تکبر
خدا تعالیٰ کا رحم ہر ایک موحد کا تدارک کرتا ہے مگر متکبر کا نہیں (حضرت مسیح موعودؑ)
حضرت مسیح موعود ؑنے تکبر کو تمام شرارتوں کی جڑ قرار دیا ہے اور تکبر کی باریکیوں سے بھی اجتناب کی نصیحت فرمائی ہے کیونکہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا ہے
‘‘لَا یُدْخِلَ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ مِّنَ الْکِبْرِ’’
یعنی جس شخص کے دل میں ذرہ بھر بھی تکبر ہے وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
(مشکوٰۃ کتاب الادب)
اللہ تعالیٰ سورۃالنحل میں فرماتاہے:
اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَالَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ مُّنۡکِرَۃٌ وَّ ہُمۡ مُّسۡتَکۡبِرُوۡنَ
(پس اچھی طرح یاد رکھو کہ) تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل (حق سے) نا آشنا ہیں اور وہ تکبر سے کام لے رہے ہیں۔(النحل:23)
اس آیت کی تشریح میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ تفسیر کبیر مین بیان فرماتے ہیں کہ
‘‘دوسرانتیجہ بعث بعدالموت کے انکار کا یہ بتایا کہ ان میں تکبر پیدا ہو گیاہے ۔کیونکہ جو شخص جزا سزا کا مومن نہ ہو وہ نڈر ہو جاتا ہے اور جو نڈر ہو جائے وہ سچائی کا اقرار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔
غرض قُلُوۡبُہُمۡ مُّنۡکِرَۃٌ اور ہُمۡ مُّسۡتَکۡبِرُوۡنَ کے الفاظ سے درحقیقت دو قسم کے مشرکوں کا ذکر فرمایا ہے ایک وہ ہیں جن سے سنجیدگی سے ذکر کرنے کا مادہ جاتا رہا ہے اور جہالت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ پس بوجہ دل کے بیمار ہو جانے کے وہ سچائی کے سمجھنے سے قاصر رہ گئے ہیں ۔اور دوسرے وہ لوگ جو دلائل سن کر ایک خدا کے عقیدہ کودل میں تو صحیح سمجھتے ہیں ۔لیکن تکبر اور ضد کی وجہ سے اس کا اقرار نہیں کرتے ۔کیونکہ جزا سزا کے انکار کی وجہ سے وہ بے خوف ہیں اور سچائی کے انکار میں کوئی نقصان نہیں دیکھتے’’
(تفسیر کبیر جلد4صفحہ153تا154)
ایک اور موقعے پر آنحضرتﷺ نے جن تین امور کو تمام گناہوں کی جڑ قرار دیا ہے، تکبر ان میں سے ایک ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تین امور یا تین چیزیں وہ ہیں جو تمام گناہوں کی جڑ ہیں۔ پس ان تینوں سے بچو اور ان تینوں سے ہوشیار رہو۔ تکبر سے بچو کیونکہ ابلیس کو تکبر ہی نے اس بات پر انگیخت کیا کہ اس نے حضرت آدم علیہ السلام کی فرمانبرداری سے انکار کر دیا۔ اور حرص سے بچو کیونکہ یہ حرص او رلالچ ہی تھا جس نے آدم علیہ السلام کو درخت ممنوعہ کا پھل کھانے پر اکسایا۔ اور حسد سے بچو کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کے دوبیٹوں میں سے ایک کو حسد نے ہی اس بات پرآمادہ کیا کہ ا س نے اپنے ساتھی کو قتل کر دیا۔
(مسلم کتاب البر والصلۃ)
ایک حدیث میں آتاہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا :
قیامت کے دن تم میں سے سب سے زیادہ مجھے محبوب اور سب سے زیادہ میرے قریب وہ لوگ ہوں گے جو سب سے اچھے اخلاق والے ہوں گے۔ اور تم میں سے سب سے زیادہ ناپسند اور مجھ سے سب سے دور وہ لوگ ہوں گے جو ثَرْثَارُوْنَ (منہ پھٹ،بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے )، مُتَشَدِّقُوْنَ(منہ پھلا پھلا کر باتیں کرنے والے )اور مُتْفَیْہِقُونہیں ۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ !ثرثاروناور متشدِّقونکے معنے توہم جانتے ہیں ، مُتْفَیْہِقُونکسے کہتے ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا : مُتْفَیْہقِمتکبرانہ باتیں کرنے والے کو کہتے ہیں ۔
(ترمذی ابواب البر والصلۃ باب فی معالی الاخلاق…)
پھر ایک روایت میں آتاہے حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
دوزخ اور جنت کی آپس میں بحث اور تکرار ہو گئی۔ دوزخ نے کہاکہ مجھ میں بڑے بڑے جابر اورمتکبر داخل ہوتے ہیں اورجنت کہنے لگی کہ مجھ میں کمزور اورمسکین داخل ہوتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے دوزخ کوفرمایا کہ تو میرے عذاب کی مظہرہے۔جسے مَیں چاہتاہوں تیرے ذریعہ عذاب دیتاہوں۔ اور جنت سے کہا تو میری رحمت کی مظہر ہے جس پر مَیں چاہوں تیر ے ذریعہ رحم کرتاہوں ۔ اور تم دونوں میں سے ہرایک کو اس کا بھرپورحصہ ملے گا۔
(صحیح مسلم کتاب الجنۃ باب الناریدخلھاالجبارون…)
حضرت مسیح موعود ؑ اپنی کتاب ‘‘آئینہ کمالات اسلام’’ میں یوں بیان فرماتے ہیں:
‘‘میں سچ سچ کہتاہوں کہ قیامت کے دن شرک کے بعد تکبرجیسی اور کوئی بلا نہیں۔ یہ ایک ایسی بلا ہے جو دونوں جہان میں انسان کو رسوا کرتی ہے۔ خدا تعالیٰ کا رحم ہرایک موحد کا تدارک کرتاہے مگر متکبر کا نہیں۔ شیطان بھی موحد ہونے کا دم مارتاتھا مگر چونکہ اس کے سر میں تکبر تھا اور آدم کو جو خداتعالیٰ کی نظر میں پیارا تھا ۔جب اس نے توہین کی نظر سے دیکھا اور اس کی نکتہ چینی کی اس لئے وہ مارا گیا اور طوق لعنت اس کی گردن میں ڈالا گیا۔ سو پہلا گناہ جس سے ایک شخص ہمیشہ کے لیے ہلاک ہوا تکبر ہی تھا’’۔
