اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
{فروری2020ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب}
پنجاب میں انتظامیہ کی جانب سے ایک اَور احمدی مسجد حملہ آور ہجوم کےمنتظمین کے حوالےکر دی گئی
کھریپڑ ،ضلع قصور:مورخہ 6؍فروری 2020ء کو یہ افسوس ناک واقعہ رونما ہوا ۔اس واقعہ کے متعلق جماعت احمدیہ پاکستان کے مرکزی دفتر کی طرف سے ایک پریس ریلیز شائع کی گئی۔اس پریس ریلیز کا مکمل متن الفضل انٹرنیشنل کے شمارہ28؍فروری2020ء کے صفحہ24پر شائع کیا جا چکا ہے۔
یا د رہے کہ یہ واقعہ حکومت وقت اور معاشرہ کے احمدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کی مزید 170ظلم کی داستانوں میں سے ایک ہے۔ ان واقعات کی مختصراً تفصیل پیش ہے ۔
٭…مسمار شدہ احمدیہ مساجد :29
٭…حکام کی طرف سے سِیل کی گئی مساجد :40
٭…نذر آتش یا جزوی طور پر نقصان پہنچائی جانے والی مساجد :25
٭…زبردستی قبضہ میں لی جانے والی مساجد :18
٭…حکام کی جانب سے مساجد کی تعمیر روکے جانے کی تعداد:59
پولیس کی جانب سے احمدیوں کی قبروں کی بےحرمتی
چک2/TDA،ضلع خوشاب،27؍ 28؍ فروری 2020ء: مورخہ 27؍ اور 28؍ فروری کی درمیانی شب پولیس نے جماعت احمدیہ چک نمبر 2 ٹی ڈی اے ضلع خوشاب کے قبرستان میں تین احمدیوں کی قبروں کے کتبوں کو توڑ دیا ۔
تفصیلات کے مطابق سید علی شاہ بخاری صدر انجمن تحفظ ناموس رسالت نے ڈپٹی کمشنر خوشاب کومکرم سلطان احمد صدر جماعت احمدیہ ،مکرم رانا رفیق احمد اور بعض دیگر نامعلوم احمدیوں کے خلاف درخواست دائر کی کہ احمدیوں نے قبروں کے کتبوں پر “بسم اللہ”‘‘صحابی”‘‘یا اللہ”‘‘یا محمد” جیسی اسلامی اصطلاحات لکھ کرتوہین رسالت کی ہے ۔ڈی سی نے یہ معاملہ مٹھہ ٹوانہ کے SHOکو بھیج دیا جس پر SHOنے مذکورہ احمدیوں سے جواب طلبی کی۔احمدیوں نے بتا یا کہ یہ قبریں بہت پرانی ہیں ۔ SHOنے اپنی رپورٹ ڈی سی کو بھجوا دی نیز مذکورہ گاؤں کے نمبردار کی مدد سے تین احمدیوں کی قبروں کے کتبے توڑ کر احمدیوں کو اس کی اطلاع کر دی۔
پولیس کی جانب سے جن تین احمدیوں کی قبروں کے کتبوں کی بے حرمتی کی گئی ان کے نام درج ذیل ہیں ۔1۔مکرم رانا سیف الرحمٰن 2مکرم رانا عنایت اللہ اور 3۔ مکرمہ مسرت بانو ۔
اس گاؤں میں 6احمدی خاندان آباد ہیں اور احمدیوں کے قبرستان میں 50قبریں ہیں ۔یہاں کچھ عرصہ قبل مقامی انتظامیہ نے احمدیہ مسجد کو غیر احمدیوں کے حوالے کر دیا تھا جبکہ عدالت میں اس حوالہ سے کیس جاری تھا۔
SHO نے بتا یا ہے کہ ایک اور درخواست احمدیہ قبرستان جماعت احمدیہ روڈہ کے خلاف بھی اسے موصول ہوئی ہے۔ اس قبرستان میں 100سے زائد احمدیوں کی قبریں ہیں ۔یہ درخواست جس مخالف احمدیت نے جمع کروائی ہے وہ ملّا اطہر حسین شاہ کا بیٹا ہے جو جماعت کا سخت مخالف تھا اور تخت ہزارہ میں ہونے والے جماعت مخالف فسادات کا سر پرست تھا۔ان فسادات میں 5 احمدی شہید ہوئے تھے۔یہ ملا خوشاب ضلع میں جماعت کی مخالفت میں اپنی وفات تک نہایت سرگرم رہا۔
معصوم احمدی بچے کا ہمسایوں کے ہاتھوں نہایت ظالمانہ طریق پر قتل
شاہدرہ،لاہور:27؍فروری2020ء:27؍فروری 2020ء کو ایک احمدی بچے تنزیل احمد بٹ ابن عقیل احمد بٹ کو ہمسایوں نے قتل کر دیا۔بچےکی لاش ساتھ ان ہی کے گھر سے سٹیل کے ٹرنک سے برآمد کی گئی۔
