’’چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر‘‘
انیسویں صدی میں مسلمانانِ ہندوستان ایک ایسی دعوت ہائے مقابلہ سے نبرد آزما تھے کہ بقولِ غالب؎
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
علماء تو سرگشتۂ خمارِ رسوم و قیود تھے لیکن جدّت پسند گردشِ زمانہ سے مجبور ہو کر مغرب کی دریوزہ گری کر رہے تھے۔ اہلِ درد کی آنکھیں اس امید سے ہر رات بھیگ جاتی تھیں کہ
شاید اس رات وہ ماہتاب لبِ جو آئے
جب یوں ظاہر ہو رہا تھا کہ وقت اپنے بے رحم ہاتھوں سے امّت کی تقدیر کا فیصلہ لکھ دے گا کہ یکایک قادیان کے گمنام گوشوں سے ایک مردِ حق نے جس کی آنکھیں خاکِ مدینہ و نجف کے سرمے سے روشن تھیں نعرۂ حق بلند کیا۔
وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم
اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار
چنانچہ قادیان کے آریوں نے لکھا ہم جو آپ کے ہمسائے میں رہتے ہیں ہمیں کیوں محروم رکھا جائے ۔ ہمیں خدا تعالیٰ کے قرب اور رحمت کا نشان دکھائیے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے رب سے رحمت اور قربت کا نشان مانگنے کی طرف متوجہ ہوئے ۔ آپ نے گوشہ نشینی اختیار کی اور اپنے رب سے باکمال فرزند کی ولادت کی التجا کی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوشخبری دی۔
‘‘میں تجھے رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا’’
چنانچہ آپ کو اس با کمال فرزند کے متعلق خبر دی گئی ۔
1۔ وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا
2۔ علوم ظاہری اور باطنی سے پُر کیا جائے گا……تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ‘‘کسی قول کو کیونکر خدا کی طرف منسوب کر سکتے ہیں جب تک اس کے ساتھ فعلی شہادت زبردست نہ ہو’’
(روحانی خزائن تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 575-578)
چنانچہ اس قول کو پرکھنے کے لیے ہم تاریخ کے آئینہ خانے میں چلتے ہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ باکمال فرزند جس کے حصے میں جدید درس گاہوں کے ایوان نہیں بلکہ مسجد کی چٹائی اور بیت الدعا کا گوشہ آیاتھا جب انگلی پکڑ کر عالم روحانی کی سیر کرواتا ہے تو نواب بہادر یار جنگ جیسا سحر طراز مقرر دنگ رہ جاتا ہے ۔
مذہب اور سائنس پر لیکچر دیتے ہیں تو اقبال لذت تقریر سے سر شار ہو جاتے ہیں۔
اسلامی تاریخ کی گتھیاں سلجھاتے ہیں تو سر عبد القادر داد دیے بغیر نہیں رہتے ۔ آپ کے رشحات قلم ٹپکتے ہیں تو حقائق و معارف کی ایک جوئے رواں بہہ نکلتی جو ان تمام قصوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کے لے جاتی ہے جو کہ قرآن کی تفسیروں میں داخل کر دیے گئے تھے ۔ جس کی وجہ سے معاندین اسلام قرآن پر بے جا اعتراض کرتے تھے ۔
پیش گوئی کے مطابق یہ باکمال فرزند علوم ظاہری اور باطنی سے پُر کیا جائے گا۔ آئیے ہم ماضی کی تاریخ میں اس حقیقت کا عکس دیکھتے ہیں ۔
اگر انسانی تہذیب کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ دنیا میں علمی انقلا ب حقیقت میں قرآن پاک لے کر آیا ۔
یہ قرآن تھا جس نے عقل کو شرف و مرتبہ عطا کیا جسے ماضی کے مذہبی ٹھیکے داروں نے مر دود و مقہور قرار دے رکھا تھا ۔ قرآن پاک میں دوزخیوں کے بارے میں ذکر ہے
وَ قَالُوۡا لَوۡ کُنَّا نَسۡمَعُ اَوۡ نَعۡقِلُ مَا کُنَّا فِیۡۤ اَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ(الملک :11)
‘‘اور وہ کہیں گے اگر ہم (غور سے)سنتے یا عقل سے کام لینے تو ہم آگ میں پڑنے والوں میں شامل نہ ہوتے’’
چنانچہ عقل کی پذیرائی کی بھی روایت تھی جو اندلس کے مسلمانوں کے ذریعے مغرب پہنچی اور ایک عالمگیر سائنسی انقلاب کی بنیاد رکھی ۔ لیکن افسوس قرآن کے حسن کو زمانہ نہ سمجھ سکا ۔
چنانچہ کارلائل جس نے آنحضرت ﷺ کو خراج تحسین پیش کیا لیکن قرآن کے اعجاز کو نہ سمجھ سکا۔ وہ قرآن کے مطالعہ کے بارے میں لکھتا ہے
I must say, it is as toilsome reading as I ever undertook. A wearisome confused jumble, crude, incognite
(Thomas Carlyle, Heroes and Hero-worship, London, 1869. page 77)
اورتو اور مولانا مودودی صاحب قرآن کے بارے میں لکھتے ہیں
‘‘اس میں نہ تصنیفی ترتیب پائی جاتی ہے اور نہ کتابی اسلوب’’(تفہیم القرآن جلد اول ۔ ادارہ ترجمان القرآن صفحہ 21)
دسمبر 1915ء کے آخر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ہدایت اور نگرانی کے ماتحت قرآن شریف کے پہلے پارہ کی تفسیر شائع ہوئی ۔ یہ تفسیر خود حضور کی لکھی ہوئی تھی ۔
(تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 184-185)
اس تفسیر کو بہت پذیرائی ملی۔ اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہو رنے لکھا
‘‘اس ترجمہ سے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ قرآن سراسر مربوط کلام ہے جس کی ہر آیت اپنی جگہ ٹھیک ٹکے ہوئے موتی کی طرح ہے۔’’(ریویو آف ریلیجنزاردو جنوری 1917ء صفحہ 32)
اس شہادت سے کیا کلام اللہ کا مرتبہ ظاہر نہیں ہوا !
میر نے کہا تھا
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ
٭…٭…٭