سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا سفر ہوشیار پور
جب ہندوستان میں عیسائی مشنریز کا زور ہوا اور اسلام اور بانی اسلام ﷺ کے خلاف سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں اُس زمانہ میںلاتعداد پمفلٹ اور اشتہارات تقسیم ہوئے جس نے مسلمانوں کو عیسائیت کی جھولی میں ڈالنا شروع کر دیا اور جو عیسائیت میں شامل نہیں ہوئے اُن میں سے لاتعداد مسلمان ایسے تھے جن کے ذہنوں میں اسلام کی تعلیم کے خلاف شبہات پیدا ہونے لگے۔ اور پھر عیسائیت کے اِس حملے کے ساتھ ہی آریہ سماج اور برہمو سماج اُٹھے۔ یہ تحریکیں بھی پورے زور سے شروع ہوئیں اور مسلمانوں کا اُس وقت یہ حال تھا کہ بجائے اِس کے کہ دوسرے مذاہب کامقابلہ کریں آپس میں دست وگریباں تھے، ایک دوسرے پر تکفیر کے فتوے لگا رہے تھے۔ اُس وقت اسلام کی اِس نازک حالت پر اگرکوئی حقیقت میں فکر مند تھا اور اسلام کا دفاع کرنا چاہتا تھا تو وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام تھے… اس صورت حال میں آپ نے بڑے درد سے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں کہ مَیں تیرے آخری اور کامل دین اور حضرت خاتم الانبیاﷺ جو تیرے بہت زیادہ پیارے ہیں ان کے دفاع کے لئے سب کچھ کر رہا ہوں اس لئے اے اللہ توُ میری مدد کر۔ اور اس سوچ کے ساتھ آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ایک چلّہ کشی کریں۔ یعنی چالیس دن تک علیحدہ ایک جگہ پر اللہ تعالیٰ سے خاص دعائیں کریں تاکہ خداتعالیٰ سے اسلام کی سچائی اور آنحضرتﷺ کی صداقت کا خاص تائیدی نشان مانگیں۔ (خطبات مسرورجلد 7صفحہ89-90)
حصول نشان کیلئے سوجان پور کا ارادہ
اس غرض سے حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے 1884ء میں ارادہ فرمایا کہ قادیان سے باہر جاکر کہیں چلہ کشی فرمائیں گے اور ہندوستان کی سیر بھی کریں گے۔ چنانچہ ایسی خلوت گاہ کے لئے پہلے آپ علیہ السلام نے قادیان سے قریب ایک پہاڑی مقام سوجان پورضلع گورداسپور جانے کا ارادہ فرمایا۔اور اس کے متعلق حضور علیہ السلام نے ایک اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا پوسٹ کارڈ حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا جس کے جواب میںفوراً حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ حضور مجھے بھی اس سفر میں اور ہندوستان (کی سیر)کے سفر میںاپنے ساتھ رکھیں۔ حضرت اقدس مسیح پاک علیہ السلام نے آپ کی درخواست کو منظور فرمالیا۔ (سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ 62 روایت نمبر88)
ہوشیارپور میں خلوت کا الٰہی فیصلہ
لیکن جب حضور علیہ السلام نے حسب عادت اس کام کے لئے استخارہ کیا توجناب الٰہی کی طرف سے آپ علیہ السلام کو جنوری 1886ء میں حصول نشان کے لئے ہوشیار پور میں خلوت گزیں ہو کر دعائیں کرنے کا حکم ملا اور الہاماً بتایا گیا کہ ’’ایک معاملہ کی عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہو گی۔‘‘ (تذکرہ:صفحہ 106طبع چہارم 2004ء)چنانچہ آپ علیہ السلام نے اپنے ایک محب صادق حضرت منشی رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ کو 13؍جنوری 1886ء کو خط لکھا کہ: ’’خدا وند کریم جلّشانہٗ نے اس شہر کا نام بتا دیا ہے کہ جس میں کچھ مدت بطور خلوت رہنا چاہیے اور وہ ہوشیار پور ہے‘‘۔ (مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ468مطبوعہ 2008ء خط مرقومہ 13جنوری 1886ء مکتوب نمبر22) اس حکم الٰہی کے بعد آپ علیہ السلام نے سوجان پور جانے کا ارادہ ترک کردیا اور ہوشیار پور جانے کا ارادہ فرمالیا۔ سوجان پور ہندوستان کے صوبہ مشرقی پنجاب میں ضلع پٹھانکوٹ میں واقع ہے۔ اور پٹھانکوٹ سے 65؍کلو میٹر فاصلہ پر ہے۔ سوجان پور کا کُل رقبہ تقریباً5 کلو میٹر ہے۔ پٹھانکوٹ پہلے ضلع گورداسپور میں شامل ہوتا تھا۔ لیکن 22؍جون 2011ء میں اسے ضلع بنادیا گیا۔ (رسالہ موازنہ مذاہب جلد 2شمارہ 3مارچ 2013ءصفحہ 38)
