اصل خزانہ گھر میں ہے
عبید اللہ علیم صاحب دبستانِ احمدیہ ہی کے نہیں، دنیائے اردو کے عظیم شعرا میں سے تھے۔ ان کے کلام، ان کے فن اور ان کی زندگی پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، اور یوں بھی ان کے فن کی عظمت مسلمہ ہے اور اس پر ادب کے مجھ جیسے ادنیٰ طالبِ علم کا کچھ لکھنا ضروری نہیں۔
مجھے تو آج علیم صاحب کی بہت یاد آئی سو یہ سطور لکھنے بیٹھ گیا۔ گھر کی چاردیواری میں بیٹھ کر کیا کیا اور کون کون یاد نہیں آرہا؟ تو علیم صاحب کے ساتھ مجالس بھی گزشتہ دنوں خوب یاد آئیں، مگر سب سے بڑھ کر یہ ہوا کہ ان کی ایک غزل کے حقیقی معانی سمجھ میں آگئے۔
آج تک توہم اس غزل کو ادبی حوالے سے سراہتے آئے، مگر آج جب گھروں میں گویا محصور کردیے گئے، تو یوں لگا کہ علیم صاحب کی یہ غزل زندہ ہو کر سامنے آکھڑی ہوئی ہے۔
دنیا کے اکثر ملکوں میں حکومتی اربابِ اختیار نے حکم صادر کر دیا کہ سب گھروں میں بیٹھ رہو۔ کوئی باہر نہ نکلے۔ بھلے ہی اس سے کاروبار برباد ہوجائیں، بھلے ہی اس سے عالمی منڈی برباد ہو کر رہ جائے۔ مگر اس وقت ضروری ہے کہ گھر میں بیٹھ جایا جائے۔یعنی یہ کہہ دیا کہ
باہر کا دھن آتا جاتا، اصل خزانہ گھر میں ہے
ہر دھوپ میں جو مجھے سایہ دے، وہ سچا سایہ گھر میں ہے
اب باہر کے دھن کو چھوڑ چھاڑ کر جب گھر بیٹھ گئے اور عالمی وبا کی زہریلی دھوپ میں گھر میں پناہ لے لی، تو کھلا کہ یہ سچا سایہ کس قدر پرسکون ہے۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کام گھر سے بھی ہوسکتے ہیں۔مگر اب جب مجبوری نے گھیر لیا اور گھر سے کام کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا تو معلوم ہوا کہ گھرکی نعمت کام کرنے کے لئے بھی سایہ مہیا کردیتی ہے۔
اب جو گھر بیٹھ رہے تو وہ دوڑیں بھی یاد آئیں جو ہر صبح ہم اپنے کام پر پہنچنے کے لئے لگاتے ہیں۔ وہ عجلتیں جو ہر صبح کام کی تیاری کے دوران دامن گیر ہوتی ہیں۔ میں نے نہانا تھا، غسلخانے میں کون چلا گیا؟ میری جرابیں کہاں رکھ دیں؟ ناشتہ بنا دو یا نہیں بن سکتا تو بتا دو! گاڑی کی چابی کہاں رکھ دی؟ یہ سب اور پھر دفتر پہنچ کر سارا دن کام اورپھر شام کو گھر واپسی۔ ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے صبح گھر سے نکلتے وقت اللہ کا شکر ادا کیا ہو کہ گھر جیسی عظیم نعمت میں رات بسر کرنے، سکون حاصل کرنے، ناشتہ کرنے کے بعد ہم اس سے دن بھر کے لئے وداع ہوتے ہیں۔ پھر شام کو گھر پہنچ کر یہ شکر کہ اے اللہ! کمال کی نعمت عطا فرمائی ہے جہاں ہم دن بھر کی دوڑ دھوپ کے بعد واپس آکر پناہ گزین ہوسکتے ہیں۔ ہم باہر جو بھی بنے پھریں، گھر میں وہ سب لبادے اتار کر اصل سکون حاصل کرپاتےہیں۔ کتنی بار اس شخص کے شکر گزار ہوئے جو صبح کی عجلت میں ناشتہ تیار کردیتا ہے۔ جو دن بھر ہمارے گھروں کو صاف ستھرا رکھنے کی خاطر کاموں میں جتا رہتاہے۔ جو وہ کھانا تیار کرتا ہے جو شام کو تھکے ماندوں کے سامنے پروسا جاتا ہے۔
کیا سوانگ بھرے دولت کے لئے، عزت کے لئے شہرت کے لئے
سنو شام ہوئی اب گھر کو چلو، کوئی شخص اکیلا گھر میں ہے
گھروں میں مقید ہو کر یہ بھی کھلا کہ یہ شخص، کہ جسے ہاؤس وائف کا لقب دیا جاتا ہے، ہم سے کہیں زیادہ محنت کرنے والا شخص ہے۔ جسے کبھی کبھی یہ طعنہ بھی دیا جاتا ہے کہ میں تھکا ہارا واپس آیا ہوں، یہ تو کر دینا تھا، وہ تو کردینا تھا۔ یہ بھی نہیں کیا، وہ بھی نہیں کیا۔ وہ شخص کس طرح دن بھر ایک کام کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے کام میں مسلسل مصروف رہتا ہے، یہ راز گھر میں رہ کر ہی کھلا۔ شاید ہم سے زیادہ ہی کام کرلیتا ہو۔
