شرائط بیعت اور ہماری ذمہ داریاں: فسق و فجور سے اجتناب کرو اور ظلم نہ کرو
دوسری شرط بیعت(حصہ سوم)
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
فسق وفجور سے اجتناب کرو
پھر اسی شرط دوم میں چوتھی برائی فسق وفجور سے اجتناب کے بارہ میںہے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے :
وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ؕ لَوۡ یُطِیۡعُکُمۡ فِیۡ کَثِیۡرٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ لَعَنِتُّمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ وَ کَرَّہَ اِلَیۡکُمُ الۡکُفۡرَ وَ الۡفُسُوۡقَ وَ الۡعِصۡیَانَ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَ۔(الحجرات:8)
اور جان لو کہ تم میں اللہ کا رسول موجود ہے۔ اگر وہ تمہاری اکثر باتیں مان لے تو تم ضرور تکلیف میں مبتلا ہوجاؤ۔ لیکن اللہ نے تمہارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں سجا دیا ہے اور تمہارے لیے کفر اور بداعمالی اور نافرمانی سے سخت کراہت پیدا کردی ہے۔یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں۔
ایک حدیث ہے کہاَسْوَدْ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیںکہ انہوں نے بیان کیاکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی نے روزہ رکھاہو تو فحش کلامی نہ کرے ، فسق کی باتیں نہ کرے اور جہالت کی باتیں نہ کریں اور جو اس کے ساتھ جاہلانہ سلوک کرے تو اسے کہے کہ معاف کرنا مَیں ایک روزہ دار شخص ہوں۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد 2۔صفحہ356۔مطبوعہ بیروت)
آنحضور ﷺنے فرمایا ہے کہ مومن سے گالی گلوچ کرنا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد 1۔صفحہ439۔مطبوعہ بیروت)
عبدالرحمٰن بن شبل نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ تاجر لوگ فاجر ہوتے ہیں۔راوی کہتے ہیں عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ نے تجارت حلال نہیں کی؟ رسول اللہﷺنے فرمایاکیوں نہیں؟مگر وہ جب سودابازی کرتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں اور قسمیں اٹھا اٹھا کر قیمت بڑھاتے ہیں۔
راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے مزید فرمایا کہ فاسق دوزخی ہیں ۔ عرض کی گئی یا رسول اللہ ! فُسّاق کون ہیں؟ اس پرآنحضور ؐنے فرمایا عورتیں بھی فُسّاق ہوتی ہیں۔ ایک شخص نے عرض کی کہ یا رسول اللہ !کیاوہ ہماری مائیں ،بہنیں اور بیویاں نہیں ہیں۔ آنحضور ﷺنے فرمایا کیوں نہیں؟ لیکن جب ان کو کچھ دیا جاتاہے تو وہ شکر نہیں کرتیں اور جب ان پر کوئی آزمائش پڑتی ہے تو صبر نہیں کرتیں ۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد 3۔ صفحہ 428۔مطبوعہ بیروت)
تو یہ تاجروں کی بھی سوچنے والی بات ہے کہ بڑی صاف ستھری تجارت ہونی چاہیے۔ یہ بھی شرائط بیعت میں سے ایک شر ط ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :‘‘قرآن سے تو ثابت ہوتاہے کہ کافر سے پہلے فاسق کو سز ا دینی چاہیے… یہ خدا تعالیٰ کا دستور ہے کہ جب ایک قوم فاسق فاجر ہوتی ہے تو اس پرایک اور قوم مسلط کردیتاہے’’۔
(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد دوم۔ صفحہ 653)
پھر فرمایا : ‘‘جب یہ فسق و فجور میں حد سے نکلنے لگے اور خدا کے احکام کی ہتک اور شعائراللہ سے نفرت ان میں آ گئی اور دنیا اور اس کی زیب و زینت میں ہی گم ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی اسی طرح ہلاکو، چنگیز خان وغیرہ سے برباد کروایا ۔ لکھاہے کہ اُس وقت یہ آسمان سے آواز آتی تھی
‘اَیُّھَا الْکُفَّارُ اُقْتُلُوْاالْفُجَّار’۔
غرض فاسق فاجرانسان خدا کی نظرمیں کافر سے بھی ذلیل اور قابل نفرین ہے’’۔
(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد سوم۔ صفحہ 108)
