متفرق مضامین

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام سے شرف ملاقات کی سعادت پانے والے پروفیسرکلیمنٹ لنڈلے ریگ (Clement Lindley Wragge)

(حسیب احمد۔ مربی سلسلہ ربوہ)

‘‘وہ شخص۔ بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو۔وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا۔ جس کی نظر فتنہ اورجس کی آواز حشر تھی جس کی انگلیوں سے انقلا ب کے تار الجھے ہوئے تھےاور جس کی دو مٹھیا ں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں۔وہ شخص جو مذہبی دنیا کیلئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان رہا ۔جو شور قیامت ہوکے خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا …مرزا غلام احمد صاحب قادیانیؑ کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جاوے اور مٹانے کیلئے اسے امتداد زمانہ کے حوالہ کر کے صبرکر لیا جائے۔ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے۔ یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عام پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں دنیا کے کسی حصّہ میں انقلاب کرکے دکھا جاتے ہیں۔’’

(بدر قادیان۔18؍جون1908ءجلد7نمبر24صفحہ 2کالم 1)

2006ء دورۂ نیوزی لینڈ کے موقع پر امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزپروفیسر صاحب کی قبر پر

حضرت مسیح موعود ؑکی وفات پر مولانا ابوالکلام آزاد کے مذکورہ بالا الفاظ ایک عظیم الشان انقلاب کے آئینہ دار ہیں جس نے اپنوں سمیت غیروں کو بھی متاثر کیے بغیر نہ چھوڑا۔مگر اس سے بھی بڑھ کر کچھ عجب محّیر العقول امور ہیں جو انسان کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کر ڈالتے ہیں اور بالآخر انسان کو ایک عظیم المرتبت خدا کی طرف متوجہ کرتے ہیں جو اپنے بندوں کے ذریعہ ظاہر ہوتا ہے اور عجیب در عجیب قدرتو ں کے ذریعہ انا الموجودکا کامل ثبوت مہیّا کرتا ہے۔

کسی دنیاوی شخص کی نظر میں حضرت مسیح موعود ؑکی عظیم المرتبت علمی قابلیت یقیناً باعث حیرت ہے۔قادیان جیسی گمنام بستی میں موجود رہتے ہوئے اپنی علمی قابلیت کا تمام دنیا میں لوہا منوانا فی ذاتہ اس لحاظ سے معمہ ہے کہ اس بستی تک عام دنیا کی رسائی بھی نہایت دشوار تھی۔ جہاں اس زمانہ میں ہونے والی سائنسی تحقیقات کا پہنچنا بھی دشوار تھا۔ذرائع نقل و حمل نہ ہونے کے برابر تھے ۔نہ سڑکوں کی موجودگی نہ ریل کی رسائی۔ ایسی جگہ کے ایک رہائشی کا اپنے زمانہ کے ایک عظیم الشان سائنسدان کو اپنے مذہبی عقائد اور نظریات کا حامی بنا لینا نہ صرف اس مذہب کی صداقت کی دلیل ہے بلکہ زندہ خدا کے موجود ہونے پر ایک اہم ثبوت ہے۔اور شاید یہی دلیل Professor Clement Lindley Wragge جیسے مشہور ہیئت دان اور ماہر موسمیات کو بھی ایک زندہ خدا پر ایمان لانے کےلیے کافی و شافی تھی۔ چنانچہ انہوں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اپنے سوالات کا تسلی بخش جواب حاصل کر لینے کے بعد احمدیت قبول کرنے میں تردّد نہ کیا۔

( ذکر حبیب مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓصفحہ: 341)

مشہور سائنسدان، ہیئت دان اور ماہر موسمیاتClement Lindley Wragge کا اصل نامWilliamتھا مگر بعد ازاں Clementرکھ دیا گیا۔ آپ کے والد کا نام Clement Ingleby Wraggeجبکہ آپ کی والدہ کا نام Anna Maria, Née Downing تھا۔ آپ کی والدہ کی وفات آپ کی نہایت کم سنی میں ہوئی جبکہ آپ پانچ ماہ ہی کے تھے۔اسی طرح آپ کے والد کی وفات پانچ برس کی عمر میں ہوئی ۔والدین کی وفات کے بعد کئی سال تک آپ کی دادیEmma Wraggeنے آپ کی کفالت کی اور آپ کو علوم فلکیات اور علوم موسمیات کے بنیادی امور سکھائے۔آپ انگلستان کے علاقہ Worcestershireکے ایک قصبہ Stourbridgeمیں پیدا ہوئے۔بعد ازاں آپ Staffordshireکے ایک گاؤںOakamoor میں منتقل ہوگئے۔آپ نے اپنی بنیادی تعلیمUttoxeter Thomas Alleynes Grammar Schoolسے حاصل کی۔

(The Life And Work Of Clement Lindley Wragge by Inigo Jones,Delivered at Monthly Meeting of the Royal Geographical Society of Australasia (Queensland) on Dec 8th 1950.Source: Auckland War Memorial Museum Library , Wragge Family Papers Ms 1213).

1865ءمیں آپ کی دادی کی وفات کے بعد آپ کے چچا نے فیصلہ کیا کہ آپ کو لندن کے علاقے Teddingtonلے جایا جائے۔وہاں آپ نے Belvedere School میں اپنی تعلیم جاری رکھی اور بعد ازاں Cornwall Schoolمیں لاطینی زبان میں مہارت حاصل کی۔ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آپ نےوکالت کا پیشہ اختیار کرنے کےلیےLincoln’s Inn میں داخلہ لیا ۔آپ نے اپنے چچا Williamجو کہ Churnet Valley میں مقیم تھے کے ہم راہ یورپ کے تقریباً تمام ممالک کا سفر بھی کیا ۔

Professor Clement Lindley Wragge
(تصویر: https://en.wikipedia.org/wiki/Clement_Lindley_Wragge)

Churnet Valley میں اپنے چچا کے ہاں قیام کے دوران ہی آپ کا رجحان Churnet Valleyکے ماحول کے زیر اثر نیچریت کی طرف منتقل ہو چکا تھا۔ اکتوبر 1874 ءمیں Wraggeنے باقاعدہ طور پر اپنی سفری مہمات کا آغاز کیا۔ اپنے ایک دوست Gaze Hoclenکے ہم راہ آپ بذریعہ ریلParisروانہ ہوئے۔Marseillesسے ہوتے ہوئے پھر آپ مصر روانہ ہو گئے۔اس کے بعد آپ مقدس مقامات کی سیر کی غرض سے فلسطین ،یروشلم پہنچے جہاں Mormonsکے ایک وفد سے آپ کی ملاقات ہوئی۔

American West میں Salt Lake کے مقام پر تعمیر ہونے والے Mormons کےنئےشہر کو ضرور دیکھنے کے وعدہ کے ساتھ آپ نے ان سے اجازت لی ۔ وہاں سے گو آپ کا اپنے دوست کے ساتھ واپس برطانیہ جانے کا ارادہ تھا جسے آپ نے ترک کر ڈالا اور وہاں سے براستہ ہندوستان آسٹریلیا جانے کا ارادہ کر لیا اور Wind Jammerکے ذریعہ آپSydneyپہنچے۔یہاںآپ نےNew South Wales اور Queenslandکا مختصر سفر کرنے کے بعد Sydneyکو خیرباد کہا اور1875ءمیں بذریعہ بحری جہاز آپ SydneyسےSan Franciscoاور Salt Lake Cityکےلیے روانہ ہو گئے۔

San Franciscoپہنچ کر ایفائے عہد کی غرض سے جو کہ آپ نے Mormonsکے وفد کے ساتھ سیر کے دوران باندھا تھا آپ نے Salt Lake Cityکا بھی دورہ کیا اور Brigham Youngسے تفصیلی ملاقاتیں کیں اور ان کے عقائد سے بہت متاثر ہوئے۔بعد ازاں آپ نے Mormonsپر کئی مضامین بھی لکھےجن میں آپ نے ان کے نظریات خصوصاً تعدد ازدواج کا ذکر بھی کیا۔

1876ءمیں ریگ دوبارہ آسٹریلیا پہنچے جہاں آپ نے South Australia میں Surveyor-General Departmentمیں اپنے کام کا باقاعدہ آغاز کیا۔ریگ نے یہاں تین سال تک ملازمت کی جس میں انہوں نے Flinders Rangesاور Murray Scrubland کی مہمات میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔

13؍ستمبر1877ءکو کلیمنٹ ریگ کی شادی لیونورا ایڈتھ فلورنس ڈی ایرسبائی سے ہوئی ۔شادی کے بعد وہ مع اہلیہ 1878ءمیںاپنے آبائی وطن Oak moor, Englandپہنچے۔

