے تھے اور ضروری ہدایات دیتے تھے۔ چنانچہ الفضل میں قادیان کی خبروں کے تحت لکھا ہے۔‘‘حضور اخبار الفضل کو بڑے شوق سے مطالعہ فرماتے ہیں’’۔ (الفضل 8؍ اکتوبر 1913ء)حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے الفضل کے پہلے شمارہ میں ایک خاص مضمون ‘‘اسلامی اخبارات کے لیے دستورالعمل’’بھی تحریر فرمایا۔

حضورؓ کی جو رہ نمائی الفضل کو میسر تھی اس کے متعلق ادارہ الفضل لکھتا ہے:

‘‘ان (قادیان سے نکلنے والے اخبارات)سے اگر کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے تو خلیفة المسیح فوراً اس پر نوٹس لیتے ہیں۔ کیونکہ ہر ایک اخبار آپ کی خدمت اقدس میں پیش کیا جاتا ہے۔ الفضل کا اجرا اس غرض سے بھی ہوا تھا کہ جب کوئی امر من الخوف والامن پیش آئے تو خلیفة المسیح کی زبان بن کر گائیڈ کرنے کے لیے ایک اخبار ضروری چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جب کوئی مضمون لکھا جس میں جماعت کو کسی خاص روش پر چلنے کی تاکید ہو تو خلیفة المسیح کو دکھا کر اور ان سے تصدیق لکھوا کر شائع کیا۔(الفضل 3؍ ستمبر 1913ء صفحہ9)۔اس ضمن میں ایک احمدی کا خواب بھی بہت ایمان افروز ہے۔

مولوی میر اسحٰق علی صاحب احمدی سررشتہ دار عدالت گدوال (حیدر آباد دکن)تحریر فرماتے ہیں کہ میں حضرت خلیفہ اول کی صحت وعافیت اور احمدی بیماروں کی شفایابی کے لیے دعا کرکے سویا تھا خواب میں حضرت خلیفہ اول نے الفضل خریدنے کی تاکیدی ہدایت فرمائی اور روپے خود اپنی جیب سے نکال کر دیے۔(الفضل 23؍ دسمبر 1915ء صفحہ2)

خریداری میں مشکلات اور تکنیکی مسائل

الفضل کو آ غاز میں نہایت مالی تنگی کا سامنا رہا۔ قدیم اخباروں اور پیغام صلح کی موجودگی میں خریداروں کی اس طرف توجہ بہت مشکل تھی۔جماعت کے ایک مخصوص عنصر نے تو شروع ہی سے جو آپ کامخالف تھا ڈٹ کرمقابلہ کرنا شروع کر دیا۔ قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ خصوصاً ادارہ ‘‘پیغام صلح’’نے تو حد ہی کردی۔ مگر سید نا محمودؓ نے اس کی چنداں پروا نہیں کی بلکہ اس مزاحمت کو نیک فال سمجھا اور خدائی بشارتوں کے ماتحت اپنا قدم اور آگے بڑھاتے چلے گئے۔(الفضل 19؍ نومبر 1914ء صفحہ3) چنانچہ خدا کے فضل سے اس مخالفت کے باوجود جماعت کا رجحان ‘‘الفضل’’کی طرف بڑھنا شروع ہوا اور اخبار پیغام صلح اور اس کے ہمنواؤں کی مخالفت کے باوجود الفضل کی خریداری بڑھنے لگی۔ریکارڈ کے مطابق دسمبر 1914ء تک الفضل کی خریداری 562تھی۔ (الفضل 29؍ دسمبر 1914ء صفحہ3)

مجلس مشاورت 1937ء میں حضرت مصلح موعوؓد نے فرمایا:

‘‘میں بتانا چاہتا ہوں کہ ‘‘الفضل’’کے سوا کوئی ڈیلی اردو اخبار ایسا نہیں جس کا مستقل خریدار اٹھارہ سو کیا ایک ہزار بھی ہو۔ وہ سب ایجنسی کے ذریعہ چلتے ہیں اور جو اخبار ایجنسی کے ذریعہ چلنے والے ہوں ان کی تعداد اتنی جلدی بڑھتی گھٹتی ہے کہ اس کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ ‘‘زمیندار’’بعض دفعہ ایک ایک ہزار یا اس سے کم چھپتا رہا ہے اور بعض دفعہ پندرہ پندرہ ہزار بھی۔ پس یہ عذر بھی بالکل فضول ہے۔ الفضل کے اتنے مستقل خریدار ہیں کہ ہندوستان کے کسی مسلمان اردو روزنامہ کو اتنے خریدار حاصل نہیں۔’’(خطابات شوریٰ جلد2صفحہ229)

مولانا دوست محمد صاحب شاہد لکھتے ہیں:

‘‘سیدنا حضرت مصلح موعود نے جب اخبار الفضل جاری فرمایا تو منکرین خلافت کے زیر اثر احمدیوں تک نے اس کی زبردست مخالفت کی اور بعض جماعتوں نے اس کی خریداری سے بالکل انکار کر دیا۔ ان ہی دنوں آپ کو خواب میں دکھایا گیا کہ ایک ستارہ ٹوٹا ہے اور بجائے نیچے جانے کے اوپر کی طرف چلا گیا ہے۔

’’(مکتوب مصلح موعود بنام شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی )
(الفضل انٹرنیشنل لندن 30؍جولائی 1993ء نمونہ کا پرچہ صفحہ4)

چنانچہ وہ ستارہ اوپر ہی چلتا چلا گیا۔ ابتدائی مختصر سرمایہ بلکہ خلوص اور محبت کو خدا نے قبول فرمایا اور نہ صرف اس اخبارکو لمبی زندگی عطا فرمائی بلکہ اس معمولی رقم کو بھی لاکھوں میں بھی تبدیل کر دیا۔اجرا الفضل کے وقت اپنی بے بضاعتی کا ذکر کرتے ہوئے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے اجتماع پر 19؍اکتوبر 1956ء کو افتتاحی خطاب میں حضور نے فرمایا:

‘‘میں نے الفضل جاری کیا تو اس وقت بھی میرے پاس روپیہ نہیں تھا۔ حکیم محمد عمر صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے میں آپ کو کچھ خریدار بنا کر لا دیتا ہوں اور تھوڑی دیر میں وہ ایک پوٹلی روپوں کی میرے پاس لے آئے۔ غرض ہم نے پیسوں سے کام شروع کیا اور آج ہمارا لاکھوں کا بجٹ ہے اور ہماری انجمن کی جائیداد کروڑوں کی ہے’’۔ (الفضل 24؍اپریل 1957ء )

حضرت قاضی ظہورالدین اکمل صاحب 1939ء میں تحریر فرماتے ہیں:

‘‘ایک وقت تھا کہ الفضل ایک دستی پریس میں چند سو چھپتا اور اگر کاتب و پریس مین بیمار ہوتے تو ان کا بدل ملنا مشکل ہو جاتا اور مضامین و انتظام کے لیے بھی ذمہ داری ایک ہی شخص پر تھی۔ پھر وہ وقت بھی انہی آنکھوں سے دیکھا کہ الفضل مستقل طور پر ہفتہ میں دو بار پھر تین بار اور گاہے گاہے چار بار حتیٰ کہ روزانہ بھی شائع ہوا اور آخر کئی سال سے روزانہ شائع ہورہا ہے…

دستی پریس کی بجائے دو دستی پریس پھر مشین پریس جسے ہاتھ سے چلایا جاتا۔ پھر انجن آگیا اور اب برقی پریس ہے اور اس کی خاطر دو مشینیں ہیں۔ ایڈیٹوریل سٹاف الگ ہے۔ مینیجنگ سٹاف الگ۔ کاتب ایک کی بجائے پانچ ہیں۔…الفضل نے مطبع اور سامان طباعت (مشین و انجن)بھی اپنے ہی سرمایہ سے مہیا کیا بلکہ دوسرے اخبارات انجمن کو بھی اپنی مالی امداد سے چلایا۔’’

