حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صنفِ نازک پر احسانات (قسط دوم آخر)
حضرت مسیح موعودؑ کا اسوہ
(گزشتہ سے پیوستہ )حضرت اقدس مسیح موعود ؑ بیماروں کے لیےان کی درخواست پر یا درخواست کے بغیر دن رات دعاؤں پر ہی اکتفانہ کرتے بلکہ عملی رنگ میں بھی بیماروںکے لیے نسخہ تجویز فرماتے۔ دوائیں مفت دیتے اور بیماروں کی تیمارداری کے لیے گھروں میں تشریف لے جاتے ۔
حضرت مولانا عبد الکریم صاحب تحریر فرماتے ہیں : ‘‘بعض اوقات دوادرمل پوچھنے والی گنواری عورتیں زور سے دستک دیتی ہیں اور اپنی سادہ اور گنواری زبان میں کہتی ہیں ‘‘مِرجا جی جرا بوا کھولوتاں’’حضرت اس طرح اٹھتے ہیں جیسے مطاع ذی شان کا حکم آیا ہے اور کشادہ پیشانی سے باتیں کرتے اور دوا بتاتے ہیں۔۔۔ایک عورت بےمعنی بات چیت کرنے لگ گئی ہے اور اپنے گھر کا رونا اور ساس نند کاگلہ شروع کردیا ہے اور گھنٹہ بھر اسی میں ضائع کردیاہے۔آپؑ وقار اورتحمل سے بیٹھے سن رہے ہیں ۔زبان سے یا اشارہ سے اس کو کہتے نہیں کہ بس اب جاؤ۔دوا پوچھ لی اب کیا کام ہے؟ ہمارا وقت ضائع ہوتا ہے ۔وہ خود ہی گھبراکر اٹھ کھڑی ہوتی اور مکان کو اپنی ہوا سے پاک کرتی ہے۔
ایک دفعہ بہت سی گنواری عورتیں بچوں کو لے کر دکھانے آئیں ۔اتنے میں اندر سے بھی چند خدمت گار عورتیںشربت شیرہ کے لیے برتن ہاتھوں میں لیے آنکلیں اور آپ کو دینی ضرورت کے لیے ایک بڑا اہم مضمون لکھنا تھا اور جلد لکھنا تھا۔ میں بھی اتفاقاً جانکلا۔ کیا دیکھتا ہوںحضرت کمربستہ اور مستعد کھڑے ہیں جیسے کوئی یورپین اپنی دنیوی ڈیوٹی پر چست اور ہوشیار کھڑا ہوتا ہے اور پانچ چھ صندوق کھول رکھے ہیں اور چھوٹی چھوٹی شیشیوں اور بوتلوں میں سے کسی کو کچھ اور کسی کوکوئی عرق دے رہے ہیں اور کوئی تین گھنٹےتک یہی بازار لگا اور ہسپتال جاری رہا ۔فراغت کے بعد میں نے عرض کیا حضرت یہ تو بڑی زحمت کا کام ہے اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع جاتاہے۔اللہ اللہ کس نشاط اور طمانیت سے مجھے جواب دیتے ہیں کہ ‘‘یہ بھی تو ویسا ہی دینی کا م ہے۔ یہ مسکین لوگ ہیں۔ یہاں کوئی ہسپتال نہیں۔ میں ان لوگوں کی خاطر ہرطرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوارکھا کرتا ہوں جو وقت پر کام آجاتی ہیں اور فرمایا یہ بڑا ثواب کا کام ہے۔ مومن کو ان کاموں میں سست اور بے پروا نہ ہونا چاہیے۔’’ (سیرت مسیح موعو دؑمصنفہ حضرت مولانا عبد الکریم سیالکوٹی صاحب،ص 36،35 )
گھر میں کام کرنے والی خواتین سے حسن سلوک
حضرت اقدس علیہ السلام کے آقاؐ کا یہ بے مثال نمونہ تھا کہ حضرت معا ویہ بن حکم کی ایک لو نڈی تھی جو اُن کی بکر یاں چَرا تی تھی۔ا یک دن بھیڑ یا اُس کے ر یو ڑپر حملہ کر کے ا یک بکری اُٹھا کر لے گیا ۔معا ویہ نے غصہ میں آکر اس لونڈی کو ایک تھپڑر سید کر دیا ۔اور پھر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس واقعہ کا ذکر کیا۔حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ بات بہت گراں گزری۔ معا ویہ نے عرض کیا یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں اُسے آزاد نہ کردوں ؟آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فر ما یا اُسے میرے پاس لے آؤ۔جب وہ آئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا اللہ کہاں ہے ؟ اُس نے کہا آسمان میں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یامیں کو ن ہوں ؟اُس نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسو ل ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ سلم نے فر ما یا یہ مومن عو ر ت ہے اسے آزاد کر دو۔(مسلم کتاب المساجد باب تحریم الکلام فی الصلوٰۃ 836بحوالہ اسوہ انسان کامل صفحہ 226)
