الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
آنحضرت ﷺ ہمارے لیے کامل نمونہ ہیں
ڈنمارک کے ایک اخبار میں اکتوبر 2005ء کو 11 مصوّروں کی بنائی ہوئی 12مسخ شدہ تصاویر ہمارے آقا و مولیٰ سید المطہرین ﷺ کے بارے میں شائع کی گئیں۔جن کے ذریعہ آنحضور ﷺ اور اسلام پر دو قسم کے اعتراض کیے گئے۔ ایک یہ کہ اسلام آزادیٔ ضمیر کا قائل نہیں بلکہ بانی ٔ اسلام ڈرا دھمکا کر اور تشدّد کی راہ سے فیصلے کیا کرتے تھے۔ دوسرا اعتراض یہ کہ نعوذباللہ نبی اکرم ﷺ عورتوں کے دلدادہ تھے اور اسی لیے آپ نے متعدد شادیاں کیں ،وغیرہ۔ان اعتراضات کے ردّ میں ماہنامہ ’’مشکوٰۃ‘‘ قادیان جون و جولائی 2012ء میں مکرم لئیق احمد طاہر صاحب مبلغ سلسلہ برطانیہ کی ایک تقریر شامل اشاعت ہے جو انہوں نے 2006ء کے جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر کی۔
تاریخ اسلام کایہ واقعہ زرّیں حروف میں لکھنے کے قابل ہے کہ سن 4 ہجری میں بنو نضیر کو اُن کی چیرہ دستیوں اور غداری کے نتیجے میں اُن کی اپنی درخواست پر حضور نبی پاک ﷺ نے خیبر جانے کی اجازت دے دی جبکہ وہ اپنی شریعت کی رُو سے واجب القتل تھے۔ انہیں حضور نبی پاک ﷺ کے وعدوں پر اس قدر اعتماد تھا کہ و ہ مسلمانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے ہاتھوں اپنے گھر مسمار کرکے تمام قیمتی سامان اپنی سواریوں پر لا د کر بینڈباجے بجاتے ہوئے خیبر کو روانہ ہوئے۔ کیا اس مثال کو دیکھتے ہوئے کوئی شخص یہ کہہ سکتاہے کہ اسلام میں آزادیٔ ضمیر کا فقدان ہے اور برداشت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
فتح مکہ کے موقعہ پر حضور نبی پاک ﷺ نے یہ ہدایات دی تھیں کہ سوائے اپنے دفاع کے کسی شخص پر حملہ نہ کیا جائے۔ نیز ابتداء میں گیارہ افراد کے سابقہ جرائم کی بنا پر واجب القصاص قرار دیا۔ پھر اُن کی تعداد چھ کر دی گئی (چار مرد اور دو عورتیں)۔ اور بالآخر چار مردوں میں سے صرف ایک ‘ابن اخطل’ قتل کیا گیا وہ بھی اس لیے کہ اسلام قبول کرلینے کے بعد اُس نے اپنے غلام کو صرف اس لیے قتل کر دیا کہ اس نے وقت پر کھانا تیار نہیں کیا تھا۔ قتل کے بعد وہ مکّہ بھاگ آیا تھا۔ باقی تین میں سے ایک عکرمہ بن ابی جہل تھا جو بارہا مسلمانوں کے خلاف جنگ کر چکا تھا اور صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں کے حلیف بنو خزاعہ پر حملہ کرکے بڑا خون خرابہ کیا تھا۔ دوسرا شخص ہبار بن اَسود تھا جس نے حضرت صاحبزادی سید ہ زینبؓ پر مکّہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے موقعہ پر نیزہ سے حملہ کیا۔ وہ اونٹ سے نیچے گریں اور اُن کا حمل ساقط ہوگیا اور بالآخر مدینہ پہنچ کر اسی صدمے سے وفات پا گئیں۔ یہ پہلو کس قدر سبق آموز ہے کہ جہاں نبی پاک ﷺ نے ایک غریب غلام کے قاتل کو معاف نہیں فرمایا وہاں اُس رحمت ِعالم ﷺ نے اپنی نور نظر سیدہ زینب ؓکے قاتل کو معاف فرما دیا۔
تیسرا شخص جس کے قتل کا آپ نے حکم دیا اورپھر اپنافیصلہ واپس لے کر اس کی جان بخشی کی۔وہ کاتب وحی عبداللہ بن ابی سرح تھا۔اس نے یہ کہنا شروع کر دیاتھا کہ وحی تو میرے پاس آتی ہے اور محمدؐ مجھ سے سُن کر لکھوا دیتا ہے۔
اسی طرح دو عورتوں میں سے صرف ایک عورت کو قتل عمد کے جرم میں سزائے موت دی گئی۔اور دوسری عورت ہندہ زوجہ ابوسفیان جس نے حضرت حمزہ کا کلیجہ چبایا تھا اور ان کے ناک کان وغیر ہ کو کاٹ کر ہار بنا کر اپنے گلے میں پہنا تھا اسے بھی معاف فرما دیا۔ حتی کہ وحشی جس نے حضرت حمزہؓ کو برچھی مارکر شہید کردیاتھااورنعش کی بے حرمتی کی تھی اسے بھی معاف فرما دیا۔
