فلسفہ دعا از تحریرات حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسلسل جماعت کو دعاؤں کے مضمون کی طرف متوجہ فرما رہے ہیں اور خاص طور پر آج کل کے حالات کےمتعلق حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہے کہ
’’ آخری حربہ دعا ہے‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ20؍مارچ2020ء)
نیز فرمایا:
’’آجکل دعاؤں دعاؤں اور دعاؤں پر بہت زور دیں‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ10ا؍پریل2020ء)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں کی بابرکت تحریکات کے تناظر میں قارئین الفضل انٹرنیشنل کی خدمت میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات اور حیات طیبہ سے دعا کے مضمون کا فلسفہ اور واقعات پیش کیے جارہے ہیں۔ اس سلسلہ کا یہ تیسرا مضمون ہے۔خدا تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعودؑکی پیروی میں مقبول دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اُس کی دعا اُس کا حربہ ہوگا
حضرت اقدس مسیح موعود ؑ تحریر فرماتے ہیں:
’’یاد رکھیں کہ درحقیقت یہ جہاد کا مسئلہ جیسا کہ اُن کے دلوں میں ہے صحیح نہیں ہے اور اِس کا پہلا قدم انسانی ہمدردی کا خون کرنا ہے۔ یہ خیال اُن کا ہر گز صحیح نہیں ہے کہ جب پہلے زمانہ میں جہاد روا رکھا گیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اب حرام ہو جائے۔ اِس کے ہمارے پاس دو جواب ہیں۔ ایک یہ کہ یہ خیال قیاس مع الفارق ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز کسی پر تلوار نہیں اٹھائی بجز اُن لوگوں کے جنہوں نے پہلے تلوار اٹھائی اور سخت بے رحمی سے بے گناہ اور پرہیزگار مردوں اورعورتوں اور بچوں کو قتل کیا اور ایسے دردانگیز طریقوں سے مارا کہ اب بھی ان قصوں کو پڑھ کر رونا آتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر فرض بھی کر لیں کہ اسلام میں ایسا ہی جہاد تھا جیسا کہ ان مولویوں کا خیال ہے تا ہم اس زمانہ میں وہ حکم قائم نہیں رہا کیونکہ لکھا ہے کہ جب مسیح موعود ظاہر ہو جائے گا تو سیفی جہاد اور مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو جائے گاکیونکہ مسیح نہ تلوار اٹھائے گا اور نہ کوئی اور زمینی ہتھیار ہاتھ میں پکڑے گا بلکہ اُس کی دعا اُس کا حربہ ہوگا۔‘‘
(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد،روحانی خزائن جلد17صفحہ 8)
دعائیں قبول ہونے کا طریق
’’آئومیں تمہیں ایک ایسی راہ سکھاتا ہوں جس سے تمہارا نور تمام نوروں پر غالب رہے اور وہ یہ ہے کہ تم تمام سفلی کینوں اور حسدوں کو چھوڑ دو اور ہمدردِ نوع انسان ہو جائو اور خدا میں کھوئے جائو اور اس کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل کرو کہ یہی وہ طریق ہے جس سے کرامتیں صادر ہوتی ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں اور فرشتے مدد کے لئے اُتر تے ہیں۔ مگر یہ ایک دن کا کام نہیں ترقی کرو ترقی کرو۔‘‘