(آئینہ کمالات اسلام ،روحانی خزائن جلد 5صفحہ598)
تکبرکیا ہےکن وجوہات سے پیدا ہوتا ہے؟
اب یہ سمجھنا چاہیےکہ آخر تکبرہے کیا؟
تکبر کرنے والوں کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:
جس کے دل میں ذرہ بھر بھی تکبر ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو جنّت میں نہیں داخل ہونے دے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! انسان چاہتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، جوتی اچھی ہو، وہ خوبصورت لگے۔ آپؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جمیل ہے جمال کو پسند کرتا ہے۔ تکبّر دراصل یہ ہے کہ انسان حق کا انکار کرے لوگوں کوذلیل سمجھے ان کو حقارت کی نظر سے دیکھے اور ان سے بُری طرح پیش آئے۔’’
(مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر و البیانہ 123 بحوالہ حدیقہ الصالحین صفحہ 683ایڈیشن2019ء)
اس حدیث مبارکہ میں نبی کریم ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ خوبصورت نظر آنا تکبر نہیں بلکہ تکبر یہ ہے کہ
1۔ انسان حق کا انکار کرے
2۔ لوگوں کو ذلیل سمجھے
3۔ ان کو حقارت کی نظر سے دیکھے
4۔ ان سے بری طرح پیش آئے
حضرت مصلح موعود ؓتکبر کے معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
‘‘استکبر یعنی کسی چیز کو بڑا سمجھا۔ …کبر اس حالت کو کہتے ہیں کہ جب انسان خود پسند بن کرکسی بات کو اپنے ساتھ مخصوص سمجھ لیتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے ممتاز اور بڑا خیال کرنے لگ جاتا ہے۔ …استکبار (اپنے آپ کو بڑا سمجھنا)دو طور پر ہوتا ہے؛
1)…انسان بڑا بننے کی خواہش اور کوشش کرتا ہے( اور اگر یہ مناسب محل و مقام پر کوشش کی جائےتو قابل تعریف بات ہوتی ہے)۔
2) …کوئی شخص بعض ایسی باتوں کے ساتھ اپنے نفس کو متصف کرے جو اس میں پائی نہیں جاتیں اور مقصد یہ ہو کہ وہ کسی طرح دوسروں پر فوقیت لے جائے۔’’
(تفسیر کبیرجلد اوّل صفحہ325)
پہلا امر جس کو تمام گناہوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے وہ تکبر ہے کیونکہ ابلیس نے تکبر کی وجہ ہی سے حضرت آدم علیہ السلام کی فرمانبرداری سے انکار کر دیا۔قرآن کریم میں اس کا یوں ذکر ملتا ہے:
وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰی وَ اسۡتَکۡبَرَ ٭۫ وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کی خاطر سجدہ کرو تو وہ سب سجدہ ریز ہوگئے سوائے ابلیس کے۔ اس نے انکار کیا اور استکبار سے کام لیا اور وہ کافروں میں سے تھا۔ (البقرۃ:35)
اس آیت کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘بہت سے گناہ اخلاقی ہوتے ہیں جیسے غصّہ، غضب، کینہ، جوش، ریا۔تکبر، حسدوغیرہ یہ سب بد اخلاقیاںہیں جو انسان کوجہنم تک پہنچا دیتی ہیں انہی میں سے ایک گناہ جس کانام تکبر ہے شیطان نے کیا تھا یہ بھی ایک بد خلقی ہی تھی جیسے لکھاہے اَبٰی وَ اسۡتَکۡبَرَ (البقرۃ:35)اور پھر اس کا نتیجہ کیا ہوا وہ مردود خلائق ٹھہرا۔ اور ہمیشہ کے لیے لعنتی ہوا مگر یاد رکھو کہ یہ تکبّر صرف شیطان ہی میں نہیں ہے بلکہ بہت ہیں جو اپنے غریب بھائیوںپرتکبر کرتے ہیں اوراس طرح پر بہت سی نیکیوں سے محرو م رہ جاتے ہیں اور یہ تکبر کئی طرح پر ہوتا ہے کبھی دولت کے سبب سے، کبھی علم کے سبب سے، کبھی حسن کے سبب سےاور کبھی نسب کے سبب سے، غرض مختلف صورتوں سے تکبر کرتے ہیںاور اس کا نتیجہ وہی محرومی ہے۔’’
(الحکم جلد8 نمبر 11 مورخہ17؍مارچ1904ءصفحہ3)
اس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تکبر کی مختلف قسمیں بیان فرمائی ہیں:
1۔ دولت کےسبب سے
2۔ علم کےسبب سے
3۔ حسن کےسبب سے
4۔ نسب کےسبب سے
اس ضمن میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوؓل فرماتے ہیں:
‘‘ اَبٰی وَ اسۡتَکۡبَرَ ۫ وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ۔
یعنی اس نے سر کشی کی اور انکار کیااور وہ کافروں میں سے تھا یا ہوا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہلاکت کو خود اس نے اپنی سرکشی سے خریدا۔ خدا نے اسے بجز ہلاک نہیں کیا۔’’( نورالدین صفحہ26)
آپؓ مزید فرماتے ہیں:
‘‘اَبٰی وَ اسۡتَکۡبَرَ ۫ وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ۔اس سے ظاہر ہے کہ اوّل انکار اورکبر ہی ایک ایسی شئے ہے جو کہ فیضان الٰہی کوروک دیتی ہے۔ طاعون کے گزشتہ دَورہ میں جو الہام حضرت اقدس کو ہوا تھا اس میں بھی ایک شرط لگی ہوئی تھی کہ
اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِیْ الدَّارِ الَّا الَّذِیْنَ عَلَوْا بِا لْاِسْتِکْبَارِ