فتح مکہ کے موقع پر صفوان بن اُمیّہ کو بھی آپؐ نے قتل کرنے کاحکم دیا تھا۔ یہ مکّہ سے جدّہ بھاگ گیا تا سمندر کے راستہ یمن چلا جائے۔ اُس کے عزیز عمَیر بن وھب الجمعی نے اس کی جان بخشی کی درخواست کی جو حضور نے فوراً قبول فرما لی۔ عُمَیر نے عرض کیا کہ جب تک حضور اپنی کوئی نشانی نہ دیں گے وہ میر ی بات پر یقین نہیں کرے گا۔ نبی پاک ﷺ نے اپنی دستار مبارک عطا فرمائی۔ چنانچہ صفوان جدّہ سے واپس آگیا اور نبی پاک ﷺ سے کہنے لگا اے محمدؐ! کیا آپ نے مجھے معاف کردیاہے جبکہ مَیں نے اسلام قبول کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔فرمایا : ہاں،مَیں نے معاف کردیاہے۔
کچھ عرصہ کے بعد غزوۂ حنین کا واقعہ پیش آیا۔ نبی پاک ﷺ نے صفوان سے 100زرہیں مانگیں۔ آپؐ کی بخشش اور درگزر نے اُسے بے خوف تو پہلے ہی کر دیا تھا۔ بڑی بے باکی سے بولا : اے محمد! میرا مال زبردستی غصب کرنا چاہتے ہو؟فرمایا: نہیں نہیں، عاریۃً اپنی ضمانت پر مانگ رہا ہوں۔ فتح حنین کے بعد اُس نے مال غنیمت کے جانوروں سے پوری وادی بھری ہوئی دیکھی تو کہنے لگا اے محمد! اتنا مال کیا کروگے؟ فرمایا: یہ سارا تم لے لو۔
فتح مکّہ کے موقعہ پر نبی پاک ﷺ کے عفوو درگزر، خُلقِ کریم او ر وسیع حوصلہ کو دیکھ کر ہزاروں اہل مکّہ ایمان لے آئے۔ آپؐ نے کسی کو جبراً مسلمان نہ بنایا۔ اگر بزور مسلمان بنانا ہی تھا تو پھر یہ اعلان کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ جوشخص اپنے گھر کے اندر رہے اس کی جان و مال محفوظ ہیں، جو خانہ کعبہ میں جا کر پناہ لے لے ،جو ابوسفیان کے گھر میں چلا جائے اور جو بلا ل کے جھنڈے تلے آجائے وہ بھی محفوظ ہے۔
فتح مکّہ کے موقع پر وہ مہاجرین نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جن کے گھروں پر اہل مکّہ نے زبردستی قبضہ کر لیا تھا۔ لیکن حضور نبی پاکؐ نے ان کے گھر واپس دلوائے جانے کی درخواست ردّ فرمادی۔
فتح مکّہ کے موقعہ پر حضرت سعد ؓبن عبادہ کو نبی اکرم ﷺ نے انصار کا جھنڈادیا ہوا تھا۔ انہوں نے جوش میں آکر یہ نعرہ لگادیا کہ آج کفّار ِمکّہ ذلیل کیے جائیں گے۔ آپؐ نے فوراً انہیں عَلم بردار ی کی عزت اور فخر سے محروم کردیا اور فرمایا کہ آج کے دن کوئی شخص ذلیل نہیں کیا جائے گا۔ نیز عاجزی اور انکساری سے آپؐ کا سر جھکتے جھکتے سواری کے کجاوہ سے جا لگا تھا۔
جب ملک شام فتح ہوا تو ایک دن صحابی ٔ رسول حضرت سہلؓ بن حنیف اور قیسؓ بن سعد کے پاس سے ایک عیسائی کا جنازہ گزرا۔ یہ دونوں اصحاب اسے دیکھ کر تعظیمًا کھڑے ہوگئے۔ایک مسلمان نے جو آنحضرت ﷺ کا صحبت یافتہ نہیں تھا حیران ہو کر کہا کہ یہ تو ایک عیسائی کا جنازہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں مگر آنحضرتﷺ کا یہی طریق تھا کہ آ پ غیر مسلموں کا جنازہ دیکھ کرکھڑے ہوجاتے تھے۔
قبول اسلام سے پہلے مُغیرہ بن شعبہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کسی تجارتی سفر پر روانہ ہوئے۔ راستہ میں ساتھیوں کو قتل کرکے مدینہ بھاگ آئے۔ اور سارا مال نبی پاک ﷺ کے قدموں میں ڈال کر کلمہ پڑھ لیا۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا : اے مغیرہ ! تیرایہ مال دھوکہ سے کمایا گیا ہے، ہمیں اس مال کی حاجت نہیں۔
