اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
{فروری2020ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب}
احمدیہ سنٹر کی تعمیر روک دی گئی
میر پور خاص،سندھ 22؍فروری 2020:احمدیوں نے یہاں 19؍ سال قبل اپنی مسجد کی تعمیر اور دیگر تعمیری مقاصد کے لیے ایک پلاٹ خریدا تھا جس پر بوجوہ تعمیر کا عمل شروع نہ ہو سکا تھا۔حال ہی میں احمدیوں نے اس پلاٹ کی چار دیواری کا منصوبہ بنایا اور 22؍فروری 2020ء کو اس پر کام کا آغاز ہو گیا۔ چنانچہ دیوار ابھی 4فٹ تک ہی کھڑی ہوئی تھی کہ ایک آدمی آیا اور اس نے اس کی ویڈیو بنائی اور واپس چلا گیا۔ اس کے بعد چند ملاں تقریباً 20؍آدمیوں کے ساتھ آئے اور جماعت کے خلاف شور و غوغا شروع کر دیا نیز زبردستی تعمیر کو روک دیا اور جو دیوار کھڑی تھی اس کو بھی گرا دیا۔اس دوران بعض میڈیا کےافراد نے اس واقعہ کی ویڈیو بھی بنائی اور ملاؤں نے انہیں بتا یا کہ احمدی یہاں مسجد بنا رہے ہیں اور اگر انہیں نہ روکا گیا تو یہاں بہت زیادہ خون ریزی ہو گی ۔اس واقعہ کے تیس منٹ بعد ملاں اپنے کارندوں کے ساتھ واپس لوٹ گئے۔ بعد میں پولیس اور ایجنسیوں کے اہلکار وں نے آکر ٹھیکیدار عبدالرزاق بلوچ سے واقعہ کے متعلق بات چیت کی اور واپس چلے گئے۔ اس کے بعد بعض نوجوانوں نے موقع پر آکر ٹھیکیدار کو دھمکایا کہ اگر پولیس وغیر ہ کو فساد برپا کرنے والوں کے نام دیے گئے تو انجام ٹھیک نہ ہو گا۔اس پر ٹھیکیدار نے انہیں کہا کہ “پولیس تمہار ے شور و غوغا کی وجہ سے آئی تھی اگر تم لوگوں نے ہمیں مزید کوئی اَور نقصان پہنچایا تو ہم تمہارے نام پولیس کو دے دیں گے” اس پر وہ مشتعل نوجوان بھی واپس لوٹ گے ۔
یہاں صورت حال تاحال کشیدہ ہے اور احمدی منتظر ہیں کہ حکام بالا کی جانب سے انہیں کب آزادانہ طور پر آزادانہ عبادت کا آئینی اور قانونی حق حاصل ہوتا ہے ۔
عقیدے کی بنیاد پر غیر معمولی دشمنی
آٹھ سال پہلے وسیم عباس نے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا ۔چنانچہ اس پر انہیں گھر کی طرف سے بہت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ان کے والد پیشہ کے لحاظ سے وکیل ہیں اور جماعت مخالف عقائد رکھتے ہیں ،انہوں نے اپنے بیٹے سے بات چیت ختم کر دی اور کچھ مولویوں کو بیٹے سے بحث کرنے کے لیے بلایا اور عباس کے نکاح فارم ،پاسپورٹ اور وصیت جیسی اہم دستاویزات مولویوں کے سپرد کر دیں ۔
حال ہی میں ان کے والد نے دو مولویوں کو بلایا جنہوں نے عباس کو دھمکیاں دیں اور ان کے والد کو کہا کہ وہ بھول جائیں کہ وہ ان کے بیٹے ہیں ،ایسے حالات میں ان کی والدہ نے گھر سے بحفاظت نکل جانے میں ان کی مدد کی ۔
پنجاب میں احمدیہ مسجد کو درپیش خطرات
جوہر ٹاؤن لاہور،فروری 2020:اس علاقہ میں ایک لمبے عرصے سے مقامی احمدیہ جماعت کو احمدی مخالف عناصر کی طرف سے اپنی مسجد وغیرہ کے حوالے سے کئی مسائل کا سامنا ہے۔
