شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام:آپؑ کی تلاوت قرآن کریم اور آپ کے روزوں کا بیان
آپؑ کی تلاوت قرآن کریم کا بیان
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“آپ کو یہ عادت تھی کہ عموماً ٹہلتے رہتے اور پڑھتے رہتے۔دوسرے لوگ جو حقائق سے ناواقف تھے۔وہ اکثر آپ کے اس شغل پر ہنسی کرتے۔قرآن مجید کی تلاوت اُس پر تدبّر اور تفکّر کی بہت عادت تھی۔خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپ کے پاس ایک قرآن مجید تھا۔اس کو پڑھتے اور اس پر نشان کرتے رہتے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ میں بلامبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ شاید دس ہزار مرتبہ اس کو پڑھا ہو۔اس قدر تلاوت قرآن مجید کا شوق اور جوش ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی اس مجید کتاب سے کس قدر محبت اور تعلق تھا۔”
(حیات احمد از شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ جلد اول صفحہ172-173)
حضرت مسیح موعودؑ کے حالات کے متعلق مولوی صاحب (مولوی میرحسن صاحب سیالکوٹی۔ناقل) اپنے ایک خط میں یوں رقمطراز ہیں :
“حضرت مرزا صاحب پہلے محلہ کشمیریاں میں جو اس عاصی پُرمعاصی کے غریب خانہ کے بہت قریب ہے۔عمرا نامی کشمیری کے مکان پر کرایہ پر رہا کرتے تھے۔کچہری سے جب تشریف لاتے تھے تو قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوتے تھے۔بیٹھ کر، کھڑے ہوکر، ٹہلتے ہوئے تلاوت کرتے تھے۔اور زار زار رویا کرتے تھے۔ایسی خشوع و خضوع سے تلاوت کرتے تھے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر280)
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ مائی حیات بی بی صاحبہ کی روایت بیان کرتے ہیں :
“آپ کی عادت تھی کہ جب کچہری سے واپس آتے تو پہلے میرے باپ کو بُلاتے اور ان کو ساتھ لے کر مکان میں جاتے۔مرزا صاحب کا زیادہ تر ہمارے والد صاحب کے ساتھ ہی اُٹھنا بیٹھنا تھا۔ان کا کھانا بھی ہمارے ہاں ہی پکتا تھا۔میرے والد ہی مرزا صاحب کو کھانا پہنچایا کرتے تھے۔مرزا صاحب اندر جاتے اور دروازہ بند کر لیتے اور اندر صحن میں جا کر قرآن پڑھتے رہتے تھے۔میرے والد صاحب بتلایا کرتے تھے کہ مرزا صاحب قرآن مجید پڑھتے پڑھتے بعض وقت سجدہ میں گر جاتے ہیں اور لمبے لمبے سجدے کرتے ہیں ۔اور یہاں تک روتے ہیں کہ زمین تر ہو جاتی ہے۔مائی صا حبہ (مائی حیات بی بی صاحبہ بنت فضل دین صاحب۔ناقل) نے حضرت مسیح موعودؑ کی باتیں بتلاتے ہوئے متعدد دفعہ کہا۔‘‘میں قربان جاؤں آپ کے نام پر”۔یہ بیان حافظ محمد شفیع صاحب قاری کی موجودگی میں میں نے لیا اور حافظ صاحب نے اپنی والدہ صاحبہ کے سامنے بتلایا۔کہ یہی باتیں میں اپنے ماموں اور نانے سے بھی سُنا کرتا تھا۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 625)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں :
“منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حاجی ولی اللہ جوہمارے قریبی رشتہ دار تھے اور کپور تھلہ میں سیشن جج تھے۔اُن کے ایک ماموں منشی عبدالواحد صاحب ایک زمانہ میں بٹالہ میں تحصیلدار ہوتے تھے۔منشی عبدالواحد صاحب بٹالہ سے اکثر اوقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کو ملنے کے لئے جایا کرتے تھے اور وہ بیان کرتے تھے کہ اس وقت حضرت صاحب کی عمر14/15سال کی ہوگی۔اور بیان کرتے تھے کہ اس عمر میں حضرت صاحب سارا دن قرآن شریف پڑھتے رہتے اور حاشیہ پر نوٹ لکھتے رہتے تھے۔اور مرزا غلام مرتضیٰ صاحب حضرت صاحب کے متعلق اکثر فرماتے تھے کہ میرا یہ بیٹا کسی سے غرض نہیں رکھتا۔سارا دن مسجد میں رہتا ہے اور قرآن شریف پڑھتا رہتا ہے۔منشی عبدالواحد صاحب قادیان بہت دفعہ آتے جاتے تھے۔اُن کا بیان تھا کہ میں نے حضرت صاحب کو ہمیشہ قرآن شریف پڑھتے دیکھا ہے۔”