(الفضل 28؍ دسمبر 1939ء صفحہ29)

ابتدائی سرمایہ۔دفتر اور لائحہ عمل

جیسا کہ حضور نے تحریر فرمایا ہے الفضل کے لیے ابتدائی سرمایہ حضرت ام المومنین ؓ، آپ کی اہلیہ حضرت امّ ناصراور حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے عطا فرمایا۔سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘1913ء میں حضرت مصلح موعود نے الفضل جاری کرنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت ام ناصر صاحبہ نے ابتدائی سرمائے کے طو رپر اپنا کچھ زیور پیش کیا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ
‘‘خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اس طرح تحریک کی جس طرح خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مددکی تحریک کی تھی۔ انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنویں میں پھینک دینا اور خصوصاً اس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو (یہ بھی ایک عاجزی تھی حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓکی )جو اس زمانے میں شاید سب سے بڑا مذموم تھا، آپ نے اپنے دو زیور مجھے دے دیے کہ میں ان کو فروخت کر کے اخبار جاری کر دوں، اُن میں سے ایک تو اُن کے اپنے کڑے تھے (سونے کے)اور دوسرے اُن کے بچپن کے کڑے سونے کے تھے جو انہوں نے اپنی اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم کے استعمال کےلیے رکھے ہوئے تھے، مَیں زیورات کو لے کر اسی وقت لاہور گیا اور پونے پانچ سو میں وہ دونوں کڑے فروخت ہوئے ’’اور اس سے پھر یہ اخبار الفضل جاری ہوا ’’۔

(الفضل نمبر1جلد12مورخہ 4؍جولائی1924ء صفحہ4کالم 3)

قارئین الفضل حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس پیاری بیٹی اور میری والدہ کو بھی الفضل پڑھتے ہوئے دعائوں میں یاد رکھیں کہ الفضل کے اجرا میں گو بیشک شعور رکھتے ہوئے تو نہیں لیکن اپنے ماں باپ کے ساتھ آپ نے بھی حصہ لیا ،اور یہ الفضل جو ہے ، آج انٹرنیشنل الفضل کی صورت میں بھی جاری ہے۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور ان کی دعائیں ہمیشہ ہمیں پہنچتی رہیں۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍اگست 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل26؍اگست 2011ء صفحہ9)

الفضل کے ابتدائی دفتر کے لیے حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ نے اپنے مکان کی نچلی منزل کا ایک حصہ عطا فرمایا۔ اس کے اولین کاتب محمد حسین صاحب اور مینیجر مرزا عبدالغفور بیگ تھے۔3؍ دسمبر 1914ء سے الفضل کے پرنٹر و پبلشر حضرت بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی ؓمقرر ہوئے جو 1947ء میں تقسیم ہند تک یہ فرائض سرانجام دیتے رہے۔

الفضل کے لیے حضرت مصلح موعود ؓنے ایک لائحہ عمل شروع سے طے کر دیا تھا اور دیگر مصروفیات کے علاوہ الفضل کے مضامین کی طرف خاص توجہ فرماتے۔جلسہ سالانہ 1913ء کی مصروفیات کا ذکر کرتے ہوئے الفضل لکھتا ہے۔

‘‘صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کے مشاغل کا حال اس سے واضح ہے کہ دونوں وقت خود پاس کھڑے ہو کر دو ہزار آدمی کا کھانا تقسیم کراتے اور سب مہمانوں کے کھا چکنے کے بعد گھر تشریف لے جاتے اور دن میں کئی بار مختلف دفاتر متعلقہ انتظام جلسہ میں جا کر نگرانی و مناسب ہدایات فرماتے رہے پھر مہمانوں کی خاطر یہاں تک منظور تھی کہ ان کے لیے تازہ خبروں کے بہم پہنچانے کے واسطے الفضل کا دو ورقہ پرچہ ہزار کی تعداد میں تقسیم ہوتا رہا جس میں الفضل کے تمام ہیڈنگ برقرار رکھے گئے تھے اور ہر عنوان کے ماتحت ایک مکمل و دلچسپ مضمون دیا جاتا رہا۔ جیسا کہ مرسلہ الفضل سے ظاہر ہے۔ اس کے علاوہ عام احباب سے ملاقات اور مختلف مقالات آپ نے تقویٰ کے حصول کے ذرائع پر ایک تقریر دلپسند فرمائی جو انشاء اللہ چھاپی جائے گی۔’’

(الفضل 31؍ دسمبر 1913ء صفحہ1)

حضرت مصلح موعود ؓکے اداریے اور مضامین

حضور نے الفضل کے آ غاز سے ہی اعلیٰ درجہ کے مضامین کا سلسلہ شروع فرما دیا تھا۔اور متعدد موضوعات پر لکھا۔حضور نے سیرت النبی ﷺکے موضوع پر نئے اور اچھوتے انداز سے قلم اٹھایا تھا۔ یہ مضمون بعد کوکتابی شکل میں بھی سیرت النبی کے نام سے شائع کر دیا گیا۔ تازہ ملکی حالات پر شذرات لکھنا بھی الفضل کی مستقل پالیسی میں شامل تھا۔ اسی طرح آپ کے زمانہ ادارت میں جو اہم تحریکات اٹھیں یا قومی و ملی مسائل پیدا ہوئے ان سب میں آپ نے کمال فراست اور بالغ نظری سے مسلمانان ہند کی رہ نمائی فرمائی۔ الفضل کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ خلیفہ بننے کے بعد الفضل نے حضور کے خطبات، تقاریر، مجالس عرفان، خطبات نکاح کثرت سے اپنے دامن میں محفوظ کیے۔جو آج متعددکتابوں کی شکل میں موجود ہیں۔اس کے علاوہ بھی حضور خصوصی مضامین تحریر فرماتے رہے جن سے الفضل کا دامن مالامال ہے۔

1947ء میں ‘‘الفضل’’کے ابتدائی پاکستانی دور کی ایک بھاری خصوصیت یہ تھی کہ اس زمانہ میں خود حضرت المصلح الموعود اپنی گوناگوں اور بےشمار مصروفیات کے باوجود ‘‘الفضل’’کے لیے پورے التزام کے ساتھ نہایت درجہ معلومات افزا مضامین تحریر فرماتے۔ جو (حضور کا نام لکھے بغیر)ادارہ کی طرف سے شائع کیے جاتے تھے۔ حضور کی اس خصوصی توجہ اور غیرمعمولی رہ نمائی کی بدولت یہ نیا جاری شدہ اخبار جلد ہی پاکستان کے معیاری روزناموں میں اپنا خاص مقام پیدا کرنے کے قابل ہو گیا۔

(تاریخ احمدیت جلد 11صفحہ57،56)

حضرت قاضی ظہورالدین اکمل صاحب ابتدائی دور کے تذکرہ میں لکھتے ہیں:

‘‘مضامین کے لیے ایک خاص پروگرام تھا جس کی پابندی بڑے اہتمام سے کی جاتی۔ لیڈنگ آرٹیکل (حضرت صاحبزادہ صاحب)خود لکھتے۔الاخبار و الآراء اور مدینة المسیح نیز بعض متفرق ضروری مضامین اور نظمیں میں لکھتا۔ اسلام کی خصوصیات۔ احمدیت کی تصدیق اور جوابات اعتراضات اور سیاسی و تمدنی مضامین کے لیے بھی صفحات مقرر ہوئے۔ جناب صوفی حافظ غلام محمد صاحب مربی ماریشس اور الحاج مولانا عبدالرحیم صاحب نیر نے ان مضامین کے بیشتر حصے کا ذمہ لیا۔’’

(الفضل 28؍ دسمبر 1939ء صفحہ29)

