رانا صاحب اور لالہ جی کی یاد میں
اے تنگیٔ زنداں کے ستائے ہوئے مہماں
جلسہ سالانہ 1991ء کے موقعے پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کامنظوم کلام پڑھا گیا۔ ہم نے اسے ربوہ میں اپنے محلہ کی مسجد نصرت میں سنا۔ بے پرواہیوں اور بے فکریوں کی اس عمر میں بھی اس کلام نے دل کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ سن تو رکھا تھا کہ بعض احمدی پاکستان کی جیلوں میں اسیر ہیں۔ یہ بھی سن رکھا تھا کہ انہیں سزائے موت تک سنا دی گئی تھی مگر اب عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جلسہ سالانہ پر یہ کلام سننے سے قبل کبھی اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ اِن اسیران کے درد میں خلیفۂ وقت کا دل کس طرح تڑپا ہوا ہے۔
جو درد سسکتے ہوئے حرفوں میں ڈھلا ہے
شاید کہ یہ آغوشِ جدائی میں پلا ہے
پہلے ہی شعر نے توجہ کا دامن جو تھاما تو آخری شعر تک نہیں چھوڑا۔ بلکہ مہینوں نہیں چھوڑا۔ ان دنوں یو ٹیوب تو تھا نہیں کہ جو چاہو جب چاہو سن لو اور دیکھ لو۔ گھر میں کوئی پرانی آڈیو کیسٹ پڑی تھی وہی اٹھائی اور اقصیٰ چوک کے پاس ایک آڈیو ریکارڈنگ کی دوکان تھی، وہاں سے اس کیسٹ پر یہ نظم چڑھوا لی۔گرمیوں کی کئی دوپہریں اسی نظم کو سن سن کر گزاردیں۔ ہر شعراُس محبت کا آئینہ دار تھا جو حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒکے دل میں اِن اسیران کے لئے موجزن تھی۔ اِن اسیران سے نہ کبھی ملا، نہ انہیں جانتا تھا مگر ان کے لئے دل میں ایک خاص رشک پیدا ہوگیا۔
انہی دنوں میرا جامعہ احمدیہ ربوہ اور ناصر ہوسٹل روز کا آنا جانا ہوگیا۔ وہاں مکرم ومحترم رانا عبدالسلام صاحب ڈیوٹی کیا کرتے تھے۔ بھائی سلام، کہ سب انہیں اسی محبت بھرے نام سے پکارتے، ہر ہفتے دو ہفتے بعد بتایا کرتے کہ ساہیوال اسیرانِ راہِ مولا سے ملنے گئے ہوئے تھے۔ اپنی طویل ملاقاتوں کے طویل قصے بڑی محبت سے سنایا کرتے۔ انہیں قصوں کی بدولت مجھے رانا نعیم الدین صاحب سے غائبانہ تعارف حاصل ہوا۔
اب دو چیزیں ہو گئیں۔ خلیفہ ٔ وقت کی بے پناہ محبت، اور اِن محبوبوں کے نام۔ اب اِس محبت اور اِن ناموں کو چہروں سے منسوب کرنا باقی تھا۔ یہ تکون 1994ء میں جاکر مکمل ہوئی جب اسیرانِ راہِ مولا کو رہائی نصیب ہوئی اور وہ خیر سے گھروں کو لوٹے۔
وہ شام بھی عجیب تھی۔ رہا ہوتے ہی ان اسیرانِ راہِ مولا نے دارالضیافت ربوہ پہنچنا تھا۔ یہاں ان کا استقبال ہونا تھا۔ اِس استقبال کے لئے ربوہ کی آبادی دیوانہ وارجس طرح جمع ہوئی، اُس سے پہلے تو دارالضیافت پُر ہوا، پھر اس کے سامنے کی دو رویا سڑکیں پُر ہوئیں پھر ان سے ملحقہ سڑکیں اور پھر ہر سڑک سے ملحق گلیاں۔ سارا ربوہ بلکہ پاکستان کے اور حصوں سے بھی بہت سے احمدی احباب جماعت احمدیہ کےاِن ہیروز کے استقبال کے لئے کھنچے چلے آئے تھے۔میں نے جس ربوہ کو ہوش کےزمانہ میں پایا وہ جلسوں اجتماعوں کی رونق سے محروم کیا جاچکا تھا۔ پس لوگوں کا یہ سمندر ربوہ کی گلیوں کے لئے ایک انوکھااور خوش گوار تجربہ تھا۔