ایک قبیلہ کا سفیر مدینہ آیا۔ حق سفارت ادا کرنے کے بعد اس نے مدینہ میں رُک کر اسلام قبول کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ فرمایا یہ سفارت کے آداب کے خلاف ہے۔ پہلے واپس جائو،اپنا کام مکمل کرو۔ پھرجب چاہو اسلام قبول کر لینا۔
ابوسفیان نے غزوہ احزاب کا بدلہ لینے کے لیے چند نوجوانوں کو لالچ دے کر نبی کریم ﷺ کے قتل پر آمادہ کیا۔ ایک نے حامی بھری اور خنجر چھپا کر مدینہ آیا۔ آنحضور ﷺ کی نظر اُس پر پڑی تو دیکھتے ہی فرمایا اس کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ ایک انصار ی رئیس اُسَید بن حُضَیر لپک کراس سے چمٹ گئے اور اُس کا چھپا ہوا خنجر نکال لیا۔ وہ نوجوان خوف سے کانپنے لگ گیا اور جان بخشی کے لیے منّت کرنے لگا۔ آنحضورﷺ نے فرمایا :اگر سچ سچ بتا دو کہ کس نیت سے آئے تھے تو معاف کر دیں گے۔ اُس نے ابوسفیان کے منصوبہ سے آگاہ کیا تو حضورؐ نے اُسے فوراً معاف فرما دیا۔ وہ نوجوان مدینہ میں کچھ دن رہ کر اسلام لے آیا۔
طائف میں وہاں کے سرداروں نے پتھر مار مار کر آپؐ کو لہو لہان کردیاتھا۔ فتح مکّہ کے بعد جب غزوہ حنین اور غزوہ اَوطاس ہوئیں تو طائف سے بڑی تعداد میں فوجیں دشمن کی مدد کے لیے آئیں۔ لیکن شکست فاش کے بعد طائف میں اپنے قلعوں میں محصور ہو گئیں۔ نبی پاک ؐنے ان کا محاصرہ کر لیا۔ چند دن کے محاصرہ کے بعد کسی طرح نبی پاک ﷺ کو اطلاع ملی کہ محاصر ہ کی وجہ سے دشمن ہلاکت کے قریب پہنچ گیا ہے۔ نبی پاکؐ نے فورا ًمحاصر ہ اٹھا لینے کا فیصلہ فرمایا۔ صحابہ نے جنگی اصولوں کے پیش نظر عرض کیا کہ حضوؐر! اب یہ مجبور ہو چکے ہیں اور قلعہ فتح ہونے ہی والا ہے۔ لیکن وہ جو ماں باپ سے بڑھ کر شفیق تھا ان جانی دشمنوں کو یوں بھوک کے ہاتھوں تڑپتے ہوئے نہ دیکھ سکا۔ آپ ؐ نے صحابہ کے مشورہ کو ردّ کردیا اور محاصر ہ اٹھا کر واپس مکّہ تشریف لے آئے۔
فتح مکّہ کے بعد طائف سے مُشرکین کا ایک وفد نبی پاک ﷺ سے ملاقات کے لیے مدینہ آیا۔ آپؐ نے ان کے لیے مسجد نبوی کے صحن میں خیمے لگوانے کا حکم دیا۔ بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ یہ مشرک ہیں اور قرآن کی رُو سے نجس یعنی ناپاک ہیں(سورۃ توبۃ:28)۔ فرمایا: ظاہری اعتبار سے یہ بھی اتنے ہی پاک و صاف ہیں جتنے کہ تم ہو۔ قرآن کریم نے انہیں صرف اس لیے نجس قرار دیاہے کہ قلبِ انسانی مَھبطِ نزول باری تعالیٰ ہے۔ اور مشرکوں نے اس کی جگہ بت بٹھا رکھے ہیں۔
ایک بار حضرت نبی کریم ﷺ کے پاس نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد تبادلۂ خیالات کے لیے مدینہ آیا۔ مسجد نبوی میں بحث کے دوران اُن کی عبادت کا وقت شروع ہونے پر انہوں نے اجاز ت مانگی کہ باہر جاکر کسی جگہ عبادت کر آئیں۔ حضورؐ نے فرمایا: یہیں میری مسجد میں اپنے طریق پر عباد ت کرلو۔ یہ عیسائی ابھی عبادت میں مصروف تھے اور ان کے منہ جنوب کی بجائے مشرق کی طرف تھے تو چند صحابہ مسجد میں پہنچے اور ان عیسائیوں کو مختلف سمت میں عبادت کرتے ہوئے دیکھ کر منع کرنا چاہا تو نبی پاک ﷺ نے سختی کے ساتھ فرمایا کہ یہ مسجد خدا کا گھر ہے اور مَیں نے ہی انہیں عبادت کی اجازت دی ہے اور جب کو ئی محض اللہ کی عبادت کر رہا ہو تو کسی انسان کا حق نہیں کہ اس میں روک پیدا کرے۔
