حضرت مصلح موعودؓ کا عظیم کارنامہ…تحریک جدید
’’میں سمجھتا ہوں ہزاروں قومی خرابیاں تکلفات سے پیدا ہوتی ہیں۔ … سادہ زندگی بسر کرو اور روپیہ اس طرح خرچ کرو کہ لوگوں کو فائدہ پہنچے‘‘ (المصلح الموعودؓ)
1934ء میں جماعت کے خلاف ایک بہت بڑا طوفان اٹھایا گیا۔ صداقت کے مخالفوں نے اپنی کامیابی کے لیے تمام دنیوی سامان جمع کرلیے۔ ان کی پشت پر ہندو سرمایہ تھا۔ان کی امداد آل انڈیا کانگریس کے اکابر کررہے تھے۔ انگریز کی اس وقت کی حکومت کے بعض افسر جن میں پنجاب کے گورنر بھی شامل تھے ان کی بھرپور حمایت کررہے تھے۔ مخالفت کرنے والا یہ گروہ جو اپنے آپ کو ‘‘مجلس احرار’’کے نام سے مشہور کرتا تھا ان کے مقاصد وہی تھے جومحمد علی جناح صاحب کے مقابلے میں ہندو گانگریس کے تھے اور یہ بظاہر مسلمان اسلامی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے اور اپنے سرپرستوں ابوالکلام آزاد اور مسٹر پٹیل کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہر کام کر گزرتے تھے اوراس بات کی انہیں کوئی پروا نہیں تھی کہ یہ کام خلاف اسلام، خلاف قرآن اور خلاف عقل و نقل ہے۔ اس مجلس کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل شورش کاشمیری نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مولانا آزاد کی سفارش پر مسٹر پٹیل سے ایک بھاری رقم وصول کی جس کی بندر بانٹ کی دلچسپ روئیداد بھی مفصل تحریر کی گئی ہے۔
جماعتِ احمدیہ کی تو یہ پُرانی پالیسی رہی ہے کہ
أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (الفتح: 30)
مخالفوں کا کو ئی اثر قبول کیے بغیر باہم پیار و محبت سے اپنے مقصد یعنی سچائی کا بول بالا کرنے کے لیے کام کیے جانا۔
ہمارے پیارے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے یہی پرحکمت طریق اختیار فرمایا۔
عدو جب بڑھ گیا شور و فغاں میں
نہاں ہم ہو گئے یار نہاں میں
آپ نے جماعت کے سامنے ایک بہت ہی بابرکت اور انقلابی الہامی تحریک جاری فرمائی جو جماعت میں ‘‘تحریک جدید’’ کے نام سے مشہور ہے۔
مذکورہ تحریک کا اعلان کرنے سے پہلے آپ نے فرمایا کہ اس تحریک سے پہلے میں یہ چاہتا ہوں کہ افراد جماعت باہم پیارو محبت کی فضا پیدا کریں اور اگر کسی کی اپنے بھائی سے ناراضگی ہے تو وہ اس کے پاس جائے اور اس سے صلح کرے۔ آپ نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ ہر وہ شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ اس ناراضگی میں مَیں مظلوم ہوں اور میرے مخالف کی زیادتی ہے تو میں یہ حکم دیتا ہوں کہ صلح میں ابتدا اسی کی طرف سے ہونی چاہیے جو اپنے آپ کو مظلوم سمجھتا ہے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ قادیان کے لوگ جو یہ خطبہ سن رہے ہیں وہ آج شام تک اس پر عمل کرلیں اور باہر جب جماعتوں میں یہ خطبہ جائے تو وہ لوگ بھی بلا تاخیر اس کی تعمیل کریں۔ آپ اپنی اس نہایت ضروری اور اہم نصیحت کی یاددہانی بھی کرواتے رہتے تھے۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا:
‘‘آج چھ ماہ کے بعد میں پھران لوگوں سے جنہوں نے اس عرصہ میں کوئی جھگڑا کیا ہو کہتا ہوں کہ وہ توبہ کریں، توبہ کریں، توبہ کریں ورنہ خدا کے رجسٹر سے ان کا نام کاٹ دیا جائے گا اور وہ تباہ ہوجائیں گے۔ منہ کی احمدیت انہیں ہرگزہرگز نہیں بچا سکے گی۔ ایسے لوگ خون آلود گندے چیتھڑے کی طرح ہیں جو پھینک دیے جانے کے قابل ہے۔ اس لیے ہر وہ شخص جس نے اپنے بھائی سے جنگ کی ہوئی ہے میں اس سے کہتا ہوں کہ پیشتر اس کے کہ خدا کا غضب اس پر نازل ہو وہ ہمیشہ کے لیے صلح کرلے۔’’
