سنتِ نبویؐ اور سیرت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عکس حضرت مصلح موعودؓ کی حیاتِ طیبہ سے کچھ یادیں کچھ باتیں
٭…بچپن میں ہوش سنبھالنے کے ساتھ ہی جس طرح ماں باپ ، بہن بھائیوں اور دوسرے عزیزوں کے ہونے کا احساس ہوتا ہے اسی طرح ہمیں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی موجودگی اور آپ کے وجود کا احساس بھی بہت چھوٹی عمر سے ہے۔ ہمیشہ جب ہم چھٹیوں میں قادیان آتے تھے تو ہمیں خاص طور پر حضور کی خدمت میں ملانے کے لیے لے جایا جاتا تھا اور جب کبھی حضور اس شہر میں تشریف لاتے جہاں ہم رہتے تھے تو حضور ہمارے گھر قیام فرماتے اور اگر کہیں اور بھی قیام پذیر ہوتے تو ملنے کے لیے ضرور ہمارے گھر بھی تشریف لایا کرتے تھے۔
٭…سب سے پہلا واقعہ جس میں حضور کے ساتھ میرا براہ راست تعلق ہوا میرے نام کی تبدیلی کاواقعہ ہے۔ ابّاجان نے میرے بڑے بھائی مرزا سعید احمد صاحب کی وفات پر حضور سے پوچھ کر میرا نام سعید رکھا تھا لیکن حضور نے اس کی اجازت صرف ابّاجان کی جذباتی کیفیت کے پیش نظر دی تھی۔ … 1944ء میں جب ہم ملتان میں رہتے تھے حضرت صاحب سندھ جاتے ہوئے کچھ دن کے لیے ہمارے گھر ٹھہرے۔ مَیں اور میری بڑی بہن جب سکول سے واپس گھر آئے تو حضور تشریف لائے ہوئے تھے۔ مجھے اب تک یاد ہے جب میں حضور کی خدمت میں سلام عرض کرنے کے لیے حاضر ہوا تو ا س وقت حضور ایک آرام کرسی پر تشریف فرما تھے۔ میں نے سلام عرض کیا۔ سلام کے جواب کے بعد حضور نے مجھے فرمایا ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام پرتمہارا نام احمد رکھتے ہیں۔ تم لکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام کے الفاظ ساتھ لکھ لیا کرنا۔ نیز فرمایا کہ ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گزرے ہوئے اتنا وقت نہیں ہوا کہ ہم بے تکلفی کے ساتھ آپ کا نام لے سکیں۔ شاید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام پر نام رکھتے ہوئے حضور کے پیش نظر یہ بات بھی ہو کہ اس طرح ابّاجان زیادہ محسوس نہ کریں گے۔
٭…1945ء میں ابّاجان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہم رہائش کے لیے قادیان آ گئے اور 1947ء کی ہجرت تک وہاں پرہی قیام پذیر رہے۔ ایک دفعہ گرمیوں کے موسم میں جب حضور ڈلہوزی تشریف لے گئے تو مجھے اور میری بڑی بہن کو ساتھ جانے کاموقعہ ملا۔ ابّاجان اور اُمّی قادیان میں ہی رہے۔ وہاں قیام کے دوران ایک دفعہ حضور ایک دو روز کے لیے قادیان تشریف لے جا رہے تھے اور ہم سب بیت الفضل سے جو حضور کی کوٹھی تھی حضور کو رخصت کرنے کے لیے ایجنسی تک جا رہے تھے۔ ڈلہوزی میں ایجنسی وہ جگہ تھی جہاں موٹریں کھڑی کر دی جاتی تھیں۔ باقی شہر میں موٹریں لے جانے کی اجازت نہ تھی۔ میری بہن نے حضور کے ساتھ قادیان جانا تھا۔ مجھے یاد ہے راستے میں چلتے چلتے حضور مجھ سے بات کرنے لگے اور مجھے پوچھا قادیان چلنا ہے؟ پھر خود ہی فرمایا کہ تم اپنے کپڑے تو ساتھ لائے ہی نہیں، پہنو گے کیا؟ پھر مذاقاً فرمانے لگے چلو میری شلوار پہن لینا۔ اس طرح میں بھی حضور کے ساتھ حضور کی موٹر میں ہی بیٹھ کر قادیان آ گیا۔ مجھے یاد ہے کہ رات ہم سوئے ہوئے تھے صبح صبح غالباً فجر کی نماز کے فوراً بعد کا وقت ہو گا کہ آوازوں سے میری آنکھ کھلی تو میں اُٹھا اور جس کمرے سے آواز آ رہی تھی ادھر گیا تو میں نے دیکھا کہ حضور تشریف فرما ہیں اور ان کی گود میں ایک بچہ ہے۔ اُس وقت مجھے پتہ چلا کہ رات بہن پیدا ہوئی ہے جس کو دیکھنے کے لیے حضور صبح صبح تشریف لائے ہیں۔
٭…ڈلہوزی کا ذکر آیا ہے تو ایک اور واقعہ بھی یاد آتا ہے۔ اس سفر سے پہلے کی بات ہے حضور ڈلہوزی میں قیام پذیر تھے۔ حضرت اماں جان بھی حضور کے ساتھ تھیں اس وقت حضور کا قیام ایک کوٹھی میں تھا جس کانام راشمی تھا۔ ہم اپنی امّی کے ساتھ ڈلہوزی گئے میری بہن اور بھائی خورشید بھی ساتھ تھے اور حضرت اماں جان والے کمرے میں ٹھہرے۔ ناشتہ اور کھانا حضرت صاحب کا ہی ہوتا تھا۔ ہمارے جانے پر یہ کہنے کے بجائے کہ میرے مہمان آ گئے ہیں ناشتہ کا سامان زیادہ درکار ہو گا۔ اماں جان نے حضرت صاحب کو یہ کہلا بھیجا کہ میاں میرا گزارہ ایک ڈبل روٹی میںنہیں ہوتا زیادہ سامان بھجوایا کرو۔ یہ حضرت اماں جان کی مہمان نوازی کی صفت تھی۔ یہ نہیں کہا کہ ہمارے مہمان آگئے ہیں۔ امّاں جان کی مہمان نوازی کا یہی طریق تھا جو حضرت صاحب میں بھی پایا جاتا تھا۔ مہمان کے جذبات کا بہت زیادہ احساس آپ کو ہوتا تھا او رنہایت لطیف طریق پر آپ مہمانوں کے جذبات کا خیال فرماتے تھے۔