شروع میں مدینة المسیح اور ایوان خلافت کے عنوان سے خلیفة المسیح اور جماعت کی اہم خبروں کا سلسلہ صفحہ اول پر شروع کیا گیا تھا۔ 2؍فروری 1915ء سے اخبار احمدیہ کے عنوان سے نیا کالم شروع کیا گیا جس میں احباب جماعت کی دیگر خبریں اور حالات درج کیے جانے لگے تاکہ باہمی محبت و اتحاد ترقی کرے۔

حضرت مصلح موعود ؓکی مالی اعانت

الفضل کسی تجارتی مقصد کے لیے جاری نہیں کیا گیا۔ اس کا مقصد خالص خدمت دین اور اشاعت اسلام تھا۔ اس لیے احباب سے خریداری میں کم سے کم رقم وصول کی جاتی رہی اور پرچے معمول سے زیادہ شائع کیے جاتے رہے اس لیے اخبار مدتوں زیر بار رہا اور حضرت مصلح موعود ؓاپنے پاس سے رقم عطا فرما کر نقصان پورا کرتے رہے۔ الفضل کے پہلے سال میں آنے والی مشکلات اور مالی نقصان کا تذکرہ کرتے ہوئے ایڈیٹر صاحب لکھتے ہیں:

‘‘ایسے ہی آخری سہ ماہی میں ایک اندرونی تنازع پیش آگیا۔ جسے سلجھانے کے لیے اخبار کو ہفتہ میں تین بار کر دینا پڑا اور اس طرح اس کا حجم بھی ڈیوڑھا ہو گیا اور محصول ڈاک تگنا اور محنت دگنی۔ الفضل نے اس خصوص میں خدا کے فضل و توفیق سے وہ کام کیا کہ منکران خلافت کے چھکے چھڑا دیے اور تین ماہ کے پرچوں پر نظر کرنے سے ثابت ہوچکا کہ سینکڑوں ایسے دلائل ہیں جن کا جواب اس کے حریف مطلق نہیں دے سکے۔ فالحمد للّٰہ علیٰ ذالک۔ چونکہ چندہ سالانہ چار روپے کے حساب سے لیا جاتا رہا۔ اس لیے خرچ بہت ہی بڑھ گیا اور یوں بھی الفضل پر جو کاغذ خرچ ہوتا ہے اور اس کی چھپوائی کاجو خرچ ہے۔ وہ لاہور کے اخباروں سے دگنا بلکہ بعض صورتوں میںدگنے سے بھی زیادہ ہے۔ مثلاً جو کاغذ پیغام یا زمیندار کو لگتا ہے اس کا ایک رم ایک روپیہ تین آنہ تک مل جاتا ہے۔ مگر الفضل کا کاغذ یہاں ہمیں دو روپے نو آنے میں رم پڑتا ہے۔اسی طرح لاہور میں چھپوائی پونے دو روپے رم ہے۔ یہاں دستی پریس میں ایک رم کی چھپوائی سواتین روپے ہے۔ اس تھوڑی سی بات سے آپ کو اخراجات کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گو الفضل کا چندہ پیشگی وصول کرنے کا قاعدہ ہے مگر پھر بھی خرچ آمد سے بہت بڑھا رہا۔ چنانچہ اس سال میں۳۔۱۴۔۳۴۴۲ آمد ہوئی اور ۶۔۲۔۵۱۵۸ خرچ ہوا گویا پروپرائٹر (مالک)کو۳۔۴۔۱۷۱۵ اپنے پاس سے دینے پڑے۔
اگر الفضل کا اجرا کسی تجارتی یا دنیاوی غرض پر ہوتا تو پھر سترہ سو روپیہ اپنے پاس سے دے کر اس کو جاری نہ رکھا جاتا۔ لیکن مقصد تو حق کی اشاعت اور احمدی جماعت کو لیڈ کرنا ہے۔ اس لیے موجودہ حالات کومدنظر رکھتے ہوئے خدا کے فضل وکرم کے بھروسہ پر یہ اخبار مستقل طور سے ہفتہ میں تین بار کیا جاتا ہے۔’’(الفضل 11؍ جون 1914ء )

پھر ایڈیٹر صاحب الفضل لکھتے ہیں:

‘‘جب حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے الفضل جاری کیا تو علاوہ اس ذاتی محنت اور مشقت کے جو حضور خود اخبار کے لیے کرتے رہے۔ایک رقم خطیر اس پر صرف فرمائی اور جب خداتعالیٰ نے منصب خلافت پر ممتاز فرماکر جماعت کی ہر طرح کی حفاظت اور نگہبانی تعلیم و تربیت اور دیگر بیشمار فرائض آپ کے سپرد کیے۔ تو بھی حضورکو الفضل کا خاص خیال رہا اور جیب خاص سے اس کے اخراجات مرحمت فرماتے رہے۔ پہلے سال کے خاتمہ پر جب آمد و خرچ کا مقابلہ کیا گیا۔ تو معلوم ہوا کہ قریباًچار ہزار روپیہ حضور کو اپنی گرہ سے دینا پڑا۔ اس کے بعد بھی حضور ذاتی مصارف سے الفضل کے اخراجات پورے فرماتے رہے۔ ایک دفعہ کے متعلق مجھے یاد ہے کہ جب روپیہ کی کمی کی وجہ سے کام رکنے لگا تو حضور نے ایک نہایت عمدہ موقع کا قطعہ زمین فروخت کرکے روپیہ اخبار پر صرف کرنے کا ارشاد فرمایا اور چونکہ تنگی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ اس لیے اعلان اس طرح کیا گیا کہ جو صاحب بذریعہ تار روپیہ بھیجیں گے۔انہیں وہ زمین دی جائے گی۔ اس طرح وہ قطعہ فروخت کرکے اخراجات چلائے گئے۔ یہ صرف ایک واقعہ عرض کیا گیا ہے۔ ورنہ بیسیوں دفعہ حضور نے اخبار کے لیے تکلیف اٹھائی۔ان حالات میں سے گزر کر جب اخبار خدا کے فضل سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا اور اپنے اخراجات خود برداشت کرنے کے قابل ہو گیا تو حضور نے اخبار مع کئی ہزارکے سازوسامان کے سلسلہ کے لیے وقف فرما دیا اور اس کی آمدنی سلسلہ کے سپرد کردی۔’’

(الفضل 11؍ جولائی 1924ء صفحہ3)

خدمت کے لیے وقف زندگی اخبار

الفضل کووقف ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ سیدنا حضرت مصلح موعود نے ذاتی روپیہ سے اخبار جاری کیا اور پھر 1917ء میں اسے جماعت کی خدمت کے لیے وقف کر دیا اور یہی اس کی لمبی زندگی کی علامت بن گیا۔ وقف کی تفصیل اس طرح ہے کہ حضرت مصلح موعود نے تقریر جلسہ سالانہ 27؍ دسمبر 1917ء میں علم حاصل کرنے کے 7طریق بیان کیے۔

1۔مرکز سلسلہ قادیان میں بار بار آنا اور حضور سے علم سیکھنا۔
2۔دوسرے مقامات پر درس قرآن میں شرکت
3۔اسباق القرآن (تحریری مواد جو ڈاک کے ذریعے ملے گا)۔
4۔جتنا علم آتا ہے دوسروں کو سکھایا جائے۔
5۔کتب حضرت مسیح موعود کا مطالعہ۔
6۔اخبارات اور رسائل سلسلہ کا مطالعہ۔
7۔رمضان میں حضور کا درس قرآن

چھٹے طریق کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:

