تربیت اولاد کے حوالے سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا نمونہ اور آپ کی نصائح
’’میں احمدی ماؤں کو خصوصیت سے اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے ننھے ننھے بچوں میں خدا پرستی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ہر وقت کوشاں رہیں‘‘
بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا
جو ہوگا ایک دن محبوب میرا
کروں گا دور اس مہ سے اندھیرا
دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا
(درثمین)
تاریخ عالم پر نگاہ ڈالنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جب سے یہ دنیا وجود میں آئی خدا تعالیٰ اپنے فرستادے دنیا میں بھیجتا رہتا ہے جو لوگوں کی رہ نمائی کا موجب بنتے ہیں۔خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو روشن نشانوں کے ساتھ مبعوث کیا جن میں سے ایک عظیم الشان نشان ‘‘مصلح موعود ’’کا ظہور تھا یہ نشان حضرت مصلح موعود کے وجود باجود میں پورا ہوا۔خدا تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ کو ایک پاک بیٹے کی بشارت دی۔جس کے مطابق حضرت مصلح موعود ؓ 12؍جنوری 1889ءکو قادیان میں پیدا ہوئے۔ آپؓ نے پیشگوئی کے الفاظ کے مطابق کہ وہ جلد جلد بڑھے گا بچپن ہی سے ایسی روحانی منازل طے کیں کہ دیکھنے والے حیران و ششدر رہ گئے۔بظاہر حالات اور اسباب اس سے بالکل مختلف نظر آتے تھے۔ آپ جسمانی طور پہ کمزور تھے اور اکثر بیمار رہتے تھے خود حضرت مسیح موعود ؑنے اساتذہ کو کہہ رکھا تھا کہ‘‘محمود کی صحت اچھی نہیں ہے جتنا یہ شوق سے پڑھے پڑھنے دو زیادہ زور نہ دو۔’’مگر پھر دنیا نے دیکھا کہ بظاہر ضعیف اور کمزور نظر آنے والا انتہائی نیک سیرت، عمدہ خصائل اوصاف حمیدہ کا مالک بچہ خدائی منشا کے مطابق ایک اولوالعزم نوجوان کے طور پہ سامنے آتا ہے، اورآپ کی قیادت میں جماعت دن دوگنی رات چوگنی ترقیات سے ہم کنار ہوتی ہے۔اور بڑی تحدی سے یہ اعلان فرمایا‘‘دنیا کی بڑی بڑی مالدار طاقتیں اور قومیں مجھے اس مقصد میں ناکام کرنے کے لیے متحد ہوجائیں پھر بھی میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلے میں ناکام ہوں گی۔’’چنانچہ احمدیت کا وہ نازک پودا جس کی آبیاری اور حفاظت کا کام خدا نے آپ کے سپرد کیا آپ کی شبانہ روز کوششوں سے نامساعد حالات کے باوجود ایک تناور درخت بن گیا۔الحمدللہ
حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پیش گوئی مصلح موعود کے حوالے سے فرماتے ہیں:
‘‘…حضرت مسیح موعود ؑنے فرمایا: اس جگہ آنکھیں کھول کر دیکھ لینا چاہیے کہ یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشانِ آسمانی ہے۔ اور جیسا کہ آپ کی بعثت کا مقصد ہی اسلام کی حقانیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت سب پر ثابت کرنا تھا۔ یہاں بھی آپ اس پیشگوئی اور نشان کو پیش فرما کر یہ نہیں فرما رہے کہ یہ میری صداقت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ فرمایا کہ اس نشانِ آسمانی کو خدائے کریم جل شانہٗ نے ہمارے نبی کریم، رؤوف الرحیم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لیے ظاہر فرمایا ہے۔ اور فرمایا اور درحقیقت یہ نشان ایک مردہ زندہ کرنے سے صدہا درجہ اعلیٰ اولیٰ و اکمل و افضل و اتم ہے…اور کسی مردہ کا زندہ ہونا اگر مان بھی لیا جائے تو اس سے دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ مگر یہاں بفضلہ تعالیٰ واحسانہٖ ببرکت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم خدا وند کریم نے اس عاجز کی دعا قبول کر کے ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا ہے جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔ (ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ99اشتہار نمبر34مطبوعہ ربوہ)…پس جیسا کہ میں نے کہا، یہ وہ خصوصیات ہیں جن کا حامل وہ بیٹا ہونا تھا اور ایک دنیا نے دیکھا کہ وہ بیٹا پیدا ہوا اور 52سال تک خلافت پر متمکن رہنے کے بعد اپنی خصوصیات کا لوہا دنیا سے منوا کر اس دنیا سے رخصت ہوا۔ اگر ان خصوصیات کی گہرائی میں جا کر دیکھیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو اس کے لیے کئی کتابیں لکھنے کی ضرورت ہے۔ کسی خطبہ میں یا کسی تقریر میں حضرت مصلح موعود کی زندگی اور آپ کے کارناموں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا…خلیفہ ثالث فرماتے ہیں کہ جیسا کہ فرمایا تھا کہ وہ علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔ ان پر ایک نظر ڈال لیں تو اُن میں علوم ظاہری بھی نظر آتے ہیں اور علومِ باطنی بھی نظر آتے ہیں اور پھر لطف یہ کہ جب بھی آپ نے کوئی کتاب یا رسالہ لکھا، ہر شخص نے یہی کہا کہ اس سے بہتر نہیں لکھا جا سکتا۔’’(خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍ فروری 2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 14؍ مارچ 2014ء صفحہ5تا6)
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جماعت کی تربیت کا بے حد احساس تھا اس کے لیے جہاں آپ نے عورتوں ،مردوں نوجوانوں کے لیے تنظیمیں قائم کیں اسی طرح چھوٹے بچوں کے لیے خدام الاحمدیہ اور بچیوں کے لیے ناصرات الاحمدیہ کی بنیاد رکھی تاکہ بہت چھوٹی عمر سےہی ان کی تربیت اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو سکے،اس میں آپ نے ذاتی دلچسپی کا اظہار فرمایا اور اپنی اولاد اور روحانی اولاد کی تربیت ان خطوط پرکی جس پر چل کر ہم اور ہماری آئندہ نسلوں کی نہ صرف بقا کی ضمانت ہے بلکہ غلبہ اسلام کا وعدہ بھی پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے جنہوں نے ہمارے لیے قلمی ولسانی ہر لحاظ سے بے بہا خزانہ چھوڑا ہے۔زیر نظر مضمون میں ہم تربیت اولاد کے بارے میں آپ کے ارشادات جگہ کی مناسبت سے اختصار سے بیان کریںگے۔
نکاح کی غرض وغایت
تربیت اولادکاسلسلہ انسان کی شادی سے قبل ہی شروع ہو جاتا ہے وہ اس لحاظ سے کہ وہ تقویٰ کی بنیاد پر جیون ساتھی کاانتخاب کرے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
‘‘اسلام میں جو نکاح کا مسئلہ رکھا ہے یہ بھی ان تدابیر میں سے ایک تدبیر ہے جو ہلاکت اور تباہی سے بچاتی ہے اور انسان کو سچا دوست اور مخلص مدد گار مہیّا کردیتی ہے۔چنانچہ قرآن شریف میں بیوی کے متعلق آتا ہے کہ لِتَسْکُنُوْااِلَیْھَا۔یعنی انسان کو جو مصائب اور تکالیف آتی ہیں اور جن کی وجہ سے قریب ہوتاہے کہ وہ ہمت ہار دے اس وقت بیوی اس کی مدد گار اور آرام کا باعث ہوتی ہے اور اس کی ہمت بڑھانے والی ہوتی ہے۔اسی حکمت کے ماتحت خدا تعالیٰ نے نکاح کو رکھا ہے اور اس کے لیے ایسی خواہشیں اور جذبات اور طاقتیں انسان کے اندر رکھ دی گئی ہیں کہ یہ مجبور ہے کہ کوئی ایسا ساتھی پیدا ہو …اسلام نے شادی کے متعلق ایسے قواعد بتا دیے ہیں کہ اس پر کار بند ہونے سے انسان کو سچا دوست اور مخلص مددگار مل جاتا ہے۔’’
(خطبات محمود جلد3صفحہ15)
ایک واقعہ حضرت سیدہ اُمّ متین مریم صدیقہ صاحبہ نے یوں بیان فرمایا:
‘‘…عموماً شادیاں ہوتی ہیں دلہا دلہن ملتے ہیں تو سوائے عشق و محبت کی باتوں کے اور کچھ نہیں ہوتا مجھے یاد ہے کہ میری شادی کی پہلی رات بے شک عشق و محبت کی باتیں بھی ہوئیں مگر زیادہ تر عشقِ الٰہی کی باتیں تھیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی باتوں کا لُب لباب یہ تھا اور مجھ سے ایک طرح عہد لیا جا رہا تھا کہ میں ذکر الٰہی اور دعاؤں کی عادت ڈالوں ،دین کی خدمت کروں ،حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم ذمہ داریوں میں آپؓ کا ہاتھ بٹاؤں ،با ربار آپؓ نے اس کا اظہار فرمایا کہ ‘‘میں نے تم سے شادی اسی غرض سے کی ہے ’’اور میں خود بھی اپنے والدین کے گھر سے یہی جذبہ لے کر آئی تھی۔ ’’
(سوانح فضلِ عمر جلد پنجم صفحہ 353تا354)
حضرت خلیفۃ المسیح الثا نی ر ضی اللہ تعالیٰ اولاد کی تربیت کے بارے میں فرما تے ہیں:
‘‘پہلا دروازہ جو انسا ن کے اندر گناہ کا کھلتا ہے وہ ماں باپ کے اُن خیالات کا اثر ہے جو اُس کی پیدا ئش سے پہلے اُن کے دلوںمیں موجزن تھے۔اور اس دروازہ کا بند کرنا پہلے ضروری ہے۔ پس چاہیے کہ اپنی اولادوں پر رحم کر کے لوگ اپنے خیالات کو پا کیزہ بنا ئیں۔لیکن اگر ہر وقت پا کیزہ نہ رکھ سکیں تو اسلام کے بتائے ہو ئے علاج پر عمل کریں تا اولاد ہی ایک حد تک محفوظ رہے۔ اسلام ورثہ میں ملنے والے گناہ کا یہ علاج بتا تا ہے کہ جب مردوعورت ہم صحبت ہوں تو یہ دُعاپڑ ھیں بِسْمِ اللّٰہِ اَ للّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطٰنَ وَ جَنِّبِ الشَّیْطٰنَ مَا رَزَقْتَنَا۔اے خدا ہمیں شیطان سے بچا اور جو اولاد ہمیں دے اُسے بھی شیطان سے محفوظ رکھ۔یہ کوئی ٹو نا نہیں۔جادو نہیں۔ ضروری نہیں کہ عربی کے الفاظ ہی بو لے جا ئیں۔بلکہ اپنی زبان میں انسان کہہ سکتا ہے کہ الٰہی گناہ ایک بُری چیز ہے اس سے ہمیں بچا اور بچہ کو بھی بچا۔اُس وقت کا یہ خیال اس کے اور بچہ کے درمیان دیوار ہو جائے گا۔اور رسول کریمﷺ نے فر مایا ہے۔یہ دعا کرنے سے جو بچہ پیدا ہو گا اس میں شیطان کا دخل نہیں ہو گا۔کئی لوگ حیران ہوں گے کہ ہم نے تو کئی دفعہ دعاپڑ ھی مگر اس کا وہ نتیجہ نہیں نکلا جو بتایا گیا ہے۔مگر ان کے شبہ کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو وہ لوگ اس دعا کوصحیح طور پر نہیں پڑ ھتے صرف ٹو نے کے طور پر پڑ ھتے ہیں۔