٭… پچھلی دفعہ بھائی خورشید نے جو واقعہ سنایا تھا وہی واقعہ میں آپ کو سنادیتا ہوں کیونکہ آپ میں سے بہت سارے اس وقت شاید موجود نہ ہوں۔ تقسیم ہند کے بعد کی بات ہے۔ قادیان سے آنے کے بعد خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے سارے افراد لاہور میں قیام پذیر ہوئے۔ حضور کے قادیان سے تشریف لانے سے قبل ہمارا قیام جودھامل بلڈنگ میں تھا۔ جب حضور بھی تشریف لے آئے تو ہم جودھامل بلڈنگ کے سامنے رتن باغ میں مقیم ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سارا خاندان اور دیگر افراد جماعت بالکل تہی دامن ہو کر قادیان سے نکلے تھے اور سب کے ذرائع آمد قادیان میں ہی رہ گئے تھے۔ ان حالات میں خاندان کے تمام افراد حضرت صاحب کے مہمان تھے اور سب حضور کے دسترخوان پر ہی کھانا کھاتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوں جوں خاندان کے افراد کا انتظام ہوتا گیا اور ذرائع آمد میسر ہوئے لوگوں نے اپنا کھانے کا انتظام خود کرنا شروع کیا۔ امّی بتایا کرتی تھیں کہ ہمارا بھی کوئی انتظام نہ ہو سکا اور آمد کی صورت نہ تھی۔ اس لیے مجھے اور تمہارے ابّا جان کو بہت گھبراہٹ تھی اور شرم بھی آتی تھی کہ سب لوگ اپنا انتظام کر رہے ہیں اور ہم مجبور ہیں کہ حضرت صاحب پربوجھ بنے ہوئے ہیں۔ امّی کہتی تھیں کہ میں نے اس بات کا کسی سے ذکر نہیں کیا تھا لیکن دل ہی دل میں شرمندگی محسوس کرتی تھی کہ ایک دن حضرت اماں جان تشریف لائیں اور فرمانے لگیں کہ لڑکی! میاں (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی) نے مجھے بھیجا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس وقت سب لوگ مجھے چھوڑ رہے ہیں تم نہ مجھے چھوڑنا۔امّی کی طرف سے کسی اظہار کے بغیر حضور نے خود ہی ہماری تکلیف کا احساس کیا اور اس تکلیف کو ایسے لطیف طریق پر دور کیا کہ جس سے عزت نفس بھی مجروح نہ ہو۔ خود بھی بات نہیں کی امّاں جان کو بھجوایا اور ایسے رنگ میں اور ان الفاظ میں پیغام بھجوایا کہ گویا حضور کا احسان ہم پر نہیں بلکہ ہم حضور کے دستر خوان پرکھانا کھا کر ان پر کوئی احسان کر رہے ہیں۔ حضرت صاحب کی ذات کا یہی حسن تھا جو بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے دلوں کو بھی موہ لیتا تھا اور بچے بھی آپ کی جانب کھنچے چلے جاتے تھے۔
٭…انہی دنوں کا ایک اور چھوٹا سا واقعہ بھی سن لیں۔ تقسیم کے بعدحضرت صاحب کے ذرائع آمد بھی محدود تھے اوپر سے سارے خاندان کے کھانے کا خرچ بھی حضرت صاحب پر تھا۔ ابتدا میں حضور نے فیصلہ فرمایا تھا کہ ہر آدمی کو ایک روٹی ملے گی۔ ایک دفعہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی ایک صاحبزادی امتہ الباری بیگم جو نواب عباس احمد خان کی بیگم ہیں، حضور کو دبا رہی تھیں۔ حضور نے آپا باری سے کہا: باری! کیا کمزوروں کی طرح دبا رہی ہو تمہارے ہاتھوں میں طاقت نہیں ہے۔ آپا باری کہنے لگیں ‘‘چچا ابّا اِک روٹی نال تے اَینی طاقت آ سکدی اے’’۔ اس واقعہ یا لطیفہ کے بعد پھر ایک کی بجائے دو روٹی ہر ایک کو ملنے لگی۔
٭…قادیان کی ایک بات رہ گئی۔ایک دفعہ حضرت صاحب نے تحریک فرمائی کہ احمدی اپنے ہاتھ سے کام کر کے کچھ کمائی کریں اور جو آمد ہو اسے چندہ میں دے دیں۔ حضور کے اس حکم پر قادیان کے اکثر وبیشتر احمدیوں نے کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کی۔ بڑوں کو دیکھ کر بچوں کوبھی شوق ہوا۔ چنانچہ میں نے بھی کسی سے کتابوں کی جلد سازی سیکھی تا کہ جلدیں کر کے کچھ چندہ دیا جا سکے۔ امّی نے کہیں حضرت صاحب سے ذکر کر دیا۔ میری عمر اس وقت کوئی چھ ساڑھے چھ سال ہو گی۔ حضرت صاحب نے ایک بچے کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنی بے انتہا مصروفیات میں سے وقت نکالا اور ایک دن مجھے اپنے دفتر بلایا۔ مجھے یا دہے مرحوم لطیف ننھا صاحب مجھے لینے آئے۔ مجھے اب تک یاد ہے ان کے ساتھ جاتے ہوئے میں اپنے آپ کو نہایت اہم تصور کر رہا تھا۔ حضور اپنے دفتر کے نیچے قائم خلافت لائبریری میں تشریف لائے اور نہایت سنجیدگی کے ساتھ مجھے کچھ کتابیں دکھا کر پوچھا کہ ان کی کیا اُجرت لوں گا۔ مجھے یاد ہے کہ اخبار الفضل کی جلد کے لیے خاکسار نے 12 روپے مانگے تھے جس پر حضرت صاحب نے فرمایا یہ تو بہت زیادہ ہیں ہم تو اس سے بہت کم میںجلد کراتے ہیں۔ جس بات کا میرے پر اب تک اثر ہے وہ یہ ہے کہ سارا وقت جس میں حضرت صاحب مجھے کتابیں دکھا رہے تھے ایک دفعہ بھی مجھے یہ تاثر نہیں ہوا کہ یہ ایک مذاق یا بچے کو بہلانے کی بات ہے۔ حضور نے ایسا سنجیدہ رویہ اختیار فرمایا تھا کہ جیسے کسی بڑے شخص کے ساتھ معاملہ طے فرما رہے ہوں۔
٭…1949ء میں ہم ربوہ آ گئے۔ ہمارے ربوہ آنے کے د وایک ماہ بعد حضور بھی ربوہ تشریف لے آئے۔ دوسرے لوگوں کی طرح حضور کا رہائشی مکان بھی کچا تھا۔باقی مکانوں سے صرف اتنا فرق تھا کہ حضور کے لیے بالائی منزل بنائی گئی تھی جس میں حضور رہائش پذیر ہوئے اور 1953ء تک جب تک قصر خلافت کی پختہ عمارت نہیں بن گئی وہاں ہی مقیم رہے۔ یہ عرصہ حضور نے کچے مکان میں اور بغیر بجلی کے گزارا تھا بلکہ بجلی تو پختہ قصر خلافت میں منتقل ہونے کے بھی ایک سال بعدآئی ہے۔ ان حالات میں بغیر آرام اور راحت کے معمولی سامانوں مثلاً بجلی، پانی اور فلش والے غسلخانوں کے بغیر خاندان اور جماعت کے لوگوں کا رہنا صرف اسی لیے ممکن ہوا کہ حضور بھی ان حالات میں ربوہ میں مقیم تھے۔