پھر سرگودھا روڈ کی طرف سے گاڑیوں کی ایک قطار آتی دکھائی دی جو سیدھی دارالضیافت میں آکر رکی اوران گاڑیوں میں سے وہ چہرے ہویدا ہوئے جن کی یادیں قیامت تھیں قلبِ تپاں کے لئے۔ یعنی پردیس میں بیٹھے خلیفۃ المسیح الرابع کے قلبِ تپاں کے لئے۔ اور اس نسبت سے ہر احمدی کے قلب ِتپاں کے لئے۔
ہیں کس کے بدن دیس میں پابند سلاسل
پردیس میں اک روح گرفتار بلا ہے
وہ بدن جنہیں پھانسی کے پھندے پر جھول جانے کے ظالمانہ احکامات جاری ہوئے تھے۔ وہ بدن جو ایک غریب جماعت اور اس کے خلیفہ کی دعاؤں سے تختۂ دار سے بچا لئے گئے تھے۔ وہ بدن ثابت و سالم ہماری آنکھوں کے سامنے تھے۔محبت، حیرت، رشک اور بہت سے ملے جلے جذبات سے اِن چہروں کا دھندلایا ہوا نظر آنا ایک فطری امر تھا۔ وہاں موجود سبھی آنکھوں نے اِن چہروں کو دھندلائی ہوئی نظر سے دیکھا۔ ظاہر ہے کہ اُن سب کو اِن اسیران کے سلاسل سے آزاد ہونے کی خوشی تو تھی ہی، مگر پردیس میں جو ایک معصوم روح گرفتارِ بلا تھی، اس معصوم روح کی اس درد سے نجات اصل خوشی کا سبب تھی۔ اُس وجود کی خوشی اور اطمینان جس نے بڑے درد سے لکھا کہ
گم گشتہ اسیرانِ رہِ مولا کی خاطر
مدت سے فقیر ایک دعا مانگ رہا ہے
خیرات کر اب ان کی رہائی میرے آقا
کشکول میں بھر دے جو مرے دل میں بھرا ہے
سو یہ التجائیں اللہ تعالیٰ نے سنیں اور اسیرانِ راہِ مولا کو رہائی نصیب ہوئی۔ خلیفۂ وقت کی دعاؤں کی قبولیت کا یہ نشان ساری جماعت کے لئے ایک جشن کا سبب بن گیا۔
تو اِسی جشن میں پہلی دفعہ اِن سب اسیران کو دیکھا۔ ان میں ایک معمر آدمی بھی نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ یہی ہیں جن کا نام رانا نعیم الدین ہے۔
پھر اُس دن کے بعد رانا نعیم الدین صاحب سے نہ کبھی ملاقات ہوئی نہ کبھی اُن کابہت زیادہ تذکرہ ہوا۔ جلسہ سالانہ یوکے 1994ء پھر اسی مسجد نصرت میں ایم ٹی اے پر دیکھا اور سنا جہاں تین سال قبل وہ دردانگیز نظم سنی تھی۔ مگر اب کے تو سماں ہی اور تھا۔ یہ اسیران بحفاظت لندن پہنچ چکے تھے اور اپنے آقا کے قدموں میں بیٹھے نظر آرہے تھے۔
تو وہ جو کبھی فرمایا تھا کہ
سینے سے لگا لینے کی حسرت نہیں مٹتی
پہلو میں بٹھانے کی تڑپ حد سے سوا ہے
تو اللہ نے حضور رحمہ اللہ کی اس تڑپ کو اس طرح پورا کیا کہ سب حسرتیں مٹ گئیں بلکہ حد سے سِوا مٹ گئیں۔
غالب جو بھی کہا کرے، انسان رہینِ ستم ہائے روزگار ہوتا ہے تو بہت کچھ بھول جاتا ہے۔ سو میرے ذہن سے بھی یہ چہرے اور ان سے وابستہ کہانیاں مٹتی مٹتی تقریباً معدوم ہو گئیں۔
2002ء میں ترکِ وطن کیا اور لندن پہنچا تو سب سے پہلے مسجد فضل میں حاضری دی۔ جس مسجد کو ٹی وی پر دیکھا تھا اُسے ننگی آنکھ سے دیکھا تو یہ منظر بھی اُسی طرح دھندلایا ہوا تھا جس طرح 1994ء میں بہار کی اُس شام کا منظر آنکھ میں دھندلا گیا تھا جب اسیران رہا ہو کر دارالضیافت پہنچے تھے۔