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ کی لونڈیوں میں سے کوئی لونڈی اپنے کام کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاہاتھ پکڑ کر جہاں چاہتی لے جاتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انکار نہ فرماتے اور اس کا کام کرتے۔(ریاض الصالحین باب التواضع۔وخفض الجناح المؤمنین)
مد ینہ میں ایک پگلی سی عو رت رہتی تھی جس کا نام اُم زُفر تھا ،حضرت خد یجہ کی خا دمہ خا ص رہ چکی تھی (بعد میں عقل میں کچھ فتو ر پڑ گیا تھا۔)وہ ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئی اور کہنے لگی کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ایک ضروری کام ہے، علیحدگی میں با ت کرنا چا ہتی ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم نے کس و سعت حو صلہ سے اس کمز ور اور دیوانی عو رت کویہ جواب د یا کہ اے فلاں کی ماں ! مدینہ کے جس راستہ یا گلی میں کہو بیٹھ جا ؤ اورمیں تمہا رے ساتھ بیٹھ کر با ت سنو ںگااور تمہا را کام کر دوں گا ۔چنا نچہ وہ عورت ایک جگہ جا کر بیٹھ گئی ۔حضور صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم بھی اس کے ساتھ بیٹھ رہے۔اس عورت نے اپنی حا جت بیان کی اور آپ صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم اُس وقت تک اُٹھے نہیں جب تک اس عورت کی تسلی نہیں ہو گئی ۔(ابن ما جہ کتاب الزہدبحوالہ اسؤہ انسان کامل ،مصنف، حافظ مظفر احمدصاحب صفحہ217ایڈیشن 2011ء)
غلاموں ،لو نڈیوں کا جو حا ل اُس زما نہ میں تھا تا ر یخ سے واقفیت ر کھنے وا لے اسے خو ب جا نتے ہیں ۔اُن سےجا نوروں کا سا سلو ک ہو تا تھا۔ایک حبشی لو نڈی مد ینہ میں ر ہتی تھی۔ اسے مرگی کا دورہ پڑ تا تھا۔ایک روز بیچا ری اپنی بیما ری کی شکا یت لے کر حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حا ضر ہو ئی اور کہنے لگی کہ حضور ؐ! مجھے جب مر گی کا دورہ پڑ تاہے تو میں بے پردہ ہو جاتی ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم میرے لیے اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے اس تکلیف اور بے پر دگی سے بچا ئے ۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس حبشی خاتون کی بہت دلداریفرمائی۔کچھ د یر تسلی کی با تیں اس سے کر تے ر ہے پھر فر ما یا اگر تم چا ہو اور صبر کر سکو تو تمہیں اس کے بد لہ میں جنت ملے گی اور اگر چا ہو تو میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ معجزا نہ طو ر پر تمہیں اس بیماری سے شفاء دےدے۔ وہ کہنے لگی حضور !میں صبر کر تی ہوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم یہ د عا ضرور کر یں کہ میں مر گی کی حالت میں بے پردگی سے بچ جاؤں۔ حضرت ابن عبا س لو گوں کو یہ لو نڈی د کھا کر کہتے تھے کیا میں تمہیں ا ہل جنت میں سے ایک عورت نہ د کھاؤں؟(بخاری78کتاب المرضی باب6بحوالہ اسؤہ انسان کامل،مصنف، حافظ مظفر احمدصاحب صفحہ217ایڈیشن 2011ء)
اب آقا کے غلامِ کاملؑ کا نمونہ پیش ہے ۔ حضرت مخدو م الملّت مو لانا مو لوی عبد الکریم صا حب رضی اللہ عنہ الحکم میں ہفتہ وار ایک خط لکھا کر تے تھے جو نہا یت مقبو ل ہو تے تھے۔ان خطو ط میں بعض میں آپ نے حضرت مسیح مو عو د علیہ السلام کی سیرت کے بعض حصص بھی لکھے جو سیرت مسیح مو عو د علیہ السلام کے نام سے الگ بھی شا ئع ہو ئی ہے ۔اس میں وہ تحریر فر ما تے ہیں کہ