کہ کبر تزکیۂ نفس کی ضد ہے اور دونوں چیزیں ایک جا جمع نہیں ہو سکتیں۔’’
(الحکم،24؍جنوری1904ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی گہری نظر سے ان باتوں اور ان امور کو بھی تکبر میں شامل فرمایا ہے جن کے متعلق عام انسان کبھی وہم بھی نہیں کر سکتا کہ انہیں بھی تکبر میں شمار کیا جائے۔آپؑ فرماتے ہیں :
‘‘مَیں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے۔ مگر تم شاید نہیں سمجھوگے کہ تکبر کیا چیز ہے۔ پس مجھ سے سمجھ لو کہ مَیں خدا کی روح سے بولتا ہوں ۔
ہر ایک شخص جو اپنے بھائی کو اس لئے حقیر جانتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ عالم یا زیادہ عقلمند یا زیادہ ہنرمند ہے وہ متکبر ہے کیونکہ وہ خدا کو سرچشمہ عقل اور علم کا نہیں سمجھتا اور اپنے تئیں کچھ چیز قرار دیتا ہے۔ کیا خدا قادر نہیں کہ اُس کو دیوانہ کردے اور اس کے اُس بھائی کو جس کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے اس سے بہتر عقل اور علم اور ہنر دے دے۔ ایسا ہی وہ شخص جو اپنے کسی مال یا جاہ و حشمت کا تصور کرکے اپنے بھائی کو حقیر سمجھتا ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ وہ اس بات کو بھول گیا ہے کہ یہ جاہ و حشمت خدا نے ہی اُس کو دی تھی اور وہ اندھا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ وہ خدا قادر ہے کہ اس پر ایک ایسی گردش نازل کرے کہ وہ ایک دم میں اسفل السافلین میں جاپڑے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ حقیر سمجھتا ہے اس سے بہتر مال و دولت عطا کردے۔ ایسا ہی وہ شخص جو اپنی صحت بدنی پر غرور کرتا ہے یا اپنے حسن اور جمال اور قوت اور طاقت پر نازاں ہے اور اپنے بھائی کا ٹھٹھے اور استہزاء سے حقارت آمیز نام رکھتا ہے اور اُس کے بدنی عیوب لوگوں کو سناتا ہے وہ بھی متکبر ہے اور وہ اس خدا سے بے خبر ہے کہ ایک دم میں اس پر ایسے بدنی عیوب نازل کرے کہ اس بھائی سے اس کو بدتر کردے اور وہ جس کی تحقیر کی گئی ہے ایک مدت دراز تک اس کے قویٰ میں برکت دے کہ وہ کم نہ ہوں اور نہ باطل ہوں کیونکہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ایسا ہی وہ شخص بھی جو اپنی طاقتوں پر بھروسہ کرکے دعا مانگنے میں سست ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ قوتوں اور قدرتوں کے سرچشمہ کو اُس نے شناخت نہیں کیا اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھا ہے۔ سو تم اے عزیزو! ان تمام باتوں کو یاد رکھو ایسا نہ ہو کہ تم کسی پہلو سے خدا تعالیٰ کی نظر میں متکبر ٹھہر جاؤ اور تم کو خبر نہ ہو۔ ایک شخص جو اپنے ایک بھائی کے ایک غلط لفظ کی تکبر کے ساتھ تصحیح کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے سننا نہیں چاہتا اور منہ پھیر لیتا ہے اُس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ ایک غریب بھائی جو اس کے پاس بیٹھا ہے اور وہ کراہت کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ ایک شخص جو دعا کرنے والے کو ٹھٹھے اور ہنسی سے دیکھتا ہے اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ اور وہ جو خدا کے مامور اور مُرسل کی پورے طور پر اطاعت کرنا نہیں چاہتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ اور وہ جو خدا کے مامور اور مُرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تاکہ ہلاک نہ ہوجاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ۔ خدا کی طرف جھکو اور جس قدر دنیا میں کسی سے محبت ممکن ہے تم اس سے کرو اور جس قدر دنیا میں کسی سے انسان ڈر سکتا ہے تم اپنے خدا سے ڈرو۔ پاک دل ہوجاؤ اور پاک ارادہ اور غریب اور مسکین اور بے شر تا تم پر رحم ہو۔’’
(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ402تا403)
اس اقتباس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارا ہاتھ پکڑ کر ہمیں تکبر کے راستوں سے بچاتے ہوئے ہماری رہ نمائی فرمائی ہے۔
1۔ ہر ایک شخص جو اپنے بھائی کو اس لیے حقیر جانتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ عالم یا زیادہ عقلمند یا زیادہ ہنرمند ہے وہ متکبر ہے کیونکہ وہ خدا کو سرچشمہ عقل اور علم کا نہیں سمجھتا اور اپنے تئیں کچھ چیز قرار دیتا ہے۔ کیا خدا قادر نہیں کہ اُس کو دیوانہ کردے اور اس کے اُس بھائی کو جس کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے اس سے بہتر عقل اور علم اور ہنر دے دے۔
2۔ ایسا ہی وہ شخص جو اپنے کسی مال یا جاہ و حشمت کا تصور کرکے اپنے بھائی کو حقیر سمجھتا ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ وہ اس بات کو بھول گیا ہے کہ یہ جاہ و حشمت خدا نے ہی اُس کو دی تھی اور وہ اندھا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ وہ خدا قادر ہے کہ اس پر ایک ایسی گردش نازل کرے کہ وہ ایک دم میں اسفل السافلین میں جاپڑے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ حقیر سمجھتا ہے اس سے بہتر مال و دولت عطا کردے۔