پس ہمارے تمام سوانگ اپنی جگہ، مگر اس دورِ گھر کاری(اگر ایسی کوئی اصطلاح ہے) میں اس گھر داری کی قدر بھی آئی جو ہمارے جیون ساتھی سارے گھرانےکی محبت میں دن بھر کرتے رہتے ہیں۔
اس ملک میں سکونت اختیار کیے اٹھارہ سال کا طویل عرصہ ہونے کو آیا۔ جب گزشتہ دنوں شہر بندی اور قرنطینہ کے بادل منڈلانے لگے اور گھروں میں محصور ہونے کے حکم نامے زیر غور آئے، تو جب تک گھروں سے نکل کر کام پر جانے کا سلسلہ جاری رکھ سکتے تھے، کاموں پر پہنچ جاتے رہے۔ مگر جب گھر کاری کی نصیحت نے حکم کا درجہ اختیار کر لیا توچار و ناچار دفتری امور گھر سے انجام دینا پڑے۔ پہلا دن جو صبح سے شام تک گھر پر گزارا تو خیال آیا کہ پچھلے اٹھارا سال میں یہ پہلا دن ہے جس کا ہر لمحہ گھر کے اندر بسر کیا ہے۔جس عرصہ میں ایک نسل پیدا ہوکر باقاعدہ جوان ہوگئی، اس سارے عرصہ میں ایک بھی دن ایسا نہیں تھا کہ ہم گھر کے اندر بیٹھے رہ گئے ہوں؟ یہ خیال حیرت کا شکار کرتا رہا۔
بہر حال اب قانون نے ہمیں باندھ کر گھر بٹھا دیا۔انشاء اللہ حالات جلد بہتر بھی ہوں گے اور ہم اپنے کاموں پر واپس بھی جائیں گے۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ اس وبا اور اس کے ساتھ آنے والے نرالے قوانین نے یہ سکھا دیا کہ
دنیا میں کھپائے سال کئی، آخر میں کُھلا احوال یہی
وہ گھر کا ہو یا باہر کا، ہر دکھ کا مداوا گھر میں ہے
اور جو علیم صاحب نے یہ لکھا کہ
اک ہجر زدہ بابل پیاری، تیرے جاگتے بچوں سے ہاری
اے شاعر کس دنیا میں ہے تو، تیری تنہا دنیا گھر میں ہے
تو اس شعر کے بھی کئے رنگ ڈھنگ دیکھنے کو ملے ہیں۔ بعضوں کو یہ معلوم ہوا کہ یہ ہجر زدہ بابل پیاری صرف شام ہو کی نہیں بلکہ دن بھر اس جدید دور کے بچوں سے ہاری رہتی ہے۔ اور یہ بچے بھی جو سکول کے دنوں میں منتوں سماجتوں سے بھی اٹھ کرہی نہیں دیتے، گھر میں محصوری کے ان ایام میں صبح سویرے جاگ جاتے ہیں اور رات گئے جاگے رہتے ہیں۔ صرف بابل پیاری ہی نہیں، بلکہ پیا جی بھی ان سے ہار جاتے ہیں۔کچھ پر یہ بھی کھلا کہ اس دور میں یہ ہجر زدہ بابل پیاری اتنی تنہا بھی نہیں رہی۔ یوٹیوب، نیٹ فلکس اور چوبیسوں گھنٹوں چلنے والے چینل انہیں تنہا کہاں رہنے دیتے ہیں؟
مگر اس سب کا جو نتیجہ نکلا، وہ مثبت اور حوصلہ افزا ہی ہے۔ گھروں سے باہر وقت کھپانے والے گھر بیٹھ رہے۔ بچوں کو وقت گزاری کے لئے نت نئے طریقے تلاش کرنے پڑے۔ اور ہجر زدہ بابل پیاریاں ٹی وی اور موبائل فون کو خود سے جدا کر کےاپنے بچوں اور گھر والوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے لگیں۔
نمازیں ساتھ ادا ہو رہی ہیں۔ مفید کتب پڑھ کر ایک دوسرے کو حاصلِ مطالعہ کے طور پر کچھ سنایا بتایا جارہا ہے۔ جمعے کی نماز ساتھ ادا ہوتی ہے اور اس کے خطبہ میں کوئی مفید بات سب کے علم میں آجاتی ہے۔ گھر میں بیٹھ رہنے کی وجہ سے خوراک میں حفظانِ صحت کا خیال رکھا جارہا ہے۔ صحن کشادہ ہے تو اس میں بچے ہی کھیل کود نہیں کررہے، بلکہ بڑے بھی چہل قدمی کرکے صحت کا خیال رکھے ہوئے ہیں۔ ٹی وی پرایم ٹی اے پہلے سے زیادہ چل رہا ہے۔
ایساہے جیسے سب گھر والوں نے ایک دوسرے سے نئے سرے سے تعارف حاصل کیا ہے۔
سچ ہی توکہا ہے کہ اصل خزانہ گھر میں ہے۔
ماشاءاللہ
بہت خوب
عبیداللہ علیم صاحب میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔
آجکل محصوری کے ایام کا ذکر بھی خوب کیا۔ جس کو آج کل سب ہی محسوس کر رہے ہیں۔ کہ اصل خزانہ تو گھر میں ہے۔
عبید اللہ علیم صاحب پر خدا تعالیٰ اپنی بہت رحمتیں نازل فرمائے ا،ور آپ کو بہترین جزائے خیر عطا کرے کہ آپ نے اس نظم کے حقیقی معنیٰ کو کو بہت پرلطف و دلفریب طور پر اس سادہ و دلنشیں مضمون میں بیان کیا۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