‘‘ایک عو رت نے اندر سے کچھ چا ول چُرا ئے۔ چور کا دل نہیں ہو تا اور اس لیے ا س کے ا عضا ء میں غیر معمو لی قسم کی بے تا بی اور اس کا ادھر ادھر د یکھنا بھی خا ص و ضع کا ہو تا ہے کسی دوسرے تیز نظر نے تا ڑلیا اور پکڑ لیا ۔شور پڑگیا ۔اس کی بغل سے کو ئی پندرہ سیرکی گٹھر ی چا ولوں کی نکلی ۔اِدھر سے ملامت، اُدھر سے پھٹکا رہو رہی تھی جو حضرت کسی تقریب سے اُدھر آنکلے۔پوچھنے پر کسی نے واقعہ کہہ سنا یا ۔فر ما یا:
‘‘محتا ج ہے۔ کچھ تھو ڑے سے اسے دے دو اور فضیحت نہ کرو اور خدا تعا لیٰ کی ستّا ری کا شیوہ ا ختیا ر کرو۔’’
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ حصہ اول صفحہ 101)
بہترین مہمان نوازی
اہلیہ محترمہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ضلع گورداسپور کی عورتیں آئیں۔ حضرت اماں جان کچھ گھبراگئیں۔ گائوں کی عورتیں جن کے سر میں گھی لگا ہوتا ہے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا۔ ‘‘گھبرانے کی بات نہیں۔ مجھے تو حکم ہے کہ وَسِّع مَکَانَکَ یَأْ تُونَ مِن کُلِّ فَجٍّ عَمِیق (یہ الہام ہیں) آپ کو معلوم نہیں یہ میرے مہمان ہیں۔’’(سیرت المہدی جلد دوم حصہ پنجم روایت 1391صفحہ 231ایڈیشن اگست 2008)
تربیت اولادکے دلکش انداز
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت اولاد کے لیے بھی اپنا بہترین نمونہ پیش فرمایا۔اولاد سے حسن سلوک کے کچھ واقعات بطور نمونہ پیش ہیں۔
حضرت ابو قتادہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نماز کے انتظار میں تھے ،بلالؓ نے رسولؐ اللہ کی خدمت میں نماز کی اطلاع کی۔ آپؐ تشریف لائے ، آپؐ کی نواسی امامہ بنت ابی العاص آپؐ کے کاندھے پر تھی۔رسولؐ اللہ اپنے مصلّے پر کھڑے ہوئے ۔ ہم پیچھے کھڑے تھے اور وہ بچی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر ہی تھی ۔حضورؐ کے تکبیر کہنے کے ساتھ ہم نے بھی تکبیر کہی۔رکوع میں جاتے وقت حضورؐ نے ان کو کندھے سے اتار کر نیچے بٹھادیا۔ رکوع اور سجدہ سے فارغ ہو کر دوبارہ اٹھا کر اسے کندھے پر بٹھا لیا۔ نماز کی ہر رکعت میں ایسے ہی کیا یہاں تک کہ نمازسے فارغ ہوئے۔ ( ابوداؤد کتاب الصلٰوۃ باب العمل فی الصلوٰۃ بحوالہ اسوہ انسان کامل صفحہ 613,612 ایڈیشن 2004)
مربی اعظم
حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چھ ماہ تک باقاعدہ حضرت فاطمہؓ کے گھر کے پاس سے گزرتے ہوئے انہیں صبح نماز کے لیے جگاتے اور فرماتے تھے کہ اے اہل بیت! اللہ تعالیٰ تمہیں مکمل طور پر پاک و صاف کرنا چاہتا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کابیٹیوں سے حسن سلوک
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے سیّد اور مطاعؐ کے اسوہ کی کامل پیروی کرنے والے تھے ۔ آپ ؑکی بڑی صاحبزا دی حضرت سیّدہ نوا ب مبا رکہ بیگم صا حبہؓ فر ما تی ہیں:
‘‘جب میں چھو ٹی لڑکی تھی تو حضو ؑرنے کئی با ر فر ما یا کہ میرے ا یک کا م کے لیے د عا کر دیا کرنا۔’’یہ اس لیے ہو تا تھا کہ بچوں کو ذہن نشین ہو جا ئے کہ ہم نے بھی د عا ئیں کر نی ہیں اور تا د عاؤں کی عادت پڑ ے اور بچے جان لیں کہ اللہ کی رحمت کا(دروازہ)کھلا ہے ،ما نگوگے تو پاؤ گے۔
اسی طرح حضرت سیدہ چھو ٹی آپا فر ما تی ہیں درج ذیل واقعہ حضرت نواب مبا رکہ بیگم صا حبہ ؓسے با ر ہا سنا ہے اور ہر بار سن کر دل ایک نئی کیفیت سے دو چا ر ہو تا ر ہا ہے۔آپ نے فر ما یا:
‘‘قا د یان میں اس زما نہ میں ڈبل رو ٹی کہاں تھی ؟دودھ اور ساتھ مٹھا ئی یا پرا ٹھا ہم لو گوں کو نا شتہ ملتا تھا۔چا ئے کا بھی باقاعدگی سے کو ئی روا ج نہ تھا ۔ڈبل روٹی کبھی تحفۃً لا ہو ر سے آجاتی تھی ۔ایک روز کا واقعہ ہے صبح کا وقت تھا، حضرت مسیح مو عود علیہ السلام با ہر مردوں کے ہمراہ سیر کو تشریف لے گئے تھے۔ اصغری کی اماں جنہوں نے گیا رہ سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کھانا پکا نے کی خد مت بہت اخلا ص سے کی ، کھانے کی تیا ری میں مصروف تھیں اور حضرت اما ں جانؓ بھی ان کے پاس باورچی خا نہ میں جو اس وقت ہمارے صحن کا ایک کو نہ تھا کوئی خاص چیز پکا نایا پکوا نا چا ہتی تھیں ۔اصغری کی اما ں نے دودھ کا پیالہ اور دو توس کشتی میں لگا کر دیے کہ ‘‘لو بیوی نا شتہ کر لو’’میں نے کہا مجھے تو س تل کر دو ۔مجھے تلے ہو ئے تو س پسند تھے۔انہوں نے اپنے خا ص منت در آمدوالے لہجے میں کا م کا عذر کیا اور حضرت اماں جان ؓ نے بھی فر ما یا اس وقت اور بہت کام ہیں اس وقت اسی طر ح کھا لو۔تل کر پھر سہی ۔میں سن کر چپکی چلی آئی اور اس کمرہ میں ،جو اب حضرت اماں جان ؓ کا کمرہ کہلا تا ہے، کھڑکی کے رخ (اب وہ کھڑکی بند ہو چکی ہے اور و ہاں غسل خانہ بن گیا ہے )ایک پلنگ بچھا تھااس پر پاؤں لٹکا کر بیٹھ گئی ۔دل میں یقین تھا کہ د یکھو میرے ابا آتے ہیں اور ابھی سب ٹھیک ہو جا ئے گا۔ د یکھو ں کیسے نہیں تلے جا تے میرے تو س ۔جلد ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر سے تشریف لے آئے ۔کمرہ میں دا خل ہو ئے۔ صرف میری پشت د یکھ کر رو ٹھنے کا اندازہ کر لیا اور اسی طر ح خا مو ش وا پس صحن میں تشریف لے گئے ۔با ہر جا کر پو چھا ہو گا اور جواب سے تفصیل معلوم ہوئی ہو گی ۔ میں تھوڑی دیر میں ہی کیا د یکھتی ہو ں پیا رے مقدس ہا تھوں میں سٹول اٹھائےہوئے آئے اور میرے سا منے لا کر ر کھ دیا ۔پھر با ہر گئے اور خو دہی دونوں ہا تھو ں میں کشتی ا ٹھا کر لا ئے اور سٹو ل پر میرے آگے رکھ دی جس میں میرے حسب منشا تلے ہو ئے توس اور ایک کپ دودھ کا ر کھا تھا اور فر ما یا ‘‘لو اب کھا ؤ۔’’میں ایسی بد تمیز نہ تھی کہ اس کے بعد بھی منہ پھو لا ر ہتا ،میں نے فو رًاکھا نا شروع کر دیا۔آج تک جب بھی یہ واقعہ ،وہ خا مو شی سے سٹو ل سامنے ر کھ کر اس پر کشتی لا کر رکھنا یا د آتا ہے اور اپنی حیثیت پر نظر جا تی ہے تو آنسو بہہ نکلتے ہیں۔ بڑے ہو کر ٹیسٹ (taste)بدل جاتے ہیں ۔ مگر اس یا د میں ،اب تک میں ،بہت چا ہت سے تلے ہو ئے تو س کبھی کبھی ضرور کھا تی ہوں ۔(سیرت و سوانح سیدہ نواب مبا رکہ بیگم صا حبہ مصنفہ و مرتبہ پروفیسر سیدہ نسیم سعید صفحہ نمبر 70)
حضورؑ حضرت نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ کے نا ز اٹھا تے تھے۔ ایک د فعہ آپؑ سیر کو جا رہے تھے ۔حضرت امّا ں جان نے کہلا کر بھیجا کہ امۃ الحفیظ رو رہی ہیں اور سا تھ جا نے کی ضد کر رہی ہیں۔ آپؑ نے ملا زمہ کے ہا تھ ان کو بلوا یا اور گو د میں ا ٹھا کر لے گئے ۔ ( دختر کرام از فو زیہ شمیم صفحہ 6،7ایڈیشن 2007ء)
حضر ت سیّدہ نوا ب مبا رکہ بیگم صا حبہ فر ما تی ہیں:‘‘میَں چھوٹی تھی تو رات کو ڈرکر آپ کے بستر میں جا گھستی تھی ۔جب ذرا بڑی ہو نے لگی تو آپؑ نے فر ما یا کہ جب بچے بڑے ہو نے لگتے ہیں (اس وقت میری عمر کو ئی پا نچ سا ل کی تھی ) تو پھر بستر پر اس طر ح نہیں آگھسا کر تے۔ میں تو اکثرجا گتا ر ہتا ہوں، تم چا ہے سو دفعہ مجھے آواز دو میں جواب دوں گا اور پھر تم نہیں ڈرو گی ۔اپنے بسترسے مجھے پکا ر لیا کرو ۔پھر بستر پر کو د کر آپ کو تنگ کر نا چھوڑد یا ۔جب ڈرلگتا پکا ر لیتی۔ آپ فو رًاجواب دیتے۔ پھر خو ف و ڈرلگنا ہی ہٹ گیا ۔میرا پلنگ آپ کے پلنگ کے پاس ہی ہمیشہ ر ہا ۔ بجز چند دنوں کے جب کھا نسی ہو تی تو حضرت اماں جان ؓ بہلا پھسلا کر ذرا دور بھجوا دیتی تھیں کہ تمہا رے ابا کو تکلیف ہو گی ۔میں جلد پھر آجا تی تھی مگر آپ خو د اٹھ کر سو ئی ہو ئی کا سر اٹھا کر، ہمیشہ کھا نسی کی دوا مجھے پلا تے تھے۔آخری شب جس روز آپ کا وصال ہوا میرا بستر آپ کے قریب ہی تھا کہ بس ایک آدمی ذرا گزر سکے۔ اتنا فا صلہ ضرور ہو تا تھا۔ ’’ (سیرت و سوانح سیدہ نواب مبا رکہ بیگم صا حبہ مصنفہ و مرتبہ پروفیسر سیدہ نسیم سعید صفحہ 67)