(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد،روحانی خزائن جلد17صفحہ 14)
دعائے مسیح
’’وَدُعَائِیْ دَوَاءٌ مُجَرّبٌ‘‘
(خطبہ الہامیہ،روحانی خزائن جلد16 صفحہ 61)
ترجمہ: اور میری دعا مجرب دوا ہے
مسیح موعود کی دعا کے اثرات
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام خطبہ الہامیہ میں فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’واضح ہو کہ یاجوج اور ماجوج دو قومیں ہیں جو جنگوں اور دیگر مصنوعات میں آگ اور اس کے شعلوں کو استعمال کرتی ہیں۔ اسی وجہ سے ان کو یہ دو نام دیئے گئے ہیں۔ الاَجیج آگ کی صفت ہے۔اسی طرح ان کی جنگ آتشیں مواد سے ہوتی ہے۔اور جنگ کے اس طریقہ سے وہ سب اہل زمیں پر غالب آتے جاتے ہیں اور وہ ہر اونچی جگہ سے دوڑتے چلے آتے ہیں۔نہ سمندر اُن کی راہ میں روک بنتا ہے اور نہ کوئی پہاڑ۔ بادشاہ خوف کے مارے ان کے آگے گر گر جاتے ہیں۔ کسی کے لیے ان کا سامنا کرنے کی سکت باقی نہیں رہی اور وہ سب ان (یاجوج ماجوج) کے نیچے موعود گھڑی تک کچلے جاتے رہیں گے۔ جو کوئی بھی ان دو پتھروں کی زد میں آئے گا خواہ اس کی عظیم مملکت ہی ہو تو وہ اس طرح پیس دیا جائے گا جس طرح دانہ چکی میں پیسا جاتا ہے اور زمین ان دونوں سے سخت زلزلہ میں ڈالی گئی ہے۔ اس کے پہاڑوں کو حرکت دی گئی ہے۔اور اس کی گمراہی پھیلا دی گئی ہے۔ نہ کوئی دعا سنی جاتی ہے اور نہ کوئی آہ و بکا عرش تک پہنچتی ہے۔ مسلمانوں کو وہ مصیبت پہنچ رہی ہے جو ان کے مالوں،جاہ و مرتبہ اور عزتوں کوکھاتی جاتی ہے اور مسلمان بادشاہوں کی پردہ دری کی جارہی ہے اور لوگوں پر ظاہر ہورہا ہے کہ وہ اپنی نافرمانی اور ارتکابِ جر م کی وجہ سے غضب الٰہی کے مورد بن گئے ہیں۔ ان سے ان کا رعب،اقبال،شوکت اور جلال اس وجہ سے چھین لیا گیا ہے کہ وہ تقویٰ اختیار نہیں کرتے۔ وہ ایک طریق سے دشمنوں سے مقابلہ کرتے ہیں اور سات طریقوں سے ہزیمت اٹھاتے ہیں۔ کیونکہ وہ نیکو کار نہیں۔ وہ لوگوں کے سامنے دکھاوا کرتے ہیں اور رسول اللہﷺ اور آپﷺ کی سنت کی پیروی نہیں کرتے اور نہ دین کو صحیح طور پر اپناتے ہیں۔ وہ محض صورتیں ہیں جن میں روح کوئی نہیںاس لیے اللہ ان پر نظر رحمت نہیں فرماتا اور نہ ان کی مدد کی جاتی ہے۔اگر وہ تضرع کرتے تو اللہ ان کی توبہ قبول کرنا چاہتا ہے۔مگر نہ انہوں نے توبہ کی اور نہ تضرع سے کام لیا۔ پس مجرموں پر ان کا وبال نازل ہواسوائے ان کے جو عاجزی اختیار کرتے ہیں۔وہ مصیبت کے دن اور اس کی راتیں دیکھیں گے جیسا کہ ملعونوں نے دیکھا۔تب ایسی حالت میں مسیح اپنے رب جلیل کے سامنے کھڑا ہوگا اور لمبی رات میں اس سے آہ و زاری سے پکارے گا اور آگ پر برف کے پگھلنے کی طرح پگھلے گااور اس مصیبت پر جو ملکوں پر نازل ہوئی ہے گڑگڑا کر دعا کرے گا اور بہتے آنسوؤں اور ٹِپ ٹِپ گرتے اشکوں سے اللہ کو یاد کرے گا تو اس کے اس مقام کی وجہ سے جو اسے اس کے رب کے حضور حاصل ہے اس کی دعا سنی جائے گی اور پناہ دینے والے فرشتے اتریں گے اور اللہ وہ کام کرے گا جو وہ کرے گا۔