متفرق مضامین

وبائی ایام میں تجہیز و تکفین کا مسئلہ

(انیس احمد ندیم۔ مبلغ انچارج جاپان)

میت کا احترام بنی آدم کو سکھلائے گئے ابتدائی اسباق میں سے ایک ہے ۔جب آدم و حوا کے ایک بیٹے نے دوسرے کو قتل کردیا تو قاتل نادم ہوکر فکر مند ہوا کہ وہ اپنے مقتول بھائی کی نعش کا کیا کرے ؟اس پر اسے ایک نظارہ دکھایا گیا کہ ایک کوّے نے دوسرے کوّے کی نعش کو زمین میں گڑھا کھود کر دفن کیا ہے۔پس اسے بھی یہ ترکیب سوجھی اور اس نے اپنے بھائی کی نعش کو زمین میں دفن کیا۔

گو کہ یہ ایک تمثیلی نظارہ ہے لیکن دراصل بنی نوع انسان کو ودیعت کیا گیا وہ فطری جذبہ ہے جو اسے حیوان سے ممتاز کرتا اور معاشرتی رہن سہن کے آداب سکھلاتا ہے۔

دنیا میں تدفین کے مختلف طریقے رائج ہیں ۔ ہندو ؤں  کے نزدیک میت کو جلا دینا احترامِ میت کی علامت ہے۔  پارسی مذہب میں  سپرد آسمان کرنے کی روایت ہے یعنی میت کو ایک مخصوص مقام پر گدھوں اور چیلوں کے کھانے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ماضی میں نعش کو سمندر برد کرنے کا طریق بھی رائج رہا ہے لیکن چینی مذاہب، یہودیت  اور اسلامی شریعت  کے نزدیک زمین میں قبر کھود کر میت کو سپرد خاک کرنااحترامِ میت کا طریق سمجھا جاتا ہے۔ گویا ہر مذہب و ملت کے نزدیک میت کا احترام لازم ہے لیکن اس کے لیے مختلف طریق رائج ہیں۔ لیکن ابنائے آدم و حوا سے چلی ہوئی روایت کے مطابق اب بھی نوعِ انسان کی اکثریت کے نزدیک احترامِ میت کا سب سے  فطری اور مناسب طریق وہ ہے جسے اسلام نے اپنایا اور فوت شدہ انسانوں کے جسد کو زمین میں دفنانے کی روایت قائم کی ہے۔

آج کل کورونا وائرس کی وبا نے ایک عالمی انسانی بحران کی صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ ا س موقعے پر عالمی ادارۂ صحت نے  احترامِ میت کے لیے رائج تدفین اور نعش سوزی یعنی دونوں طریقوں کا حق تسلیم کیا ہے ۔WHOکی گائید لائن کے مطابق:۔ People who have died from COVID-19 can be buried or cremated یعنی میت کو جلا نا اور دفن کرنا دونوں بنیادی  پالیسی کا حصہ ہیں ۔ لیکن اس موقع پر ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ان احتیاطی تدابیر میں مرض کے پھیلاؤ کو روکنے اور ہیلتھ ورکرز کی صحت کو اولیت دی گئی ہے۔ اس دوران سری لنکا میں کورونا وائرس سے وفات پاجانے والے دو مسلمانوں کی نعشوں کوcremation کرنے کے عمل نے سری لنکن مسلمانوں میں ایک رد عمل کو جنم دیا ہے۔ اس خبر کی تفصیل اس لنک میں  ملاحظہ ہو:۔

https://www.aljazeera.com/news/2020/04/anguish-sri-lanka-forces-muslims-cremate-covid-19-victims-200403053706048.html

لیکن برطانیہ اور سنگا پور سمیت اکثر ممالک نے عالمی ادارہ صحت کی پالیسی کے مطابق نعش سوزی کے ساتھ ساتھ تدفین کے حق کو بھی تسلیم کیا ہے اور اسی پر عمل کیا جا رہا ہے ۔

بانیٔ اسلام رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے لواحقین کے جذبات اور کیفیات کو محسوس کرتے ہوئے طاعون جیسی وبائی مرض سے وفات پانے والے مسلمان کو شہید قرار دے کر گویا کئی زخموں پر مرہم رکھ دیے ہیں۔ آپ کے اس پر حکمت ارشاد کے مطابق وبائی امراض سے وفات کی صورت میں باقاعدہ غسل دینا مشکل ہویاکفن نہ پہنایا جاسکے تو وفات یافتہ مسلمان کو الوداع کرنے کا یہ طریق شہدا کا سا سمجھا جائے ۔