اور اِسی دھندلے منظر میں بہت سے نئے چہروں میں ایک جانا پہنچانا چہرہ بھی نظر آیا۔ وہی بزرگ جواسیران میں نظر آئے تھے۔ بزرگ تر ہو گئے ہوئے تھے۔ مگر رانا صاحب کی کیا ہی بات تھی۔ گیٹ پر ڈیوٹی کررہے تھے اور ایسے چوکس کھڑے تھے کہ کیا ہی کوئی جوان کھڑا ہوتا ہوگا۔ چال میں بھی ایک اعتماد۔ نظر بالکل سیدھی اور مستعد۔ عجیب رُعب تھا۔ وہ رُعب جو خلیفۂ وقت کی حفاظت پر مامور کسی محافظ میں ہونا چاہیے۔ پیشانی پہ وہ فخر بھی عیاں تھا جو صرف تب آتا ہے جب محافظ کو معلوم ہو کہ میں جس کی حفاظت کررہا ہوں، اُس کی حفاظت کا ذمہ خود خدا نے لے رکھا ہے۔ تو رانا صاحب کو جب دیکھا تو ایسا ہی محسوس ہوا کہ وہ خود کو حفاظتِ خلافت کے اِس الٰہی وعدے کی مشینری کا ایک پرزہ سمجھتے تھے اور اِسے اپنا سب سے بڑا اعزاز خیال کرتے تھے۔
اِس رعب کے باعث رانا صاحب سے کبھی رسم و راہ نہ بڑھا سکا۔ راہِ ہدیٰ شروع ہوا توپروگرام کے فورا ً بعد پروگرام کی ریکارڈنگ حضور انور کی خدمت میں پیش کرنے کی غرض سے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری واقع مسجد فضل حاضرہوتا۔ رانا صاحب ایسی محبت سے ملتے جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ غیر ازجماعت احباب کی کالز پر تبصرے کرتے۔ ہماری کوششوں کو بڑی محبت سے سراہتے اور بڑی سادگی سے اظہار خیال فرماتے۔ غیروں کی کالز پر اُن کے تبصرے سادہ ہوتے مگر اتنے زوردار کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کی جماعت کی محبت اورغیرت چھلکی پڑ رہی ہوتی۔
یوں رانا نعیم الدین صاحب سے گفتگو کے سلسلے جاری ہوئے۔ اُن دنوں خاکسار کی ڈیوٹی ایم ٹی اے کے دفتر میں تھی جو مسجد فضل ہی میں واقع تھا۔ یوں تقریبا ہر روز رانا صاحب کبھی پیدل ڈیوٹی پر آتے نظر آتے۔ کبھی ان کے صاحبزادے انہیں اتار کر جاتے نظر آتے۔ اور پھر دن بھر کی باقی نمازوں پر رانا صاحب حفاظتِ امام کی اہم ذمہ داری ادا کرتے نظر آتے۔
بہت دفعہ انہیں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے آگے آگے چلتے ہوئے نماز پر آتے دیکھا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ حضور کے پیچھے بھی چلنا پڑے تو رفتار برقرار رکھنا آسان نہیں ہوتا، مگر رانا صاحب اپنی ذمہ داری کے جذبہ میں اپنی پیرانہ سالی کو فراموش کیے، بڑی سبک رفتاری سے آگے آگے چلتے ہوئے مسجد کی طرف چلے جا رہے ہوتے۔
پھرایک اور منظرجو رانا صاحب مرحوم کا نام آتے ہی یاد آتا ہے، وہ بڑا پیارا بھی ہے اورناقابلِ فراموش بھی۔ اِس منظر کو دیکھ کر ہمیشہ یہ خیال آتا کہ کیا ہی خوش قسمت آدمی ہیں۔ اسیری میں تھے تو بھی ہم ان پر رشک کرتے رہے، اب آزاد ہیں تو بھی ہمارے لئے قابلِ رشک ہیں۔ جب حضور نماز پڑھا کر مسجد سے نکلتے تو رانا صاحب حضور کو shoehorn پیش کرتے۔ حضور اُس کی مدد سے جوتا زیبِ پا فرماتے۔ میں نے جب جب یہ منظر دیکھا، حضور کے چہرہ پر رانا صاحب کے لئے ایک خاص محبت دیکھی۔ اور ان لمحات میں رانا صاحب کو ایک معصوم بچے کی طرح سرجھکائے کھڑے دیکھا۔ محبت میں مخمور ایک ایسے بچے کی طرح جو دل میں ممنون بھی ہو۔اِس دوران بہت مرتبہ حضورانور اُن کی خیریت دریافت فرماتے۔اُن سے گفتگو بھی فرماتے۔ ایسےمیں اُن کی محبت اور عاجزی اور بھی انتہا کو پہنچ جایاکرتی۔