(سیرت المہدی جلددوم روایت نمبر1011)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں :
“میاں فخر الدین صاحب ملتانی ثم قادیانی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب 1907ء میں حضرت بیوی صاحبہ لاہور تشریف لے گئیں توان کی واپسی کی اطلاع آنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کو لانے کیلئے بٹالہ تک تشریف لے گئے۔میں نے بھی مولوی سید محمد احسن صاحب مرحوم کے واسطے سے حضرت صاحب سے آپ کے ساتھ جانے کی اجازت حاصل کی اور حضرت صاحب نے اجازت عطا فرمائی مگر مولوی صاحب سے فرمایا کہ فخر الدین سے کہہ دیں کہ اور کسی کو خبر نہ کرے اور خاموشی سے ساتھ چلا چلے ،بعض اور لوگ بھی حضرت صاحب کے ساتھ ہم رکاب ہوئے۔حضرت صاحب پالکی میں بیٹھ کر روانہ ہوئے جسے آٹھ کہا ر باری باری اُٹھا تے تھے۔قادیان سے نکلتے ہی حضرت صاحب نے قرآن شریف کھو ل کر اپنے سامنے رکھ لیا اور سورہ فاتحہ کی تلاوت شروع فرمائی اور میں غور کے ساتھ دیکھتا گیا کہ بٹالہ تک حضرت صاحب سورۃ فاتحہ ہی پڑھتے چلے گئے اور دوسرا ورق نہیں اُلٹا۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر438)
آپؑ کے روزوں کا بیان
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
“حضرت والد صاحب کے زمانہ میں ہی جبکہ ان کا زمانہ وفات بہت نزدیک تھا ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا اور اس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے”۔اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنت اہل بیت رسالت کو بجالاؤں ۔سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اس امر کو مخفی طور پر بجالانا بہتر ہےپس میں نے یہ طریق اختیار کیا کہ گھر سے مردانہ نشست گاہ میں اپنا کھانا منگواتا اور پھر وہ کھانا پوشیدہ طور پر بعض یتیم بچوں کو جن کو میں نےپہلے سے تجویز کر کے وقت پر حاضری کے لئے تاکید کر دی تھی دے دیتا تھا اور اس طرح تمام دن روزہ میں گذارتا اور بجز خداتعالیٰ کے ان روزوں کی کسی کو خبر نہ تھی۔
پھر دو تین ہفتہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایسے روزوں سے جو ایک وقت میں پیٹ بھر کر روٹی کھا لیتا ہوں مجھے کچھ بھی تکلیف نہیں بہتر ہے کہ کسی قدر کھانے کو کم کروں سو میں اس روز سے کھانے کو کم کرتا گیا یہاں تک کہ میں تمام دن رات میں صرف ایک روٹی پر کفایت کرتا تھا اور اسی طرح میں کھانے کو کم کرتا گیا۔یہاں تک کہ شاید صرف چند تولہ روٹی میں سے آٹھ پہر کے بعد میری غذا تھی۔غالباً آٹھ یا نو ماہ تک میں نے ایسا ہی کیا اور باوجود اس قدر قلت غذا کے کہ دو تین ماہ کا بچہ بھی اس پر صبر نہیں کر سکتا خداتعالیٰ نے مجھے ہر ایک بلا اور آفت سے محفوظ رکھا۔اور اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانہ میں میرے پر کھلے۔چنانچہ بعض گذشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس امت میں گذر چکے ہیں ان سے ملاقات ہوئی۔ایک دفعہ عین بیداری کی حالت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معہ حسنین و علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دیکھا۔اور یہ خواب نہ تھی بلکہ ایک بیداری کی قسم تھی غرض اسی طرح پر کئی مقدس لوگوں کی ملاقاتیں ہوئیں جن کا ذکر کرنا موجب تطویل ہے اور علاوہ اس کے انوار روحانی تمثیلی طور پر برنگ ستون سبزوسرخ ایسے دلکش ودلستان طور پر نظر آتے تھے جن کا بیان کرنا بالکل طاقت تحریرسےباہر ہے۔