3۔ایسا ہی وہ شخص جو اپنی صحت بدنی پر غرور کرتا ہے یا اپنے حسن اور جمال اور قوت اور طاقت پر نازاں ہے اور اپنے بھائی کا ٹھٹھے اور استہزاء سے حقارت آمیز نام رکھتا ہے اور اُس کے بدنی عیوب لوگوں کو سناتا ہے وہ بھی متکبر ہے اور وہ اس خدا سے بے خبر ہے کہ ایک دم میں اس پر ایسے بدنی عیوب نازل کرے کہ اس بھائی سے اس کو بدتر کردے اور وہ جس کی تحقیر کی گئی ہے ایک مدت دراز تک اس کے قویٰ میں برکت دے کہ وہ کم نہ ہوں اور نہ باطل ہوں کیونکہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
4۔ ایسا ہی وہ شخص بھی جو اپنی طاقتوں پر بھروسہ کر کے دعا مانگنے میں سست ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ قوتوں اور قدرتوں کے سرچشمہ کو اس نے شناخت نہیں کیا اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھا ہے۔
5۔ ایک شخص جو اپنے ایک بھائی کے ایک غلط لفظ کی تکبر کے ساتھ تصحیح کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔
6۔ ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے نہیں سننا چاہتا اورمنہ پھیر لیتاہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے ۔
7۔ ایک غریب بھائی جو اس کے پاس بیٹھا ہے اور وہ کراہت کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔
8۔ ایک شخص جو دعا کرنے والے کو ٹھٹھے او رہنسی سے دیکھتا ہے اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔
9۔ اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی پورے طور پر اطاعت کرنا نہیں چاہتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔
10۔اور وہ جو خدا کے ماموراورمرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے ۔
( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 403تا404)
پھر ایک اَور مقام پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
‘‘ہاں ایسے لوگ ہیں جو انبیاء علیہم السلام سے حالانکہ کروڑوں حصہ نیچے کے درجہ میں ہوتے ہیں جو دو دن نماز پڑھ کر تکبر کرنے لگتے ہیں اور ایسا ہی روزہ اور حج سے بجائے تزکیہ کے ان میں تکبر اور نمود پیدا ہوتی ہے۔ یاد رکھو تکبر شیطان سے آیا ہے اور شیطان بنا دیتا ہے۔ جب تک انسان اس سے دور نہ ہو۔ یہ قبول حق اور فیضان الوہیت کی راہ میں روک ہو جاتا ہے۔ کسی طرح سے بھی تکبر نہیں کرنا چاہئے۔ نہ علم کے لحاظ سے ، نہ دولت کے لحاظ سے ، نہ وجاہت کے لحاظ سے، نہ ذات اور خاندان اورحسب نسب کی وجہ سے۔ کیونکہ زیادہ تر انہی باتوں سے یہ تکبر پید ا ہوتا ہے ا ور جب تک انسان ان گھمنڈوں سے اپنے آپ کو پاک صاف نہ کرے گا ۔ اس وقت تک و ہ خدا تعالیٰ کے نزدیک برگزیدہ نہیں ہو سکتا۔ اور وہ معرفت جو جذبات کے مواد ردّیہ کو جلا دیتی ہے اس کو عطا نہیں ہوتی کیونکہ یہ شیطان کا حصہ ہے اس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ ’’
(ملفوظات جلد 7صفحہ275تا276)
اس اقتباس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تکبر کی مزید قسمیں بیان فرمائی ہیں۔
1۔ جو دو دن نماز پڑھ کر تکبر کرنے لگتے ہیں۔
2۔ روزہ اور حج سے بجائے تزکیہ کے ان میں تکبر اور نمود پیدا ہوتی ہے۔
3۔ علم کے لحاظ سے۔
4۔ دولت کے لحاظ سے۔
5۔ وجاہت کے لحاظ سے۔
6۔ ذات اور خاندان اورحسب نسب کی وجہ سے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس اقتباس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
‘‘حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرما رہے ہیں کہ بعض بنیادی چیزیں ہیں اور ان کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔ اوران سے بچو۔ بعض لوگ دو چاردن نماز پڑھ کے سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے نیک ہو گئے ہیں ۔چہرے پر عجیب قسم کی سنجیدگی کے ساتھ رعونت بھی طاری ہوجاتی ہے۔اور آپ نے دیکھاہوگابعض دفعہ بعض جبہّ پوشوں کو کہ ہاتھ میں تسبیح لے کر مسجدوں سے نکل رہے ہوتے ہیں ۔ان کی گردن پرہی فخر اورغرور نظر آرہا ہوتا ہے۔ شکرہے، اللہ تعالیٰ کا بہت بہت شکرہے کہ جماعت احمدیہ ایسے جبہ پوشوں سے پاک ہے۔ پھر حج کرکے آتے ہیں اتنا پروپیگنڈہ اس کا ہو رہا ہوتاہے کہ انتہا نہیں ۔ایسے لوگوں کے دکھاوے کے روزے ہوتے ہیں اور دکھاوے کاحج ہوتاہے۔ صرف بڑائی جتانے کے لئے یہ سب ہوتاہے کہ لوگ کہیں کہ فلاں بڑا نیک ہے۔بڑے روزے رکھتاہے، حاجی ہے، بہت نیک ہے۔تو یہ سب دکھاوے تکبر کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں یا دکھاوے کی وجہ سے تکبر پیدا ہو جاتاہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ بعض لوگ اپنی ذات پات کی وجہ سے تکبر کر رہے ہوتے ہیں کہ ہماری ذات بہت اونچی ہے۔فلاں تو کمی کمین ہے وہ ہماراکہاں مقابلہ کرسکتاہے۔ توحضرت اقدس نے فرمایاکہ تکبر کی کئی قسمیں ہیں جوتمہیں خدا تعالیٰ کی معرفت سے دور لے جاتی ہیں ،اس کے قرب سے دور لے جاتی ہیں اورپھر آہستہ آہستہ انسان شیطان کی جھولی میں گر جاتاہے۔’’