اسیرِ راہِ مولا ہونے کے باعث اور پھر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی بے پناہ محبت اور پھر خلافت خامسہ کے دور میں حفاظتِ امام کی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے ایم ٹی اے پر نظر آنے کے باعث رانا صاحب کو عالمگیر شہرت حاصل تھی۔ مگر وہ جس طرح عاجزی اور انکساری اور سادگی سے زندگی بسر کرتےرہے، وہ ان کی عالی ظرفی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ستائش کی تمنا یا صلے کی پروا کیے بغیر رانا صاحب بڑی سادگی سے ڈیوٹی پر آتے، بڑی جانفشانی سے ڈیوٹی ادا کرتے، اور بلاامتیاز ِعمر، مقام یا مرتبہ، سب سے نہایت ادب، نہایت محبت سے گفتگو کرتے۔ مرحوم کا یہ سادگی میں ڈوبا شیریں لب ولہجہ آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ پنجابی بڑی میٹھی زبان ہے، تو بہت سوں کو اِس سے شدید اختلاف بھی ہے۔ کیونکہ اِسی زبان کو درشتگی سے استعمال کیا جائے تو سامعین کے پسینے بھی چھڑوادیتی ہے۔ مگر رانا صاحب کی گفتگو اِس زبان کے میٹھا ہونے میں کوئی شک نہ رہنے دیتی۔ بلکہ اِسے میٹھا بنا دیتی۔ شاید کوئی زبان بھی میٹھی یا ترش نہیں ہوتی، اُسے بولنے والا اُسے اِن دونوں میں سے کوئی ایک رنگ عطا کرتا ہے۔
جو آدمی اپنے ایمان کی خاطر پھانسی کے پھندے تک کو چوم چکا ہو، اور پھر اس کے بعد عمر قید کے پروانے کو پڑھ کر صبرورضا کے ساتھ بیٹھ رہا ہو وہ آدمی کیسے وسیع و عریض حوصلہ کا مالک ہوگا۔اُن کے حوصلے کی وسعت اُن کے ہر کام ہر بات میں نظر آتی۔ سب کے مذاق بھی ہنس کھیل کر برداشت کر لیتے بلکہ نوجوانوں کو مذاق کا مزا لینے دیتے۔ مسجد فضل میں جب بالکل آغاز میں ٹیلی فون ایکسچینج لگی تو ایم ٹی اے کے بعض لڑکے شرارت سے سیکورٹی کا فون ملاتے، رانا صاحب اٹھاتے اور یہ لڑکے ان سے انگریزی میں گفتگو کر کے رانا صاحب کے جوابات (اور معصوم سی بوکھلاہٹ)کا لطف لیتے۔ بعد میں رانا صاحب سے اُن لڑکوں کا آمنا سامنا ہوتاتو راناصاحب بڑی محبت سے انہیں بتاتے کہ انہیں معلوم ہے وہ شرارت کررہے تھے ۔ یوں ان کے مذاق میں بھی شامل ہو جاتے اور ہر مرتبہ برضا و رغبت انہیں یہ مذاق کر بھی لینے دیتے۔
ایک مرتبہ عملہ حفاظتِ خاص کی ٹریننگ کے لئے ان کے ایک افسر نے ایک مشق کروانی تھی۔ عملہ کے کچھ احباب نے مسجد فضل کے دروازے سے گیٹ تک جانا تھا ایسے میں کہ رانا صاحب ان کے درمیان چل رہے ہوں۔ ان افسر صاحب نے ایک نرم سی گیند ایم ٹی اے میں ہمارے ایک دوست کو دے کر کہا کہ وہ اس عمل کے دوران محمود ہال کی ایک کھڑکی سے رانا صاحب کی طرف اچانک یہ گیند پھینک دیں تا کہ معلوم ہو سکے کہ سیکورٹی گارڈ کتنی سرعت سے ردِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ان افسرصاحب کو معلوم نہ تھا کہ ہمارے یہ دوست جنہوں نے گیند پھینکنی تھی کرکٹ کے ایک نہایت تجربہ کار کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے گیند جوپھینکی تو نشانہ بہت زبردست بیٹھا۔ محافظوں نے اگرچہ سرعت کا مظاہرہ کیا مگر گیند نشانہ پر لگ چکی تھی۔شکر ہے کہ گیند نرم سی تھی۔ ٹریننگ تو ہو گئی مگر رانا صاحب پوچھتے پھرے کہ آخر گیند پھینکی کس نے تھی؟ جب بتایا گیا تو بڑی محبت سےہمارے اُس ساتھی کے پاس آئے۔ ہنستے رہے اورخود بھی لطف لیتے رہے۔ بلکہ انہیں ان کے نشانہ کی داد بھی دیتے رہے۔