دوسرے سب گناہوں کا اِس دُعا سے علاج نہیں ہوتا بلکہ صرف ورثہ کے گنا ہوں کے لیے ہے۔ ورثہ کے گناہ کے بعد کے گناہ کی آمیزش انسان کے خیالات میں اُس کے بچپن کے زمانہ میں ہو تی ہے۔اس کا علاج اسلام نے یہ کیا ہے کہ بچہ کی تر بیت کا زمانہ ر سول کریمﷺ نے وہ قرار دیا ہے جبکہ بچہ ابھی پیدا ہی ہوا ہوتا ہے۔میرا خیال ہے اگر ہو سکتا تو رسول کریم ﷺ یہ فرماتے کہ جب بچہ رحم میں ہو اُسی وقت سے تربیت کا وقت شروع ہو جا نا چاہیے۔مگر یہ چونکہ ہو نہیں سکتا تھااس لیے پیدا ئش کے وقت سے تر بیت قرار دی اور وہ اس طرح کہ فرما دیاکہ بچہ جب پیدا ہو اسی وقت اس کے کان میں اذان کہی جائے۔اذان کے الفاظ ٹو نے یا جادو کے طور پر بچہ کے کان میں نہیں ڈا لے جا تے۔ بلکہ اس وقت بچہ کے کان میں اذان دینے کا حکم دینے سے ماں باپ کو یہ امر سمجھا نا مطلوب ہے کہ بچہ کی تربیت کا وقت ابھی سے شروع ہو گیا ہے۔اذان کے علاوہ بھی رسول کریم ﷺ نے بچوں کو بچپن ہی سے ادب سکھا نے کا حکم دیا ہے۔اور اپنے عزیزوں کو بھی بچپن میں ادب سکھا کر عملی ثبوت دیا ہے حد یثوں میں آ تا ہے،امام حسن ؓجب چھو ٹے تھے تو ایک دن کھا تے وقت آ پؐ نے ان کو فرما یا : کُلْ بِیَمِیْنِکَ وَکُلْ مِمَّا یَلِیْکَ۔کہ دائیں ہاتھ سے کھا ؤ اور اپنے آ گے سے کھا ؤ۔حضرت امام حسنؓ کی عمر اس وقت اڑھا ئی سال کے قریب ہو گی۔ہمارے ملک میں اگر بچہ سارے کھا نے میں ہا تھ ڈالتا اور سارا منہ بھر لیتا ہے بلکہ اردگرد بیٹھنے وا لوں کے کپڑے بھی خراب کر تا ہے تو ماں باپ بیٹھے ہنستے ہیں اور کچھ پروا نہیں کرتے۔یا یو نہی معمو لی سی بات کہہ دیتے ہیں جس سے ان کا مقصد بچہ کو سمجھا نا نہیں بلکہ دوسروں کو دکھا نا ہو تا ہے۔حدیث میں ایک اور واقعہ بھی آتا ہے کہ ایک دفعہ بچپن میں امام حسنؓ نے صد قہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور مُنہ میں ڈال لی تو رسول کریم ﷺ نے اُن کے منہ میں انگلی ڈال کر نکال لی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ تمہارا کام خود کام کر کے کھا نا ہے۔نہ کہ دوسروں کے لیے بوجھ بننا۔غرض بچپن کی تربیت ہی ہو تی ہے جو انسان کو وہ کچھ بنا تی ہے جو آ ئندہ زندگی میں وہ بنتا ہے چنا نچہ رسول کریم ﷺ نے فر مایامَا مِنْ مَّوْلُوْدٍ اِلَّا یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہٗ یُھَوِّ دَا نِہٖ اَوْ یُنَصِّرَا نِہٖ اَوْ یُمَجِّسَا نِہٖ
(بخاری و مسلم )
کہ بچہ فطرت پر پیدا ہو تا ہے آگے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔اسی طرح یہ بھی سچ ہے کہ ماں باپ ہی اُسے مسلمان یا ہندو بنا تے ہیں۔اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ جب بچہ با لغ ہو جا تا ہے تو ماں باپ اُسے گرجا میں لے جا کر عیسائی بنا تے ہیں۔بلکہ یہ کہ بچہ ماں باپ کے اعمال کی نقل کر کے اور ان کی با تیں سن کر وہی بنتا ہے جو اس کے ماں باپ ہو تے ہیں۔ بات یہ ہے کہ بچہ میں نقل کی عادت ہو تی ہے۔اگر ماں باپ اسے اچھی با تیں نہ سکھا ئیں گے تو وہ دوسروں کے افعال کی نقل کرے گا۔بعض لوگ کہتے ہیں بچوں کو آزاد چھوڑ دینا چاہیے خود بڑے ہو کر احمدی ہو جا ئیں گے۔مَیں کہتا ہوں اگر بچہ کے کان میں کسی اور کی آ واز نہیں پڑ تی تب تو ہو سکتا ہے کہ جب وہ بڑا ہو کر احمدیت کے متعلق سُنے تو احمدی ہو جائے لیکن جب اور آ وازیں اس کے کان میں اب بھی پڑ رہی ہیں اور بچہ ساتھ کے ساتھ سیکھ رہا ہے تو وہ وہی بنے گاجو دیکھے گا اور سنے گا۔اگر فرشتے اُسے اپنی بات نہیں سُنا ئیں گے تو شیطان اس کا ساتھی بن جا ئے گا۔اگر نیک باتیں اس کے کان میں نہ پڑ یں گی تو بد پڑ یں گی اور وہ بد ہو جا ئے گا۔پس اگر آپ لوگ گناہ کا سلسلہ روکنا چا ہتے ہیں تو جس طرح سگریشن کمپ ہو تا ہے اُس طرح بناؤ اور آ ئندہ اولاد سے گناہ کی بیماری دور کر دو۔تا کہ آ ئندہ نسلیں محفوظ رہیں۔
تربیت کے طریق
اب میں تر بیت کے طریق بتاتا ہوں :
(1) بچہ کے پیدا ہو نے پر سب سے پہلے تربیت اذان ہے۔جس کے متعلق پہلے بتا چکا ہو ں۔
(2)یہ کہ بچہ کو صا ف رکھا جا ئے۔پیشاپ پا خا نہ فوراً صاف کر دیا جائے۔شاید بعض لوگ یہ کہیں کہ یہ کام تو عورتوں کا ہے۔یہ صحیح ہے مگر پہلے مردوں میں یہ خیال پیدا ہو گاتو پھر عورتوں میں ہوگا۔پس مردوں کا کام ہے کہ عورتوں کو یہ باتیں سمجھا ئیں کہ جو بچہ صاف نہ رہے اس میں صاف خیالات کہاں سے آ ئیں گے…اگر بچہ ظاہر میں صاف ہو تو اس کا اثر اس کے باطن پر پڑے گا اور اس کا باطن بھی پاک ہو گا۔کیو نکہ غلاظت کی وجہ سے جو گناہ پیدا ہو تے ہیں اُن سے بچا رہے گا۔یہ بات طب کی رو سے ثابت ہو گئی ہے کہ بچہ میں پہلے گناہ غلاظت کی وجہ سے پیدا ہو تا ہے۔جب بچہ کا اندام نہا نی صاف نہ ہو تو بچہ اسے کھجلاتا ہے۔اس سے وہ مزہ محسوس کرتا اور اس طرح اُسے شہوانی قوت کا احساس ہو جا تا ہے۔اگر بچہ کو صاف رکھا جائے اور جوں جوں وہ بڑا ہو اُسے بتا یا جائے کہ ان مقامات کو صفا ئی کے لیے دھونا ضروری ہو تا ہے،تووہ شہوانی بُرا ئیوں سے بہت حد تک محفوظ رہ سکتا ہے۔یہ تر بیت بھی پہلے دن سے شروع ہو نی چاہیے۔
(3)غذا بچہ کو وقت مقررہ پر دینی چاہیے۔اس سے بچہ میں یہ عادت ہو تی ہے کہ وہ خوا ہشات کو دبا سکتا ہے اور اس طرح بہت سے گنا ہو ں سے بچ سکتا ہے چوری،لوٹ کھسوٹ وغیرہ بہت سی برا ئیاں خوا ہشات کو نہ دبانے کی وجہ سے ہی ہو تی ہیں۔کیو نکہ ایسے انسان میں جذبات پرقابو رکھنے کی طاقت نہیں ہو تی۔اور ا س کی وجہ یہ ہو تی ہے کہ جب بچہ رویا ماں نے اسی وقت دودھ دے دیا۔ایسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ مقررہ وقت پر دودھ دینا چاہیے۔اور بڑی عمر کے بچوں میں یہ عادت ڈا لنی چاہیے کہ وقت پر کھا نا دیا جا ئے۔اس سے یہ صفات پیدا ہو تی ہیں (1)پابندی وقت کا احساس (2)خواہش کو دبانا(3)صحت (4)مل کر کام کرنے کی عادت ہو تی ہے۔کیو نکہ ایسے بچوں میں خود غرضی اور نفسا نیت نہ ہو گی۔جبکہ وہ سب کے سب ساتھ مل کر کھا نا کھائیں گے۔(5)اسراف کی عادت نہ ہو گی۔جو بچہ ہر وقت کھا نے کی چیز یں لیتا رہتا ہے وہ ان میں سے کچھ ضا ئع کرے گا، کچھ کھا ئے گا لیکن اگر مقررہ وقت میں مقررہ مقدار میں اسے کھانے کی چیز دی جا ئے گی تو وہ اس میں سے کچھ ضا ئع نہیں کرے گا۔پس اس طرح بچہ میں تھوڑی چیزاستعمال کرنے اور اسی سے خواہش کے پورا کرنے کی عادت ہوگی۔(6)لا لچ کا مقابلہ کرنے کی عادت ہو گی۔مثلاً بازار میں چلتے ہو ئے بچہ ایک چیز دیکھ کر کہتا ہے۔ یہ لینی ہے۔اگر اُس وقت اُسے نہ لے کر دی جا ئے تو وہ اپنی خواہش کو دبا لے گا۔اور پھر بڑا ہو نے پر کئی دفعہ دل میں پیدا شدہ لا لچ کا مقابلہ کرنے کی اس کو عادت ہو جا ئے گی۔ اسی طرح گھر میں چیز پڑی ہو اور بچہ مانگے تو کہہ دینا چاہیے کہ کھانے کے وقت پر ملے گی۔اس سے بھی اس میں یہ قوت پیدا ہو جا ئے گی کہ نفس کو دبا سکے گا…۔
(4)بچہ کو مقررہ وقت پر پا خا نہ کی عادت ڈا لنی چا ہیے۔ یہ اس کی صحت کے لیے بھی مفید ہے لیکن اس سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے اعضاء میں وقت کی پا بندی کی حِسّ پیدا ہو جاتی ہے۔وقت مقررہ پر پا خا نہ پھرنے سے انتڑ یو ں کو عادت ہو جا تی ہے اور پھر مقررہ وقت پر ہی پا خا نہ آ تا ہے…تو بچہ کے لیے یہ بہت ضروری بات ہے۔وقت پر کام کرنے والے بچےمیں نماز،روزہ کی پختہ عادت پیدا ہو جا تی ہے اور قومی کا موں کو پیچھے ڈالنے کی عادت نہیں پیدا ہو تی۔علاوہ ازیں بے جا جوش دب جاتے ہیں۔ کیو نکہ بے جا جوش کا ایک بڑا سبب بے وقت کا م کرنے کی عادت ہو تی ہے خصو صاً بے وقت کھا نا کھانا۔مثلاً بچہ کھیل کود میں مشغول ہوا۔وقت پر ماں نے کھا نا کھانے کے لیے بلا یا مگر نہ آ یا۔پھر جب آ یا تو ماں نے کہا ٹھہر و کھا نا گرم کردوں۔کیو نکہ اسے اُس وقت بھوک لگی ہو ئی ہو تی ہے اس لیے وہ روتا چلا تا اور بے جا جوش ظاہر کرتا ہے،کیو نکہ وہ اُسی وقت کھانے کے لیے آ تا ہے جب اس سے بھوک دبائی نہیں جا تی۔اور اس لیے نہایت شور کرتا ہے۔
(5)اسی طرح غذااندازہ کے مطابق دی جائے۔اس سے قناعت پیدا ہوتی اور حرص دور ہوتی ہے۔
(6) قِسم قِسم کی خوراک دی جائے،گوشت،تر کا ریاں اور پھل دیے جا ئیں کیو نکہ غذاؤں سے بھی مختلف اقسام کے اخلاق پیدا ہو تے ہیں۔پس مختلف اخلاق کے لیے مختلف غذاؤں کا دیا جا نا ضروری ہے۔ہاں بچپن میں گوشت کم اور ترکا ریاں زیادہ ہو نی چا ہئیں۔کیو نکہ گوشت ہیجان پیدا کرتا ہے اور بچپن کے زمانہ میں ہیجان کم ہو نا چاہیے۔
(7)جب بچہ ذ را بڑا ہو تو کھیل کود کے طور پر اس سے کام لینا چا ہیے۔مثلاً یہ کہ فلاں برتن اُٹھا لاؤ۔یہ چیز وہاں رکھ آ ؤ۔یہ چیز فلاں کو دے آؤ۔اِسی قسم کے اور کام کرانے چاہئیں ہاں ایک وقت تک اسے اپنے طور پر کھیلنے کی بھی اجازت دینی چاہیے۔
(8)بچہ کو عادت ڈا لنی چا ہیے کہ وہ اپنے نفس پر اعتبار پیدا کرے۔مثلاً چیز سامنے ہو اور اُسے کہا جائے ابھی نہیں ملے گی۔فلاں وقت ملے گی۔یہ نہیں کہ چھپا دی جا ئے۔کیو نکہ اس نمونہ کو دیکھ کر وہ بھی اسی طرح کرے گا۔اور اس میں چوری کی عادت پیدا ہو جا ئے گی۔
(9)بچہ سے زیادہ پیار بھی نہیں کرنا چاہیے۔زیادہ چومنے چا ٹنے کی عادت سے بہت سی برا ئیاں بچہ میں پیدا ہو جا تی ہیں۔جس مجلس میں وہ جا تا ہے اس کی خواہش ہو تی ہے کہ لوگ پیار کریں۔اس سے اس میں اخلاقی کمزوریاں پیدا ہو جا تی ہیں۔
