کورونا وائرس کے بارے میں عالمی شہرت یافتہ ماہر متعدی امراض ڈاکٹر فہیم یونس سے سیر حاصل گفتگو
ہم گویا ایسے سپاہی ہیں جن کے ہاتھوں میں جنگ لڑنے کے لیے قینچیاں اورچھریاں ہیں جبکہ مدمقابل ایف سولہ اورٹینکوں سے لیس ہے
[29؍ مارچ 2020ء کو ریویوآف ریلیجنزکی دو رکنی ٹیم نے امریکہ میں مقیم ڈاکٹرفہیم یونس سے کورونا وائرس سے پھیلی وبا کے بارے میں گفتگو کی۔ افادیت کے پیش نظراس انٹرویو کا اردو ترجمہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے]
ڈاکٹرفہیم یونس انفیکشن سے پھیلنے والی بیماریوں کے سپیشلسٹ ہیں اوراس حوالے سے عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ آپ یونیورسٹی آف میری لینڈ یو سی ایچ میں چیف کوالٹی آفیسراورچیف آف انفیکشیس ڈیزیز (Chief of Infectious Diseases) ہیں۔
ٹیم: ڈاکٹر فہیم السلام علیکم
ڈاکٹرفہیم: وعلیکم السلام
ٹیم:اس سے قبل ہم سارس SARS اور سوائن فلو Swine Flu جیسی کئی وبائیں دیکھ چکے ہیں لیکن اس بار ہم اس وبا پر قابو پانے کے لیے جس قسم کےعالمی اقدامات کوہوتا دیکھ رہے ہیں وہ اس سے قبل نہیں دیکھے گئے۔ دکانیں بند ہیں،ٹرانسپورٹ بھی متاثر ہے توآخر کووِڈ (Covid-19) میں ایسا کیا ہے جو اسے مختلف بناتا ہے؟
جواب: بہت ہی اچھا سوال ہے۔ میرے خیال میں اس کا سادہ سا جواب ہے۔ اس کی شدت (Impact)۔ اگرآپ کو یاد ہو توجنوری فروری میں سارے لوگ یہی کہہ رہے تھے کہ یہ ایک قسم کا فلو ہے۔اس کی شرح اموات صرف دوفی صد ہے۔ یہ دوفیصد کا عدد بہت ہی گمراہ کن تھا۔ اگرآپ 2003ء میں پھیلنے والے سارس (SARS) کو دیکھیں تو اس کی شرح اموات 8 فیصد تھی لیکن پوری دنیا میں اس سے مرنے والوں کی تعداد 900 سے بھی کم تھی۔ جبکہ اس وقت کووِڈ 19سے مرنے والوں کی تعداد 26 ہزار سے تجاوزکرچکی ہے۔(یہ تعداد اس وقت نوّے ہزار تک پہنچ چکی ہے) توکووِڈ 19 نے جوکچھ تین ماہ میں کیا ہے وہ سارس دوسال میں بھی نہ کرسکی تھی۔
پس سوال یہ پیداہوتا ہے کہ آخرکیوں؟ یہ والاوائرس اس قدرمہلک کیوں ہے؟
دراصل گزشتہ 17 برسوں میں دنیا میں بہت کچھ بدلا ہے،مثال کے طورپر گلوبل ٹریول(Global Travel)۔2003 میں سالانہ ایک اعشاریہ پانچ بلین لوگ ٹریول کررہے تھے اب یہ تعداد چاربلین سےبھی تجاوزکرچکی ہے، تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس وسیع پیمانہ پراورکہاں کہاں یہ وائرس دنیا میں پہنچاہے۔
ایک اوراہم نکتہ (Data Point) یہ ہے کہ چین کے شہر ووہان (Wuhan) کے لیے سفری پابندی کب عائد کی گئی ۔ کہاجاتا ہے کہ یہ وائرس نومبریا دسمبر میں ظاہرہوا۔معین وقت کا توپتہ نہیں لیکن فرض کریں کہ دسمبر میں ہوا۔اب اگرآپ پیچھے مڑکردیکھیں تو سفری پابندی 21 جنوری تک عائد نہیں کی گئی تھی۔تولاک ڈاؤن ہونے سے پہلے پہلے 21 جنوری تک ووہان سے سات ملین سے زیادہ لوگ نکل چکے تھے۔ اس تعداد کو ذہن میں رکھتےہوئے دو فیصد کاحساب لگائیں اوراس کاموازنہ عام فلوسے کریں (یُوکے کا تومجھے علم نہیں لیکن امریکہ میں ہرسال لگ بھگ 35 ہزار افرادفلو کے ہاتھوں موت کاشکارہوجاتے ہیں) توکورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد اس سے دس یابیس گنا زیادہ ہوسکتی ہے۔ اس کا مطلب امریکہ میں پانچ لاکھ افراد کی موت ہوسکتی ہے۔
اس سے بھی بڑی مشکل اس کے ضمنی مسائل ہیں۔ دس تا پندرہ فیصد ایسےلوگ ہوں گے جنہیں ہسپتال میں داخل کرنا پڑے گا۔ اگرامریکہ کی صرف دس فیصد آبادی بھی اس وائرس کا شکاربنتی ہے ،(اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے)،تو اس کا مطلب ہسپتالوں میں داخل ہونے والوں کی تعداد چھ ملین ہو گی۔ پورے امریکہ میں ہسپتالوں کی تعداد 5000 ہے۔ اس کا مطلب ہرہسپتال پرایک ہزاراضافی مریضوں کا بوجھ پڑے گا۔ یہی وجوہات ہیں جو اس مسئلے کو گمبھیر بنا رہی ہیں۔