آج آپ سوچیں کہ بجلی بند ہوتی ہے تو ہم شور مچا دیتے ہیں۔ اس وقت بجلی ہوتی ہی نہیں تھی۔ ہر چیز میں مٹی ہوتی تھی ۔ بالوں میں مٹی پڑ جاتی تھی جس کو صاف کرنے کے لیے پانی بھی کم ہوتا تھا۔
٭…حضور کے ربوہ تشریف لانے کے جلد بعد کی بات ہے ہمارے بڑے بہنوئی صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب نے سرگودھا میں وکالت کی پریکٹس شروع کی۔ ایک دفعہ ابّاجان، امّی اورمیری بہنوں کے ساتھ ان کے پاس چند دن کے لیے سرگودھا گئے ہوئے تھے۔ مَیں ربوہ میں ہی تھا۔ ایک دن ڈاک میں مجھے ایک خط ملا جس کے لفافہ پر میرا نام تھا۔ جب مَیں نے خط کھولا تو اندر ابّاجان کا حضرت صاحب کے نام خط تھا۔ مَیں نے دیکھ کر رکھ لیا اور سوچاکہ شام کو جا کر حضرت صاحب کو دے آئوں گا۔شام کو جب مَیں خط لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو مَیں نے دیکھا حضو ر دوسری منزل پر اپنے گھر کے برآمدے میں کھڑے تھے۔ مجھے داخل ہوتے دیکھ کر حضور نے اُوپر سے ہی مجھے آواز دی کہ احمد! تم کہاں غائب تھے مَیں صبح سے تمہیںتلاش کررہا ہوں۔ ہوا یہ تھا کہ ابّاجان نے ایک خط حضرت صاحب کے نام لکھا تھا اور ایک میرے نام۔ جب خط لفافوں میں ڈالے تو میرے خط کے لفافے پر حضرت صاحب کانام اور پتہ لکھ دیا اور حضرت صاحب کے خط کے لفافے پرمیرا نام لکھ دیا۔ اس طرح میرا خط حضرت صاحب کو مل گیا۔ اس خط میں ابّاجان نے بعض اجناس اور گڑ شکر کا لکھا تھا کہ گھر سے لے کر سرگودھا پہنچ جائوں۔ یہ خط حضرت صاحب کو ملا اور حضرت صاحب کو مَیںجب نہ ملا تو حضور نے میرا مزید انتظار کرنے کی بجائے یہ خیال کر کے کہ پتہ نہیں کیا حالات ہیں اور کیا ضرورت پیش آ گئی ہے فوری طور پر ان تمام چیزوںکا بندوبست کروایا اور میاں عبدالرحیم احمد صاحب کو وہ تمام چیزیں دے کر سرگودھا بھجوا دیا۔
٭…یہ طریق عمل صرف وہی اختیار کر سکتا ہے جس کو دوسرے کی ضرورت اور مشکل کا احساس ہو ورنہ عام آدمی ہوتا تو یہ سوچ کر کہ جس کا خط ہے وہ خود آ کر لے جائے گا اور پھر چیزیں بھجواتا رہے گا۔لیکن حضور کی طبیعت میںدوسروں کا خیال کرنا، دوسرے کی تکلیف کا احساس کرنا اور دوسرے کی ضرورت کو پورا کرنے کا جذبہ اتنا فوری تھا کہ حضور یہ برداشت ہی نہ کرسکتے تھے کہ اس انتظار میں رہتے کہ میں آ کر اپنا خط لے جائوں۔
٭…باتوں باتوں میں مَیں واقعات کے بیان میں ترتیب نہیں رکھ سکا۔ ایک واقعہ تقسیم ہند کے کچھ عرصہ بعد کا جب ابھی حضرت صاحب بھی اور ہم لوگ بھی رتن باغ میں مقیم تھے، یاد آگیا۔جمعہ کا دن تھا اور جمعہ اس زمانے میں رتن باغ کے عقبی حصے میں ایک بہت بڑا باغ تھا وہاںہوتا تھا۔ جمعہ کے وقت رتن باغ کے ایک دروازے سے حضور جمعہ پرجانے کے لیے نکلے۔ دوسرے دروازے سے مَیں نکلا۔ میری عمر اس وقت ساڑھے آٹھ سال کے قریب تھی۔ حضرت صاحب نے دیکھا کہ میں نے نکّر پہن رکھی ہے اور نماز پڑھنے جا رہا ہوں۔ مجھے دیکھتے ہی حضرت صاحب نے مجھے ڈانٹا کہ جمعہ پڑھنے جا رہے ہو اورنکّر پہنی ہوئی ہے اور تمہارے گھٹنے ننگے ہیں؟ حضرت صاحب نے یہ خیال نہیں کیا کہ چھوٹی عمر ہے اس لیے کچھ نہ کہا جائے بلکہ تربیت کے نقطہ نظر سے فوری طور پر مجھے ٹوک کر توجہ دلائی۔
٭…تربیت کے بارے میں حضور بہت حساس تھے۔ بہت بعد کی بات ہے جب میں نے ایم اے کرنے کے بعد وقف کیا تو وقف قبول فرماتے ہوئے حضور نے مجھے ارشاد فرمایا تھا کہ قرآن کریم اور حدیث کا علم حاصل کروں۔ اگرچہ میں گھر میںاور ٹی، آئی سکول میں قرآن کریم کا ترجمہ مکمل کر چکا تھا۔ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں تفسیرکبیر کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ دوبارہ مکرم مولانا محمد صادق صاحب سے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا اور صحیح بخاری اپنے ماموں مکرم سید دائود احمد صاحب سے اور موطاامام مالک مکرم مولانا محمد احمد ثاقب سے پڑھی۔
اس بات کا ذکر میںاس لیے کر رہا ہوں کہ یہاں واقف زندگی بھی بیٹھے ہیں اور وہ لوگ بھی ہیں جو عملی طور پر دین کی خدمت کے لیے وقف ہیں ان کو بھی حضور کی نصیحت پر عمل کرنا چاہیے اور کام کے ساتھ ساتھ قرآن وحدیث کا علم حاصل کرنا چاہیے۔