تدفین کے لیے غیر مروّجہ طریقے اختیار کرنے کی بحث

مسلمان روایتی طور پر نعش کو غسل دے کر کفن پہناتے اور تدفین سے پہلے میت کے چہرے کی زیارت کرتے ہیں اور اپنے مرحوم عزیزوں کے جنازوں میں بڑی تعداد میں شامل ہوکر بخشش کی دعا مانگتے ہیں۔لیکن موجودہ وبائی ایام میں بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے لوگوں کے اجتماع کی بندش اور دیگر ضروری ہدایات کی پابندی اختیار کرنے کی تلقین کی جارہی ہے۔ہنگامی نوعیت کی اس صورتحال میں بعض ذہنوں میں اضطراب پیدا ہوتا اور کئی سوال اٹھتے ہیں۔ لیکن جب ہم ماضی میں جھانک کر دیکھتے ہیں تو بعض مثالیں ملتی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ حالات و واقعات سے مجبور ہو کر اور بعض دفعہ زمانے کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مروّجہ طریقوں میں معمولی ردو بدل ممکن ہے۔

علامہ ابن حجر عسقلانی نے ابتدائی صدیوں میں مسلمان ممالک اور خطوں میں پھیلنے والی طاعون کے بارہ میں ایک ضخیم کتاب تصنیف فرمائی ہے ۔’’بذل الماعون فی فضل الطاعون‘‘نامی اس کتاب میں آپ نے وبائی مرض سے بسا اوقات روزانہ ہزارہا اموات کا ذکر کیا ہے ۔ گویا ایسی صورت  میں جب اموات کی کثرت سےمردوں کی تجہیز و تکفین کا مناسب انتظام ممکن نہ رہے توگویا ہنگامی نوعیت کے انتظامات اختیار کرنا حالات کی مجبوری تصور ہوگا۔ بصرہ اور دیگر مسلم ممالک میں پھیلنے والی ایک طاعون کا ذکر کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں کہ ایک ایک گڑھے میں بیس بیس اور تیس تیس  نعشیں  اکٹھی دفن کر دی جاتیں۔

’’حتی کانوا یحفرون الزُّبْیة و یلقون فیھا العشرین  والثلاثین جمعیا‘‘

(بذل الماعون فی فضل الطاعون از علامہ ابن حجر عسقلانی صفحہ 366)

اسی طرح  ماضی قریب میں سپینش فلو کے ایام میں صوبہ سندھ میں اموات کی کثرت سے ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے مردوں کی تجہیز و تکفین ممکن نہ رہی اور ہندوؤں کو نعش جلانے کے لئے لکڑیوں کا انتظام کم پڑ گیا ۔ تاریخ سکھر کے مطابق :

’’سکھر میں انفلوئنزا کی وباء، 1919ء میں پھیلی جس سے ہزاروں شہری لقمۂ اجل بن گئے۔ مسلمان مُردوں کو بغیر کفن دفنایا گیا اور ہندو مُردوں کو جلانے کی لکڑیاں کم پڑ گئیں۔‘‘

(تاریخ سکھراز رحیمداد خان مولائی شیدائی صفحہ184)

نیزمیت کو سرد خانے میں رکھنا، حسب ضرورت پوسٹ مارٹم کرنا، کندھا دینے کی بجائے میت کو گاڑی پر قبرستان لے جانا  اور تابوت میں جسد خاکی رکھ کر سپرد خاک کرنا، بحری جہازوں میں وفات پانے والوں کی میت کو پانی میں بہا دینا، ہوائی حادثہ میں جاں بحق ہوجانے والے مسلمان کی تدفین کا معاملہ اور بعض ممالک میں منزلوں کی صورت میں قبروں کی تعمیر جیسے غیر روایتی طریقوں کی نظیر ابتدائے اسلام میں تلاش کرنا ممکن نہیں لیکن حالات کے موافق یہ سب صورتیں قابلِ قبول  ٹھہر چکی ہیں۔ اسی اصول کے ماتحت وبائی امراض کے وقت انسانی جانوں کی حفاظت اور وباء کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے غسل، کفن اورجنازہ پڑھنے کے طریق کے بارہ طبی ماہرین کی رائے فائق متصور ہوگی۔