اور لوگوں کو اس وبا سے نجا ت دے گا تب مسیح زمین میں بھی ویسے ہی شناخت کیاجائے گا جیسا کہ وہ آسمان میں شناخت کیا گیا ہے۔اور امراء کے دلوں میں اس کی قبولیت رکھی جائے گی۔یہاں تک کہ بادشاہ اس کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے اور اس کی جناب سے ہوگا اور لوگوں کی نظر میں عجیب ہوگا۔‘‘
(خطبہ الہامیہ،روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 318
(ترجمہ شائع کردہ نظار اشاعت پاکستان صفحہ218تا221)
ہزارہا دعائیں اب تک قبول ہوچکی ہیں
’’خدا کے عظیم الشان نشان بارش کی طرح میرے پر اُتر رہے ہیں اور غیب کی باتیں میرے پر کھل رہی ہیں۔ ہزارہا دعائیں اب تک قبول ہوچکی ہیں۔ اور تین ہزار سے زیادہ نشان ظاہر ہوچکا ہے۔ ہزارہا معزز اور متقی اور نیک بخت آدمی اور ہرقوم کے لوگ میرے نشانوں کے گواہ ہیں اور تم خود گواہ ہو۔ اور مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا ہے کہ اگر کوئی سخت دل عیسائی یا ہندو یا آریہ میرے اُن گذشتہ نشانوں سے جو روز روشن کی طرح نمایاں ہیں انکار بھی کردے اور مسلمان ہونے کے لئے کوئی نشان چاہے اور اس بارے میں بغیر کسی بیہودہ حجت بازی کے جس میں بدنیتی کی بو پائی جائے سادہ طور پر یہ اقرار بذریعہ کسی اخبار کے شائع کردے کہ وہ کسی نشان کے دیکھنے سے گو کوئی نشان ہو لیکن انسانی طاقتوں سے باہر ہو اسلام کو قبول کرے گا تو میں اُمید رکھتا ہوں کہ ابھی ایک سال پورا نہ ہوگا کہ وہ نشان کو دیکھ لے گا۔‘‘
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15صفحہ 140)
دعوت مقابلہ دعا
’’ماسوا اِس کے جبکہ یہ حقیقت بھی کھل گئی کہ حضرت مسیح ہرگز مصلوب نہیں ہوئے اور کشمیر میں اُن کی قبر ہے تو اب راستی کے بھوکے اور پیاسے کیونکر عیسائی مذہب پر قائم رہ سکتے ہیں۔ یہ سامان کسر صلیب کا ہے جو خدا نے آسمان سے پیدا کیا ہے نہ یہ کہ مار مار کر لوگوں کو مسلمان بناویں۔ ہماری قوم کے علمائِ اسلام کو ذرہ ٹھہر کر سوچنا چاہیے کہ کیا جبر سے کوئی مسلمان ہوسکتا ہے اور کیا جبر سے کوئی دین دِل میں داخل ہوسکتا ہے۔ اور جو لوگ مسلمانوں میں سے فقراء کہلاتے ہیں اور مشائخ اور صوفی بنے بیٹھے ہیں اگر وہ اب بھی اس باطل عقیدہ سے باز نہ آویں اور ہمارے دعویٰ مسیحیت کے مصدق نہ ہو جائیں تو طریق سہل یہ ہے کہ ایک مجمع مقرر کرکے کوئی ایسا شخص جو میرے دعویٰ مسیحیت کو نہیں مانتا اور اپنے تئیں ملہم اور صاحبِ الہام جانتا ہے مجھے مقام بٹالہ یا امرتسر یا لاہور میں طلب کرے اور ہم دونوں جناب الٰہی میں دعا کریں کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جناب الٰہی میں سچا ہے ایک سال میں کوئی عظیم الشان نشان جو انسانی طاقتو ں سے بالاتر اور معمولی انسانوں کی دسترس سے بلند تر ہو اس سے ظہور میں آوے ایسا نشان کہ جو اپنی شوکت اور طاقت اور چمک میں عام انسانوں اورمختلف طبائع پر اثر ڈالنے والا ہو خواہ وہ پیشگوئی ہو۔ یا اور کسی قسم کا اعجاز ہو جو انبیاء کے معجزات سے مشابہ ہو۔ پھر اس دعا کے بعد ایسا شخص جس کی کوئی خارق عادت پیشگوئی یا اور کوئی عظیم الشان نشان ایک برس کے اندر ظہور میں آجائے او ر اس عظمت کے ساتھ ظہور میں آئے جو اس مرتبہ کانشان حریف مقابل سے ظہور میں نہ آسکے تو وہ شخص سچا سمجھا جائے گا جس سے ایسا نشان ظہور میں آیا۔ اور پھر اسلام میں سے تفرقہ دور کرنے کے لئے شخص مغلوب پر لازم ہوگا کہ اس شخص کی مخالفت چھوڑ دے اور بلاتوقف اور بلا تامل اُس کی بیعت کرلے اور اُس خدا سے جس کا غضب کھا جانے والی آگ ہے ڈرے۔‘‘
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15صفحہ170)
علامت اولیاء اللہ
پھر حضور ؑ تحریر فرماتے ہیں:
’’دعاکا قبول ہونا اوّل علامت اولیاء اللہ میں سے ہے۔ ‘‘
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15صفحہ171)
خوف مت کرو خدا تعالیٰ ہر ایک چیز پر قادر ہے
’’نواب سردار محمد حیات خاں صاحب ایک وقت معطل ہوگئے تھے اور گورنمنٹ سے اُن پر کئی الزام قائم ہوکر ایک سخت اور خطرناک مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ ان مشکلات کے وقت ان کی نسبت میرے بھائی مرزا غلام قاد ر مرحوم نے مجھ سے سفارش کی کہ اُن کے لئے دعا کی جائے۔ دعا کے بعد اُن کے بری ہونے کی بشارت خواب میں مجھ کو ملی اور میں نے اُن کو خواب میں عدالت کی کرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور میں نے کہا کہ تم معطل تھے۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ ہاں اُس جہان میں مگر اِس جہان میں نہیں۔ اور ایک مرتبہ خواب میں مَیں نے اُن کو کہا کہ تم کچھ خوف مت کرو خدا تعالیٰ ہر ایک چیز پر قادر ہے وہ تم کو اِس بلا سے نجات دے گا اور بری کردے گا۔ اِس پیشگوئی کے گواہ بہت سے ہندو مسلمان ہیں۔ اور اُن میں سے ایک ہندو لالہ شرمپت بھی ہے جو اسی گائوں میں رہتا ہے اورخود نواب سردار محمد حیات خاں صاحب گواہ ہیں کیونکہ میرے بھائی نے اِس خواب سے اُن کو اطلاع دے دی تھی اور نیز فضل احمد میرے لڑکے نے بھی اُن کو خبردی تھی۔ اور نیز دو نسخے براہین احمدیہ بھی جن میں اِس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر ہے اُن کی خدمت میں اور اُن کے بھائی صاحب کی خدمت میں بھیجے گئے تھے۔اور انجام کار ایسا ہی ہوا جیسا کہ کہا گیا تھا۔‘‘
(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15صفحہ192تا193)
دعا کی قبولیت اور تصرف ہمت اور پیش از وقت بتلانا تینوں امر