لیونورا سے ریگ کے ہاں دو بیٹیاں اور دو بیٹے پیدا ہوئےجن میں سے Leonora Ingleby کی پیدائش 1878ء میں ہوئی،Emma J کی پیدائش 1879ء میں ہوئی اور Clement Lionel Egertonکی پیدائش 1880ءمیں ہوئی۔ ان کے ہاں چوتھے بیٹے کی پیدائش 1882ء Augustمیں Scotlandمیں ہوئی جس کا نام Rupert Lindleyرکھا گیا۔ اس بیٹے کی پیدائش کے معاً بعد ریگ آسٹریلیا چلے گئے۔ ان کے تیسرے بیٹے Clement Lionel جو کہ Farley, Staffordshireمیں1880ء میں پیدا ہوئے تھے۔ بعد ازاں First Australian Imperial Force کی 2ND Light Horse Regimentمیں بھرتی ہوئے اور جنگ عظیم اوّل میں معرکہ Gallipoliمیں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوئے۔

(THE SICK and WOUNDED, Dominion, Volume 8, Issue 2539, 13 August 1915, Page 6)

پروفیسرکلیمنٹ ریگ نے دوسری شادی انڈیین نژاد ادریس صاحبہ سے کی جن سے ان کے ہاں ایک بیٹاKismet Wraggeقسمت ریگ پیدا ہوا۔

موسمیاتی محکمہ میں ریگ کی پہلی تقرری 1881ء میں North Staffordshire میں ہوئی۔ Scottish Meteorological Society کے سیکرٹری نے جب آپ کو Ben Nevis پر قائم شدہ رصد گاہ کانگران بنایا تو ان ایام میں روزانہ ریگ ایک بلند چوٹی چڑھتے تا روزانہ موسمیاتی تبدیلیوں کا ریکارڈ رکھ سکیں اور مطلوبہ Readingsلیتےجبکہ آپ کی اہلیہ سطح سمندر کی مطلوبہ معلومات کا ریکارڈ رکھتیں۔چنانچہ یکمJuneسے لے کر14؍اکتوبر1881ءتک کا مسلسل روزانہ کا ریکارڈ رکھنے اور ریگ کے اس پر مشقت کارنامے پر اسے سوسائٹی کی طرف سے Gold Medalسے نوازاگیا۔

(The Ben Nevis Meteorological Observatory 1883 – 1904 : From Beaufort to Bierknes and eyond: Critical Perspectives on the History of Meteorology. The International Commission on History of Meteorology. Archived from the original on 2nd October 2015. Retrieved 2nd October 2015.)

اگلے ہی سال ریگ مع اہلیہ Adelaide, South Australia منتقل ہو گئے۔ یہاں آکر بھی ریگ نے 1884ء میں Walker Ville اورMount Loftyمیں رصد گاہیں قائم کیں اور 1886ء میں Meteorological Society of Australasia بھی قائم کی۔ Queensland Weather Service میں ابتدائی خدمات بجا لانے کے بعد جنوری 1887ء میں آپ کو بطور Meteorological Observerکے عہدہ پر Colonial Telegraph Department میں بھرتی کیا گیا۔ ریگ نے یہاں پر اپنے کام کو وسعت دی۔ 1891ء میں ریگ کوMunichمیں منعقدہWorld Meteorology Conference میں شمولیت کا موقعہ بھی حاصل ہوا۔اور اسی طرح آپ نےParis میں منعقدہ کانفرنس 1898ءاور 1900ءمیں بھی شمولیت کی۔

ریگMunichکی منعقدہ کانفرنس میں Bruckner’sکے پیش کردہ نظریات خصوصاً اس بات سے کہ خلا میں موجود دیگر سیارے ہمارے موسم پر اثر انداز ہوتے ہیں سے بہت متاثر ہوئے۔نیز سورج کی سطح پر ہونے والے تغیرات سے زمین کے موسموں میں ہونے والی تبدیلی کے بھی مختلف نظریات پر آپ نے کام کیا۔ آپ نے مصنوعی بارش برسانے کےلیے مختلف تجربات بھی کیے جن کے مثبت نتائج سامنے نہ آئے۔

1898ءمیں ریگ نےNew South Wales اور Tasmaniaمیں بھی رصد گاہیں قائم کیں۔ ان منصوبوں پر آنے والی لاگت کے باعث ریگ کے تنازعات New South Walesکی حکومت سے شدت پکڑ گئے ۔

Royal Geographical اور Royal Meteorological سوسائٹیز کا ممبر ہونے کے باعث ریگ نے Australian Weather Guide and Almanac (1898 میں شائع کیا۔اسی طرح بعنوان

‘‘Wragge:AMeteorological, Geographical and Popular Scientific Gazette of the Southern Hemisphere (1902) ’’

اور

Romance of the South Seas 1906

مختلف جریدے شائع کیے۔

ریگ اپنی صحت کا بھی بہت خیال رکھتے اور یہی وجہ تھی کہ آپ نے ایک Canoe Club کا بھی آغاز کیا۔آپ کو مذہب کی طرف رجحان بھی ابتدائی زندگی میں ہی ہو گیا۔آپ کو Yoga کا بھی شغف تھا۔جانوروں سے بھی آپ کو بے انتہا پیار تھا ۔Ethnography, Geologyاور Natural History سے متعلقہ اشیاء کا آپ کے پاس ایک بڑا ذخیرہ تھا جو کہ آپ کی وفات پر برطانیہ کے ایک شہر Stafford کو منتقل کر دیا گیا تھا۔

آپ نے اپنا ذاتی موسمیات کا ادارہ بھی بنایا جس کا نام Wragge Institute and Museumتھا۔آپ کی وفات کے بعد اس ادارہ کا سربراہ آپ کا بیٹا Kismet K Wragge بنا۔آپ کو موسمیات کے میدان میں آپ کی خدمات کے باعث Father of Modern Day Meteorologyکہا جاتا ہے۔ریگ بعد ازاں New Zealandروانہ ہو ئے۔Aucklandمیں ریگ نے ایک اور رصدگاہ تعمیر کی ۔1913ءمیں یہ دوبارہ Queensland گئے لیکن اپنے مجوزہ Tropical Cyclone Research Centreکےلیے عمومی تائید حاصل نہ کر سکے۔

ریگ ایک مشہور لیکچرار بھی تھے اور آپ نے مختلف ملکوںمیںلیکچرزبھی دیے۔ چنانچہ1907ءمیںآپ نے ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔ 1908ءکے اختتام پر آپ نیوزی لینڈ تشریف لے گئے ۔1910ءمیں آپ مستقل طور پر Birkenhead ،Auckland منتقل ہوگئے جہاں آپ نے اپنی ذاتی رصدگاہ بھی تعمیر کی۔1910ءسے 1922ءکے درمیانی عرصہ میں آپ کی مصروفیات کا محور آپ کے معرکہ آراء لیکچرز تھے جو کہ آپ نے New Zealand کے طول و عرض میں دیے۔1922ءمیں ایک لیکچر کےدوران ہی آپ کو شدید دل کا دورہ پڑا جہاں سے آپ کا بیٹا قسمت آپ کو Birkenheadلے گیا ۔مگر آپ اس تکلیف کی تاب نہ لاتے ہوئے 10؍دسمبر1922ءکو اس دنیا سے کوچ کر گئے۔

(The Life And Work Of Clement Lindley Wragge by Inigo Jones, Delivered at Monthly Meeting of the Royal Geographical Society of Australasia (Queensland) on Dec 8th 1950.

Auckland War Memorial Museum Library, Wragge Family Papers (Ms 1213).)

Peter Adamsonاپنے ایک مضمون میں ریگ کی شخصیت کے متعلق لکھتے ہیں:

‘‘The eccentric and, some would have said, egomaniacal Wragge seemed to relish controversy and combat.’’