٭جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں حضرت صاحب نے قرآن کریم کا مختصر نوٹس کے ساتھ ترجمہ تفسیر صغیر کے نام سے کیا ہے۔ یہ ترجمہ پہلی بار 1957ء میںشائع ہوا۔ 1954ء میں ایک بدبخت نے حضور پر حملہ کیا تھا اور حضور زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملہ کے بعد حضور کا بیشتر وقت صحت کی کمزوری کی حالت میں گزرا تھا۔ اسی کمزوری اور بیماری کی حالت میں ہی حضور نے قرآن کریم کا ترجمہ کیا تھا۔ گرمیوں کے دنوں میں حضور بعض دفعہ جابہ جو وادی سون سکیسر میں ایک مقام ہے اور اونچائی پر ہونے کی وجہ سے نسبتاً ٹھنڈا ہے، تشریف لے جاتے تھے اور وہاں ترجمہ کا کام جاری رہتا تھا۔ ایک مرتبہ مجھے بھی ایک ماہ سے کچھ زیادہ عرصہ حضور کے ساتھ وہاں رہنے کا موقع ملا تھا۔ اس وقت حضور کے ساتھ چھوٹی آپا اور مہر آپا اور حضور کے ایک صاحبزادہ کے علاوہ صرف مَیںہی تھا۔ مجھے یاد ہے کہ صبح ناشتہ کرنے کے بعدحضور ترجمہ کا کام شروع فرماتے تھے۔اس وقت حضور کس طرح کام کرتے تھے۔ صبح آٹھ بجے ناشتہ کے بعد یا ساڑھے آٹھ بجے تک بہرحال دفتر چلے جاتے تھے۔وہاں مولوی ابوالمنیرنورالحق صاحب ہوتے تھے اور حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب بھی اکثر ہوتے تھے اور سارا دن کام کرتے تھے۔ گھر میںکہا یہ ہوا تھا کہ ڈیڑھ بجے مجھے کھانے کے لیے توجہ دلا دو۔ ایک آدمی جاتا تھا۔ حضرت صاحب کام کرتے رہتے تھے۔ عام طور پر یہی ہوتا تھا کہ وہ کام مسلسل جاری رہتا حتّٰی کہ ساڑھے تین چار بج جاتے تھے۔اس وقت حضرت صاحب وہ کام بند کرتے تھے۔ پھر نمازیں جمع ہوتی تھیں، پھر کھانے پہ آتے تھے۔ اب ہمیں بھوک بہت لگتی تھی کہ حضرت صاحب تو شام ہو جاتی ہے کھانا ہی نہیں کھاتے، ہم کیا کریں۔ وہاں اِن دنوں گرمیوں میں آپ کو پتہ ہے آم بھی ہوتا ہے۔ آم حضرت صاحب کے سندھ کے باغ سے آتے تھے۔ حضرت صاحب آم کے معاملے میںجس طرح بھائی خورشید کو بھی پتہ ہے، خود پیٹی کھولتے تھے، خود ان کونکالتے تھے اور گریڈنگ کرتے تھے، پھر جو کھانے والے ہوتے تھے، وہ رکھواتے تھے۔ کھانا ہم نے حضرت صاحب کے ساتھ کھانا ہوتا تھا۔ ہم نے یعنی میں نے اور حضور کے صاحبزادے نے جو وہاں تھے، اس کا حل یہ نکالا کہ حضور کے سندھ کے باغ سے جو آم آتے ہم دونوں وہ کھاتے رہتے تھے اور بعض اوقات اتنے آم کھا لیتے تھے کہ پھر کھانا نہیںکھایا جاتا تھا۔ دو تین روز حضرت صاحب نے ہمیںدیکھا کہ ہم کھانا ٹھیک طرح نہیں کھا رہے تو فکر مند ہوکر چھوٹی آپا سے فرمایا کہ یہ دونوں کھانا نہیں کھاتے۔ کیا پسند نہیں آیا؟ جو آم آتے تھے حضور ان کی پیٹیاں خود کھلواتے تھے اورآم پیٹی سے نکالتے تھے دوسری طرف حضرت صاحب نے یہ نوٹ کیا آم کم ہوتے جاتے ہیں۔ اس طرح حضرت صاحب کو پتہ چلا کہ دراصل ہم کھانے سے پہلے آم کھا کھا کر پیٹ بھر چکے ہوتے ہیں تو تب حضرت صاحب کی فکر دور ہوئی۔
٭…جابہ میں جو جگہ حضرت صاحب نے اپنے قیام کے لیے چنی تھی اور جہاںحضور نے اپنی کوٹھی اور صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے کچھ کوارٹر بھی بنوائے تھے کانام حضور نے نخلہ رکھا تھا۔ حضرت صاحب کی عادت تھی کہ جہاں جاتے سارے خاندان کو بلا لیتے اور خاندان کے ان گھرانوں کو جو اپنے طور پر پہاڑ پر نہ گئے ہوں، انہیں ہمیشہ اپنے ساتھ لے جاتے اور اصرار کرکے لے جاتے اور لوگوں کی تعداد سے حضرت صاحب کو کوئی گھبراہٹ نہ ہوتی۔ جو بھی ہوتا اس کو بلا لیتے تھے۔ حضرت میاں بشیر احمد صاحب کو اصرار کر کے بلاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب کو تقریباً زبردستی بلایا تھا۔ میاں صاحب کی عادت تھی کہ گھر سے نہیںنکلنا۔ وہ صرف حضرت صاحب کے حکم کی وجہ سے وہاں جاتے۔
٭…نخلہ کا ہی واقعہ ہے ایک بار خاندان مسیح موعود کے بہت سے افراد گرمیوں کے ایام میں وہاں جمع تھے اور سب حضور کے مہمان تھے۔ ایک روز خاندان والوں نے پکنک منانے کے لیے کلر کہار جانے کا پروگرام بنایا۔ حضور کے ساتھ صرف حضرت چھوٹی آپا، حضرت مہر آپا اور مکرم میر دائود احمد صاحب رہ گئے اور مجھے اور حضور کے ایک صاحبزادہ کو وہ اس لیے نہ لے کر گئے کہ موٹروں میں جگہ نہ تھی۔ ہم دونوں کو اس بات پر بہت غصہ تھا۔ دوپہر کو کھانے کی میز پر حضور کو احساس ہو گیاکہ ہمیں پکنک پر ساتھ نہ جانے کا رنج ہے۔ حضور نے ہم دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں لے کرنہیں گئے؟ اچھا میں تم دونوں کو کل پکنک پر لے جائوں گا اور یہ لوگ تو صرف کلر کہار گئے ہیں مَیں تمہیں کلرکہار کے علاوہ چواسیدن شاہ بھی لے جائوں گا اور جو آج گئے ہیں وہ کل نہیں جائیں گے۔اگلے روزصبح صبح حضرت چھوٹی آپا نے ہم دونوں کو بلایا اور کہا حضرت صاحب کہتے ہیں کہ مبارکہ بیگم یعنی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کل بھی پکنک پر گئی تھیں اگر تم لوگ کہو تو انہیں بھی آج لے جاتے ہیں۔ ہمیں اس پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ حضور نے چونکہ ہمیں یہ کہا تھا کہ جو پہلے ہو آیا ہے وہ دوبارہ نہیں جائے گا اس لیے ہم سے پوچھنا ضروری سمجھا۔ چنانچہ حضور ہمیں لے کر کلر کہار اور چواسیدن شاہ گئے اور سارا دن وہاں گزار کر شام کو واپس آ ئے۔