ایک بار ایک بدّو پہلی بار مسجد نبوی میں وارد ہوا۔ اُسے جو پیشاب کی حاجت ہوئی تو مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر پیشاب کرنے لگا۔ صفائی کے نقطۂ نظر سے مسلمان تو جوتے بھی مسجد کے باہر ہی اتار دیتے ہیں۔مسجد کے اندر نماز کی جگہ پیشاب کر نا تو برداشت سے باہر تھا۔ بعض صحابہ کرام اُس بدو کی طرف لپکے تو نبی پاک ﷺ نے اُن کو فورا ًروک دیا اور جب وہ بدّو فارغ ہوگیا تو آپ ؐنے پانی کی ایک مشک خود اٹھائی اور اس جگہ کو خود پانی بہاکرصاف کردیا۔ پھر اپنے صحابہ سے فرمایا : تمہیں خداتعالیٰ نے لوگوں کے لیے دکھوں اور مصیبتوں میں اضافہ کرنے کے لیے پیدا نہیں کیا بلکہ اس لیے پیدا کیاہے کہ انسانیت کو سکھ کا سانس ملے۔
٭ ڈنمارک کے اخبار کے خاکوں سے نبی پاک ﷺ اور اسلام کے خلاف یہ تأثر دیا گیاہے کہ نعوذباللہ نبی پاک ؐاپنی توہین برداشت ہی نہیں کرسکتے تھے۔
مدینہ میں عبداللہ بن اُبیٔ ابن سلول رئیس المنافقین اور یہود کے قبیلہ خَزرَج کا سردار تھا۔ مدینہ میں نبی پاک ؐکی ہجرت سے قبل اس کی رسم تاجپوشی کی جانے والی تھی۔ آپؐ کے ورودمسعود پر وہ منصوبہ ختم ہوگیا تو اس وجہ سے عبداللہ بن اُبی بن سلول کے سینہ میں اسلام دشمنی کی آگ بھڑک اُٹھی۔ واقعۂ افک میں حضر ت عائشہؓ امّ المومنین پر الزام لگانے میں یہ شخص پیش پیش تھا۔
غزوہ ٔ بنو مصطلق سن 6ہجری میں ہوا۔ وہاں انصار اور مہاجرین میں کنویں سے پانی نکالنے پر ایسا جھگڑا ہو گیا کہ فریقین نے تلواریں نکال لیں۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھا اور کہنے لگا: اے انصار !یہ تمہاری ہی غلطیوں کا نتیجہ ہے کہ آج تمہیں یہ دن دیکھنا پڑا۔ مَیں تمہیں پہلے ہی سمجھاتا تھا کہ تم ان مہاجرین کو اپنے سر نہ چڑھائو ورنہ کسی دن تکلیف اٹھائوگے۔ خدا کاشکرہے کہ تمہیں اب اس حقیقت کا احساس ہوگیا۔ مگر گھبرائو نہیں اور مجھے مدینہ پہنچ لینے دو پھر دیکھوگے کہ مدینہ کا سب سے معزز انسان (یعنی وہ کمبخت خود)، مدینہ کے سب سے ذلیل انسان(یعنی نعوذباللہ محمد رسول اللہ ﷺ) کووہاں سے نکال دے گا۔
جب اس نے یہ الفاظ کہے تو انصار اور مہاجرین سمجھ گئے کہ ہمارے جوش سے اس نے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہا ہے۔ چنانچہ انہوں نے آپس میں صلح کرلی۔ یہ خبر آنحضورﷺ تک پہنچی تو آپؐ نے عبداللہ بن ابی ابن سلول اور ا س کے دوستوں کو بلاکر دریافت فرمایا لیکن انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں۔ لیکن بات پھیلنی شروع ہوئی اور عبداللہ کے بیٹے تک بھی جاپہنچی۔ وہ ایک مخلص نوجوان تھا۔ سنتے ہی بیتاب ہو گیا اور اُسی وقت رسول کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچا اورکہنے لگا یا رسول اللہ! مَیں نے سنا ہے کہ میرے باپ نے یہ الفاظ کہے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں میرے پاس بھی خبر پہنچ چکی ہے۔ اس نے کہا : یارسول اللہ! اس جرم کی سزا سوائے اس کے اَور کیا ہو سکتی ہے کہ آ پؐ میرے باپ کو قتل کرنے کا حکم دیں۔ مگر مَیں یہ درخواست کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں کہ کسی اَو ر کی بجائے مجھے ہی حکم دیں کہ مَیں اپنے باپ کو قتل کروں۔ کیونکہ اگر آپ نے کسی اَور مسلمان کو حکم دیا تو ممکن ہے کہ شیطان کسی وقت مجھے ورغلا دے کہ فلاں میرے باپ کا قاتل ہے اور مَیں جوش میں اس پر حملہ کر بیٹھوں۔ آپ ؐ نے فرمایا ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ اس نے کہا: اگر پھر کسی وقت اسے سزا دینا مناسب سمجھیں تو میری درخواست ہے کہ آپ رحم فرما کر مجھے ہی حکم دیں کہ مَیں اپنے باپ کو قتل کردوں۔ آپؐ نے پھر فرمایا کہ ہم تمہارے باپ کے ساتھ نرمی اور ملاطفت کا ہی سلوک کریں گے۔ تب وہ وہاں سے اٹھا اور خاموشی کے ساتھ چلا آیامگر اُسے کسی پہلو قرار نہیں آتا تھا۔ جب لشکر مدینہ کی طرف واپس لوٹا تو شہر میں داخل ہونے سے پہلے عبداللہ بن ابی بن سلول کابیٹا اپنی سواری سے کود کر اپنے باپ کے سامنے جاکھڑا ہوا اور تلوار سونت کر بولا: خدا کی قسم! مَیں تمہیں ا ُس وقت تک مدینہ میں داخل نہیں ہونے دوں گا جب تک تم یہ اقرار نہ کرو کہ مدینہ کاذلیل ترین انسان مَیں ہوں او ر مدینہ کا معزز ترین انسان محمد رسول اللہ ﷺ ہے ورنہ مَیں اسی تلوار سے تمہار اسر اڑا دوں گا۔ عبداللہ نے جب یہ نظارہ دیکھا تو اس نے سمجھ لیا کہ اگر آج مَیں نے یہ الفاظ نہ کہے تو میر ے بیٹے کی تلوار میرا خاتمہ کیے بغیر نہ رہے گی۔ چنانچہ اس نے اپنے تمام دوستوں اور ساتھیوں کے سامنے جن میں وہ اپنی بڑائی کے گیت گایا کرتا تھا اقرارکیا کہ مَیں مدینہ کا ذلیل ترین انسان ہوں اور محمد رسول اللہ ﷺ مدینہ کے معزز ترین انسان ہیں۔
کچھ عرصہ کے بعد عبداللہ بن ابی ابن سلول فوت ہوگیا تو حضور نبی پاک ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھانے کا اظہار فرمایا۔ چونکہ یہ شخص منافقوں کا سردار تھا اور علی الاعلان آپؐ کی مخالفت میں پیش پیش تھا۔ بلکہ جب کبھی لوگ اسے معافی مانگنے کے لیے کہتے تو جواب دیتا کہ مجھے محمدؐ کی دعائوں کی ضرورت نہیں۔ حضرت عمرؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب حضورﷺ اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو مَیں آپؐ کے سامنے جا کھڑا ہوا اور عرض کیا :یارسول اللہؐ!کیا آپ اس دشمن خدا کی نماز پڑھا رہے ہیں جس نے فلاںروز یہ کہاتھا اور فلاں روز یہ کہا تھا۔ مَیں اس کے واقعات بیان کرنے لگا اور حضورؐ تبسم فرماتے رہے۔ پھر یہی فرمایا :ہاں عمر! مَیں ہی اس کا جنازہ پڑھائوں گا۔ مَیں نے عرض کیا: یارسول اللہؐ! کیا ایسے منافقوں کے بارے میں خدا تعالیٰ نے سورۃ التوبہ میں یہ نہیں فرمایا کہ اے رسول! تم چاہے منافقوں کے لیے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو۔ اور اگر تم ان کے لیے ستّر مرتبہ بھی مغفرت کی دعا کروگے تو پھر بھی ہرگز اللہ ان کو نہ بخشے گا۔ اس پر رحمت عالم ﷺ نے فرمایا :اے عمر! اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ ستّر مرتبہ سے زیادہ مغفرت کرنے سے خدا ان کو بخش دے گا تو مَیں ستّر مرتبہ سے بھی زیادہ ان کے لیے مغفرت کی دعا کروں گا۔
حضر ت عمرؓ کہتے ہیں پھر نبی اکرم ؐ نے ا س کی نماز جنازہ پڑھائی اور قبر پر بھی تشریف لے گئے اور مجھ کو رسو ل اللہ ﷺ کے ساتھ اپنی اس جرأت کرنے پر بعدمیں مجھے شرمندگی ہوئی۔ ایک روایت ہے کہ نبی پاکؐ نے اپنا قمیص مبارک بھجوایا اور فرمایا اسے غسل دینے کے بعد میرے قمیص میں دفنایا جائے شاید اسی سے اس کی بخشش ہوجائے۔
٭ ڈینش اخبار کے خاکوں میں دوسرا الزام یہ لگایا گیا ہے کہ نعوذباللہ حضور اکرم ﷺ عورتوں کے دلدادہ تھے۔