وہ نورانی ستون جو سیدھے آسمان کی طرف گئے ہوئے تھے جن میں سے بعض چمکدارسفیداوربعض سبز اور بعض سرخ تھے ان کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ ان کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتا تھا اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذت نہیں ہوگی جیسا کہ ان کو دیکھ کر دل اور روح کو لذت آتی تھی۔میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خدا اور بندہ کی محبت کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کئے گئے تھے یعنی وہ ایک نور تھا جو دل سے نکلا اور دوسرا وہ نور تھا جو اوپر سے نازل ہوا اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی صورت پیدا ہوگئی یہ روحانی امور ہیں کہ دنیا ان کو نہیں پہچان سکتی کیونکہ وہ دنیا کی آنکھوں سے بہت دور ہیں لیکن دنیا میں ایسے بھی ہیں جن کو ان امور سے خبر ملتی ہے ۔
غرض اس مدت تک روزہ رکھنے سے جو میرے پر عجائبات ظاہر ہوئے وہ انواع اقسام کے مکاشفات تھے۔ایک اور فائدہ مجھے یہ حاصل ہوا کہ میں نے ان مجاہدات کے بعد اپنے نفس کو ایسا پایا کہ میں وقت ضرورت فاقہ کشی پر زیادہ سے زیادہ صبر کر سکتا ہوں ۔میں نے کئی دفعہ خیال کیا کہ ا گر ایک موٹا آدمی جو علاوہ فربہی کے پہلوان بھی ہو میرے ساتھ فاقہ کشی کے لئے مجبور کیا جائے تو قبل اس کے کہ مجھے کھانے کے لئے کچھ اضطرار ہو وہ فوت ہو جائے۔اس سے مجھے یہ بھی ثبوت ملا کہ انسان کسی حد تک فاقہ کشی میں ترقی کر سکتا ہے اور جب تک کسی کا جسم ایسا سختی کش نہ ہو جائے۔
میرا یقین ہے کہ ایسا تَنَعُّم پسند روحانی منازل کےلائق نہیں ہو سکتا۔لیکن میں ہر ایک کو یہ صلاح نہیں دیتا کہ ایسا کرے اور نہ میں نے اپنی مرضی سے ایسا کیا۔میں نے کئی جاہل درویش ایسے بھی دیکھے ہیں جنہوں نے شدید ریاضتیں اختیار کیں اور آخریبوست دماغ سے وہ مجنون ہوگئے اور بقیہ عمر اُن کی دیوانہ پن میں گذری یا دوسرے امراض سل اور دق وغیرہ میں مبتلا ہوگئے۔انسانوں کے دماغی قویٰ ایک طرز کے نہیں ہیں ۔پس ایسے اشخاص جن کے فطرتاً قویٰ ضعیف ہیں ان کو کسی قسم کا جسمانی مجاہدہ موافق نہیں پڑ سکتا اور جلد تر کسی خطرناک بیماری میں پڑ جاتے ہیں ۔سو بہتر ہے کہ انسان اپنی نفس کی تجویز سے اپنے تئیں مجاہدہ شدیدہ میں نہ ڈالے اور دین العجائز اختیار رکھے۔ہاں اگر خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی الہام ہو اور شریعتِ غرّاء اسلام سے منافی نہ ہو تواس کو بجا لانا ضروری ہے لیکن آج کل کے اکثر نادان فقیر جو مجاہدات سکھلاتے ہیں ان کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔پس ان سے پرہیز کرنا چاہیئے۔یاد رہے کہ میں نے کشف صریح کے ذریعہ سے خداتعالیٰ سے اطلاع پاکر جسمانی سختی کشی کا حصہ آٹھ یا نو ماہ تک لیا اور بھوک اور پیاس کا مزہ چکھا اور پھر اس طریق کو علی الدوام بجا لانا چھوڑ دیا اور کبھی کبھی اس کو اختیار بھی کیا۔”
(کتاب البریّہ ،روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 197تا200 حاشیہ)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :۔
“میری تو یہ حالت ہے کہ مرنے کے قریب ہو جاوٴں ۔ تب روزہ چھوڑتا ہوں۔طبیعت روزہ چھوڑنے کو نہیں چاہتی۔یہ مبارک دن ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل ورحمت کے نزول کے دن ہیں ۔” (ملفوظات جلد دوم صفحہ203)
آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :
“شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ”(البقرۃ :186) سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے صوفیا نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے۔کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں ۔صلوٰۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلیٔ قلب کرتا ہے۔تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جائے اور تجلیٔ قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خد ا کو دیکھ لے۔پس اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ (البقرہ:186) میں یہی اشارہ ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ روزہ کا اجر عظیم ہے لیکن امراض اور اغراض اس نعمت سے انسان کو محروم رکھتے ہیں مجھے یاد ہے کہ جوانی کے ایام میں میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ روزہ رکھنا سنت اہل بیت ہے۔میرے حق میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِ۔سلمان یعنی اَلصُّلْحَان کہ اس شخص کے ہاتھ سے دو صلح ہوں گی۔ایک اندرونی دوسری بیرونی۔اور یہ اپنا کام رفق سے کرے گا نہ کہ شمشیر سے اور میں جب مشرب حسین پر نہیں ہوں کہ جس نے جنگ کی بلکہ مشرب حسن پر ہوں کہ جس نے جنگ نہ کی تو میں نے سمجھا کہ روزہ کی طرف اشارہ ہے چنانچہ میں نے چھ ماہ تک روزے رکھے۔اس اثنا میں میں نے دیکھا کہ انوار کے ستونوں کے ستون آسمان پر جارہے ہیں یہ امر مشتبہ ہے کہ انوار کے ستون زمین سے آسمان پر جاتے تھے یا میرے قلب سے لیکن یہ سب کچھ جوانی میں ہو سکتا تھا اور اگر اس وقت میں چاہتا تو چار سال تک روزہ رکھ سکتا تھا۔” (ملفوظات جلد چہارم صفحہ257-256)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
“یہ ایک باریک امر ہے کہ اگر کسی شخص پر (اپنے نفس کے کسل کی وجہ سے) روزہ گراں ہے اور وہ اپنے خیال میں گمان کرتا ہے کہ میں بیمار ہوں اور میری صحت ایسی ہے کہ اگر ایک وقت نہ کھاؤں تو فلاں فلاں عوارض لاحق ہوں گے اور یہ ہوگا اور وہ ہوگا تو ایسا شخص جو خد اتعالیٰ کی نعمت کو خود اپنے اوپر گراں گمان کرتا ہے۔کب اس ثواب کا مستحق ہوگا۔ہاں وہ شخص جس کا دل اس بات سے خوش ہے کہ رمضان آگیا اور میں اس کا منتظر تھا کہ آوے اور روزہ رکھوں اور پھر وہ بوجہ بیماری کے روزہ نہیں رکھ سکا تو وہ آسمان پر روزے سے محروم نہیں ہے۔اس دنیا میں بہت لوگ بہانہ جُو ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم جس طرح اہل دنیا کو دھوکا دے لیتے ہیں ویسے ہی خدا کو فریب دیتے ہیں۔ بہانہ جو اپنے وجود سے آپ مسئلہ تراش کرتے ہیں اور تکلفات شامل کر کے ان مسائل کو صحیح گردانتے ہیں ۔لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ صحیح نہیں۔ تکلفات کا باب بہت وسیع ہے اگر انسان چاہے تو اس (تکلف) کی رو سے ساری عمر بیٹھ کر نماز پڑھتا رہے اور رمضان کے روزے بالکل نہ رکھے مگر خدا اس کی نیت اور ارادہ کو جانتا ہے جو صدق اور اخلاص رکھتا ہے۔خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کے دل میں درد ہے اور خداتعالیٰ اسے ثواب سے زیادہ بھی دیتا ہے کیونکہ درد دل ایک قابل قدر شئے ہے۔حیلہ جُو انسان تاویلوں پر تکیہ کرتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ تکیہ کوئی شئے نہیں ۔جب میں نے چھ ماہ روزے رکھے تھے تو ایک دفعہ ایک طائفہ انبیاء کا مجھے (کشف میں ) ملا۔اور انہوں نے کہا کہ تونے کیوں اپنے نفس کو اس قدر مشقت میں ڈالا ہوا ہے’ اس سے باہر نکل۔اسی طرح جب انسان اپنے آپ کو خدا کے واسطے مشقت میں ڈالتا ہے تو وہ خود ماں باپ کی طرح رحم کرکے اسے کہتا ہے کہ تو کیوں مشقت میں پڑا ہوا ہے۔”
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ259-260)
(باقی آئندہ)