(CLEMENT LINDLEY WRAGGE AND THE NAMING OF WEATHER DISTURBANCES by Peter Adamson Walkersville , South Australia WEATHER vol. 7 pg: 362)

مفہوماً ترجمہ :آپ انوکھے اور کچھ لوگ کہیں گے اناپرست، ریگ مباحثہ اور مقابلہ کا حظ اٹھانے والے معلوم ہوتے تھے۔

Paul D. Wilsonپروفیسرکلیمنٹ ریگ کی شخصیت کی تصویر کشی مندرجہ ذیل الفاظ میں کرتا ہے:

‘‘Tall and thin, Wragge had an iron constitution and a mop of flaming red hair and explosive temper to match: his staff and opponents well knew that he possessed the adjectival luxuriance of a bullock. In the professional field he was his own worst enemy, but he did encourage followers like Inigo Jones. Credited with originating the use of classical, biblical and personal names for weather systems, he was nicknamed ‹Inclement Wragge› for his rainfall forecasts’’

(Wragge, Clement Lindley (1852–1922) by Paul D. Wilson, Australian Dictionary of Biography, Volume 12, (MUP), 1990.National Centre of Biography, Australia National University,)

مفہوماًترجمہ: ریگ ۔لمبا قد ،دبلے پتلے، آہنی جسم ،سرخ بالوں کا تابنا ک گچھا اور اس سے ملتا جلتا پھٹ پڑنے والا مزاج رکھتے تھے۔آپ کا عملہ اور آپ کے مخالفین جانتے تھے کہ آپ میں ایک سانڈھ کی سی فراوانی تھی۔ اپنے پیشہ وارانہ میدان میں وہ اپنے بدترین دشمن تھے مگر اپنے پیرو کا روں مثلا Inigo Jonesکی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ موسمی نظاموں کے لیے کلاسیکل ،بائبلی اور ذاتی ناموں کی اصطلاحات کے استعمال کے آغاز کا سہرا بھی آپ ہی کے سر ہے۔ان کا نام کلیمنٹ ریگ ان کی بارشوں کی درست پیش خبریوں کی وجہ سے پڑ گیا تھا ۔

اسی طرح مشہور انگریز مصنف Sir Arthur Conan اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر کلیمنٹ ریگ کے متعلق لکھتے ہیں:

‘‘On arriving at the charming bungalow, buried among all sorts of broad-leaved shrubs and trees, I was confronted by a tall, thin figure, clad in black, with a face like a sadder and thinner Bernard Shaw, dim, dreamy eyes, heavily poached, with a blue turban surmounting all. On repeating my desire he led me apart into his study. I had been warned that with his active brain and copious knowledge I would never be able to hold him to the point, so, in the dialogue which followed, I perpetually headed him off as he turned down by paths, until the conversation almost took the form of a game.’’

(The Wanderings of a Spiritualist by Sir Arthur Conan Doyle, Chapter 8 pg: 180 New York George H. Doran Company 1921.)

مفہوماً ترجمہ:ایک بڑی دلکش کوٹھی میں پہنچ کر جو ہر قسم کے چوڑے پتوں والی جھاڑیوں اور درختو ں میں چھپی ہوئی تھی۔ میرا واسطہ ایک لمبے، دبلے پتلے شخص سے ہوا جو سیاہ لباس میں ملبوس تھا۔ جس کا چہر ہ غم گیں اور زیادہ دبلے پتلے برنارڈ شاہ جیسا تھا۔دھندلی،نمی سے بھری ہوئی خوابیدہ آنکھیں اور ان سب سے اوپر نیلی پگڑی ۔میری خواہش کے دوبارہ اظہار پر وہ مجھے الگ اپنی سٹڈی میں لے گئے ۔ مجھے متنبہ کیا گیا تھا کہ ان کا فعال دماغ اور بے شمار علم کے ساتھ میں کبھی اس قابل نہیں ہوں گا کہ ان کو (زیر گفتگو) نقطہ پر قائم رکھ سکو ں چنانچہ جو گفتگو بعد میں ہوئی اس میں مَیں ان کو مسلسل موڑتا رہا جب وہ رستوں سے مڑنے لگتے تھے ۔یہاں تک کہ اس گفتگو نے ایک کھیل کی شکل اختیار کر لی ۔

کلیمنٹ ایک نہایت زرخیز ذہن کے مالک تھے جنہیں موسم کا ریکارڈ رکھنے کی اہمیت کا اندازہ تھا۔ انہوں نے اسی ترکیب کے باعث آئندہ آنے والے موسم کی پیش خبری کرنے کا طریقہ ایجاد کیا۔اپنی تحقیقات کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے پیش آمدہ موسمی طوفانوں کا پتہ چلانے کا بھی طریق ایجاد کیا تا ان کے نقصانات سے بچا جا سکے۔ اسی طرح ان طوفانوں کو مختلف اسماء سے موسوم کرنے کا طریق بھی آپ ہی نے رائج کیا۔آپ کے عظیم الشان کارناموں میں سے ایک کارنامہ مصنوعی بارش کا برسانا بھی تھا گو کہ آپ اس میں مکمل طور پر کامیاب نہ ہو سکے۔آپ نے اپنی زندگی میں ماہر موسمیات اور ہیئت دان کے طور پر خوب شہرت حاصل کی ۔

چنانچہ Peter Adamson اپنے ایک مضمون میں پروفیسر کلیمنٹ ریگ کی خدمات کے حوالے سے لکھتے ہیں:

‘‘Clement L. Wragge is credited, certainly in Australia, as the first person to systematically give proper names to tropical cyclones and low-pressure systems. He apparently began the practice in the mid-1890s with the naming of tropical cyclones.‘‘

(Peter Adamson Walkersville, South Australia WEATHER VOL. 7 PG 362(Clement Lindley Wragge and the naming of weather disturbances.)

مفہوماًترجمہ: Clement. L. Wraggeکو یہ اعزاز دیا جاتا ہے کہ وہ پہلے شخص ہیں کہ انہوں نے استوائی طوفانوں اور کم دباؤکے (موسمی) نظاموں کو باقاعدہ نام دیئے ہیں ۔بظاہر انہوں نے یہ عمل (یعنی) استوائی طوفانوں کو نام دینا 1890ءکے درمیان میں شروع کیا ۔

پروفیسر کلیمنٹ ریگ کو آغاز سے ہی مذہب سے لگاؤ تھا ۔ اس بات کا اندازہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ مشہور انگریز مصنف Sir Arthur Conan Doyleنے اپنی مشہور کتاب The Wanderings of a Spiritualistلکھنے سے پہلے پروفیسر کلیمنٹ ریگ سے ملنے کےلیے نیوزی لینڈ کا سفر کیا اور ان سے spiritualismکے متعلق آگاہی حاصل کی۔ چنانچہ Sir Arthur Conan Doyle کاپروفیسر کلیمنٹ سے اس ملاقات کااحوال اوپر لکھی گئی سطروں میں آچکا ہے۔ مزید Sir Arthur Conan Doyle پروفیسر کلیمنٹ ریگ کے مذہبی رجحان کے متعلق لکھتے ہیں:

‘‘We set off, four of us, to visit Mr Clement Wragge, who is the most remarkable personality in Auckland—dreamer, mystic, and yet very practical adviser on all matters of ocean and of air.’’

(The Wanderings of a Spiritualist by Sir Arthur Conan Doyle, Chapter 8 pg: 180 New York George H. Doran Company 1921)

مفہوماً ترجمہ : ہم چار لوگ مسٹر کلیمنٹ ریگ سے ملنے گئے جو آک لینڈ میں سب سے زیادہ غیر معمولی شخصیت ہیں ۔ خواب دیکھنے والے ، مراقبہ کرنے والے ۔تا ہم سمندر اور ہوا کے بارے میں تمام امور پر قابل عمل مشورہ دینے والے تھے۔

ابتدائی جوانی کے ایام سے ہی کلیمنٹ ریگ کو مذہب سے خاص دلچسپی تھی اور آپ مذہب سے متعلقہ نظریات کے متعلق مختلف لیکچرز میں اپنی آراء کا اظہار کرتے رہتے تھے اور ان نظریات پر بڑی سختی سے قائم رہتے۔

کلیمنٹ ریگ کا دورہ ہندوستان اور حضرت مسیح موعود ؑسے ملاقات

پروفیسرکلیمنٹ ریگ نے اپنے ہندوستان میں قیام کے دوران ہندوستان کے موسم کے متعلق گہری تحقیقات بھی سرانجام دیں اور مختلف لیکچرز بھی دیے جن کی کافی پذیرائی ہوئی۔

ہندوستان کے دورہ کے دورا ن ہی حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ کے توسط سے آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کا پیغام دعوت اسلام پہنچا۔ اس کا مختصر حال از قلم حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ درج ذیل ہے:

‘‘پروفیسر کلیمنٹ ریگ ایک مشہور سیاح ،ہیئت دان اور لیکچرار ہے ……اس کا اصلی وطن انگلستان میں ہے ۔آسٹریلیا میں بہت مدت تک وہ گورنمنٹ کا ملازم افسر صیغہ علم ہیئت رہا۔ سائنس کے ساتھ پروفیسر مذکور کو خاص دلچسپی ہے اور چند کتابیں تصنیف کی ہیں۔جبکہ حضرت ؑ لاہور تشریف لائے ۔تو پروفیسر اس وقت یہیں تھا۔اور اس نے علم ہیئت پر ایک لیکچر ریلوے سٹیشن کے قریب دیا تھااور ساتھ ایک لینٹرن کی روشنی سے اجرام فلکی کی تصویریں دکھائی تھیں۔یہ لیکچر میں نے بھی سنا تھا۔دوران لیکچر میں پروفیسر کی گفتگو سے مجھے معلوم ہوا کہ یہ شخص اندھا دھند عیسائیت کی پیروی کرنے والا نہیں۔ بلکہ غیر متعصب اور انصاف پسند ہے۔