(10)ما ں باپ کو چا ہیےکہ ایثار سے کا م لیں۔مثلاً اگر بچہ بیمار ہے اور کو ئی چیز اُس نے نہیں کھا ئی تو وہ بھی نہ کھا ئیں اور نہ گھر میں لا ئیں بلکہ اُس سے کہیں کہ تم نے نہیں کھا نی اس لیے ہم بھی نہیں کھا تے۔اس سے بچہ میں بھی ایثار کی صفت پیدا ہو گی۔
(11)بیماری میں بچہ کے متعلق بہت احتیا ط کر نی چا ہیے کیونکہ بزدلی،خود غر ضی،چڑ چڑا ہٹ جذبات پر قابو نہ ہونا اس قسم کی بُرا ئیاں اکثر لمبی بیماری کی وجہ سے پیدا ہو جا تی ہیں۔کئی لوگ تو ایسے ہو تے ہیں جو دوسروں کو بلا بلا کر پاس بٹھا تے ہیں۔ لیکن کئی ایسے ہو تے ہیں کہ اگر کو ئی اُ ن کے پاس سے گزرے تو کہہ اُ ٹھتے ہیں۔ارے دیکھتانہیں ، اندھا ہو گیا ہے۔یہ خرا بی لمبی بیماری کی وجہ سے پیدا ہو جا تی ہے۔چو نکہ بیماری میں بیمار کو آ رام پہنچانے کی کو شش کی جا تی ہے اس لیے آ رام پا نا اپنا حق سمجھ لیتا ہے اور ہر وقت آ رام چا ہتا ہے۔
(12)بچوں کو ڈراؤنی کہا نیا ں نہیں سنا نی چا ہئیں۔اِس سے اُن میں بزدلی پیدا ہو جا تی ہے اور ایسے انسان بڑے ہو کر بہادری کے کام نہیں کر سکتے۔اگر بچہ میں بُزدلی پیدا ہو جا ئے تو اُسے بہادری کی کہا نیاں سُنانی چا ہئیں۔اور بہادر لڑ کوں کے ساتھ کھلا نا چا ہیے۔
(13)بچہ کو اپنے دوست خود نہ چننے دئے جا ئیں بلکہ ماں باپ چنیں اور دیکھیں کہ کن بچوں کے اخلاق اعلی ہیں۔اس میں ماں باپ کو بھی یہ فا ئدہ ہو گا کہ وہ دیکھیں گے کہ کن بچوں کے اخلاق اعلیٰ ہیں۔دوسرے ایک دوسرے سے تعا ون شروع ہو جا ئے گا کیو نکہ جب خود ماں باپ بچہ سے کہیں گے کہ فلاں بچوں سے کھیلا کرو تو اس طرح ان بچوں کے اخلاق کی نگرا نی بھی کریں گے۔
(14)بچہ کو اس کی عمر کے مطا بق بعض ذ مہ داری کے کام دیے جا ئیں تا کہ اس میں ذمہ داری کا احساس ہو۔ایک کہانی مشہور ہے کہ ایک باپ کے دو بیٹے تھے۔اس نے دونوں کو بُلا کر اُن میں سے ایک کو سیب دیا اور کہا کہ بانٹ کر کھا لو۔جب وہ سیب لے کر چلنے لگا تو باپ نے کہا جا نتے ہو کس طرح با نٹنا ہے۔ اُس نے کہا نہیں۔باپ نے کہا۔جو با نٹے وہ تھوڑا لے اور دوسرے کو زیادہ دے۔یہ سُن کر لڑکے نے کہا پھر دوسرے کو دیں کہ وہ با نٹے۔معلوم ہو تا ہے اُس لڑکے میں پہلے ہی بری عادت پڑ چکی تھی لیکن ساتھ یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ وہ اس امر کو سمجھتا تھا کہ اگر ذمہ داری مجھ پر پڑی تو مجھے دوسرے کو اپنے پر مقدم کرنا پڑے گا۔اس عادت کے لیے بعض کھیلیں نہا یت مفید ہیں جیسے کہ فٹ بال و غیرہ۔مگر کھیل میں بھی دیکھنا چاہیے کہ کوئی بُری عادت نہ پڑے۔عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ماں باپ اپنے بچے کی تا ئید کرتے ہیں اور دوسروں کے بچہ کو اپنے بچہ کی بات ماننے پر مجبور کر تے ہیں۔اس طرح بچہ کو اپنی بات منوانے کی ضد پڑ جا تی ہے۔
(15)بچہ کے دل میں یہ بات ڈالنی چاہیےکہ وہ نیک ہے اور اچھا ہے۔رسول کریم ﷺ نے کیا نکتہ فرما یا ہےکہ بچہ کو گالیاں نہ دو کیو نکہ گا لیاں دینے پر فرشتے کہتے ہیں ایسا ہی ہو جائے اور وہ ہو جا تا ہے۔اِس کا مطلب ہے کہ فر شتے اعمال کے نتا ئج پیدا کر تے ہیں۔جب بچہ کو کہا جا تا ہے تو بد ہے تو وہ اپنے ذہن میں یہ نقشہ جما لیتا ہے کہ مَیں بد ہو ں اور پھر وہ ویسا ہی ہو جا تا ہے۔ پس بچہ کو گا لیا ں نہیں دینی چا ہئیں بلکہ اچھے اخلاق سکھا نے چا ہئیں اور بچہ کی تعریف کرنی چاہیے۔آج صبح میری لڑکی پیسہ مانگنے آئی۔جب مَیں نے پیسہ دیا تو بایاں ہاتھ کیا۔مَیں نے کہا یہ تو ٹھیک نہیں۔کہنے لگی ہاں غلطی ہے پھر نہیں کرو ںگی۔اسے غلطی کا احساس کرانے سے فوراً احساس ہو گیا۔
(16)بچہ میں ضد کی عادت نہیں پیدا ہو نی چا ہیے۔اگر بچہ کسی بات پر ضد کرے تو اس کا علاج یہ ہے کہ کسی اور کام میں اُسے لگا دیا جائے اور ضد کی وجہ معلوم کر کے اُسے دور کیا جائے۔
(17)بچہ سے ادب سے کلام کرنا چا ہیے۔بچہ نقّال ہو تا ہے۔اگر تم اُسے تو کہہ کر مخاطب کرو گے۔تو وہ بھی تو کہے گا۔
(18)بچہ کے سامنے جھوٹ ،تکبراور ترش رو ئی و غیرہ نہ کر نی چا ہیے۔کیو نکہ وہ بھی یہ با تیں سیکھ لے گا۔عام طور پر ماں باپ بچہ کو جھوٹ بولنا سکھا تے ہیں۔ماں نے بچہ کے سامنے کو ئی کام کیا ہو تا ہے مگر جب باپ پوچھتا ہے تو کہہ دیتی ہے میں نے نہیں کیا۔اس سے بچہ میں بھی جھوٹ بولنے کی عادت ہو جا تی ہے۔میرا یہ مطلب نہیں کہ بچہ کی غیر موجودگی میں ماں باپ یہ کا م کریں بلکہ یہ مطلب ہے کہ جو ہر وقت اِن عیبوں سے نہیں بچ سکتے وہ کم سے کم بچوں کے سامنے ایسے فعل نہ کریں۔تا مرض آ گے نسل کو بھی مبتلا نہ کرے۔
(19)بچہ کو ہر قسم کے نشہ سے بچا یا جا ئے۔نشوں سے بچہ کے اعصاب کمزور ہو جا تے ہیں اس وجہ سے جھوٹ کی بھی عادت پیدا ہو تی ہے۔اور نشہ پینے والااندھا دھند تقلید کا عادی ہو جاتا ہے۔ایک شخص حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رشتہ دار تھا وہ ایک دفعہ ایک لڑکے کو لے کر آ یا اور کہتا تھااِسے بھی میں اپنے جیسا بنا لوں گا۔وہ نشہ و غیرہ پیتا اور مذ ہب سے کو ئی تعلق نہ رکھتا تھا۔حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُسے کہا تم تو خراب ہو چکے ہو اِسے کیو ں خراب کرتے ہو۔مگر وہ باز نہ آیا۔ایک مو قع پر آپؓ نے اُس لڑکے کو اپنے پاس بلا یا اور اسےسمجھا یا کہ تمہا ری عقل کیوں ماری گئی ہے۔اس کے ساتھ پھرتے ہو۔کو ئی کام سیکھو۔آپؓ کے سمجھانے سے وہ لڑکا اُسے چھوڑ کر چلا گیا مگر کچھ مدّت کے بعد وہ ایک اور لڑکا لے آیا۔اور آکر حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہنے لگا۔اَب اِسے خراب کرو تو جانوں۔اُس کے نز دیک یہی خراب کرنا تھاکہ اُس کے قبضہ سے نکال دیا جا ئے۔حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہتیرا اُس لڑکے کو سمجھا یا اور کہا کہ مجھ سے روپیہ لے لو اور کو ئی کام کرو۔مگر اُس نے نہ ما نا۔آ خر آپؓ نے اُس شخص سے پو چھا اِسے تم نے کیا کہا ہے تو وہ کہنے لگا۔اس کو میں نشہ پلا تا ہو ں اور اس وجہ سے اس میں ہمت ہی نہیں رہی کہ میری تقلید کو چھوڑ سکے۔غرض نشہ سے اقدام کی قوت ماری جاتی ہے۔جھوٹ سب سے خطر ناک مرض ہے کیو نکہ اس کے پیدا ہونے کے ذرائع نہا یت با ریک ہیں اَس مرض سے بچہ کو خاص طور پر بچانا چاہیے۔بعض ایسے اسباب ہیں کہ جن کی وجہ سے یہ مرض آپ ہی آپ بچہ میں پیدا ہو جا تا ہے۔مثلاًیہ کہ بچے کا دما غ نہایت بلند پرواز واقع ہوا ہے وہ جو بات سنتا ہے آپ ہی اس کی ایک حقیقت بنا لیتا ہے۔ہماری ہمشیرہ بچپن میں روز ایک لمبی خواب سُنایا کرتی تھیں۔ہم حیران ہو تے کہ روز اِسے کس طرح خواب آ جا تی ہے۔آ خر معلوم ہوا کہ سونے کے وقت جو خیال کر تی تھیں وہ اُسے خواب سمجھ لیتی تھیں۔تو بچہ جو کچھ سو چتا ہے اُسے واقعہ خیال کرنے لگتا ہے اور آ ہستہ آ ہستہ اُسے جھوٹ کی عادت پڑ جاتی ہے۔اِس لیے بچہ کو سمجھا تے رہنا چاہیے کہ خیال اور چیز ہے اور واقعہ اور چیز ہے۔اگر خیال کی حقیقت بچہ کے اچھی طرح ذہن نشین کر دی جا ئے تو بچہ جھوٹ سے بچ سکتا ہے۔
(20)بچوں کو علیحدہ بیٹھ کر کھیلنے سے روکنا چا ہیے۔
(21)ننگا ہو نے سے روکنا چا ہیے۔
(22)بچوں کو عادت ڈا لنی چا ہیے کہ وہ ہمیشہ اپنی غلطی کا اقرار کر یں اور اس کے طریق یہ ہیں:
(1)اُن کے سامنے اپنے قصوروں پر پردہ نہ ڈالا جائے(2)اگر بچہ سے غلطی ہو جا ئے تو اس سے اِس طرح ہمدردی کریں کہ بچہ کو یہ محسوس ہو کہ میرا کو ئی سخت نقصان ہو گیا ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ مجھ سے ہمدردی کر رہے ہیں اور اُسے سمجھانا چا ہیےکہ دیکھو اس غلطی سے یہ نقصان ہو گیا ہے۔(3)آ ئندہ غلطی سے بچانے کے لیے بچہ سے اس طرح گفتگو کی جا ئے کہ بچہ کو محسوس ہو کہ میری غلطی کی وجہ سے ماں باپ کو تکلیف اُ ٹھانی پڑی ہے۔مثلاًبچہ سے جو نقصان ہوا ہو وہ اس کے سامنے اس کی قیمت وغیرہ ادا کرے اِس سے بچہ میں یہ خیال پیدا ہو گاکہ نقصان کرنے کا نتیجہ اچھا نہیں ہو تا۔کفارہ نہایت گندا عقیدہ ہے مگر میرے نزدیک بچہ کی اِس طرح تربیت کر نے کے لیے نہا یت ضروری ہے۔(4)بچہ کو سرزنش الگ لے جا کر کرنی چا ہیے۔
(23)بچہ کو کچھ مال کا مالک بنانا چاہیے۔اس سے بچہ میں یہ صفات پیدا ہو تی ہے:
(1)صدقہ دینے کی عادت۔(2)کفا یت شعاری۔ (3)رشتہ دا روں کی امداد کرنا۔مثلاً بچہ کے پاس تین پیسے ہوں تو اُسے کہا جائے ایک پیسہ کی کو ئی چیز لاؤاور دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر کھاؤ۔ایک پیسہ کا کو ئی کھلونا خرید لو۔اور ایک پیسہ صدقہ میں دے دو۔
(24)اِسی طرح بچوں کا مشترکہ مال ہو۔مثلاً کو ئی کھلونا دیا جائے تو کہا جا ئے۔یہ تم سب بچوں کا ہے۔سب اس کے ساتھ کھیلو۔اور کو ئی خراب نہ کرے۔اِس طرح قومی مال کی حفاظت پیدا ہو تی ہے۔
(25)بچہ کو آداب و قواعد تہذیب سکھا تے رہنا چا ہیے۔
(26)بچہ کی ورزش کا بھی اور اُسے جفاکش بنانے کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔کیو نکہ یہ بات دنیوی تر قی اور اصلاحِ نفس دونوں میں یکساں طور پر مفید ہے۔اخلاق اور روحا نیت کی جو تعریف میں اوپر بیان کر چکا ہو ں اس کے مطا بق وہی بچہ تر بیت یا فتہ کہلا ئے گا جس میں مندرجہ ذیل با تیں ہوں :
(1)ذاتی طور پر با اخلاق ہو اور اس میں رو حا نیت ہو۔ (2)دوسروں کو ایسا بنانے کی قابلیت رکھتا ہو۔(3)قانون سلسلہ کے مطابق چلنے کی قابلیت رکھتا ہو۔(4)اللہ تعالیٰ سے خاص محبت رکھتا ہو جو سب محبتوں پر غالب ہو۔