٭…جیساکہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ حضور تمام موقعوں پرسارے خاندان کو ساتھ لے کر چلتے تھے خواہ وہ سیر وتفریح کی تقریبات ہوں یا جماعتی مواقع۔ مجھے یاد ہے 3؍اکتوبر 1949ء کو ربوہ مسجد مبارک کی بنیاد رکھی گئی۔ معلوم نہیں کس وجہ سے ابّاجان اس روز ربوہ میں موجود نہ تھے۔نہ بھائی خورشید یہاں تھے۔ حضرت صاحب ابّاجان کو اس تاریخی موقع پر شامل کرنا چاہتے تھے۔ صرف ابّاجان کو شامل کرنے کے لیے حضرت صاحب نے مجھے بھی مسجد کی بنیاد رکھنے کی اس تقریب میں شریک کیا اور خود ہی ابّاجان کی طرف سے چندہ کی رقم بھی لکھوادی ۔ یہ بھی حضرت صاحب کا ایک خاص وصف تھا کہ اپنے عزیزوں کو نیک کاموں میںشریک کرنے کی بہت خواہش حضور کو ہوتی تھی۔اس کی ایک مثال میرے ایک بڑے بھائی مرزا مبارک احمد مرحوم کی وصیت کامعاملہ ہے۔1942-43ء کی بات ہے وہ بیمار تھے اور بہت بیمار تھے اور امرتسر میںہسپتال میںسینی ٹوریم میں زیر علاج تھے۔ حضرت صاحب قادیان سے تشریف لائے۔ ان کو پوچھنے کے لیے وصیت فارم اپنے ساتھ لے کر آئے لیکن اپنی طبیعت کے باعث کہہ نہ سکے کہ وصیت فارم پر کر دو تو جاتے ہوئے امّی کو دے گئے کہ یہ وصیت فارم پر کروا کر قادیان بھیج دو۔ اس طرح عزیزوں رشتہ داروںکوشامل کرتے تھے۔
(اس موقع پر مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب نے کہا:‘‘اس کا اگلا حصہ یہ ہے کہ ہماری والدہ کو کہہ گئے نصیرہ بیگم! مجھے ہمت نہیں ہوئی مبارک کو یہ فارم دینے کی تم پر کر کے بھجوا دو تو بعد میں ہماری والدہ نے وہ فارم بھجوا دیا۔ حضور نے وہ فارم نظارت بہشتی مقبرہ بھجوایا۔ اس وقت حضرت مولوی سرور شاہ صاحب سیکرٹری بہشتی مقبرہ تھے تو اس پر حضرت مولوی سرور شاہ صاحب نے وہ فارم واپس کیا اور عرض کیا کہ حضور یہ مرض الموت کی وصیت ہے۔ مرض الموت کی وصیت تو قابل قبول نہیں ہے۔ ان کو پتہ تھا کہ بڑا ہی شدید بیمار ہیں۔ ٹی، بی تھی ان کو اور آخری Stageتھی۔ حضور نے اصولی طور پر ان کا یہ موقف قبول فرمایا اور اس پر کہ میں نے فارم بھیجا ہے اور آپ نے واپس کر دیا ہے، کچھ نہیں کہا۔ لیکن جب ہمارے بھائی کی وفات ہوئی تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ ان کی بہشتی مقبرہ میں تدفین کی جائے۔ خلیفۃ المسیح کو یہ اختیار ہے۔ تو حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب نے بھی یہی ارشاد فرمایا کہ ہاں اب آپ کو اختیار ہے’’۔)
٭…مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ سلسلہ کاایک خادم خاندان ہے، ان کے کسی فرد کے متعلق حضرت صاحب نے ایک اعلان لکھا کہ یہ الفضل میں شائع ہوجائے۔ مجھے حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے بلایا اور فرمانے لگے کہ خلیفہ وقت کی طرف سے جو ڈانٹ پڑتی ہے اس میں بڑی برکت ہوتی ہے۔ مجھے بات سمجھ نہ آئی کہ میرا اس سے کیا تعلق ہے ۔لیکن مجھے اچھی طرح سمجھا کر ساتھ ہی فرمایا کہ بعض دفعہ جو ڈانٹ کھا رہا ہوتا ہے یہ ڈانٹ اس کے لیے نہیں ہوتی کسی اور کے لیے ہوتی ہے۔میاں صاحب کی عادت تھی کہ وہ اپنی بات بڑے اطمینان سے پوری کرتے تھے اور ان کو جلدی نہیں ہوتی تھی۔ تو میاں صاحب نے مجھے پہلے تو سمجھایا اور پھر فرمانے لگے کہ یہ خط حضرت صاحب کے پاس لے جائو اور تمہیں اس کے اوپر ڈانٹ پڑے گی۔ خیر میں وہ خط لے گیا، صبح کا وقت تھا۔ یہ حضور کی بیماری کے ایام کاواقعہ ہے۔ حضرت صاحب ناشتہ تھوڑا لیٹ کیا کرتے تھے۔ میں گیا تو حضرت صاحب ناشتہ کر رہے تھے۔ چھوٹی آپا تشریف رکھتی تھیں۔ میں نے جا کر وہ خط دے دیا اور پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ خیر وہ جس طرح میاں صاحب نے کہا تھا مجھے سخت ڈانٹ پڑی ‘‘یہ لے جائو واپس’’۔ میں خط واپس لے آیا۔ واپس آ کے مَیں میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور میںنے کہا کہ حضرت صاحب نے تو بڑا ڈانٹا ہے۔ میاں صاحب نے کہا کہ بیٹھ جائو اور کہنے لگے کہ میں دوبارہ ایک خط لکھ رہا ہوں، یہ تم لے جائو۔ میں نے کہا میں نے نہیں لے کے جانا اَور ڈانٹ پڑے گی۔ میاں صاحب نے کہا کہ نہیں نہیں یہ لے کے جانا، تمہیں توڈانٹ نہیں پڑی۔ مجھے ڈانٹ پڑی ہے۔ خیر میں انکار بھی نہیں کر سکتا تھا۔ پھر دوبارہ میں لے گیا۔ پھردوبارہ ڈانٹ پڑی۔ پھر میں واپس آیااور عرض کیا کہ عمّو صاحب اب تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ میںجائوں۔ لیکن میاں صاحب نے پھر مجھے اصرار کر کے بھیج دیا۔ تیسری دفعہ حضرت صاحب نے چھوٹی آپا کو فرمایا کہ جس طرح میاں بشیر کہتے ہیں اسی طرح لکھ دو۔ اصل میں یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ اس سے یہ مطلب نہیں تھا کہ حضرت صاحب کی پہلی بات غلط تھی۔ جہاں خلیفہ وقت اپنی بات بدلتا ہے وہاں اس کوپتہ ہوتا ہے کہ جو مشورہ دینے والا ہے وہ درست مشورہ دے رہا ہے۔
٭…سب سے بڑی بات جو میں نے حضرت صاحب میں محسوس کی اور میرا خیال ہے بھائی خورشید اس کی تائید کریں گے وہ یہ تھی کہ بچپن میں بھی ہمیںکبھی احساس نہ ہوا تھا کہ حضرت صاحب ہم سے اپنے بچوں پوتے پوتیوں سے سلوک میں کچھ فرق کرتے ہیں۔ یہ تو حقیقت ہے کہ طبعی طور پر بہرحال حضور کو بھی دوسرے انسانوں کی طرح اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں سے بہت تعلق ہو گا۔ لیکن جہاں تک ظاہری سلوک کا تعلق ہے میں نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا کہ ان کومجھ پر کوئی ترجیح حضرت صاحب نے دی ہو۔ یہی معلوم ہوتا تھا کہ ہمارا بھی حضرت صاحب پر اسی طرح حق ہے جس طرح ان کے اپنے بچوں کا۔ یہ حضور کے مزاج کا ایک ایسا پہلو ہے جو بہت کم لوگوں میںپایا جاتا ہے۔ کم از کم میں نے تو کسی اور میں یہ بات نہیں دیکھی۔