ہوشیارپورکا سفر
آپ علیہ السلام دعاؤں اور استخارہ کے بعد جب ہوشیار پور کا سفر شروع فرمانے لگے تو اس مبارک اور تاریخی سفر کے لئے حسب وعدہ حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر قادیان بلالیا۔ دوسری طرف ہوشیار پور شہر کے رئیس شیخ مہر علی صاحب جو کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت اور محبت کا ایک تعلق رکھتے تھے۔ انہیں حضور علیہ السلام نے خط لکھا کہ میں دو ماہ کے واسطے ہوشیارپور آنا چاہتا ہوں کسی ایسے مکان کا انتظام کر دیںجو شہر کے ایک کنارے پر ہو اور اس میں بالا خانہ بھی ہو ۔شیخ مہر علی نے اپنا ایک مکان جو ’طویلہ‘ کے نا م سے مشہور تھا خالی کروا دیا ۔(سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ 63روایت نمبر88) جو حضور علیہ السلام کی عین منشاء کے مطابق تھا اور ویرانے میں تھا اورغیر آباد تھا۔مورخہ 21جنوری 1886ء بروز جمعرات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بہلی میں بیٹھ کر ،جس کے بیل سفید رنگ کے تھے دریائے بیاس کے راستے ہوشیارپور کیلئے عازم سفر ہوئے۔راستہ میں ٹانڈہ شہر کے قریب ہی ایک قصبہ رسول پور میں رات قیام فرمایا اور اگلے روز سفر جاری رکھتے ہوئے جمعہ 22جنوری 1886ء بمقابق15ربیع الثانی 1303ھ کو ہوشیار پور پہنچ گئے۔ (تاریخ احمدیت جلد 8صفحہ 478طبع2007ء) (الموعود :صفحہ 12۔مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ469 مطبوعہ2008 ء خط مرقومہ26جنوری 1886ء مکتوب نمبر25۔)
رفیقِ سفراورکامل کی صحبت کا اثر
اس مقدس سفر میںحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ حضور علیہ السلام کے مخلص مریدوں میں سے حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ حضرت شیخ حامد علی صاحب رضی اللہ عنہ کے علاوہ ایک صاحب میاں فتح خان صاحب ساکن رسول پور متصل ٹانڈہ ضلع ہوشیار پوربھی تھے۔ میاں فتح خان صاحب حضور کا بڑا معتقد تھامگر بعد میں مولوی محمد حسین بٹالوی کے اثر کے نیچے مرتد ہوگیا ۔حضورجب دریا پر پہنچے تو چونکہ کشتی تک پہنچنے کے راستہ میںکچھ پانی تھا اس لئے ملاح نے حضور کو اُٹھا کر کشتی میں بٹھا یا جس پر حضور نے اسے ایک روپیہ انعام دیا ۔ دریا میں جب کشتی چل رہی تھی حضورعلیہ السلام نے حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میاں عبداللہ کامل کی صحبت اس سفر دریا کی طرح ہے جس میں پار ہونے کی بھی امید ہے اور غرق ہونے کا بھی اندیشہ ہے ۔ حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں میں نے حضور کی یہ بات سرسری طور پرسنی مگر جب فتح خان مرتد ہوا تو مجھے حضرت کی یہ بات یاد آئی ۔
کاموں کی تقسیم
ہوشیار پور پہنچتے ہی حضور علیہ السلام نے طویلہ کے بالاخانہ میں قیام فرمایا اوران تینوں بزرگ خدام کے ذمہ الگ الگ کام مقرر فرما دیئے۔حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحب رضی اللہ عنہکے سپرد کھانا پکانے کا کام ہوا۔ فتح خان کی یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ بازار سے سودا وغیرہ لایا کرے ۔حضرت شیخ حامد علی صاحب رضی اللہ عنہ کا یہ کام مقرر ہوا کہ گھر کا بالائی کام اور آنے جانے والے کی مہمان نوازی کریں ۔
دستی اشتہارکے ذریعہ اعلان