پہلے امر کا معیا ر یہ ہے کہ (1)جب بچہ بڑا ہو تو امورِشرعیہ کی لفظاًو عملاًو عقیدۃً پا بندی کرے۔(2)اس کی قوت ارادی مضبوط ہو تا آ ئندہ فتنہ میں نہ پڑے (3)اس کا اپنی ضروریاتِ زندگی کا خیال رکھنا اور جان بچا نے کی قابلیت رکھنا۔(4)اپنے اموال و جا ئیداد بچانے کی قابلیت کا ہونا اور اس کے لیے کوشش کرنا۔
دوسرے امر کا معیار یہ ہے :(1)اخلاق کا اچھا نمونہ پیش کرے۔(2)دوسروں کی تربیت اور تبلیغ میں حصہ لے۔(3)اپنے ذرائع کو ضا ئع ہو نے نہ دے بلکہ انہیں اچھی طرح استعمال کرے جس سے جماعت و دین کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔
تیسرے امر یعنی قانونِ سلسلہ کے مطا بق چلنے کی طاقت رکھنے کا یہ معیار ہے:
(1)اپنی صحت کا خیال رکھنے والا ہو۔(2)جماعتی اموال اور حقوق کا محا فظ ہو۔(3)کو ئی ایسا کام نہ کرے جس سے دوسروں کے حقو ق کو نقصان پہنچے۔(4)قومی جزا اور سزا کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہو۔چوتھے امر کا معیار یہ ہے:
(1)کلام الٰہی کا شوق اور ادب ہو۔(2)خدا تعالیٰ کا نام اُسے ہر حالت میں مؤدّب اور ساکن بنا دے۔(3)دنیا میں رہتے ہو ئے دنیا سے بکلی الگ ہو۔(4)خدا کی محبت کی علامات اس کے وجود میں پا ئی جا ئیں۔
(منہا ج الطّا لبین ،انوار العلوم جلد 9صفحہ 199تا208)
دین بچپن میں سکھانا چاہیے
‘‘اس طرح ایک اور خرابی یہ ہے کہ اور تو ساری باتیں بچپن میں سکھانے کی خواہش کی جاتی ہے مگر دین کے متعلق کہتے ہیں کہ بچہ بڑا ہو کر سیکھ لے گا ابھی کیا ضرورت ہے۔بچہ نے ابھی ہوش نہیں سنبھالی ہوتی اور ڈاکٹر منع کرتا ہے کہ ابھی اسے پڑھنے نہ بھیجو مگر ماں باپ اُسے سکول بھیج دیتے ہیں اور گو وہ کہتے ہیں کہ چونکہ آوارہ پھرتا ہے اس لیے سکول میں بیٹھا رہے گا مگر اُن کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ سال جو اُس کے ہوش میں آنے کے ہیں اُن میں بھی کچھ نہ کچھ پڑھ ہی لے۔ مگر نماز کے لیے جب وہ بلوغت کے قریب پہنچ جاتا ہے تب بھی یہی کہتے ہیں ابھی بچہ ہے بڑا ہو کر سیکھ لے گا۔اگر یہ کہا جائے کہ بچے کو نماز کے لیے جگاؤ تو کہتے ہیں نہ جگاؤ نیند خراب ہو گی لیکن اگر صُبح امتحان کے لیے انسپکٹر نے آنا ہو تو ساری رات جگائے رکھیں گے۔ تو بچّے کو بچپن میں ہی دین سکھانا چاہیے جو بچپن میں نہیں سکھاتے اُن کے بچے بڑے ہو کر بھی نہیں سیکھتے۔ جس طرح بڑی عمر میں جو شخص علم سیکھنا شروع کرتا ہے وہ کبھی اعلیٰ ترقی نہیں کر سکتا اسی طرح بڑی عمر میں دین بھی نہیں سیکھا جا سکتا۔مگر مصیبت یہ ہے کہ دُنیا کے کاموں میں جو عمر بلوغت کی سمجھی جاتی ہے دین کے متعلق نہیں سمجھی جاتی۔ 18۔18 سال تک کے لڑکے کے متعلق کہتے ہیں ابھی بچہ ہے دین کی پابندی کرانے کے لیے سختی کی ضرورت نہیں حالانکہ چھوٹا سا بچہ جو چند سال کا ہوتا ہے اگر قلم اُٹھا کر کہیں پھینک دیتا ہے تو اسے دھمکایا جاتا ہے اگر کسی کتاب کو پھاڑ دیتا ہے تو ڈانٹا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر ابھی اُسے نہ سمجھایا گیا تو اُسے چیزیں خراب کرنے کی عادت پڑ جائے گی لیکن اگر خدا کے دین کو خراب کرے تو کچھ نہیں کہا جاتا۔ اور دین اس وقت سکھانے کی کوشش کی جاتی ہے جب لڑکا سمجھتا ہے کہ اب تو میں اُستاد ہوں اور میں دوسروں کو سکھا سکتا ہوں اور اس وجہ سے کچھ نہیں سیکھ سکتا۔پس جب تک ماں باپ یہ نہ سمجھیں گے کہ دین سیکھنے کا زمانہ بچپن ہے اور جب تک یہ نہ سمجھیں گے کہ ہمارااثر بچپن میں ہی بچوں پر پڑ سکتا ہے تب تک بچے دین دار نہیں بن سکیں گے۔’’
(الفضل10؍جولائی1923ءصفحہ6تا7)
بچوں کی تربیت میں عورتوں کا حصہ
‘‘اور پھر جب تک عورتیں بھی مردوں کی ہم خیال نہ بن جائیں گی بچے دیندار نہیں ہو سکیں گے کیونکہ مرد ہر وقت بچوں کے ساتھ نہیں ہوتے۔بچے اکثر ماؤں کے ہی پاس رہتے ہیں اور دیکھا گیا ہے کہ دیندار مائیں بھی بچوں کو دین سکھانے میں سستی کر جاتی ہیں۔نماز کا وقت ہو جائے اور بچہ سو رہا ہو تو کہتی ہیں ابھی اور سو لے۔ پس جب تک ماؤں کے ذہن نشین نہ کریں کہ بچوں کی دینی تربیت بچپن میں ہی کی جا سکتی ہے اُس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی …بچوں کی دینی تربیت بچپن میں ہی کرو اور بچپن میں ہی اُن کو دین سکھاؤتاکہ وہ حقیقی دیندار بنیں۔’’
(الفضل10؍جولائی1923ءصفحہ7)
بچے کی آواز بلند ہونی چاہیے
‘‘مجھے نیچی آواز سے سخت چڑ ہے اور بہت تکلیف ہوتی ہے۔میرے نزدیک بچہ کا یہ پیدائشی حق ہے کہ ماں باپ اس کی آواز اونچی بنائیں تاکہ بچہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی آواز سنا سکے۔جس بچہ کی آواز طوطی کی سی ہوگی وہ دنیا کے نقار خانہ میں اپنی آواز نہیں سنا سکے گا۔دیکھو کوئی نبی ایسا نہیں ہوا جس کی آواز عمدہ اور اچھی نہ ہو۔ اور یہ نہایت ضروری ہے کہ انسان کی آواز بلند ہو۔’’
(الفضل10؍جولائی1923ءصفحہ8)
بچوں میں دلیری اور جرأت پیدا کرو
‘‘دوسری بات یہ ہے کہ اخلاق کے متعلق جو بات مدِ نظر رکھنی چاہیے اور جو اعلیٰ خُلق ہے اور دوسرے اخلاق پر حاوی ہے وہ دلیری اورجرأت ہے۔کوشش یہ ہونی چاہیے کہ بچوں کو بہادر اور دلیر بنایا جائے ماسٹر صاحب نے مثال بیان کی ہے کہ ڈھاب میں نہانے سے جب بچوں کو روکا جاتا تو اُن کے والد مخالفت کرتے اور کہتے یہ تیرنا جانتے ہیں یہ نہیں ڈوبیں گے مگر وہ دوسروں کو تو ڈبو تے جو تیرنا نہیں جانتے۔میرے نزدیک اگر بچے بے احتیاطی سے ڈوبتے ہیں تو ان کو بچانا چاہیے لیکن اگر تیرنا سیکھتے ہوئے باوجود ممکن احتیاط کے ڈوبتے ہیں تو کیا حرج ہے ؟ انگریزوں میں تیرنے کے مقابلے ہوتے ہیں۔ کشتیاں دوڑنے کے مقابلہ کرتی ہیں اور بعض اوقات ٹوٹتی اور ڈوبتی ہیں۔ جانیں بھی ضائع ہوتی ہیں لیکن یہ نہیں کہ آئندہ کے لیے مقابلہ چھوڑ دیں۔پھر جاتے ہیں اور مقابلہ کرتے ہیں۔’’
(الفضل10؍جولائی1923ءصفحہ9)
کھیل میں اخلاق سکھانا
‘‘پس بچوں کے لیے کھیلنا کودنا بہت ضروری ہے۔ہاں کھیل میں اخلاق سکھانا چاہئیں۔ مثلاً یہی کہ کہا جائے اگر کوئی گالی دے تو اس کو گالی نہ دی جائے۔ اور پھر گروپ کے لڑکوں کے متعلق رپورٹ منگوائی جائے کہ کون سے لڑکے ہیں جنہوں نے گالی کا جواب گالی سے دیا۔اگر کوئی ہو تو اس سے توبہ کرائی جائے۔ اسی طرح یہ کہ ہر ایک غریب اور مسکین کو مدد دیں اور اس قسم کے واقعات آکر سنائیں کہ اسی طرح کے لڑکے کو مدد کرنے کا موقع ملا ہے مگر اس نے مدد نہیں کی۔ مثلاً کوئی چھوٹا بچہ ہے۔ ادھر گائے آئی ہے لڑکا پاس کھڑا تھا اسے چاہیے تھا کہ چھوٹے بچے کو پرے ہٹا لیتا مگر اس نے نہ ہٹایا تو اس کی باز پُرس کی جائے یا مثلاً کوئی برقع پوش عورت تھی جس پر جانور حملہ کرنے لگا تھا اور لڑکا پاس کھڑا تھا مگر اسے بچانے کی کوشش کرنے کی بجائے ہنس رہا تھا تو اس کوبھی تنبیہ کی جائے ایسے واقعات پر سر زنش کی جائے اور آئندہ کے لیے عہد لیا جائے کہ ایسا نہ کریں گے اس طرح عملی طریق سے بچےاخلاق سیکھ سکتے ہیں۔ ان کی مثال طوطے کی سی ہوتی ہے جو کہتا ہے میاں مٹھو چوری کھانی ہے مگر نہ یہ جانتا ہے کہ میاں مٹھو کیا ہے اور نہ اسے یہ خبر ہوتی ہے کہ چُوری کیا ہے۔ ’’
(الفضل10؍جولائی1923ءصفحہ9تا10)
عملی طریق سے اخلاق سکھانا
‘‘بچوں کو اگر یوں کہا جائے کہ حاجت مند کی مدد کیا کرو تو کہیں گے ہاں کریں گے مگر انہیں یہ نہیں معلوم ہو گا کہ کیا کرنا ہے لیکن جب عملی طور پر انہیں سکھایا جائے گا اور ہوشیار لڑکے امداد دینے کے واقعات سنائیں گے تو دوسروں کو پتہ لگے گا کہ اس طرح مدد کرنی چاہیے۔ سکاؤٹ بوائے کو اسی طرح سکھایا جاتا ہے کہ پھونس کے گھر بنا کر اور ان میں ضروری اشیاء رکھ کر آگ لگاتے ہیں اور پھر آگ کو بجھانا اور چیزوں کو بچانا سکھایا جاتا ہے۔تو سبقاً سبقاً بچوں کو یہ باتیں سکھانی چاہئیں اور گروپ میں ہی سکھائی جا سکتی ہیں۔الگ الگ ایسا انتظام نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ڈوبتے کو بچانا سکھانے کے لیے بھی گروپ ضروری ہے اور بچوں کو مشق کرانی چاہیے۔اس میں دوسرے لوگ بھی اگر دلچسپی لیں تو زیادہ مفید ہو سکتا ہے۔ مگر ہمارے ملک کے اخلاق ایسے ہیں کہ اگر کوئی بڑی عمر کا آدمی کھیل میں شامل ہو تو حیرت اور تعجب کا اظہار کیا جاتا ہے حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شامل ہو جاتے تھے۔ ماں باپ کو بھی چاہیے کہ بچوں کے اس قسم کے کاموں میں کبھی کبھی شامل ہو جایا کریں۔ پھر غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنا سکھانا چاہیے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ جیبیں بھری ہوں بلکہ یہ ہے کہ مثلاً اگر کوئی عورت تکلیف میں ہے ، اندھی ہے اور بچہ اُس کے ساتھ ہے جسے وہ اُٹھا نہیں سکتی تو لڑکا اٹھا لے۔ اگر کوئی گِر جاتا ہے تو اسے اٹھا ئے۔ اسی قسم کے اور بیسیوں کام ہیں۔’’
(الفضل10؍جولائی1923ءصفحہ10)
ماں باپ بچوں سے نا جائز محبت نہ کریں
‘‘سب سے پہلی اور نہایت ضروری بات یہ ہے کہ ماں باپ بچوں سے نا جائز محبت نہ کریں۔ اگر کوئی ان کے بچے کے متعلق شکایت کرے تو اس کی اصلاح کی تجویز کریں۔اگر بچہ جھوٹ بولتا ہے یا چوری کرتا ہے یا کوئی اور بدی اس میں ہے تو اسے سر زنش کریں لیکن ایسی بھی سختی نہ ہو کہ بچہ اُن سے چُھپ کر بدی کرنے لگے۔ بعض لوگ اتنی سختی کرتے ہیں کہ بچہ پھر یہ کوشش کرتا ہے کہ میرے عیب کا ماں باپ یا کسی اور کو پتہ نہ لگے۔ اس طرح وہ پوشیدہ عیب کرنے کا عادی ہو جاتا ہے اور ایسے بچوں کے عیوب کی اصلاح نا ممکن ہو جاتی ہے اس لیے ہمیشہ اس بات کی بھی نگرانی کرنی چاہیے کہ بچہ چُھپ کر عیب نہ کرے تا اُس کے عیوب کا پتہ لگتا رہے اور اس طرح بڑی آسانی سے اُس کی اصلاح ہو سکتی ہے’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ29؍مئی1925ءمطبوعہ خطبات محمود جلد9صفحہ153تا154)