(خطبہ جمعہ 29؍ اگست 2003ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل24؍اکتوبر2003ءصفحہ7)
پھر حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں :
‘‘تکبّر بہت خطرناک بیماری ہے جس انسان میں یہ پیدا ہو جاوے اس کے لئے رُوحانی موت ہے۔ میں یقینا ًجانتا ہوں کہ یہ بیماری قتل سے بھی بڑھ کر ہے۔ متکبر شیطان کا بھائی ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ تکبّر ہی نے شیطان کو ذلیل و خوار کیا۔ اس لئے مومن کی یہ شرط ہے کہ اس میں تکبّر نہ ہو بلکہ انکسار، عاجزی، فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے ماموروں کا خاصہ ہوتا ہے ان میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ میں یہ وصف تھا۔ آپؐ کے ایک خادم سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ آپؐ کا کیا معاملہ ہے۔ اس نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ وہ میری خدمت کرتے ہیں ۔ (اللّٰھُمَّ صلّ علیٰ محمدٍ وَ علیٰ اٰل محمّدٍ وَ بارک وسلّم)۔’’
(الحکم 10؍نومبر1905ء،ملفوظات جلد چہارم صفحہ 437تا438)
تکبر کرنےوالوں کی نشانیاں
قرآن مجید کی یہ شان ہے کہ وہ صرف مثالیں ہی نہیں دیتا بلکہ آئندہ آنے والوں کے لیے یہ ذکر بھی بیان فرماتا ہے کہ جو تکبر کیا کرتے ہیں وہ کیسی حرکات کرتے ہیں اور بطور آئنہ کے بڑی واضح نشانیاں بھی بیان فرماتا ہے تا کہ کسی قسم کا کوئی ابہام نہ رہے اور لوگوں کو اس سے بچنے میں رہ نمائی مل سکے۔ذیل میں اس مضمون کی بیان ہونے والی بعض آیات کا اردو ترجمہ قارئین کے استفادے کے لیے دیا جاتا ہے۔
٭…اور یقیناً جب کبھی میں نے اُنہیں دعوت دی تاکہ تُو انہیں بخش دے اُنہوں نے اپنی اُنگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں اور اپنے کپڑے لپیٹ لئے اور بہت ضد کی اور بڑے استکبار سے کام لیا۔(نوح:8)
٭…اور جب ایسے شخص کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ تکبر کرتے ہوئے پیٹھ پھیر لیتا ہے گویا کہ اس نے ان کو سنا ہی نہیں (وہ اس حد تک بے پروائی کرتا ہے) گویا اس کے کانوں میں بہرہ پن ہے پس تو اس کو ایک دردناک عذاب کی اہم خبر سنا ۔(لقمان:8)
٭…(یاد رہے یہ تقدیر الٰہی ہے) تاکہ تم اس پر جو تم سے کھویا گیا غم نہ کرو اور اُس پر اِتراؤ نہیں جو اُس نے تمہیں دیا اور اللہ کسی تکبر کرنے والے، بڑھ بڑھ کر فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔(الحدید:24)
٭…اور عاد کی قوم نے زمین میں بغیر کسی حق کے تکبر سے کام لیا اور کہا ہم سے زیادہ قوت میں کون ہے کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ جس خدا نے ان کو پیدا کیا ہے۔ وہ ان سے زیادہ طاقتور ہے اور وہ ہماری آیتوں کا بضد انکار کرتے تھے۔(حم السجدہ:16)
٭…اور اس نے اور اس کے لشکروں نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور یہ گمان کیا کہ وہ ہماری طرف نہیں لوٹائے جائیں گے۔(القصص:40)
٭…اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ آؤ اللہ کا رسول تمہارے لیے بخشش طلب کرے، وہ اپنے سَر موڑ لیتے ہیں اور تُو انہیں دیکھتا ہے کہ وہ استکبار کرتے ہوئے (قبولِ حق سے) رُک جاتے ہیں۔(المنافقون:6)
٭…پس وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے تو وہ ان کو ان کے بھرپور اجر عطا کرے گا اور اپنے فضل سے ان کو مزید دے گا اور وہ لوگ جنہوں نے (عبادت کو) ناپسند کیا اور اِستکبار کیا تو انہیں وہ دردناک عذاب دے گا اور اللہ کے علاوہ وہ اپنے لئے کوئی دوست اور مددگار نہیں پائیں گے۔(النساء:174)
٭…اور یاد کرو وہ دن جب وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا آگ کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔ تم اپنی سب اچھی چیزیں اپنی دنیا کی زندگی میں ہی ختم کر بیٹھے اور ان سے عارضی فائدہ اٹھا چکے۔ پس آج کے دن تم ذلّت کا عذاب دیے جاؤ گے بوجہ اس کے کہ تم زمین میں ناحق تکبر کرتے تھے اور بوجہ اس کے کہ تم فسق کیا کرتے تھے۔(الاحقاف:21)
٭…اور انہوں نے اصرار سے ظلم اور تکبر کرتے ہوئے ان (نشانوں) کا انکار کیا حالانکہ ان کے دل ان پر یقین لا چکے تھے۔ پس دیکھ کہ فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا کرتا ہے۔(النمل:15)
