سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا عالی مقام بالفاظ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ

(جاوید اقبال ناصر۔مربی سلسلہ جرمنی)

دنیا میں ایک ایسا وجود مبعوث ہوا جس کے مقام و مرتبہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں اور آنحضرت ﷺنے اپنے ارشادات میں بیان فرمایا۔آپؑ کے مقام کوبزرگانِ دین نے بھی اپنے اپنے انداز اور وقت میں دُنیا کے سامنے پیش کیا۔آپؑ نے اپنے مقام و مرتبہ کو خود بھی لوگوں کےسامنے خداتعالیٰ سےرہ نمائی پا کر پیش کیا۔آپ کے بعد آپ کے خلفائے کرام نے آپ کے مقام و مرتبہ کو اپنے خطبات و خطابات میں بیان کیا۔اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ زیر نظر مضمون میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کی روشنی میں آپؑ کا مقام و مرتبہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے:

آپؑ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اللہ تعالیٰ لوگوں کی خود رہ نمائی کرتا ہے

٭…’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی بعض کتب میں اپنے مسیح و مہدی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے حق کی تلاش کرنے والے علماء و صلحاء اور عوام الناس کو اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ بلا وجہ تکفیر کے فتوے لگانے یا عوام الناس کو بغیر سوچے سمجھے علماء کے پیچھے چلنے کے بجائے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہئے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ خالی الذہن ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں تو یقیناً اللہ تعالیٰ رہ نمائی فرمائے گا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی ایک کتاب’’نشانِ آسمانی‘‘ میں یہ طریق بھی بتایا ہے کہ توبۃ النصوح کر کے رات کو دو رکعت نماز پڑھو۔ پہلی رکعت میں سورۃ یٰسین پڑھے، دوسری رکعت میں اکیس مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھے، پھر بعد اس کے تین سو مرتبہ درود شریف اور تین سو مرتبہ استغفار پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مدد چاہے کہ تُو پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے، اس شخص کے بارے میں مجھ پر حق کھول دے۔

پھر اس میں آپ نے دوبارہ یہ تاکید فرمائی ہے کہ اپنے نفس سے خالی ہو کر یہ استخارہ کرنا شرط ہے۔ لیکن اوّل تو توبۃ النصوح ہی بہت بڑی کڑی شرط ہے۔ اس پر عمل ہی کوئی نہیں کرتا اور خاص طور پر علماء تو بالکل ہی نہیں کر سکتے۔

آپؑ نے فرمایا کہ اگر دل بُغض سے بھرا ہواور بدظنی غالب ہو تو پھر شیطانی خیالات ہی آئیں گے۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم بہت دعا کرتے ہیں ہمیں تو کوئی سچائی نظر نہیں آئی۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر دل میں ہی کینہ بھرا ہوا ہے، بُغض بھرا ہوا ہے تو پھر شیطان نے رہ نمائی کرنی ہے۔ پھر خدا تعالیٰ رہ نمائی نہیں کرتا۔ (ماخوذاز نشان آسمانی روحانی خزائن جلد4صفحہ 401,400) اسی طرح علماء اور صلحاء کو خاص طور پر اپنی کتاب ’’کتاب البریہ‘‘ میں مخاطب ہو کر اللہ تعالیٰ سے مدد چاہنے کی تجویز دی۔ (ماخوذ از کتاب البریہ روحانی خزائن جلدنمبر13صفحہ364)

لیکن بُغض سے بھرے ہوئے علماء اس تجویز پر کبھی عمل نہیں کرتے اور عوام الناس کو بھی اپنے ساتھ ڈبو رہے ہیں۔ بہر حال اس کے باوجود بہت سے سعید فطرت ہیں جو اس نسخے کو آزماتے ہیں اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے رہ نمائی چاہی اور اللہ تعالیٰ نے اُن کی رہ نمائی فرمائی اور اس کے علاوہ بعض سعید فطرت ایسے ہیں جو نیکی کی تلاش میں رہتے ہیں اُن کی اللہ تعالیٰ ویسے بھی رہ نمائی فرماتا ہے۔ بہر حال اس زمانے میں بھی آج کل بھی اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے اُن لوگوں کی رہ نمائی فرماتا چلا جا رہا ہے جو حق کی تلاش میں سنجیدہ ہیں…

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ ایک دن دعا کر کے نہ بیٹھ جاؤ بلکہ کم از کم اس سنجیدگی سے دو سے تین ہفتے یا زیادہ دعا کرو۔ جب اللہ تعالیٰ سے رہ نمائی چاہو تو اللہ تعالیٰ ایک وقت میں رہ نمائی فرمائے گا۔ (ماخوذاز نشان آسمانی روحانی خزائن جلد4صفحہ 401)