حضر ت سیّدہ نوا ب مبا رکہ بیگم صا حبہ تحریر فر ما تی ہیں:
‘‘…میں نے آپؑ کا نر می اور محبت کا ہی بر تا ؤد یکھا ،اور اپنے سا تھ بہت ز یا دہ ر ہا ،خا ص ر حمت و شفقت خصو صاًد یکھی اور عا م طور پر بھی، ظا ہرہے کہ آپ ابر ر حمت ہی تھے۔ اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ا یسے معا ملا ت میں بھی کسی کو تنبیہ نہ فر ما تے ،جہا ں غفلت کر جانا اس کو زیا دہ بگا ڑ دے ،یا دوسروں کے لیے برا نمو نہ بنے ،اگر کوئی ایسی جا ئز شکا یت ،کسی ہمارے گھر میں ،یا قریب رہنے وا لوں میں سے کسی کی آپ کو تحقیق سے پہنچتی ،جو اس گھر کے خلا فِ شا ن حر کت کے امکان کی بھی ہو ،تو فو رًا اس پر توجہ فر ما کر اسکی اصلا ح نصیحت اور جہاں تک میں نے د یکھا نرم سزا سے ،ضرور فر ما تے ۔عو رتوں ،لڑ کوں اور لڑ کیوں کے معا ملہ میں آپ کا اصو ل میں نے یہی د یکھا۔’’
حضر ت سیّدہ نوا ب مبا رکہ بیگم صا حبہ فر ما تی ہیں‘‘ قبل بلوغت کم عمری میں آپ روزہ ر کھوانا پسند نہ فر ماتے تھے۔بس ایک آدھ رکھ لیا کا فی ہے ۔حضر ت ا مّا ں جا ن نے میرا پہلا روزہ ر کھوا یاتو بہت بڑی د عو ت ا فطا ری دی تھی ۔یعنی جو خوا تین جماعت تھیں سب کو بلا یا ہوا تھا۔اس ر مضا ن کے بعد دوسرے یا تیسرے ر مضا ن میں نے رو زہ ر کھ لیا اور حضر ت مسیح موعو د علیہ السلام کو کہا ‘‘آج میرا روزہ پھر ہے ’’آ پ علیہ السلام حجرہ میں ( جنہوں نے ہما را گھر قا دیا ن کا د یکھا ہے وہ سمجھ لیں گی کہ کون سا کمرہ تھا)تشر یف ر کھتے تھے۔پا س سٹو ل پر دو پان لگے رکھے تھے۔غا لباً حضرت امّا ں جان بنا کر رکھ گئی ہوں گی۔آپ علیہ السلام نے ایک پان ا ٹھا کر مجھے د یا کہ‘‘لو یہ پان کھا لو۔ تم کمز ور ہو ،ابھی روزہ نہیں ر کھنا ۔ توڑ ڈا لو روزہ ۔میں نے پان تو کھا لیا مگر آپ سے کہا کہ صا لحہ (یعنی مما نی جان مر حومہ چھوٹے ماموں جان کی اہلیہ محتر مہ )نے بھی ر کھا ہے اُن کا بھی تڑوا دیں فرمایا۔‘‘بلاؤاُس کو بھی’’۔میں بُلا لا ئی،وہ آئیں تو اُن کو بھی دو سرا پان اُٹھا کر د یا اور فر ما یا‘‘لو یہ کھا لو تمہا را روزہ نہیں ہے۔’’میری عمر اس وقت دس سال کی ہو گی۔(سیرت و سوانح سیدہ نواب مبا رکہ بیگم صا حبہ مصنفہ و مرتبہ پروفیسر سیدہ نسیم سعید صفحہ نمبر 53)
حضر ت سیّدہ نوا ب مبا رکہ بیگم صا حبہ مزید فر ما تی ہیں:
‘‘حضر ت مسیح مو عود علیہ السلام کی ز با ن میں معجزا نہ اثر تھا۔ آپ نہ با ت با ت پر ٹو کتے نہ شو خیوں پر جھڑ کنے لگتے بلکہ ا نتہا ئی نر می سے فر ما تے کہ یو ں نہ کر و ۔جس با ت سے آپ نے منع کیا مجھے یا د نہیں کہ کبھی بھو ل کر بھی وہ با ت پھرکی ہو۔وہ پیا ر بھر ی ز با ن معجز بیا ن کہ ا یک با رکہا پھر عمر بھر کو اس با ت سے طبیعت بے زا ر ہو گئی ۔
ایک شا م آسما ن پر ہلکے ہلکے ابر میں خو بصو رت ر نگ برنگ کی د ھنک د یکھ کر ہم سب بچے خوش ہو رہے تھے۔آپ اس وقت صحن میں ٹہل رہے تھےجو بعد میں اُمّ ناصرکا صحن کہلا تا ر ہا ہے۔ میں نے کہا:
‘‘یہ جو کما ن ہے اس کو سب لو گ (پنجابی میں ) ما ئی بڈ ھی کی پینگ کہتے ہیں ۔اس کو عربی میں کیا کہتے ہیں ؟’’
فر ما یا ‘‘اس کو عربی میں ‘قوس ِقز ح ’کہتے ہیں مگر تم اس کو‘قوس اللہ ’کہو۔ نیز فر ما یا کہ …قوس ِقز ح کے معنی شیطا ن کی کما ن ہیں۔ ’’ یہ با ت مجھے ہمیشہ یا د رہی ۔
ہما رے بچپن میں ایک کھلونا آتا تھا‘‘look and laugh’’دور بین کی صورت کا ۔اس میں د یکھو تو عجیب مضحکہ خیز صو رت دوسرے کی نظر آتی تھی۔جب یہ کھلونا لا ہو ر سے کسی نے لا کر دیا ، آپ کو یہ چیزمیںنے دکھائی ۔آپ نے دیکھا اور تبسم فر ما یا۔ کہا !