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
‘‘سب سے پہلی بات جو بچے کی تربیت کے واسطے ماں باپ کے لیے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ بچے کے ذہن میں کسی بدی کی نسبت یہ خیال نہ پیدا ہونے دیں کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں تا وہ اس بدی کو حقیر نہ سمجھنے لگ جائے۔بہت سے ماں باپ ہیں جو دل سے چاہتے ہیں کہ بدی کا اثر اُن کے بچوں پر نہ ہو لیکن وہ اپنا نمونہ ایسا اُن کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ بچوں کی نگاہ میں وہ بدی حقیر ہو جاتی ہے اور اس کی وجہ سے بدی کا خیال اُن کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً عام طور پر ماں باپ یہ چاہتے ہیں کہ بچہ جھوٹ نہ بولے لیکن خود اس کے سامنے جھوٹ بول لیتے ہیں۔ ’’
(خطبہ جمعہ فرمود5؍جون1925ءمطبوعہ خطبات محمود جلد9صفحہ157)
مائیں اپنے بچوں کو بااخلاق بنائیں
‘‘بعض لوگ بچوں کو چڑاتے ہیں اور ان کے سامنے ہاتھ اُٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ماروں۔میں نے دیکھا ہے کہ ایک دودفعہ کے بعد بچہ وُہی شکل بنا کر اُسی طرح ہاتھ اُٹھا کے کہنے لگ جاتا ہے مارُوں۔بعض احمق بچوں کو پیار سے گالیاں دیتے ہیں بچے آگے سے اُسی طرح گالیاں دینے لگ جاتے ہیں۔ بعض عورتیںاپنے بچوں سے ہمیشہ منہ بناکر اور تیوری چڑھا کر بات کرتی ہیں تو اُن کے بچے بھی ہمیشہ منہ پھلا کر بات کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ اس کے بر خلاف جو عورتیں ہنس مکھ ہوں۔بچوں سے نیک سلوک کی عادی ہوں اُن کی اولاد بھی ویسی ہی ہنس مکھ ہوتی ہے۔ماؤں کو چاہیے کہ بچوں سے ایسا سلوک کریں جس کونقل کرنے پروہ ساری عمر ذلیل و خوار نہ ہوں ہمیشہ کے لیے اُن کے اخلاق درست ہوجائیں۔’’
(الفضل 3؍ستمبر1913صفحہ11)
خود نیک بنو تا تمہارے بچے بھی نیک بنیں
‘‘بے دین اور دین سے متنفر وہی بچہ ہوگا (الاماشاء اللہ)جس کے والدین اس کے سامنے دین کا استخفاف کرتے ہوں۔ ماں اگر نماز نہیں پڑھتی، نمازکے اوقات کا احترام ملحوظ نہیںرکھتی تو ضرور ہے کہ بیٹا بھی بڑاہو کر ایسا ہی کرے۔جس بچے کے ماں باپ نمازی ہوں میں نے اکثردیکھا ہے کہ وہ باوجود کچھ نہ سمجھنے کے اسی طرح نماز کے وقت پر نماز کی رکعتیں پڑھتے ہیں۔ یہ عادت ایسی مبارک ہے کہ جوانی میں آخر کام آتی ہے۔ اور یہ ابتدائی بیج اپنے اندر ایسے خوش گوار ثمرات رکھتا ہے کہ بڑی عمر میں ڈھیروں روپیہ خرچ کرنے پر بھی حاصل نہیں ہوتا۔ جب کوئی چیز آئے تو ماں بچے کو سکھائے کہ یہ اللہ میاں نے بھجوائی ہے جو ہمیں رزق دیتا ہے، ہماری حاجتیں پوری کرتا ہے، ہماری دعاؤں کو سنتا ہے، ہمیں چاہیے کہ اس کا شکر ادا کریں۔بچہ کھانے پینے بیٹھے ماں باتوں ہی باتوں میں اُسے سمجھا سکتی ہے کہ یہ کھانا کتنی محنت اور کس قدر تبدیلیوں کے بعد تیرے سامنے آیا ہے حالانکہ تجھے کچھ بھی محنت کرنی نہیں پڑی یہ سب اُس پاک مولیٰ کا احسان ہے جس نے اوّل ان چیزوں کو پیدا کیا پھر ایسے اسباب مہُیاکیے کہ وہ تیرے لیے تیار ہو اور اب وہی پاک ذات ہے جو تیرے لیے اسے نافع بنائے۔ اسی طرح مائیں اگر چاہیں تو بچوں کو سوتے وقت تارے چاند اور آسمان ،دن کو دوسرے نظارہ ہائے قدرت کی طرف متوجہ کرکے خداتعالیٰ کی طرف توجہ دلاسکتی ہیں۔
میں احمدی ماؤںکو خصوصیت سے اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے ننھے ننھے بچوں میں خدا پرستی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ہر وقت کوشاں رہیں۔ وہ انہیں لغو ، مخرب اخلاق اور بے سروپاکہانیاں سنانے کی بجائے نتیجہ خیز،مفید اور دیندار بنانے والے قصےسنائیں۔اُن کے سامنے ہرگز کوئی ایسی بات چیت نہ کریں جس سے کسی بدخُلق کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔بچہ اگر نادانی سے کوئی بات خلاف مذہب اسلام کہتا ہے یا کرتا ہے اسے فوراً روکا جائے اور ہر وقت اس بات کی کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت ان کے قلب میں جا گزیں ہو۔’’
(الفضل 10؍ستمبر1913ءصفحہ11)
اپنے بچوں کو کبھی آوارہ نہ پھرنے دو
‘‘اپنے بچوں کو کبھی آوارہ نہ پھرنے دو، اُن کو آزاد نہ ہونے دوکہ حدود اللہ کو توڑنے لگیں، اُن کے کاموں کو انضباط کے اندر رکھو اور ہروقت نگرانی رکھو،اپنے ننھے بچوں کو اپنی نوکرانیوں کے سپرد کرکے بالکل بے پروانہ ہوجاؤ کہ بہت سی خرابیاں صرف اِسی ابتدائی غفلت سے پیدا ہوتی ہیں۔ماںاپنے بچے کو باہر بھیج کر خوش ہوتی ہے کہ مجھے کچھ فرصت مل گئی ہے لیکن اُسے کیا معلوم ہے کہ میرا بچہ کِن کِن صحبتوں میں گیا اور مختلف نظاروں سے اُس نے اپنے اندر کیابُرے نقش لیے جو اُس کی آئندہ زندگی کے لیے نہایت ضرر رساں ہوسکتے ہیں۔پس احتیاط کرو کہ اس وقت کی تھوڑی سی احتیاط بہت سے آنے والے خطروں سے بچانے والی ہے۔ خود نیک بنو اور خدا پرست بنو کہ تمہارے بچے بھی بڑے ہوکر نیک اور خدا پرست ہوں۔’’
(الفضل 10؍ستمبر1913ءصفحہ11)
‘‘ا لغر ض ما ؤں کی ذ مہ داری اس قدر ا ہم ہے کہ ا گر مخلص مر د چا ہیں کہ وہ ا ولادوں کی تر بیت کر یں تو اُن میں ا یسا کر نے کی طا قت نہ ہو گی۔کیو نکہ بچوں کی تر بیت کر نے کی طا قت اورملکہ عورت میں ہی ہے اس لیے تمہیں چا ہیے کہ تم اپنی اس اہم ذمہ داری کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کر و بلکہ پو ری تو جہ سے اس فریضہ کو ادا کرو۔تم میں سے کتنی ہیں جو یہ چا ہتی ہیں کہ تمہا را بچہ خو بصو رت ہو ،تندرست ہو ،اگر وہ بد صورت ہو تاہےیا کا لا ہو تاہے تو تم سارے جہا ں کے پو ڈ ر لگا لگا کر اُس کو خو بصو رت بنا کر د یکھنے کی کو شش کر تی ہو۔لیکن اگر تم اُس کو انسا نوں والی شکل دے بھی دو مگر اُس کی روح انسانوں والی نہ ہو تو کیا تم اس کو د یکھ کر خو ش ہو گی ؟اگر تم اپنے بچوں کی روح کی خو بصو ر تی کی پروا نہ کرو گی تو تم اُس کی سخت ترین د شمن ثا بت ہو گی کیو نکہ تم نے ظا ہری زیبائش اور آ را ئش میں کو ئی کمی نہ کی مگر اُس کے اندر شیطان پیدا ہو گیا پس اگر آج کی عو رتیں اپنےبچوں کی تر بیت کا خیا ل چھو ڑد یں گی تو آئندہ نسل انسان نہیں بلکہ سا نپ اور بچھو پیدا ہوں گے۔تو پھر کیا تم اُس وقت جب سا نپ اور بچھو انسا نوں کی شکل میں آجائیں اُن کو دیکھ کر خو ش ہو گی ؟اگر تمہا رے ہی بچے تمہا ری تر بیت کے نتیجہ میں کسی دن نیک ہو ں گے تو تمہا رے لیے اور تمہا ری روحوں کے لیے د عا ئیں کر یں گے ورنہ وہ تم پر لعنت کے سوا اور کیا بھیجیں گے۔ایسی کئی مثا لیں ہیں کہ ما ئیں اپنے بچوں کو چو ری اور ڈا کے اور جھو ٹ کی عا دتیں ڈا لتی ہیں۔مثلاً ایک بچہ کو چو ری کی عا دت تھی وہ با ہرسے سکول سے چیزیں چرا چرا کر گھر لا تا اور ماں اُس سے وہ چیزیں لے لیتی۔ایسی ہی با توں کے نتیجہ میں وہ پکا چو ر اور قا تل بن گیا۔اُسے پھا نسی کی سز ا ملی ۔جیسا کہ قا عدہ ہےاُس لڑ کے سے بھی پھا نسی د یے جا نے سے قبل پو چھا گیا تمہا ری آخر ی خوا ہش کیا ہے ؟اس نے کہا کہ مجھے میری ماں سے ملا دو۔جب اُس کی ماں آئی تو اس نے اس کے کان میں با ت کہنے کے بہانے پر اس کے کان کو دا نتوں سے کا ٹ ڈا لا۔لڑ کے نے اس فعل کی نسبت در یا فت کیے جا نے پر بتلا یا کہ اگر یہ میری ماں نہ ہو تی تو آج میں پھا نسی نہ چڑ ھتا۔اس نے ہی مجھے انسان سے شیطان بنایا۔
یہ ضروری نہیں کہ عملی طور پر ہی بد یاں اور بری با تیں ما ئیں اپنے بچوں کو سکھا ئیں بلکہ بے پروائی اوربے تو جہی سے جو بد یاں بچے میں پیدا ہو جائیں یا جو بری عا دتیں وہ سیکھ لیتا ہے اس کی ذمہ داری بھی عورتوں پر ہی آتی ہے۔تم میں سے بہت ہیں جو یہ کہیں گی کہ میرا بچہ بے شک کلمہ نہ پڑ ھے لیکن ز ندہ ر ہے۔لیکن تم میں سے کتنی ہیں جو یہ کہیں کہ میرا بچہ کلمہ پڑھ لے پھر بے شک مر جا ئے۔ ایک عورت اپنے بیما ر بچہ کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آ ئی اور کہنے لگی میرا بچہ عیسائی ہو گیا ہے آپ اس کا علا ج بھی کر یں لیکن جو با ت وہ ا صرار کے ساتھ کہتی تھی وہ یہ تھی کہ آپ اس سے کلمہ پڑ ھوا دیں پھر بے شک یہ مر جا ئے مجھے کوئی پرواہ نہیں۔حضرت مسیح مو عود علیہ السلام نے اس لڑ کے کو چونکہ وہ بیما ر تھا حضرت خلیفہ اول ر ضی اللہ تعا لیٰ عنہ کے پاس بھیجا تا آپ اس بیما ری کا علا ج بھی کر یں اور کچھ تبلیغ بھی کر یں لیکن وہ لڑ کا بڑا پختہ تھا وہ کلمہ پڑ ھنے سے بچنے کی خا طر ایک رات بھا گ کر چلا گیا۔رات کو ہی اُس کی ماں کو بھی پتا چل گیا وہ بھی اُس کے پیچھے دوڑ پڑی اور بٹا لہ کے نز دیک سے اُسے پکڑکر پھر واپس لائی۔آخر خدا نے اُس کی سنی اُس کا بیٹا ایمان لے آیا۔بعد میں گو وہ فوت بھی جلد ہو گیا۔مگر اس عورت نے کہا میرے دل کو ٹھنڈ پڑ گئی ہے مو ت سے پہلے اس نے کلمہ تو پڑھ لیا ہے۔یہ ہو تی ہے صحیح تر بیت اور یہ ہو تی ہے وہ روح جو اسلام عورت میں پھو نکنا چا ہتا ہے۔اس قسم کی تر بیت کر نے والی عورتیں جو اپنے بچوں کو نیک اور تر بیت یا فتہ د یکھنا پسند کر تی ہیں۔وہ اپنے لیے ہی نہیں بلکہ سا ری قو م کے لیے فا ئدہ مند ہو تی ہیں۔وہ سا ری قو م کو زند ہ کر نے والی ہو تی ہیں۔