اس واسطے میں اسے ملا اور میں نے اسے کہا پروفیسر تم دنیا میں گھومے۔کیا تم نے کبھی کوئی خدا کا نبی دیکھا ۔اور حضرت اقدس کے دعویٰ مسیحیت ومہدویت اور اس کے دلائل سے اس کو خبر کی۔ان باتوں کو وہ سن کر بہت خوش ہوااور کہا کہ میں ساری دنیا کے گرد گھوما ہوں مگر خدا کا نبی کوئی نہیں دیکھا۔اور میں تو ایسے ہی آدمی کی تلاش میں ہوں۔ اور حضرت کی ملاقات کا از حد شوق ظاہر کیا ۔ میں (مفتی محمد صادق) نے مکان پر آ کر حضرت صاحب سے اس کا ذکر کیا۔حضرت صاحب ہنسے اورفرمایا کہ مفتی صاحب تو انگریزوں کو ہی شکار کرتے رہتے ہیں۔اور اجازت دی کہ وہ آکر ملاقات کرے۔چنانچہ وہ اور اس کی بیوی دو دفعہ حضرت علیہ السلام کی ملاقات کے واسطے احمدیہ بلڈنگ میں آئے اور علمی سوالات کئے…۔’’

(ذکر حبیب مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ صفحہ329تا330)

چنانچہ پروفیسر کلیمنٹ ریگ کی مع اہلیہ و بچہ حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ دو تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں ۔ ان میں سے پہلی ملاقات 12؍مئی 1908ءکو قبل از نماز ظہر ہوئی۔اس ملاقات میں پروفیسر صاحب نے اپنی اہلیہ سمیت حضرت مسیح موعودؑ سے کل9؍سوالات پوچھےجن کے حضرت مسیح موعودؑ نے مفصل، جامع اور تسلی بخش جوابات عنایت فرمائے۔

پہلی ملاقات میں پوچھے گئے سوالات

‘‘1۔میں ایک علمی مذاق کا آدمی ہوں ۔میں دیکھتا ہوں کہ یہ زمین جس میں ہم رہتے ہیں ایک چھوٹی سی زمین ہےاور ہزار در ہزار اور لاکھ در لاکھ حصے اس کے علاوہ مخلوق الٰہی کے موجود ہیں اور یہ ان کے مقابلہ میں ذرہ بھی حقیقت نہیں رکھتی تو پھر کیا وجہ کے خدا کے فضل کو صرف اسی حصہ زمین یا کسی خاص مذہب و ملت میں ہی محدود رکھا گیا؟

2۔لکھا ہے کہ ایک آدم اور حوّا تھے ۔حوّا ایک کمزور عورت تھی۔ اس نے ایک سیب کھالیا ۔اب اس کے ایک سیب کھانے کی سزا ہمیشہ جاری رہے گی۔یہ امر میری سمجھ میں نہیں آتا اور کہ یہ زمین جس سے ہمارا تعلق ہے اس کےسوا اور ہزاروں کروڑوں سلسلے خدا نے پیدا کئے ہیں تو خدا تعالیٰ کی قدرت اور انعامات کو کیوں اس زمین تک محدود کیا جاتا ہے؟

3۔دو باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں ۔ایک یہ کہ گناہ کیا چیز ہے۔ایک ملک کا انسان ایک امر کو گناہ یقین کرتا ہے۔حالانکہ ایک دوسرے ملک کا انسان اسی امر کو گناہ نہیں سمجھتا ۔انسان ایک کیڑے سے ترقی کرتا کرتا انسان بنا اور پھر حق و باطل میں امتیاز حاصل کیا ۔صداقت اور جھوٹ میں فرق کیا۔نیکی اور بدی کو سمجھا۔ گناہ اور ثواب کا علم پیدا کیا ۔بایں ہمہ پھر اس امر میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ایک امر ایک شخص کے نزدیک گناہ ۔دوسرا اس کو گناہ نہیں سمجھتا اور کرتا ہے۔

4۔دنیا میں دو مختلف طاقتیں کام کرتی ہیں۔مثبت اور منفی۔اگر ہم ہمیشہ مثبت سے کام لیتےرہیں اور منفی سے کام نہ لیں تو ایک دن ایسا ہو گا کہ منفی آہستہ آہستہ جمع ہو کر زور پکڑ جاوے گی اور کسی وقت یک دفعہ پھوٹ کر دنیا کو تباہ کر دے گی۔ یہی حال نیکی اور بدی کا ہےاگر تمام دنیا میں نیکی ہی نیکی کی جاوے اور کوئی بدی نہ کرے تو اس طرح ایک دن بدی زور پکڑ کر دنیا کو تباہ کر دے گی۔

5۔عیسائیوں میں یہ ایک مسئلہ مشہور ہے کہ دنیا گمراہ ہو گئی تھی مگر خدا نے پھر شیطان سے اس کو خریدا ۔کیا یہ صحیح ہے؟

6۔عیسائی عقائد سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم ایک اعلیٰ حالت سے ادنیٰ حالت کی طرف گئے تھےحالانکہ انسان ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ترقی کرتا ہے؟

7۔ میں آ ئندہ زندگی کو مانتا ہوں کہ وہ ایک چولہ ہے۔انسان اس کے ذریعہ ایک حالت سے دوسری حالت میں چلا جاتا ہے۔مجھے سپرچول ازم سے خاص دلچسپی ہے ۔میں یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ آئندہ زندگی کس طرح سے ہوگی اور وہاں کیا کیا حالات ہوں گے؟

8۔لیڈی صاحبہ۔ آیا یہ ممکن ہے کہ جو لوگ اس دنیا سے گزر گئے ہیں اور مر چکے ہیں ان سے باتیں ہو سکیں یا کوئی تعلق یا واسطہ ہو سکےاور ان کے صحیح حالات معلوم کر سکیں؟

9۔مجھے اس قسم کی ایک کمیٹی کی طرف سے بعض کاغذات آئے تھےاور میری خاص غرض آپ کے پاس حاضر ہونے کی یہی تھی کہ انکے متعلق آپ سے دریافت کروں اور آپ کی ہدایات سنوں ۔ کیا آپ مجھے اپنا کچھ عزیز وقت دے سکتے ہیں؟’’

( ملفوظات جلد5صفحہ618تا626،ایڈیشن1988ء)

پہلی ملاقات کے احوال کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ لکھتے ہیں:

‘‘پہلی ملاقات سے پروفیسر کی اس قدر تشفی ہوئی اور اس کے سوالات پر جو جوابات حضرت ؑنے دئیے ان سے وہ اس قدر خوش ہوا کہ اس نے بہت الحاح کے ساتھ درخواست کی کہ اسے ایک دفعہ پھر حضرت کی ملاقات کا موقع دیا جائے۔ چنانچہ حضرتؑ کے حکم سے اس کو اجازت دی گئی کہ پیر کے دن تین بجے وہ آئے۔ ٹھیک وقت پر پروفیسر صاحب اور ان کی بیوی حضرت کی ملاقات کے واسطے آئے۔ ان کے ساتھ ان کا چھوٹا لڑکا بھی تھا۔

(ذکر حبیب صفحہ335تا336)

دوسری ملاقات

دوسری ملاقات 18؍مئی 1908ءکو بعد نماز ظہر احمدیہ بلڈنگ لاہور ہی میں ہوئی۔

اس ملاقات میں پروفیسر صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ سے کل13؍سوالات پوچھےجن کی تفصیل حسب ذیل ہے:

‘‘1۔آپ کا کیا عقیدہ ہےخدا محدود ہے یا کہ ہر جگہ حاضر و ناظر اور اس میں کوئی شخصیت یا جذبات پائے جاتے ہیں؟

2۔کیا خدا کی کوئی شکل ہے؟

3۔جب خدا محبت ہے ۔عدل ہے۔انصاف ہے تو کیا وجہ کہ نظام دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے بعض چیزوں کو بعض کی خوراک بنا دیا ہے ۔اگر محبت اور عدل یا انصاف و رحم اس کے ذاتی خاصے ہیں تو کیا وجہ کہ اس نے مخلوق میں سے بعض میں ایسی کیفیت اور قویٰ رکھ دئیے ہیں کہ وہ دوسروں کو کھا جائیں حالانکہ مخلوق ہونے میں دونوں برابر ہیں۔

4۔ یہ تو میں نے سمجھ لیا مگر میں یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ خدا نے یہ خاصہ کیوں رکھ دیا کہ ادنیٰ اعلیٰ کا خادم ہو یا اس کی خوراک بنے یا اس کے سامنے ذلیل رہے؟

5۔آپ نے جو کچھ بیان فرمایا میں نے سمجھ لیا ۔اب یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ حیوانات کو بھی آئندہ عالم میں بدلہ دیا جاوے گا؟

6۔تو پھر اس کا یہ لازمی نتیجہ ہو گا کہ وہ حیوانات جن کو ہم مارتے ہیں ان کو مردہ نہیں بلکہ زندہ یقین کریں۔

7۔بائبل میں لکھا ہے کہ آدم یا یوں کہئےکہ پہلا انسان جیحون سیحون میں پیدا ہوا تھا اور اس کا وہی ملک تھا تو پھر کیا یہ لوگ جو دنیا کے مختلف حصوں امریکہ آسٹریلیا وغیرہ میں پائے جاتے ہیں یہ اس آدم کی اولاد میں سے ہیں؟

8۔کیا حضورمسئلہ ارتقا ء کے قائل ہیں یعنی یہ کہ انسان نے ادنیٰ حالت سےاعلیٰ حالت میں ترقی کی ہے۔پہلے سانپ بچھو وغیرہ سے ترقی کرتے کرتے بندر بنا اور بندر سے انسان بنا۔اور روح کس وقت پیدا ہوئی؟

9۔سپریچولزم والوں کی رائے ہے کہ زندگی چاند سے اتری اور عقل مشتری سے اور چاند زمین سے بنا۔ابتدا میں زمین بہت نرم تھی۔زمین کا ایک ٹکڑا اڑ کر آسمان پر چلا گیا اور وہ چاند بن گیا۔اصل میں زندگی زمین ہی سے نکلی۔زمین سے چاند میں گئی اور چاند سے پھر انسان میں اتر تی ہے۔اس میں آپ کا کیا اعتقاد ہے؟

10۔مکھیوں یا ادنیٰ قسم کے جانوروں میں جو چیز پائی جاتی ہے اس کو کس نام سے تعبیر کیا جاوے؟

11۔میں ایک روز گرجا میں گیا تھا وہا ں پادری صاحب نے لیکچر میں بیان کیا کہ انسان ایک بالکل ذلیل ہستی ہے اور گندہ کیڑا ہےیہ روز بروز نیچے گرتا ہےاور ترقی کے قابل ہی نہیں۔اس واسطے اس کی نجات اور گناہ سے بچانے کے واسطےخدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو کفارہ کیا۔مگر میں جانتا ہوں کہ انسان نیکی میں ترقی کرسکتا ہے۔میرا یہ بچہ اس وقت اگر بے علمی کی وجہ سے کوئی حرکت ناجائز کرے تو پھرایک عرصہ بعد جب اسے عقل آوے گی اور اس کا علم ترقی کرے گاتو یہ خود بخود سمجھ لے گا کہ یہ کام بُرا ہے اس سے پرہیز کر کے اچھے کام کرے گا۔حضور کا اس میں کیا اعتقاد ہے؟

12۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ انسان لاکھ نیکی کرے مگر وہ برباد ہے بجز اس کے کفارہ مسیح پر ایمان لاوے۔آپ اس میں کیا فرماتے ہیں؟

13۔پاکیزگی سے کیا مراد ہے؟’’

( ملفوظات جلد5صفحہ671تا679،ایڈیشن 1988ء)

دوسری ملاقات کے اختتام کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مفتی صادق صاحب ؓلکھتے ہیں:

‘‘اس کے بعد اس نے مع اپنی میم کے کھڑے ہو کر شکریہ ادا کیا اور اس امر کا اظہار کیا کہ مجھے اپنے سوالات کا جواب کافی اور تسلی بخش ملنے سے بہت خوشی ہوئی اور مجھے ہر طرح سے کامل اطمینان ہو گیا۔(نوٹ:پروفیسر بعد میں احمدی مسلمان ہو گیا تھا اور مرتے دم تک اس عقیدہ پر قائم رہا ۔اور اس کے خطوط میرے پاس آتے رہے۔محمد صادق)’’

( ذکر حبیب صفحہ 341)

حضرت مسیح موعودؑ سے ملاقات کے بعد پروفیسر کلیمنٹ ریگ کی زندگی میں ایک عظیم الشان انقلاب

پانچ دلائل بینہ

ان ملاقاتوں کے جو عظیم الشان نتائج نکلے وہ ایک عام انسان کو حضرت مسیح موعود ؑکے دعوے کی صداقت اور آپ کے علمی کمالات کا اقرار کرنے پر مجبور کر ڈالتے ہیں۔پروفیسر کلیمنٹ ریگ کی شخصیت اور ان کا اپنے اعتقادات پر جمے رہنا اور ان کے دفاع کرنے کے متعلق ہم پہلے سے لکھ چکے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ سے ملاقات کے بعد جو انقلاب آپ کی طبیعت میں پیدا ہوا اس کے مزید شواہد درج ذیل ہیں:

1۔ایڈیٹر الحکم نے اس ملاقات کے متعلق ذکر کرتے ہوئے لکھا:

‘‘آپ (حضرت مفتی محمد صادق صاحب )نےآج کے تذکرہ پر حضرت اقدسؑ کی خدمت میں عرض کی کہ حضور اس کے خیالات میں حضور کی ملاقات کے بعد عظیم الشان انقلاب پیدا ہو گیا ہے ۔چنانچہ پہلے وہ ہمیشہ جب اپنے لیکچروں میں اجرام سماوی وغیرہ کی تصاویر دکھاتا اور کبھی مسیح کی مصلوب تصویر پیش کیا کرتا تھا تو یہ کہا کرتا تھا کہ یہ مسیح کی تصویر ہے جس نے دنیا پر رحم کرکے تمام دنیا کے گناہوں کے بدلے میں اپنی اکلوتی جان خدا کے حضور پیش کی اور تمام دنیا کے گناہوں کا کفارہ ہو کر دنیا پر اپنی کامل محبت اور رحم کا ثبوت دیا۔

مگر اب جبکہ اس نے حضور سے ملاقات کی اور پھر لیکچر دیا تو مسیح کی مصلوب تصویر دکھاتے ہوئے صرف یہ الفاظ کہے کہ یہ تصویر صرف عیسائیوں کے واسطے موجب خوشی ہو سکتی ہے سچی تعریف اور ستائش کے لائق وہی سب سے بڑا خدا ہے۔پہلے اپنے لیکچر میں کہا کرتا تھا کہ نسل انسانی آہستہ آہستہ ترقی کرکے ادنیٰ حالت سے بندر اور پھر بندر سے ترقی پاکر انسان بنا۔ مگر اس دفعہ کے لیکچر میں اس نے صاف اقرار کیا کہ یہ ڈارون کا قول ہے۔اگرچہ اس قابل نہیں کہ اس سے اتفاق کیا جاوے بلکہ انسان اپنی حالت میں خود ہی ترقی کرتا ہے۔غرضکہ اس پر بہت بڑا اثر ہوا ہے اور وہ حضور کی ملاقات کے بعد ایک نئے خیالات کا انسان بن گیا ہے اور ان خیالات کو جرأت سے بیان کرتا ہے۔’’

(ملفوظات جلد 5صفحہ 683تا684،ایڈیشن1988ء)

اس بات کے مزید شواہد کہ پروفیسر نہ صرف حضرت مسیح موعودؑ کے نظریات و عقائد سے متفق ہوئےبلکہ حقیقی اسلام یعنی احمدیت کو قبول کیا اور ایک واحد خدا کے قائل ہو گئے ان کے مختلف لیکچروں سے ملتے ہیں جو کہ آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی ملاقات کے بعد مختلف ممالک میں دیے۔ ان لیکچرز میں قابل ذکر امور درج کیے جاتے ہیں جو حضرت مسیح موعودؑ کی قوت قدسیہ اور عظیم الشان پیدا کردہ انقلاب کی بھی نشاندہی کرتے ہیں جس کا ذکر ایک غیر از جماعت مولانا ابوالکلام آزاد نے حضرت مسیح موعود ؑکی وفات پر کیا تھا جو کہ مضمون کہ آغاز میں بیان کیا جا چکا ہے۔ پروفیسر کلیمنٹ ریگ نے اپنے ان لیکچرز میں زیادہ تر انہیں موضوعات کو چھیڑا جن کے متعلق آپ نے حضرت مسیح موعودؑسے ہونے والی ملاقات میں استفسار فرمایا تھا۔ مزید برآں پروفیسر نے اپنے لیکچر میں من و عن حضرت مسیح موعود ؑ کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پیش کردہ جوابات کو ہی اپنے اعتقادات کے طور پر پیش کیا جو کہ اس بات کا کافی و شافی ثبوت ہیں کہ پروفیسر حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لا چکے تھے اور اپنے فاسد خیالات سے روگردانی اختیار کر چکے تھے۔چنانچہ دیگر امور جن کا ذکر پروفیسر نے اپنے لیکچرز میں کیا جو کہ دراصل اسلامی عقائد کے عین مشابہ ہیں وہ بھی پیش خدمت ہیں:

دلیل نمبر1: واحد ویگانہ کامل قدرتوں کے مالک خداپر ایمان جس کا تصرف تمام کائنات پر ہے

ایک کامل قدرتوں کے مالک خدا اور بعث بعد الموت کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر کلیمنٹ ریگ لکھتے ہیں:

‘‘I know that the entire Cosmos is electric and spiritual, that death does not end all and that infinite Dynamo or God rules a Universe without beginning and without end.’’