چنانچہ مارچ 2017ءمیں مخالفین نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی کہ احمدیوں نے اس جگہ غیر قانونی مسجد تعمیر کی ہے۔ ایک اَور درخواست ایک کالعدم جماعت کے رکن احسان الحق کی جانب سے بھی دائر کی گئی تھی اس پر کورٹ نے مذکورہ کیس ڈپٹی کمشنر کو ریفر کر دیا تھا ۔ڈی سی نے فریقین سے مؤقف سننے کے بعد کیس دوبارہ کورٹ کو بھجوا دیا تھا۔اس احمدی مخالف تحریک میں مولوی احسان الحق ،مولوی لئیق دیوبندی ملاحسن معاویہ اور شیخ ناصر پیش پیش ہیں ۔کئی بار مخالفین نے پولیس کو بلایا۔ بعض اوقات مسجد کے CCTVکیمروں کو بنیاد بنا کر اعتراضات کیے۔ اب ڈی سی کی طرف سے کیے گئے فیصلے کے بعد مخالفین نے دوبارہ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے۔SHOنے یکم فروری 2020ء کو احمدیوں کی طرف سے ایک وفد کو بلوایا ۔اس نے اس وفد سے پوچھا کہ مخالفین کو شکایت ہے کہ کچھ بیرونی لوگ مسجد میں آتے جاتے ہیں نیز یہ بھی کہا کہ مخالفین ‘‘مسجد کنز ایمان’’ کے نزدیک جلائےجانے والے قرآن کے واقعہ کو احمدیوں سے منسوب کر رہے ہیں ۔ اس نے یہ بھی کہا کہ یہ تمام جھگڑا ذیشان احمد رانا (جو وہاں صدر جماعت بھی ہیں )ان کی وجہ سے ہے اور ان کا وہاں جانا خطرناک ہے ۔SHOنے یہ بھی دھمکی دی کہ اگرذیشان احمد رانا نے تعاون نہ کیا تو ان کو گرفتار کرنے کے احکامات جاری کر دیے جائیں گے ۔
پاکستان میں اب تک حکومت اور معاشرہ میں متشدد عناصر کی طرف سے احمدیہ مساجد کو مسمار کرنے یا نقصان پہنچانے یا مخالفین کے حوالہ کرنے کے واقعات کی تعداد 170؍ہے۔
وکلاء اور ختم نبوت
ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف سے اشتہار شائع کیا گیا کہ 22؍فروری 2020ء کو بوقت گیارہ بجے ختم نبوت سیمینار منعقد ہوگا۔تمام وکلاء سے اس میں شمولیت کی درخواست ہے۔اس سیمینار میں ملا محمد آصف اور حسین احمد عرفان مقرر ین میں سے ہوں گے۔
اس اشتہار میں زور دیا گیا کہ “شمع ختم نبوت کے پروانوں سے شرکت کی اپیل کی جاتی ہے’’۔
ایسا لگتا ہے کہ اس پیشہ ورانہ وکلاء کی تنظیم کی نظر میں ضلع بھر میں قانون کی حکمرانی ،آئین و قانون پر عمل در آمد ،بنیادی آزادی، معاشی ومعاشرتی انسانی حقوق ، جبری گمشدگی ،جمہوری ترقی اور انصاف کی فراہمی وغیرہ جیسے مسائل حل ہو چکے ہیں اور ختم نبوت کا مسئلہ ایسا “بنیادی مسئلہ” ہے کہ جو وکلاء کی خصوصی توجہ چاہتا ہے ۔
لاہور میں احمدیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات
علی ٹاؤن لاہور،فروری 2020ء:یہاں احمدیوں کے تین خاندان رہائش پذیر ہیں کچھ دن قبل ایک احمدی خاندان میں ایک شادی کی تقریب منعقد ہوئی۔ یہاں ایک مسجد کے ملا نے ارد گرد کے غیر احمدیوں کو احمدیوں کی مخالفت کے لیے جمعہ کے خطبہ میں مشتعل کیا اور ایک احمدی خاندان جو اس شادی میں شمولیت کاارداہ رکھتا تھا کو کہا گیا کہ وہ احمدیت چھوڑکر ‘اسلام’ قبول کریں ۔
کاروبار اور مذہبی تعصب
