اکیسویں صدی میں گوشہ نشینی غار حراسے Silicion Valley تک
جوں جوں کورونا وائرس آزادانہ اوربڑی تیز رفتار کے ساتھ انسان کی بنائی سیاسی سرحدوں کے پار پھیلتا چلا جا رہا ہے، لوگوں کو گوشہ نشینی اختیار کرنے کی ہدایت کی جارہی ہے یا انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
بڑے شہروں کو مقفل کر دیا گیا ہےاور انسانی آبادی کو اپنے گھر وں کی چار دیواری میں محدود رہنے کی تلقین ہے۔یہ ایک ایسی صورت حال ہے، جو ہم میں سے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔جدت پسند اور آزادانہ سوچ کا حامل معاشرہ بھی حیرت زدہ ہے کہ ان سے یہ کیا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
‘‘کسی نے ہمت ہی کیسے کی کہ ہمیں ایک خاص جگہ تک محدود رہنے کا کہے؟’’؛ ‘‘اس زمین پر آخر یہ کورونا وائرس کیا چیز ہے ،جو کہ ہماری آزاد خیالی کو محدود کرے؟’’؛ ‘‘یہ میری زندگی ہے اور کوئی بھی مجھےاس معاشرے میں اپنی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی لگانے کے لیے نہیں کہہ سکتا!’’
یہ سب اور بہت سے سوال جدید ذہن میں ابل رہے ہیں۔
فی الحال عصرحاضر اور اس کی جدت پسندی کو ایک طرف رکھتے ہیں اورحقیقی خدشات کی طرف چلتے ہیں۔ وہ خدشات جو میدانِ جنگ میں کسی کے دل میں ہوسکتے ہیں۔ اورمیدانِ جنگ بھی ایسا جہاں ایک پوشیدہ دشمن کے خلاف، گوشہ نشینی ہی واحد دفاع ہو۔
سکول بند ہوجانے اور گھر سے کام کرنے کے باعث بہت سے لوگ اپنی زندگی میں پہلی بار یہ محسوس کر رہے ہیں کہ اصل میں گھریلو زندگی ہوتی کیسی ہے۔
عصرجدید کی زندگی کے اہم عناصریعنی سکول، کالج، یونیورسٹی ، کام کی جگہ ، ٹارگٹ ، ملازمت میں ترقیات اور ایسے تمام عناصر نے خاندان ،یعنی معاشرے کی بنیادی اکائی کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔
ہفتے بھرکے دنوں میں صبح کا وقت گھروں سے کام اور سکولوں ، کالجوں تک پہنچنے کی ہلچل سے بھرپور ہوتا ہے۔ شام کو سب اپنے گھروں کو واپس آجاتے ہیں۔ان میں سے کچھ باورچی خانہ میں کھانا پکانا شروع کردیتے ہیں ، کچھ لوگ اپنی دفتری فائلوں کے ساتھ مصروف رہتے ہیں ، جبکہ باقی لوگ اپنے تعلیمی کورس اور اسائنمینٹس(assignments) کی طرف توجہ مبذول کرلیتے ہیں۔
کورونا وائرس کے حوالے سے ماہرین کے مشوروں کے نتیجے میں، یہ سارا آٹو پائلٹ اور خودکار معمول اچانک دھچکے کے ساتھ رک گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم سب اس دھچکے سے منہ کے بل گرے ہیں اور صدمہ سے دوچار ہیں۔
لیکن جناب! حقیقی زندگی میں خوش آمدید! وہ زندگی جوہمارے آباءواجداد نے گزاری ۔ ان کی زندگی بھی ماضی قریب ہی کی تو بات ہے ۔
ہم میںسے کچھ اچانک گھریلو خواتین کے زیادہ شکر گزار ہو گئے ہیں۔ ہمیں اچانک احساس ہوا ہے کہ ان خواتین نے ہمیشہ گھر سے ہی کام کیا ہے اوربہت محنت کے ساتھ کیا ہے ۔گھر سے کام کرنے کی کوشش میں،بہت سے لوگ اپنے بیڈ روم، Studyیاپھر Living Roomمیں اپنے لیپ ٹاپ پر جُت گئےہیں۔ کام جاری ہے مگر معمول کی زندگی کے رُک جانے سے اداسی بھی طاری ہے۔
سکول اور کالج جانے والوں نے آغاز میں تو ایسا محسوس کیا کہ اُن کے سینے سے کوئی بوجھ اُتر گیا ہو۔ مگر چند ہی دن گزرے ہیں اور اب انہیں بھی سکول کالج کی یاد ستانے لگی ہے۔
گوشہ نشینی کی اس حالت میں ،Netflix ، Amazon Prime اور دیگر سٹریمنگ کی سہولیات، بہت سے لوگوں کے لیے سب سے زیادہ قیمتی اثاثہ بن گئی ہیں ۔ نتیجۃً Wi-Fi روٹرز بھی،پہلے سے کہیں زیادہ رفتار کے ساتھ،مسلسل زیرِ استعمال ہیں۔
