شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ السلام۔ آپؑ کی تعلیم کا بیان
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کی درس و تدریس کا بیان
آپؑ کی تعلیم
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ فرماتے ہیں :
‘‘انگریزوں کی عملداری کے اوائل میں مدارس کا سلسلہ ابھی جاری نہ ہو ا تھا اورتعلیم کے لیے عام دستور یہی تھا کہ بڑے بڑے رئیس اور صاحب استطاعت لوگ اپنے گھروں پر استاد بطوراتالیق رکھ لیتے تھے۔اور خاندانی لوگوں میں تو یہ رواج بہت مدت تک جاری رہا۔اسی طرح پر مرزا صاحب کی تعلیم کےلیے انتظام کیا گیا۔چنانچہ حضرت مرزا صاحب کی تعلیم کے لیے قادیان ہی کے ایک فارسی خوان استاد کو مقرر کیا گیا۔حضرت مرزا صاحب نے نہایت صاف اور سادے الفاظ میں اپنی تعلیم کا خود تذکرہ کیا ہے …
ان کے مکتب کے بعض طالب علم اپنے استاد سید گل علی شاہ صاحب سے کوئی مذاق بھی کر بیٹھتے۔ان کو حقہ پینے کی بہت عادت تھی۔اور اسی سلسلہ میں بعض شوخ طالب علم مذاق کر لیتے۔مرزا صاحب ہمیشہ ان کا ادب و احترام کرتے۔اور ایسی شرارتوں سے بیزار اور الگ رہتے۔’’
(حیاتِ احمدؑ جلد اول صفحہ 80 تا 82)
حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
‘‘بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلّم میرے لیے نوکر رکھا گیا۔جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الٰہی تھا۔اور جب میری عمر تقریباً دس برس کے ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لیے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خداتعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لیے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا۔مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے۔وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صَرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نَحواُن سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ان کا نام گل علی شاہ تھا۔ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لیے مقرر کیا تھا۔اور ان آخرالذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خداتعالیٰ نے چاہا حاصل کیا اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے اور ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا۔’’
(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 179 تا 181 حاشیہ)
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
‘‘جہاں حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب تعلیم پاتے تھے اس مکتب میں آپ کے طفیل سے اور بچے بھی پڑھتے اور بچے بچے ہی ہوتے ہیں ان میں ہر قسم کی باتیں کھیل کود، ہنسی مذاق کی ہوتی ہیں ۔ان کی عام عادت یہ تھی کہ یہ اپنا سبق آپ پڑھا کرتے تھے۔بعض لڑکوں کا دستور ہوتا ہے کہ وہ صرف سماعت کرتے ہیں قراءت نہیں کرتے مگر حضرت مرزا صاحب ہمیشہ اپنا سبق آپ پڑھتے اور دو یا تین دفعہ کہہ لینے کے بعد جماعت سے اٹھ جاتے اور اوپر بالاخانہ میں چلے جاتے۔وہ بالاخانہ اب تک موجود ہے اور وہاں جا کر اکیلے اس کو یاد کرتے۔اور اگر کچھ بھول جاتا تو پھرنیچے آتے اور استاد سے براہ راست پوچھتے اور پوچھ کر پھر اوپر چلے جاتے۔ان لڑکوں کی کھیل کود اور تفریحوں میں کبھی شریک نہ ہوتے تھے۔ہاں یہ آپ کے عادات میں داخل تھا کہ ان بچوں اور لڑکوں میں سے اگر کسی کو سبق بھول جائے یا نہ آئے تو اس کو بتلا دینے اور یاد کرا دینے میں کبھی بخل سے کام نہ لیتے۔’’(حیات احمد جلد اول صفحہ 213، 214)