میت کا احترام بلا تفریق مذہب و ملت  ضروری ہے

موجودہ عالمی بحران میں مسلمان ممالک کے لیے موقع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ تعلیم پر عمل کرتے ہوئے اسلام کی برتری کو کل عالم پر ثابت کردیں۔ جہاں احتیاطیں ملحوظ خاطر رہیں وہیں احترامِ میت کے بارہ میں بانیٔ اسلام کا اسوۂ مبارک پیش کرکے ہر وفات یافتہ شخص کے ساتھ ہمدردی و غمخواری کے جذبات ظاہر کئے جائیں۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو  جو تہذیب اور شائستگی سکھلائی ہے اور بلا تفریق مذہب و ملت میت کے احترام کو  پیش نظر رکھنے کی جوتلقین فرمائی ہے وہ اس واقعہ سے ظاہر ہے ۔ ایک روایت کے مطابق :۔

’’مر علی رسول اللہ ﷺ بجنازۃٍ فقام فقیل لہ انہ یھودی فقال ألیست نفساً‘‘

یعنی  ایک دفعہ حضور ﷺ تشریف فرما تھے کہ ایک جنازہ گزرا۔ آپؐ اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ کسی نے کہا یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا کیا ہوا، انسان تو ہے۔

(سنن نسائی۔ کتاب الجنائز باب القیام الجنازۃ اھل الشرک)

اسی طرح آنحضورﷺ کا معمول  تھا کہ اگر میدانِ جنگ میں یا اس قسم کے حالات میں آپؐ کو کوئی نعش پڑی مل جاتی تو آپؐ اس کی تدفین کا حکم عطا فرماتے اور اسے اپنی نگرانی میں دفن کراتے اور یہ نہ پوچھتے کہ یہ مومن کی نعش ہے یا کافر کی۔

(السیرۃ الحلبیۃ۔ تالیف علی ابن برھان الدین الحلبی الشافعی۔ الجزء الثانی صفحہ 190، مطبعۃ محمد علی صبیح و اولادہ بمیدان الازھر بمصر 1935ء)

جنگ بدر میں اور جنگ احد میں آپؐ نے کفار کی نعشوں کی تدفین کروائی اور ایک ہی میدان میں مسلمانوں اور کافروں کی تدفین ہوئی، وقت کی تنگی کی وجہ سے جس طرح کئی مسلمان شہداء کو ایک ہی قبر میں دفن کروایا گیا اسی طرح کفار کی نعشوں کو بھی ایک ہی جگہ دفن کروایا۔

(السیرۃ الحلبیۃ۔ تالیف علی ابن برھان الدین الحلبی الشافعی۔ الجزء الثانی صفحہ 190، مطبعۃ محمد علی صبیح و اولادہ بمیدان الازھر بمصر 1935ء)

طاعون کی وباء کے ایام میں تجہیز و تکفین کے بارہ میں رہنمائی کرتے ہوئے امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

 ’’ جوخدا نخواستہ اس بیماری سے مرجائے وہ شہید ہے۔ اس کے واسطے ضرورت غسل کی نہیں اور نہ نیا کفن پہنانے کی ضرورت ہے۔اس کے وہی کپڑے رہنے دو اور ہوسکے تو ایک سفید چادر اُس پر ڈال دو اور چونکہ مرنے کے بعد میت کے جسم میں زہریلا اثر زیادہ ترقی پکڑتا ہے اس واسطے سب لوگ اُس کے گردجمع نہ ہوں۔ حسبِ ضرورت دوتین آدمی اُس کی چارپائی کو اٹھائیں اور باقی سب دور اکھٹے ہو کر مثلاً ایک سو گز کے فاصلے پر جنازہ پڑھیں۔ جنازہ ایک دعاہے اوراس کے واسطے ضروری نہیں کہ انسان میت کے سر پر کھڑا ہو۔ جہاں قبرستان دور ہو مثلاً لاہور میں سامان ہوسکے تو کسی گاڑی یا چھکڑے پر میت کو لاد کر لے جاویں اورمیت پرکسی قسم کی جزع فزع نہ کی جاوے۔ خداتعالیٰ کے فعل پر اعتراض کرنا گناہ ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ195-194،ایڈیشن1988ء)

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button