خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12؍اپریل2019
اخلاص و وفا کے پیکر بعض بدری اصحابِ رسولﷺ کی سیرتِ مبارکہ کا حسین تذکرہ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام ‘وَسِّعْ مَکَانَکَ’ کے حوالہ سے نئے مرکز احمدیت کا تذکرہ
خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 12؍اپریل2019ءبمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن، یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 21؍ اپریل 9102ء کو مسجد بیت الفتوح مورڈن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشر کیا گیا۔
خطبہ جمعہ میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےچند بدری اصحابؓ رسول ﷺ کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ فرمایا۔ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے الہام ‘‘وَسِّعْ مَکَانَکَ’’ کے تحت نئے مرکز احمدیت ‘‘اسلام آباد’’ کا تذکرہ فرمایا۔جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کے حصہ میں آئی۔
تشہد، تعوذ، تسمیہ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آج میں جن بدری صحابہ کا ذکر کروں گا ، ان میں پہلا نام حضرت حصین بن حارث کا ہے۔ آپؓ کی والدہ سہیلہ تھیں۔ جبکہ آپؓ کا تعلق بنومطلب بن عبدمناف سے تھا۔ حصینؓ بن حارثؓ نے اپنے دو بھائیوں، طفیلؓ اور عبیدہ ؓکےساتھ مدینہ ہجرت کی۔ آنحضورﷺ نےحضرت عبیدہ بن جبیرؓ کے ساتھ آپؓ کی مؤاخات قائم فرمائی۔آپؓ نے تمام غزوات میں آنحضورﷺ کے ساتھ شرکت کی۔ 32ہجری میں آپؓ نے وفات پائی۔ حضرت حصینؓ کے بیٹے عبداللہ اور بیٹیوں خدیجہ اور ہند نے بھی اسلام قبول کیا۔ خیبر کے موقع پر آنحضرتﷺ نے حصینؓ کی وجہ سے ان بچوں کو 60 صاع( تقریباً 375 من) غلّہ عطافرمایا۔
دوسرا ذکر حضرت صفوان ؓبن وہب بن ربیعہ کا تھا۔ آپؓ کی والدہ داد بنت ھجدم، بیضاء نام سے مشہور تھیں۔ چنانچہ صفوانؓ کو ابنِ بیضاء بھی کہا جاتا ہے۔ صفوان ؓ کی کنیت ابو عمرو جبکہ آپؓ کا تعلق قبیلہ حارث بن فہر سے تھا۔ رسول اللہ ﷺنے صفوان کی مؤاخات رافع بن معلیؓ یا رافع بن عجلانؓ سے کروائی۔ آپ ؓ کی وفات کی نسبت کئی روایات ملتی ہیں۔ حضورِانور نے فرمایا کہ بہرحال یہ ہرجگہ ثابت ہے کہ آپؓ بدری صحابی تھے۔
اگلے صحابی حضرت مبشّر بن عبدالمنذر ؓ تھے۔ آپؓ کی والدہ نصیبہ بنت زید تھیں۔ مبشّر ؓاوس کے قبیلے بنو عمرو بن عوف سےتھے۔ آنحضورﷺ نے مبشّرؓ اور عاقلؓ بن ابو بکیرکے درمیان عقدِ مؤاخات قائم فرمایا۔ آپؓ اپنے دو بھائیوں کے ہمراہ غزوہ بدرمیں شامل ہوئے،اور شہادت پائی۔ آنحضورﷺ نے مالِ غنیمت میں آپ ؓ کا حصّہ مقرر فرمایا۔ اُحد سے قبل حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرامؓ نے مبشّرؓ کو خواب میں دیکھا۔ آپؓ جنت میں موجود تھے۔ عبداللہ کے دریافت کرنے پرکہ کیا آپؓ بدر میں شہیدنہیں ہوگئے تھے؟ مبشّرؓ نے فرمایا کہ ہاں! میں جنت میں ہوں اور ہم جہاں سے چاہتے ہیں کھاتے پیتے ہیں۔