پھر ہمارے امریکہ کے ایک مبلغ لکھتے ہیں کہ عبدل سلیم صاحب پچیس، تیس سال پہلے فجی سے لاس اینجلس امریکہ آئے تھے اور عیسائی ماحول ہونے کی وجہ سے عیسائیت قبول کر لی مگر بعد ازاں ایک مسلمان کی تبلیغ سے پھر اسلام کی طرف رجوع کیا۔ کہتے ہیں اُن کی دوستی خاکسار (یعنی ہمارے جومبلغ ہیں انعام الحق کوثر اُن) سے ہو گئی اور یہ ہماری مسجد میں آنے لگے۔ انہیں احمدیت کے متعلق تفصیل بتائی۔ مطالعہ کے لئے لٹریچر دیا اور یہ مشورہ دیا کہ وہ دعا کر کے اللہ تعالیٰ سے رہ نمائی حاصل کریں۔ اور دعائے استخارہ کا مسنون طریقہ بتایا۔ چنانچہ انہوں نے استخارے کی دعا کی اور خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نظر آئے۔ اگلے روز وہ حسبِ عادت غیر احمدیوں کی مسجد میں گئے۔ وہاں عرب سے کوئی شَیخ آئے ہوئے تھے۔ اُس شَیخ نے حاضرین کو سوال کرنے کی دعوت دی تو عبدل سلیم صاحب کھڑے ہوئے اور کہا کہ قرآن و حدیث کے مطابق یہ زمانہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد کا ہے۔ چنانچہ مَیں نے دعا کی کہ اے خدا! تو مجھے بتا۔ کیا امام مہدی آ گئے ہیں؟ اور اگر آ گئے ہیں تو کون ہیں؟ تو کہتے ہیں مَیں نے اُن کو بتایا کہ میری خواب میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام آئے۔ اس پر شیخ نے کہا کہ یہ شیطانی خواب ہے اور اس میں کوئی صداقت نہیں۔ تم کثرت سے تعوّذ پڑھو اور درُود شریف پڑھو۔ چنانچہ انہوں نے پھر دعا کی۔ کثرت سے درود شریف پڑھا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کو خواب میں نظر آئے۔ چنانچہ یہ پھر دوبارہ شَیخ کی مجلس سوال و جواب میں گئے اور وہاں ذکر کیا۔ اُس شیخ نے پھر کہا کہ یہ شیطانی خواب ہے۔ عبدل سلیم صاحب نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ رات کو مَیں کثرت سے تعوذ پڑھتا ہوں۔ درود شریف پڑھتا ہوں۔ پھر دعا کرتا ہوں کہ اے خدا! تو مجھے امام مہدی علیہ السلام کی آمد کے بارے میں بتا۔ مگر بقول آپ کے خدا تعالیٰ مجھے جواب نہیں دیتا مگر صرف شیطان جواب دیتا ہے۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ یہ جواب سن کر مسجد میں شور مچ گیا اور انہوں نے کہا اس کو یہاں سے باہرنکالو۔ یہ کافر ہے۔ یہ پلید ہے۔ کہتے ہیں یہاں تک کہ عورتوں کی طرف جو سائڈ سکرین تھی، وہاں سے بھی سکرین پیٹی جانے لگی کہ اسے باہر نکالو۔ یہ کافر ہے۔ بہر حال یہ کہتے ہیں مَیں وہاں سے اُٹھ کر آ گیا اور یہ سارا واقعہ انہوں نے ہمارے مبلغ کوسنایا اور پھر کہا کہ اب مجھے شرح صدر ہو گئی ہے کیونکہ شَیخ کے پاس تو اس کا کوئی جواب نہیں اور اب میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے بیعت کی۔ جس دن بیعت کی تو اسی روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مکمل طور پر خواب میں اُن پر ظاہر ہوئے اور اُن کو سلام کیا اور مصافحہ کیا اور احمدیت قبول کرنے پر مبارکباد دی۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍ اپریل 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 20؍مئی 2011ء)

آپؑ نبی ہیں۔ ہاں یہ نبوت تشریعی نہیں جو کتاب اللہ کو منسوخ کرے

٭…‘‘بعض لوگ بعض دفعہ مجھے خط بھی لکھ دیتے ہیں کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نبی نہ کہو یا لوگوں کے سامنے اس کا اظہار نہ کیا جائے تو کیا حرج ہے؟ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے سے ہی اس قسم کی باتیں ہوتی تھیں کہ اس سے جو مخالفت ہے اس میں کمی آ جائے گی۔ اِس لئے اگریہ لفظ نہ استعمال کیا جائے تو کیا حرج ہے؟

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ‘‘جو امور سماوی ہوتے ہیں اُن کے بیان کرنے میں ڈرنا نہیں چاہئے’’ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا جو بیان ہو گیا اور جو باتیں خدا تعالیٰ نے کہہ دیں، اُن کو کہنے سے ڈرنا نہیں چاہئے) ‘‘اور کسی قسم کا خوف کرنا اہلِ حق کا قاعدہ نہیں۔ صحابہ کرام کے طرزِ عمل پر نظر کرو۔ وہ بادشاہوں کے درباروں میں گئے اور جو کچھ اُن کا عقیدہ تھا وہ صاف صاف کہہ دیا اور حق کہنے سے ذرا نہیں جھجکے، جبھی تولَایَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآ ئِمٍ (المائدہ: 55)کے مصداق ہوئے’’۔ فرمایا ‘‘ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نبی اور رسول ہیں’’۔ فرمایا ‘‘خدا تعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالمہ مخاطبہ کرے کہ جو بلحاظ کمیت و کیفیت دوسروں سے بڑھ کر ہو اور اس میں پیشگوئیاں بھی کثرت سے ہوں اُسے نبی کہتے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے۔ پس ہم نبی ہیں۔ ہاں یہ نبوت تشریعی نہیں جو کتاب اللہ کو منسوخ کرے’’۔ (کوئی نئی شریعت والی نبوت نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کو منسوخ کر رہی ہو اور نئی کتاب لائے) ‘‘ایسے دعویٰ کو تو ہم کفر سمجھتے ہیں’’۔ فرمایا ‘‘بھلا اگر ہم نبی نہ کہلائیں تو اس کے لئے اور کونسا امتیازی لفظ ہے جو دوسرے ملہموں سے ممتاز کرے؟’’۔

(ملفوظات جلدنمبر5صفحہ 447,446مطبوعہ ربوہ)

پس فرمایا: یہ الہام تو دوسروں کو بھی ہو جاتے ہیں لیکن کثرت سے جو الہام ہوتے ہیں، کثرت سے اللہ تعالیٰ جو باتیں کرتا ہے تو یہی نبوت کامقام ہے اور اس تعریف کی رو سے مَیں نبی ہوں۔ ورنہ الہام تو اور وں کو بھی ہو جاتے ہیں۔ پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک کھلا اور واضح اعلان ہے اور یہ عین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ہے کہ حضرت مسیح موعودنبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میرے اور مسیح موعود کے درمیان کوئی نبی نہیں۔

(سنن ابی داؤد کتاب الملاحم باب خروج الدجال حدیث نمبر4324)