تنزیل احمد کی والدہ نے اسے ہمسایوں کی طرف سے اپنی بہن کی گڑیا واپس لانے کے لیے بھیجا جو وہاں بھول آئی تھی۔ایک لمبے انتظار کے بعد تنزیل احمد جب گھر واپس نہ لوٹا تو اس کی والدہ مذکورہ ہمسایوں کے گھر گئی ۔چنانچہ پہلی مرتبہ تو ہمسایوں نے دروازہ ہی نہ کھولا لیکن کئی مرتبہ دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد جب انہوں نے دروازہ کھولا تو ان سے بچے کے متعلق پوچھا گیا جس پر انہوں نے اس کے متعلق لاعلمی کا اظہار کر دیا اور سخت الفاظ کا بھی استعمال کیا۔مذکورہ گھر کے فرسٹ فلو ر میں کرائے دار رہتے ہیں جبکہ گراؤنڈ فلور میں گھر کی مالکن اپنے لڑکے کے ساتھ رہتی ہے ۔کرائے دار خاتون نے اپنے خاوند کو بھی اس کے کام سے گھر واپس بلا لیا اور کچھ احمدی اور تنزیل کے رشتہ دار بھی موقعہ پر پہنچ گئے ۔انہوں نے جب سی سی ٹی وی فوٹیج چیک کی تو اس میں تنزیل کو مذکورہ گھر سے باہر آتے ہوئے نہ دیکھا جس سے شک یقین میں بدل گیا۔اس پر پولیس کو اطلاع کی گئی ۔پولیس نے آکر تفتیش شروع کی تو بچےکی لاش کو ٹرنک سے برآمد کرا لیا گیا۔بچہ کے جسم پر بہیمانہ تشدد کے نشانات تھے اور ایک کپڑے کو اس کے منہ میں دھونسا گیا تھا۔ نیز سر سے خون بہہ رہا تھا۔پولیس کے آنے سے پہلے کرائے دار خاتون نے ٹرنک کو فرسٹ فلور سے گراؤنڈ فلور میں شفٹ کر دیا تھا تاکہ اس کو کسی اَور جگہ ٹھکانے لگایا جا سکے تاہم گھر سے باہر دیگر لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔
قاتل خاتون کے شوہر نے اپنے بیان اول میں الزام لگا یا کہ مذکورہ بچے نے ڈیڑھ سال قبل اس کی ڈیڑھ سالہ بیٹی کو جنسی طور پر ہراساں کیا تھا ۔ بلاشبہ یہ ایک جھوٹا اور بے بنیادالزام ہے کیونکہ مقتول کی عمر اس وقت صرف ساڑھے نو سال تھی ۔پولیس نے ملزمان کو گرفتار کر لیا ۔
اس واقعے کے بعد جب علاقے کےمکین متاثرہ خاندان کے گھر افسوس کے لیے آتے رہے تو جس گھر میں بچہ کو قتل کیا گیا تھا اس کی مالکن لوگوں کو کہتی رہی کہ متاثرہ احمدی خاندان ایک “ملحد’’گھرانہ ہے ۔
بلاشبہ یہ دل دہلا دینے والاواقعہ ہے۔ پاکستان میں ایسے عناصر موجود ہیں جو کھلے عام احمدیوں کو واجب القتل قرار دیتے ہیں بلکہ بعض تو برملا یہ اعلان کرتے ہوئے پائے گئے کہ
“احمدی واجب القتل ہیں اور جو بھی کوئی انہیں قتل کرےگا میں اس کے اخراجات برداشت کروں گا اور ایک مہینہ کے اند ر اندر اس کو رہا کروا لوں گا۔”
گورنمنٹ سروس میں بڑھتی ‘مذہب’ کی اہمیت
اسلام آباد،پاکستان: پاکستان میں تقریباً تمام پڑھے لکھے افراد بانی پاکستان محمد علی جناح کے درج ذیل مشہورِ زمانہ الفاظ کا علم رکھتے ہیں کہ :
‘‘آپ کا تعلق کسی مذہب ، ذات یا عقیدے سے ہو امور مملکت کو اس سے کوئی سروکار نہیں…آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں”
(دستور ساز اسمبلی سے خطاب 11؍ اگست 1947ء)
اس واضح ہدایت کے 70سال بعد بعض سرکاری اہل کار اپنے آپ کو محمد علی جناح سے زیادہ عقل مند خیال کرتے ہیں ۔ چنانچہ ایئر پورٹ سیکیورٹی فورس کے عمائدین انہی میں سے ایک ہیں ۔ اس فورس میں بھرتی ہونے کے لیے درخواست گزار کو اپنے مذہب ،فرقہ ،ذات کے متعلق بھی معلومات فراہم کرنا ہوں گی ۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایئر پورٹ سیکیورٹی فورس میں بھرتی ہونے کے لیےمذکورہ بالا معلومات کی کیا ضرورت ہے؟ جبکہ بانی پاکستان نے تو نہایت واضح طور پر فرما دیا تھا کہ “آپ کا تعلق کسی مذہب ، ذات یا عقیدے سے ہو امور مملکت کو اس سے کوئی سروکار نہیں”