(اس موقعہ پر مرزا خورشید احمد صاحب نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ
‘‘ایک بار میری والدہ نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور میری بیٹی روحی کا قد چھوٹا ہے کوئی دوا دیں۔ حضور نے کوئی دوا تجویز فرمائی۔ پھوپھی جان حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بھی ساتھ بیٹھی تھیں۔ وہ کہنے لگیں کہ آپ کی اپنی پوتی امتہ الحئی کا قد چھوٹا ہے اُسے تو آپ نے کوئی دوا نہ دی۔ حضور اس پر امّی کو مخاطب کرکے فرمانے لگے،نصیر ہ بیگم دیکھو مبارکہ بیگم کہتی ہیں روحی میری پوتی نہیں! روحی میری پوتی نہیں! اور اتنی بار یہ فقرہ کہا کہ حضرت پھوپھی جان شرمندہ ہو کر بار بار کہتی تھیں میرا یہ مطلب تو نہیں تھا’’۔)
٭…صلہ رحمی اور اپنے عزیزوں رشتہ داروں سے تعلق رکھنا اور ان سے حسن سلوک کرنا حضرت صاحب کاایک خاص وصف تھا۔ پھوپھی جان حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بتایا کرتی تھیں کہ حضرت امّاں جان کے رشتہ داروں سے حضور نے آخر تک تعلق رکھا۔ تقسیم برصغیر سے قبل دلّی کے سفروں میںاور حیدر آباد کے سفروں میں حضور خاص طور پر امّاں جان کے ان رشتہ داروں سے ملتے تھے۔ اسی طرح پاکستان بننے کے بعد جب ان میں سے بہت سے لوگ کراچی آ گئے تو حضور اپنے کراچی کے سفر میں ان سے ملاقات کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ حضرت امّاں جان کی ایک دور کی عزیزہ جو احمدی نہیں تھیں ربوہ آیا کرتی تھیں اور اپنے بچوں سمیت لمباعرصہ حضور کے گھر قیام کرتی تھیں۔
٭…اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے عزیزوں سے بھی حضور تعلق رکھتے تھے۔ مرزا نظام دین صاحب کا نام آپ نے سُنا ہی ہوگا۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد تھے اور سخت معاند، مخالف اور دشمن تھے۔ جب ان کی وفات کاوقت قریب آیا تو انہوں نے حضرت صاحب سے درخواست کی کہ حضور ان کے بیٹے مرزا گل محمد صاحب کا خیال رکھیں۔ یہ بات حضرت مرزاسلطان احمدصاحب کے علم میں آئی تو انہوںنے حضرت صاحب کو تنبیہ کے طور پر کہلا بھیجا کہ سانپ کے بچے سنپولیے ہی ہوتے ہیں اور اس طرح مرزا نظام دین کی مخالفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اولاد کس طرح آپ کی دوست ہو سکتی ہے۔ لیکن حضرت صاحب کے حسن سلوک نے آپ کی بات کو اور اس مثل کو بھی غلط ثابت کر دیا اور مرزا گل محمد صاحب نہ صرف احمدی ہو گئے بلکہ وفات تک حضور کے فرماں بردار اور وفادار رہے۔ حضور نے ان کی شادی حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کی صاحبزادی جوحضرت سیدہ اُم ناصر صاحبہ کی بہن تھیں سے کرادی تھی۔
٭…حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے ایک اور عزیز تھے۔ ان کا نام لینامناسب نہیں یہ بھی چچا گل محمد کے مکان کے ایک حصہ میںرہتے تھے ۔آپ میں سے جس نے قادیان دیکھا ہو اس کو پتہ چل جائے گا۔ اس وقت جس مکان میں نصرت گرلز سکو ل ہے اس مکان میں ان کی رہائش تھی اور ان کی رہائش گاہ اور دارالمسیح کے درمیان صرف ایک چھوٹی گلی ہے۔یہ بھی احمدی تھے اور مخلص احمدی تھے۔ حضور کے ساتھ بہت تعلق تھا اورحضور ان پرمہربان بھی بہت تھے اور حضور کی مہربانیوں نے انہیں دلیر بھی کر دیا تھا۔ ابتدائی زمانہ کی بات ہے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے گھر سے گندم کی بوری چکی پر پسوائی کے لیے بھجوائی گئی۔ ایک مزدور جوغیر احمدی تھا اور کہیں قریب کے کسی گائوں کا رہائشی، آٹے کی بوری حضور کے گھر پر پہنچانے کے لیے لے کرآیا۔ گلی میں وہ عزیز بھی کھڑے تھے۔ اس نے ان سے پوچھا کہ مرزا صاحب کا گھر کون سا ہے؟ انہوں نے اپنے گھر کی طرف اشارہ کیا اور اسے ساتھ لے جا کر آٹے کی بوری اپنے گھر میں اتروالی۔ مزدور نے جب مزدوری کا مطالبہ کیا تو انہوں نے حضور کے گھر کی طرف اشارہ کیا کہ اُس گھر سے جا کر لے لو۔
حضرت صاحب رشتہ داری کے تعلق اور ان کے مالی حالات کے پیش نظر ایسی تمام باتوں کے باوجود ان سے نہایت مہربانی اور شفقت کا سلوک فرماتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے حضور کی خدمت میںایک خط لکھا جس کی عبارت کچھ یوں تھی کہ
‘‘بحضور حضرت خلیفۃ المسیح …گزارش ہے کہ خاکسار کی بھینس گلی میں باندھی جاتی ہے اور اس گلی میں حضور کی موٹر گاڑی بھی آتی جاتی ہے اور حضور کی موٹر کی تعظیم کے لیے میری بھینس کو بار بار کھڑے ہونا پڑتا ہے اور وہ حاملہ ہے اور خدشہ ہے کہ اس طرح بار بار کھڑے ہونے سے اس کا حمل ضائع نہ ہو جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اسے مقوی غذا دی جائے ’’ اور آگے انہوں نے اس مقوی غذا کی فہرست دی اور لطف یہ کہ حضور نے بھینس کی وہ غذا ان کے ہاں بھجوا دی لیکن بے تکلفی کے ان واقعات سے یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ وہ حضور کے خادم اور آپ کے تابعدار نہ تھے۔