اسلام سے قبل عرب معاشرہ میں بیویاں کرنے کی کوئی حد بسط مقرر نہ تھی۔ بدکاری اور زناکاری عروج پر تھی۔عرب ان افعال قبیحہ پر فخر کرتے اور اپنے اَشعار کے ذریعہ اشاعتِ فحشاء پر ناز کرتے۔ شراب اور منشیات کا استعمال عام تھا اور پھر مدہوشی میں مخالفوں کی بہو بیٹیوں کے بارہ میں مزے لے لے کر فخریہ قصّے بیان کرتے۔ لونڈیاں کثرت سے رکھتے اور ان کے ذریعہ بدکاری کی آمدنی کو اچھا سمجھتے تھے۔ جو عورت جنگ میں پکڑی جاتی اس سے یہی پیشہ کرواتے۔ جس بیوہ عورت پر متوفّی شوہر کا قریبی رشتہ دار اپنی چادر ڈال دیتا وہی زبردستی اس کی بیوی بنا دی جاتی۔ سوتیلے بیٹے اس طریق پر سوتیلی مائوں پر قبضہ کرلیتے۔ عورتیں بے حجاب اپنے جسم کے مخفی حصّوں کی نمائش کرتیں۔ بعض خاندان لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے اور اس پر فخر کرتے کہ گویا یہ ان کی اعلیٰ شرافت کا نشان تھا۔
معترضین کے پاس آنحضورﷺ کے خلاف دلیل صرف یہ ہے کہ اسلام نے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت دی ہے۔ حالانکہ دائودؑ کو خدا کا اکلوتا بیٹا کہنے والے اور اُن کی سو بیویوں پر، اور سلیمانؑ کو خدا کا سا دل والا بتانے والے اُن کی ایک ہزار بیویوں پر، ابراہیمؑ کوخلیل الرحمٰن ماننے والے اُن کی بیویوںاور لونڈیوں پر، کرشن جی مہاراج کو اوتارماننے والے اُن کی سولہ ہزار سے زیادہ سکّھیوں پر اور اُن کو مصلح اعظم ماننے والے زمانۂ حال کے لیڈر اُن کی آٹھ مہارانیوں پر کوئی اعتراض زبان سے نہیں نکالتے۔ جبکہ دیگر مذاہب میں ایک سے زائد بیوی کرنے کے لیے کوئی شرط بھی موجود نہیں مگر اسلام میں شرطِ عدل موجود ہے۔
عرب جیسے آزاد معاشرے میں حبیب کبریا ﷺ نے ابتدائی 25سال کمال تقویٰ کے ساتھ تجرد کی حالت میں گزارے۔ آپ مردانہ حسن کا شاہکار سمجھے جاتے تھے لیکن شادی کی توایک ایسی خاتون کے ساتھ جو حضورؐ سے عمر میں نہ صرف 15 سال بڑی تھیں بلکہ پہلے سے دوبار بیوہ ہوچکی تھیں۔ حضورؐ نے اُن کے ساتھ اپنی 25 سال کی رفاقت کا زمانہ نہایت وفا کے ساتھ گزارا۔ جب حضرت خدیجہؓ کی وفات ہوئی تو وہ 65برس کی ہو چکی تھیں۔ آپؐ اپنی وفات تک ہمیشہ حضرت خدیجہؓ کی محبت اور قربانیوں کا ذکر فرماتے رہے۔ کیا یہ کسی نفس پرست، عورتوں کے دلدادہ کی حالت ہے یا ایک بے مثال، وفاشعار، عارف ربّانی اور عشقِ خدا میں مخمور وجود کی سیرت طیبہ کا قابل تقلید نمونہ ہے!۔
حضور نبی پاکﷺکی دوسری شادی حضرت سودہؓ بنت زمعہ بن قیس سے ہوئی جو حضورؐ کے ایک خادم حضرت سکران ؓ بن عمرو کی بیوہ تھیں۔ میاں بیوی نے کفار کے انتہائی مظالم سے تنگ آکر حبشہ کی طرف ہجرت کی جہاں سکران بن عمرو فوت ہوگئے۔حضرت سودہؓ کی عمر 50سال تھی گویا شادی کی عمر سے گزر چکی تھی۔ لیکن اُن کے سہارے کے لیے نبی پاک ﷺ نے اُن سے شادی کی۔
آنحضور ﷺ کی تیسری شادی حضرت عائشہ ؓسے ہوئی۔حضرت عائشہؓ آپؐ کی وفات کے بعد 48سال تک زندہ رہیں اور کبھی بھی حرف شکایت آپ ؓکے منہ پر نہ آیا۔
نبی پاک ﷺکی اکثر شادیاں 5 تا 9ہجری کے درمیانی عرصے میں ہوئیں جبکہ آپؐ زند گی کے 55سال گزار چکے تھے۔ آپؐ فرماتے تھے کہ مجھے اپنی ذات کے لیے عورتوں کی کوئی حاجت نہیں۔چنانچہ اس کے باوجود آپؐ کا شادیاں کرنا ضرور کوئی مصالح رکھتا ہے۔ مثلاً اُمّ المومنین حضرت صفیہؓ کے نکاح سے قبل جس قدر لڑائیاں مسلمانوں کے ساتھ کفار نے کیں ان سب میں یہود مخفی طور پر یا اعلانیہ شریک تھے۔ مگر حضرت صفیہؓ کے ساتھ شادی کے بعد کسی ایک لڑائی میں بھی یہود مسلمانوں کے خلاف شریک نہیں ہوئے۔ خود غور کیجئے یہ شادی قومی مصالح کے لیے کس قدر ضروری تھی!۔ اسی طرح اُمّ المومنین حضرت حبیبہؓ ابوسفیان کی بیٹی تھیں۔ آپؓ عبداللہ بن جحش ؓکی بیوہ تھیں۔ اس شادی سے قبل ابوسفیان غزوہ اُحد، حَمْرَائُ الْاَسَدْ، بَدْرُالْاُخْرٰی اور غزوۂ اَحزاب میں لشکر کفار کی کمان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔لیکن اس شادی کے بعدوہ کسی جنگ میں مسلمانوں کے خلاف فوج کشی کرتے ہوئے نظرنہیں آتے بلکہ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد خود بھی اسلام کے جھنڈے تلے آ کر پناہ لیتے ہیں۔ کیاکوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ نکاح غیر ضروری تھا!۔
