الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
چند شہدائے احمدیت
ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم عبدالرحمٰن باجوہ صاحب شہید
آپ مکرم غلام جیلانی صاحب باجوہ اور مکرمہ امتہ الحفیظ صاحبہ کے بیٹے تھے ۔ آپ کے خاندان کا تعلق ضلع ساہیوال کے ایک گاؤں سے تھا۔ 1972ء میں والدین کے ہمراہ آپ کراچی منتقل ہوگئے۔ 1994ء میں کراچی کے علاوہ منظورکالونی میں جماعتی مخالفت کی ایک شدید لہر اٹھی جس میں فضلِ عمر ویلفیئر ڈسپنسری اور احمدی احباب کے گھروں پر حملے کیے گئے اور انہیںآگ لگانے کی کوشش بھی کی گئی۔ ان دنوں مکرم عبدالرحمٰن باجوہ صاحب بحیثیت سیکرٹری امورعامہ دن رات کی پروا کیے بغیر ڈیوٹی پر موجود خدام کی رہ نمائی کرتے رہے۔
28؍ اکتوبر1994ء بروز جمعۃالمبارک کی شام پانچ بجے آپ موٹرسائیکل پر اپنے گھر آ رہے تھے کہ دو موٹرسائیکل سواروں نے گلی میں اپنی موٹرسائیکل کھڑی کرکے آپ کا راستہ روک لیا اور آناً فاناً پستول سے آٹھ فائر کیے جس سے آپ موقع پر ہی شہید ہوگئے۔
شہید کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ ایک لے پالک بیٹی تھی جو آپ کی بیوہ مکرمہ سلمیٰ رحمٰن صاحبہ کے گھر میں پلی ہے۔
مکرم ملک اعجاز احمد صاحب شہید
آپ مکرم عنایت اللہ صاحب مرحوم آف ڈھونیکے تحصیل وزیرآباد کے صاحبزادے تھے اور ایک نڈر داعی الی اللہ تھے۔ آپ کی دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں ہی ‘‘جنڈیالہ ڈھاب والا’’ میں ایک خاندان کے جملہ افراد کو بیعت کرنے کی توفیق ملی تھی۔اس سے قبل اس گاؤں میں کوئی احمدی نہ تھا۔
مکرم ملک اعجاز احمد صاحب کا اپنوں اور غیروں میں بڑا وسیع حلقہ تھا۔ مکرم ڈاکٹر نذیر احمد صاحب شہید کے مقدمہ میں مجرموں کو گرفتار کروانے میں آپ نے بڑی کوشش کی۔ اسی لیے مخالفین آپ کے جانی دشمن ہوگئے۔
یکم دسمبر1998ء کو آپ وزیرآباد میں اپنی سیمنٹ ایجنسی میں چند دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ صبح دس بجے کے قریب چادر اوڑھے ہوئے ایک لڑکا آیا اور پوچھا کہ ملک اعجاز کون ہے؟ آپ کے جواب دینے پر اُس نے اپنی چادر کے نیچے سے لوڈ کیا ہوا ریوالور نکالا اور آپ پر فائرنگ کردی۔آپ کو دو گولیاں لگیں جن سے آپ شدید زخمی ہوگئے۔ قاتل کو اہل محلہ کے تعاون سے ملک صاحب کے ایک دوست اور ملازم نے پکڑکر حوالۂ پولیس کردیا۔ محترم ملک صاحب کو ہسپتال لے جایا گیا لیکن ابھی آپریشن تھیٹر میں لے جانے کی تیاری ہو رہی تھی کہ آپ اپنے مولائے حقیقی سے جا ملے۔
شہید مرحوم کی اپنی کوئی اولاد نہیںتھی۔ آپ نے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ ایک زیر کفالت بچی چھوڑی۔