میں اسے ملین پیپرکٹس (a million paper cuts) سے ہونے والی موت قراردیتا ہوں۔ ہواکچھ یوں ہے کہ بہت سارے چھوٹے چھوٹےعوامل اس طرح سے جمع ہوئے ہیں کہ انھوں نے مل کر زور پکڑا ہے۔ اول طورپرآپ کے پاس ایک نیا وائرس ایک "نوول ایجنٹ” کے طورپرآیاہے۔ ایسا نیا وائرس جوجانوروں سے انسانوں میں آیا ہے، اور چونکہ انسانوں کا اس سے پہلے کبھی واسطہ نہیں پڑا اس لیے ہم اس کے خلاف قوت مدافعت نہیں رکھتے۔ گویا اس نے ہمارے مدافعاتی نظام کو بے خبری کی حالت میں آلیا۔
دوم، اس کا حملہ ایسی جگہ ہوا جو انتہائی ممکن حد تک گنجان آباد تھی۔ اگر یہ وائرس مالدیپ جیسے کسی جزیرے میں ظاہرہوتا، تو عین ممکن تھا کہ یہ دنیا کے کسی اَور خطے تک پہنچ ہی نہ پاتا۔ ووہان نیویارک سے بڑا ہے۔ نیویارک کی آبادی 8 ملین ہے جبکہ ووہان کی 11 ملین۔
سوم، یہ نئےسال پہ ہوا جبکہ سفری سرگرمیاں اپنےعروج پہ ہوتی ہیں۔ اوپر سے پھر چینی سالِ نوکی تقریبات۔ اور
چہارم، یہ کہ سات آٹھ ہفتوں تک تو اس کی شناخت ہی نہ ہوسکی۔
میں چینیوں پر کوئی تنقید نہیں کررہا۔میں سمجھتا ہوں کہ ایک نئے جرثومے کی موجودگی کا پتہ چلانا بہت ہی مشکل کام ہے۔ اس لیے اس وائرس کی تباہ کن صلاحیتوں کومدنظررکھتے ہوئے میرے خیال میں تو چینیوں نے بہت ہی بڑا کام کیا ہے۔
جب کسی بندے کو فلو ہوتا ہے تو وہ ایک یادو نئے افراد کو لگا دیتا ہے۔ لیکن کورونا ایک بندے سے دو یا تین افراد میں منتقل ہوسکتاہے۔ ممکن ہے کسی کو یہ فرق معمولی سا لگے لیکن اگر پوری آبادی کے تناسب سے دیکھیں اور پھر وائرس کے تیسرے،چوتھے،پانچویں حملے کاحساب کریں تو متاثرین کی تعداد ہزاروں لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے۔
پس یہ بہت سے عوامل ہیں جو اکٹھے ہو گئے ہیں اوراسی لیے اس کا اس قسم کا اثر پڑا ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں۔
ٹیم: بہت مفید باتیں بتائیں آپ نے۔ سوشل میڈیا پر آپ نے اپنےٹوئٹر اکاؤنٹ سے اس ضمن میں بہت کچھ کہاہے اور اس وائرس کے بارہ میں پھیلائی گئی توہمات کے قلع قمع کی ضرورت پر بہت تفصیل سےبات کی ہے۔ کیاآپ ہمیں بتایئے گا کہ ان میں سے سب سے اہم بات کون سی ہے؟
ڈاکٹر فہیم:۔۔۔خداہی جانتا ہے،مجھے تو اس کا کوئی آئیڈیا نہیں۔ لیکن اس سےپہلےکہ میں آپ کو یہ بتاؤں کہ زیادہ اہم بات کون سی ہے۔ میں آپ کویہ بتاؤں گا کہ میں (ٹوئٹر کا استعمال) کیوں کررہا ہوں۔میں کثرت سے موصول ہونے ولے ٹیکسٹ میسجز، وٹس اپ اور فون کالزکاساتھ ساتھ جواب دینے کے قابل نہ رہا تھا جوکہ دوستوں ،رشتہ داروں اورممبران احمدیہ مسلم کمیونٹی کی طرف سے لگاتار موصول ہو رہےتھے اورکام کی طرف سے بھی،کیونکہ ہرشخص فکرمند تھا۔
تو اتنی بڑی تعداد میں سوالوں کے فرداًفرداً جوابات دینے کے قابل نہ رہا۔ جبکہ ان میں سے بہت سے سوالوں کا حقیقت سے بھی کوئی تعلق نہ ہوتا تھا۔تو ایسے میں میری بیٹی نے کہا کہ ” ابوآپ اس کےبارہ میں ٹوئیٹ کریں کیونکہ بہت سارے لوگ ٹوئٹر(Twitter) پر ہوتےہیں”۔ تو اس طرح سے میں نے ان توہمات کے بارہ میں ٹویٹ کرنا شروع کردیا جس سے مجھے دنیا بھر سے ریسپانس ملے۔ اس سے مجھے احساس ہوا کہ یہ ایک خدمت ہے۔ میرے خیال میں اَور بھی بہت سے لوگوں کو اس قسم کے سوالوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہوگا۔