پس جب مسیح موعود مانا ہے تو نبی بھی ماننا ضروری ہے۔ باقی رہی مخالفتیں، تووہ الٰہی جماعتوں کی ہوتی ہیں اور ہوتی رہیں گی اور یہی الٰہی جماعتوں کی نشانی ہے کہ اُن کی مخالفتیں ہوتی ہیں۔ بڑے بڑے جابر سلطان اور اُن کے جتھے مقابل پر کھڑے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت ترقی کرتی چلی جاتی ہے اور آخر ایک وقت ایسا آتا ہے جب یہ تمام جتھے ختم ہو جاتے ہیں، تمام طاقتیں اپنی موت آپ مر جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہی غالب آتی ہے کہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلہ: 22) کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ مَیں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ4؍ مارچ 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 25؍ مارچ 2011ء)

٭…‘‘ایک دفعہ مَیں ایک پورا خطبہ اس بات پر بھی دے چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نبی ہیں اور جن لوگوں کو کسی بھی قسم کی غلط فہمی ہے یا بعض لوگ بزدلی یا مداہنت میں غیروں کے سامنے، بات کرتے ہوئے، بحث کرتے ہوئے، اظہار کر جاتے ہیں اُن کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبی کہہ کر پکارا ہے اور اللہ کے فضل سے آپ نبی ہیں لیکن غیر شرعی نبی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں آئے ہوئے اور آپ سے کامل محبت اور عشق کرنے والے نبی۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍ جون 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل15؍جو لائی 2011ء)

آپؑ اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےغلامِ صادق اور امتی تھے

٭…‘‘حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ غلامِ صادق ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے دنیا میں بھیجا۔ آپؑ کا جو کچھ بھی ہے وہ آپ کا نہیں بلکہ آپ کے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ اور جو کچھ بھی آپ نے فیض پایا آپؐ کی غلامی سے پایا۔ آپؑ ایک جگہ ‘‘رسالہ الوصیت’’ میں فرماتے ہیں کہ‘‘نبوتِ محمدیہ اپنی ذاتی فیض رسانی سے قاصر نہیں بلکہ سب نبوتوں سے زیادہ اُس میں فیض ہے۔ اس نبوّت کی پَیروی خدا تک بہت سہل طریق سے پہنچا دیتی ہے۔’’ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 311) پس آپ نے یہ فیض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پایا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس پیروی کی وجہ سے اُس مقام تک پہنچایا جو نبوت کا مقام ہے۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ صرف کامل پیروی بھی کافی نہیں ہے یا کامل پیروی کی وجہ سے انسان نبی نہیں بن جاتا کیونکہ اس میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے۔ ہاں اُمّتی اور نبی دونوں لفظ جب جمع ہوتے ہیں، دونوں کا اجتماع جو ہے، اس پر وہ صادق آ سکتی ہے، کیونکہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک نہیں بلکہ نبوت کی چمک اس فیضان سے زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ پس اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمتی ہونے کی وجہ سے اور آپ کی کامل پیروی اور عشق کی وجہ سے نبوت کا مقام اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا۔ یعنی نبوت کا مقام اُمّتی ہونے کی وجہ سے ملا اور اس عشق کی وجہ سے ملا۔ اُمتی ہونا ایک لازمی شرط ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی تائیدات سے نواز کر آپ کے حق میں نشان دکھا کر ایک دنیا کی توجہ آپ کی طرف پھیری اور یہ سلسلہ جو آپ کے دعویٰ سے شروع ہوا آج تک چل رہا ہے اور نیک طبع اس جاری فیض سے فیض پا رہے ہیں اور آپ کی بنائی ہوئی جماعت میں، آپ کی بنائی ہوئی کشتی میں سوار ہو رہے ہیں۔ لیکن یہاں بھی اپنے آقا کی پیروی میں جو فیض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حاصل ہوا، اُس سے وہی فائدہ اُٹھا رہا ہے جو آپ کے بعد اللہ تعالیٰ سے تائید یافتہ آپ کی خلافت سے منسلک ہے۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍ جون 2011ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل24؍جون 2011ء)

آپؑ کا روح و جسم نور محمدی کا آئینہ دار تھا

٭…‘‘آپؑ کے حسن کا، آپ کے نور کاکیا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے لیکن یہ ظاہری نور بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس لئے دیا تھا کہ آپ نور مصطفویؐ میں ڈوب کر اپنے وجود کو کلیتاً اپنے آقا و مطاع کے جسمانی اور روحانی نور میں فنا کر چکے تھے تاکہ آپ کے نور میں بھی نور محمدیؐ نظر آئے …پس آپ کا اپنا توکچھ نہ تھا۔ روح و جسم نور محمدی کا آئینہ دار تھا۔ عبادات میں، عادات میں، اخلاق میں غرض ہر چیز میں اپنے آقا و مطاع کے منہ کی طرف دیکھ کر اس کی پیروی کرتے تھے۔ اپنے اس پیارے مسیح و مہدی اور غلام صادق کے بارہ میں، اس کے مقام کے بارہ میں آنحضرت ﷺ نے بھی یوں فرمایا تھا کہ میرے اور میرے مہدی کے درمیان کوئی نبی نہیں۔

(سنن ابی داوٴد کتاب الملاحم باب خروج الدجال حدیث نمبر 4324)

…پھر آپ علیہ السلام کے ماننے والوں کے نورانی ہونے کے بارہ میں اللہ تعالیٰ غیروں کو کس طرح بتاتا ہے۔ لیکن بعض بدقسمت ایسے ہیں کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ اطلاع دے دے پھر بھی اس سے فیض نہیں پا سکتے۔

حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ فرماتے ہیں کہ ‘‘میری برادری میں سے میرے ایک چچا زاد بھائی میاں غلام احمد تھے ان کی کچھ جائیداد موضع لنگہ ضلع گجرات میں بھی تھی۔ ایک مرتبہ انہوں نے مجھے ایک تحریر کے کام کے لئے فرمائش کی جس کی تعمیل کے لئے میں ان کے ہمراہ موضع لنگہ چلا آیا۔ گرمیوں کا موسم تھا اس لئے مَیں دوپہر کا وقت اکثر ان کے دالان کے پیچھے ایک کوٹھڑی میں گزارا کرتا تھا۔ ایک دن حسب معمول میں دوپہر کو اس کوٹھڑی میں سو رہا تھا میری آنکھ کھلی تو مَیں نے سنا کہ غلام احمد کی خالہ اور والدہ کہہ رہی تھیں کہ اس رسولے (یعنی حضرت مولوی غلام رسول صاحب )کا ہمیں بڑا افسوس ہے کہ گاؤں گاؤں اور گھر گھر میں لوگ اس کی برائی کرتے ہیں۔ اس نے تو مرزائی ہو کر ہمارے خاندان کی ناک کاٹ دی ہے ۔اتفاق کی بات ہے کہ اس رو ز برابر کی کوٹھڑی میں بھائی غلام احمد بھی سویا ہوا تھا ۔اس نے بیدار ہوتے ہی ان کی یہ مغلظات سنیں تو کہنے لگا تم کیا بکواس کر رہی ہو۔مَیں نے تو ابھی ابھی خواب میں دیکھا ہے کہ غلام رسول پرآسمان سے اتنا نور برس رہا ہے کہ اس نے چاروں طرف سے اس کو گھیر لیا ہے۔ تمہیں کیا معلوم ہے کہ تم جسے برا سمجھتی ہو وہ خدا کے نزدیک برا نہ ہو۔ اتنے میں مَیں بھی کوٹھڑی سے باہر نکل آیا اور ان کو احمدیت کے متعلق سمجھاتا رہا مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ بلکہ یہی میاں غلام احمد جس پر اللہ تعالیٰ نے روٴیاکے ذریعہ سے اتمام حجت کر دی تھی، میرا اتنا مخالف اور دشمن ہو گیا کہ علماء کو بلاکر بھی احمدیت پر حملے کراتا اور مجھے ذلیل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا تھا۔ آخر میرے مولاکریم نے میری نصرت کے لئے موضع راجیکی میں طاعون کا عذاب مسلط کیا اور غلام احمد اور اس کے ہمنواؤں کا صفایا کر دیا۔’’ (حیات قدسی جلد اول صفحہ 39 مطبوعہ ربوہ)’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ29؍ جنوری 2010ء۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 19؍فروری2010ء)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشقِ صادق کے ساتھ جڑنا اب ہر مسلمان کا بھی فرض ہے

٭…‘‘…اسلام کیونکہ آخری شریعت ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ساتھ ایسا نہیں کیا کہ اس کی تعلیم خشک ہو جائے۔ ہر صدی میں مختلف جگہوں پر مختلف وقتوں میں، اس باغ کو ہرا رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نگران بھیجتا رہا اور اس زمانے میں آپ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اور میں آخری ہزار سال کا مجدد ہوں۔ پس اسلام کے خوبصورت باغ کا خوبصورت حصہ بننے اور پھلدار درخت بننے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشقِ صادق کے ساتھ جڑنا اب ہر مسلمان کا بھی فرض ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق اب اسی ذریعہ سے پیدا ہو سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی پہنچایا۔ اسی طرح آپ نے اپنے حلقہ بیعت میں آنے والے اپنے صحابہ کے دلوں میں بھی یہ روح پھونکی کہ دنیا کو یہ پیغام دو کہ خدا کی طرف آئیں، اُس سے تعلق جوڑیں اور یہ تعلق اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے ساتھ جڑنے سے ہی حقیقی رنگ میں جڑ سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے والے غریب مزدور لوگ بھی تھے، زمیندار بھی تھے، کسان بھی تھے، اَن پڑھ دیہاتی بھی تھے، ملازم پیشہ بھی تھے، کاروباری لوگ بھی تھے اور پڑھے لکھے لوگ بھی تھے اور ہر ایک نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو سمجھا۔ آپ کی صحبت سے فائدہ اُٹھایا اور اس حقیقی پیغام کو، حقیقی اسلام کو سمجھ کر دنیا میں پھیلانے کی کوشش بھی کی۔ اپنے اپنے حلقہ میں پھیلانے کی کوشش بھی کی۔ دوسرے مذاہب پر اسلام کی بالا دستی کا حقیقی ادراک حاصل کیااور پھر اُن لوگوں میں شامل ہوگئے جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے ہوتے ہیں۔ پس یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پھر بڑی تیزی سے اسلام کے حقیقی پیغام کو نہ صرف ہندوستان میں بلکہ باہر بھی پھیلانے کی کوشش کی ۔

…حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے میاں موسیٰ صاحب کو تبلیغ شروع کی۔ چنانچہ اُن کو قادیان بھیجا مگر وہ شامتِ اعمال سے قادیان سے بغیر بیعت کے واپس آ گئے۔ بعد ازاں مَیں اُن کو کبھی کبھی اخبار بدر سناتا رہا۔ پھر مَیں نے اُن کو ایک دن ایک حدیث کا ذکر سنایا کہ ایک بدوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہا کہ کیا آپ خدا کی قَسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ آپ خدا کے رسول ہیں؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قَسم کھا کر کہا کہ میں خدا تعالیٰ کا رسول ہوں۔ تب اُس بدوی نے بیعت کر لی اور اپنے قبیلے کو بھی بیعت کے لئے حاضر کیا۔ یہ واقعہ جب مَیں نے حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب کو سنایا تو اُن کے دل پر بھی اس کا خاص اثر ہوا۔ چنانچہ انہوں نے اس وقت ایک کارڈ (یعنی اُس زمانے میں خط کے لئے کارڈ ہوتے تھے) حضرت صاحب کی خدمت میں لکھا کہ کیا آپ خدا کی قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ آپ مسیح موعود ہیں۔ یہ کارڈ جب حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچا تو حضور نے مولوی عبدالکریم صاحب کو حکم دیا۔ لکھ دو کہ مَیں خدا کی قَسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیں وہی مسیح موعود ہوں جس کا وعدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کو دیا۔ اس کارڈ میں مولوی عبدالکریم صاحب نے اپنی طرف سے بھی ایک دو فقرے لکھ دئیے۔ جن کا مطلب یہ تھا کہ آپ نے خدا کے مسیح کو قَسم دی ہے۔ اب آپ یا تو ایمان لاویں یا عذابِ خداوندی کے منتظر رہیں۔ وہ کارڈ جب پہنچا تو میاں محمد موسیٰ صاحب نے اپنی اور اہل و عیال کی بیعت کا خط لکھ دیا۔ اس طرح سے (کہتے ہیں ) میں اب اکیلا نہ رہا بلکہ میرے ساتھ خدا تعالیٰ نے اُن کو بھی شامل کر دیا۔

