کھریپڑ ضلع قصور میں احمدیوں کےحق عبادت کو غصب کرتے ہوئے عبادت گاہ سے محروم کر دیا گیا
(پریس ریلیز ۔ نظارت امور عامہ۔ صدر انجمن احمدیہ ربوہ)
سپریم کورٹ کےفیصلہ2014ءکی کھلی خلاف ورزی کا کون نوٹس لے گا
(نظارت امورِ عامہ، صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ) چناب نگر (پ ر)کھریپڑ ضلع قصور میں احمدیوں کو ان کی قدیم عبادت گاہ سے محروم کر کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ یہ عبادت گاہ گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے جماعت احمدیہ کے زیرانتظام ہے۔چند شر پسند عناصر کی خوشنودی کے لیے سرکاری انتظامیہ نے احمدیوں کی عبادت گاہ حملہ آور ہجوم کےمنتظمین کے حوالے کر دی۔جبکہ اس سے پیشتر احمدیوں پر دباؤ ڈالا جاتا رہا کہ وہ ازخود عبادت گاہ سے دستبردار ہو جائیں۔ترجمان جماعت احمدیہ نے اس معاملہ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ 6فروری2020 بروز جمعرات کو دوپہر2بجے ایک بڑا ہجوم احمدیہ عبادت گاہ کا تالا توڑکراندر داخل ہو گیا۔ اس ہجوم نےعبادت گاہ میں لگے کیمرے توڑ دیے اور لاؤڈ سپیکر لگا کر اذان دی اور نماز پڑھی۔ صورت حال کے پیش نظر اطلا ع کرنے پر پولیس کی بھاری نفری پہنچ گئی ۔ انتظامیہ نے اس ہجوم کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہ کی تاہم مذکورہ عبادت گاہ کو اپنا تالا لگا دیا اور اب زبانی فیصلہ سنا دیا ہے کہ مذکورہ عبادت گاہ کو حملہ آور ہجوم کے منتظمین کے حوالے کیا جا رہا ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ ملک میں آئین و قانون کی بالا دستی کی بات ہوتی ہے جبکہ عملی طور پر ان کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے19 جون 2014ءکے فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مذکورہ عبادت گاہ سے احمدیوں کو محروم کر کے عدالتی فیصلے کی بھی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔اس وقت کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی صاحب کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نےاپنے تاریخ ساز فیصلہ S.M.C.No1of2014/PLD2014SC99میں حکومت کو 8رہنما ہدایات دی تھیں جن میں خصوصی تربیت یافتہ پولیس فورس تشکیل دے کر عبادت گاہوں کی حفاظت کرنا اور ایسے تمام مقدمات جن کی بنا عبادت گاہوں کی بے حرمتی پر ہو ان کے متعلق فوری اقدام لے کر مرتکب افراد سےباز پرس کرنا شامل ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ جماعت احمدیہ پاکستان کی ترقی و استحکام پر یقین رکھنے اور اس میں اپنا بھر پور کردار اد ا کرنے والی محب وطن و پُر امن جماعت ہے جبکہ احمدیوں کے آئینی حقوق کو پامال کرتے ہوئےنا صرف احمدیوں کو عبادت سے روکا جا رہا ہے بلکہ ایک تاریخی عبادت گاہ سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔اس سے مقامی علاقے میں فضا مکدر ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی بنیادوں پر کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ہے۔ معاملہ کی حساسیت شرپسند عناصر کے خلاف فوری کارروائی کی متقاضی ہے۔ مذکورہ عبادت گاہ کا انتظام احمدیوں کے حوالے کیا جاناحکومتی قول و فعل میں یکسانیت پیدا کرنے اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اہم ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ اس حوالہ سے اعلیٰ سرکاری حکام کو خطوط لکھے گئے اور درخواست کی گئی کہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے احمدیوں کو اس عبادت گاہ سے محروم نہ کیا جائےمگر تا حال اس ضمن میں کوئی بھی مثبت پیش رفت دیکھنے میں نہ آئی ہے۔###