شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام: آپؑ کی دعاؤں کا بیان
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کا بیان(حصّہ دوم)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
“اے میر ے قادر خدا اے میرے پیارے رہنما تو ہمیں وہ راہ دکھا ۔ جس سے تجھے پاتے ہیں اہل صدق و صفا۔ اور ہمیں ان راہوں سے بچا جن کا مدعا صرف شہوات ہیں یا کینہ یا بُغض یا دنیا کی حرص و ہوا۔”
(پیغام صلح روحانی خزائن جلد23صفحہ439)
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
“اے میرے قادر خدا میری عاجزانہ دعائیں سُن لے اور اس قوم کے کان اور دل کھول دے اور ہمیں وہ وقت دکھا کہ باطل معبودوں کی پرستش دنیا سے اُٹھ جائے اور زمین پر تیری پرستش اخلاص سے کی جائے اور زمین تیرے راستباز اور موحد بندوں سے ایسی بھر جائے جیسا کہ سمندر پانی سے بھرا ہوا ہے۔ اور تیرے رسول کریم محمد مصطفیٰ ﷺ کی عظمت اورسچائی دلوں میں بیٹھ جائے۔ آمین
اے میرے قادر خدا مجھے یہ تبدیلی دنیا میں دکھا اور میری دعائیں قبول کر جو ہر یک طاقت اور قوت تجھ کو ہے۔اے قادر خدا ایسا ہی کر۔ آمین ثم آمین۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ”
(تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ 603)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
“ابتلاؤں میں ہی دعاؤں کے عجیب و غریب خواص اور اثر ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ہمار ا خدا تو دعاؤں ہی سے پہچانا جاتا ہے۔”(ملفوظات جلد سوم صفحہ201)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
“ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہوگیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں۔ اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھی ﷺ۔”
(براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد اول صفحہ 598 حاشیہ در حاشیہ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
“آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استغراق رہا کیوں کہ میرا یقین تھا کہ خداتعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں وہ بجز وسیلہ نبی کریم کے مل نہیں سکتیں جیسا کہ خدا بھی فرماتا ہے وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ دو سقے یعنی ماشکی آئے اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل ہوئے ہیں اور ان کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں ھٰذَا بِمَا صَلَّیْتَ عَلٰی مُحَمَّدٍ”
(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ:489)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
“دعا جیسی کوئی چیز نہیں اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ یہ عاجز اپنی زندگی کامقصد اعلیٰ یہی سمجھتا ہے کہ اپنے لئے اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کیلئے ایسی دعائیں کرنے کا وقت پاتا رہے کہ جو ربّ العرش تک پہنچ جائیں اور دل تو ہمیشہ تڑپتا ہے کہ ایسا وقت ہمیشہ میسر آ جایا کرے۔ مگر یہ بات اپنے اختیار میں نہیں۔”
(مکتوبات احمدیہ جلد اول مکتوب نمبر 15بنام میر عباس علی صاحب بحوالہ سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب صفحہ499)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