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد9صفحہ136-137 روایت منشی قاضی محبوب عالم صاحبؓ) ’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ9؍ مارچ 2012ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل30؍مارچ 2012ء)

آپؑ نے اللہ تعالیٰ سے مسیح و مہدی کا مقام پایا

٭…‘‘اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے اس مشن کو پورا کرنے کے لئے اور اپنے آخری دین کی تکمیل اشاعت کے لئے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح و مہدی اور آنحضرتﷺ کی کامل پیروی اور اتباع میں غیر شرعی نبی کا اعزاز دے کر دنیا میں بھیجا۔ آپؑ کی ابتدائی زندگی کا ہم جائزہ لیں تو ہمیں آپؑ کی زندگی میں بھی اپنے آقا و مطاع کی زندگی کے ابتدائی دور کی جھلکیاں نظر آتی ہیں اور اس کے بعد بھی ہر لمحہ یہی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ دنیا سے آپؑ کو کوئی سرور کار نہیں تھا۔ اگر کوئی خواہش اور آرزو اور عمل تھا تو یہ کہ خدائے واحد کی عبادت میں مشغول رہوں۔ اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے عشق و محبت میں مخمور رہتے ہوئے آپ پر درود وسلام بھیجتا رہوں اور اس عبادت اور آنحضرتﷺ سے عشق کا نتیجہ تھا کہ آپ کو مسلمانوں کی دینی اور دنیاوی حالت زار بے چین کر دیتی تھی جس کے لئے آپؑ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو دنیا میں قائم کرنے کا جوش اور آنحضرتﷺ کے ساتھ یہ عشق و محبت ہی تھا جس کی وجہ سے آپ اسلام کے دفاع کے لئے جہاں قرآن کریم کا گہرا مطالعہ فرماتے تھے وہاں دوسرے مذاہب کی کتب کا بھی مطالعہ کرکے قرآن کریم کی برتری ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے اور جہاں بھی آپؑ کو موقع ملتا تھا اسلام کی برتری ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ اور کوئی نام و نمود اور دنیا دکھاوا آپؑ کی جوانی کے دور میں بھی ہمیں نظر نہیں آتا۔ اس کے غیر بھی گواہ ہیں اور اپنے بھی گواہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب والشہادۃ ہے اس کو تو آپؑ کے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ عشق و وفا اور دین اسلام کے لئے دِلی دَرد کی کیفیت کا بخوبی علم تھا۔ اس نے آپؑ کو کہا کہ گوشہ تنہائی سے باہر نکلو اور صرف اِکّا دُکّا لوگوں سے اسلام کی برتری کی باتیں نہ کرو۔ صرف اپنے حلقے میں مسلمانوں کی حالت زار بدلنے کی کوشش نہ کرو۔ صرف تحریر سے ہی یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ بلکہ دنیا میں یہ اعلان کر دو کہ آنے والا مسیح و مہدی آ چکا اور اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر مَیں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ مسیح و مہدی مَیں ہو۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ12؍ جون 2009ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3؍جولائی 2009ء)

آپؑ خداتعالیٰ اور اُس کی مخلوق کے محبوب تھے

٭…‘‘اللہ تعالیٰ نے آپ سے بھی محبت کے وہ نظارے دکھائے جس نے آخرین کو اولین سے ملا دیا۔ اللہ تعالیٰ کے اس سلوک کے بارے میں آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

‘‘جب انسان سچے طور پر خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے تو خدا بھی اُس سے محبت کرتا ہے۔ تب زمین پر اُس کے لئے ایک قبولیت پھیلائی جاتی ہے اور ہزاروں انسانوں کے دلوں میں ایک سچی محبت اُس کی ڈال دی جاتی ہے اور ایک قوتِ جذب اُس کو عنایت ہوتی ہے اور ایک نور اُس کو دیا جاتا ہے جو ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔’’

(حقیقۃالوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ 65)