‘‘اب جاؤد یکھو اور ہنسو کھیلو ،مگر د یکھو یا د ر کھنا میری جانب ہر گز نہ د یکھنا ’’
سب والدین بچوں کو تہذیب سکھاتے ہیں مگر یہ ایک خاص بات تھی۔ اللہ تعا لیٰ کا فر ستا دہ نبی مؤ دب بن کر بھی آتا ہے اور خو د اس کواپنا اَدب بھی اپنی ذاتی شخصیت کے لیے نہیں، بلکہ اس مقا م کی عز ت کے لیے جس پر اس کو کھڑ ا کیا گیا ،اس ذاتِ پاک و بر تر کے احترا م کی و جہ سے جس نے اس کو خا ص مقا م بخشا، جس کی جا نب سے وہ بھیجا گیا سکھا نا پڑتا ہے ۔
مجھے اور مبا رک احمد کو قینچی سے کھیلتے د یکھ کر تنبیہ فر ما ئی کیونکہ قینچی کی نو ک اس وقت میں نے مبا رک ا حمد کی طر ف کر ر کھی تھی۔ فر ما یا ‘‘کبھی کو ئی تیز چیز قینچی ،چھری ،چا قو اس کے تیز ر خ سے کسی کی طر ف نہ پکڑا ؤ، اچا نک لگ سکتی ہے۔کسی کی آنکھ میں لگ جائے، کو ئی نقصان پہنچے تو اپنے دل کو بھی ہمیشہ پچھتا وار ہے گا اور دو سرے کو تکلیف۔ ’’ یہ عمر بھر کو سبق ملا اور آج تک یا د ہے۔ (ماخوذ از:۔سیرت و سوانح سیدہ نواب مبارکہ بیگم صا حبہ مصنفہ و مرتبہ پروفیسر سیدہ نسیم سعید صفحہ 50, 51)
وفا ت و غیرہ کے مو قع پرصبر کی تلقین
مو ت ، فوت اور غم کے موا قع پر حضو ر صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے صبر کا ا علیٰ نمو نہ پیش فر ما یا۔با لخصوص اپنے بیٹے صا حبزادہ ابراہیمؓ کی و فات،اپنے چچا حمزہ ؓاور چچا زاد بھا ئی حضرت جعفرؓ کی شہا دت پر صبر کے بے نظیرنمو نے پیش فر ما ئے ۔عو رتوں کو بھی صدمہ کے مو قع پر صبر کی نصیحت فر ما تے تھے۔خوا تین کی تر بیت کے لیے ان کے مطالبہ پر ہفتہ میں ایک دن ان کے لیے مقرر تھا۔ (بخاری3کتاب العلم باب 12بحوالہ اسؤہ انسان کامل ،مصنف، حافظ مظفر احمدصاحب صفحہ304ایڈیشن 2011ء)
وفا ت و غیرہ کے مو قع پر نبی کر یم صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم بین یا واویلا کر نے سے منع فر ما تے تھے لیکن چو نکہ غم کی حالت میں جذبات پر انسان بعض د فعہ بے اختیا ر اور مغلو ب ہو جا تا ہے اس لیےاس پہلو سے شفقت کا دامن جھکا کے رکھتے تھے ۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم کے چچا زاد بھا ئی حضرت جعفر طیا ر ؓ کی غزوہ مو تہ میں شہا دت کے مو قع پر خو د رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سخت صدمہ تھا ۔حضر ت عا ئشہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا بیا ن کر تی ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں تشریف فر ما تھے اور چہرہ سے غم کے آثا رصا ف عیاں تھے ۔میں دروازے کے درز سے دیکھ رہی تھی ۔ایک شخص نے آکر کہا کہ جعفر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی عو رتیں رو رہی ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فر ما یا انہیں منع کرو ۔ وہ گیا اور تھو ڑی د یر میں وا پس آکر کہنے لگا کہ وہ میری بات نہیں ما نتیں ۔آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم نے فر مایاان کے مو نہوں پر مٹی پھینکو یعنی ا نہیں ان کے حا ل پر چھو ڑدو۔حضرت عائشہؓ فر ما تی ہیں میں نے دل میں کہاا للہ تمہیں رسوا کر ے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ سلم نے تمہیں جو حکم د یا ہے وہ تم کر نہیں سکے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ سلم کو تکلیف دینے سے با ز نہیں آتےہو۔