اُمّ المومنین حضرت جویریہؓ بنت حارث بن ابی ضرار کی پہلی شادی مسافع بن صفوان سے ہوچکی تھی۔ ان کا باپ مشہور رہزن تھا اور مسلمانوں سے دلی عداوت رکھتا تھا۔ بنومصطلق کے مشہور طاقتور جنگجو قبائل ہمیشہ اُس کے اشارے پر ہرجنگ میں مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار رہے۔ لیکن جونہی آنحضور ﷺ نے حضرت جویریہؓ کو آزاد کرکے اُن کی رضا مندی سے ان کے ساتھ شادی کی تو تمام قبیلہ دشمنی بھول گیا، قزاقی چھوڑ دی اور مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شریک نہ ہوا۔
اُمّ المومنین حضرت میمونہؓ کی ایک بہن سردار نجد کے گھرمیںتھیں۔ اہل نجد وہ ظالم تھے جنہوں نے دھوکے سے 70واعظینِ اسلام کو اپنے ساتھ لے جا کر شہید کردیا تھا۔ لیکن حضرت میمونہ ؓکے ساتھ شادی کے بعد ملک نجد میں صلح، امن اور اسلام پھیلانے کے بہترین مواقع پیدا ہوگئے۔ حضرت میمونہ ؓ کے ساتھ حضور نبی پاکﷺ نے 59برس کی عمر میں شادی کی اور آپؓ اس وقت 36سال کی تھیں۔
اُمّ المومنین حضرت زینب بنت جحشؓ، حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہؓ کے نکاح خالص اسلامی اغراض اور مصالح دینی پر مبنی تھے۔ حضرت زینب ؓکے نکاح کے ساتھ عربوں کی متبنّٰی بنانے کی رسم کا طلسم پاش پاش ہوگیا۔ حضرت عائشہ ؓاورحضرت حفصہ ؓ کے ساتھ نکاح کے نتیجے میںحفاظتِ قرآن کریم اور تعلیم نسواں کے قومی مقاصد حاصل ہوئے۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام تعدد ازدواج پر اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ‘‘شریعت حقّہ نے اس کو ضرورت کے واسطے جائز رکھاہے۔ ایک لائق آدمی کی بیوی اگر اس قسم کی ہے کہ اس سے ا ولاد نہیں ہو سکتی تووہ کیوں بے اولاد رہے اوراپنے آپ کو بھی عقیم بنالے۔ ایک عمدہ گھوڑا ہوتاہے تواس کی نسل بھی قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انسان کی نسل کو کیوں ضائع کیا جاوے۔ پادری لوگ دوسری شادی کو زنا کاری قرار دیتے ہیں توپھر پہلے انبیاء کی نسبت کیا کہتے ہیں۔ حضرت سلیمان کی کہتے ہیں کئی سو بیویاں تھیں اور ایسا ہی حضرت دائود کی تھیں۔ اگر نعوذباللہ عیسائیوں کے قول کے مطابق ایک سے زیادہ نکاح سب زناہیں تو حضرت دائود کی اولاد سے ہی ان کا خدا پیدا ہوا ہے۔ تب تو یہ نسخہ اچھا ہے اور بڑی برکت والا طریق ہے۔’’
(ملفوظات جلد دہم صفحہ236)
پھر ایک موقعہ پر ایک احمدی کے بعض سوالوں کے جواب دیتے ہوئے حضورعلیہ السلام نے تعدّدِ ازدواج سے متعلق سیر حاصل بحث فرمائی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر انسان کوپورا علم ہو کہ عدم مساوات سے خدا تعالیٰ کس قدر ناراض ہوگا تو شاید وہ ساری عمر رنڈوارہنے کو ترجیح دے۔ اور اگر انسان اپنے نفس کا میلان اور غلبہ شہوات کی طرف دیکھے اور اس کی نظر باربار خراب ہوتی ہو تو زنا سے بچنے کے لیے دوسری شادی کرلے لیکن پہلی بیوی کے حقو ق تلف نہ کرے کیونکہ جوانی کا بہت سا حصہ اُس نے اُس کے ساتھ گزارا ہوتاہے۔ اور ایک گہرا تعلق خاوند کا اس کے ساتھ ہوتاہے۔ بلکہ اگر مرد کو دوسری شادی کی ضرورت ہو لیکن وہ یہ دیکھے کہ اس سے پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوگا اور حد درجہ کی اُس کی دل شکنی ہوگی تو وہ قربانی دے اور ایک ہی بیوی کوکافی سمجھے اور دوسری شادی نہ کرے۔ بشرطیکہ اسے یہ ڈر نہ ہو کہ اس کی وجہ سے وہ معصیت میں مبتلا ہو کر کسی جائز شرعی ضرورت کا خون نہیں کر ے گا۔