اما م بخا ری بہت بڑے آدمی تھے۔اُن کے بڑے آدمی ہو نے میں اُن کی ماں کا بہت بڑا حصہ تھا۔تو کیا تم سمجھتی ہو کہ ایسی ماں سے فا ئدہ اُٹھا نے والے کا ثوا ب اُن کی ماں کو نہ ملتا تھا؟نہیں امام بخا ری کی نیکیوں کے ثواب میںان کی ماں بہت حد تک حصہ دار تھی اسی طرح حضرت امام ابو حنیفہ کی والدہ تم نہیں کہہ سکتیںکہ معمولی عورت تھیں۔وہ ہرگز معمولی عورت نہ تھیں۔ کیا ابو حنیفہؒ کو بنانے والی معمولی عورت ہوسکتی ہے؟قرآن کر یم میں خد ا تعالیٰ فر ما تا ہے کہ جب کو ئی انسان کسی بڑے درجے کو پہنچے گا تو اس کے ماں با پ اور دیگر ر شتہ داروں کو اس کے سا تھ رکھا جا ئے گا اور وہ بھی اس کے ثواب کے مستحق ہو ں گے۔مومن کے بنا نے میں اُس کے ماں با پ کا حصہ ہو تا ہے۔ایک ہندو ماں کا یا ایک عیسائی ماں کا بچہ اگر مسلمان ہو جا ئے گا تو یہ مت خیا ل کرو کہ اُس کی ماں کو ثواب نہ ملا ہو گا۔اگر چہ ا س کی ماں پو ری طر ح بخشی نہ جا ئے گی لیکن پھر بھی اُس کے گنا ہوں میں کمی ہو گی۔تم میں سے اکثر جہاد کی خوا ہش مند ہیں لیکن آؤ میں تمہیں بتلا دوں کہ یہ جہا دہی ہے اگر تم اپنے بچوں کی صحیح تر بیت کرو گی اور اُن کو نیک بنا ؤ گی…۔
غر ض جس جنت کا تمہا را بیٹا وارث ہو گا اُسی جنت کی اسلام نے تم کو حقدار ٹھہرا یا ہے۔پس تمہا ری تمام تر کامیابی کا انحصا ر تمہا ری اولا د کی تر بیت پر ہی ہے۔تم نما ز روزہ اور صد قہ و خیرات کی پا بندر ہو۔اگر تم ان با توں پر کا ر بند نہ ہو گی تو تمہا ری اولا دیں کس طرح احکام شر یعت کی پا بند ہو ں گی۔تم اپنے نیک نمو نہ سے ہی ایک حد تک اپنی اولا د کی تر بیت کر سکتی ہو کیو نکہ یہ قا عدہ ہے کہ انسان جو نمونہ د کھا تا ہے۔ ارد گرد کے لو گ اس کا نمو نہ قبو ل کرتے ہیں اور بچہ میں تو نقل کا ما دہ بہت ز یا دہ ہو تا ہے۔اگر ما ئیں اپنی اولا دوں کے لیے نیک نمو نہ نہیں بنتیں تو یقیناً ان کی اولادوں کی تر بیت ا چھی طر ح ہو نا نا ممکن ہے…۔
یہ اچھی طر ح یا د رکھو کہ اسلام اور سلسلہ کی جو خد مت تم اپنی اولا دکی صحیح تر بیت کر کےکر سکتی ہو وہ اور کو ئی نہیں کر سکتا۔تم کو شش کر کے اُن کی بچپن سے ہی اس رنگ میں تر بیت کرو تا ان کی جا نیں سلسلہ کی خد مت کے لیے تیا ر ہوں۔تم اُن کوبچپن ہی سے یہ تعلیم دو کہ سچا ئی پر عامل ہوں۔وہ جھو ٹ نہ بو لیں کیو نکہ تمہارا بچہ جھو ٹ بو لتا ہے تو وہ تم کو بھی بد نام کر تا ہے اور خدا کو بھی نارا ض کرتا ہے۔تم ان کو یہ تعلیم دو کہ تمہا ری جا نیں سلسلہ کے لیے ہیں۔کیو نکہ جا نی قر بانی کر تے وقت سب سے پہلے جو اُن کے دل میں جذبہ پیدا ہو تا ہے وہ یہی ہے کہ ہما رے پیچھے ہما ری ماؤں کا اور ہما ری بیو یوں کا کیا حال ہو گا۔اگر تم ہی ان کو یہ کہہ دو کہ ہم تب ہی خو ش ہوں گی جب تم یا تو فتح پا کر آؤ یا وہا ں ہی مارے جا ؤ تو پھر اُن کے بو جھ ہلکے ہو جا ئیں گے اور قر با نیا ں کر نے کے میدان میں وہ دلیر اور چست گا م ہو جا ئیں گے وہ اپنی زندگیاں قر بان کر نے میں ذرہ بھی لر زہ نہ کھا ئیں گے۔صحا بہ ؓنے فتو حا ت پر فتو حا ت حا صل کیں لیکن کیو ں ؟اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ ہما ری مو ت ہما ری ما ؤں کو کوئی صدمہ نہیں پہنچا ئے گی ،وہ جانتے تھے کہ ہما ری مو ت ہما ری بیو ی کو کو ئی صدمہ نہیں پہنچا ئے گی بلکہ اُن کے لیے فر حت و خوشی کا مو جب ہو گی اس لیے وہ نڈر ہو کر نکلتے تھے اور فتح حا صل کر کے آ تے تھے۔
(اوڑھنی والیوں کے لیے پھول صفحہ 325,321)
اولاد کے نیک کام بھی تمہاری طرف منسوب کیے جائیں گے
‘‘اسی طرح اگر بیوی اپنی اولاد کی اعلیٰ تربیت کرے تو وہ امام ہو گی اور اولاد ماموم اور اولاد کے نیک کام بھی تمہاری طرف منسوب کیے جائیں گے۔تم قبر میں سو رہی ہو گی مگر جب تمہارے بچے صبح کی نماز پڑھیں گے تو فرشتے لکھ رہے ہوں گے کہ اس بی بی نے صبح کی نماز پڑھی۔تم قبر میں سو رہی ہو گی اور فرشتے لکھ رہے ہوں گے کہ اس بی بی نے ظہر کی نمازپڑھی۔تم قبر میں سو رہی ہو گی اور فرشتے لکھ رہے ہوں گے کہ اس بی بی نے عصر کی نماز پڑھی۔چاروں طرف خاموشی ہو گی۔تارے جگمگا رہے ہوں گے۔ لوگ سو رہے ہوں گے۔لیکن تم نے اپنی اولاد کو تہجد کی عادت ڈالی ہو گی تو فرشتے لکھ رہے ہوں گے کہ اس نے تہجد کی نماز پڑھی۔کتنی عظیم الشان ترقی ہے جو تم حاصل کر سکتی ہو۔
(مصباح مارچ1940ءبحوالہ اوڑھنی والیوں کے لیے پھول صفحہ336)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذاتی نمونہ
حضرت مصلح موعودؓ بے پناہ خوبیوں اور سحر انگیز شخصیت کے مالک تھے یہاں تک کہ آپ کی شخصیت ہر خاص و عام کوبہ آسانی اپنا اسیر کرلیتی تھی پھر وہ چاہے اپنے بچے ہوں یا بڑےسب ہی آپ کی شخصیت کے اسیر نظر آتے ہیں۔آپ کی بات اور زبان میں خاص تاثیر تھی جو دلوں پر اثر کرتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔اور آپ اپنی ذات میں حلیم مگر رعب دار شخصیت کے مالک تھے۔آپ کی شخصیت کا بغور مطالعہ کریں تو کہیں آپ ایک انتہائی شفیق باپ نظر آتے ہیں کہیں تربیت کے حوالے سے اصول پسند کہیں بچوں کی محفل میں ان کی پسند اور مزاج کے مطابق گفتگو کرتے ہوئے نرم دلی اور شفقت کا اعلیٰ نمونہ ہیںتو کہیں ان کی اصلاح کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے معمولی سرزنش کرتے ہوئے والد کے طور پہ نظر آتے ہیں مگر ان تمام باتوں کے باوجود آپ کی طبیعت میں مزاح کا عنصر خاص نمایاں نظرآتا ہے جو آپ کو ایک نہایت اعلیٰ درجہ کے انسان کے طور پر ابھارتا ہے۔اب آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ کیا خصوصیات تھیں جو آپ کو دوسرں سے ممتاز کرتی ہیں۔
شفیق باپ
حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ (حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ)فرماتی ہیں
‘‘بچوں کے لیے انتہائی شفیق باپ تھے تربیت کی خاطر لڑکوں پر وقتاً فوقتاًسختی بھی کی لیکن ان کی عزتِ نفس کا خیال رکھا۔ مجھے یاد ہے کہ قادیان میں مجھے ان کی زور سے ڈانٹنے کی آواز آئی میں اندر کمرہ میں تھی ایک دم اس خیال سے باہر نکلی کہ دیکھوں کیا بات ہے کسے ڈانٹ رہے ہیں حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی بچہ کو پڑھائی ٹھیک نہ کرنے پر ناراض ہو رہے تھے میں اسی وقت واپس چلی گئی۔تھوڑی دیر بعد جب اندر کمرہ میں آئے تو کہنے لگے ‘‘میں جب اپنے بچہ کو ڈانٹ رہا تھا تو تمہیں وہاں نہیں آنا چاہیے تھا اس سے وہ شرمندہ ہوگا کہ مجھے تمہارے سامنے ڈانٹ پڑی۔’’بیٹیوں سے بہت زیادہ محبت کا اظہار کرتے تھے لیکن جہاں دین کا معاملہ آجائے آنکھوں میں خون اتر آتا تھا نماز کی سستی بالکل برداشت نہ تھی۔ اگر ڈانٹا ہے تو نماز وقت پر نہ پڑھنے پر۔ بچوں کے دلوں میں شروع دن سے یہی ڈالا کہ سب دین کے لیے وقف ہیں ان کو دینی تعلیم دلوائی۔جب 1918ء میں شدید انفلوئنزا کا حملہ ہو کر بیمار ہوئے تھے اور اپنی وصیت شائع کروائی تھی اس میں بھی یہ وصیت فرمائی تھی کہ ‘‘بچوں کو دینی اور دنیاوی تعلیم ایسے رنگ میں دلائی جائے کہ وہ آزاد پیشہ ہو کر خدمتِ دین کر سکیں جہاں تک ہو سکے لڑکوں کو حفظِ قرآن کرایا جائے۔’’
(سوانح فضل عمر ؓجلد پنجم صفحہ 367۔368)
شدید مصروفیات کے باوجود بچوں کی دیکھ بھال کے لیے بھی وقت نکالتے تھے بلکہ ان کو بہلانے کے لیے بھی ہر طرح کوشش فرماتے اس سلسلہ میں حضرت چھوٹی آپا ام متین صاحبہ ہی کا درج ذیل بیان بہت دلچسپ اور معلومات افزا ہے۔آپ لکھتی ہیں :
‘‘عزیزہ متین جب پانچ سال کی تھی تو میں نے کہا اسے کوئی دینی نظم لکھ کر دیں۔ اس پر آپ نے وہ نظم کہی جو کلام محمود میں اطفال احمدیہ کے ترانہ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ یہ متین کو بنا کر دی تھی اور میں نے اسے یاد کروائی تھی۔
مری رات دن بس یہی اک صدا کے
کہ اس عالم کون کا اک خدا ہے
شروع میں چھ سات شعر کہہ کر دیے تھے کہ اسے یاد کروا دو۔ پھر کچھ زائد کہہ کر اخبار میں شائع کروادی۔حتی الوسع آپ نے بچوں کی خواہشات کو پورا فرمایا اور ان کی دلچسپیوں میں حصہ لیا۔ ہاں کوئی بات وقار و تہذیب سے گری ہوئی دیکھی یا کوئی امر خلاف قرآن و سنت دیکھا تو بہت ناراض ہوتے تھے۔ جیسا کہ میں نے اپنے ایک مضمون میں (جو غالبا ًمصباح میں شائع ہوا تھا )ذکر کر چکی ہوں کہ ایک لڑکی نے سہیلیوں سے سن کر سہرا منگوا لیا اور آپ نے پکڑ کر قینچی سے کاٹ کر پھینک دیا۔
اپنی مصروفیات کے باوجود کبھی کبھی خود بچوں کو پڑھا بھی دیتے تھے۔ ایک دفعہ قادیان میں قرآن مجید پڑھانا شروع کیا جس میں مبارک احمد، منور احمد، امتہ القیوم، امتہ الرشید اور میں شامل ہوتے تھے۔عربی، صرف و نحو بھی ساتھ ساتھ پڑھاتے تھے۔ پہاڑ پر جب گرمیوں میں جاتے بچوں کو گرمیوں کی تعطیل ہوتی تھیں ہر سال ہی کچھ نہ کچھ پڑھایا کرتے۔ ڈلہوزی میں کئی دفعہ عربی، صرف و نحو، حدیث اور قرآن مجید مجھے پڑھانا یاد ہے۔ کبھی خود نہ پڑھا سکتے تو مجھے فرماتے تھے کہ لڑکیوں کو پڑھایا کرو۔ ایک دفعہ مجھے فرمایا کہ بچیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قصیدہ یاد کرواؤ۔ پڑھانے کا طریق بڑا ہی عجیب تھا نہایت آسان طریق پر کہ پڑھنے والا سمجھتا اس سے زیادہ آسان کوئی سبق ہی نہیں۔ آج تک وہ پڑھا ہوا یاد ہے۔ خصوصا ًعربی، صرف و نحو کا پڑھا نا تو آپ پر ختم تھا۔ میں نے آج تک اس طریق سے کسی کو پڑھاتے نہیں دیکھا۔
