حاصل مطالعہ
’’میاں تو بڑا ہی میاں آدمی ہے ۔ اے مولا! اے میرے قادرِ مطلق مولا! اس کو زمانہ کا امام بنادے ۔‘‘
’’حضورکا چہرہ آخری وقت ازحد شگفتہ اور خوبصورت ہوگیا تھا اور آخری سانس اس طرح پُرسکون طور پر گزرے کہ حضورؓ کے رُخِ انور کو دیکھ کر ہم ایمانی لحاظ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضورؓ اپنے ربّ سے راضی ہو رہے تھے اور اپنے ربّ کو اپنے ساتھ راضی ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے۔‘‘
خلیفہ خدا بناتا ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت شوق محمدرضی اللہ عنہ ( عرضی نویس) تحریر کرتے ہیں:
‘‘1903ء میں مَیں قادیان میں بغرض تعلیم مقیم تھا ۔ میں نے اپنے زمانۂ قیام دارالامان میں متعدد بار دیکھا کہ حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی (رضی اللہ عنہ) بچپن سے ہی چلتے وقت نہایت نیچی نظریں رکھا کرتے تھے اور چونکہ آپ کو آشوب چشم کا عارضہ عموماً رہتا تھا ۔ اس لیے کئی بار میں نے حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کو خود اپنے ہاتھ سے آپ کی آنکھوں میں دوائی ڈالتے دیکھا۔ وہ دوائی ڈالتے وقت عموماً نہایت محبت اور شفقت سے آپ کی پیشانی پر بوسہ دیا کرتے اور رخسار پردست مبارک پھیرتے ہوئے فرمایا کرتے ۔‘‘میاں تو بڑا ہی میاں آدمی ہے ۔ اے مولا! اے میرے قادرِ مطلق مولا! اس کو زمانہ کا امام بنادے ۔’’بعض اوقات فرماتے : ‘‘ اس کو سارے جہان کا امام بنادے۔’’ مجھ کو حضور کا یہ فقرہ اس لیے چبھتا کہ آپ کسی اور کے لیے ایسی دعا نہیں کرتے ۔ صرف ان کے لیے دعا کرتے ہیں ۔ …میں نے ایک روز کہہ ہی دیا کہ آپ میاں صاحب کے لیے اس قدر عظیم الشان دعا کرتے ہیں کسی اور شخص کے لئے ایسی دعا کیوں نہیں کرتے ۔ اس پر حضور نے فرمایا:
اس نے تو امام ضرور بننا ہے میں تو صرف حصولِ ثواب کے لیے دعا کرتا ہوں ۔ ورنہ اس میں میری دعا کی ضرورت نہیں ۔ میں یہ جواب سن کر خاموش ہوگیا ۔
جلسہ سالانہ گذشتہ کے موقعہ پر کئی ہزار کے قریب مجمع کی بھیڑ اور حسن انتظام دیکھ کر اور مبلغین کے کارنامے جو انہوں نے بیرون جات کیے اور مشن احمدیت جو غیر ممالک میں قائم ہوئے۔ان کے حالات و کوائف سن کر مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ دعا ئیں یاد آگئیں ۔ جو حضور کے بچپن کے زمانہ میں آپ کیا کرتے تھے ۔ ہزار افسوس کہ غیر مبائعین اس سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا رہے بلکہ الٹا اظہارِ دشمنی کر رہے ہیں ۔ حالانکہ ان کو خوش ہونا چاہیے تھا کہ جس عظیم الشان انسان کو انہوں نے مسیح موعود اور مہدی مسعود تسلیم کیا تھا اُسی کا فرزند حقیقی معنوں میں اس کا خلف الصدق ثابت ہورہا ہے اور دین اسلام کی خدمت پوری جانفشانی سے کر رہا ہے ۔ ’’
(روزنامہ الفضل 13؍مارچ 1938ء نمبر59جلد 26صفحہ 3)
(مرسلہ :ظہیر احمد طاہر ۔ جماعت نوئے ہوف ، جرمنی )
سیّدنا حضرت محمود رضی اللہ عنہ کا وصال
حضرت مصلح موعودؓ کے قدیم طبّی خادم حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خانصاحب حضورؓ کے آخری لمحات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
……مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نورانی چہرے کو بھی دیکھا اور حضرت خلیفۂ اوّل رضی اللہ عنہ کو بھی دیکھا۔ یہ دونوں نورٌ علیٰ نور تھے۔ لیکن میرے لیے یہ مقدّر تھا کہ مَیں حضرت سیّدنا محمود کے قدموں میں اپنی زندگی گزاروں۔
مَیں جب عشق محمود کے زیر اثر اپنی ملازمت اور اپنے عزیز وطن (پٹیالہ) کو اچانک ترک کرکے حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضورؓ نے مجھے تین ماہ اُسی دالان میں اپنے پاس سلایا تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام رہا کرتے تھے۔ حضورؓ نے پہلے روز ہی مجھے حکم دیا تھا کہ اِس کمرے سے باہر کسی دوسری جگہ میری اجازت کے بغیر نہ جانا۔ یہ ارشاد میرے لئے انتہائی خوشی کا موجب ہوا۔ مَیں تو خود ہی حضور سے ایک لمحہ دور نہ ہونا چاہتا تھا پس ہم دونوں ایسے اکٹھے ہوئے کہ تازیست سیدنا حضرت محمودؓ نے اس عاجز کو اپنے قرب سے نوازا اور یہ عاجز حضورؓ کے در کا غلام رہا۔ اس جگہ تحدیث بالنعمت کے طور پر یہ بھی عرض کردوں کہ حضور نے اپنی آخری علالت کے شروع میں 59ء میں مجھے یہ ارشاد فرمایا کہ تم نے میرے کمرے کے اس ساتھ والے کمرے میں ہی رہنا ہے۔ چنانچہ مَیں نے اس پر عمل کیا۔ درمیان میں جب بعض منتظمین نے مجھے وہاں سے ہٹانا چاہا اور حضور کو اس کا علم ہوا تو حضور نے ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ چنانچہ میرا قیام حضور کی زندگی کی آخری گھڑیوں تک حضور کے قربِ خاص میں رہا۔ علاوہ ازیں عاجز کو تینوں خلافتوں کی بیعت بالمشافہ اوّل دن ہی کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ الحمدللّٰہ و ذالک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء۔
سیدنا حضرت محمودؓ بشارتوں کے ساتھ آئے اور عمر بھر خدمتِ اسلام انجام دیتے اور کامیابی کا منہ دیکھتے رہے اور تمام ذمہ داریوں سے سرخرو ہوتے ہوئے اپنے رفیق اعلیٰ سے جا ملے اور ہم کمزوروں کو روتا چھوڑ گئے۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔
حضورؓ کی زندگی کے آخری لمحوں میں بھی مجھے حضورؓ کو دیکھنے اور پاس ٹھہرنے کا موقعہ عنایات خداوندی سے مل گیا تھا۔ حضورؓ کا چہرہ آخری وقت ازحد شگفتہ اور خوبصورت ہوگیا تھا اور آخری سانس اس طرح پُرسکون طور پر گزرے کہ حضورؓ کے رُخِ انور کو دیکھ کر ہم ایمانی لحاظ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضورؓ اپنے ربّ سے راضی ہو رہے تھے اور اپنے ربّ کو اپنے ساتھ راضی ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ سانس کے بند ہوجانے پر خاکسار نے پیشانی مبارک پر بوسہ دیا اور کہا اے خدا کے موحد بندے! اے رسول اللہ ﷺ کے عاشق! اے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عاشق! اے اسلام کے شیدائی ! تُو اپنے ربّ کے حضور سلامتی کے ساتھ جا اور تجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آنحضرتﷺ کا قرب مبارک ہو۔
خاکسار
حشمت اللہ
(روزنامہ الفضل ربوہ 30نومبر 1965ء)
(مرسلہ : مظہر احمد چیمہ۔لندن)
٭…٭…٭