دوتین ہفتہ قبل میڈیا پرسارے لوگ ہی گرم مہینوں کی بات کررہے تھے کہ (گرمی آئے گی تو) وائرس چلا چائے گا۔تو اس وقت یہ ایک بڑی مشہور افواہ تھی۔ اگر اس وقت یہ سوال مجھ سے کیاجاتا تو میں یہ کہتا کہ نمبرون افواہ (Myth) یہی ہے۔ لیکن پھراس کے ہفتہ بعد فرانس سے آئبوپروفن (ibuprofen) کاقصہ نکل آیا۔ اور پھرایک برطانوی ڈاکٹر،غالباً ان کی ای این ٹی (امراض کان،ناک،گلا کے ماہرین) سوسائٹی نے بات کی کہ سونگھنے کی حِس متاثرہو سکتی ہے۔گویا سونگھنے کی حس ختم ہوئی تو سمجھوکووِڈ ہوگیا ہے۔ چھوڑیں بھی ،میرے خاندان میں ایسے لوگ ہیں جو کئی سالوں سے سونگھنے کی حس سے محروم ہیں۔میں نہیں چاہتا کہ وہ اس خوف سے ہی مرجائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ (توہمات) میڈیا کے ادوار کے ساتھ چلتی ہیں ۔
ٹیم : ایک احمدی مسلم ہونے کی حیثیت سے، جب کہ ظاہر ہے کہ آپ اس وقت فرنٹ لائن پر ہیں تو، آپ کا عقیدہ اس مشکل وقت میں آپ کا کیسے مددگار ثابت ہورہا ہے؟
ڈاکٹرفہیم: جی، مجھے یہ سوال سن کر خوشی ہوئی، کیونکہ ایک روزقبل میرا ایک ساتھی بھی مجھے ملا، وہ بھی متعدی امراض کا سپیشلسٹ ہے اور بہت ہی قابل آدمی ہے۔ اور اس نے کہا کہ میں تم سے ایک سوال پوچھناچاہتا ہوں۔ مجھے علم ہے کہ تم اس کا کیا جواب دوگے لیکن پھر بھی تم سے پوچھنا چاہتا ہوں۔ مجھے کچھ بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس نے کیا سوچ رکھاہے۔
اس نے کہا "تم ڈرے ہوئے نہیں؟” ۔یہ سن کرمیں زور سے ہنس پڑااور اس سے کہا کہ تم نے بتایا ہے کہ تمہیں میرے جواب کا پہلے سے علم ہے تو بتاؤ کیا ہے جواب؟
اس نے کہا مجھے علم ہے کہ تم کہو گے "نہیں”۔
میں نے جب کہا کہ ہاں یہی درست جواب ہے تو اس نے پوچھا کہ وہ کیوں؟ میں نے کہا کہ دیکھو ایک ایمان والا ہونے کی وجہ سے میں توعام اوقات میں بھی موت کو یادرکھتا ہوں!
پھراس کو کسی ناقابل فہم فلسفہ میں غوطہ دیے بغیرجو کچھ بتایا، وہی تھا جو ہمارے خلفائے کرام نے ہمیں بتایا ہوا ہے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کامرکزی نکتہ ہے۔تقویٰ کیا ہے،خدا سے ڈرنا،(نہ کہ کسی اَورچیزسے)۔ مجھے یقین ہے کہ اگرایمان نہ ہوتا تومزا ہی نہ ہوتا۔
میں فی الحقیقت یہ سمجھتا ہوں کہ یہ وقت ایمان افروز ثابت ہورہا ہے۔ میں "فرنٹ لائن” پہ ہونےکی وجہ سے چنداں خوفزدہ نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میں بہت خوش ہوں۔ میں اپنے پیشے میں بھی مزید مقصدیت ڈھونڈ پایا ہوں۔ مریض تو میں پہلے بھی دیکھتا تھا اور ان کی مدد بھی کرتا تھا لیکن جس درجہ کی راحت ان ایام میں ہم لوگوں کوبہم پہنچا سکنے میں کامیاب ہو رہے ہیں،میرے خیال میں اس کا براہ راست تعلق ایمان سے بنتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا موضوع ہے کہ ایمان کس طرح سے اس عمل کا حصہ بن جاتا ہے لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ اس کا شمال ویمین بھی ہے اور مرکز بھی۔
ٹیم: یہاں، جب ڈاکٹروں سے اور دیگر ہیلتھ ورکرز سے بات ہوتی ہے اور اسی طرح میڈیا پہ بھی یہ سنتے ہیں کہ بہت سارے ڈاکٹر، یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے، اسے دیکھ کر فرسٹریشن اور مایوسی کا شکار ہیں۔ اور اسی طرح شرح اموات کو دیکھ کر قریباً صدمے والی حالت سے دوچارہیں تو اِن میں سے اُن کو جو کسی قسم کا اعتقاد نہیں رکھتے آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
