منظوم کلام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
زندہ وُہی ہیں جو کہ خدا کے قریب ہیں
مقبول بن کے اُس کے عزیز و حبیب ہیں
وہ دُور ہیں خدا سے جو تقویٰ سے دُور ہیں
ہر دم اسیرِ نخوت و کِبر و غرور ہیں
تقویٰ یہی ہے یارو کہ نخوت کو چھوڑ دو
کبر و غرور و بخل کی عادت کو چھوڑ دو
اِس بے ثبات گھر کی محبت کو چھوڑ دو
اُس یار کے لئے رہِ عشرت کو چھوڑ دو
لعنت کی ہے یہ راہ سو لعنت کو چھوڑ دو
ورنہ خیالِ حضرتِ عزت کو چھوڑ دو
تلخی کی زندگی کو کرو صدق سے قبول
تا تم پہ ہو ملائکۂ عرش کا نزول
اسلام چیز کیا ہے خدا کے لئے فنا
ترکِ رضائے خویش پئے مرضیٔ خدا
جو مر گئے انہیں کے نصیبوں میں ہے حیات
اس راہ میں زندگی نہیں ملتی بجز ممات
شوخی و کبر دیوِ لعیں کا شعار ہے
آدم کی نسل وہ ہے جو وہ خاکسار ہے
اے کِرمِ خاک چھوڑ دے کبر و غرور کو
زیبا ہے کبر حضرتِ ربِّ غیور کو
بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں
شاید اسی سے دخل ہو دار الوصال میں
چھوڑو غرور و کبر کہ تقویٰ اسی میں ہے
ہو جاؤ خاک مرضیٔ مولیٰ اسی میں ہے
تقویٰ کی جڑ خدا کے لئے خاکساری ہے
عفّت جو شرط دیں ہے وہ تقویٰ میں ساری ہے
جو لوگ بدگمانی کو شیوہ بناتے ہیں
تقویٰ کی راہ سے وہ بہت دُور جاتے ہیں
بے احتیاط اُن کی زباں وار کرتی ہے
اِک دم میں اُس علیم کو بیزار کرتی ہے
اِک بات کہہ کے اپنے عمل سارے کھوتے ہیں
پھر شوخیوں کا بیج ہر اک وقت بوتے ہیں
(براہین احمدیہ حصّہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 17تا18)