(SOME REMINISCENCES OF AN EVENTFUL LIFE BY CLEMENT L. WRAGGE F.R.G.S., F.R.M.E.T: SOC: F.R.C.I. etc. page no. 4. Wragge Family Papers, MS 1213, Auckland War Memorial Museum Library.)

مفہوماًترجمہ : میں جانتا ہوں کہ تمام کائنات بجلی کی لہروں کی مانند اور روحانی وجود کی متحمل ہے۔ صرف موت ہی اختتام نہیں ہے اور ایک کامل طاقتوں والا یعنی خدا ہےجو اس ساری کائنات کا مالک ہے،جس کا نہ آغاز ہے اور نہ ہی اختتام ۔

اسی طرح ایک واحد و یگانہ قدرتوں کے حامل خدا کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ایک مضمون The Endless Universe and Eternal Life میں لکھتے ہیں:

‘‘Everything is part and parcel of everything else, and the appalling whole resolves itself into Number One, the All in All, the Absolute; or the INFINITE DYNAMO that an Earth-man calls GOD.’’

(THE ENDLESS UNIVERSE AND ETERNAL LIFE BY CLEMENT L. WRAGGE, pg. 1, Birkenhead, Auckland, March, 1921. 2nd Edition, June, 1922, TAURANGA: C.F.OLIVER, PRINTER, WHARF STREET, 1922,Wragge Family Papers, MS 1213, Auckland War Memorial Museum Library.)

مفہوماً ترجمہ: ہر چیز ہر دوسری چیز سے جڑی ہوئی ہے اور ہر چیز کا اختتام‘‘ ایک’’ کی اکائی پر ہے یعنی ایک ایسی ہستی پر جو کہ اپنی ذات میں یکتا اور واحد ہے ایک کامل طاقت والا جس کو زمین کا انسان خدا کہتا ہے۔

اسی طرح اپنے مضمون The Wireless Constitution of Eternal Universe میں یوں رقمطراز ہیں:

‘‘Planets linked with planets, systems with systems, suns with suns interacting and interoperating by wireless, … everything drawing upon the Bank of the most High Unlimited, with the INFINITE ABSOLUTE DYNAMO or GOD back of all.’’

THE WIRELESS CONSTITUTION OF THE ETERNAL UNIVERSE BY CLEMENT L. WRAGGE, pg. 15, Wragge Family Papers, MS 1213, Auckland War Memorial Museum Library.

مفہوماًترجمہ: سیارے سیاروں کے ساتھ،نظام (کائنات) نظاموں کے ساتھ منسلک ہیں،سورج کا سورج سے، ہر ایک کا ایک دوسرے کے ساتھ غیر مربوط لہروں کے ذریعہ ایک نظام میں مضبوط تعلق ہے…ہر چیزسب سے بڑے لامحدود وجودکی طرف توجہ کو لے کر جاتی ہےجو کہ کامل طاقتوں والا یعنی خداہے جو ان سب کے پیچھے موجود ہے۔

دلیل نمبر 2: بعث بعد الموت پر ایمان اور انسانی جسم اور روح کی حقیقت و فلسفہ

پروفیسر کلیمنٹ ریگ کے لیکچر کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے ایک اخبار Horowhenua Chronicleنے لکھا:

‘‘Death to the lecturer is a mere change of form.’’

Horowhenua Chronicle, 3 Feb. 1911, pg. 2, CLEMENT L. WRAGGE IN LEVIN, LECTURE ON A FLIGHT OF A SOUL.

مفہوماً ترجمہ: لیکچرار کے نزدیک موت محض ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیلی کا نام ہے۔

اسی طرح پروفیسر کلیمنٹ ریگ نے بعث بعد الموت کے متعلق ایک مکمل مضمون بعنوان

THE ENDLESS UNIVERSE AND ETERNAL LIFEلکھا۔اس مضمون میں مکرر آپ نے اس بات کا ذکر کیا کہ ہمارا یہ جسم اصل جسم نہیں بلکہ روح ہے جو کہ درحقیقت ہمارا اصل جسم ہے جسے اس زندگی کےبعد اصل زندگی حاصل ہو گی۔چنانچہ آپ لکھتے ہیں:

‘‘EVERY THING- is spirit, a raying out of and from the INFINITE SPIRIT of God; spirit is the only real, all that we see with our limited vision is the unreal-ourselves, the animals, birds, fish, flowers, rocks, waters, sun, moon, stars, all, are only the “shadows” or outer forms; we cannot in earth life, in this “mud-bath” see the real thing behind.’’

(THE ENDLESS UNIVERSE AND ETERNAL LIFE BY CLEMENT L. WRAGGE, pg. 4, Birkenhead, Auckland, March, 1921. 2nd Edition, June, 1922, TAURANGA: C.F.OLIVER, PRINTER, WHARF STREET, 1922, Wragge Family Papers, MS 1213, Auckland War Memorial Museum Library.)

مفہوماً ترجمہ: ہر چیز(میں ) روح ہے جو خدا کے غیر محدود وجود سے پھوٹ رہی ہے ۔روح ہی حقیقت ہے ۔ جو کچھ ہم اپنی محدود نظر کے ذریعہ مشاہدہ کرتے ہیں یعنی اپنے آپ کو، پرندوں، مچھلیوں،پھولوں ،پتھروں ،پانی،سورج ،چاند، ستارے،ان سب چیزوں کو، ان کا حقیقت سے کچھ واسطہ نہیں یہ سب اپنی ظاہری صورت کے عکس ہیں۔ہم اپنی اس ورلی زندگی میں اس مٹی کےسانچہ میں اصل حقیقت کو جو ظاہری چیزوں کے پیچھے ہے نہیں دیکھ سکتے۔

SIR ARTHUR CONAN DOYLE جو کہ بعث بعد الموت میں یقین رکھتے تھے ان کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

‘‘The startling statements that he utters with regard to the next life are as true and as sure as the fact that the Earth revolves around the Sun.’’

THE ENDLESS UNIVERSE AND ETERNAL LIFE BY CLEMENT L. WRAGGE, pg. 8, Birkenhead, Auckland, March, 1921. 2nd Edition, June, 1922, TAURANGA: C.F.OLIVER, PRINTER, WHARF STREET, 1922, Wragge Family Papers, MS

مفہوماً ترجمہ:تعجب انگیز بیانات جو کہ وہ بعث بعد الموت یا ورلی زندگی کے متعلق دیتے ہیں وہ اسی طرح سچ ہیں جیسے کہ یہ کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔

اسی طرح لکھتے ہیں:

‘‘For the REAL YOU can never die, only the outer body or shell is subject to chemical change. Life is far more real on the “other side” and far more beautiful; and YOU, AN IMMORTIAL SOUL, are progressing by evolution and getting nearer to God in the mighty spheres of ETERNITY. Remember! Death is like the change of water into steam; and only a sheet as of frosted glass separates this physical life from the next which is all around you and interpenetrates everything. Your physical eyes cannot sense the next plane of life any more than they can fathom the ultra-violet rays in the solar spectrum, simply because they are not made that way.’’

THE ENDLESS UNIVERSE AND ETERNAL LIFE BY CLEMENT L. WRAGGE, pg. 10,11; Birkenhead, Auckland, March, 1921. 2nd Edition, June, 1922, TAURANGA: C.F.OLIVER, PRINTER, WHARF STREET, 1922, Wragge Family Papers, MS 1213, Auckland War Memorial Museum Library.

مفہوماً ترجمہ: تم جو اصل ہو کبھی نہیں مر سکتے ۔ظاہر ی بدن یا چھلکے میں کیمیاوی تبدیلیاں ہوتی ہیں ‘‘دوسری طرف’’ زندگی بہت پر حقیقت ہے۔اور بہت زیادہ خوبصور ت ہے ۔اور تم ایک لافانی روح ارتقاء کے ذریعہ ترقی کر رہے ہو اور ابدیت کے عظیم دائروں میں تم خدا کے قریب جار ہے ہو ۔یا د رکھو موت صرف پانی کے بھاپ کی شکل میں بدلنے کا نام ہے اور شیشہ کی ایک دھند لگی ہوئی شیٹ کی طرح یہ مادی زندگی، اگلی زندگی سے جدا کرتی ہے ۔جوتمہیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے اور (دوسرے میں ) سرایت کرتی ہے ۔تمہاری مادی آنکھیں زندگی کی اس سطح کو نہیں دیکھ سکتیں اس سے زیادہ جتنا وہ ما فوق البنفشی شعاؤں کو نظام شمسی کے رنگوں میں دیکھ سکتی ہیں کیونکہ وہ ایسی بنائی نہیں گئیں۔

اسی طرح اپنے ایک اور مضمون بعنوان THE WIRELESS CONSTITUTION OF THE ETERNAL UNIVERSEمیں اخروی زندگی کی حقیقت کے متعلق یوں رقم طراز ہیں:

‘‘The body is not yourself- it is only your earth-shell “Death is only a change, you will go on. O man, scaling height upon height through all Eternity.’’