‘‘چھٹا طریق ایسا ہے جس کی طرف متوجہ کرنے کا مجھے ایک مدت سے خیال ہے لیکن ایک مجبوری کی وجہ سے اسے بیان نہیں کرسکتا تھا۔ وہ مجبوری یہ ہے کہ یہاں کے اخباروں میں سے ایک کے ساتھ میں بھی تعلق رکھتا ہوں چونکہ مجھ میں بڑی غیرت ہے اس لیے یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ اخبارات کے ذریعہ بہت بڑا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔ میں نے اخبارات اور رسالے خریدنے کی طرف توجہ نہیں دلائی کیونکہ ایک اخبار سے مجھے بھی تعلق ہے اس کے لیے میں نے سوچا کہ اس اخبار کو کسی اَور کے سپرد کردوں اور موجودہ تعلق کو ہٹا کر تحریک کروں مگر اس وجہ سے کہ ابھی تک وہ اخبار گذشتہ گھاٹے میں ہے کسی کے سپرد نہیں کرسکا۔ اب ایک اور طریق خیال میں آیا ہے اور وہ یہ کہ اس اخبار کو وقف کردوں، اس کے سرمایہ میں ایک اور صاحب کا بھی روپیہ ہے لیکن ان کی طرف سے بھی مجھے یقین ہے کہ وہ بھی اپنا روپیہ چھوڑ دیں گے۔ پس میں آج سے اس اخبار کو بلحاظ اس کے مالی نفع کے وقف کرتا ہوں۔ ہاں اگر خدانخواستہ نقصان ہوا تو اس کے پورا کرنے کی میں انشاء اللہ کوشش کروں گا۔ ہم اس کی کمی کے پورا کرنے کی تو کوشش کریں گے لیکن جو نفع ہوگا اسے نہ میں لوں گا اور نہ وہ۔ بلکہ اشاعت اسلام میں خرچ کیا جائے گا۔

اس اعلان کے بعد چونکہ مالی منافع کے لحاظ سے کسی اخبار کے ساتھ میرا تعلق نہیں رہا اس لیے اب میں تحریک کرتا ہوں کہ ہمارے دوست اخبارات کو خریدیں اور ان سے فائدہ اٹھائیں۔ اس زمانہ میں اخبارات قوموں کی زندگی کی علامت ہیں کیونکہ ان کے بغیر ان میں زندگی کی روح نہیں پھونکی جاسکتی۔ گذشتہ زمانہ میں مخالفین کی طرف سے جو اعتراض ہوتے تھے وہ ایک محدود دائرہ کے اندر گھرے ہوئے تھے اس لیے ان کے جوابات کتابوں میں دے دیے جاتے تھے اور ان کتابوں کا ہی پاس رکھنا کافی ہوتا تھا مگر اس زمانہ میں روزانہ نئے نئے اعتراضات اخباروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں جن کے جواب دینے کے لیے اخباروں ہی کی ضرورت ہے اور اسی لیے ہمارے سلسلہ کے اخبار جاری کیے گئے ہیں لیکن اکثر لوگ ان کی خریداری کی طرف توجہ نہیں کرتے جس سے وہ دین کا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ جہاں تک ہوسکے تکلیف اٹھا کر بھی ان کو خریدیں۔ …پس جہاں تک ہوسکے اخباروں کی اشاعت بڑھاؤ، انہیں خریدو اور ان کے ذریعہ علوم حاصل کرو۔ اس وقت الفضل، فاروق، نور، ریویو آف ریلیجنز، تشحیذجاری ہیں ان کے خریدار بنو۔’’

(علم حاصل کرو، انوارالعلوم جلد4صفحہ141تا143)

حضور ؓنے فرمایا:

‘‘الفضل میرے ذاتی روپے سے جاری ہوا اور 1920ء تک میں نے اس کو چلاکے اس کی خریداری بڑھائی۔ جب چل گیا اور ایک بڑا اخبار بن گیا تو میں نے مفت بغیر معاوضہ کے وہ انجمن کو تحفہ دے دیا۔’’(تاریخ احمدیت جلد19صفحہ68)

ہفتہ وار سے روزنامہ تک

الفضل گو شروع میں ہفت روزہ تھا لیکن آغاز سے ہی جماعت کی خواہش تھی کہ یہ روزانہ ہو جائے مگر یہ ایک لمبا تکلیف دہ سفر تھا اور منزل تک پہنچنے کے لیے لمبی مسافت طے کرنی پڑی۔ جس میں سب سے زیادہ مالی مسائل حائل رہے تاہم اس سفر کے چند نمایاں نشان یہ ہیں۔

26تا28؍ دسمبر 1913ء الفضل کا روزانہ لوکل ایڈیشن شائع ہوا۔30؍مئی 1930ء ہفتہ میں بار بار شائع ہوتا رہا۔

الفضل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ احباب جماعت کی روزانہ الفضل کی خواہش 1920ء تک شدت اختیار کرچکی تھی۔ چنانچہ 12؍جولائی 1920ء کے الفضل میں اداریہ میں حافظ عبدالعزیز صاحب صدر جماعت سیالکوٹ کا خط شائع ہوا ہے جس میں الفضل کو روزانہ کرنے کی تحریک کی گئی ہے۔حضرت مصلح موعود ؓلاہور سے ایک الگ روزنامہ نکالنے کا بھی خیال رکھتے تھے۔19؍ مارچ 1931ء کو حضور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ مدیران انقلاب مولانا غلام رسول صاحب مہر اور مولانا عبدالمجید صاحب سالک نے اخبار الفضل کے کام کی تعریف کی اور کہا۔ اس میں حالات حاضرہ اور مسلمانوں کی ضروریات کے مطابق بروقت اورموزوں مضامین شائع ہوتے ہیں اور کوئی امر جس پر لکھنے کی ضرورت ہو رہ نہیں جاتا۔ جماعتِ احمدیہ کو سرمایہ کی مشکلات بھی نہیں۔ پھر الفضل کو روزانہ کیوں نہیں کر دیا جاتا۔ جب انہیں یہ بتایا گیا کہ ضروری سامان اور اسباب میسر نہ ہونے کی وجہ سے قادیان سے روزانہ اخبار چل نہیں سکتا تو انہوں نے کہا اسے پھر لاہور لے آنا چاہیے۔ کہا گیا قادیان میں جو کام الفضل کررہا ہے۔ وہ حضرت خلیفة المسیح الثانی کی ہدایات کے ماتحت ہے۔ لاہور میں یہ رہ نمائی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس کے متعلق انہوں نے کہا۔ پریس ٹیلیگرام کے ذریعہ روزانہ ہدایات حاصل کی جاسکتی ہیں۔حضور نے یہ ساری گفتگو سن کر فرمایا۔ الفضل تو ہمارامذہبی اخبار ہے۔ مجبوراً اس سے سیاسی کام لیا جاتا ہے۔ اسے کسی صورت میں بھی مرکز سے باہر نہیں لے جایا جاسکتا۔ ہاں مسلمانوں کاپریس چونکہ بہت کمزور ہے۔ اس لیے لاہور سے ایک روزانہ اخبار جاری کرانے کا سوال میرے زیر غور ہے۔

(الفضل 31؍ مارچ 1931ء )

26؍جنوری 1935ء کو جماعتِ احمدیہ چھاؤنی لاہور کے غیرمعمولی اجلاس میں یہ قرارداد پاس کی گئی کہ حضور کی خدمت میں الفضل کو روزنامہ بنانے کی درخواست کی جائے۔(الفضل 3؍فروری 1935ء )اس کے بعد دیگر جماعتوں نے بھی حضور کی خدمت میں بار بار درخواستیں کیں۔5؍فروری 1935ء کے الفضل کی رپورٹ ہے کہ احباب جماعت کی کثرت سے درخواستوں پر حضور نے فیصلہ فرمایا ہے کہ الفضل کو فی الحال 6 ماہ کے لیے روزانہ کر دیا جائے اور اشاعت کی صورت یہ ہو کہ ہفتہ میں 3 پرچے حسب معمول 12صفحات کے اور باقی 3دن 4 صفحے کا پرچہ شائع ہو۔الفضل نے درخواست کی کہ فوراً ہر جگہ الفضل کی ایجنسیاں قائم کرکے زیادہ سے زیادہ پرچے اکٹھے منگانے کا انتظام کیا جائے۔ مکمل پرچہ کی قیمت ایک آنہ اور چار صفحہ کے پرچہ کی قیمت ایک پیسہ ہو گی۔ ایجنسیوں کو 10پرچوں تک ساڑھے12 فیصدی 19تک 20فیصدی اس سے زیادہ 25 فیصدی کمیشن دیا جائے گا۔5؍ مارچ 1935ء کے الفضل کی رپورٹ کے مطابق الفضل روزانہ شائع کرنے کے متعلق ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب گورداسپور کی طرف سے اطلاع پہنچ گئی ہے اب محکمہ ڈاک کی اطلاع کا انتظار ہے۔چنانچہ 8؍ مارچ 1935ء وہ مبارک دن تھا جب الفضل روزنامہ ہو گیا اور 6ماہ کی بجائے ہمیشہ کے لیے ہو گیا۔ یہ احباب کے لیے انتہائی خوشی کا موجب تھا۔ حضور ؓنے اس موقع پر خاص پیغام بھی عنایت فرمایا۔