٭…اور لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں۔ جو اللہ کے متعلق بغیر علم بغیر ہدایت اور بغیر کسی روشن کتاب کے اس حالت میں بحث کرتے ہیں کہ اپنے پہلو موڑے ہوئے (ہوتے) ہیں (یعنی اظہار تکبر کرتے ہیں) تا کہ اللہ کے راستہ سے لوگوں کو گمراہ کریں۔ ایسے لوگوں کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہوگی اور قیامت کے دن بھی ہم ان کو جلنے والا عذاب پہنچائیں گے۔(الحج:10۔ترجمہ از تفسیر صغیر)
٭…اور تمہارے ربّ نے کہا مجھے پکارو میں تمہیں جواب دوں گا۔ یقیناً وہ لوگ جو میری عبادت کرنے سے اپنے تئیں بالا سمجھتے ہیں ضرور جہنّم میں ذلیل ہوکر داخل ہوں گے۔(المومن:61)
٭…تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ پس وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل انکاری ہیں اور وہ استکبار کرنے والے ہیں۔(النحل:23)
٭…اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ آؤ اللہ کا رسول تمہارے لئے بخشش طلب کرے، وہ اپنے سَر موڑ لیتے ہیں اور تُو انہیں دیکھتا ہے کہ وہ استکبار کرتے ہوئے (قبولِ حق سے) رُک جاتے ہیں۔(المنافقون:6)
اللہ تعالیٰ کی کیسی محبت اوراحسان ہے کہ تکبرکے پُر خارراستے سے بچنے کے لیے چھوٹے سے چھوٹے کانٹے سے بچنے کےلیے بھی متنبہ فرمایا تاکہ انسان تکبر کرنے والوں کی راہ سے اپنے آپ کو بچا کر رکھ سکے۔
تکبر کرنے والوں کا انجام
قرآن کریم میں تکبر کرنے والوں کا انجام بھی بیان کیا گیا ہے۔اس حوالے سے قرآنی آیات پیش ہیں۔
تکبر کرنے والوں کے متعلق قرآن مجید نےفرمایا:
٭…کوئی شک نہیں کہ اللہ یقیناً جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔ یقیناً وہ استکبار کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(النحل:24)
اس آیت کی تشریح میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ تفسیر کبیر میں بیان فرماتے ہیں کہ
‘‘ پس اللہ تعالیٰ جو ان کے ظاہرو باطن کو جانتا ہے ۔وہ ان کو ان کے اعمال کی ضرور سزا دے گا ۔ ہاں وہ یہ فرق ضرور کرے گاکہ جو لوگ انکار بعث کی وجہ سے جہالت میں مبتلا ہو گئے۔ ان کی سزا ان لوگوں سے کم ہو گی جو توحید کو سمجھتے تو ہیں مگر تکبر کی وجہ سے انکار کرتے ہیں۔ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡتَکۡبِرِیۡنَ کے الفاظ سے اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو لوگ جان بوجھ کر انکار کرتے ہیں وہ زیادہ سزا کے مستحق ہوں گے۔’’
(تفسیر کبیر جلد4صفحہ154)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
‘‘یاد رکھو تکبر شیطان سے آیا ہے اور شیطان بنا دیتا ہے۔ جب تک انسان اس سے دور نہ ہو یہ قبول حق اورفیضان الوہیت کی راہ میں روک بن جاتاہے…اس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ شیطان نے بھی تکبر کیا تھا اور آدم سے اپنے آپ کو بہتر سمجھا اور کہہ دیا کہ
‘‘اَنَا خَیْرٌ مِّنْہۃ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ۔’’ (الاعراف:13)
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ خدا تعالیٰ کے حضورسے مردود ہو گیا۔ اور آدم لغزش پر (چونکہ اسے معرفت دی گئی تھی) اپنی کمزوری کا اعتراف کرنے لگا ۔ اور خدا تعالیٰ کے فضل کا وارث ہوا۔’’
(ملفوظات جلد 7صفحہ 275تا276)
٭… یقیناً وہ لوگ جنہوں نے ہمارے نشانات کو جھٹلایا اور ان سے استکبار کیا ان کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو جائے۔ اور اسی طرح ہم مجرموں کو جزا دیا کرتے ہیں۔(الاعراف:41)
٭…اور اونچی جگہوں والے ایسے لوگوں سے مخاطب ہوں گے جن کو وہ ان کی علامتوں سے پہچان لیں گے اور کہیں گے تمہاری جمعیت اور جو تم استکبار کیا کرتے تھے تمہارے کام نہ آسکے۔(الاعراف:49)
٭…اس نے کہا پس تُو اس سے نکل جا۔ تجھے توفیق نہ ہوگی کہ تُو اس میں تکبر کرے۔ پس نکل جا یقیناً تُو ذلیل لوگوں میں سے ہے۔ (الاعراف:17)
٭…اور وہ لوگ جنہوں نے ہمارے نشانات کو جھٹلا دیا اور ان سے تکبر سے پیش آئے یہی وہ لوگ ہیں جو آگ والے ہیں۔ وہ اس میں لمبا عرصہ رہنے والے ہیں۔ (الاعراف:37)
٭…جن لوگوں نے تکبر کیا وہ کہیں گے۔ یقیناً ہم سب کے سب اس میں ہیں۔ یقیناً اللہ بندوں کے درمیان فیصلہ کر چکا ہے۔(المومن:49)
٭…جہنّم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ۔ (تم) اس میں ایک لمبے عرصہ تک رہنے والے ہو۔ پس تکبر کرنے والوں کا ٹھکانہ بہت بُرا ہے۔(المومن:77)
٭… اور قیامت کے دن تُو ان لوگوں کو دیکھے گا جنہوں نے اللہ پر جھوٹ بولا کہ ان کے چہرے سیاہ ہوں گے۔ کیا جہنم میں تکبر کرنے والوں کے لئے ٹھکانہ نہیں؟(الزمر:61)
٭…اور جب وہ آگ میں پڑے جھگڑ رہے ہوں گے تو کمزور لوگ تکبر کرنے والوں سے کہیں گے ہم یقیناً تمہارے پیروکار تھے پس کیا تم آگ کا کوئی حصہ ہم سے ٹال سکتے ہو؟(المومن:48)
٭… جن لوگوں نے تکبر کیا وہ ان سے جو کمزور کردیئے گئے تھے کہیں گے کیا ہم نے تمہیں ہدایت سے روکا تھا بعد اس کے جب وہ تمہارے پاس آئی؟ (نہیں) بلکہ تم خود ہی مجرم تھے۔(سبا:33)