“میں نے عربی تصانیف کے دوران میں تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے کہ کس قدر کثرت سے میری دعائیں قبول ہوئی ہیں۔ایک ایک لفظ پر دعا کی ہے اور میں رسول اللہ ﷺ کو تو مستثنیٰ کرتا ہوں۔(کیونکہ ان کی طفیل اور اقتداء سے تو یہ سب کچھ ملا ہی ہے) اور میں کہہ سکتا ہوں کہ میری دعائیں اس قدر قبول ہوئی ہیں کہ کسی کی نہیں ہوئی ہوں گی۔میں نہیں کہہ سکتا کہ دس ہزار یا دو لاکھ یا کتنی ۔”(ملفوظات جلد اول صفحہ 277)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
“ میرا تو یہ مذہب ہے کہ دُعامیں دشمنوں کو بھی باہر نہ رکھے۔ جس قدر دُعا وسیع ہوگی اسی قدر فائدہ دُعا کرنے والے کو ہو گا اور دُعا میں جس قدر بخل کرے گا۔ اسی قدر اللہ تعالیٰ کے قرب سے دُور ہوتا جاوے گا اور اصل تویہ ہے کہ خداتعالیٰ کے عطیہ کو جو بہت ہی وسیع ہے جو شخص محدود کرتا ہے اس کا ایمان بھی کمزور ہے۔”
(ملفوظات جلددوم صفحہ74)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
“میں ہمیشہ دعاؤں میں لگا رہتا ہوں اور سب سے مقدم دعا یہی ہوتی ہے کہ میرے دوستوں کو ہموم اور غموم سے محفوظ رکھے کیونکہ مجھے تو ان کے ہی افکار اور رنج، غم میں ڈالتے ہیں۔ اور پھر یہ دعا مجموعی ہیئت سے کی جاتی ہے کہ اگر کسی کو کوئی رنج اور تکلیف پہنچی ہے تو اللہ تعالیٰ اس سےاس کونجات دے۔ ساری سرگرمی اور پورا جوش یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کروں۔”
(ملفوظات جلد اول صفحہ106)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
“اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد اور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہیے کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہیں۔ اگر اولاد کی خواہش کرے تو اس نیت سے کرے…… کہ کوئی ایسا بچہ پیدا ہو جائے جو اعلاء کلمۃ الاسلام کا ذریعہ ہو۔ جب ایسی پاک خواہش ہو تو اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ زکریا کی طرح اولاد دے دے۔”
(ملفوظات جلد6صفحہ351)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
“یا الٰہی میں تیرا گنہگار بندہ ہوں اور افتادہ ہوں میری رہنمائی کر۔”(ملفوظات جلد 7صفحہ227)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
“ہم تیرے گنہگار بندے ہیں اور نفس غالب ہیں توہم کو معاف فرما اور آخرت کی آفتوں سے ہم کو بچا۔”
(اخبار البدر جلد 2صفحہ30)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
“میں گنہگار ہوں اور کمزور ہوں تیری دستگیری اور فضل کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا تو آپ رحم فرما مجھے پاک کر کیونکہ تیرے فضل و کرم کے سوا کوئی اور نہیں جو مجھے پاک کرے۔”
(البدر جلد 3صفحہ41)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے نام مکتوب میں دعا کی تلقین کرتے ہوئے تحریر فرمایا:
“دعا بہت کرتے رہو اور عاجزی کو اپنی خصلت بناؤ۔ جو صرف رسم اور عادت کے طور پر زباں سے دعا کی جاتی ہے یہ کچھ بھی چیز نہیں۔اس میں ہرگز زندگی کی روح نہیں جب دعا کرو تو بجز صلوٰۃ فریضہ کے یہ دستور رکھو کہ اپنی خلوت میں جاؤ اور اپنی ہی زبان میں نہایت عاجز ی کے ساتھ جیسے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ بندہ ہوتا ہے خدائے تعالیٰ کے حضور میں دعا کرو۔
اے رب العالمین! تیرے احسان کا میں شکر نہیں کر سکتا۔ تو نہایت رحیم و کریم ہے اور تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال۔ تامجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہو جاوے۔ میں تیرے وجہِ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما اور دنیا اورآخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ آمین ثم آمین۔”