مکرم دلشاد حسین کھچی صاحب شہید
مکرم زوّار محمد جُمن کھچی صاحب کے صاحبزادے مکرم دلشاد حسین کھچی صاحب کو جولائی 1993ء میں قبول احمدیت کی توفیق ملی۔ اس سے قبل آپ کٹر شیعہ تھے اور آپ کے والد اور چچا وغیرہ شہر کے ایک بہت بڑے امام باڑہ کے متولی تھے۔
مکرم دلشاد حسین صاحب نمازوں کی ادائیگی میں بہت باقاعدہ تھے۔ ڈش انٹینا اپنے گھر میں لگوایا جہاں غیراز جماعت احباب کو بلاکر ان کو جماعت کے پروگرام دکھاتے تھے۔ مساجد اور امام باڑوں کے مولوی آپ کے پاس آکر مرتد کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر ناکام رہے۔ اسی دوران اندر ہی اندر آپ کے خلاف سازشیں بھی پلتی رہیں یہاں تک کہ 31؍اکتوبر1994ء کو جبکہ آپ اپنی دکان سے واپس گھر آرہے تھے تو آپ کو گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ آپ اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ آپ نے اپنے پیچھے بیوہ کے علاوہ ایک بچی چھوڑی ۔
مکرم چودھری عتیق احمد صاحب باجوہ شہید
آپ 1939ء میں فیصل آباد کے ایک گاؤں بہلول پور میں مکرم چودھری بشیر احمد صاحب باجوہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابھی آپ آٹھ سال کے تھے کہ والد وفات پاگئے اور آپ کی والدہ محترمہ شریفہ بیگم صاحبہ نے بہت محنت اور دعاؤں سے آپ کی پرورش کی۔ وہ بہت نیک اور دعاگو خاتون تھیں۔
مکرم چودھری عتیق احمد صاحب باجوہ نے ابتدائی تعلیم وہاڑی سے حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کرکے وہاڑی میں وکالت شروع کردی۔ ہمیشہ سچ پر مبنی کیس لیا کرتے تھے۔اوائل جوانی سے ہی مختلف جماعتی عہدوں پر فائز رہے۔ قائد ضلع اور سیکرٹری اصلاح و ارشاد کے علاوہ قریباً نو سال تک امیر ضلع وہاڑی رہے۔ بہت مخلص احمدی اور نڈر داعی الی اللہ تھے۔ چندوں کی ادائیگی اور تمام مالی تحریکات میں آپ کی شمولیت ایک مثالی حیثیت رکھتی تھی۔ آپ اٹھارہ دن تک ملتان جیل میں اسیرراہ مولیٰ بھی رہے۔
19؍ جون 1997ء کو شام پانچ بجے اپنی گاڑی میں زمینوں کی طرف جا رہے تھے کہ وہاڑی سے کچھ فاصلہ پر دو موٹرسائیکل سواروںنے آپ پر فائرنگ کردی جس سے آپ اور آپ کا ڈرائیور موقع پر ہی دَم توڑ گئے۔ بوقت شہادت آپ کی عمر اٹھاون سال تھی۔ پسماندگان میں والدہ کے علاوہ بیوہ ڈاکٹر نسرین عتیق باجوہ صاحبہ، ایک بیٹی اور تین بیٹے چھوڑے۔
مکرم انور حسین ابڑوصاحب شہید