(THE WIRELESS CONSTITUTION OF THE ETERNAL UNIVERSE BY CLEMENT L. WRAGGE, pg. 15, Wragge Family Papers, MS 1213, Auckland War Memorial Museum Library.)

مفہوماًترجمہ: یہ جسم تم نہیں ہو بلکہ محض یہ ایک تمہارا زمینی چھلکا ہے۔ موت صرف (اس جسم کی )تبدیلی کا نام ہے۔اے انسان تم ابھی اور سفر طے کرو گے اور تدریجاً ہمیشگی کا سفر طے کرتے رہو گے۔

دلیل نمبر3: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر بطور خدا تعالیٰ کے مبعوث کردہ نبی۔

پروفیسر کلیمنٹ ریگ نے جو اپنی زندگی میں حضرت مسیح موعود ؑکی ملا قات کے بعد لیکچرز دیے ان میں حضرت مسیح موعودؑ کا تعارف آپ کے نام کے ساتھ کرواتے رہے اور حضرت مسیح موعود ؑکے بیان فرمودہ افکار اور حقیقی اسلامی عقائد کو بیان کرتے رہےاور قادر و توانا خدا جو کہ اس عظیم الشان کائنات کو نہایت منظّم انداز میں چلا رہا ہے اس کا تذکرہ کرتے ۔چنانچہ آپ کے ایک معرکہ آراء لیکچر THE FLIGHT OF A SOUL میں آپ نے احمدؑ نامی ایک ایسے روحانی شخص کا ذکر کیا جس کو زمین و آسمان کے خدا نے مبعوث کیا تاکہ وہ لوگوں کے ساتھ نیک سلوک بجا لائے اور یسوع مسیح کے حقیقی مذہب اور تعلیمات کا پرچار کرے جن سے آج کے زمانہ میں موجود عیسائیت نے منہ پھیر لیا ہے اور یہی آپ کے لیکچر کے مرکزی کردار تھے۔چنانچہ نیوزی لینڈ کے ایک مشہور اخبار THAMES STARنے پروفیسر کے لیکچر کے اگلے روز اخبار میں اس لیکچر کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کیا:

‘‘Those who assembled at the Miners Union Hall last night to hear Mr, Clement Wragge lecture on “The Flight of a Soul Through an Endless Universe” could not have been other than interested, instructed and impressed at the infinite greatness of God’s universe, of the fathomless depths of the Eternal Beyond. He described in his usual vivid manner, and in splendidly chosen words, the career of an Indian (Ahmad) lad who had been consecrated to the Great Spirit to live to do good to his fellowmen-to practice the true Christianity and not that which apparently pertains today.’’

(Thames Star, Volume: XLVII, ISSUE NO. 10424, 19 AUGUST 1911, pg: 2)

مفہوماًترجمہ: وہ لوگ جو گذشتہ رات Miners Unionہال میں مسٹر کلیمنٹ ریگ کو ان کا خطاب ‘‘ روح کی پرواز غیرمحدود کائنات میں’’ کے موضوع پر سننے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے ان کو ضرور دلچسپی پید اہوئی ہوگی ۔ان کو علم ہو ا ہو گا اور وہ متاثر ہوئے ہوںگے خدا کی کائنات کی لا محدود عظمت سے اور ازلی ابدی ماوراء کی اتھاہ گہرائیوں سے۔ انہوں نے اپنے مخصوص واضح انداز میں اور نہایت اعلیٰ درجہ کے منتخب الفاظ میں ہندوستان کے ایک احمد کا جو روح عظیم کے لیے مقدس منصب پر فائز ہے جس کی زندگی اپنے بنی نوع کے فائدے کے لیے ہے جو سچی عیسائیت پر عمل کرنے کے لیے ہے نہ وہ جس کا آج سے تعلق ہے ۔

اسی طرح ایک اور مشہور اخبار Herald نے آپ کے اسی موضوع پر 1922ءمیں دیے گئے لیکچرز کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:

‘‘The discourse treats of an Indian youth, Ahmed, who longs to see the universe and who yearns for God and truth… At length Ahmed, weary of the inconsistencies of earth life finds Azarel, his guardian angel who agrees to lead him through the awful depths of the endless cosmos.’’

(Herald New Zealand, Volume: LIX, Issue 18120, 19 June 1922, pg. 5, Herald New Zealand, Volume: LIX, Issue 18132, 3 July 1922, pg. 9, Horowhenua Chronicle, 3 Feb. 1911, pg: 2)

مفہوماًترجمہ: خطاب میں ایک ہندوستانی جو ان احمد کا ذکر ہے جوکائنات کو دیکھنا چاہتا ہے اور جو خدا اور صداقت کے لیے تڑپ رکھتا ہے ۔بالآخر احمد زمینی دنیا کے تضادات سے اکتا کر عزرائیل اپنے رہنما فرشتہ کو پا تا ہے جو اس کو لا محدود کائناتوں کی عجیب گہرائیوں میں لےجا تا ہے ۔

دلیل نمبر 4:حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بطورعاجز انسان ذکر

کلیمنٹ لنڈلے ریگ نے اپنے لیکچرز میں حضرت عیسیٰؑ کا ذکر ایک عاجز انسان کے طور پر کیا ہے جس نے غربت کی زندگی بسر کی چنانچہ ایک مشہور اخبار THAMES STARآپ کے لیکچرTHE FLIGHT OF A SOULکا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتا ہے:

‘‘The grandeur and the misery of London were depicted, the huge salaries of the prelates, and the miserable existence of the hungry and poverty stricken were contrasted, and the Indian Ahmad (or was it Mr. Wragge) cried: Is this true Christianity; is this the teaching of him who was humble and lowly, who preached in unpretentious buildings and on the mounts? ’’

(Thames Star, Volume: XLVII, ISSUE NO. 10424, 19 AUGUST 1911, Pg. 2)

مفہوماًترجمہ: لندن کی شان و شوکت اور غربت و دکھ کا نقشہ کھینچا گیا ۔گرجوں کی بڑی شخصیات کی بڑی بڑی تنخواہیں اور بھوکوں اور غربت زدہ لوگوں کی کا تقابل پیش کیاگیا اور ہندوستان کے احمد (یا خود مسٹر ریگ)نے بلند آواز سے کہا :

کیا یہ اصل عیسائیت ہے کیا یہ اس کی تعلیم ہے جو عاجز اور حقیر تھا جوسادہ عمارتوں اور پہاڑیوں میں تعلیم دیا کرتا تھا۔

پس ان تمام تحریرات اور بیانات کو سامنے رکھ لیں اور دوسری طرف آپ حضرت مسیح موعود ؑکے پروفیسر صاحب کو دیے گئے جوابات کو سامنے رکھ لیں آپ کو وہی مضامین نظر آئیں گے اور وہی عقائد نظر آئیں گے جو حضرت مسیح موعود ؑنے کلیمنٹ ریگ صاحب کو سمجھائے اور جن کو بعد ازاں قلب سلیم کے ساتھ کلیمنٹ ریگ صاحب نے اختیار کیا۔

کلیمنٹ ریگ صاحب نے ایک دنیا کا سفر کیا اور تمام مذاہب کی مکمل جانچ پڑتال کے بعد آپ نے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو اختیار کیا جو کہ اپنی ذات میں ایک معجزہ ہے اور ہر سلیم الفطرت اور نیک طبع انسان کو اس امر کی دعوت دیتا ہے کہ وہ بھی اس مذہب اور اس کے عقائد کے متعلق جانچ پڑتال کرے تا اس حق کی روشنی کو پا سکے جس نے ایک عیسائی کے دل کو منور کر ڈالا اور وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ذریعہ اسلام اور بانی اسلام کے افکارو نظریات اور عقائد کو دنیا میں پھیلانے والا بنا۔

حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی کلیمنٹ ریگ کی نسل سے ملاقات اور ان کی قبر پر تشریف آوری

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 2006ءمیں نیوزی لینڈ کا دورہ فرمایااوراس دوران کلیمنٹ ریگ کے پوتے اور پوتی نے بھی حضور انور سے ملاقات کا شرف پایا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنی اس ملاقات کا ذکر خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍مئی 2006ءمیں ان الفاظ میں فرمایا:

‘‘نیوزی لینڈ میں ڈاکٹر کلیمنٹ ریگ کے پوتے اور پوتی سے بھی ملنے کا موقع ملا۔ ان سے رابطہ بھی اللہ کے فضل سے اتفاق سے ہو گیا۔ پہلے تو مجھے نصیر قمر صاحب نے چلنے سے پہلے لکھا تھا کہ اس طرح یہ وہاں رہتے ہیں۔ اور ان کے بارے میں بتاتا ہوں کہ کون تھے۔ پھر نیشنل پریذیڈنٹ کو ہم نے لکھا انہوں نے انٹرنیٹ پر مختلف آرگنائزیشن سے رابطہ کرکے پتہ کروایا کیونکہ یہ ایک مشہور سائنسدان تھے، ان کے خاندان کا پتہ لگ گیا۔ یہ ڈاکٹر کلیمنٹ صاحب جو ہیں یہ 1908ء میں ہندوستان آئے تھے اور یہ مختلف جگہوں پر لیکچر دیتے رہے۔ نیوزی لینڈ کے رہنے والے تھے اور آسٹرانومی کے ماہر تھے۔

لاہور میں جب انہوں نے لیکچر دئیے تو وہاں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو پتہ چلا انہوں نے ان کا لیکچر سنا اوراس کے بعد ان سے رابطہ کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں بتایا تو ڈاکٹر کلیمنٹ نے حضرت مسیح موعود ؑکو ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ پہلے تو کہا کہ ابھی چلیں میرے ساتھ۔ انہوں نے کہا ابھی تو نہیں چل سکتے، وقت لے کے۔ تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وقت لیا اور 12مئی 1908ء کو پہلی ملاقات ہوئی اور پھر 18مئی 1908ءکو دوسری ملاقات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وقت لے کے انہوں نے کی اور بڑی تفصیل سے مختلف موضوعات پر سوال و جواب ہوئے۔کائنات کے بارے میں روح کے بارے میں، مذہب کے بارے میں، خداتعالیٰ کے بارے میں۔ تو بہرحال ان سوالوں کی ایک لمبی تفصیل ہے، جو ملفوظات میں بھی اور ریویو کے انگریزی حصے میں بھی چھپی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس گفتگو کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عرض کیا۔ میں تو سمجھتا تھا کہ سائنس اور مذہب میں بڑا تضاد ہے جیسا کہ عام طور سے علماء میں مانا گیا ہے مگر آپ نے تو اس تضاد کو بالکل اٹھا دیا ہے۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہی تو ہمارا کام ہے اور یہی تو ہم ثابت کر رہے ہیں کہ سائنس اور مذہب میں بالکل اختلاف نہیں۔ پھر ڈاکٹر صاحب نے حضرت مسیح موعود ؑکا شکریہ ادا کیا اور اس گفتگو کے بعدجوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ دو سٹنگز (Sittings)ہوئی تھیں ڈاکٹر صاحب کی طبیعت پر جو اس کے اثرات تھے۔ اس کا ذکر حضرت مفتی صادق صاحبؓ نے پھر ایک اور مجلس میں حضورؑ کی خدمت میں کیا۔یہ 23مئی وفات سے چند دن قبل کا واقعہ ہے کہ اس کی طبیعت میں اتنا فرق پڑ گیا ہے کہ بالکل خیالات بدل گئے ہیں۔ کہیں تو وہ حضرت عیسیٰ ؑ کی مثالیں دیا کرتا تھا اور کفارہ کا ذکر کیا کرتا تھا مگر اب اپنے لیکچروں میں خدا کی کبریائی اور بڑائی بیان کرتا ہے۔ اور پہلے ڈارون کی تھیوری کا قائل تھا مگراب کیفیت یہ ہے کہ‘ ڈارون کا قول ہے’ اس طرح ذکر کرکے بات کرتا ہے۔ اور اپنے لیکچروں میں یہ شروع کر دیا ہے جو حضرت مسیح موعودؑ نے اس کو سمجھایا تھا کہ حقیقت میں انسان اپنی حالت میں خود ہی ترقی کرتا ہے۔ تو یہ ڈاکٹر صاحب بعد میں حضرت مفتی صاحب سے رابطہ میں رہے گو کہ صحیح ریکارڈ نہیں ہے لیکن غالب امکان ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑکی صحبت کی وجہ سے ایمان لے آئے تھے اور مسلمان ہو گئے تھے۔ ان کے پوتے اور پوتی کو جب پتہ چلا ان سے رابطہ کیا ان کو بتایاکہ مَیں اس طرح آ رہا ہوں اور ملنا بھی ہے تو انہوں نے بھی ملنے کا اظہار کیا اور Reception میں آئے اور بعد میں دونوں بیٹھے بھی رہے باتیں ہوتی رہیں دونوں کافی بڑی عمر کے ہیں۔ یعنی بڑی عمر سے مراد 60-55سال کے پوتے کو زیادہ علم نہیں تھالیکن پوتی نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب مسلمان ہو گئے تھے اور ہندوستان سے واپس آنے کے بعد پہلی بیوی نے علیحدگی لے لی تھی۔ انہوں نے دوسری شادی ہندوستان میں کی تھی اور بتایا کہ ہم اس دوسری بیوی کی نسل میں سے ہیں۔

مزید مَیں نے استفسار کیا کاغذات کے بارے میں کہ کس طرح مسلمان ہوئے، کب بیعت کی، کس طرح کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے بہت سارے کاغذا ت تھے لیکن آگ لگنے کی وجہ سے وہ سارا ریکارڈ ضائع ہو گیا، کوئی خط کتابت محفوظ نہیں ہے۔ لیکن بہرحال اس بات پر انہوں نے یقینی کہا کہ ان کی موت اسلام کی حالت میں ہوئی تھی اور وہ اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتے رہے تھے۔ اور اس لحاظ سے قیاس کیا جاسکتا ہے کیونکہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی وجہ سے اسلام میں داخل ہوئے تھے اس لئے احمدی ہوئے ہوں گے۔ بہرحال ان کی قبربھی وہاں قریب ہی آکلینڈ میں ایک جگہ پرہے۔ ان کے پوتے اور پوتی کو بھی لٹریچر دیا۔ نیوزی لینڈ کے پریذیڈنٹ صاحب کو بھی کہا کہ ان سے رابطہ رکھیں۔ اللہ کرے کہ ان لوگوں کے دل میں بھی حق کی پہچان کی طرف توجہ پیدا ہو جائے۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍مئی 2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9؍جون2006ءصفحہ8تا9)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘اس وقت خدا تعالیٰ نے مذہبی امور کو قصّے اور کتھا کے رنگ میں نہیں رکھا ہے، بلکہ مذہب کو ایک سائنس (علم)بنادیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ زمانہ کشف ِحقائق کا زمانہ ہے۔ جبکہ ہر بات کو علمی رنگ میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ میں اس لیے ہی بھیجا گیا ہوں کہ ہر اعتقاد کو اور قرآن کریم کے قصص کو علمی رنگ میں ظاہر کروں۔’’

(ملفوظات جلد2صفحہ 174،ایڈیشن 1988ء)

یہ عظیم الشان انقلاب اور تبدیلی آپ کےلیے عظیم الشان رحمتوں اور برکتوں کا باعث بنی اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس دورہ نیوزی لینڈ کے دوران آپ کی قبر پر دعا کےلیے تشریف لے گئے۔

پروفیسر کلیمنٹ ریگ 10؍دسمبر1922ء کو اس جہان فانی سے کوچ کر گئے اور اپنے مولا حقیقی سے جا ملے۔ ان کی قبر کے کتبے پر ان کے بیٹے قسمت کی طرف سے درج ذیل الفاظ کندہ ہیں:

‘‘TO THE MEMORY

OF

MY BELOVED PARENTS

CLEMENT L AND EDRIS WRAGGE

WHO DEPARTED THIS LIFE ON

10th DEC 1922 AND 2nd NOV 1924

RESPECTIVELY

AD TE DOMINE LEVAVI

ERECTED BY THEIR LOVING SON

KISMET ’’

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

‘‘عیسائیت تو خود بخود مٹتی جاتی ہے لیکن بڑا فتنہ اس زمانہ کا دہریت والی سائنس ہے خدانخواستہ اگر اس کو دیر پا مہلت مل گئی تو پھر ساری دنیا دہریہ ہونے کو آمادہ ہو جائے گی۔ سائنس کا اور مذہب کا اس وقت مقابلہ ہے۔ عیسویت ایک کمزور مذہب ہے اس واسطے سائنس کے آگے فوراًگر گیا ہے لیکن اسلام طاقتور ہے۔ یہ اس پر غالب آئیگا۔ انشاء اﷲ تعالیٰ۔’’

(ملفوظات جلد4صفحہ 300، ایڈیشن1988ء)

(نوٹ: اس تحقیق کےدوران خاکسار کوپروفیسر صاحب کے خاندانی مسودات کے حصول کے لیےمکرم شفیق الرحمان صاحب مشنری انچارج نیوزی لینڈ کاخصوصی تعاون حاصل رہا جس پر خاکسار ان کا بے حد ممنون و مشکور ہے۔فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء۔)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button