ڈاکٹرفہیم: دیکھیں مجھے موت اور دکھ سے صدمہ نہیں پہنچتا کیونکہ اگر میں ہر دکھ کوروک سکنے والا ہوتا تو پہلے میں اپنے والدین کو مرنے سے بچاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی وقت تو ہم نے رخصت ہونا ہی ہے۔فرسٹریشن مجھے بھی ہوتی ہے،غصہ بھی آتا ہے جوکہ سہولیات کی عدم دستیابی پہ آتاہے۔ ڈاکٹر کی حیثیت سے میرے پاس مریضوں کے لیے مناسب تعداد میں ٹیسٹ (کِٹ) بھی موجود نہیں۔ امریکہ میں رہتے ہوئے،جو کہ سائنس اور اکانومی کا "پاورہاؤس” ہے،میرے پاس مناسب تعداد میں فیس ماسک تک نہیں، این -95 ماسک کی تعدادبھی کافی نہیں۔ میری اپنی ٹیم کے پاس حفاظتی لباس بھی مناسب تعداد میں موجودنہیں۔ ان باتوں سے مجھے فرسٹریشن ہوتی ہے۔ ہم گویا ایسے سپاہی ہیں جن کے ہاتھوں میں جنگ لڑنے کے لیے قینچیاں اورچھریاں ہیں جبکہ مدمقابل ایف سولہ اورٹینکوں سے لیس ہے۔
مریضوں کے حوالے سے دیکھیں تو میرے پاس اس مرض کا کوئی علاج نہیں ،کوئی ویکسسین نہیں۔تودیکھیں کہ کس قدر لاچارہیں ہم ۔
بظاہر تو جیسے آپ ٹی وی ڈراموں میں دیکھتے ہیں ہماراسسٹم انتہائی اعلیٰ قسم کا ہوتا ہے۔ ایمرجنسی شعبہ میں منٹوں میں ٹیسٹ ریزلٹ آجاتے ہیں،ساتھ سی ٹی سکین ہورہا ہوتا ہے اور پھرمریض کا سینہ کھول کراس کے دل کو پمپ کرتے ہیں،تب تک ٹراما سرجن بھی پہنچ جاتا ہے۔ تو ایسا کام کرنے کی صلاحیت رکھنے والوں کو جب آپ مطلوبہ سہولیات فراہم نہیں کر کے دیں گے تو ان میں فرسٹریشن نے توجنم لینا ہی ہے۔
لیکن جہاں تک موت اور مرنے کا عمل یا دکھ،اذیت کا تعلق ہے تو ہمارا کام اپنی پوری کوشش کرنا ہے، باقی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
میں مریضوں کا علاج ایسے ہی کرتا ہوں گویا میری فیملی ہو۔اور اسی لیے میں نے یہ مثال دی کہ میرے دونوں والدین میرے سامنے فوت ہوئے اور میں ان کے لیے اور کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا۔تو میں اس پہلو کوملحوظ رکھتاہوں۔
ڈاکٹر کی حیثیت سے ہمارا کام لوگوں کی مدد کرنا ہے لیکن ڈاکٹر ہوتے ہوئے ہم نے بھی مرجانا ہے،ہمارے اپنے افرادخانہ نے بھی بالآخر اللہ کو پیارے ہو جانا ہے، پس یہ زندگی کا حصہ ہے۔
ٹیم : شکریہ ۔ کیا وجہ ہے کہ پوری دنیا اس وبا سے نبٹنے کے لیے نہ تو تیارتھی اور نہ ہی خود کو تیار کرپائی۔ اگلی وبا کو کیسے روکیں گے؟
ڈاکٹرفہیم: یہ بہت ہی اچھا سوال ہے اور ایک بار پھر کہوں گا کہ مجھے علم نہیں۔ میں آپ کو اس کا سادہ سا جواب کیادوں؟۔ جیسا کہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں (اس جنگ میں) ہم ڈاکٹر اور نرسیں پیادوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ہم عالمی وباؤں کے لیے منصوبہ بندی کرنے والے لوگ نہیں۔اس کام کے لیے کئی بلین ڈالرچاہیے ہوتے ہیں۔اگر آپ ان دنوں گردش کرنے والی ٹیڈ ٹاک (Ted Talkجوکہ ٹیکنالوجی،انٹرٹینمنٹ اورڈیزائن کے موضوعات پر مختصر دورانیہ کی ماہرانہ گفتگو نشرکرنے والی میڈیا ویب سائٹ ہے۔ناقل) دیکھی ہوتوآپ کو پتہ چلے گا کہ بِل گیٹس (Bill Gates) نے آج سے پانچ سال پہلے اس کی پیشگوئی کردی تھی۔لوگ اسے خالص جینئس قرار دیں گے لیکن میرے خیال میں اس کے پیچھے پیسہ اور اقتدار کارفرما ہوتا ہے۔اورپھرذاتی مفادات،طاقت،شہرت اورانا بھی، اور پھران کی باہمی کشمکش کے درمیان اصل مقصد کہیں غائب ہو جاتا ہے۔ یا پھر شاید یہ ان تمام باتوں سے بالا کوئی امرہو۔
جب لوگوں کو اپنے اپنے خساروں کی فکریں لاحق ہوں تو انہیں اس قسم کی منصوبہ بندی پر کیسے آمادہ کیا جاسکتا ہے جو باہمی اتحاد کی متقاضی ہو؟
وائرس کو دیکھیں تو وہ عالم انسانی کے خلاف متحد ہوکر حملہ آور ہوا ہے،وہ تمہارے تیار کردہ کسی سوالنامہ والے سوال نہیں پوچھتا کہ بتاؤتم برٹش ہو یا امریکن؟احمدی ہو یا شیعہ؟،کالے ہو یا گورے؟،مرد ہو یا عورت؟ امیر ہو یاغریب۔