احمدی کی دکان نذرآتش
مصطفیٰ آباد ضلع قصور:16؍فروری2020ء: مقامی جماعت کے صدر غلام نبی نے جو کہ فرنیچر کے کاروبار سے منسلک ہیں 16؍فروری کو کچھ فرنیچر پینٹ کر کے اپنی دکان میں رکھا اور دکان سے پینٹ کی بدبو ختم کرنے کی غرض سے دروازے کھلے چھوڑ دیے۔ تقریباً نصف شب 4 نقاب پوش افراد دکان میں داخل ہوئے اور موصوف کو زدوکوب کیا اور دکان کو آگ لگا دی ۔
ان کا کہنا تھا کہ “ہم نے پہلے بھی تمہیں دکان چھوڑنے کی تنبیہ کی تھی ۔ہم کسی قادیانی کو کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔’’
موصوف نےکچھ مقامی افراد کی مدد سے آگ بجھائی۔ اس آگ کے سبب انہیں کافی مالی نقصان اٹھا نا پڑا۔واضح رہے کہ کچھ دن قبل چنداجنبی افراد دکان پر آئے تھے اور انہوں نے آکر احمدیت کو زیر بحث لاتے ہوئے موصوف کو دھمکیاں بھی دی تھیں جس کی بروقت اطلاع پولیس کو کر دی گئی تھی جس پر پولیس نے حفاظتی اقدامات کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اس سانحے کی اطلاع بھی پولیس کو کر دی گئی ہے ۔
احمدی طالبعلم کو درپیش مشکلات
اسلامیہ یونیورسٹی ،بہاولپور 6؍فروری 2020ء: طوبیٰ اظہر جو کہ ایک احمدی ہیں اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ سائیکالوجی میں زیر تعلیم ہیں ۔ان کی رہائش وہاں پر ایک ہوسٹل میں ہی ہے ۔ یونیورسٹی کے پانچ لیکچراروں نے موصوفہ کو بلا کر ان سے ان کے احمدی ہونے کے بارے میں پوچھا ،جس پر موصوفہ نے اثبات میں جواب دیا۔ اس پر ان لیکچراروں نے انہیں کہا کہ وہ کافر ہیں اور اگر انہوں نے اسلام قبول نہ کیا تو انہیں یونیورسٹی میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے نیز اگر رات تک وہ مسلمان نہ ہوئیں تو انہیں امتحان دینے کی بھی اجازت نہ ہو گی ۔اس مشکل صورت حا ل میں موصوفہ نے اپنے والد سے رابطہ کر کے انہیں صورت حال سے آگاہ کیا ۔ان کے والد نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے رابطہ کیا جنہوں نے تعاون کی مکمل یقین دہانی کروا دی ہے۔
تعلیمی ادارہ جات میں بڑھتی شدت پسندی
مریدکے ،ضلع شیخوپورہ: 31؍جنوری 2020ء کو النور گروپ آف کالجز اینڈ اکیڈمیزکی طرف سے ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔یہ اکیڈمی علاقہ میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہے اور یہاں 1200 کے قریب طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ اس کانفرنس میں طلباء کے سامنے ملا عرفان محمود برق اور قاری زوار حسین نے جماعت کے خلاف تقاریر کیں اور نہایت لچر قسم کے اعتراضات جماعت پر لگاتے ہوئے حاضرین کو جماعت کے خلاف اکسایا۔اس کیمپس میں احمدی بھی زیر تعلیم ہیں ۔اس کانفرنس کے بعد احمدی طلباء کے لیے کافی مشکل صورت حال پیدا ہو گئی اور کانفرنس کے اگلے ہی روز عقیدہ کے متعلق انہیں اپنے کلاس فیلوز کی جانب سے مختلف قسم کے سوالات پوچھے جانے لگے ۔فرسٹ ائیر کی احمدی طالبہ کو اس کی ٹیچر نے ‘اسلام’ قبول کرنے کی پر زور ‘دعوت’ دی۔ اسی طرح کی صورت حال سے ایک اور احمدی طالب علم نایاب احمد کو دوچار ہونا پڑا اسی طرح احمدی طالبعلم رضا مخالفانہ فضا کی وجہ سے اگلے کئی روز تک کیمپس نہ جا سکے۔
یاد رہے کہ چند روز قبل عقیدے کو بنیاد بناتے ہوئے ایک احمدی ٹیچر کو اسی کیمپس میں ملازمت سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