متفرق شعراء
نگاہِ فضل عمر سے ہے آج رشکِ قمر
عظیم شان کا حامل تھا دورِ فضل عمر
نزولِ رحمتِ یزداں تھا ہم پہ شام و سحر
وہ کارواں کہیں رکتا تو کس طرح رکتا
امیر جس کا رہا خود کلید فتح و ظفر
تمام عمر گزاری جہادِ اکبر میں
رہا وہ کفر کے لشکر کے آگے سینہ سپر
ہزار بار اٹھے تیز و تند طوفاں بھی
ڈرا سکے نہ ہمارے وہ ناخدا کو مگر
ضیائے نورِ محمدؐ سے جگمگا اٹھی
وہ سرزمیں کہ جہاں ڈالی اس نے ایک نظر
خدا کے گھر کی بِنا اس نے ہر جگہ رکھ دی
اَحد اَحد کی صدا دی بتانِ غرب کے گھر
خدا کی شان کہ تاریک براعظم بھی
نگاہِ فضل عمر سے ہے آج رشکِ قمر
چمن کے حسن میں ہوتا ہے باغباں کا لہو
سبق یہ دے گئے ہم کو جنابِ فضل عمر
مبادا غم تجھے شبیرؔ بے عمل کر دے
کمر بخدمتِ قرآن ببند بار دگر