پنڈت دیوی رام بیان کرتے ہیں :
‘‘میں 21 جنوری 1875ء کو نائب مدرس ہو کر قادیان گیا تھا مَیں وہاں چار سال رہا۔مَیں مرزا غلام احمد صاحب کے پاس اکثر جایا کرتا تھا اور میزان طب آپ سے پڑھا کرتا تھا۔آپ کے والد مرزا غلام مرتضےٰ صاحب زندہ تھے۔مرزا غلام احمد صاحب ہندو مذہب اور عیسائی مذہب کی کتب اور اخبارات کا مطالعہ کرتے رہتے تھے اور آپ کے ارد گرد کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا تھا۔آپ پانچ وقت نماز پڑھنے کے لیے مسجد خاص (مسجد اقصےٰ مراد ہے۔خاکسار موٴلف) میں جایا کرتے تھے۔
… مرزا صاحب کا ہندوؤں کے ساتھ مشفقانہ تعلق تھا۔مرزا صاحب ہر وقت مذہبی کتب و اخبارات کا مطالعہ کرتے اور انہیں دنیا کی اشیاء میں سے مذہب کے ساتھ محبت تھی۔مرزا صاحب کی خدمت میں ایک لڑکا عنایت بیگ تھا۔اس کو میرے پاس پڑھنے کے لیے بھیجا اور ہدایت فرمائی کہ اس کو دوسرے لڑکوں سے علیحدہ رکھنا تاکہ اس کے کان میں دوسرے لڑکوں کی بُری باتیں نہ پڑیں ۔اور یہ عادات قبیحہ کو اختیار نہ کر لے۔مرزا صاحب بازار میں کبھی نہ آتے تھے صرف مسجد تک آتے تھے اور نہ کسی دکان پر بیٹھتے تھے۔مسجد یا حجرہ میں رہتے تھے۔مرزا صاحب کے والد صاحب آپ کو کہتے تھے کہ غلام احمد تم کو پتہ نہیں کہ سورج کب چڑھتا ہے اور کب غروب ہوتا ہے۔اور بیٹھتے ہوئے وقت کا پتہ نہیں ۔جب مَیں دیکھتا ہوں چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا ہے۔’’ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 759)
انگریزی پڑھنے کا خیال
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں :
‘‘ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ خیال ہوا کہ آپ انگریزی زبان کو سیکھیں ۔انگریزی حروف کو آپ پہچانتے تھے۔مزید تعلیم کے واسطے آپ نے یہ تجویز کی کہ انجیل متی کی عبارت انگریزی کو اردو حروف میں لکھا جائے اور ہر ایک لفظ کے نیچے اس کے معنے دیئے جائیں ۔چنانچہ اس غرض کے واسطے انجیل متی کے دو چار باب کئی ایک انگریزی خوانوں میں تقسیم کئے گئے کہ وہ لکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کریں ۔جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے مفصلہ ذیل احباب کے سپرد یہ کام ہوا۔خواجہ جمال الدین صاحب مرحوم، انسپکٹر مدارس مرزا ایوب بیگ صاحب مرحوم، حافظ محمد اسحاق صاحب انجنیئر اور عاجز راقم۔اس حکم کی تعمیل میں عاجز نے لاہور جا کر ایک موٹے حروف کی انگریزی انجیل خرید کی اور اس کے الفاظ کاٹ کر ایک کاپی پر چسپاں کئے اور ان کے نیچے خوشخط حروف میں ان کا تلفظ اور معنے لکھے۔جب میں یہ دو باب لکھ کر حضرت صاحبؑ کی خدمت میں قادیان لے آیا تو حضور نے اسے بہت ہی پسند کیا اور فرمایا کہ بس اب اَور کوئی شخص نہ لکھے۔اسی طرح پر ساری انجیل مفتی صاحب لکھ کر مجھے دیں ۔
اس انجیل کو کبھی کبھی رات کے وقت فرصت پا کر دیکھا کرتے۔لیکن کچھ عرصہ کے بعد ایک دن سیر میں فرمایا کہ میں نے خود انگریزی پڑھنے کے ارادہ کو ترک کر دیا ہے تاکہ یہ ثواب ہمارے انگریزی خوان دوستوں کے واسطے مخصوص رہے۔’’
عبرانی