حق یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے رشتہ داروں میں سے جو احمدی ہو گئے تھے وہ نہ صرف حضور کے وفادار تھے بلکہ نظام جماعت کے بھی فرماں بردار تھے۔ چچا گل محمد کے ایک ماموں تھے مرزا ارشد بیگ ان کا نام تھا۔ ان کی شادی ماسی محمد بیگم صاحبہ کی ہمشیرہ ماسی عنایت سے ہوئی تھی۔ ایک بار جب مرزا ارشد بیگ صاحب بیمار تھے کچھ لڑکوں کی لڑائی ہوئی جس میں ان کے دو بیٹے بھی شامل تھے۔ ان کے بیٹوں اور چند اور لڑکوں کو نظام جماعت کی طرف سے بید لگانے کی سزا دی گئی۔ ان لڑکوں میں ایک معروف بزرگ کے صاحبزادے بھی شامل تھے۔ اس کی والدہ ماما ارشد بیگ سے ملنے آئیں تا کہ ان کے ساتھ مل کر سزا لینے سے انکار کیا جائے اور نظام جماعت کے فیصلہ کو نہ مانا جائے۔ جب انہوں نے ماما ارشد بیگ صاحب سے یہ بات کہی تو انہوں نے ان کو یہ جواب دیا کہ ‘‘بی بی میں اپنے منڈے کوئی ککڑی ہیٹھاں تے نہیں کڈھائے کہ او دو بید کھا کے مر جان گے’’۔
دوسری طرف جب سزا دینے کا وقت آیا تو انہوں نے بچوں کو تو کچھ نہیں کہا بیماری اور کمزوری کی حالت میں خود پلنگ سے اُٹھے اور لڑکھڑاتے ہوئے باہر کے دروازے کا رُخ کیا۔ گھر والوں نے جن میں دونوں بیٹے بھی تھے ان کو روکا اور پوچھا کہ اس بیماری میںآپ کہاں جا رہے ہیں تو کہنے لگے میںایہناں منڈیا ںدی تھاں سزا لین جا ریاں آں۔ یہ ایک ایسا نفسیاتی حربہ انہوں نے استعمال کیاکہ ان کے دونوں بیٹے گئے اور نظام جماعت کے فیصلہ کے مطابق کسی شکوہ شکایت کے بغیر خوشدلی کے ساتھ بیدوں کی سزا لے لی۔
٭…انہی مرزا ارشدبیگ صاحب کا واقعہ ہے ۔ صرف یہ نہیں کہ نظام کے پابند تھے حضرت صاحب کے تابعدار اور فرمانبردار تھے بلکہ وہ جماعت کے مخالف لوگوں پر نظر بھی رکھتے تھے۔ ابّاجان کہتے ہیں کہ ایک جلسے پر مجھے انہوں نے اس طرح کہنی ماری کہ باہر چلیں۔ ہم باہر آئے تو کہنے لگے چلو شہر چلیں ۔ کہتے ہیں ہم شہر پہنچے تو احمدیہ چوک میں عبدالرحمٰن صاحب مصری کھڑے تھے اور اپنی داڑھی میںکھجلی کر رہے تھے تو دیکھ کرکہنے لگے کہ یہ پتہ ہے کون ہے؟ تو ابّاجان نے کہا، ہاں مصری صاحب ہیں۔ توکہنے لگے نہیں، یہ احمدیSnake ہے۔ یہ سوچ رہا ہے کہ یہاں اتنی رونق کیوں ہے۔ یہ مصری صاحب کے فتنے کے ظاہر ہونے کے چار پانچ سال پہلے کی بات ہے۔
٭…حضور کے صلہ رحمی اور حسن سلوک کے بارے میں جتنے بھی واقعات میں نے اپنے بزرگوں سے سنے اور جن میں سے کچھ بیان کر چکاہوں، یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ حضور رشتہ داروں سے تعلق کسی فائدہ کے حصول کے لیے نہ رکھتے تھے بلکہ ان کامقصد ان عزیزوں کو فائدہ پہنچانا ہوتا تھا اور خواہ مالی امداد کا معاملہ ہو یا جذباتی تعلق کی بات ہو ہر صورت حال میں حضور کا ہاتھ ہمیشہ اوپر ہی رہتا تھا۔
(اس موقع پر مرزا خورشید احمد صاحب نے تائید کرتے ہوئے کہا:
‘‘یہ بات بالکل صحیح اور درست ہے۔ صلہ رحمی اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کے سلسلے میں حضور کا ہاتھ ہمیشہ اُوپر ہی رہتا تھا اور شاید ہی کوئی عزیز ہو گا جس پر حضور کا احسان نہ ہو۔ آپ نے عام زمینداروں کو دیکھا ہو گا اُن کا اپنے رشتہ داروں سے سلوک بھی دیکھا ہو گا۔ وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے کہ اُن کا کوئی عزیز اُ ن سے زمین کی ملکیت میں یا اثر ورسوخ میں آگے بڑھ جائے۔ لیکن حضور کی کیا کیفیت تھی؟ اُس کا پتہ سندھ میں اراضی کی خرید سے لگتا ہے۔ حضور نے اس یقین پر کہ یہ زمین بہت فائدہ مند ہو گی نہ صرف خود زمین لی، صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کو لے کر دی بلکہ اپنے تمام عزیزوں اور رشتہ داروں کو تحریک کی اور بہت زور دیا کہ وہ بھی زمین خریدیں اور زمین کے حصول کے سلسلے میں تمام عزیزوں کی مدد بھی کی’’۔)
٭…حضرت صاحب کی طبیعت کاایک اور پہلو جس کا احساس مجھے بچپن ہی میں ہوا وہ یہ تھا کہ اپنے تمام ترجلال اور رعب اور خدا دادوقار کے باوصف حضور کی طبیعت میں ایک ایسا جذب تھا جو بھی حضور کودیکھ لیتا وہ حضور کی طرف کھنچا چلا جاتا۔ آپ کے رُعب کی یہ کیفیت تھی کہ اگر آپ پوری آنکھ اُٹھا کر دیکھتے تو آدمی گھبرا جاتا تھا۔ لیکن اس رُعب کے ساتھ ساتھ ایک عجیب طور پر کشش تھی جو آپ کو دیکھنے والے کو اپنے حسن کا اسیر کر لیتی تھی۔
٭…چھوٹے بچوں کے ساتھ آپ کا رویہ نہایت شفقت اور پیار اور محبت والا ہوتا تھا۔ میری دو چھوٹی بہنوں کے نام دردانہ اور فرزانہ ہیں۔ ان سے چھوٹی کا نام حضور نے نزہت رکھا تھا لیکن اسے چھیڑنے کے لیے بڑی بہنوں کے ناموں کے وزن پر اسے ایک آنہ کہا کرتے تھے۔ اس قسم کی چھیڑ چھاڑ خاندان کے سب بچوں سے جاری رہتی ۔ میری بہن دردانہ کو دیکھ کر یہ شعر پڑھا کرتے تھے ؎