پس یہ مقام اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ملا۔

… حضرت مدد خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے اپنے وطن میں رمضان المبارک کے مہینے میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس دفعہ قادیان میں جا کر روزے رکھوں اور عید وہیں پڑھ کر پھر اپنی ملازمت پر جاؤں۔ اُن دنوں مَیں ابھی نیا نیا ہی فوج میں جمعدار بھرتی ہوا تھا۔ (یہ فوج میں جونیئر کمیشن افسر کا ایک رینک ہوتا تھا) تو میری اس وقت ہر چند یہی خواہش تھی کہ اپنی ملازمت پر جانے سے پہلے میں قادیان جاؤں تا حضور کے چہرہ مبارک کا دیدار حاصل کر سکوں اور دوبارہ آپ کے دستِ مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کروں۔ کیونکہ میری پہلے بیعت 1895ء یا 96ء کی تھی۔ کہتے ہیں یہ بیعت جو تھی وہ ڈاک کے ذریعے ہوئی تھی۔ نیز میرا اُن دنوں قادیان میں آنے کا پہلا موقع تھااس لئے بھی میرے دل میں غالب خواہش پیدا ہوئی کہ ہو نہ ہو ضرور اس موقع پر حضور کا دیدار کیا جائے۔ اگر ملازمت پر چلا گیا تو پھر خدا جانے حضور کو دیکھنے کا شایدموقع ملے یا نہ ملے۔ لہٰذا یہی ارادہ کیا کہ پہلے قادیان ہی چلا جاؤں اور حضور کو دیکھ آؤں اور بعدہٗ وہاں سے واپس آ کر اپنی ملازمت پر چلا جاؤں۔ مَیں قادیان کو جان کر یہاں آیا لیکن جونہی یہاں آ کر میں نے حضور کے چہرہ مبارک کا دیدار کیا تو میرے دل میں یکلخت یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر مجھ کو ساری ریاست کشمیر بھی مل جائے تو بھی مَیں آپ کو چھوڑ کر قادیان سے باہر ہرگز نہ جاؤں۔ یہ محض آپ کی کشش تھی جو مجھے واپس نہ جانے پر مجبور کر رہی تھی۔ میرے لئے آپ کا چہرہ مبارک دیکھ کر قادیان سے باہر جانا بہت دشوار ہو گیا۔ یہاں تک کہ مجھے آپ کو دیکھتے ہی سب کچھ بھول گیا۔ میرے دل میں بس یہی ایک خیال پیدا ہو گیا کہ اگر باہر کہیں تیری تنخواہ ہزار روپیہ بھی ہو گئی تو کیا ہو گا؟ لیکن تیرے باہر چلے جانے پر پھر تجھ کو یہ نورانی اور مبارک چہرہ ہرگز نظر نہ آئے گا۔ مَیں نے اس خیال پر اپنے وطن کو جانا ترک کر دیا اور یہی خیال کیا کہ اگر آج یا کل تیری موت آ جائے تو حضور ضرور ہی تیرا جنازہ پڑھائیں گے جن سے تیرا بیڑا پار ہو جائے گا۔ اور اللہ بھی راضی ہو جائے گا۔ اور قادیان میں ہی رہنے کا ارادہ کر لیا۔ میرا یہاں پر ہر روز کا یہی معمول ہو گیا کہ ہر روز ایک لفافہ دعا کے لئے حضور کی خدمت میں آپ کے در پرجا کر کسی کے ہاتھ بھجوا دیا کرتا مگر دل میں یہی خطرہ رہتا کہ کہیں حضور میرے اس عمل سے ناراض نہ ہو جائیں اور اپنے دل میں یہ محسوس نہ کریں کہ ہر وقت ہی تنگ کرتا رہتا ہے۔ لیکن میرا یہ خیال غلط نکلا۔ وہ اس لئے کہ ایک روز حضور نے مجھے تحریراً جواب میں فرمایا کہ آپ نے بہت ہی اچھا رویہ اختیار کر لیا ہے کہ مجھے یاد کراتے رہتے ہو جس پر میں بھی آپ کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرتا رہتا ہوں۔ انشاء اللہ پھر بھی کرتا رہوں گا۔’’

(ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد4صفحہ95-96 روایت مدد خان صاحب)’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ11؍ مئی 2012ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم جون 2012ء)

آپؑ کا دور آنحضرتﷺ کےدور کی کڑی ہے

‘‘پھرآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (الجمعۃ:4)

کہہ کر یہ بھی اعلان فرما دیاکہ آخری زمانہ میں ایک تاریکی کے دور کے بعد جب مسیح و مہدی مبعوث ہو گا تو وہ حقیقی اور کامل نمونہ ہو گا اپنے آقا و مطاع کے اُسؤہ حسنہ کا۔ پس یہ دَور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دور ہے۔ یہ دور جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی حقیقی تعلیم کی تصویر ہمارے سامنے رکھی، یہ اصل میں اسی دور کی ایک کڑی ہے جو آنحضرتﷺ کا دور ہے۔ کیونکہ اصل زمانہ تو تاقیامت آنحضرتﷺ کا ہی زمانہ ہے اور یہ بیعت بھی جو ایک احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کرتا ہے آنحضرت ؐ کے حکم سے ہی کرتا ہے۔ پس ایک مومن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر یہ تجدید عہد کہ وقت کی دُوری نے جس عظیم تعلیم اور جس عظیم اُسوہ کو ہمارے ذہنوں سے بھلا دیا تھا اب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر یہ تجدید عہد کرتے ہیں کہ ہم ان نیکیوں پر کار بند ہونے کی پوری کوشش کریں گے اور اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ کوشش کریں گے۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ4؍ اپریل 2008ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 25؍ اپریل 2008ء )

آپ ؑ کامشن آنحضرتﷺ کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا اور قرآن کریم کی حقانیت کو ثابت کرنا تھا

٭…‘‘آج جماعت احمدیہ کا خلافت سے جو رشتہ قائم ہے وہ بھی اس لئے ہے کہ اس عہد بیعت کے تحت ہر احمدی اصل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ تعلق جو ڑ رہا ہے اور پھر اس سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے آنحضرت ﷺ اور خدا تعالیٰ سے تعلق قائم ہوتا ہے۔ کاش آج کے مسلمان بھی یہ نکتہ سمجھ جائیں اور زمانے کے مسیح کا انکار کر نے کی وجہ سے طرح طرح کی جن مشکلات میں مبتلا ہیں، اُن سے نجات پائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مشن جیسا کہ مَیں نے شروع میں بتایا تھا، آنحضرتﷺ کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا اور قرآن کریم کی حقانیت کو ثابت کرنا تھا۔ اس مقصد کیلئے آپؑ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اذن ہونے کے بعدایک پاک جماعت کے قیام کا اعلان فرمایا اور بیعت لی۔ آپؑ کا آنحضرت ﷺ سے عشق انتہا کو پہنچا ہوا تھااور آپؑ آنحضرتﷺ کے مقام کی حقیقی پہچان رکھتے تھے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اگر کسی کو پہچان تھی تو وہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تھی…حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کام مسلمانوں کو آنحضرتﷺ کے مقام کی پہچان کروانا اور دوسرے مذاہب کے حملوں سے بچانا تھااور نہ صرف بچانا بلکہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلانا بھی تھا، اُس ہدایت سے دنیا کو روشناس کروانا بھی تھا جو آخری شرعی نبی کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے آپ پر اتاری تھی اور جس کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ آخری زمانے میں مسیح ومہدی نے آ کر یہ کام کرنا ہے کہ اسلام کو تمام ادیان پر اللہ تعالیٰ کی مدد سے غالب کرنا ہے۔ آپؑ نے یہ دعویٰ فرمایا کہ وہ مسیح و مہدی جو آنا تھا وہ مَیں ہوں اور اپنے دعوے کی سچائی میں آپؑ نے بیشمار پیشگوئیاں فرمائیں جو بڑی شان سے پوری ہوئیں…حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کے بعد ہم نے بھی اس پیغام کو جس کو لے کر آپؑ اٹھے تھے، دنیا میں پھیلانا ہے تا کہ خدا کی توحید دنیا میں قائم ہو اور آنحضرتﷺ کا جھنڈا تمام دنیا میں لہرائے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے، یہ تو ہونا ہے۔ ہم نے تو اس کام میں ذرا سی کوشش کر کے ثواب کمانا ہے، ہمارا صرف نام لگنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے توسعید فطرت لوگوں کو توحید پر قائم کرتے ہوئے آنحضرتﷺ کی امت میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے اس لئے اس نے اپنے مسیح و مہدی کو بھیجا ۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ23؍ مارچ 2007ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 13؍اپریل 2007ء )