‘‘ایسا ہی ایک دفعہ حضرت صاحبؑ نے عبرانی زبان کے سیکھنے کا بھی ارادہ کیا اور حضورؑ کے فرمانے پر میں نے ایک عبرانی قاعدہ اردو میں تالیف کر کے پیشِ نظر کیا جس کو حضرت صاحبؑ گاہے گاہے فرصت کے وقت دیکھا کرتے تھے مگر بعد میں جلدی اس خیال کو بھی چھوڑ دیا۔’’ (ذکرِ حبیب مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 35،34)
عربی
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
‘‘آپؑ نے اپنی جماعت کو عربی سکھانے کے لیے ایک نہایت لطیف تجویز فرمائی جو یہ تھی کہ نہایت فصیح اور آسان عبارت میں کچھ جملے بنائے جنہیں لوگ یاد کر لیں اور اس طرح آہستہ آہستہ ان کو عربی زبان پر عبور حاصل ہو جائے۔اور ان فقرات میں یہ خوبی رکھی گئی تھی کہ وہ ایسے امور کے متعلق ہوتے تھے جن سے انسان کو روز مرہ کام پڑتا ہے اور جن میں ایسی اشیاء کے اسماء اور ایسے افعال استعمال کئے جاتے تھے جو انسان روزمرہ بولتا ہے۔کچھ اسباق اس سلسلہ کے نکلے لیکن بعد میں بعض زیادہ ضروری امور کی وجہ سے یہ سلسلہ رہ گیا۔’’ (سیرت حضرت مسیحِ موعودؑ از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ صفحہ 68، 69)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
‘‘11 اکتوبر 1905ء کو آپؑ کے ایک نہایت مخلص مرید مولوی عبد الکریم صاحب جو مختلف موقعوں پر آپ کے لیکچر سنایا کرتے تھے ایک لمبی بیماری کے بعد فوت ہوئے اور آپ نے قادیان میں ایک عربی مدرسہ کھولنے کا ارشاد فرمایا جس میں دینِ اسلام سے واقف علماء پیدا کئے جائیں تاکہ فوت ہونے والے علماء کی جگہ خالی نہ رہے۔’’
(سیرت حضرت مسیحِ موعودؑ از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ صفحہ 80)
حضرت میاں بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ
‘‘بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے ۔کہ میں بچپن میں والد صاحب یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تا ریخ فرشتہ ،نحو میر اور شائد گلستان ۔بوستان پڑھا کرتا تھا اور والدصاحب کبھی کبھی پچھلا پڑھا ہوا سبق بھی سنا کرتے تھے ۔مگر پڑھنے کے متعلق مجھ پر کبھی ناراض نہیں ہوئے ۔حالانکہ میں پڑھنے میں بے پرواہ تھا لیکن آخر دادا صاحب نے مجھے والدصاحب سے پڑھنے سے روک دیا اور کہا کہ میں نے سب کو ملّاں نہیں بنادینا۔ تم مجھ سے پڑھا کرو مگر ویسے داداصاحب والد صاحب کی بڑی قدر کرتے تھے ۔’’ (سیرت المہدی جلد اول روایت 186)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے مطالعہ کرنے کا بیان(حصہ اوّل)
حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ جب سیالکوٹ میں ملازمت سے واپس آئے تو واپس آ کر اپنی مصروفیت کا نقشہ آپ کچھ یوں کھینچتے ہیں :
‘‘حضرت والد صاحب مرحوم کی خدمت میں پھرحاضر ہوا تو بدستور ان ہی زمینداری کے کاموں میں مصروف ہو گیا مگر اکثر حصہ وقت کا قرآن شریف کے تدبر اور تفسیروں اور حدیثوں کے دیکھنے میں صرف ہوتا تھا۔اور بسا اوقات حضرت والد صاحب کو وہ کتابیں سنایا بھی کرتا تھا۔’’
(کتاب البریّہ، روحانی خزائن جلد13صفحہ187حاشیہ)
ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں :
‘‘مَیں سولہ سترہ برس کی عمر سے عیسائیوں کی کتابیں پڑھتا ہوں اور ان کے اعتراضوں پر غور کرتا رہا ہوں ۔میں نے اپنی جگہ ان اعتراضوں کو جمع کیا ہے۔جو عیسائی آنحضرت ﷺ پر کرتے ہیں ۔ان کی تعداد تین ہزار کے قریب پہنچی ہوئی ہے… اللہ تعالیٰ گواہ ہے اور اس سے بڑھ کر ہم کس کو شہادت میں پیش کر سکتے ہیں ۔کہ جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے۔سولہ یا سترہ برس کی عمر سے عیسائیوں کی کتابیں پڑھتا رہا ہوں ۔مگر ایک طُرْفَۃُ الْعَیْن کے لیے بھی ان اعتراضوں نے میرے دل کو مذبذب یا متأثر نہیں کیا۔اور یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل ہے میں جوں جوں ان کےاعتراضوں کو پڑھتا جاتا تھا۔اسی قدر ان اعتراضوں کی ذلت میرے دل میں سماتی جاتی تھی۔اور رسولِ کریم ﷺ کی عظمت اور محبت سے دل عطر کے شیشہ کی طرح نظر آتا۔’’
(حیاتِ احمد جلد اول صفحہ 398-399)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانیؓ بیان فرماتے ہیں :
‘‘آپ کو مطالعہ کا بہت شوق تھا اور آپ اپنے والد صاحب کے کتب خانہ کے مطالعہ میں اِس قدر مشغول رہتے تھے کہ بارہا آپ کے والد صاحب کو ایک تو اِس وجہ سے کہ آپ کی صحت کو نقصان نہ پہنچے اور ایک اِس وجہ سے کہ آپ اس طرف سے ہٹ کر اُن کے کام میں مددگار ہوں آپ کو روکنا پڑتا تھا۔’’
(سیرت حضرت مسیحِ موعودؑ از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ صفحہ 15)
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے بیان کیا:
‘‘شروع ہی سے آپ کو مطالعہ کتب کا شوق تھا۔چونکہ آپ کا خاندان ہمیشہ سے ایک علم دوست خاندان تھا۔ایک بہت بڑا کتب خانہ بھی آپ کے ہاں تھا جس میں ہر قسم کی کتابیں موجود تھیں ۔آپ اکثر گوشہ تنہائی میں رہتے اور مطالعہ کتب میں مصروف رہتے۔آپ کی عادت شریف میں یہ بات داخل تھی کہ جب آپ کمرہ کے اندر ہوتے تو ہمیشہ دروازہ بند کر کے زنجیر لگا دیتے۔آپ کو مذہبی اور دینی کتب کے مطالعہ کا شوق تھا اور سب سے زیادہ قرآن شریف ہی کو آپ پڑھتے تھے۔مختلف مذاہب کی کتابوں کو بھی پڑھتے۔تاکہ ان کی حقیقت سے واقف ہوں اور اسلام کی حقیقت اور برتری جملہ ادیان پر ثابت کر سکیں ۔
بعثت کے بعد چونکہ آپ کی مصروفیت بہت بڑھ گئی تھی اور سلسلہ کے انتظام اور تالیف و تصنیف کے کاموں سے فرصت بہت ہی کم ملتی تھی اس لیے یہ مطالعہ بھی ضرورتاً کم ہو گیا۔اور ابتدائی زمانہ کے مطالعہ کتب کی کیفیت باقی نہ رہی۔تاہم کوئی عجیب اور نئی کتاب آتی تو آپ اسے پڑھ لیتے اور اگر انگریزی میں ہوتی تو اس کا خلاصہ اور ضروری حصص سن لیتے۔’’
(سیرت مسیح موعودؑ از یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ 77)
حضرت مرزا سلطان احمد صاحبؓ نے بیان کیا:
‘‘والد صاحب کا دستور تھا کہ سارا دن الگ بیٹھے پڑھتے رہتے تھے۔اور اردگرد کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا تھا۔’’
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 193)
آپؑ اپنے بچپن میں مطالعہ کتب کے شوق کے بارے میں خود فرماتے ہیں :
‘‘ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا۔میرے والد صاحب مجھے بار بار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کر نا چاہیے کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے۔اورنیز ان کا یہ بھی مطلب تھا کہ میں اس شغل سے الگ ہو کر ان کے غموم و ہموم میں شریک ہو جاؤں ۔آخر ایسا ہی ہوا۔’’
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 129)
(…………باقی آئندہ)
٭…٭…٭