تکبرنہ کرنےوالوں کی نشانیاں
قرآن مجید جہاں تکبر کرنے والوں کی بڑی واضح نشانیاں بیان فرماتا ہے وہاں تکبر نہ کرنے والوں کی بھی نشانیاں بیان فرماتا ہے تا کہ کسی قسم کا کوئی ابہام نہ رہے اور ہر چیز روز روشن کی طرح واضح ہو جائے۔
قرآن مجید بیان فرماتا ہے:
٭…یقیناً ہماری آیات پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب اُن (آیات) کے ذریعہ انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ کرتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ (اس کی) تسبیح کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔ (السجدۃ:16)
٭…پس اگر وہ تکبر کریں تو (جان لیں کہ) وہ لوگ جو تیرے ربّ کے حضور رہتے ہیں رات اور دن اُس کی تسبیح کرتے ہیں اور وہ تھکتے نہیں۔ (حم السجدۃ:39)
٭…یقیناً وہ لوگ جو تیرے ربّ کے حضور حاضر رہتے ہیں اس کی عبادت میں تکبر نہیں کرتے اور اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اسی کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ (الاعراف:207)
حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں :
‘‘پس سچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشئی محض سمجھے اور آستانۂ الوہیت پر گر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے۔ اور اس نورِ معرفت کو مانگے جو جذبات ِنفس کو جلا دیتا ہے اور اندر ایک روشنی اور نیکیوں کے لیے قوت اور حرارت پیدا کرتا ہے۔ پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حصہ مل جاوے اور کسی وقت کسی قسم کا بسط اور شرح صدر حاصل ہو جاوے تو اس پر تکبر اور ناز نہ کرے بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اَور بھی ترقی ہو۔ کیونکہ جس قدر وہ اپنے آپ کو لاشئی سمجھے گا اسی قدر کیفیات اور انوار خدا تعالیٰ سے اتریں گے جو اس کو روشنی اور قوت پہنچائیں گے۔ اگر انسان یہ عقیدہ رکھے گا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی اخلاقی حالت عمدہ ہو جائے گی۔ دُنیا میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنا بھی تکبر ہے اور یہی حالت بنا دیتا ہے۔ پھر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ دوسرے پر لعنت کرتا ہے اور اسے حقیر سمجھتا ہے۔’’
(ملفوظات جلدچہارم صفحہ213، ایڈیشن2003ء)
ساتویں شرطِ بیعت :
تکبر کو چھوڑنا عاجزی اور خوش خلقی کو اپنانا
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے جو افراد جماعت کے لیے دس شرائط بیعت مقرر فرمائی ہیں ان میں سے ساتویں شرط کے الفاظ کچھ یوںہیں:
‘‘یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا۔’’
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ جمعہ 29؍ اگست 2003ء میں اس شرط پر تفصیلی روشنی ڈالی اور اس کی وضاحت آیات قرآنی، احادیث نبوی ﷺ اور ارشادات حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی روشنی میں بیان فرمائی جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس خطبہ جمعہ میں سے ایک اقتباس یہاں پیش خدمت ہے۔حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
‘‘…یہ ایک ایسی چیزہے جس کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔کہ یہ ہم نے بیعت کرتے ہوئے یہ شرط تسلیم کرلی کہ تکبر نہیں کریں گے،نخوت نہیں کریں گے، بکلی چھوڑ دیں گے۔یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔اس کی مختلف قسمیں ہیں ، مختلف ذریعوں سے انسانی زندگی پر شیطان حملہ کرتارہتاہے۔بہت خوف کامقام ہے۔ اصل میں تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہو تو اس سے بچا جاسکتاہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے بھی اس ساتویں شرط میں ایک راستہ رکھ دیا۔فرمایا کیونکہ تم تکبر کی عادت کوچھوڑوگے تو جو خلا پیدا ہوگا اس کواگر عاجزی اور فروتنی سے پُرنہ کیا توتکبر پھر حملہ کرے گا۔اس لئے عاجزی کو اپناؤ کیونکہ یہی راہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ آپ نے خود بھی اس عاجزی کو اس انتہا ء تک پہنچا دیا جس کی کوئی مثال نہیں تبھی تو اللہ تعالیٰ نے خوش ہوکر آپ کو الہاماً فرمایا کہ تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں ۔ تو ہمیں جو آپ کی بیعت کے دعویدار ہیں ، آپ کو امام الزمان مانتے ہیں ، کس حد تک اس خُلق کو اپنانا چاہئے۔انسان کی تو اپنی ویسے بھی کوئی حیثیت نہیں ہے کہ تکبر دکھائے اوراکڑتا پھرے…۔