حضورِانور نے علّامہ زرقانی، سمہودی اورطبرانی کے حوالے سے غزوہ بدر کے شہدا کے بلند مراتب کا تذکرہ فرمایا۔
اگلے صحابی ورقہ ؓبن ایاس بن عمرو تھے۔ آپؓ کا نام ودفہ یا ودقہ بھی بیان ہوا ہے۔ ان کا تعلق خزرج کی شاخ بنولوزان بن غنم سے تھا۔اپنے دو بھائیوں ربیع اور عمرو کے ہمراہ غزوہ بدر میں شامل ہوئے۔ آپؓ کو تمام غزوات میں رسول اللہﷺ کے ساتھ شرکت کی توفیق ملی۔ آپؓ جنگِ یمامہ میں شہید ہوئے۔
اگلا ذکر مکّہ کے قبیلے بنوغنم بن دودان سے تعلق رکھنے والے صحابی،حضرت محرز بن نضلہ ؓ کا تھا۔ آپؓ گورے اور خوبصورت تھے۔ آنحضورﷺ نےمحرز اور عمارہ بن حزمؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ آپؓ غزوہ بدر، احد اور خندق میں شریک ہوئے۔ محرز بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے خواب میں ورلے آسمان کو دیکھا کہ ان کے لیے کھولا گیا ہےیہاں تک کہ آپؓ اس میں داخل ہوئے اور ساتویں آسمان اور بالآخر سدرۃ المنتھیٰ تک پہنچ گئے۔ حضرت ابو بکرؓ صدیق نے خواب کی تعبیر میںشہادت کی خوشخبری سنائی۔ حضورِ انور نے حضرت محرز بن نضلہؓ کی شہادت کا واقعہ کئی روایات کی روشنی میں تفصیلاً بیان فرمایا۔آپؓ غزوہ ذی قرد 6ہجری میں 37یا38برس کی عمر میں شہید ہوئے۔
اگلے صحابی جن کا ذکرحضورِ انور نے فرمایا ان کا نام حضرت سویبط بن سعدؓ تھا۔ آپؓ کو سویبط بن حرملہ بھی کہا جاتا ہے۔ آپؓ کا تعلق بنوعبدالدّار سے تھا۔ آپ مہاجرینِ حبشہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ہجرتِ مدینہ پر آپﷺ نے عائض بن مائض ؓ کے ساتھ ان کی مؤاخات قائم فرمائی۔ آپؓ بدر اور احد میں شامل ہوئے۔
حضورِ انور نے حضرت سویبط بن سعد کی طبیعت میں شامل ظرافت کا ایک دلچسپ واقعہ پیش فرمایا۔
ضرت ابوبکر صدیقؓ، سویبط اور نعیمان کو ہمراہ لے کر تجارت کی غرض سے شام کےعلاقے بسریٰ گئے۔ نعیمان زادِ راہ پر نگران تھے۔ سویبط نے حضرت ابوبکرؓ کی غیرحاضری میں کھانا مانگا تو نعیمان نے صاف انکار کردیا۔ حضرت سویبط نے نعیمان کو کہا کہ تم مجھے کھانا نہیں دوگے تو میں تمہیں غصّہ دلاؤں گا۔ کچھ دیر بعد حضرت سویبط نے نہایت مہارت سے نعیمان کو اپنا غلام بتاکر،دس اونٹنیوں کے عوض ایک قوم کو بیچ دیا۔جب حضرت ابوبکرؓ واپس آئے اور انہیں ساری تفصیل کا علم ہوا ۔تب آپؓ نے اس قوم کی اونٹنیاں واپس کرکے نعیمانؓ کو واپس لیا ۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ اس طرح کے مذاق بھی صحابہ میں چلتے تھے۔ آنحضرتﷺ نےبھی اس واقعے سے خوب حظ اٹھایا اور ایک سال تک یہ واقعہ خوب مشہور رہا۔