حضرت اقدس کے ذہن میں الفضل کی اشاعت بڑھانے، الفضل کو جلد از جلد جماعت تک پہنچانے اور اس میںمذہبی علوم کے علاوہ عام سیاسی و دنیاوی خبریں اور معلومات شائع کرنے کاجو وسیع نقشہ تھا اس کو حضور نے متعدد بار بیان فرمایا اس کا ایک نمونہ حضور کے اس ارشاد سے دیکھا جاسکتا ہے جو حضور نے الفضل کے روزنامہ ہونے پر ارشاد فرمایا:

اپریل1935ء کو مجلس مشاورت میں فرمایا:

‘‘الفضل دوستوں کی تحریک سے روزانہ کر دیا گیا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ ہر جگہ اس کے ایجنٹ ہوں۔میں نے بارہا اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ہماری جماعت کے لکھے پڑھے مگر بےکار لوگ ہر طرف توجہ کریں۔ ہوشیار اور محنتی آدمی کافی آمدنی پیدا کرسکتا ہے۔ اپنے سلسلے کے اخبارات جن میں سے ایک روزانہ ہے اور دو ہفتہ وار، کے علاوہ دوسرے اخبارات میں سے بھی وہ لیے جاسکتے ہیں جو ہمارے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور یہ کام قصبات اور شہروں میں چل سکتا ہے۔ کم از کم دو اڑھائی سو شہر ایسے ہیں جہاں یہ کام کیا جاسکتا ہے ۔

(خطابات شوریٰ جلد اوّل صفحہ625)

27؍ دسمبر 1951ء کو فرمایا:

‘‘سالہا سال سے اس کی اشاعت 20اور 25سو کے درمیان ہی گھوم رہی ہے۔ حالانکہ جماعت پھیل رہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ روزانہ اخبارہونے کی وجہ سے اس کا چندہ زیادہ ہے۔ مگر کمزور جماعتیں مل کر خرید سکتی ہیں۔ اسی طرح اگر افراد بھی اکیلے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ تو دو دو تین تین چار چار مل کر خرید سکتے ہیں۔ پس میں احباب کو تحریک کرتا ہوں کہ الفضل کی اشاعت کو بڑھانے اور ترقی دینے کی کوشش کرو۔’’

(الفضل 31؍ دسمبر 1952ء صفحہ3)

نصرت الٰہی کی مثال۔ معجزہ ہے

الفضل کی زندگی ابتدا سے ایک معجزہ ہے اس کے ساتھ خداتعالیٰ کی جو نصرت اور خلافت کی دعائیں ہیں اس کے لیے صرف ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ حضور فرماتے ہیں:

‘‘…ہمارا جس کے ساتھ تعلق ہے وہ ہستی خداتعالیٰ ہے۔ 1913ء میں جب میں نے الفضل نکالا تو سید انعام اللہ شاہ صاحب گھبرائے ہوئے میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ نے مسجد کانپور کے متعلق مضمون لکھ دیا ہے۔ مولوی ظفر علی کہتا ہے کہ میں قلم کی ایک جنبش سے احمدیت کو تباہ کر دوں گا۔میں نے جواب دیا احمدیت تو خدا کی چیز ہے اسے کون تباہ کرسکتا ہے اس واقعہ کو پندرہ دن ہی گزرے تھے کہ ظفر علی کا پریس گورنمنٹ نے ضبط کرلیا۔ اس نے پھر ہمارے خلاف لکھنے کی کوشش کی مگر دوبارہ ضبط کرلیا گیا۔’’
(خطبات محمود1931ءجلد13صفحہ277نیز الفضل 9؍اگست 1934ء صفحہ7)

1935ء میں الفضل نے مولوی ظفر علی خان صاحب کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے ان کی مالی مدد کی تحریک کی۔ لکھا ہے:

‘‘مسلمان اخبارات میں مینیجر تاج کمپنی لاہور کی طرف سے ایک اپیل شائع ہوئی ہے جس میں مولوی ظفر علی صاحب کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے۔‘‘مولانا ظفر علی خان کی حالت اس وقت بہت خراب ہورہی ہے۔ زمیندار جاری کرنے کے لیے کم ازکم دس ہزار روپیہ کی ضرورت ہے۔ اس رقم کی فراہمی تو درکنار فی الحال مولانا ممدوح کے ذاتی اخراجات کے لیے کوئی معقول انتظام ضرور ہونا چاہیے۔ …آہ آج نظربندی نے انہیں نان و نفقہ کا محتاج کر دیا ہے۔ دس روپے کی حقیر رقم سے ظفر علی خان فنڈ کھول دیا ہے۔ برادران اسلام سے جس قدر ہوسکے جو کچھ وہ روانہ کرسکیں۔ روانہ کرتے جائیں۔’’

مولوی ظفر علی صاحب کا جماعتِ احمدیہ کے متعلق جو رویہ رہا ہے۔ وہ سب پر ظاہر ہے لیکن باوجود اس کے ہم چاہتے ہیں کہ مسلمان مولوی صاحب کی اس وقت جبکہ وہ بے حد مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں دل کھول کر مدد کریں۔’’

(الفضل 2؍جنوری 1935ء صفحہ4)

ڈاکخانہ کا عدم تعاون

سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے 27؍ مارچ 1936ء کے خطبہ جمعہ میں جماعت کے خلاف کی جانے والی سازشوں اور شرارتوں کے ذکر میں فرمایا:

‘‘چوتھا امر ڈاکخانہ کا رویہ ہے یہ بھی قریب کے عرصہ سے جاری ہے۔’’اس کے بعد حضور نے اپنی ڈاک کے لیٹ ہونے کے تذکرہ کے بعد فرمایا:‘‘اسی طرح الفضل کو دق کیا جارہا ہے اور متواتر اس کے پرچے لیٹ کیے جاتے ہیں یا بعض دفعہ پرچے خریداروں کو پہنچتے ہی نہیں۔اسی طرح جوابی کارڈ غلط مہریں لگا کر بعض دفعہ خط لکھنے والوں کو واپس کر دیے جاتے ہیں۔یہ کارروائیاں ہورہی ہیں اور ان کی طرف متواتر افسروں کومتوجہ کیا جاتا ہے مگر اب تک کوئی توجہ نہیں کی گئی۔’’

(الفضل 4؍ اپریل 1936ء )