میرے خیال میں یہ وائرس انتہائی "بااخلاق وائرس” ہے، صرف ایک سوال پوچھتا ہے کہ "کیا تم انسان ہو؟”
اور ہم انسان ہیں کہ بٹے ہوئے ہیں۔عالمی وباکے لیے متحدہوکر منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔وہ متحدہ پلیٹ فارم کہاں ہے ؟۔کون سا پلیٹ فارم ہے جس پر ہم عالمی نوعیت کے متفقہ فیصلے کررہے ہیں؟
یہی وہ نکتہ ہے جس کی طرف احمدیہ مسلم جماعت کے سربراہ حضرت مرزامسروراحمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہٖ العزیز کم از کم گزشتہ 12 برس سے توجہ دلا رہے ہیں۔مجھے یادہے جب انہوں نے یہ باتیں بتائی تھیں۔
جب کہ اقوام متحدہ کا ادارہ ایک طرح سے غیرمؤثرہوچکا ہے تومختلف نیشنلسٹ حکومتیں سراٹھا رہی ہیں۔ میرے نزدیک مسئلہ کی جڑ یہی ہے۔
لیکن اگر یہ سوال پوچھیں کہ کیا اس وبا کی ابتدائی وارننگ مل رہی تھی اور کیا دنیا اس وارننگ سے باخبرکردی گئی تھی تو اس کا جواب ہے کہ ہاں وارننگ بھی ملی تھی اور دنیا بھر کوباخبر بھی کردیا گیا تھا۔لیکن کیا اس کے بارے میں عالمی پولیٹیکل لیڈرشپ کچھ کرنے کے لیے آمادہ تھی؟ تو اس کے بارہ میں میں نہیں جانتا۔
ٹیم: شکریہ۔ سیلف آئسولیشن ( Self-Isolation) یعنی خوداختیارکردہ تنہائی کے بارہ میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ مفید ثابت ہو سکتی ہے لیکن یہ بھی کہ سال چھ مہینے کے لیے گوشہ نشین ہو جانا مسئلے کا حل نہیں کیونکہ وائرس دوبارہ بھی تو آسکتاہے۔
ڈاکٹرفہیم : بالکل درست، وہی بات کہ ہاتھی کوکیسے کھائیں گے؟ سالم نگل کریا لقمہ لقمہ کرکے؟ یہاں یہ صورتحال ہے کہ جس ہاتھی سے ہمارا واسطہ ہے اسے سالم نگلنا لازمی ہے۔ لہٰذا میرا نہیں خیال کہ سیلف آئسولیشن یا سماجی دُوری مسئلہ کا واحد حل ہے۔ ایسا سمجھنا درست نہیں۔
اس کے لیےہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کورونا کا علاج ڈھونڈنے یا اس کی ویکسین بنانے میں ہم کتنا پیچھے رہ گئے ہیں۔اگر ڈیڑھ دو سال پیچھےہیں تواس کا مطلب ہمیں اس کی دوا یا ویکسسین تیارکرنے کے لیے اٹھارہ یا چوبیس ماہ درکار ہیں۔ اس سے اگلا سوال پھر یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس عرصہ کے دوران ہم کس حکمت عملی کے ذریعہ بنی نوع انسان کوکم سےکم نقصان سے دوچارکرتے ہوئے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟۔
اس ضمن میں پہلا قدم تین ہفتوں کی سیلف آئسولیشن ہے، جسے میں سماجی دوری (Social Distancing) کانام دیتا ہوں۔
ان چیزوں پرچونکہ میں ہمہ وقت بہت گہری سوچ بچارکرتارہتا ہوں لہٰذا آپ کو سمجھانے کے لیے یہ منظرنامہ پیش کرونگا کہ ہرمعاشرہ میں تین طرح کے طبقات ہوتے ہیں۔امیر،متوسط اورغریب۔ ان میں سے جو غریب طبقہ ہے اسے ہی ان تین ہفتوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔جبکہ متوسط طبقہ جوں توں کرکے یہ وقت گزارہی لےگا۔ توحکومت اورمالدارطبقہ کوغریبوں کے لیے امداد فراہم کرنا پڑے گی ورنہ وہ پیٹ کی خاطرباہر نکلنے پرمجبورہو جائیں گے۔ تو ان کے لیے سوشل سپورٹ کی ضروت پڑے گی۔
ان تین ہفتوں کے دوران ہمارا کام یہ ہوگا کہ سب لوگوں کے لیے کورونا ٹیسٹ دستیاب کردیں۔ ساتھ ہی وافر تعداد میں مختلف کمپنیوں سے پی پی ای(حفاظتی گاؤن وغیرہ) تیارکروائیں۔
سنگاپور نے ایسا ہی کیا۔ ان کی آبادی ساڑھے پانچ ملین ہے،انہوں نے چند ہفتوں کے اندر اندر ملک میں 900 ٹیسٹ سنٹر قائم کردیے۔ اگروہ ایسا کرکے دکھا سکتے ہیں تو لندن یا نیویارک ایسا کیوں نہیں کرسکتے۔