ہم میں سے بیشتر ،جو کہ اپنے موبائل فون کے پہلے ہی بہت شوقین ہیں ،پہلے سے بھی زیادہ اس کی محبت میں مبتلا ہوچکے ہیں اور گوشہ نشینی کے ان دنوں میں انہیں سب سے بڑی نعمت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ حکومتیں لوگوں کو گھر میں بند رہنے کو کہہ رہی ہیں۔ یہ موبائل ہی تو ہیں جو ایسے میں سب سے بڑا سہارا بنے ہوئے ہیں۔
یہ تو تھی موجودہ حالات میں گوشہ نشینی پر ایک ہلکی سی نظر۔ کہیں پورا گھرانہ ایک ساتھ موجود ہے لیکن اسے گھر کے اندر ہی رہنا پڑتا ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جن کواپنے گھر کی چار دیواری کے اندر مگر الگ کمرے میں گوشہ نشینی اختیار کرنا پڑی ہے۔
اکیسویں صدی میں بھی ، معاشرے سے دور ہوکر خود کو گوشہ نشینی میں رکھنا، کتنا تکلیف دہ اور پریشان کن امر ہے۔ ایسے دور میں کہ جہاں تنہائی کا ہر لمحہ معلومات اور تفریح کے ذرائع سےبھرپور ہے۔ دوستوں اور رشتہ داروں کوفون کال کرنا، واٹس ایپ گروپس پر پیغامات بھیجنا،انسٹا گرام پر تصاویر کو پسند(like)کرنا اور دلچسپ ویڈیوز پر (اور غیر دلچسپ ویڈیوز پربھی) LOLsبھیجنا۔ اتنا کچھ تو ہے کرنے کو!
آج جبکہ جدید دور کی سائنس احتیاطی تدبیر کے طور پر quarantineاور گوشہ نشینی کا مشورہ دے رہی ہے،اس سے قبل بھی انسانی تاریخ نے ان گنت وَبائی امراض اورعالمی وبائی امراض کا سامنا کیا ہے۔ یہ تصور طبی علوم کے لیے تو نیا ہوسکتا ہے لیکن عالمِ اسلام کے لیے نہیں ۔
پیغمبرِ اسلام،حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی بعثت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جبکہ معاشرہ ہر طرح کی معاشرتی ، اخلاقی اور روحانی امراض میں مبتلا تھا۔یہ امراض وباؤں کی طرح عام تھے۔جزیرہ نما عرب ان روحانی امراض کا سرچشمہ نہیں تو مرکز ضرور بن چکا تھا ۔ اس پرمستزاد یہ کہ معاشرہ بے حسی کا بھی شکار ہوچکا تھا اور اسے یہ احساس تک نہ تھا ۔
یہ وبائی امراض اپنے عروج پر تھے کہ اللہ تعالیٰ نے عرب دنیا سے ایک شخص کو منتخب کیا اور نہ صرف عرب کےلیے بلکہ پوری دنیا کے لیے بہترین تریاق بنادیا۔
اس وجود نے تجارتی قافلوں کے ساتھ جزیرہ نما عرب کے طول و عرض کا سفر کیا اور یوں اس معاشرے کے ظاہر و باطن سے واقف ہو گیا۔ وہ جو پیدا ہوتے ہی یتیم ہو گیا،جس کی ماں بھی اسے چند سال کی عمر میں تنہا چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگئی، جس کی سرپرستی کی ذمہ داری کبھی ایک رشتہ دار اور کبھی دوسرے عزیز کو سونپی جاتی رہی۔ پس وہ آدمی نوجوانی کی دہلیز تک پہنچتے پہنچتے ان گنت دکھ جھیل چکا تھا۔
اِس نوجوان کے غموں میں بے تحاشہ اضافہ تب ہوا جب اس نے اپنے آپ کو ایک ایسے معاشرہ میں رہتے ہوئے پایا جہاں بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا ، بدکاری، زنا ، غلامی اور جسم فروشی جیسی قبیح حرکتیں نہ صرف عام تھیں بلکہ عام طور پرپسندیدہ بھی، بلکہ باعثِ فخر ،کہ ان نحوستوں کو مردانگی اور طاقت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