(تقریر 26؍مئی 1935ء)
اس خوش گوار فضا اور ماحول میں آپ نے تحریک جدید کا اعلان فرمایا۔ جس میں آپ نے جماعت کے سامنے قربانیوں کا ایک وسیع اور متنوع پروگرام رکھا۔ آپ نے ابتدائی ضروری کاموں کے لیے 27ہزار روپے کا مطالبہ کیا۔ جماعت نے اس سے بہت بڑھ کر وعدے اور چندہ پیش کردیا۔ مگر حضورؓ کے مطالبات کو دیکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ چندہ ایک ضمنی مطالبہ تھا مگر اصل مطالبات بنیادی اہمیت کے ہیں۔ مثلاً
1۔ زندگی وقف کرنا۔
2۔ تبلیغ کرنا۔
3۔ مرکز سے تعلق کو مضبوط کرنا۔
4۔ بچوں کو تعلیم کے لیے مرکز بھجوانا۔
5۔ بے کاری ترک کرکے کوئی نہ کوئی کام کرنا۔
6۔ دفتر امانت کے امانت فنڈ کو مضبوط کرنا۔
7۔ پینشن یافتہ لوگوں کا مرکز میں آنا اور رہنا۔
8۔ اگر کوئی کام کرنے سے معذور ہو تو اس کا دعاؤں میں مصروف رہنا۔
یہ سب مطالبات ضروری اور بنیادی امور ہیں۔ ان کے بغیر انفرادی اور جماعتی ترقی ممکن ہی نہیں ہے۔ تحریک جدید کے مطالبات میں ایک مطالبہ سادہ زندگی اختیار کرنا اور سادہ زندگی بسر کرنا بھی تھا۔ بظاہر یہ ایک بہت ہی معمولی، آسان مطالبہ ہے مگر اس پر غور کرنے سے بآسانی معلوم ہوسکتا ہے کہ اس میں بہت زیادہ منافع اورکثیر فوائد ہیں۔ حضورؓ نے اس مطالبہ کی طرف بطور خاص توجہ دلائی۔ بار بار اس کی یاددہانی کروائی۔ خود ہمیشہ اس طریق پر عمل پیرا رہے۔ اس سلسلے میں آپ کے ارشادات بہت تفصیلی تھے۔ آپ نے اپنے کئی خطبات اور تقریروں میں اس کی طرف توجہ دلائی اور اس کی اہمیت، ضرورت اور فوائد کو بیان کیا مثلاً آپ فرماتے ہیں۔
‘‘سُستیوں اور غفلتوں کو دور کرو۔ اپنے اندر بیداری پیدا کرو … چندہ اور امانت فنڈ دونوں میں حصہ لو اور سادہ زندگی اختیار کرو کہ وہ نور بخشنے والی ہے۔ جو اسے اختیار نہیں کرتا وہ سمجھ لے کہ اس کے لیے جہنم تیار ہے۔ کوئی بات میں نے ایسی نہیں کہی جس کی کل ضرورت پیش نہیں آنے والی۔ جب وقت آئے گا تو جنہوں نے مان کر عمل کیا دعائیں دیں گے اور نہ ماننے والے اپنے آپ کو لعنت کریں گے۔ ’’
(الفضل 21؍ستمبر 1935ء)
سادگی کو ترک کرنے والے تصنع اور بناوٹ کی ایسی زندگی اپناتے ہیں جس میں وقتی طور پر تو بہت چکا چوند اور رونق و ٹھاٹھ نظر آتا ہے مگر ایسے لوگ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ میک اپ کی کثرت چہرے کو بگاڑ دیتی ہے۔ لباس میں تکلف بے شرمی اور بے حیائی کی طرف لے جاتا ہے۔ کھانے میں تکلف مرغن کھانوں کی طرف لے جاتا ہے۔ جس میں وقتی طور پر لذت اور مزا تو ضرور ہوتا ہے مگر اس کا نتیجہ ذیابیطس اور موٹاپے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور یہاں اس بات کی وضاحت کرنے کی تو کوئی ضرورت نہیں کہ تمام بیماریاں اور دواؤں کا استعمال یہیں سے شروع ہوتا ہے اور ان سے نجات کے لیے عقل مند لوگ رضاکارانہ طور پر سادگی کی طرف لوٹ آتے ہیں مگر بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ ڈاکٹروں اور طبیبوں کی نصیحتوں کے باوجود اپنا تکلف کا طریق نہیں چھوڑتے اور حسرت و ندامت کا شکار ہوتے ہیں۔ عبرت اور نصیحت کے یہ نشان ہمیں ہر طرف نظر آتے ہیں اور بزبان حال یہ بتاتے ہیں کہ سادگی میں بہت سکھ ہے
اے ذوقؔ تکلف میں ہے تکلیف سراسر
مالی قربانی کرنے والے خوش قسمت افراد کو توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