بچوں کی مجالس میں اکثر لطائف سنایا کرتے اور بچوں سے لطیفے سنتے۔ ہزاروں لطیفے اور چٹکلے یاد تھے۔ کبھی کبھی رات کو بچوں کو لے کر بیٹھ جانا اور کوئی کہانی سنا دینی۔ کئی دفعہ ایک ایک کہانی کا سلسلہ ہفتوں چلا کرتا اور وہ اتنی دلچسپ ہوتی کہ بچے تو کجا سارے گھر کے بڑے بھی گھیرا ڈال کر بیٹھ جاتے اور کہانی سنتے۔
بچوں کا شام کے بعد گھر سے باہر رہنا بہت ناپسند تھا اس کی پابندی کروانے کی ہمیشہ تاکید کرتے کہ مغرب کے بعد ادھر ادھر نہیں پھرنارات کو اگر دیر سے کوئی بچہ کہیں سے آتا تو ناراض ہوتے۔بچوں سے مذاق بھی فرما لیتے طبیعت میں مزاح بہت تھا لیکن ایسا مزاح نہیں کہ دوسرے کے لیے تکلیف کا باعث ہو بامذاق طبیعت کو پسند فرماتے۔
بچوں کو کافی دفعہ جادو کے تماشے بھی کر کے دکھاتے جس سے بچے محظوظ ہوتے تھے۔
اپنے بچوں کی اولاد سے بھی بہت پیار اور محبت کا سلوک کیا ان کی پسند کے تحائف دینے کا خیال رہتا تھا کسی بچہ کی خواہش کا علم ہوتا تو حتی الوسع اسے پوری فرماتے۔’’
(سوانح فضل عمر جلد 5صفحہ393تا395)
اب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ‘ایک مردِخدا ’سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تربیت اولاد کے چند واقعات پیش کرتےہیں۔آپ رحمہ اللہ نے بیان فرمایا:
‘‘حضرت والد محترم ؓکو جب نہایت نازک قسم کے فیصلے درپیش ہوتے تو وہ ہم بچوں کوبلوا بھیجتے اور فرماتے :‘‘بچو! دعا کرو۔ مجھے تمہاری دعاؤں کی ضرورت ہے۔’’(صفحہ59,58)
آپ ؒ مزید فرماتے ہیں کہ
‘‘ہمارے والد محترم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ بعض امور میں بے حدترقی پسند واقع ہوئے تھے۔ اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے بارے میں تو وہ بڑے ہی لبرل اور فراخ دل تھے۔تعلیم کے لیے پہلے ایک جرمن خاتون اور پھر ایک انگریز استانی کو بطور معلمہ ملازم بھی رکھا گیا تھا۔’’(صفحہ70)
‘‘چنانچہ اگر انہیں کسی خاص امر پر زور دینا مقصود ہوتا توحضرت مسیح موعودؑ کے حوالے سے بات کہتے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا ارشاد ہے۔ مثلاً ایک دفعہ انہوں نے مجھے گھر سے ننگے سر نکلتے ہوئے دیکھ لیا۔مغرب میں تو بڑوں کے سامنے ننگے سر جانا احترام کی علامت سمجھا جاتا ہے۔لیکن مشرق میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ مشرقی ممالک میں احترام کا تقاضا یہ ہے کہ بزرگو ں کے سامنے سر ڈھانپ لیا جائے چنانچہ حضرت خلیفہ ثانی ؓنے مجھے ننگے سر جاتے دیکھ کر واپس بلایا اور کہا ‘‘یاد رکھو حضرت مسیح موعودؑ تمہیں اس طرح ننگے سر گھر سے باہر جاتے دیکھ کر کبھی خوش نہ ہوتے۔اس لیے آئندہ کے لیے محتاط رہو اور کبھی ننگے سر گھر سے باہر مت جاؤ۔’’(صفحہ73تا74)
‘‘بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں اس بات پر خصوصیت سے زور دیتے کہ بچے دوسرے مذاہب کا احترام کرنا سیکھیں اور کبھی بھولے سے دل میں یہ خیال نہ لائیں کہ صرف اسلام ہی نیکی ،پارسائی اور اخلاقی قدروں کے حصول کی تلقین کرتا ہے اور دوسرے مذاہب اس سے یک سر خالی ہیں اور یہ اچھے مسلمان کی علامت نہیں کہ اپنے پڑوسی سے صرف اس وجہ سے اجتناب کرے کہ ہندو یا سکھ مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔’’(صفحہ74)
‘‘ایک دفعہ ان کے والد محترم نے صاحبزادہ طاہر احمد اور ان کے بھائی انور احمد کے لیے تعطیلات کے دوران خاص ٹیوشن کا بندو بست کیا کیونکہ دونوں بھائی اپنے ہم جماعت طالب علموں سے بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ دونوں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے طالب علم تھے اگرچہ ایک قدیم اور معزز خاندان کے افراد ہونے کی حیثیت سے انہیں یہ حق حاصل تھا کہ وہ چیفس کالج جیسے مشہور و معروف سکول میں داخل ہوتے جسے برطانوی حکومت نے بڑے بڑے زمینداررؤسا کے بچوں کی تعلیم و تدریس کے لیے جاری کیا ہوا تھا تاکہ یہ بچےفارغ التحصیل ہو کر مستقبل قریب میں ہندوستان کی حکومتی ذمہ داریاں سنبھال سکیں۔ لیکن آپ کے والد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ اس قسم کی طبقاتی تفریق کے سخت مخالف تھے۔چنانچہ حضرت مرزا طاہر احمد فرماتے ہیں:‘‘قادیان کے سکول میں ہر خاص و عام کو داخلے کی اجازت تھی اور داخلے کے لیے احمدی ہونا بھی ضروری نہیں تھا۔یہ ایک ایسا اصول ہے جسے ہم نے سختی سے اپنا لیا ہے۔حتیٰ کہ افریقہ اور دوسرے ممالک میں بھی جہاں جہاں ہم نے سکول جاری کیے ہیں وہاں بھی اس اصول کی لازمی طور پر پابندی کی جاتی ہے۔
موسم گرما میں قادیان میں شدید گرمی پڑتی ہے۔طاہر اور انور اپنے ٹیوٹر کے ہمراہ شدت گرما سے بچنے کے لیے ڈلہوزی چلے جاتے۔ان کے ٹیوٹر آج تک ان خوشگوار لمحات کا مزے لے لے کر ذکر کرتے ہیں۔
ہم لوگ اشیائے خوردنی کی خرید کے لیے ڈلہوزی کے بازار کا چکر لگایا کرتے تھے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ یعنی ان کے اباجان کھانے اور دیگر ضروریات کے لیے اتنی محدود اور نپی تلی رقم دیتے جو کھانے کے اخراجات کے لیے بمشکل کفایت کرتی۔اس لیے دونوں صاحبزادگان کو سوداسلف خریدتے وقت بڑی احتیاط اور جزرسی سے کام لینا پڑتا۔لیکن کفایت کے اس عمل میں بھی دلچسپی کے کئی پہلو پیدا ہو جایا کرتے تھے۔….
ایک مرتبہ طاہر احمد اور انور احمد دونوں صاحبزادگان نے پروگرام بنایا کہ ڈلہوزی کے قریب واقع ایک جھیل پر پکنک منائی جائے دونوں نے اپنے ٹیوٹر کو کسی نہ کسی طرح اس بات پر بھی آمادہ کر لیا کہ وہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے اس کی اجازت لینے کی کوشش کریں ،دونوں کا اصرارتھا کہ اس پروگرام کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے پائے۔لیکن جیسا کہ اس عمرمیں ہوتا ہے۔حسب توقع یہ راز فاش ہو گیا۔اب کیا تھاباقی بھائی بھی ایک ایک کر کے ابا حضور کی خدمت میں ٹرپ پر جانے کی اجازت لینے کے لیے پہنچنے شروع ہوگئے۔اس پرتویہ دونوں بھائی بہت سٹ پٹائے ان کو گلہ یہ تھا کہ پروگرام ان کا تھا اور اس پر قبضہ دوسروں نے جمالیا۔جب ان دونوں نے زیادہ ہی احتجاج کیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فیصلہ فرمایا کہ ‘‘سوائے تم دوکے باقی سب کو جھیل پر سیر کے لیے جانے کی اجازت ہے۔’’اس پر ان کے ٹیوٹر نے انہیں مشورہ دیا کہ اپنی غلطی تسلیم کرلو اور فوراً معافی مانگ لو کہ ہم سے غلطی ہو گئی باقی بھائیوں کا بھی حق ہے کہ وہ بھی اس ٹرپ میں شامل ہوں چنانچہ بڑے جوش و خروش سے معافی مانگی گئی اور ظاہر ہے کہ معافی مل بھی گئی۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ تفریحی سفر بہت کامیاب اور پر لطف رہا۔(صفحہ44تا46)
‘‘طاہر اور انور کا شروع شروع میں ارادہ تو یہ تھاکہ گرمیوں کی تعطیلات میں سارا وقت پڑھنے لکھنے ہی میں نہ گزارا جائے۔اکثر یوں ہوتا کہ دوپہر کے وقت گھنٹوںسوئے رہتے۔جب اباحضور کو اس کا علم ہوا تو وہ سخت خفا ہوئے۔ اور ان کے ٹیوٹر سے فرمایا کہ میں نے بچوں کو ان کی عادات خراب کرنے کے لیے آپ کی نگرانی میںنہیں دیا تھا بلکہ مقصد تو یہ تھا کہ آپ ان کی تعلیم و تر بیت کا بھی خیال رکھیں۔ٹیوٹر نے ادب سے عرض کی کہ اگر دوپہر کے وقت ایک بجے سےچار بجے تک سونے کی اجازت دے دی جائے تو مناسب ہوگا(گرمی کے دنوں میں اتنا لمباقیلولہ کوئی غیر معمولی بات نہ تھی)آپ نے فرمایا۔آرام کے لیے صرف ایک گھنٹہ کافی ہے۔اب ان دونوں ننھے بھائیوں کے لیے چوبیس گھنٹوں کا ٹائم ٹیبل تجویز ہوا اور حکم ہوا کہ اس ٹائم ٹیبل کی سختی سے پابندی کی جائے۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ حسب ارشاد دوپہر کے وقت آرام کے لیے صرف ایک گھنٹے کی اجازت دی گئی۔’’(صفحہ 46 تا 47)
صاحبزادہ طاہر احمد نے موسیقی اور سینما کے بارے میں اپنے والد محترم کا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ‘‘حضرت اباجان رضی اللہ عنہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اس قسم کے مشاغل لہوو لعب میں شامل تھے اور وہ ذہنوں میں ایک قسم کی سہل انگاری،بے راہ روی اور قانون سے عدم احترام کے رحجانات کی حوصلہ افزائی کے ذمہ دار تھے۔لوگ حدود سے تجاوز کرنے اور ناواجب تعلقات کی برداشت کے عادی ہو جاتے ہیں۔اور بالآخر نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ مصنوعی چکا چونداور رنگ و روغن پر فریفتگی ان کا اوڑھنا بچھونا بن جاتی ہے۔حتیٰ کہ غرباء بھی جو امراء کی سی معیاری عیاشی کی سکت نہیں رکھتے۔بری طرح اس رو میں بہ جاتے ہیں۔بے راہ روی کا مزا چکھنے کے بعد اصل مسرت ان سےہمیشہ کے لیے چھن جاتی ہے۔ اطمینان مفقود ہو جاتا ہے اور نشہ کرنے والے ایک عادی مریض کی طرح ان کی تسلی ہی نہیں ہوتی۔جب تک وہ عیاشی میں آگے سے آگےبڑھتے چلے نہ جائیں(صفحہ54تا55)
(ماخوذ از‘‘ایک مردِخدا ’’صفحہ44تا74)
حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ والدہ ماجدہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتی ہیں:
‘‘آپا جان سارہ بیگم اور میں نے میٹرک کا امتحان دیا ابا جان فرمانے لگے امتحان دے کر تھک گئی ہو تم لوگوں کو سیر کرالاؤں۔ ڈیرہ دون ، مسوری و دہلی لے گئے۔عید مسوری کرنی تھی حضرت ابا جان ؓتو جماعتی کاموں میں مصروف رہتے تھے زیادہ وقت باہر ہی گزرتا میں اُداس ہو گئی اور کہنے لگی عید کا مزہ تو سب میں آتا ہے جماعت بہت زیادہ زور دے رہی تھی اس لیے ابا جان ؓکی خواہش تھی کہ عید مسوری میں کی جائے۔ میں نے کہا اگر عید ضرور یہاں کرنی ہے تو بھائی کو بلوا دیں بھائی جان (حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ )اُ س وقت لاہور میں پڑھتے تھے۔ابا جان ؓ نے فوراً تار دے کر اُن کو وہاں بلوایا۔کتنی محبت تھی آپؓ کو اپنی بچیوں سے کتنا احترام کرتے تھے ان کے جذبات کا۔’’