’’مسیح موعودؑ لڑائی نہیں کرے گا‘‘ کے مصداق

٭…‘‘جماعت احمدیہ کا تو پہلے دن سے ہی یہ مؤقف ہے اور یہ نظریہ ہے اور یہ تعلیم ہے کہ فی زمانہ ان حالات میں جہاد بند ہے اور یہ عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے۔اس بارے میں حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

‘‘ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے بزرگ صحابہ کی لڑائیاں یا تو اس لئے تھیں کہ کفار کے حملے سے اپنے تئیں بچایا جائے اور یا اس لئے تھیں کہ امن قائم کیا جائے۔ اور جو لوگ تلوار سے دین کو روکنا چاہتے ہیں ان کو تلوار سے پیچھے ہٹایا جائے۔ مگر اب کون مخالفوں میں سے دین کے لئے تلوار اٹھاتا ہے۔ اورمسلمان ہونے والے کو کون روکتا ہے اور مساجد میں بانگ دینے سے کون منع کرتا ہے ’’۔یعنی اذان دینے سے کون منع کرتا ہے…پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:‘‘ بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ ابن مریم میں مسیح موعود کی شان میں صاف حدیث موجود ہے کہ یَضَعُ الْحَرْب یعنی مسیح موعود لڑائی نہیں کرے گا۔ تو پھر کیسے تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف تو آپ اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ صحیح بخاری قرآن شریف کے بعد اصح الکتب ہے، اور دوسری طرف صحیح بخاری کے مقابل پر ایسی حدیثوں پر عقیدہ کر بیٹھتے ہیں جو صریح بخاری کی حدیث کی منافی پڑی ہے’’۔پس یہ جماعت احمدیہ کا نظریہ ہے اور قرآن و حدیث کے مطابق ہے۔ اور ببانگ دہل کھلے طورپر ہم یہ اعلان کرتے ہیں، کہتے ہیں اور کہتے رہے ہیں کہ اب یہ لوگ جو جہاد جہاد کرتے پھر رہے ہیں جس کی آڑ میں سوائے دہشت گردی کے کچھ نہیں ہوتا یہ جہاد نہیں ہے اور سراسر اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ3؍ مارچ 2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل24؍ مارچ 2006ء)

آپ ؑکا انکار آپ کا نکار نہیں ہے بلکہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے

٭…‘‘پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ مسیح موعود کی تکذیب اور انکار کا نتیجہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار تک تمہیں لے جائے گا۔ آپ فرماتے ہیں کہ