(مکتوبات احمد جلددوم مکتوب نمبر3صفحہ158-159)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
“ اورہرشئے خدا تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہئے ۔خد ا تعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔پس میرے نزدیک خوب ہے کہ (انسان ) دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ۔یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ۔اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خد اتعالیٰ طاقت بخش دے گا۔”
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ158-159)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب “کشتی نوح” میں “ہماری تعلیم” بیان فرما کر اسے اس دعا پر ختم کرتے ہیں:
“اور میں دعا کرتا ہوں کہ یہ تعلیم میری تمہارے لئے مفید ہو اور تمہارے اندر ایسی تبدیلی پیدا ہو کہ زمین کے تم ستارے بن جاؤ اور زمین اس نور سے روشن ہو جو تمہارے رب سے تمہیں ملے۔”
(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19صفحہ85)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘قادر خدا! اے اپنے بندوں کے راہنما! جیسا تو نے اس زمانہ کو صنائع جدیدہ کے ظہور و بروز کا زمانہ ٹھہرایا ہے۔ ایسا ہی قرآن کریم کے حقائق معارف ان غافل قوموں پر ظاہر کر اور اب اس زمانہ کو اپنی طرف اور اپنی کتاب کی طرف اور اپنی توحید کی طرف کھینچ لے۔ کفر اور شرک بہت بڑھ گیا اور اسلام کم ہو گیا۔ اب اے کریم! مشرق اور مغرب میں توحید کی ایک ہوا چلا اور آسمان پر جذب کا ایک نشان ظاہر کر۔ اے رحیم! تیرے رحم کے ہم سخت محتاج ہیں۔ اے ہادی! تیری ہدایتوں کی ہمیں شدید حاجت ہے۔ مبارک وہ دن جس میں تیرے انوار ظاہر ہوں۔ کیا نیک ہے وہ گھڑی جس میں تیری فتح کا نقارہ بجے
تَوَکَّلْنَا عَلَیْکَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِکَ وَأَنْتَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ۔
یعنی ہم نے تجھ پر توکل کیا اور سوائے تیرے کسی کو کوئی قوت و طاقت نہیں اور تو بہت بلند اور عظمت والا ہے۔(ترجمہ از مرتب)
(آئینہ کمالات اسلام حاشیہ در حاشیہ روحانی خزائن جلد 5صفحہ213-214)
اَللّٰھُمَّ انْصُرْ مَنْ نَصَرَ دِیْنَ مُحَمَّدٍﷺوَاجْعَلْنَا مِنْھُمْ۔ آمین۔ اَللّٰھُمَّ اخْذُلْ مَنْ خَذَلَ دِیْنَ مُحَمَّدٍﷺ وَلَا تَجْعَلْنَا مِنْھُمْ۔ آمین۔
اے اللہ اس کی مدد فرما جو محمد ﷺکے دین کی مدد کرے اور ہمیں ان میں سے بنا (قبول فرما) اور اے اللہ اس کو چھوڑ دے جس نے چھوڑ دیا محمدﷺکو اور ہمیں ان میں سے بنا۔ قبول فرما۔
(مجموعہ اشتہار ات جلددوم صفحہ669)
میر عباس علی صاحب کے نام مکتوب میں حضور نے یہ دعا فرمائی۔
اَللّٰھُمَّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ اَللّٰھُمَّ ارْحَمْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ اَللّٰھُمَّ انْزِلْ عَلَیْنَا بَرَکَاتِ مُحَمَّدٍ وَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ۔
(مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ507)
اے اللہ محمد ﷺ کی امت کی اصلاح فرما۔ اے اللہ محمد ﷺ کی امت پر رحم کر۔ اے اللہ ہم پر محمد ﷺ کی برکات نازل فرما اور محمد ﷺ پر رحمتیں اور برکتیں اورسلام بھیج ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعا کرتے ہیں:
(عربی عبارت سے ترجمہ ) ‘‘اے اللہ! ہمیں ان کے فتنے سے محفوظ رکھ اور ان کی تہمتوں سے بری کر اور ہمیں اپنی حفاظت اور بزرگی اور خیر و بھلائی کے ساتھ خاص کر لے۔ اور ہمیں اپنے علاوہ کسی اور کونہ سونپ دینا اور ہمیں توفیق دے کہ ایسے نیک عمل کریں جن سے تو راضی ہو جائے ہم تجھ سے تیری رحمت تیرے فضل اور تیری رضا کے طلب گا ر ہیں۔ اور تو تمام رحم کرنے والوں سے بہت رحم کرنے والا ہے۔ اے میرے رب! تو اپنے فضل سے میری قوت بن جا اور میری آنکھوں کا نور اور میرے دل کا سرور اور میری زندگی اور موت کا قبلہ تُوہو جا اور مجھے محبت کا شغف بخش اور ایسی محبت مجھے عطا کر کہ میرے بعد کوئی اور اس محبت میں آگے نہ بڑھ سکے۔ اے میرے رب! میری دعا کو قبول کر اور میری خواہشیں مجھے عطا کر اور مجھے صاف کر دے اور مجھے عافیت میں رکھ اور مجھے اپنی طرف کھینچ لے اور میری خود رہنمائی کر اور میری تائید فرما اورمجھے توفیق دے اور مجھے پاک کر دے اور مجھے منورکر دے۔ اور مجھے سارے کا سار اپنا بنا لے۔اور تو سارے کا سارا میرا ہو جا۔ اے میرے رب! میرے پاس ہر دروازے سے آ اور ہر پردے سے مجھے مخلصی عطا کر اور ہر محبت کی شراب مجھ پلا دے اور نفسانی جوشوں اور جذبات کے وقت خود میری مدد فرما اور جدائی کی ہلاکتوں اور اندھیروں سے میری حفاظت فرما اور آنکھ جھپکنے کے برابر لمحے کے لئے بھی مجھے میرے نفس کے سپرد نہ کر اور مجھے نفسانی برائیوں سے بچانا اور میری رفعت سبھی تیری طرف ہو اور میرا نیچے اترنا بھی تیری طرف ہو اور تو میرے وجود کے ذرات میں سے ہر ذرے میں داخل ہو جا اور مجھے ان لوگوں میں سے بنا دے جو تیرے سمندروں میں تیرتے اور تیرے انوار کے باغات میں پھرتے ہیں اور جو تیری تقدیر کے جاری ہونے پر راضی رہتے ہیں اورمیرے دشمنوں کے مابین دوری پیدا کر دے۔ اے میرے رب! اپنے فضل اور اپنے چہرے کے نور کے ساتھ تو مجھے اپنا حسن دکھا اور اپنا مصفّٰی اور شیریں پانی مجھے پلا اور ہر قسم کے پردوں اور غبار سے مجھے باہر نکال دے اور مجھے ان لوگوں میں سے نہ بنا جو تاریکی اور پردوں میں اوندھے گر گئے اور برکات اور ہر قسم کے نور اور روشنی سے دور ہو گئے۔ اور اپنی ناقص عقل اور الٹی کوشش کے سبب سے نعمتوں کے گھر سے ہلاکت کے گھر کی طرف لوٹ گئے اور مجھے اپنی ذات کی خالص اطاعت عطا کر اور اپنے حضور میں دائمی سجدوں کی توفیق بخش اور ایسی ہمت دے جس پر تیری عنایت کی نظریں اتریں اور مجھے وہ شے عطا کر جو تو اپنے مقبول بندوں میں سے کسی خاص فرد کے سوا کسی کو عطا نہیں کرتا اور مجھ پر ایسی رحمت نازل کر کہ جو تو اپنے محبوب بندوں میں سے کسی منفرد وجود کے سوا کسی پر نہیں اُتارتا۔ اے میرے رب! میری ہمتوں اور میری کوششوں اور میری دعا اور میرے کلام کے ذریعہ سے دین اسلام کو زندہ کر دے اور اس کی آب و تاب، حسن اور خوبروئی واپس لوٹا دے اور ہر دشمن اور اس کے تکبر کو توڑ کر رکھ دے۔ اے میرے رب! مجھے دکھا کہ تو کیسے مردے زندہ کرتا ہے مجھے ایسے چہرے دکھا جو ایمانی صفات ساتھ رکھتے ہوں اور ایسے نفوس عطا کر جو حکمت ایمانی کے حامل ہوں اور ایسی آنکھیں دکھا جو تیرے خوف سے روتی ہوں اور ایسے دل دکھا جو تیرے ذکر کرنے پر کانپ جاتے ہوں اور ایسی صاف فطرت دکھا جو حق اور راہ راست کی طرف رجوع کرنے والی ہو۔’’
(ترجمہ از عربی عبارت ،آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5صفحہ5-6)
(……باقی آئندہ)