ان تین ہفتوں کے اندر ہمیں گھر گھر جاکر ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت حاصل کرنا ہوگی۔اس کے علاوہ بازاروں، گلیوں کوچوں،اجتماعات والی جگہوں پر بھی لوگوں کے لیے ٹیسٹ کی سہولت فراہم کردی جائے تاکہ جو چاہے جاکر اپنا ٹیسٹ کروا سکے۔
آپ دیکھیں گے کہ 10 یا 20 فیصد آبادی کو ٹیسٹ کرنے کے بعد آپ کو ایسے افراد کاپتہ چل جائے گا جو بظاہر تندرست ہیں یا معمولی بیمارہیں اوران میں وائرس ملا ہے تو آپ ان کو آئسولیٹ ہونے کا کہیں گےاور باقی سوسائٹی کو اپنے معمولات جاری رکھنے کا کہہ سکتے ہیں۔ تو اس طرح سے معین طورپر ایک لائحہ عمل بنائیں۔ جس کے ذریعہ آپ باقاعدہ ٹارگٹ کرکے "ٹیسٹ…آئسولیٹ”…” ٹیسٹ …آئسولیٹ” پرعمل کررہے ہوں گے۔
یہ کام آپ 14 یا 16 ماہ تک کرتے رہیں جب تک کہ کوئی ویکسین تیار نہیں کرلی جاتی یا علاج نہیں ڈھونڈ لیا جاتا۔
پس یہ محض سماجی دوری تک محدود نہیں بلکہ سہ شاخہ لائحہ عمل ہوگا، …سماجی فاصلہ، پھر ٹیسٹنگ، پھر قرنطینہ اور پھرعلاج۔
ان کے علاوہ اور بھی باتیں ہیں۔ امید ہے کہ ایک دو ماہ کے اندر ہم ٹیسٹ کرکرکے ایسے تمام افراد کا بھی پتہ چلا لیں جنہیں یہ وائرس لگا تھا اور انہوں نے قدرتی طورپر اس کے خلاف مدافعاتی مادے بنالیے اور وہ تندرست رہے یا بیمار تھے اور تندرست ہوگئے۔ ایسے افراد کے خون سے ہم یہ مدافعاتی مادے (Antibodies) اخذ کرکے آئی سی یو میں پڑے شدید بیماروں کو لگا کران کی جان بچا سکیں گے۔ اس عمل کو پَیسِیو امیونیٹی (Passive immunity) کہتے ہیں ۔
اس کے ساتھ ہمیں مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعہ لوگوں کویہ امید بھی دلانا ہے کہ بنی نوع انسان اس کے بعد بھی قائم رہے گی۔
احمدی ہونے کی حیثیت سے ہم حضرت مرزاغلام احمدقادیانی مسیح موعود ومہدی معہود علیہ السلام کی دی ہوئی اس خوش خبری پر بھی یقین رکھتے ہیں جو احمدیہ مسلم جماعت کے آئندہ تین سوسال کے مستقبل کے بارہ میں ہے۔ (حوالہ کے لیے دیکھیں :تذکرۃ الشہادتین ۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 67 ۔ ناقل)
پس مجھے بنی نوع انسان کے بارے میں کوئی فکرلاحق نہیں لیکن لوگوں کوبہرحال ایسے طریق پر یہ باتیں بتانا ہوں گی جسے وہ بطوراحسن سمجھ سکیں۔
ٹیم: شکریہ ۔اس مرض کے حوالہ سے ایک صحت مند مدافعاتی نظام Immune System کاحامل ہونا کتنا اہم ہے؟
ڈاکٹرفہیم: بنیادی بات یہ ہے کہ اس معاملہ میں ہم سب ایک ہیں۔اس وائرس کے خلاف کسی انسان کے جسم میں مدافعاتی مادے (Antibodies) پہلے سے موجود نہیں کیونکہ یہ ایک بالکل نئی قسم کا (Novel Strain) وائرس ہے۔
اب ذرا مکان میں آگ لگنے کی مثال لے لیں۔ ہرمکان آگ لگنے سے تباہ ہو سکتا ہے ۔لیکن ایسا مکان جس میں لکڑی کم اورلوہا زیادہ ہو،وہ آگ سے زیادہ محفوظ رہے گا۔یہی حال ہمارے مدافعاتی نظام کا بھی ہے۔اچھامدافعاتی نظام اس مکان کی طرح ہے جس میں لکڑی کم اورلوہا زیادہ ہو۔ اور یہ بات ان لوگوں پرصادق آتی ہے جو اپنی صحت کا خیال رکھتے ہیں،باقاعدہ ورزش کرتے ہیں،انہیں کوئی اور پانچ قسم کی بیماریاں لاحق نہیں،جو پوری نیند لیتے ہیں اور میں تو یہاں تک کہوں گا کہ جومثبت رویوں کے بھی حامل ہیں ان کا مدافعاتی نظام اچھاہوتا ہے۔میرے نزدیک یہ صفات فائدہ مندہیں۔
ایک یا دوسال بعد جب ہم تجزیہ کریں گے تو معلوم ہو جائے گا کہ اس مرض نے دنیا کے مختلف خطوں کو کس حد تک اور کیسے متاثر کیا۔
گذشتہ وباؤں میں تو مجھے دنیا بھرکی صورتحال یکساں نظرآتی ہے لیکن دیکھیں اس مرتبہ کیا ہوتاہے۔