صرف نفسانی لذات کے لیے دوسری شادی کرناگناہ ہے۔ آنحضرت ﷺ کی کئی بیویاں تھیںمگر اس کے باوجود آپؐ ساری ساری رات خدا تعالیٰ کی عبادت میں گزارتے تھے۔ ایک بار آپؐ کی باری حضرت عائشہ صدیقہؓ کے ہاں تھی۔کچھ حصہ رات کا گزرا تو حضرت عائشہ ؓکی آنکھ کھلی اور دیکھا کہ آ پؐ وہا ں موجود نہیں ہیں۔ اُنہیں شبہ ہوا کہ کہیں کسی دوسری بیوی کے ہاں ہوں گے۔ انہوں نے حضورؐ کو ہر گھر میں تلاش کیا۔ بالآخر دیکھاکہ آپؐ قبرستان میں سجدے کی حالت میں رو رہے ہیں۔ اب دیکھو آپ ؐ زندہ اور چہیتی بیوی کو چھوڑ کر مُردوںکی جگہ قبرستان میں گئے اور روتے رہے توکیا آپ کی بیویاں حظِّ نفس یا اتّباع شہوت کی بِنا پر ہو سکتی ہیں ؟ ہرگز نہیں۔
حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ آخری نصیحت ہماری یہی ہے کہ اسلام کواپنی عیاشیوں کے لیے سِپَر نہ بنائو کہ آج ایک حسین عورت نظر آئی تو اسے کر لیا اور کل نظرآئی تو اسے کرلیا۔ اگر صحابہ کرام عورتیں کرنے والے اورانہیں میں مصروف رہنے والے ہوتے تو اپنے سر جنگوں میں کیوں کٹواتے۔ جو شب وروز عیش وعشرت میں غرق رہتاہے و ہ کب ایسا دل لاسکتاہے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد نمبر7صفحہ 63تا 70)
پس تاریخ عالم اور تاریخ انبیاء کا مطالعہ کر لیجئے، آپ کو آنحضورﷺ ایسی نظیر کہیں نظر نہیں آئے گی۔ آپؐ ایک ایسا گوہر نایاب تھے جو ہر اعتبار سے بے مثل،ہررنگ میں فریدووحید، ہر کمال میں یگانہ اور ہر اعتبار سے یکتائے روزگار تھے۔ ؎
دلبرا مجھ کو قسم ہے تیری یکتائی کی
آپ کو تیری محبت میں بھلایا ہم نے
٭…٭…٭
ماہنامہ ‘‘مشکوٰۃ’’ قادیان جون و جولائی 2012ء میں مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کی ایک نعت شامل اشاعت ہے۔ اس نعت میں سے انتخاب پیش ہے:
محمدؐ رحمۃٌ لِّلْعَالَمِیں ہیں
محمدؐ نورِ جانِ مومنیں ہیں
محمدؐ سالکِ راہِ مبیں ہیں
شہِ ابرار و خَتْمُ الْمُرْسَلِیں ہیں
محمد زینتِ عرشِ بریں ہیں
محمدؐ سرورِ دنیا و دیں ہیں
محمدؐ لاجرم بدرِ مبیں ہیں
محمدؐ سب حسینوں سے حسیں ہیں
محمدؐ گلشنِ ہستی کی رونق
محمدؐ کاشفِ اسرارِ دیں ہیں
محمدؐ باعثِ تہذیبِ انساں
محمدؐ ہی شفیع المُذنبیں ہیں
ماہنامہ ‘‘مشکوٰۃ’’ قادیان جون و جولائی 2012ء میں مکرم مبشر احمد صاحب وسیم گورداسپوری کی ایک نعت شامل اشاعت ہے۔ اس نعت میں سے انتخاب پیش ہے :
دل مچلنے لگا کیا ہوا اے خدا کس کی رحمت مجھے آج گرما گئی
آج بہلا گئی آج تڑپا گئی اور ابرِ کرم مجھ پہ برسا گئی
رحمتِ دو جہاں کا کرم دیکھ کر بول اُٹھے ہیں دیر و حَرم یک زباں
شاہِ بطحا پہ صدقے یہ دونوں جہاں جن کی خوشبو ہر اِک گُل کو مہکا گئی
سیّدالانبیاء عظمتِ کبریا بزمِ امکاں میں جب جلوہ گر ہو گئے
ہو گئے پھر معطّر زمیں آسماں زُلفِ عنبر جو اِک بار لہرا گئی
جو مدینے کی گلیوں میں پہنچے ہیں ہم کیا بتائیں ہمارا عجب حال تھا
گنبدِ ماہ طیبہ کے دیدار سے دل تڑپنے لگا ، آنکھ بھرا گئی
دل میں اب طاقتِ دردِ ہجراں نہیں تیرے بیمار کا اَور درماں نہیں
میرے آقا مجھے دیں گے دیدار کب ، زندگی جب دمِ نزع پر آ گئی