پھر فرمایا :‘‘ ظالم فاسق کی دعا قبول نہیں ہوا کرتی کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے لاپرواہ ہے اور خدا تعالیٰ بھی اس سے لاپرواہ ہے۔ ایک بیٹا اگربا پ کی پرواہ نہ کرے اور ناخلف ہو تو باپ کو اس کی پروا ہ نہیں ہوتی تو خدا کو کیوں ہو’’۔
(البدر۔ جلد2۔ مؤرخہ 13؍فروری 1903ء۔ صفحہ28۔ کالم نمبر2)
ظلم نہ کرو
پھر شرط دوم میں ہے کہ ظلم نہیں کرے گا۔ قرآن کریم میں آتاہے:
فَاخۡتَلَفَ الۡاَحۡزَابُ مِنۡۢ بَیۡنِہِمۡ ۚ فَوَیۡلٌ لِّلَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡ عَذَابِ یَوۡمٍ اَلِیۡمٍ۔(الزخرف:66)۔
اس کا ترجمہ ہے : پس ان کے اندر ہی سے گروہوں نے اختلاف کیا۔ پس اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے ظلم کیا ہلاکت ہو دردناک دن کے عذاب کی صورت میں۔
حضرت جابر رضی ا للہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا ظلم سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن تاریکیاں بن کر سامنے آئے گا ۔ حرص، بخل اورکینہ سے بچو کیونکہ حرص ، بخل اورکینہ نے پہلوں کو ہلاک کیا ، اس نے ان کو خونریزی پر آمادہ کیا اور ان سے قابل احترام چیزوں کی بے حرمتی کرائی ۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد نمبر3۔ صفحہ 323)
اسی طرح دوسرے کا حق دبانا بھی ظلم ہے۔ حضرت عبداللہؓ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے عرض کی یارسول اللہ کون سا ظلم سب سے بڑا ہے ۔تو آنحضور ﷺنے فرمایا :سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کے حق میں سے ایک ہاتھ زمین دبالے۔ اس زمین کا ایک کنکر بھی جو اس نے ازارہ ظلم لیا ہوگا تو اس کے نیچے کی زمین کے جملہ طبقات کا طوق بن کر قیامت کے روز اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔اور زمین کی گہرائی سوائے اس ہستی کے کوئی نہیں جانتا جس نے اسے پیدا کیاہے۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد1۔ صفحہ396۔ مطبوعہ بیروت)
بعض لوگ جو اپنے بہنوں بھائیوں یا ہمسایوں کے حقوق ادا نہیں کرتے یا لڑائیوں میں جائیدادوں پر ناجائز قبضہ کرلیتے ہیں ، زمینیں دبا لیتے ہیںان کو اس پر غور کرنا چاہیے۔احمدی ہونے کے بعد جبکہ اس شرط کے ساتھ ہم نے بیعت کی ہے کہ کسی کا حق نہیں دبائیں گے ، ظلم نہیں کریں گے ، بہت زیادہ خوف کا مقام ہے۔
ایک حدیث ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ ہم نے عرض کی جس کے پاس روپیہ ہو، نہ سامان۔آنحضور ﷺنے فرمایا کہ میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز،روزہ، زکوۃ وغیرہ اعمال لے کر آئے گا لیکن اس نے کسی کو گالی دی ہوگی ،کسی پر تہمت لگائی ہوگی،کسی کا مال کھایا ہوگااور کسی کا ناحق خون بہایا ہوگایاکسی کو مارا ہوگا۔ پس ان مظلوموں کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی یہاں تک کہ اگر ان کے حقوق ادا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو ان کے گناہ اس کے ذمہ ڈال دئے جائیں گے ۔اوراس طرح جنت کی بجائے اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ۔ یہی شخص دراصل مفلس ہے۔
(صحیح مسلم۔ کتاب البرّ والصلۃ۔ باب تحریم الظلم)
اب سوچیں ، غورکریں ، ہم میں سے ہر ایک کو سوچنا چاہیے۔ جو بھی ایسی حرکات کے مرتکب ہو رہے ہوں ان کے لیے خوف کا مقام ہے ۔ اللہ کرے کہ ہم میں سے کوئی بھی ایسی مفلسی کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے حضور کبھی پیش نہ ہو۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :‘‘میری تمام جماعت جو اس جگہ حاضر ہیں یا اپنے مقامات میں بودوباش رکھتے ہیں اس وصیت کو توجہ سے سنیں کہ وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے ہیں، اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلنی اور نیک بختی اور تقوی کے اعلی درجہ تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بدچلنی ان کے نزدیک نہ آسکے۔ وہ پنجوقت نماز جماعت کے پابند ہوں۔ وہ جھوٹ نہ بولیں۔ وہ کسی کو زبان سے ایذا نہ دیں۔ وہ کسی قسم کی بدکاری کے مرتکب نہ ہوں۔ اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں۔ غرض ہر ایک قسم کے معاصی اور جرائم اور ناکردنی اور ناگفتنی اور تمام نفسانی جذبات اور بیجا حرکات سے مجتنب رہیں اور خداتعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بند ے ہو جائیں۔ اور کوئی زہریلا خمیر ان کے وجود میں نہ رہے … اور تمام انسانوں کی ہمدردی ان کا اصول ہو اور خداتعالیٰ سے ڈریں اور اپنی زبانوں اور اپنے ہاتھوں اور اپنے دل کے خیالات کو ہرایک ناپاک اور فسادانگیز طریقوں اور خیانتوں سے بچاویں اور پنجوقتہ نماز کو نہایت التزام سے قائم رکھیں اور ظلم اور تعدی اور غبن اور رشوت اور اتلاف حقوق اور بیجاطرفداری سے باز رہیں۔ اور کسی بدصحبت میں نہ بیٹھیں۔ اور اگر بعد میں ثابت ہو کہ ایک شخص جو ان کے ساتھ آمد و رفت رکھتا ہے وہ خداتعالیٰ کے احکام کا پابند نہیں ہے … یا حقوق عباد کی کچھ پرواہ نہیں رکھتا اور یا ظالم طبع اور شریر مزاج اور بدچلن آدمی ہے اور یا یہ کہ جس شخص سے تمہیں تعلق بیعت اور ارادت ہے اس کی نسبت ناحق اور بے وجہ بدگوئی اور زبان درازی اور بدزبانی اور بہتان اور افترا کی عادت جاری رکھ کر خداتعالیٰ کے بندوں کو دھوکہ دینا چاہتا ہے تو تم پر لازم ہو گا کہ اس بدی کو اپنے درمیان سے دور کرو اور ایسے انسان سے پرہیز کرو جو خطرناک ہے۔ اور چاہیے کہ کسی مذہب اور کسی قوم اور کسی گروہ کے آدمی کو نقصان رسانی کا ارادہ مت کرو اور ہر ایک کے لیے سچے ناصح بنو ۔ اور چاہیے کہ شریروں اور بدمعاشوں اور مفسدوں اور بدچلنوں کو ہرگز تمہاری مجلس میں گزر نہ ہو اور نہ تمہارے مکانوں میں رہ سکیں کہ وہ کسی وقت تمہاری ٹھوکر کا موجب ہوں گے’’۔
اسی طرح فرمایا :’’یہ وہ امور اور وہ شرائط ہیں جو میں ابتداء سے کہتا چلا آیا ہوں۔ میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہو گا کہ ان تمام وصیتوں کے کاربند ہوں اور چاہیے کہ تمہاری مجلسوں میں کوئی ناپاکی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا مشغلہ نہ ہو اور نیک دل اور پاک طبع اور پاک خیال ہو کر زمین پر چلو۔ اور یاد رکھو کہ ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفو اور درگزر کی عادت ڈالو اور صبر اور حلم سے کام لو ۔ اور کسی پر ناجائز طریق سے حملہ نہ کرو۔ اور جذبات نفس کو دبائے رکھو اور اگر کوئی بحث کرو یا کوئی مذہبی گفتگو ہو تو نرم الفاظ اور مہذبانہ طریق سے کرو۔ اور اگر کوئی جہالت سے پیش آوے تو سلام کہہ کر ایسی مجلس سے جلد اٹھ جائو۔ اگر تم ستائے جائو اور گالیاں دیئے جائو اور تمہارے حق میں برے برے لفظ کہے جائیں تو ہوشیار رہو کہ سفاہت کا سفاہت کے ساتھ تمہارا مقابلہ نہ ہو ورنہ تم بھی ویسے ہی ٹھہرو گے جیسا کہ وہ ہیں۔ خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بناوے کہ تم تمام دنیا کے لیے نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہرو۔ سو اپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلد نکالو جو بدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی اور بدنفسی کا نمونہ ہے۔ جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پرہیزگاری اور حلم اور نرم زبانی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ جلد ہم سے جدا ہو جائے کیونکہ ہمارا خدا نہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے اور یقینا وہ بدبختی میں مرے گا کیونکہ اس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا۔ سو تم ہوشیار ہو جائو اور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راستباز بن جائو ۔ تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کیے جائو گے اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا’’۔
(اشتہار مورخہ 29؍مئی 1898ء۔ صفحہ2۔ تبلیغ رسالت۔ جلد ہفتم۔ صفحہ42-44)
(شرائط بیعت اور ہماری ذمہ داریاں صفحہ 31تا37)
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