قادیان سے لاہور منتقلی

1947ء میں فسادات اور نامساعد حالات کے باوجود الفضل بڑی شان سے نکلتا رہا اور فتنہ کی آگ کو سرد کرنے کی کوشش بھی کرتا رہا۔ لیکن ہجرت مقدر تھی اور ہو کر رہی۔ تقسیم کے اولین منصوبے میں ضلع گورداسپور (اور قادیان) پاکستان میں شامل تھا مگر بعد میں اسے بھارت میں شامل کر دیا گیا اور جماعت کا ایک حصہ اپنے امام کے ساتھ قادیان سے ہجرت کرکے پاکستان آگیا۔حضرت مصلح موعودؓنے لاہور میں مرکز قائم کیا اور فوری طور پر الفضل کے پاکستان سے باقاعدہ اجراکی کوششیں شروع کر دیں جودوہفتوں کے اندر نتیجہ خیز ثابت ہوئیں اور حکومت نے روزنامہ الفضل کی منظوری دے دی اور 15؍ستمبر 1947ء سے اسے مکرم روشن دین تنویر صاحب کی ادارت میں جاری کر دیا گیا۔یہ بھی یاد رہے کہ اس دوران الفضل قادیان سے مسلسل شائع ہورہا تھا اور 17؍ ستمبر 1947ء کو اس کا آخری پرچہ قادیان سے شائع ہوا تھا۔ اس طرح 3 دن ایسے تھے جب الفضل پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں سے شائع ہورہا تھا۔حضرت خلیفة المسیح الثانی کی ہدایت پر مولانا تنویر صاحب، جناب شیخ خورشید احمد صاحب اور مکرم احمد حسین صاحب کاتب 9؍ستمبر 1947ء کو قادیان سے لاہور پہنچے۔ ان دنوں الفضل کے مینیجر صاحب چوہدری عبدالواحد صاحب (سابق مدیر اصلاح سری نگر)تھے اور طابع و ناشر قاضی عبدالحمید صاحب بی اے ایل ایل بی مقرر ہوئے۔ طباعت گیلانی الیکٹرک پریس ہسپتال روڈ میں ہوتی تھی۔ اخبار کا ابتدائی کام مسجد لاڈو کے سامنے ایک کوٹھی میں نہایت بے سروسامانی میں شروع کیا گیا۔ بعدازاں دفتر پہلے رتن باغ میں پھر 21؍اکتوبر 1947ء کو پنجاب نیشنل بینک (فلیٹ نمبر3)میں منتقل ہو گیا۔ 1949ء سے مکرم مسعود احمد دہلوی صاحب کو طابع و ناشر مقررکیا گیا۔

(تاریخ احمدیت جلد11 صفحہ54)

الفضل ہندوستان میں اہل حق کا قدیم ترین زندہ اخبار ہے۔ یہی وہ واحد اخبار ہے جو قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے پاکستان منتقل ہوا۔ڈاکٹر عبدالسلام خورشید لکھتے ہیں:

‘‘اتنے غیرمسلم اخباروں کی روانگی کے باوجود ہندوستان کا کوئی مسلم روزنامہ لاہور نہ آیا البتہ جماعتِ احمدیہ کا روزنامہ الفضل قادیان سے لاہور منتقل ہو گیا …اب یہ ربوہ سے نکلتا ہے۔’’

(داستان صحافت صفحہ 126مطبع مکتبہ کارواں لاہور)

الفضل میں شذرات کادلچسپ سلسلہ

غیروں کی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے اور الفضل کو پہلے سے زیادہ مفید بنانے کے لیے حضرت مصلح موعودؓ کی خصوصی ہدایت پر شذرات کا ایک دلچسپ علمی سلسلہ شروع کیا گیا جو 20؍اگست 1952ء سے لے کر 27؍فروری 1953ء تک جاری رہا۔اس نئے کالم کو یہ امتیازی خصوصیت حاصل تھی کہ حضور نہایت باقاعدگی اور التزام کے ساتھ اس پر نظرثانی فرماتے۔ حضور کے ملاحظہ کے بعد اس کا مسودہ روزانہ لاہور بھجوادیا جاتا تھا جہاں سے ان دنوں اخبار الفضل کی طباعت واشاعت ہوتی تھی۔اس تعلق میں حضرت مصلح موعود نے 22؍اگست 1952ء کو ایک ضروری مکتوب رقم فرمایا جس سے اس کے پس منظر کا پتہ چلتا ہے۔ حضور نے ایڈیٹر صاحب الفضل کو لکھا:

‘‘آپ کو ہدایت جاچکی ہے کہ ایڈیٹوریل چھوٹا لکھا کریں اور موجودہ فتنوں کے متعلق اور قومی مسائل پر زیادہ لکھا کریں اور ایڈیٹوریل کے بعد مولوی دوست محمد صاحب کے لکھے ہوئے شذرات شائع کیا کریں۔ …الفضل کے متعلق عام شکایت آرہی ہے کہ اس کا سٹینڈرڈ گر رہا ہے سوائے خاتم النبیین نمبر کے کہ اس کی بیشک بہت تعریف آئی ہے۔ کثرت سے اعتراض ہوتے ہیں جن کے کوئی جواب نہیں دیے جاتے اور اسی لیے ہم نے شذرات لکھوانے شروع کیے ہیں۔’’(تاریخ احمدیت جلد15صفحہ412)

الفضل کی نگرانی اور رہ نمائی

حضرت مصلح موعودؓ نہ صرف الفضل کے بانی تھے بلکہ ایک مقدس اور دوربین نظر رکھنے والے روحانی لیڈر بھی تھے اس لیے الفضل پر ہمیشہ آپ کی کڑی نگاہ رہی۔اچھے مضامین پر حوصلہ افزائی فرماتے اور غلط باتوں پر مدلل تنقید کرکے جماعت کی رہ نمائی فرماتے۔ اس کے چند نمونے پیش ہیں۔

حضرت مصلح موعود خطبہ جمعہ 29؍جون 1923ء میں اخبارات پڑھنے کے شوق اور دلچسپی کے متعلق فرماتے ہیں (اس وقت الفضل ہفتہ میں 2بار شائع ہوتا تھا)‘‘الفضل’’ ہفتہ میں دوبار میرے سامنے آتا رہا ہے اور میں اس لحاظ سے کہ سلسلہ کا آرگن سمجھاجاتا ہے اور اس لحاظ سے کہ چونکہ اس کے مضامین ہماری طرف سے سمجھے جاتے ہیں اور ہماری طرف منسوب کیے جاتے ہیں۔ اس لیے یہ دیکھنے کے لیے کہ اگرکوئی غلطی ہو۔ یوں تو انسان سے غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ لیکن اگر کوئی ایسی غلطی ہو جس سے سلسلہ پر حرف آتا ہو۔ تو اس کی اصلاح کروادی جائے الفضل سارا پڑھتا ہوں اورہمیشہ پڑھتا ہوں۔’’(الفضل 6؍ جولائی ٫1923)

4؍فروری 1938ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:

‘‘میں نے دیکھا ہے کام کی کثرت کی وجہ سے کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ادھر میں کھاناکھا رہا ہوتا ہوں اور ادھر اخبار پڑھ رہا ہوتا ہوں۔ بیویاں کہتی بھی ہیں کہ اس وقت اخبار نہ پڑھیں کھانا کھائیں مگر میںکہتا ہوں میرے پاس اور کوئی وقت نہیں۔’’

(خطبات محمود جلد19صفحہ66)

سفر یورپ 1924ء کا ذکر کرتے ہوئے حضرت بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی لکھتے ہیں:

‘‘8 ؍ستمبر 1924ء کو ملاقات کے بعد حضرت مصلح موعود نے میرے ہاتھ میںاخبار دیکھ کر فرمایا اخبار آگیا؟ میں نے عرض کیا حضور الحکم ہے۔ فرمایا الفضل نہیں آیا؟ میں نے پٹنی کے دوستوں سے الفضل بھی منگایا ہوا تھا عرض کیا حضور ہے۔ فرمایالاؤ۔ میں تو بہت تلاش میں ہوں چنانچہ وہ پیش کیا اور حضور اسے لے کر کمرہ میں تشریف لے گئے۔

(سفر یورپ 1924ء صفحہ211)

حضور ؓنے خطبہ 29؍جون 1923ء میں فرمایا:

‘‘جمعہ کے وقت سے تھوڑی دیر پہلے میں جو غسل کرنے کے لیے کمرہ میں داخل ہوا تو دروازہ بند کرتے ہوئے الفضل کا ایک ٹکڑا میری آنکھوں کے سامنے آگیا اور وہ اس کا پہلا صفحہ تھا۔ جو دروازہ کے اوپر چسپاں تھا۔ اس کے اوپر ایک عبارت تھی جو خودبخود میری آنکھوں کے سامنے آگئی اور وہ یہ تھی کہ مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔یہ الہام ایک لمبا عرصہ تک الفضل پر لکھاجاتا رہا ہے۔’’

