جہان بھر کے لیے عافیت کا ہوں مَیں حصار
وہ معجزہ تھا کرشمہ تھا ذاتِ باری کا
تھا کوہِ عزم وہ دیں سے وفا شعاری کا
وہ آیا پھر سے کُھلا معرفت کا میخانہ
تو دَور پھر چلا عرفاں کی مَے گساری کا
وہ آسمان کا پانی تھا کشتِ ویراں پر
سبب تھا رحمتِ رحماں کی آبیاری کا
یوں راہِ وقت پہ ہیں ثبت اس کے نقشِ قدم
چلیں گے جن پہ پھلیں گے نئے زماں ہر دم
کیا تھا زیرنگیں اس نے ہر مقابل کو
چلایا سیف کی صورت جو اس نے اپنا قلم
شکست دے دی سبھی دوسرے مذاہب کو
بلند ایسے کیا اس نے مصطفیٰؐ کا عَلَم
فتح نصیب وہ جرنیل، ضیغمِ مِلّت
گیا وہ جس کسی میداں میں کامگار آیا
خدا کا شیر تھا وہ کارزارِ ہستی میں
مقابل اس کے جو نکلا بحالِ زار آیا
جو پڑھ لے معجزہ آثار اس کی تحریریں
تو سمجھو روح کا زنگار وہ اتار آیا
بتایا اس نے کہ دارالاماں ہے میرا دیار
جہان بھر کے لیے عافیت کا ہوں میں حصار
پناہ چاہو تو آؤ میری امان میں تم
اگر زمینی سماوی بَلا کا تم پہ ہو وار
سنو کہ سنتا ہے رب اب بھی دردمندوں کی
دلوں سے صدق و صفا سے نکلتی ہے جو پکار
سفر حیات کا اس کی اگرچہ مشکل تھا
خدا کی ذات پہ اس کو یقین کامل تھا
وہ تنہا پیڑ تھا آندھیاں مخالف تھیں
جُھکا کبھی نہ کہ اس کا پہاڑ سا دِل تھا
تھی اس کی ایک ہی منزل، ہو عظمتِ اسلام
اور اس کا جینا برائے حصولِ منزل تھا
رواں رہے گا زمانے میں قافلہ اس کا
پھلے گا پھولے گا تا حشر سلسلہ اس کا
زمین کچھ بھی نہ اِس کا بگاڑ پائے گی
کہ آسمان سے پختہ تھا رابطہ اس کا
ہر آن ہم پہ خلافت کا فیض جاری ہے
نہ روک سکتا ہے کوئی بھی راستہ اس کا
(پروفیسر مبارک احمد عابد ۔ امریکہ)