نوجوانی کے ان ایام میں یہ دل شکستہ نوجوان حضرت محمدﷺ اپنے چچا کے گھر کی آسائشوں سے نکل کر ، حرا کے پہاڑپر چڑھ جاتے اور ایک چھوٹے اورتاریک غار میں گوشہ نشینی اختیار کر لیتے۔ بہت ہی کم خوراک کے ساتھ ،صرف اتنی کہ انہیں بھوک سے مرنے سے بچانے کے لیے کافی ہو ، وہ بہت دن تک خود کو اس طرح گوشہ نشین رکھتے۔ نہ ہم کلام ہونے کے لیے کوئی ساتھی ، نہ ہی کوئی بات سننے والا ہم جلیس ، نہ کوئی تفریح اور جگہ بھی اتنی تنگ کہ دو قدم چلنا تو درکنار، سیدھا کھڑا ہونا بھی دوبھر۔ وہاں صرف آپﷺ کا اپنا وجود تھا یا اس تاریک اورسنگلاخ غار کی تنہائی۔ یہ گوشہ نشینی انہی خاموشیوں اور تنہائیوں کے بوجھ تلے دبی ہوتی۔اکیسویں صدی میں تنہائی کے تصور سے کہیں زیادہ تنہا اور ویران۔
آنحضورﷺ نے اُس دورِ ابتلا میں، شب و روز اپنے دُکھوں کو اپنے خالق کے سامنے پیش کیا۔ آپ ﷺ کو یقین تھا کہ خالقِ کائنات اس دنیا اور اپنی مخلوق کو ایسے لاچار حالات میں نہیں چھوڑے گا۔ یقین تھا کہ خدا تعالیٰ یقیناً دنیا کی مدد کو آئے گا۔
ایک دن ، جب حضور ﷺنے انسانیت کے درد میں اپنی التجا خدا تعالیٰ کے حضور پیش کی،تو غار میں وہ سب ظاہر ہوا جو کہ ابھی تک میسر نہیں تھا۔ سکون ، صحبت اور ہم کلامی، سبھی کچھ تو میسر آگیا ۔ تب اُس غار کے اندھیروں میں سے ایک روشنی پھوٹی جو آنحضور ﷺ کے دل میں سرایت کر گئی اور آپ ﷺ گوشہ نشینی کو ترک کرتے ہوئے واپس باہر کی دنیا میں تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے کُل دنیا کو اس نور سے روشن کرنے کا کام جوسونپا تھا۔
جب جدید ٹیکنالوجی کی رسیا اس دنیا کوآج گوشہ نشینی اختیار کرنا پڑ رہی ہے ، کیوں نہ ہم آنحضور ﷺ کے ان دکھوں کو یاد کریں جو آپ کو گوشہ نشینی میں لے گئے۔ کیوں نہ آپ ﷺ کی گوشہ نشینی کی تکالیف کو یاد کیا جائے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ مکمل طور پر تنہا تھے اور بیرونی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ نیز ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیےکہ اُس وقت دورِ حاضر کی طرح موسمی محسوسات پر قابو بھی نہیں پایا جاسکتا تھا، جیسے کہ ہم ائر کنڈیشنر، پنکھوں اور ہیٹرز کے ذریعہ پالیتے ہیں۔پھر بھی آپ ﷺ نے دنیا کی بہتری کی خاطرگوشہ نشینی اختیار کرنے کا فیصلہ فرمایا۔
اگر ہم اس تکلیف کاتصور کریں جس نے حضور ﷺ کو گوشہ نشینی کی طرف راغب کیا ،تو مجھے یقین ہے کہ ہم اپنی گوشہ نشینی کے ایام بسہولت اور حوصلہ کےساتھ گزارسکیں گے۔ سب سے بڑھ کریہ کہ ہم گوشہ نشینی کے ا ن شب و روز کو مفید تر بھی بنا سکیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے دل کو جو نور بخشا، وہ قرآن کریم تھا۔ قرآن پاک آج بھی موجود ہے اور ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو دعویٰ کر سکے کہ ہم نے اس کا مکمل فہم حاصل کر لیا ہے۔ لہذا آرام کرسیوں پربیٹھے رہنے اور Netflix اور Amazon Primeکی آفرز سے لطف اندوز ہونے کی بجائے ،ہم اور بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔
آئیے تاریخ کے قریب تر زمانہ کی طرف چلتے ہیں۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تو اس دنیا کا بھی وہی حال تھا جو آنحضورﷺ کے زمانہ میں تھا۔فرق بس اتنا تھا کہ وقت چودہ سو سال آگے بڑھ چکا تھا۔
دنیا کو روحانی تاریکی اوراخلاقی پستی میں دیکھ کر حضرت مرزا غلام احمدصاحب قادیانی، مسیح موعود علیہ السلام کے دل کا بھی وہی حال تھا جو آپؑ کے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے دل کا ہوا کرتا تھا ۔