آپ مولوی محمد انورصاحب ابڑو اور محترمہ جنت خاتون صاحبہ کے صاحبزادے تھے۔ آپ کا تعلق ایک ایسے معروف علمی گھرانہ سے تھا جس کو سندھ میں اپنے علاقے میں تعلیم پھیلانے کی وجہ سے بہت شہرت ملی۔ اسی لئے آپ کے گھرانے کو استاد گھرانہ کہہ کر تعظیم دی جاتی تھی۔ آپ کے دادا محترم مولوی عبدالرؤوف صاحب ابڑو 1947ء میں اپنی اولاد، عزیز و اقارب اور شاگردوں سمیت بیعت کرکے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ ایک استاد کے علاوہ ابڑو خاندان کے آپ بڑے پگدار بھی تھے۔ (سندھی اصطلاح میں پگدار بڑے رئیس کو کہا جاتاہے۔) اُن کی وفات 1948ء میں ہوئی جس کے بعد مکرم مولوی محمد انور صاحب نے دیگر احمدیوں کے ساتھ مل کر تمام مخالفتوں کا بھرپور استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا۔
19؍ دسمبر1994ء کی شام رینجرز کی وردی میں ملبوس 7؍افراد انورآباد آئے جن کے پاس لائٹ مشین گن اور کلاشنکوف رائفلیں تھیں۔ انہوں نے مولوی محمد انور صاحب ابڑو کے مکان میں گھس کر وہاں موجود عورتوں سے کہا کہ ہم کرنل کے حکم سے خطرناک ڈاکوؤں کی تلاش میں آئے ہیں۔ تلاشی کے دوران انہوں نے مولوی صاحب کے بارہ میںپوچھا۔ عورتوں نے جواب دیا کہ باہر گئے ہوئے ہیں۔ جب تلاشی کے باوجود کوئی مرد نظر نہ آیا تو انہوں نے مسجد میں جاکر مکرم انور حسین صاحب ابڑو کو جو سنّتوں کے بعد نفل ادا کر رہے تھے اور سجدہ میں تھے، اُسی حالت میں انہیں اٹھایا اور کہا کہ تمہیں کرنل نے بلایا ہے۔ مسجد سے ہی ظہور احمد ابڑو صاحب اور مکرم ناصر احمد ابڑو صاحب کو بھی پکڑا اور تینوں کو گھر لے آئے۔ عطاء المومن ابڑو پہلے ہی اُن کے قبضہ میں تھے۔ اس کے بعد وہ مَردوں کو ایک لائن میں کھڑا کرکے کہنے لگے کہ کلمہ سناؤ۔ جب سب نے کلمہ پڑھا تو مُلّانوں کے بھیجے ہوئے یہ بدقماش مغلّظات بکنے لگے کہ تم مسلمان نہیں کچھ اَور ہو، تم صرف ظاہراً یہ کلمہ پڑھتے ہو۔ ڈاکو مکرم انور حسین ابڑو صاحب اور اُن کے بیٹے ظہور پر تشدّد کرتے رہے اور کہتے رہے کہ اپنے مرشد کو گالیاں دو۔ اُن کے انکار پر اُنہوں نے شہید کی گردن کے ساتھ بندوق کی نالی لگاکرکہا کہ گالیاں دو ورنہ تمہیں ماردیں گے۔ شہید مرحوم اگرچہ طبعی طور پر کمزور تھے مگر آدھ گھنٹے تک ان درندوں کے سامنے عظیم الشان استقامت کا مظاہرہ کرتے رہے اور کسی ایک لمحہ کے لیے بھی ایمان نہ ڈگمگایا۔ اس دوران خواتین نے بھی بڑی بہادری کا ثبوت دیا۔ کسی عورت نے ان کی منّتیں نہیں کیں، واسطہ نہیں ڈالا اور سندھی دستور کے مطابق قدموںمیں دوپٹہ نہیں ڈالا۔ اس کے بعد یہ غنڈے انہیں مارتے ہوئے باہر لے گئے اور گاؤں کے لوگوں کو مخاطب ہوکر کہا کہ آج اسلام اور قادیانیت کا مقابلہ ہے۔ دیکھو ہم انہیں کیسے مارتے ہیں اور چاروں کو گاؤں کے باہر موجود کنویں پر لے آئے۔ پھر ناصر احمد ابڑو کو ایک طرف کرکے مکرم ظہور احمد ابڑو ابن انور حسین صاحب ابڑو پر فائر کیا جو کہ نہر کے کنارے پر کھڑے ہوئے تھے اور فائر لگتے ہی وہ پھسلے اور نہر میں گر گئے۔ ایک گولی ان کے دائیں کندھے میں لگ کر بائیں طرف سے سوراخ کرتی ہوئی نکل گئی۔ اس کے بعد مکرم انور حسین صاحب پر گولیاں برسائیں۔ ایک گولی ان کے سر پر لگی۔ شرپسندوں کے جانے کے بعد دونوں باپ بیٹے کو وارہ لے جایا جارہا تھا کہ مکرم انور حسین ابڑو صاحب نے راستہ ہی میں دم توڑ دیا۔ ان کا بیٹا ظہور احمد بچ گیا۔ شہید مرحوم نے چار بیٹیاں اور پانچ بیٹے پسماندگان میں چھوڑے۔
………٭………٭………٭………
اشتقاقیات (Etymology)
اشتقاقیات کا مطلب ہے کہ مختلف اشیاء کو مخصوص نام دیے جانے کی وجوہات کیا ہیں۔ اس حوالے سے ایک مختصر معلوماتی مضمون ماہنامہ ‘‘تشحیذالاذہان’’ ربوہ مئی 2011ء میں شامل اشاعت ہے جس میں چند ممالک کے نام رکھے جانے کا پس منظر بیان کیا گیا ہے۔
افغانستان: یہ سنسکرت زبان کے ایک لفظ Asvakaسے بنا ہے جس کا مطلب ہے ‘‘گھوڑے پالنے والے’’۔ اس علاقہ میں بسنے والی قوم کو جنگوں کے لئے گھوڑے پالنے میں خاص مہارت تھی۔
البانیا: اس ملک کے نام میں ‘‘سفید پہاڑ’’ کے معانی پائے جاتے ہیں کیونکہ سردیوں میں یہاں کے پہاڑوں کی چوٹیاں برف سے ڈھک کر سفید ہوجاتی ہیں۔
ارجنٹائن: جنوبی امریکہ کے اس ملک کا نام لاطینی زبان کے لفظArgentums سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے چاندی۔ یہاں ایک دریا میں سے پرتگالی اور ہسپانوی تاجر چاندی اور دوسرے جواہرات لے کر گزرتے تھے۔
آسٹریلیا: لاطینی زبان میں اس کا مطلب ہے ‘‘جنوبی’’۔ یہ نام رکھے جانے کی وجہ یہ تھی کہ اُس وقت کے دریافت شدہ علاقوں میں سے یہ دنیا کے انتہائی جنوب میں واقع تھا۔
ایران: یہ ملک آرین قبائل “Aryans” کی جگہ ہونے کی وجہ سے مشہور ہے۔
الجیریا: شمالی افریقہ کے اس ملک کا نام عربی لفظ ‘الجزائر’ سے نکلا ہے جو جزائر کی جمع ہے۔ کئی سو سال پہلے یہ ساحلِ سمندر پر چار جزائر پر مشتمل تھا جو 1525ء میں مرکزی زمین کے ساتھ مل گئے۔
برازیل: ایک خاص قسم کے درخت”Brazilwood Tree” کے حوالے سے یہ نام رکھا گیا ۔ اس درخت کی گہرے سرخ رنگ کی لکڑی مختلف اشیاء بنانے میں استعمال کی جاتی ہے۔
………٭………٭………٭………
ماہنامہ ‘‘تحریک جدید’’ ربوہ مئی 2012ء میں محترم چودھری محمد علی صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:
بات سنتے نہ بات کرتے ہو
کس قدر احتیاط کرتے ہو
سچ کہو! انتظار کس کا ہے
صبح کرتے نہ رات کرتے ہو
عقل کے بھی ہو زر خرید غلام
عشق بھی ساتھ ساتھ کرتے ہو
ہاتھ جاناں کے ہاتھ میں دے کر
کیوں غمِ پُلِ صراط کرتے ہو
پہلے اس کا جواز ڈھونڈتے ہو
پھر کوئی واردات کرتے ہو
جب بھی کرتے ہو قتل مضطرؔ کا
سرِ نہرِ فرات کرتے ہو