(الفضل 6؍جولائی 1923٫)

حضور ؓنے خطبہ جمعہ 28؍ اگست 1936ء میں فرمایا:

‘‘پچھلے جمعہ میں نے الفضل میں ایک دلچسپ بحث دیکھی اور وہ یہ کہ جماعتِ احمدیہ کاماٹو کیا ہونا چاہیے اس مضمون پر دو دوستوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جو اخبار الفضل میں شائع ہوچکے ہیں اور یہ دونوں اصحاب میرے ماموں ہیں۔ اسی ماٹو کے بارہ میں ایک تیسرا مضمون بھی میری نظر سے گزرا ہے۔ جس کے بارہ میں مجھے ابھی تک یہ علم نہیں ہے کہ وہ اخبار میں بھی شائع ہوا ہے یا نہیں؟’’

(الفضل 26؍ دسمبر 1936ء صفحہ1)

اس کے بعد حضور نے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔

خطبہ جمعہ 18؍نومبر 1938ء میں فرمایا:

‘‘چار دن ہوئے الفضل میں قاضی اکمل صاحب کا ایک مضمون حضرت مسیح موعود کی ایک پیشگوئی کے متعلق شائع ہوا ہے جو تحریک جدید کے ذریعہ پوری ہوئی۔ وہ دراصل ایک پرانا کشف ہے جو حضرت مسیح موعودنے دیکھا۔ یہ رویا حضرت مسیح موعود کو 5ہزار سپاہی ملنے کے متعلق ہے۔’’اس رویا کا ذکر کرنے کے بعد حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

‘‘قاضی صاحب نے لکھا ہے کہ اس رویا کے متعلق میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ یہ تحریک جدید میں قربانیاں کرنے والوں کے ذریعہ پورا ہو رہا ہے۔ چنانچہ میں نے منشی برکت علی صاحب فنانشل سیکرٹری سے پوچھا کہ تحریک جدید کے چندہ میں حصہ لینے والوں کی کس قدر تعداد ہے تو انہوں نے بتایا کہ پانچ ہزار چار سو بائیس۔ چونکہ ہر جماعت میں کچھ نہ کچھ نادہند ہوتے ہیں اس لیے اگر ان کو نکال دیا جائے تو پانچ ہزار ہی تعداد بنتی ہے۔’’(خطبات محمود جلد19صفحہ826)

سلورجوبلی کے جلسے کے موقع پر28؍دسمبر 1939ء کو فرمایا:

‘‘جب سے یہ خلافت جوبلی کی تحریک شروع ہوئی ہے میری طبیعت میںہمیشہ ایک پہلو سے انقباض سا رہتا آیا ہے اور میںسوچتا رہا ہوں کہ جب ہم خود یہ تقریب منائیں تو پھر جو لوگ ‘‘برتھ ڈے’’یا ایسی دیگر تقاریب مناتے ہیں انہیں کس طرح روک سکیں گے۔ اب تک اس کے لیے کوئی دلیل میری سمجھ میں نہیں آسکی اور میں ڈرتا ہوں کہ اس کے نتیجہ میں ایسی رسوم جماعت میں پیدا نہ ہو جائیں جن کومٹانے کے لیے احمدیت آئی ہے۔ …میں یہی سوچتا رہا ہوں کہ ایسا کرتے ہوئے ہم کوئی ایسا روشن دان تو نہیں کھول رہے کہ جس سے شیطان کو حملہ کا موقع مل سکے اور اس لحاظ سے مجھے شروع سے ہی ایک قسم کا انقباض سا رہا ہے کہ میں نے اس کی اجازت کیوں دی اور اس کے متعلق سب سے پہلے انشراح صدر مجھے مولوی جلال الدین صاحب شمس کا ایک مضمون الفضل میں پڑھ کر ہوا جس میں لکھا تھا کہ اس وقت گویا ایک اَور تقریب بھی ہے اور وہ یہ کہ سلسلہ کی عمر پچاس سال پوری ہوتی ہے۔ تب میں نے سمجھا کہ یہ تقریب کسی انسان کے بجائے سلسلہ سے منسوب ہو سکتی ہے اور اس وجہ سے مجھے خود بھی اس خوشی میں شریک ہونا چاہیے۔’’
(خلافت علیٰ منہاج النبوة جلد2صفحہ33)

مجلس مشاورت 1941ء میں فرمایا:

‘‘یہ بھی کہا گیا ہے کہ روزانہ اخبار کی ضرورت نہیں ہفتہ وار ہی کافی ہے۔ اس کے متعلق میں یہ کہوں گا کہ پانچ نمازوں کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے پانچ وقت کی نمازیں کیوں فرض کر دیں جبکہ ہر نماز میںوہی بات دہرائی جاتی ہے، ساری عمر میں ایک ہی نماز کافی تھی۔ ہر دو تین گھنٹے کے بعد نماز کا حکم کیوں دے دیا گیا؟ پس جس طرح اللہ تعالیٰ نے نماز کا تکرار ضروری قرار دیا ہے اسی طرح دین کی باتوں کا تکرار بھی ضروری ہے۔ یہ بات بھی صحیح نہیں کہ مولوی ابوالعطاء کے مضامین کے سوا الفضل میں کام کا کوئی مضمون ہی نہیں ہوتا۔ میں علماء کے مضامین کا اس وقت ذکر نہیں کرتا۔ لاہور کے ایک طالب علم خورشید احمد صاحب کے مضامین بعض اوقات الفضل میں چھپتے ہیں جو بہت اچھے ہوتے ہیں اور میں ہمیشہ ان کو دلچسپی سے پڑھتا ہوں۔ حوالے بھی گو بالکل نئے تو نہیں ہوتے تاہم ایسے ضرور ہوتے ہیں جو عام طور پر مستعمل نہیں ہیں۔ پس یہ بالکل صحیح نہیں کہ مولوی ابوالعطاء کے مضامین کے سوا کوئی اچھا مضمون نہیں ہوتا۔ پھر میر محمد اسحٰق صاحب کا درس حدیث چھپتا ہے۔ اس کی کسی بات سے مجھے اختلاف بھی ہوسکتا ہے مگر اس میں شک نہیں کہ وہ بہت مفید سلسلہ ہے۔ آنحضرت ﷺکے ارشادات اور آپﷺکی زندگی کے واقعات نہایت مؤثر پیرایہ میں اور تکرار کے ساتھ سامنے آتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ علمی اور عملی دونوں لحاظ سے بہت مفید ہے۔’’(خطابات شوریٰ جلد2صفحہ541)

جلسہ سالانہ 1951ء کے دوسرے دن 27؍ دسمبر کو الفضل کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا:

‘‘میں اصل تقریر سے قبل الفضل کی اشاعت کوبڑھانے کی بھی تحریک کرتا ہوں۔اس سال الفضل کا خاتم النبیین نمبر شائع ہوا تھا اور وہ فتنے کے ایام میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے باقی سارے لٹریچر سے زیادہ کامیاب رہا۔ اس کا مضمون ایک تھا۔ مگر اس کے متعلق مختلف پہلوؤں کوجمع کر دیا گیا تھا۔ گویا وہ ایک باغیچہ تھاجس میں مختلف پھل اورپھول جمع کر دیے گئے تھے۔مگر خوبی یہ تھی کہ وہ سب ایک ہی قسم کے تھے۔ چنانچہ ختم نبوت کے مسئلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود کی تحریریں۔ قرآن مجید کی آیات، احادیث نبوی اور ائمہ سلف کے خیالات کو جمع کر دیا گیا تھا تاکہ ہر قسم کی طبائع کو اپنے اپنے مذاق کے مطابق مواد مل سکے۔ جماعتوں کی طرف سے جو اطلاعیں آئیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے بڑے مخالفوں نے بھی مانگ مانگ کر یہ پرچہ پڑھا ہے۔ ان میں سے متعدد نے بعد میں اس خیال کااظہار کیا کہ پہلے ہم احمدیت کو ایک خلاف اسلام تحریک سمجھتے تھے مگر اس نمبر کو پڑھنے سے معلوم ہوا کہ احمدی ا سلام کے یا قرآن کے منکر نہیں ہیں۔ بلکہ دوسرے مسلمانوں سے ان کا اختلاف محض تاویل کا اختلاف ہے۔ متعدد جماعتوں نے خاتم النبیین نمبر کے متعلق لکھا کہ اس کی اشاعت کے بعد مخالفت کی رو بدل گئی۔ پس الفضل کی اشاعت کو بڑھانے کی کوشش کرو۔’’