لاہور،19؍فروری2020ء:ایاز نذیر احمدی ہیں اور ان کی لاہور میں ایک دکان ہے ۔ان کا چند روز پہلے ساتھ والےدکاندار کے ساتھ شٹر بند کرنے کے حوالے سے جھگڑا ہو گیا تھا جس پر ان کا مارکیٹ یونین کے ساتھ معاہدہ طے ہو گیا کہ ساتھ والا دکانداربند شٹر کو دوبارہ نہ کھولے گا۔مورخہ 11؍فروری 2020ء کو سا تھ والے دکاندار نے اپنے ساتھ سو آدمیوں کو لا کر شٹر کے تالے توڑ دیے اور اس کو دوبارہ کھول دیا۔ اس خلاف ورزی پر ایاز نذیر نے جب معاملہ اٹھا یا تو مذکورہ دکاندار اس ذاتی نوعیت کے جھگڑے میں مذہب کو درمیان میں لے آیااور ایک ملا نے لوگوں کو مذہب کے نام پر موصوف کے خلاف اکسانا شروع کر دیا۔ اس پر پولیس کو بلایا گیا جو فریقین کو اپنے ساتھ پولیس اسٹیشن لے گئی جہاں جاکر اس مسئلہ کا حل طے پایا۔
ملاں کی ‘خدمت قرآن’
چنیوٹ ،فروری 2020ء:ملا حسن معاویہ جو کہ لاہور سے تعلق رکھتا ہے اور احمدیوں کو نقصان پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتا۔یہ ملا طاہر اشرفی کا بھائی ہے جو حکومتی حلقوں میں کافی اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ ملا معاویہ کا مجرمانہ ریکارڈ ہے اور ماضی میں اس کانام بستہ چہارم میں بھی شامل رہا ہے۔ یہ احمدیوں کو اپنے مذہبی تعصب کا نشانہ بنا کر ان کے خلاف مقدمہ بازی میں مصروف رہتا ہے اور اس بات کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ اس کی وجہ سے ماضی میں کئی احمدیوں کو قرآن کریم پڑھنے کے جرم میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ماہ رواں میں اس نے ایک مرتبہ پھر DPOچنیوٹ کے پاس احمدیوں کے خلاف درخواست دائر کی ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ احمدی 7؍فروری 2020ء سے 13؍فروری 2020ء تک ہفتہ تعلیم القرآن منا رہے ہیں۔اس درخواست میں احمدیوں پر الزام لگایا ہے کہ اس ہفتہ میں احمدی قرآن کریم کی تحریف شدہ تراجم قرآن تقسیم کریں گے اور درس کے نام پر لیکچرز دیے جائیں گے۔ایسا صرف ضلع چنیوٹ ہی میں نہیں بلکہ پورے پاکستان میں کیا جائےگا۔ اس درخواست میں اس نے مطالبہ کیا کہ احمدی تعلیمات پر مشتمل لٹریچر کو ضبط کیا جائے اور کمپوزر ،پرنٹر،اور پبلشر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے ۔ اس ملا نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایسے احکامات لاہور ہائی کورٹ سے بھی جاری ہو چکے ہیں ۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پولیس ایک سے زائد مرتبہ مذکورہ الزامات کی تحقیق بھی کر چکی ہے اور اعلیٰ عدلیہ اور انتظامیہ کو رپورٹ بھجوا چکی ہے کہ احمدی اب قانون کے مطابق قرآن کریم یا اس کے ترجمہ کو شائع نہیں کر رہے۔
معمولی شک کی بنا پر ایک احمدی پولیس کی حراست میں
جمیل ٹاؤن لاہور،13؍فروری 2020ء
جمیل ٹاؤن کے ایک احمدی رہائشی مکرم نعمان سعیدکو پولیس نے حراست میں لے لیا کیونکہ پولیس کو ان پر ایک اغواء کے کیس میں ملوث ہونے کا شک تھا۔موصوف کو اس کیس کےمتعلق کچھ بھی آگاہی نہ تھی ۔ پولیس نے انہیں بعد میں رہا بھی کر دیا تاہم اس واقعہ کی وجہ سے موصوف اور ان کے خاندان کو کافی دباؤ اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔
٭…٭…٭