اس کے بعد حضرت مسیح موعودؑ نے بذریعہ دستی اشتہارات اعلان کر دیا کہ چالیس دن تک مجھے کوئی صاحب ملنے نہ آویں اور نہ کوئی صاحب مجھے دعوت کے لئے بلائیں۔ ان چالیس دن کے گزرنے کے بعد میں یہاں بیس دن اور ٹھہروں گا ۔ان بیس دنوں میں ملنے والے ملیں، دعوت کا ارادہ رکھنے والے دعوت کر سکتے ہیں اور سوال و جواب کر نے والے سوال جواب کر لیں ۔ حضور علیہ السلام نے حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ، حضرت شیخ حامد علی صاحب رضی اللہ عنہ اور میاں فتح خان صاحبکو بھی حکم دے دیا کہ ڈیوڑھی کے اند ر کی زنجیر ہر وقت لگی رہے اور گھر میں بھی کوئی شخص مجھے نہ بلائے ۔میں اگر کسی کو بلائوں تو وہ اسی حد تک میری بات کا جواب دے جس حد تک کہ ضروری ہے اور نہ اوپر بالا خانہ میں کوئی میرے پاس آوے ۔ میرا کھانا اوپر پہنچا دیا جاوے مگر اس کاا نتظا ر نہ کیا جاوے کہ میں کھانا کھالوں ۔خالی برتن پھر دوسرے وقت لے جا یا کریں ۔ نماز میں اوپر الگ پڑھا کروں گا تم نیچے پڑھ لیا کرو ۔جمعہ کے لئے حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ کوئی ویران سی مسجد تلاش کرو جو شہر کے ایک طرف ہو جہاں ہم علیحدگی میںنماز ادا کر سکیں ۔چنانچہ شہر کے باہر ایک باغ تھا اس میں ایک چھوٹی سی ویران مسجد تھی وہاں جمعہ کے دن حضورعلیہ السلام تشریف لے جایا کرتے تھے اور ہم کو نمازپڑھاتے تھے اور خطبہ بھی خود پڑھتے تھے (سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ 63-64 روایت نمبر88)
آسمانی افضال و انوارکا نزول
یہ چلہ کشی اور ریاضت شاقہ اول سے آخر تک چونکہ خدائے عزوجل و قادر و توانا کے خاص اذن اور اسی کی راہ نمائی سے تھی اس لئے حضور علیہ السلام نے اس کے دوران11 فروری1886ء کو چودھری رستم علی صاحب کو خط لکھا کہ’’ابھی تک مجھ کو کچھ خبر نہیں کہ کب تک اس شہر میں رہوں اور کس راہ سے جائوں۔ یہ سب باتیں جناب الٰہی کے اختیار میں ہیں۔ اُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللّٰہِ ھُوَ نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ (مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ470مطبوعہ2008ء خط مرقومہ11فروری 1886ء مکتوب نمبر27) اس عظیم مجاہدہ کے دوران اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور پر آسمانی افضال و انوار کے بے شمار دروازے کھولے گئے اور بار بار مکالمات و مخاطبات سے نوازا گیا۔ چنانچہ حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ’’میں کھانا چھوڑنے اوپر جایا کرتا تھا اور حضور سے کوئی بات نہیں کرتا تھا مگر کبھی حضور مجھ سے خود کوئی بات کرتے تھے تو جواب دے دیتا تھا۔ ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا۔ میاں عبداللہ!ان دنوں میں مجھ پر بڑے بڑے خداتعالیٰ کے فضل کے دروازے کھلے ہیں اور بعض اوقات دیر دیر تک خداتعالیٰ مجھ سے باتیں کرتا رہتا ہے۔ اگر ان کو لکھا جاوے تو کئی ورق ہوجاویں۔ حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن جب میں کھانا رکھنے اوپر گیا تو حضور نے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ بُوْرِکَ مَنْ فِیْھَا وَمَنْ حَوْلَھَا اورحضور نے تشریح فرمائی کہ مَنْ فِیْھَا سے میں مراد ہوں اور مَنْ حَوْلَھَا سے تم لوگ مراد ہو۔ اسی طرح ایک دوسرے موقع پر حضورعلیہ السلام نے فرمایا مجھے خدا اس طرح مخاطب کرتا ہے اور مجھ سے اس طرح کی باتیں کرتا ہے کہ اگر میںان میں سے کچھ تھوڑا سا بھی ظاہر کروںتو یہ جتنے معتقد نظر آتے ہیں سب پھر جاویں۔ (سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ 64-65 روایت نمبر88) اس مبارک چلہ کشی کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 20فروری1886ء مطابق 15جمادی الاول 1303ھ کو ایک اشتہار لکھا جوپہلی بار اخبارریاض ہندامرتسر مورخہ یکم مارچ 1886ء میںبطور ضمیمہ شائع ہوا۔اس اشتہار میںحضور علیہ السلام نے تحریر فرمایا:۔
عظیم الشان نشان رحمت کی الہامی تفصیل