(الفضل 31؍ دسمبر1952ء صفحہ3)

کئی بار مجالس شوریٰ میں الفضل سے متعلق تجاویز پیش ہوئیں۔ بعض احباب نے جب الفضل پر تنقید کی تو حضور نے جماعت کو الفضل کی مشکلات اور وسائل سے مطلع فرمایا اور ادارہ کو بھی اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی تاکید فرمائی۔

حضور الفضل کے بجٹ پر بھی خصوصی نظر رکھتے تھے۔ مجلس شوریٰ 1937ء میں فرمایا:

‘‘جب میں نے الفضل کے بجٹ کو دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ الفضل کا مالی پہلو خطرناک ہو رہا ہے۔ چونکہ خود میں نے الفضل جاری کیا تھا اس لیے مجھے بھی چھپوائی کا تجربہ ہے اور میں بجٹ کو دیکھتے ہی سمجھ جاتا ہوں کہ اس میں کس جگہ غلطی ہو رہی ہے۔ اسی وجہ سے میں نے الفضل کے بجٹ کی تفصیلات محکمہ متعلقہ سے طلب کیں۔’’پھر حضور ؓنے تفصیل سے بجٹ کے بارہ میں ہدایات دیں۔(خطابات شوریٰ جلد2صفحہ226)

الفضل کی بندش 1953 ٫

1953ء میں جماعتِ احمدیہ کے خلاف فسادات میں ایک ظالمانہ فعل یہ بھی کیا گیا کہ صوبہ پنجاب کی مسلم لیگی حکومت نے 27؍فروری 1953ء کو جماعتِ احمدیہ پاکستان کے واحد روزنامہ الفضل کی اشاعت ایک سال کے لیے جبراً بند کردی۔

الفضل کی بندش پر لاہور ہی سے ہفت روزہ فاروق مکرم مولوی شفیع صاحب اشرف کی ادارت میں جاری کیا گیا تھا۔ یہ اخبار بھی 4؍ مارچ و 11؍ مارچ 1953ء کی دو اشاعتوں کے بعد بندکر دینا پڑا۔ (تاریخ احمدیت جلد15صفحہ489)حضورؓ نے خداتعالیٰ کی تحریک خاص سے 3؍مارچ 1953ء کو جماعتِ احمدیہ کے نام پُرشوکت پیغام دیا۔ جو 4؍ مارچ کو ہفت روزہ فاروق کے صفحہ اول پر جلی قلم سے شائع ہوا اور ملک بھر میں پہنچ گیا۔ فرمایا:

‘‘الفضل کو ایک سال کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ احمدیت کے باغ کو جو ایک ہی نہر لگتی تھی اس کا پانی روک دیا گیا ہے پس دعائیں کرو اور اللہ تعالیٰ سے مددمانگو اس میں سب طاقت ہے ہم مختلف اخباروں میں یا خطوں کے ذریعہ سے آپ تک سلسلہ کے حالات پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں گے اور انشاء اللہ آپ کو اندھیرے میں نہیں رہنے دیں گے۔ آپ بھی دعا کرتے رہیں میں بھی دعا کرتا ہوں، انشاء اللہ فتح ہماری ہے۔ کیا آپ نے گذشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا ہے کہ خداتعالیٰ نے مجھے چھوڑ دیا؟ تو کیا اب وہ مجھے چھوڑ دے گا؟ ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگر وہ انشاء اللہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا سمجھ لو کہ وہ میری مدد کے لیے دوڑا آرہا ہے۔ وہ میرے پاس ہے وہ مجھ میں ہے۔ خطرات ہیں اور بہت ہیں مگر اس کی مدد سے سب دور ہوجائیں گے۔ تم اپنے نفسوں کو سنبھالو اور نیکی اختیار کرو۔ سلسلہ کے کام خدا خود سنبھالے گا۔’’

مجلس خدام الاحمدیہ کراچی نے 15؍جولائی 1950ء سے پندرہ روزہ اخبار المصلح جاری کیا تھا۔ الفضل لاہور کی بندش کے بعد المصلح کراچی کو روزنامہ کی شکل دینے کی کوشش شروع ہوئی جو 29؍مارچ 1953ء کو کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور 30؍ مارچ 1953ء کو اس اخبار کی روزانہ اشاعت کا آغاز ہو گیا۔ اب المصلح کراچی عملاً الفضل کا ہی دوسرا ایڈیشن تھا۔ اس کی اشاعت اور ادارت کے جملہ انتظامات بھی الفضل کا مستعد اور فرض شناس سٹاف ہی انجام دیتا تھا۔ اس کادفتر احمدیہ ہال میگزین لین کراچی میں تھا۔ ابتداء میں یہ کلیم پریس لارنس روڈ، بعدازاں علی پرنٹنگ پریس اور پھر آرمی پریس میں چھپتا رہا اور 31؍ مارچ 1954ء تک یعنی الفضل کے دوبارہ اجرا تک نہایت باقاعدگی سے روزنامہ کی شکل میں شائع ہوتا رہا۔(تاریخ احمدیت کراچی جلد2صفحہ169)

اس کے علاوہ بھی الفضل کو متعدد بار بندش اور دیگر ظلموں کا نشانہ بنایا گیا۔ چنانچہ 1984ء میں 4سال، 1990ء میں 2ماہ بند رہا۔2005ء اور 2006ء میں بھی ایسے ہی اقدامات کیے گئے۔ 5؍ دسمبر 2016ء سے الفضل ربوہ پھر بند کر دیا گیا مگر الفضل جسے ایک ملک میں پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا اسے خدا نے عالمی شہرت عطا کی اور 1994ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابع نے لندن سے ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل کا اجرا فرمایا جو 27؍مئی 2019ء سے ہفتہ میں دو بار چھپتا ہے۔اسی طرح 13؍دسمبر 2019ء سے الفضل کا ڈیلی آن لائن ایڈیشن (www.alfazlonline.org)بھی جاری ہو چکا ہے۔

الفضل انٹرنیٹ پر

الفضل کی تاریخ میں ایک نہایت اہم موڑ اس وقت آیا جب اسے انٹرنیٹ سے منسلک کیا گیا۔ چنانچہ 3؍اکتوبر 2002ء سے الفضل کے تمام شمارے جماعت کی مرکزی ویب سائٹ اور الفضل کی اپنی ویب سائٹ www.alfazl.comپر میسر ہے اور یہ روحانی نہر تمام دنیا کو سیراب کرتی ہے۔ ساری دنیا میں بیک وقت الفضل پڑھنے کو ملتا ہے۔ اس طرح حضرت مصلح موعودؓ کا خواب، آپ کے خیالات اور امنگوں کا ترجمان اور خلافت احمدیہ کی آواز آج اپنی دوسری صدی میں رواں دواں ہے۔ اللہ تعالیٰ الفضل کا یہ سفر اور خدمات سدا جاری رکھے۔ آمین۔

آپ پڑھ سکتے ہیں انٹرنیٹ کے ذریعے بھی اسے

صفحۂ برقی پہ ہر پل ضو فشاں ہے الفضل

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button