(بخاری29کتاب الجنائزباب 39بحوالہ اسؤہ انسان کامل ،مصنف حافظ مظفر احمدصاحب صفحہ304ایڈیشن 2011ء)
آنحضرت ﷺ کے خاتم الخلفاء حضرت مسیح موعود ؑ کی سیرت سے آپؑ کے آقا ﷺکی سنت کی پیروی کے چند واقعات ملاحظہ ہوں۔ محترمہ حسن بی بی صاحبہ اہلیہ ملک غلام حسین صاحب رہتاسی نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ‘‘میرا چوتھا لڑکا کوئی چار پانچ سال کا تھا کہ اس کو سانپ نے کاٹ لیا تھا۔ اس نے سانپ کو دیکھا نہ تھا اور یہ سمجھا تھا کہ اس کو کانٹا لگا ہے۔ میں نے بھی سوئی سے جگہ پھول کر دیکھی۔ کچھ معلوم نہ ہوا لیکن جب بچہ کو چھالا ہو گیا اور سوج پڑگئی تو معلوم ہوا کہ وہ کانٹا نہیں تھا بلکہ سانپ نے کاٹا تھا جس کا زہر چڑھ گیا ہے۔ بچہ چھٹے دن فوت ہو گیا تھا۔ جب حضور علیہ السلام کو علم ہوا تو حضور نے افسوس کیا اور فرمایا کہ ‘‘مجھے کیو ں پہلے نہیں بتایا؟ میرے پاس تو سانپ کے کاٹے کا علاج تھا۔’’مجھے بچے کے فوت ہونے کا بہت غم ہوا تھا اور میں نے رو رو کر اور پیٹ پیٹ کر اپنا بُرا حال کر لیا تھا۔ جب حضور علیہ السلام کو حضرت اُم المومنین نے یہ بات بتائی تو حضور علیہ السلام نے مجھے طلب فرما کر نصیحت کی اور بڑی شفقت سے فرمایا کہ ‘‘دیکھو حسن بی بی ! یہ تو خدا کی امانت تھی، اللہ تعالیٰ نے لے لی۔ تم کیوں پریشان ہوتی ہو؟’’ اور فرمایا کہ ‘‘ایک بڑی نیک عورت تھی۔ اس کا خاوند باہر گیا ہوا تھا ۔ جس دن اس نے واپس آنا تھا ، اتفاقاً اس دن اس کا جوان بچہ جو ایک ہی تھا، فوت ہو گیا تھا۔ اس عورت نے اپنے لڑکے کو غسل اور کفن دے کر ایک کمرے میں رکھ دیا اورخود خاوند کے آنے کی تیاری کی۔ کھانے پکائے، کپڑے بدلے، زیور پہنا اور جب خاوند آیا تو اس کی خاطر داری میں مشغول ہو گئی۔ جب وہ کھانا کھا چکا تو اس نے کہا کہ ‘میں آپ سے ایک بات دریافت کرتی ہوں اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی کی امانت کسی کے پاس ہو اور وہ اس کو واپس مانگے تو کیا کرنا چاہیے؟ اس نے کہا کہ فورًا امانت کو شکریہ کے ساتھ واپس کر دینا چاہیے۔’ تو اس نیک بی بی نے کہا کہ اس امانت میں آپ کا بھی حصہ ہے۔ پس وہ اپنے خاوند کو اس کمرے میں لے گئی جہاں بچہ کی نعش پڑی تھی اور کہا کہ ‘اب اس کو آپ خدا کے سپردکر دیں۔ یہ اس کی امانت تھی جو اس کو دے دی گئی ہے۔’ یہ سن کر میرا دل ٹھنڈا ہو گیا اور میں نے اُسی وقت جزع فزع چھوڑدی اور مجھے اطمینان کلی حاصل ہو گیا۔ اس کے بعد میں نے اپنے خاوند سے کہا کہ ‘مجھے اپنے وطن جہلم لے چلو۔’اس نے حضور علیہ السلام سے اجازت طلب کی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ‘‘تمہاری بیوی کو نیا نیا صدمہ پہنچا ہے۔ یہ وہاں جاکر پھر غم کرے گی اس لیے میں ابھی اجازت نہیں دیتا۔ پھر عرصہ تین سال کے بعد جب اجازت ملی تو میں اپنے وطن گئی۔’’
(سیرت المہدی جلد دوم حصہ پنجم روایت 1527صفحہ 292 ایڈیشن اگست 2008ء)
بیٹیوں کانبوت پر پختہ ایمان