چونکہ رانا صاحب کی پیرانہ سالی کے ظاہری آثاراور ان کی چستی باہم لگّا نہ کھاتے تھے، سو ایک مرتبہ اُن کی عمر اُن سے دریافت کی۔ کچھ سال پہلے کی بات ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ 84 بہاریں دیکھ چکیں ہیں۔ اندازہ تو تھا مگر یہ اندازہ نہ تھا کہ ماشااللہ اَسّی کے پیٹے میں ہیں۔ سُن کرسخت شرمندگی بھی ہوئی کہ ہم جو اُن سے عمر میں آدھے بھی نہیں دو قدم چلنے کو دوبھر خیال کرتے ہیں اور رانا صاحب ہیں کہ نہایت مستعدی سے سارا سارا دن ڈیوٹی بھی دیتے ہیں، چلتے پھرتے گھر کی طرف بھی چلے جاتے ہیں اور چلتے چلتے ڈیوٹی پر بھی آنکلتے ہیں۔ راز پوچھا تو بتایا کہ کبھی کوئی ایسا شوق نہیں پالا جس کی جسم کو ضرورت نہ ہو۔ تمباکو نوشی وغیرہ کبھی نہیں کی۔ اور یہ کہ جذباتی طور پر بھی کبھی کسی ایسی محبت میں مبتلا نہیں ہوئے جس کا انجام لاحاصل ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یہ رانا صاحب کے الفاظ نہیں، مگر لُبّ ِلباب یہی تھا کہ انسان کو اپنی ذہنی اور جسمانی صحت کا خود خیال رکھنا چاہیے۔ یہی ان کی جسمانی چستی اور ذہنی بیداری کا راز تھا۔
خیر۔ یہ تنگیٔ زنداں کا ستایا ہوا مہمان پہلے چھوٹی جیل سے رہا ہوکر دنیا میں واپس آیا۔ پھر دنیا کی زنداں سے آزاد ہو کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
رانا صاحب کی وفات سے کچھ ہی روز قبل لالہ ناصر سعید صاحب کی وفات بھی ہوئی۔ وہ بھی حضور کے حفاظتِ خاص کے عملہ میں شامل تھے۔بلکہ کئی دہائیوں سےتھے۔ ان سے بھی میرا تعارف پہلے غائبانہ ہی ہوا۔ میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کر کے بی اے میں داخلہ کے انتظار میں تھا۔ اس دوران ربوہ کے ایک سکول میں پڑھانے کا موقع ملا۔ وہاں دسویں جماعت میں ایک طالبِ علم تھے خالد سعید صاحب۔ وہ ان دو تین طلبا میں سے تھے جو تقریبا ًمیری ہی عمر کے تھے۔ بہت ہی بھلے مانس ، مگر تعلیم کے معاملہ میں کچھ بے نیاز۔ اس بے نیازی کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ ان کے والد حفاظت ِخاص کی ذمہ داری کے لئے لندن جاچکے ہیں۔ اب فیملی کو بھی سپانسر کردیا ہوا ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ ویزا اور ٹکٹ ہاتھ میں ہوں گے اور وہ بھی لندن روانہ ہو جائیں گے۔ اُنہوں نے بتایا کہ ان کے والد صاحب کا نام ناصر سعید ہے۔
پھر میرا کالج میں داخلہ ہوگیا اور الاحمد اکیڈمی میں پڑھانے کا سلسلہ بھی اختتام کو پہنچا۔ وقت کے ریلے نے کم کم پیچھے مڑ کر سب کی خیر خبر رکھنے کی گنجائش دی۔ نہ خالد سعید صاحب یاد رہے، نہ ان کا ویزا اور نہ ان کے والد صاحب۔