دخت عزیز مرزا کو دردانہ کر دیا
اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا
٭…بچوں سے خوش طبعی اور مذاق کی بات آپ نے سنی۔ اب ایک بڑوں سے مذاق کی بات سُن لیں۔ ابّاجان عام طور پر پلائو اور زردہ ملا کر کھاتے تھے اور اس طرح نمکین اور میٹھا ملا کر کھانا حضرت صاحب کو پسند نہ تھا۔ اس بات کو مذاق کے رنگ میں بیان کرتے ہوئے حضور فرمایا کرتے تھے کہ میاں عزیز احمد کاکیا ہے یہ تو ساگ اور فرنی ملا کر کھاتے ہیں۔
٭…حضور جہاں بڑوں اور چھوٹوں سے مذاق کرتے وہاں ان کی تربیت کا بھی ہروقت خیال رکھتے تھے۔ حضرت مرزا وسیم احمد صاحب کی دعوت ولیمہ کی بات ہے۔ یہ دعوت پرائیویٹ سیکرٹری کے پرانے دفتر کے صحن میں ہوئی تھی۔ فرش پر دریاں بچھا کردستر خوان بچھائے گئے تھے اور مہمان بھی اور حضرت صاحب بھی زمین پر ہی بیٹھ کر کھاناکھا رہے تھے۔ اتفاق سے میں حضور کے بالکل سامنے بیٹھا تھا۔ اگرچہ درمیان میں فاصلہ کافی تھا حضور صحن کے ایک کونے پر دفتر کے برآمدے کے ساتھ تشریف فرما تھے اور میں بالکل آخر پرگیٹ کے ساتھ بیٹھا تھا۔ کچھ عرصہ قبل جماعت کا ایک قافلہ جلسہ سالانہ قادیان سے واپس آیا تھا ان دنوں ہندوستان میں لٹھا اچھی قسم کا ملتا تھا جو پاکستان میں میسر نہ تھا۔ جماعت کے ایک معروف بزرگ قادیان سے واپسی پر کچھ زیادہ ہی لٹھے کے تھان اپنے ساتھ لائے۔ یہ بات قافلے کے لوگوں کی زبانی ربوہ میںپھیل گئی اور ہوتے ہوتے حضور تک بھی پہنچ گئی۔ وہ بزرگ بھی اس دعوت میں موجود تھے۔ حضور نے مجھے دیکھا اور اونچی آواز سے فرمایا احمد! تم بھی قادیان چلے جاتے تو کچھ لٹھے کے تھان بھی لے آتے۔ اس طرح بغیر نام لیے حضور نے ان بزرگ کو اصلاح کی طرف توجہ دلا دی۔
٭…آپ کو پتہ ہو گا کہ 1960ء کے بعد حضرت صاحب بیماری کی وجہ سے جلسے پر تشریف نہیں لاسکے تھے۔ حضورلمبا عرصہ بیمار رہے۔ 60ء یا61ء کے بعد بیماری میں خاندان کے سارے لڑکے جو تھے وہ ڈیوٹی دیاکرتے تھے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ میں بھی ان میں شامل تھا۔ان بیماری کے ایّام میں حضرت صاحب بستر پر ہوتے تھے۔ نظارت امور عامہ کے کارکن مکرم مولوی عبدالعزیز صاحب بھامبھڑی اکثر رات کو رپورٹ پیش کرنے کے لیے آتے تھے۔ اس وقت بھی حضرت صاحب رپورٹ لیتے تھے۔ پہلے تو جب وہ آتے تھے تو حضرت صاحب جب تک خود اُٹھ سکتے تھے، جاتے تھے۔ لیکن جب بستر پر آ گئے تو وہ پھر لکھی ہوئی رپورٹ دیتے تھے تو میں جا کر چھوٹی آپایا مہر آپا کوجس کی بھی باری ہوتی، دے دیتا تھا اور وہ سُناتی تھیں اور اسی طرح دِن کے وقت بھی سلسلے کے جو کارکن تھے، وہ آتے اور حضور کی ہدایات لیتے تھے۔ ملاقاتیں بھی اسی طرح ہوتی تھیں۔جلسہ پر بھی ملاقات ہوتی تھی۔ حضرت صاحب لیٹے ہوتے تھے اور لوگ پاس سے گزرتے رہتے تھے۔ جس کو حضرت صاحب روکنا چاہتے روک کے باتیں کر لیتے تھے۔
٭…8نومبر 1965ء شام کوچھ، سات بجے جو آخری بات مجھے یاد ہے، میں ڈیوٹی پر تھا اور حضرت صاحب کے سرہانے کی طرف کھڑا تھا۔ حضرت صاحب نے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور تھوڑی دیر دیکھتے رہے اور پھر فرمانے لگے کہ میاں عزیز احمد کے بیٹے ہو۔ تو میں نے کہا جی اور پھر فرمایا کہ ہم قادیان میںڈھاب میں کشتی چلایا کرتے تھے۔ اسی رات دو بجے حضور انتقال فرما گئے۔ اور خاندان کے افراد کے علاوہ جو ڈاکٹرز تھے وہ بھی وہاں تھے۔ ان میں ایک ڈاکٹر ذکی الحسن بھی تھے جو غیر از جماعت تھے اور کراچی سے ان کو حضرت صاحب کے علاج کے لیے بلایا گیا تھا اور وہ کئی دن سے قیام پذیر تھے۔ اس وقت جب حضرت صاحب کی وفات ہوئی تو خاندان کی کسی لڑکی یا عورت کے رونے کی آواز ذرااُونچی نکلی۔ اس پر حضرت پھوپھی جان نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے بڑی زور دار آواز میں کہا کہ یہ صبر اور رضا اور دُعائوں کا وقت ہے۔یہ بات ڈاکٹر ذکی الحسن صاحب نے بھی سنی۔ اس کے کوئی پندرہ سال بعد 1980ء کی بات ہے کہ میری ایک دفعہ کراچی میں ان سے ملاقات ہوئی۔ یہ بات ان کو اس وقت بھی یاد تھی اور انہوں نے کہا کہ میں حیرت زدہ رہ گیا، میں حیران رہ گیا تھا کہ ایک اتنا بڑا آدمی فوت ہوتا ہے اور اس وقت میں نے کسی کی رونے کی آواز نہیں سنی اور کوئی صبر کے خلاف بات نہیں دیکھی اور ذراسی اگر آواز نکلی تو ان کی ہمشیرہ نے اتنی زور دار آواز میںیہ توجہ دلائی کہ یہ صبر اور رضا اور دعائوں کا وقت ہے۔
یہ تربیت تھی جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خاندان کی بھی فرمائی تھی اور یہی تربیت تھی جو جماعت کی فرمائی تھی۔ ورنہ صدمہ بہت بڑا تھا۔ حضرت صاحب 52؍سال خلیفہ رہے اور جماعت کے افراد حضرت صاحب کے علاوہ کوئی اور خلیفہ دیکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے لیکن اس کے باوجود خاندان کے لوگ اور جماعت کے احباب بھی صبر کے ساتھ راضی بہ رضا ہی رہے۔
٭…٭…٭