(سوانح فضلِ عمر جلد 5صفحہ 387)
محتر مہ صا حبزادی امتہ الر شید بیگم صا حبہ تحریر کر تی ہیں:
‘‘ویسے توابا جان کو اپنی ساری اولاد سے بہت پیار تھا لیکن جن بچوں کی مائیں فوت ہوجاتیں ان سے غیر معمولی شفقت و محبت کا سلوک فرماتےاور کبھی ان کوماں کی کمی کا ا حساس نہ ہو نے دیتے۔ ایک دفعہ ہم منا لی پہا ڑ پر گئے ہو ئے تھے کہ سید نا ابا جان نے ‘‘تبت پاس’’(Tibet Pass)جا نے کا پرو گرام بنا یا۔ہم بچو ں کو معلوم ہو گیا کہ اس پرو گرام میں بچے شا مل نہیں ہیں۔ میں ابا جان سے بہت بے تکلف تھی۔اسی وقت دوڑتی ہو ئی گئی اور کہا کہ ہمیں بھی سا تھ لے کر جا ئیں۔ابا جان سمجھا نے لگے کہ وہ راستہ بہت خطر نا ک ہے اور بچو ںکا جانا نا ممکن ہے۔لیکن میں نے ضد شروع کر دی اور اس قدر اصرار کیا کہ ابا جان نے اپنا سفر بھی ملتوی کر دیا۔اس پر تمام گھر والے میرے پیچھے پڑ گئے اور کہنے لگے کہ اس نے ہما ری سیر خراب کی ہے۔میری طبیعت پر اس کا بہت ا ثر ہوا اور میں ا داس ہو گئی۔مجھے اداس د یکھ کر سب کو کہا کہ میری بچی کو کیوں اداس کر دیا ہے۔میں تو خو د اس کے بغیر جانا نہیں چا ہتا۔یہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلے گئے اور چند لمحو ں کے بعد یہ شعر پڑ ھتے ہو ئے آئے۔
تبسم لب پہ ہے ہر دل شنا سا ئے محبت ہے
نہ ظا ہر تجھ کو دے د ھو کہ یہ لڑکی بیش قیمت ہے
اور با ر با ر مجھے گلے سے لگا کر یہ شعر پڑ ھتے۔اس وقت میری خو شی کی انتہا نہ تھی۔’’
(روزنامہ الفضل 15؍فروری 2008ء صفحہ9)
بچیوں کی تربیت کے حوالےسے حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ نے اپنا ایک واقعہ بیان فرمایا:
‘‘میری شادی سے چند روز قبل کی بات ہے میں ایک کمرے کے دروازے میں کھڑی تھی حضرت ابا جان ؓصحن میں ٹہل رہے تھے اور مجھے سمجھاتے جا رہے تھے۔دیکھو تمہاری عادت ہے تم کھانے میں بہت نخرے کرتی ہو اور اکثر چیزیں تم نہیں کھاتیں۔ ماں باپ کے گھر میں تو ایسی باتوں کا گزارہ ہو جاتا ہے وہ اپنی اولاد کے نازنخرے اٹھا لیتے ہیں مگر سسرال میں جا کر ایسا نہیں کرنا جو ملے خاموشی سے کھا لینا وغیرہ۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ میں قریباً چھ سال چچا جان کے ساتھ رہی کبھی ایک لفظ کھانے کے متعلق منہ سے نہیں نکلا میری پسند نا پسند اس عرصہ میں ختم رہی۔ کبھی لڑکیوں سے سسرال کے متعلق بات نہ پوچھی اگر کبھی کوئی بات دوسروں کے ذریعے سے پہنچی بھی تو سنی ان سنی کر گئے۔’’
(سوانح فضلِ عمر جلد 5صفحہ385)
حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ؓکے بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے ایک پروگرام میں حضرت مصلح موعود ؓکی شفقت اور محبت کے حوالے اپنے بچپن کے دلچسپ واقعات بیان کیے جس میں سے چند یہاں قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
٭…تقسیم کے بعد حضرت صاحب کے ذرائع آمد بھی محدود تھے اوپر سے سارے خاندان کے کھانے کا خرچ بھی حضرت صاحب پر تھا۔ ابتدا میں حضور نے فیصلہ فرما یا تھا کہ ہر آدمی کو ایک روٹی ملے گی۔ایک دفعہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی ایک صاحبزادی امۃ الباری بیگم جو نواب عباس احمد خان کی بیگم ہیں ،حضور کو دبا رہی تھیں۔ حضور نے آپا باری سے کہا :باری !کیا کمزوروں کی طرح دبا رہی ہو تمہارے ہاتھوں میں طاقت نہیں ہے۔ آپا باری کہنے لگیں ‘‘چچا ابّا اک روٹی نال تے اَینی طاقت آسکدی اے ’’اس واقعہ یا لطیفہ کے بعد پھر ایک کی بجائے دو روٹی ہر ایک کو ملنے لگی۔
٭…ایک دفعہ حضرت صاحب نے تحریک فرمائی کہ احمدی اپنے ہاتھ سے کام کر کے کچھ کمائی کریں اور جو آمد ہو اسے چندہ میں دے دیں۔ حضور کے اس حکم پر قادیان کے اکثرو بیشتر احمدیوں نے کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کی۔ بڑوں کو دیکھ کر بچوں کو بھی شوق ہوا۔چنانچہ میں نے بھی کسی سے کتابوں کی جلد سازی سیکھی تاکہ جلدیں کر کے کچھ چندہ دیا جا سکے۔امّی نے کہیں حضرت صاحب سے ذکر کر دیا۔میری عمر اس وقت کوئی چھ ساڑھے چھ سال ہو گی۔ حضرت صاحب نے ایک بچے کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنی بے انتہا مصروفیات میں سے وقت نکالا اور ایک دن مجھے دفتر بلایا۔مجھے یاد ہے مرحوم لطیف ننھا صاحب مجھے لینے آئے۔مجھے اب تک یاد ہے ان کے ساتھ جاتے ہوئے میں اپنے آپ کو نہایت اہم تصور کر رہا تھا۔حضور اپنے دفتر کے نیچے قائم خلافت لائبریری میں تشریف لائے اور نہایت سنجیدگی کے ساتھ مجھے کچھ کتابیں دکھاکر پوچھا کہ ان کی کیا اجرت لوں گا۔ مجھے یا د ہے کہ اخبار الفضل کی جلد کے لیے خاکسار نے 12؍ روپے مانگے تھے جس پر حضرت صاحب نے فرمایا یہ تو بہت زیادہ ہیں ہم تو اس سے بہت کم میں جلد کراتے ہیں۔ جس بات کا میرے پر اب تک اثر ہے وہ یہ ہے کہ سارا وقت جس میں حضرت صاحب مجھے کتابیں دکھا رہے تھے ایک دفعہ بھی یہ تاثر نہیں ہوا کہ یہ ایک مذاق یا بچے کو بہلانے کی بات ہے۔حضور نے ایسا سنجیدہ رویہ اختیار فرمایا تھا کہ جیسے کسی بڑے شخص کے ساتھ معاملہ طے فرما رہے ہوں۔
٭…سب سے بڑی بات جو میں نے حضرت صاحب میں محسوس کی اور میرا خیال ہے بھائی خورشید اس کی تائید کریں گے وہ یہ تھی کہ بچپن میں بھی ہمیں کبھی احساس نہ ہوا تھا کہ حضرت صاحب ہم سے اپنے بچوں پوتے پوتیوں سے سلوک میں کچھ فرق کرتے ہیں۔یہ تو حقیقت ہے کہ طبعی طور پر بہر حال حضور کو بھی دوسرے انسانوں کی طرح اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں ،نواسے نواسیوں سے بہت تعلق ہو گا۔لیکن جہاں تک ظاہری سلوک کا تعلق ہے میں نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا کہ ان کو مجھ پر کوئی ترجیح حضرت صاحب نے دی ہو۔یہی معلوم ہوتاتھا کہ ہمارا بھی حضرت صاحب پر اسی طرح کا حق ہے جس طرح ان کے اپنے بچوں کا۔یہ حضور کے مزاج کا ایک ایسا پہلو ہے جو بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے۔کم از کم میں نے تو کسی اور میں یہ بات نہیں دیکھی۔
(بدر 14؍ تا7؍فروری 2013ءصفحہ36تا38)
اپنے بچوں کی تو انسان ہر خواہش اور ہر ضرورت کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے مگر چند ایک وجود ایسے ہوتے ہیں جو سب کے بارے میں دل سے سوچتے اور کرتے بھی ہیں ان چند نایاب وجودوں میں آپ کا وجود بابرکات بھی شامل تھا جو عمومی طور سے بچوں سے شفقت کا سلوک کرتے دکھائی دیتے ہیں چاہے وہ اپنی اولاد ہو یا پھر کسی کی سب کے جذبات کا مساوی خیال اور احساس کرنا آپ کی فطرت کا خاصہ تھا۔
خلیفہ صباح الدین صاحب حضور ؓکی بچوں سے شفقت اور پیار کے سلسلہ میں لکھتے ہیں :
‘‘حضور کا شروع ہی سے میرے ساتھ مشفقانہ سلوک رہا حضور نے ابا کو لکھا کہ اس کو میں نے بیٹا بنا لیا ہے اب یہ ہماری ذمہ داری ہےنویں جماعت سے تعلیمی ضروریات حضور کی طرف سے پوری کی جاتیں خاکسار کو ارشاد تھا کہ آکر مل جایا کرو اور ربوہ سے باہرجانا ہوتا تو اجازت لے کر جاتا شکار پر جانا ہو پکنک پر جانا ہوحضور سے اجازت لیتا پھر جاتا شکار پر جانے کے لیے کارتوس وغیرہ عطا فرما دیتے تھے ربوہ سے باہر جانا ہوتو بعض اوقات کار کی اجازت فرما دیتے۔
خاکسار نے دیکھا کہ جب کھیل کی غرض سے باہر جانا ہوتا تو میں دعا کے لیے عرض کرتا حضور اگر فرماتے اللہ رحم کرے تو میچ میں ہار ہوتی اگر حضور فرماتے اللہ فضل فرمائے یا دعا کروں گا تو پھر ہم جیت کر آتےمجھے اندازا ہو جاتا کہ ہم جیتیں گے یا ہار ہوگی۔
ایک مرتبہ برادرم عزیزم صفی الدین اور برادرم عزیزم فلاح الدین اور میں شکار پر گئے سارا دن کوئی شکا ر نہیں ملا دریا کے ساتھ ساتھ واپس آرہے تھے کہ ایک دیہاتی ملا اس نے بتایا کہ سورج ڈوبنے کے ساتھ ہی تین مگ (بڑا آبی پرندہ) یہاں سے گزرتے ہیں میں نے کہا چلیں رک کر دیکھ لیں ابھی وقت تھا ہم نےریت میں لکڑیاں اور جھاڑیاں گاڑ کر اپنے آپ کو چھپا لیا عین غروب آفتاب کے ساتھ ہی تین مگ نمودار ہوئے ہم نے فیصلہ کر کے تینوں پر فائر کیا تینوں نیچے آ گرے اتنے بڑے مگ تھے کہ کاندھے پر لٹکانے سےاس کی چونچ پاؤں کو چھوتی تھی میں نے ارادہ کیا کہ اپنا مگ حضور کو دے کر آؤں گا۔
حضرت چھوٹی آپا کے ہاں آپ کی باری تھی انہوں نے دیکھتے ہی فرمایا کہ حضور آج فرما رہےتھے کہ مگ کا پلاؤکھانے کو جی چاہتا ہےمیں سمجھ گیا کہ ہمارا شکار کا پروگرام بننا سارا دن شکار کا نہ ملنا ایک دیہاتی سے ملاقات اور اس کا تین مگوں کا بتانا اور پھر ایسا ہی ہونا اور ان کا شکار کر لینا یہ سب باتیں حضور کی خواہش کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انتظام تھا۔
(سوانح فضل عمر جلد 5صفحہ 395تا396)
ہزاروں ایسی ہستیاں ہیں جو حضرت مصلح موعود ؓکے اعلیٰ اخلاق اور بے مثال شخصیت کی گواہ ہیں۔آپ ان چند خاص ابنائے آدم میں سے ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور حق کی روشنی سے صرف ایک نسل کو نہیں بلکہ کئی انسانی نسلوں کو اپنی ضیا پاشی سے منور کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
اے خدا !تو حضرت مصلح موعودؓ کے درجات بلند سے بلند کرتا چلا جا اور ہمیں اور ہماری نسلوں کو آپ کے ارشادات کے مطابق سنتِ نبوی ؐ کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین۔
٭…٭…٭