‘‘جس رنگ میں جماعت نے مالی قربانی کی ہے اس حد تک دوسری باتوں کی طرف توجہ نہیں کی۔ سادہ زندگی کے متعلق میں جانتا ہوں کہ ہزارہا لوگوں نے اپنے اندر تغیر پیدا کیا مگر ابھی بہت ہیں جن کو اپنے اندر تغیر پیدا کرنا چاہیے۔’’
(الفضل 7؍نومبر1935ء)
سادہ زندگی کو دنیا کے تمدن کی بنیاد قرار دیتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
‘‘خصوصاً سادہ زندگی کی طرف زیادہ توجہ کریں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سادہ زندگی کی ہدایت پر عمل کرنے میں کچھ نقص ہے۔ …سادہ زندگی کی تحریک کوئی معمولی تحریک نہیں بلکہ درحقیقت دنیا کے آئندہ تمدن کی بنیاد اس پر ہے۔ ’’
(الفضل 16؍ اکتوبر 1936ء)
آپ نے ایک اور جگہ فرمایا:
‘‘…دوستوں کو تحریک جدید کے اس حصہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو سادہ زندگی اختیار کرنے کا ہے۔ … جہاں تک میں اسلام پر غور کرتا ہوں مجھے اس کے تمدن کا یہ نقطہ مرکزی نظر آتا ہے اور میں سمجھتا ہوں ہزاروں قومی خرابیاں تکلفات سے پیدا ہوتی ہیں۔ … سادہ زندگی بسر کرو اور روپیہ اس طرح خرچ کرو کہ لوگوں کو فائدہ پہنچے۔
اصل بات یہ ہے کہ اسلام ایسے تمدن کو بیان کرنا چاہتا ہے جو دنیا کے تمدن سے بالکل مختلف ہے اور یہ اس تمدن کی پہلی سیڑھی ہے۔ آج اگر ہم تمدن تبدیل نہیں کرسکتے تو جب ہمیں بادشاہتیں ملیں گی اس وقت کیا کریں گے۔’’
(خطبہ 8؍دسمبر 1936ء)
اس جگہ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سادہ زندگی کے متعلق بیان کرتے ہوئے بعض دفعہ یہ سننے میں آتا ہے کہ پہلے زمانے میں غربت زیادہ تھی اس لیے لوگ سادہ زندگی بسر کرتے تھے اب ہمیں آسائش اور آسانیاں حاصل ہیں اس لیے سادہ زندگی گزارنے کی ضرورت نہیں ہے مگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ تاثر کہ پہلے غربت زیادہ تھی قابل توجہ ہے۔ معیار زندگی کو ذہن میں رکھا جائے تو بخوبی سمجھ آسکتی ہے کہ امیر اور غریب میں جو فرق اور امتیاز آج پایا جاتا ہے وہ پہلے کبھی بھی نہیں تھا۔ ایک اور بات جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ آج بھی دنیا کی اکثریت غربت، افلاس اور بے بسی میں اس بری طرح پس رہی ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
سادہ زندگی کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کے ارشادات کا اپنے لفظوں میں خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی پیروی کی سعادت حاصل ہوتی ہے۔اولیاء اللہ کی سی زندگی گزارنے کی توفیق ملتی ہے۔ ہزاروں معاشرتی خرابیوں رشوت، کرپشن اور نفسانفسی وغیرہ سے نجات ملتی ہے۔ سادگی اور کفایت سے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں زیادہ خرچ کرنے کی توفیق ملتی ہے۔ سادگی کے نتیجہ میں حقوق العباد کی بہتر ادائیگی کی جاسکتی ہے۔ تکلف اور تصنع سے پیدا ہونے والی بے شمار خرابیوں اور بیماریوں سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ سادہ لباس شریعت اور شرم و حیا کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ سادہ زندگی سے بے کاری (جو بہت سے گناہوں کی جڑ ہے) سے نجات ہوسکتی ہے۔ سادہ زندگی گزارنے سے زیادہ عبادت کی توفیق ملتی ہے۔ سادہ زندگی سے غریب اور امیر کے درمیان فرق ختم ہوکر مساوات کی بنیاد پڑتی ہے۔
فوائد کی یہ فہرست تو کبھی ختم نہیں ہوسکتی البتہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے ہم اس نیکی کو اپنا لائحہ عمل بنانے کی عادت بنا لیں تو ہم پکے، کھرے اور خالص مومن بندے بن سکتے ہیں اور یہی ہمارا مقصود ومطلوب ہے۔وباللّٰہِ التوفیق۔
٭…٭…٭