بہت سے سال گزر گئے۔ لندن پہنچے اور مسجد فضل کی زیارت نصیب ہوئی تو خالد سعید صاحب سے ملاقات ہوئی۔ بہت محبت سے ملے۔ اور اسی پرانی، گمنام سی نسبت سے ان کے والد صاحب بھی بڑی محبت سے ملے۔ پھر لالہ جی کی وفات تک یہ نسبت ہمارے درمیان محبت کی ایک خاموش وجہ رہی۔ میرے دل میں تو لالہ جی کی فرض شناسی، ان کی بزرگی، ان کی مستعدی اور ان کا اپنے سے عمر میں کئی سال چھوٹے مجھ جیسے ناکارہ انسان سے شفقت اور محبت سے ملنا ان کے لئے میرے دل میں محبت کا باعث رہا اور میں نے ہمیشہ انہیں قدر اور محبت کی نگاہ سے دیکھا۔ مگرانہوں نے مجھ سے محبت کا سلوک بے وجہ اور بے سبب اور بے غرض کیا۔ یہ اُن کا بڑا پن تھا۔
لالہ جی سے کبھی لمبی نشستیں نہ ہوئیں۔ میں اُنہیں زیادہ جان نہیں سکا۔ مگر ہمیشہ اُن کی بےغرض محبت میرے دل میں ان کی قدر ومنزلت بڑھاتی رہی۔
ایک دوست نے بتایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کسی ملک کے دورہ پر تھے۔ ایک پرفضا پہاڑی مقام پر لالہ جی کو لگا کہ یہاں قدم کی ایک چھوٹی سی لغزش جماعت کے بہت بڑے نقصان کا باعث ہوسکتی ہے۔ خود کو اس خطرناک مقام اور حضرت خلیفۃ المسیح کے درمیان لے آئے اورایک ڈھال کی طرح خود سامنے کھڑے ہوگئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح اورخطرہ کے درمیان کی جگہ جہاں وہ خود آگئے، یقیناً زیادہ بڑے خطرے کی جگہ ہوگی۔
پھر ہم سب کو وہ نظارہ بھی تو یاد ہے جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی تدفین کے وقت حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ قبر کے سرہانے کھڑے مٹی دے رہے تھے۔ لالہ جی نے خود آگے بڑھ کر اپنے ہاتھ اور بازو کو ایسے زاویہ پر کر لیا کہ جو دولت اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک بہت بڑے نقصان کے بعد دوبارہ عطا فرمائی ، ہر طرح محفوظ رہے۔
میرے پاس اُن کے لئے عرض کرنے کو اُس خاموش محبت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ یوں بھی سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان کا جس محبت سے ذکر فرمادیا، اس کے بعد توکچھ بھی کہنا سورج کو چراغ دکھانے والی بات ہے۔
اپنی خاموش محبت کے اِس اظہار کا اختتام اِس بات پر کرتا ہوں جو کئی دن سے دل کو سخت رنج کا شکار کیے ہوئے ہے۔
پیارے آقا کے حفاظتی دستے کے دو سپوت یکے بعد دیگرے اس جہان سے رخصت ہو گئے۔ ہمارے پیارے آقا ہمارے محبوب تو بعد میں ہیں، پہلے تو وہ اللہ کے محبوب ہیں۔ اللہ نے قرآن کریم میں خود خلافت کی ہر رنگ میں حفاظت کا وعدہ فرما رکھا ہے۔ مگر یہ دونوں احباب عشق کے نشے سے چُور، اپنی پیرانہ سالی کو فراموش کیے اپنی محبت اور اپنے وعدوں کو آخری دم تک نباہتے رہے۔ اُن کی وفات یقینا ًہمارے پیارے امام کے لئے ایک صدمہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے امام کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ ایک سلطانِ نصیر کی جگہ دس دس خدام عطا فرمائے۔ وبا کے ان اداس موسموں میں اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے امام کو بری خبروں سے بچائے۔آمین الھم آمین۔