‘‘میرا انکار میرا نکار نہیں ہے بلکہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے۔ کیونکہ جو میری تکذیب کرتا ہے وہ میری تکذیب سے پہلے معاذاللہ، اللہ تعالیٰ کو جھوٹا ٹھہرالیتا ہے۔ جبکہ وہ دیکھتا ہے کہ اندرونی اور بیرونی فساد حد سے بڑھے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ نے باوجود وعدہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَکے ان کی اصلاح کا کوئی انتظام نہ کیا جب کہ وہ اس امر پر بظاہر ایمان لاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آیت استخلاف میں وعدہ کیا تھا کہ موسوی سلسلہ کی طرح اس محمدؐ ی سلسلہ میں بھی خلفاء کا سلسلہ قائم کرے گا۔ مگر اس نے معاذاللہ اس وعدہ کو پورا نہیں کیا اور اس وقت کوئی خلیفہ اس اُمّت میں نہیں۔ اور نہ صرف یہاں تک ہی بلکہ اس بات سے بھی انکار کرنا پڑے گا کہ قرآن شریف نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیلِ مُوسیٰ قرار دیا ہے یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ معاذاللہ۔ کیونکہ اس سلسلہ کی اَتم مشابہت اور مماثلت کے لئے ضروری تھا کہ اس چودھویں صدی پر اسی اُمّت میں سے ایک مسیح پیدا ہوتا۔ اسی طرح پر جیسے موسوی سلسلہ میں چودھویں صدی پر ایک مسیح آیا۔ اور اسی طرح پر قرآن شریف کی اس آیت کو بھی جھٹلانا پڑے گا جو اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْابِھِمْ(الجمعۃ:4)میں ایک آنے والے احمدی بروز کی خبر دیتی ہے اور اس طرح پر قرآن شریف کی بہت سی آیتیں ہیں جن کی تکذیب لازم آئے گی۔ بلکہ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اَلْحَمْدُ سے لے کر وَالنَّاستک سارا قرآن چھوڑنا پڑے گا۔ پھر سوچو کہ کیا میری تکذیب کوئی آسان امر ہے؟ یہ مَیں ازخودنہیں کہتا۔ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ حق یہی ہے کہ جو مجھے چھوڑے گا اور میری تکذیب کرے گا، وہ زبان سے نہ کرے مگر اپنے عمل سے اس نے سارے قرآن کی تکذیب کردی اور خدا کو چھوڑ دیا۔ اس کی طرف میرے ایک الہام میں بھی اشارہ ہے’’۔ (اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ) ‘‘اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ۔’’ آپ فرماتے ہیں کہ ‘‘بیشک میری تکذیب سے خدا کی تکذیب لازم آتی ہے اور میرے اقرار سے خدا تعالیٰ کی تصدیق ہوتی اور اس کی ہستی پر قوی ایمان پیدا ہوتا ہے۔اور پھر میری تکذیب میری تکذیب نہیں۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہے۔ اب کوئی اس سے پہلے کہ میری تکذیب اور انکار کے لئے جرأت کرے۔ ذرا اپنے دل میں سوچے اور اس سے فتویٰ طلب کرے کہ وہ کس کی تکذیب کرتا ہے؟’’اس بات کو مزید کھول کر بیان فرماتے ہوئے کہ تکذیب مسیح موعود سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب لازم آتی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کس طرح مسیح موعود کے انکار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہوتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیوں تکذیب ہوتی ہے؟ (یعنی مسیح موعود کے انکار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیوں تکذیب ہوتی ہے؟) آپ فرماتے ہیں کہ‘‘اس طرح پر کہ آپ نے جو وعدہ کیا تھا کہ ہر صدی کے سر پر مجدد آئے گا وہ معاذاللہ جھوٹا نکلا۔ پھر آپ نے جو اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ فرمایا تھا وہ بھی معاذاللہ غلط ہوا ہے۔ اور آپ نے جو صلیبی فتنہ کے وقت ایک مسیح و مہدی کے آنے کی بشارت دی تھی وہ بھی معاذاللہ غلط نکلی کیونکہ فتنہ تو موجود ہو گیا مگر وہ آنے والا امام نہ آیا۔ اب ان باتوں کو جب کوئی تسلیم کرے گا۔ عملی طور پر کیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکذّب ٹھہرے گا یا نہیں؟ آپ فرماتے ہیں ‘‘پس پھر مَیں کھول کر کہتا ہوں کہ میری تکذیب آسان امر نہیں۔ مجھے کافر کہنے سے پہلے خود کافربننا ہوگا۔ مجھے بے دین اور گمراہ کہنے میں دیر ہوگی۔ مگر پہلے اپنی گمراہی اور رُوسیاہی کو مان لینا پڑے گا۔ مجھے قرآن و حدیث کو چھوڑنے والا کہنے کے لئے پہلے خود قرآن اور حدیث کو چھوڑدینا پڑے گا اور پھر بھی وہی چھوڑے گا۔’’(یعنی مَیں نہیں چھوڑوں گا۔ وہی چھوڑے گا جو مجھے چھوڑنے والا کہتا ہے۔) آپ کہتے ہیں ‘‘مَیں قرآن و حدیث کا مُصدّق و مِصداق ہوں۔ میں گمراہ نہیں بلکہ مہدی ہوں۔ میں کافر نہیں بلکہ اَنَااَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْن کا مصداق صحیح ہوں۔ اور جو کچھ مَیں کہتا ہوں خدا نے مجھ پر ظاہر کیا کہ یہ سچ ہے۔ جس کو خدا پر یقین ہے، جو قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق مانتا ہے اس کے لئے یہی حجّت کافی ہے کہ میرے منہ سے سن کر خاموش ہو جائے۔ لیکن جو دلیر اور بے باک ہے اس کا کیا علاج۔ خدا خود اس کو سمجھائے گا‘‘۔ (آپ یہ سب باتیں ایک آئے ہوئے مہمان کو سمجھا رہے تھے۔) آپ نے فرمایا کہ‘‘میرے معاملے میں جلدی سے کام نہ لیں بلکہ نیک نیتی اور خالی الذہن ہو کر سوچیں’’۔

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 14 تا 16۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ23؍ مارچ 2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل13؍اپریل 2018ء)

آپؑ ایمان کو ثریا سے زمین پر لے کے آئے

٭…‘‘حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شرائطِ بیعت کی دسویں شرط میں اپنے سے تعلق اور محبت اور اخوت کو اُس معیار تک پہنچانا لازمی قرار دیا ہے جس کی مثال دنیا کے کسی رشتے میں نہ ملتی ہو۔ یہ مقام آپ کی بیعت میں آنے کے بعد آپ کو دینا کیوں ضروری ہے؟ اس لئے کہ آپ ہی اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ عاشقِ صادق ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق ایمان کو ثریا سے زمین پر لے کے آئے۔ اسلامی تعلیم میں داخل ہونے والی بدعات کو دور فرما کر اسلام کی خالص اور چمکتی ہوئی تعلیم کو پھر سے ہمارے سامنے پیش فرمایا’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ11؍ مئی 2012ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم جون 2012ء)

٭…‘‘آج ہم سب احمدی اس مسیح موعود کو ماننے کا دعویٰ کرنے والے ہیں، اُس شخص کا ہاتھ بٹانے کا دعویٰ کرنے والے ہیں جو ایمان کو ثریا سے زمین پر لایا۔ اُس امام سے منسوب ہونے والے ہیں جس نے دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل حالت میں دنیا کے کونے کونے میں قائم کرنے کا عہد کیا ہے اور جس کی جماعت نے اس عہد کو پورا کرنا ہے۔ ہماری کتنی خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے کونے کونے میں مسیح محمدی کے ذریعے دینِ اسلام کے پیغام کو پہنچانے کی ذمہ داری خود لی ہے اور ہمیں فرمایا کہ تم بھی اس تقدیرِ الٰہی کا حصہ بن جاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ‘‘مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔’’ اور تم اس کے حصہ دار بن کے ثواب کماؤ گے۔ ہمیں کس طرح اس الٰہی تقدیر کا حصہ بننا ہے؟ اپنے اندر وہ انقلاب پیدا کر کے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنا دے۔ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کر کے، اپنے اندر سے ہر قسم کی برائیوں کو دور کر کے، اپنے قول و فعل میں یکجہتی وہم آہنگی پیدا کر کے۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ4؍ فروری 2011ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 25؍فروری 2011ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button