’’بِاِلْہَامِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَاِعْلَامِہِ عَزَّوَجَلّ خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہَرچیز پر قادر ہے (جَلَّ شَانُہٗ وَ عَزَّاِسْمُہٗ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایاکہ مَیں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں۔ اسی کے مُوافِق جو تو نے مجھ سے مانگا۔ سو مَیں نے تیری تَضَرُّعَات کو سنا اور تیری دعائوں کو اپنی رحمت سے بَہ پَایۂ قَبُولِیَّت جگہ دی اور تیرے سفرکو (جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کر دیا۔ سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔ فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کَلِید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر !تجھ پر سلام ۔خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجے سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ جائے اور باطل اپنی تمام نَحُوسَتوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ مَیں قادر ہوں جو چاہتا ہوں سو کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ مَیںتیرے ساتھ ہوں اور تا انہیںجوخدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خد اکے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ (ﷺ) کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے۔ سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وَ جِیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تُخم سے تیری ہی ذُرِّیَّت ونَسل ہو گا۔ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے۔ اس کا نام عَنْمَوَائِیْل اور بشیر بھی ہے۔ اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رِجْس سے پاک ہے۔اور وہ نُورُاللہ ہے۔ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے۔ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صَاحِبِ شَکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا۔ وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوْحُ الحَق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رَحمَت وغَیُورِی نے اسے کَلِمَہ تَمجِید سے بھیجا ہے ۔ وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا( اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شَنبَہ ہے مبارک دو شَنبَہ۔ فَرزَند دِلبَند گِرَامِی اَرجمَند مَظْہَرُ الْاَوَّلِ وَالْاٰخِرِ۔ مَظْہَرُ الْحَقِّ وَ ا لْعَلَائِ۔ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآئِ جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا۔ نور آتا ہے نور۔ جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عِطر سے مَمسُوح کیا ۔ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اورخدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اَسِیروں کی رَستگَارِی کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروںتک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نُقطَہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا۔‘ ‘
’’پھر خدائے کریم جَلَّشَانُہٗ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تیرا گھر برکت سے بھر دے گااور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا۔اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا۔ تیری نسل بہت ہو گی اورمیں تیری ذریت کو بہت بڑھائونگا اور برکت دوں گا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے۔ اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہر ایک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کاٹی جائے گی۔ اور وہ جلد لاولد رہ کر ختم ہو جائے گی۔ اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کر ے گا۔ یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے۔ ان کے گھر بیوائوں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہو گا۔ لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا۔خدا تیری برکتیں ارد گرد پھیلائے گا، اور ایک اجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا اور ایک ڈراتا گھر برکتوں سے بھر دے گا۔ تیری ذریت منقطع نہیں ہو گی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی۔ خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا۔ اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا۔ میں تجھے اٹھائوں گا اور اپنی طرف بلائوں گا۔پر تیرا نام صفحہ زمین سے کبھی نہیں اٹھے گا۔ اور ایسا ہو گا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکرمیں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے درپَے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور ناکامی و نامرادی میں مریں گے لیکن خدا تجھے بکلی کامیاب کر ے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھائوں گا۔ اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دونگا۔ اور ان میں کثرت بخشونگا۔ اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تا روز قیامت غالب رہیں گے۔ جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے۔ خدا انہیں نہیں بھولے گا۔ اور فراموش نہیں کرے گا اور وہ علیٰ حسب الاخلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے۔ تو مجھ سے ایسا ہی ہے جیسے انبیاء بنی اسرائیل (یعنی ظلی طورپر ان سے مشابہت رکھتا ہے) تو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید۔ تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دل میں تیری محبت ڈالے گا۔ یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ اے منکرو اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندے کی نسبت شک میں ہو۔ اگر تمہیں اس فضل و احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندہ پر کیا تو اس نشان رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو اگر تم سچے ہو۔ اور اگرتم پیش نہ کر سکو تو اس آگ سے ڈرو کہ جو نافرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کیلئے تیار ہے۔ فقط الراقم خاکسار غلام احمد مؤلف براہین احمدیہ ہوشیار پور طویلہ شیخ مہر علی صاحب رئیس 20فروری1886ء۔
(تذکرہ ایڈیشن چہارم 2004ء صفحہ 109-112۔ مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ 100-103، اشتہار20 فروری1886ء۔ اشتہار نمبر28 طبع1971ء الناشر الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چلہ کشی کے دوران اسلام کی آسمانی فتح کے لئے اپنے محبوب حقیقی کی بارگاہ میں ایک رحمت کے نشان کے لئے نہایت تضرّع اور ابتہال کے ساتھ جو دعائیں کیں وہ قبول ہو گئیں ۔اور اللہ تعالیٰ نے اس مجاہدہ عظیمہ کے خاتمہ پر آپ علیہ السلام کو بذریعہ الہامات نہ صرف خود حضور علیہ السلام کی ذات ،حضور علیہ السلام کی ذریت طیبہ اور مستقبل میں پیدا ہونے والی حضور علیہ السلام کی جماعت کی نسبت بھاری بشارتیں دیں بلکہ آپ کی ذریت و نسل اور تخم سے پیدا ہونیوالے ایک پسر موعود اور مصلح موعود کی خبر دی ۔نیز بتایا گیا کہ اس کا وجود دنیا بھر میں خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کے منکروں اور مکذبوں پر حجت قاطعہ کی حیثیت رکھے گاجس کے ذریعہ سے دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو گا۔ (تاریخ احمدیت جلد 8صفحہ480طبع2007ء)
مباحثہ مرلی دھر