ٹیم:لوگ اس عالمی وبا کے نفسیاتی اثرات پر بھی بات کررہے ہیں ،خصوصاً اِس ملک میں۔ آپ نے مثبت رویے کی بات کی ہے لیکن امکان ہے کہ بہت سے لوگ صدمہ سے بھی دوچارہونگے اور گہرے غم میں بھی مبتلا، مثلاً رشتہ داروں کی جدائی پر،اسی طرح فرنٹ لائن پر کام کرنے والے بھی متاثر ہونگے،تو اس حوالے سے آپ کے خیال میں آگے کیسے بڑھا جاسکتا ہے؟
ڈاکٹر فہیم: یہ بہت ہی مشکل سوال ہے۔کیونکہ میرے نزدیک انسان ایک بہت ہی پیچیدہ قسم کی مشین ہے۔دنیا کے بارے میں ہرایک نے اپنا ہی تصورباندھا ہوتا ہے۔اوراس صورتحال میں بھی ہر شخص اسی طرح سے متاثر ہوگا جس طرح سے وہ پہلے اپنی زندگی میں متاثرہوتارہا تھا۔ اوراس کے زخم بھی اسی طریق پر مندمل ہوں گے جس طریق سے اس نے اپنے مستقبل کے لیے گمان باندھ رکھا ہوگا، جو کچھ بھی ہوسکتاہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ قدرت نہ تو انعام دیتی ہے اور نہ سزا بلکہ سب مکافات عمل کے طورپرہوتا ہے۔
اس لیے افسوس کے ساتھ میں یہی محسوس کررہا ہوں کہ بنی آدم کی حیثیت سے ہمارا سامنا بہت سارے مکافات سےہوگا۔ ۔جس کا مطلب ہے بالفرض اگر مجھے دماغی عارضہ لاحق ہے تووہ مزید بڑھ سکتاہے۔اور اگرمیں زندگی میں پہلے ہی دسیوں قسم کے مسائل سے نبردآزما تھا تو یہ نیا کھڑاک میرے مسائل کو مزید پیچیدہ بناسکتاہے۔
اگر میں ایک ایسے ملک یا معاشرہ میں رہ رہا ہوں جوفردی اکائیوں پراستوار (individualistic) ہے تو ایسی صورتحال میرے لیے ایک بہت ہی مختلف تجربہ بن جائے گی بہ نسبت ایک ایسی سوسائٹی کے جہاں اجتماعیت کا رجحان پایا جاتا ہو۔
چنانچہ میرے لیے احمدیت ماں کی گود کی طرح ہے۔ ہم ،جنہیں خلافت کی نعمت میسر ہے،جن کا ایک تعلق ہے، تو ہمارا نمونہ لازماً بہت مختلف ہوگا۔ہم سمجھیں گے کہ ہمیں خدمت انسانیت کا ایک موقع ہاتھ آگیا ہے۔ اور جس طرح یہ وائرس بلا تفریق حملہ کرتا ہے،ہم بلا تفریق خدمت بجا لائیں۔ یہ ایک سنہری موقع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں روحانی طورپر قوت مدافعت (spiritual immunity) بخشی ہے جو ہمیں اس دنیا میں کھڑے ہونے کے لیے ایک مختلف زمین عطاکردیتی ہے۔ پس میرے خیال میں ہمیں یہی کرنا چاہیے۔
لیکن واضح رہے کہ لوگوں میں بہت ہی دکھ، احساسِ تنہائی، ڈیپریشن،اور صدمات کے بد اثرات (PTSD) پھیلیں گے اورمیں امید کرتا ہوں کہ ہم اسے اپنا دکھ سمجھ کرلوگوں کے ساتھ ہمدردی کا سلوک کریں گے نہ کہ اس کی نفی کرکے۔
ٹیم: آخری سوال یہ ہے کہ جیسا کہ میرا اپنا بھی یہی خیال ہے کہ اب دنیا پہلی جیسی نہیں رہے گی توآپ اس کے بارہ میں کیا کہنا چاہیں گے؟
ڈاکتڑفہیم: اس کا جواب دینا آسان نہیں۔ مستقبل میں دنیا کیسی ہوگی،اس کا تصورکرتے ہوئے میں کانپ جاتا ہوں ۔شاید اس کا سبب میری سوچ ہو۔
جو عقلمند ہیں، وہ اندرونی محاسبہ کرتے ہوئے نتائج اخذ کر رہے ہیں، سبق حاصل کر رہے ہیں اور جو زیادہ عقلمند نہیں وہ دوسروں پرالزام تراشیاں کررہے ہیں۔ وہ اپنا طرزعمل بھی تبدیل نہیں کر رہے۔ ان کے نزدیک زندگی یونہی چلتی رہے گی ۔
جبکہ میں پورے وثوق کے ساتھ اس کو بہت لحاظ سے ایک نادرموقع کے طورپر لے رہا ہوں۔
"دکھ ” (suffering) کا جو سارے کا سارا تصور ہے ،وہ یہی تو ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الہام ،عقل،علم اور سچائی”(Revelation, Rationality, Knowledge, and Truth) میں اس کو وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ د کھ (suffering) ہمیں کتنے سارے مواقع (opportunities) فراہم کرنے کا ذریعہ بنتا ہے اور یہ کہ چاہیں تو اس موقع سے زیادہ فائدہ اٹھالیں اور چاہیں تو کم۔