اس کی مثال اس وقت مَیں ایک چھوٹے سے چھوٹے دائرے کی دیتاہوں ، جو ایک گھریلومعاشرے کا دائرہ ہے، آپ کے گھر کا ماحول ہے۔ بعض مرد اپنے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کررہے ہوتے ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے۔بعض بچیاں لکھتی ہیں کہ ہم بچپن سے اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہیں اور اب ہم سے برداشت نہیں ہوتا۔ہمارے باپ نے ہماری ماں کے ساتھ اور ہمارے ساتھ ہمیشہ ظلم کا رویہ رکھاہے۔باپ کے گھر میں داخل ہوتے ہی ہم سہم کر اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں ۔کبھی باپ کے سامنے ہماری ماں نے یاہم نے کوئی بات کہہ دی جو اس کی طبیعت کے خلاف ہوتو ایسا ظالم باپ ہے کہ سب کی شامت آجاتی ہے۔ تو یہ تکبر ہی ہے جس نے ایسے باپوں کو اس انتہا تک پہنچا دیاہے اور اکثر ایسے لوگوں نے اپنارویہ باہر ایسا رکھا ہوتاہے، بڑا اچھا رویہ ہوتا ہے ان کا اور لوگ باہر سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ان جیسا شریف انسان ہی کوئی نہیں ہے۔ اور باہر کی گواہی ان کے حق میں ہوتی ہے۔بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو گھرکے اندر اور باہر ایک جیسا رویہ اپنائے ہوئے ہوتے ہیں ان کا تو ظاہر ہو جاتاہے سب کچھ۔ تو ایسے بدخُلق اور متکبر لوگوں کے بچے بھی، خاص طورپر لڑکے جب جوا ن ہوتے ہیں تو ا س ظلم کے ردّعمل کے طورپر جو انہوں نے ان بچوں کی ماں یا بہن یا ان سے خود کیاہوتاہے، ایسے بچے پھر باپوں کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔اور پھر ایک وقت میں جا کر جب باپ اپنی کمزور ی کی عمر کو پہنچتاہے تو اس سے خاص طورپر بدلے لیتے ہیں ۔ تو اس طرح ایسے متکبرانہ ذہن کے مالکوں کی اپنے دائرہ اختیار میں مثالیں ملتی رہتی ہیں ۔مختلف دائرے ہیں معاشرے کے۔ایک گھر کا دائرہ اور اس سے باہر ماحول کا دائرہ۔ اپنے اپنے دائرے میں اگر جائزہ لیں تو تکبر کی یہ مثالیں آپ کو ملتی چلی جائیں گی۔
پھر اس کی انتہااس دائرے کی اس صورت میں نظر آتی ہے جہاں بعض قومیں اور ملک اور حکومتیں اپنے تکبر کی وجہ سے ہر ایک کو اپنے سے نیچ سمجھ رہی ہوتی ہیں ۔ اورغریب قوموں کو، غریب ملکوں کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھا ہوتاہے۔اورآج دنیا میں فساد کی بہت بڑی وجہ یہی ہے۔ اگر یہ تکبر ختم ہو جائے تو دنیا سے فساد بھی مٹ جائے۔ لیکن ان متکبر قوموں کو بھی، حکومتوں کو بھی پتہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جب تکبر کرنے والوں کے غرور اورتکبر کو توڑتاہے تو ان کا پھر کچھ بھی پتہ نہیں لگتا کہ وہ کہاں گئے…
حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضورؓ نے فرمایا جس نے اللہ کی خاطر ایک درجہ تواضع اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ رفع کرے گا یہاں تک کہ اسے علیّین میں جگہ دے گا، اور جس نے اللہ کے مقابل ایک درجہ تکبّر اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو ایک درجہ نیچے گرا دے گا یہاں تک کہ اسے اسفل السافلین میں داخل کردے گا۔
(مسند احمد بن حنبل، باقی مسند المکثرین من الصحابۃ)
تو ایسے لوگوں کی مجالس سے سلام کہہ کراٹھ جانے میں ہی آپ کی بقا، آپ کی بہتری ہے کیونکہ اسی سے آپ کے درجات بلند ہو رہے ہیں اورمخالفین اپنی انہی باتوں کی وجہ سے اسفل السافلین میں گرتے چلے جا رہے ہیں ۔’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ29؍اگست2003ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24 اکتوبر 2003ء صفحہ5تا7)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کس درد بھرے دل سے فرماتے ہیں:
‘‘خدایا مجھے ایسے الفاظ عطا فرما اور ایسی تقریریں الہام کر جو ان دلوں پر اپنا نور ڈالیں اور اپنی تریاقی خاصیت سے ان کی زہر کو دور کر دیں۔ میری جان اس شوق سے تڑپ رہی ہے کہ کبھی و ہ بھی دن ہو کہ اپنی جماعت میں بکثرت ایسے لوگ دیکھوں جنہوں نے درحقیقت جھوٹ چھوڑ دیا اور ایک سچا عہد اپنے خدا سے کر لیا کہ وہ ہریک شر سے اپنے تئیں بچائیں گے اور تکبر سے جو تمام شرارتوں کی جڑ ہے بالکل دور جا پڑیں گے اور اپنے رب سے ڈرتے رہیں گے…۔’’
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 445)
اللہ تعالیٰ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت اور آپ کے بتائے ہوئے طریق پر چلتے ہوئے تمام برائیوں سے بچنے اور تمام اعلیٰ اخلاق کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہماری سچائیوں کے بھی وہ معیار ہوں جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والے ہوں اور ہماری عاجزی کے بھی وہ معیار ہوں جو خدا تعالیٰ کو پسند آئیں۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے ایسے افراد بنیں جیسا کہ وہ ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔
اللہ کرے کہ ہراحمدی عاجزی، مسکینی اورخوش خلقی کی راہوں پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رحم کی نظر حاصل کرنے والاہو، اللہ تعالیٰ کی جنت میں جانے والاہو اور ہر گھر تکبر کے گناہ سے پاک ہو۔
٭…٭…٭