آنحضرت ﷺ کے عاشق و غلامِ صادق یعنی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی، مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں بھی وہی تڑپ تھی جب آپؑ نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر کھڑا پایا۔ اس کے باوجود یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اس کائنات کا ایک خدا ہے۔الحاد اور کفر کی وبائی امراض میں مبتلا اس دنیا کو دیکھ کر آپؑ کا بھی وہی ردّ عمل تھا جو آنحضورﷺ کا اپنے زمانہ میں رہا تھا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے کمال خوبصورتی کے ساتھ ،حضرت مسیح موعود ؑکی بعثت کے وقت دنیا کی حالت کا نقشہ کھینچا ہے:
جب دہریت کے دم سے مسموم تھیں فضائیں
پھوٹی تھیں جابجا جب الحاد کی وبائیں
پس جب ان وباؤں کی زہر آلود ہواؤں نے زور پکڑ لیا،اور دنیا میں حضرت خاتم الانبیاء ﷺکی تکذیب کا طوفان برپا ہوگیا،تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی گوشہ نشینی اختیار کی۔ آپؑ نے چالیس دن گوشہ نشینی میں گزارے اور اپنے مقدس آقا حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کی کہ وہ دنیا کو ایک نشان دکھائے ،تاکہ دنیا اس کی طرف توجہ کرسکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس گوشنہ نشینی کو انیسویں صدی کے پنجاب کے ایک دیہی علاقہ میں مکمل تنہائی میں گزاراجہاں کوئی رابطے کی سہولت ، جدید ٹیکنالوجی کے سامان اوروقت گزاری کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ ہر لمحہ دعا ؤں کے لیے وقف تھا۔
یہ گوشہ نشینی تب اپنے اختتام کو پہنچی جب خدا تعالیٰ نے عظیم الشان وعدہ دیا کہ نشان ضرور دکھائے جائیں گے۔ ایک عظیم الشان اورغیر معمولی بیٹے کی پیدائش سے لے کر جنگوں ، زلزلوں اور وبائی امراض تک کے نشان۔ایسے نشان جوواحد ویگانہ خدا کے وجود کی دلیل کے طور پر ظاہر ہونا تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے خبر پا کر نہایت تفصیل سےبیان فرمایا کہ کس طرح آفات نازل ہوں گی اور کیا کیا نشان ظاہر ہوں گے۔ آپؑ کی تحریرات کا مجموعہ تئیس جلدوں پر محیط ہے۔
ہم اس درد کو خراج عقیدت پیش کر نے کےلیے کیا کچھ کرسکتے ہیں،کہ جس نے آپؑ کو روحانی وَبائی امراض سے بھرپور معاشرہ سے دور کر تے ہوئے ،دعاؤں اور تضرّعات سے بھرپور گوشہ نشینی کی طرف راغب کیا؟
یقیناًہم بہت کچھ کر سکتے ہیں!
آئیے، گوشہ نشینیوں کےموجودہ حالات میں یہ کوشش کرتے ہیں کہ آپ ؑ کی بصیرت انگیز اور ایمان افروز تصنیفات کو پڑھیں، انہیں سمجھیں اور ان سے فائدہ اٹھائیں ،تاکہ ہم آج اپنی اس گوشہ نشینی کو کارآمد بنا سکیں۔
اس گوشہ نشینی کے دوران یہ بھی تو کیا جاسکتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور، ہر اُس راحت و سکون کا شکر ادا کریں، جو ہمیں حاصل ہے۔ہراُس سہولت اور آسائش کا شکر ادا کریں جو کہ ہمیں ہمارے گھر میں میسر ہیں۔ایسا کرتے وقت یہ بھی ذہن نشین رہے کہ مذکورہ بالا دونوں عظیم انسانوں کو ان میں سے کوئی سہولت میسر نہیں تھی۔
اللّٰھّمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ
وَ عَلیٰ عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ
٭…٭…٭
تصویر غار حرا ماخوذ از:
By User Nazli – Wikipedia in english http://en.wikipedia.org/wiki/Image:Cave_Hira.jpg, Public Domain, https://commons.wikimedia.org/w/index.php?curid=1303925
ماشاء بہت اعلیٰ۔
تحریر میں روانی بھی ماشاء اللہ بہت اچھی ہے
جزاکم اللہ احسن الجزاء