تو میرے خیال میں مختلف رنگ (spectrum) دیکھنے کو ملیں گے۔ کچھ لوگ ان حالات سے کچھ نہ کچھ سبق سیکھیں گے اوران کی زندگیوں میں ایک دائمی تبدیلی رونما ہو جائے گی جو میرے خیال میں بہت اچھی بات ہوگی۔ کاش کہ یہ دنیا آگے چل کرایک مختلف دنیا بن جائے۔ لیکن میں نے زندگی میں جتنا دکھ دیکھا ہے،اس کی بنا پرتجربے سے کہتا ہوں کہ بدقسمتی سے کچھ چیزیں کبھی نہیں بدلتیں،حالانکہ ان میں تبدیلی لانے کااختیارہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
اس بات کااطلاق مجھ پہ بھی ہوتا ہے،آپ پربھی اورہماری کمیونٹی پر بھی۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہٖ العزیز ہر ہفتے ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے،ہمارے لیے کیا مفید ہے۔ اور چاہے آپ اس بات سے اتفاق کریں یا نہ، لیکن( ان کی نصیحتوں پر) ہم سب ایک دوسرے سے مختلف قسم کا ریسپانس دیتے ہیں، ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں تویہاں بھی مختلف رنگ (Spectrum) دکھائی دیں گے۔
چنانچہ کچھ تو ایسے ہونگے جو ان کی نصائح کے عین مطابق خود کوڈھال لیں گے،جبکہ ان کے بالمقابل دوسرے کنارے پر ایسے لوگ ہونگے جو اپنی زندگیوں کو جوں کا توں ہی رکھیں گے۔
میری خواہش بھی ہے اورامید بھی کہ ہم سب بطورایک کمیونٹی حضورِاقدس کے پیغام کی مطابقت میں حرکت کریں،خواہ یہ حرکت ایک انچ کی ہو یا ایک میل کی ۔
میں ہروقت سیدنا حضورانورکی ایک مجلس سوال وجواب کے بارے میں سوچا کرتا ہوں جس میں آپ نے اس فکر کا اظہارفرمایا تھا کہ جب وہ انقلابی لمحہ (Breakthrough) آئے گا جب لوگ خدا تعالیٰ کی تلاش میں نکل پڑیں گے تو کیا ہم نے بھی اس وقت کے لیے خود کو تیارکرلیا ہوگا؟
پس ہوسکتا ہے کہ یہ (کورونا) ہمیں بیدارکردے اورہم اس ( Breakthrough) کے لیے تھوڑی سی تیاری اورکرلیں۔ بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں۔
ٹیم: جزاک اللہ ۔آپ کے جوابات بہت فکرانگیز تھے۔ ” دی ریویو آف ریلیجنز” کی جانب سے آپ کا بہت بہت شکریہ۔ ہم آپ سب کا،جو فرنٹ لا ئن پہ باوجود ناکافی آلات کے اپنا کام کر رہے ہیں ،بیحد احترام کرتے ہیں۔اور پھر آپ کی فیملیاں بھی ہیں جو کہ یقینی طورپر آپ کے لیے فکرمندہونگی، توانشاء اللہ ہم آپ کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں گے۔آپ کا بہت بہت شکریہ ،آپ نے ہمیں وقت دیا۔
ڈاکٹرفہیم: کوئی بات نہیں،مجھے خوشی ہوئی ہے۔جزاکم اللہ
(الفضل انٹرنیشنل یہ انٹرویو افادۂ عام کے لیے ریویو آف ریلیجنز کے شکریہ کے ساتھ شائع کر رہا ہے۔ اصل انٹرویو (بزبانِ انگریزی) سے استفادہ کرنے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کیجیے)
(ترجمہ وتلخیص: ڈاکٹرطارق احمدمرزا۔آسٹریلیا)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
جزاکم اللہ احسن الجزاء
بہت ہی اعلیٰ انٹریو۔ ترجمہ بھی ماشاءاللہ بہت اچھی اردو زبان میں کیا گیا۔
اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب اور ان کے اہل و عیال کو اپنی حفظ و امان میں رکھے،اس انٹرویو کے لئے وقت دینے اور اتنی مفید معلومات پہنچانے کی احسن جزائے خیر عطا فرمائے،آمین ثم آمین
اسی طرح ان دوستوں کو جنہوں نے اس انٹرویو کے ذریعہ مفید معلومات ہم تک پہنچانے میں کردار ادا کیا۔اللہ تعالیٰ ان سب کو بھی احسن جزا سے نوازے،آمین۔
اسلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ڈاکتر صاحب اور ان کی فیملی کا اللہ تعالی نگہبان ہواللہ تعالی ہمیں توفیق عطا کرے ک ہم اللہ تعالی اور اس کی مخلاق کا حق ادا کرنے والے ہوں آمین