حضورِ انور نے صحابہ کے ذکر کے بعد حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے الہام ‘‘وسع مکانک’’کی وسعت پر روشنی ڈالی۔فرمایا کہ یہ الہام حضورؑکوابتداءً تب ہوا جب آپؑ کی مجلس میں دو یاتین لوگ ہوا کرتےتھے۔ پھرمختلف وقتوں میں دوسرے الہاموں کے ساتھ یہ الہام ہوتا رہاکہ اپنی مکانیت کو وسیع کرو۔اللہ تعالیٰ جب اپنےانبیاءکو الہاماًکوئی حکم دیتاہےکہ یہ کرو تو اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ اس کےلیےاپنی تائیدات اورنصرت بھی فرمائے گا۔ جماعت کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہ الہام کس شان سےپوراہوا، اورآج بھی پورا ہوتاچلا جارہا ہے۔حضرت مسیح موعودؑ کا ہرالہام اصل میں آنحضرتﷺ کے دین یعنی اسلام کی اشاعت اور ترقی کی خوش خبری ہے۔آپؑ کے بعد خلافت کے ذریعے آنحضرتﷺ کے پیغام کا دنیا میں پھیلنا، اللہ تعالیٰ کےاس منصوبے کا حصّہ ہے جو اس نے اسلام کو دنیا میں پھیلانے کے لیے بنایا ہواہے۔
اس تمہید کےبعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مرکزِسلسلہ اسلام آباد منتقل ہونے کی تفصیلات بیان فرمائیں۔ حضورِانور نے فرمایاکہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی لندن ہجرت کے فوری بعد اللہ تعالیٰ کےفضل سے،غیرمعمولی طورپر جماعت کواسلام آباد میں 25ایکڑ زمین خریدنےکی توفیق ملی۔بعدمیں چھے ایکڑکا اضافہ بھی ہوا۔جہاں جلسہ ہوتارہا۔حضورِانورنے فرمایا کہ1985ءمیں مَیں یہاں آیا توحضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے مجھے فرمایاکہ اللہ نے مرکزکےلیےیہ بڑی اچھی جگہ ہمیں مہیّاکردی ہے(کم وبیش یہی الفاظ تھے)۔
اب اللہ تعالیٰ نےتوفیق دی ہےکہ اسلام آبادمیں بہترسہولتوں کےساتھ دفاتر،مسجد،خلیفہ وقت کی رہائش اور کارکنان اور واقفین کی رہائش گاہیں بنائی گئی ہیں۔حضورِ انورنے تفصیلاًذکرفرمایاکہ کس طرح لندن میں موجودہ دفاتر میں تنگی کے باعث کام میں دشواری پیداہورہی تھی۔اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ دفاتر اسلام آباد منتقل ہوجائیں گے۔پریس کےلیے اسلام آباد سےدوتین میل کے فاصلےپر‘فارن ہم ’میں اللہ تعالیٰ نے ایک ،دومنزلہ عمارت عطافرمائی ہے۔خدّام الاحمدیہ کےدفاتربھی وہیں ہیں۔جلسہ گاہ کےلیےحدیقۃ المہدی، جامعہ احمدیہ ،یہ سب اسلام آباد سے دس سے بیس منٹ کےفاصلےپرہیں۔ان تمام جگہوں کےخریدنےکی پہلے کوئی پلاننگ نہیں تھی۔یہ سب اللہ تعالیٰ کا منصوبہ تھا کہ یہ سب جگہیں ایک علاقےمیں قریب قریب اکٹھی ہوتی چلی گئیں۔ حضورِ انور نے فرمایااب مَیں بھی اِنشاءاللہ لندن سے چند دنوں میں اسلام آبادمنتقل ہوجاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ اسلام آباد سے اسلام کی تبلیغ کے کام کو پہلے سے زیادہ وسعت عطافرمائے، اور وسع مکانک صرف مکانیت کی وسعت کے ذریعےہی نہ ہوبلکہ اللہ تعالیٰ کے منصوبوں کی تکمیل میں وسعت کا ذریعہ بھی بنے۔ جمعے کے حوالےسے حضورِانور نے فرمایاکہ جمعہ اِنشاءاللہ عموماً یہیں بیت الفتوح میں آکےپڑھایاکروں گا۔اللہ تعالیٰ اس منصوبے کو اور وہاں منتقل ہونے کو ہرلحاظ سے بابرکت فرمائے۔آمین۔
………………………………………