جب چالیس دن گذر گئے تو پھر آپ حسب اعلان بیس دن اور وہاں ٹھہرے۔ ان دنوںمیں کئی لوگوں نے دعوتیں کیں اور کئی لوگ مذہبی تبادلہ خیالات کے لئے آئے اور باہر سے حضورعلیہ السلام کے پرانے ملنے والے لوگ بھی مہمان آئے۔ (سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ 64 روایت نمبر88) انہی دنوںمیں ماسٹرمرلی دھرصاحب جو آریہ سماج ہوشیار پور کے ایک ممتاز رکن تھے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور درخواست کی کہ وہ اسلامی تعلیمات پر چند سوالات پیش کرنا چاہتے ہیں۔حضور علیہ السلام نے اسے بسرو چشم قبول فرمالیا۔اور اس دینی مذاکرہ کو غیر جانبدارانہ سطح پر لے جانے کے لئے یہ تجویز کی کہ ماسٹر صاحب ایک نشست میں اسلام پر اعتراضات کریں اور آپ ؑعلیہ السلام ان کے جوابات دیں۔اور دوسری نشست میں حضور علیہ السلام آریہ سماج کے مسلمات پر سوال کریں گے اور ماسٹر صاحب ان کا جواب دیں گے۔ ماسٹر صاحب نے اس تجویز سے اتفاق ظاہر کیا۔بحث کے لئے حضور علیہ السلام کی فرودگاہ تجویز ہوئی۔ اور مباحثہ کی دو نشتوں کے لئے 11مارچ کی شب اور 14مارچ کا دن قرار پایا۔ (تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ296 طبع2007ء) سامعین کی تعداد غیر معمولی طور پر زیادہ تھی۔ صدہا مسلمان اور ہندو اپنا کام چھوڑ کر محض مباحثے کی کارروائی دیکھنے کے لئے جمع ہوگئے تھے۔اور صحنِ مکان حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ مباحثہ چند ماہ بعد ہی ستمبر 1886ء میں اپنی ایک تصنیف ’’سرمہ چشم آریہ ‘‘ کے نام سے شائع فرمادیا۔ (تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ299طبع2007ء)
قادیان واپسی کا سفر
جب دو مہینے کی مدت پوری ہوگئی تو حضرت صاحب واپس اسی راستہ سے قادیان روانہ ہوئے ۔ہوشیار پور سے پانچ چھ میل کے فاصلہ پر ایک بزرگ کی قبر ہے ۔جہاں کچھ باغیچہ سالگا ہوا تھا ۔وہاں پہنچ کر حضور تھوڑی دیر کیلئے بہلی سے اُتر آئے اور فرمایا یہ عمدہ سایہ دار جگہ ہے یہاں تھوڑی دیر ٹھہر جاتے ہیں۔اس کے بعد حضور قبر کی طرف تشریف لے گئے حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ بھی پیچھے پیچھے ساتھ ہوگئے ، شیخ حامد علی اور فتح خان بہلی کے پاس رہے۔ حضور علیہ السلام مقبرہ پر پہنچ کر اس کا دروازہ کھول کر اندر گئے اور قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے اور تھوڑی دیر تک دعا فرماتے رہے پھر واپس آئے اورحضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’جب میںنے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو جس بزرگ کی یہ قبر ہے وہ قبر سے نکل کر دوزانو ہو کر میرے سامنے بیٹھ گئے اور اگر آپ ساتھ نہ ہو تے تو میں ان سے باتیں بھی کرلیتا۔ان کی آنکھیں موٹی موٹی ہیں اور رنگ سانولا ہے‘‘ پھرحضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ دیکھو اگر یہاں کوئی مجاور ہے تواس سے ان کے حالات پوچھیں ۔چنانچہ حضور علیہ السلام نے مجاور سے دریافت کیا۔ اس نے کہا میں نے ان کو خود تو نہیں دیکھا کیونکہ ان کی وفات کو قریباً ایک سو سال گذر گیا ہے۔ہاں اپنے باپ یا داداسے سنا ہے کہ یہ اس علاقہ کے بڑے بزرگ تھے اور اس علاقہ میں ان کا بہت اثر تھا ۔ حضور علیہ السلام نے پوچھا ان کا حلیہ کیا تھا ؟ وہ کہنے لگاکہ سنا ہے سانولہ رنگ تھا اور موٹی موٹی آنکھیں تھیں (سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ64-65 روایت نمبر88) پھر حضور علیہ السلام اپنے مریدوں کے ساتھ وہاں سے روانہ ہو کر 17مارچ 1886ء کوچلہ کشی کے نتیجے میں مصلح موعود اور پردۂ غیب میں پوشیدہ اپنی جماعت کے شاندار مستقبل کے متعلق بھاری بشارتیں پانے اور تبلیغ اسلام کی مہمات میں حصہ لینے کے بعد بانیل مرام واپس قادیان پہنچ گئے ۔
(لائف آف احمد صفحہ 108-109مطبوعہ 1949ء مؤلفہ مولانا عبدالرحیم درد صاحب رضی اللہ عنہ ایم ۔اے ۔بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 1صفحہ274طبع2007ء)