حضرت نواب مبا رکہ بیگم صاحبہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبو ت پر ٹھو س ایما ن تھا جو صرف روا یا ت پر مبنی نہ تھا بلکہ شہا دات اور رو یت پر مبنی تھا ۔آنکھ کھو لتے ہی ایک نورکے سا ئے میں ز ندگی بسر ہو ئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عاشق قرآن،عا شق رسو ل صلی اللہ علیہ والہ وسلم پا یا۔ ہو ش آتے ہی کا نوں میں الہٰی بشا رتیں پڑیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر عنا یا ت و لطف ا لہٰی کا مشا ہدہ کیا چنا نچہ اس سلسلے میں آپ نے خو د فر ما یا ۔
‘‘میری نظر میں اب تک وہ نقش تا زہ ہیں ۔ آپؑ کی باتیں، آپ کا ٹہلنا ،لکھنا ،نما ز پڑھنا ،وضو کر نا ،سو نے کا انداز، غرض سب کچھ گو یا میں آج بھی د یکھ ر ہی ہوں۔ واقعی ا یک نور ہی تھا۔جس نے وہ ز مانہ پا یا اور نہ دیکھ سکا اور نہ پہچا ن سکا اس کی قسمت پر افسوس ہے ۔میں جب آپ کا چہرہ یا د کر تی ہوں تو سوچتی ہوں بجز دل کے اندھوں کے اور جن کے قلوب پر مہر لگ چکی تھی کو ن اس منہ کو دیکھ کر کا ذب کہہ سکتا تھا ؟نو ر صداقت تو اس کی پیشا نی سے ہی بر ستا تھا اور نو ر ہی نو ر آپکی ہر با ت سے متر شح ہوتا تھا ۔رو شنی ہی روشنی،پا کیزگی ہی پاکیزگی ظا ہر و باطن،خلوت و جلوت میں نما یاں نظر آتی تھی۔بشریت کے جا مہ میں اس د نیا کی ملو نی سے الگ خا ص پا ک روح ،معلوم ہو تا تھا کہ خدا تعا لیٰ نے بھیج دی ہے ۔ اپنے کام کے لیے جو دنیا میں ہے بھی اور نہیں بھی۔میری شہا دت جو میرے اپنے ایمان اور اپنی ذا ت کے لیے ہے محض روا یا ت اور تحر یروں پر ہی بنا نہیں ر کھتی بلکہ اول اصل اس کی رو یت پر ہے ،دید و شنید پر ہے یعنی بچپن سے آپ کو بہت نز دیک سے د یکھا ہے ۔آپ کی با تیں سنیں ،آپ کو عا شق الہٰی پا یا،عا شق محمد صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم پا یا،بہت بچپن کی تفصیلیں اگرچہ یا د نہیں مگر جو اثر آپ کے و جو د کا شا ید دودھ پینے کی عمر سے ٹھہرا تھا وہ ہو ش سنبھا لتے سنبھا لتے گہرا ہی ہو تا گیا اور جتنا بھی قریب سے د یکھا نو ر ہی نور پا یا۔ (سیرت و سوانح سیدہ نواب مبا رکہ بیگم صا حبہ مصنفہ و مرتبہ پروفیسر سیدہ نسیم سعید صفحہ نمبر 174)
26مئی 1908ء کو حضور ؑ مشیت ایزدی کے تحت اپنے مولائے حقیقی سے جا ملے ۔ آپؑ کا جنازہ کو قادیان بہشتی مقبرہ کے ساتھ والے با غ میں ر کھا گیا ۔حضرت امّا ں جان چہرہ مبا رک د یکھنے آئیں تو پا ئنتی کی طرف کھڑے ہو کر نہا یت و قا ر والی آواز میں بولیں….تیری وجہ سے میرے گھر میں فر شتے اُتر تے تھے اور خدا کلام کر تا تھا۔’’
یہ گو اہی تھی جو حضرت امّا ں جان نے حضرت اقدس کی سچا ئی کی دی اور اس سے آپ کے ایمان کی مضبو طی اور حضرت اقدسؑ سے عقیدت اور محبت کا پتہ چلتا ہے ۔آپ حضرت مسیح مو عود علیہ السلام پر سچے دل سے ایمان ر کھتی تھیں اور آپ کے د عویٰ اور الہا ما ت کو سچا مانتی تھیں ۔کبھی بھی کسی قسم کا شک یا شُبہ آپ کے دل میں پیدا نہ ہوا۔
(سیرت حضرت اماں جان تصنیف صا حبزادی امۃ الشکو رصفحہ نمبر10)
یقیناً خد ا تعالیٰ کے فرستادے اس دنیا میں انسان کو اپنے نمونہ کے ذریعہ خدا سے ملانے آتے ہیں۔ یہ اسوہ کامل رنگ میں حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ میں پایا جاتا تھا جب کہ اس کے ظل کے طور پر آپ ﷺ کے غلامِ کامل حضرت مسیح موعود ؑ نے اُسی اسوہ پر عمل کر کے یہ ثابت فرمایا کہ آج بھی نبی اکرم ﷺ کی پیروی میں ہی فلاح ہے ۔
اے خدا بر تُربتِ او ابر رحمت ہا ببار
٭…٭…٭