’’ایک آریہ شرمپت نام قوم کھتری جس کا نمبر اوّل میں ذکر آیا ہے جو کبھی کبھی میرے پاس آتا تھا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کا منکر اور سخت معاندِ اسلام تھا۔ پھر ایسا اتفاق ہوا کہ ناگہاں اس کا بھائی بشمبر داس نام ایک فوجداری الزام کے نیچے آکر ایک برس کی قید کا سزا یاب ہوگیا اور اُس کے ہمراہ ایک اور بھی قید ہواجس کا نام خوشحال تھا اور اُس کو ڈیڑھ سال کی سزا ہوئی۔ اِس مصیبت کے وقت شرمپت نے مجھ سے اپنے بھائی بشمبر داس کی نسبت دعا چاہی اور یہ بھی کہا کہ اس سے میں امتحان کرلوں گا اور یہ بھی کہا کہ ہم نے اس مقدمہ کا چیف کورٹ میں اپیل کیا ہے اگر مجھے الہام کے ذریعہ سے یہ خبر مل جائے کہ اس اپیل کا کیا نتیجہ نکلے گا اور یہ خبر سچی نکلی تو میں سمجھوں گا کہ اسلام میں یہ طاقت موجود ہے۔ چنانچہ اُس کے کمال اصرار کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی جناب میں دعا کی گئی اور وہ دعا منظور ہوئی اور بذریعہ الہام مجھے بتلایا گیا کہ اِس مقدمہ کی مثل چیف کورٹ سے عدالت ماتحت میں واپس آئے گی۔ اور پھر اس عدالت ماتحت میں تحقیقات ہوکر نصف قید بشمبر داس کی تخفیف کر دی جائے گی مگر بری نہیں ہوگا۔ اور جو اس کا دوسرا رفیق ہے وہ ہرگز خلاصی نہیں پائے گا جب تک پوری قید بھگت نہ لے اور بری وہ بھی نہیں ہوگااور اُس کے ایام قید میں سے ایک دن بھی کم نہ ہوگا۔ اور میں نے اُس وقت کشفی طور پر یہ بھی دیکھا کہ میں قضا و قدر کے دفتر میں گیا ہوں اور ایک کتاب میرے سامنے پیش کی گئی جس میں بشمبر داس کی ایک برس کی قید لکھی ہے۔ تب میں نے اُس کی قید میں سے آدھی قید کو اپنے ہاتھ سے اور اپنی قلم سے کاٹ دیا ہے۔ یہ وہ عظیم الشان پیشگوئی ہے جس میں دعا کی قبولیت اور تصرف ہمت اور پیش از وقت بتلانا تینوں امر ثابت ہیں اور شرمپت سخت مخالف اسلام اور قوم پرست ہے۔ اس کے منہ سے یہ نکلنا مشکل ہے کہ یہ پیشگوئی ہوبہوسچی نکلی کیونکہ بوجہ قوم پرستی قومی رعب اس کو کھائے گا لیکن تاہم اس کے منہ سے سچ کہلانے کا نہایت سہل طریق یہ ہے کہ اس کو اُس کے بیٹوں کی قسم دی جائے یعنی بیٹوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر بطور قسم یہ کہے کہ یہ پیشگوئی میرے نزدیک جھوٹ ہے ا ور پور ی نہیں ہوئی۔اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ یہ تمام واقعہ حق ہے و لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ اِس پیشگوئی کا ضمیمہ ایک یہ بھی امر ہے کہ جب بشمبرداس نے اپیل کیا اور وہ اپیل چیف کورٹ میں لیا گیا تو بشمبر داس کے بھائیوں نے مشہور کیا کہ بشمبر داس بری ہوگیا۔ اور چونکہ ایسی شہرت میرے الہام کے مخالف تھی اس لئے بعض نادان لوگوں نے مجھے ملزم کیا کہ تم تو کہتے تھے کہ مثل مقدمہ ماتحت عدالت میں واپس آئے گی اور قید نصف تخفیف ہوگی اور بری نہیں ہوگا اور وہ بری ہوگیا۔ تب مجھے مسجد میں سجدہ کی حالت میں یہ الہام ہوا لَا تَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی۔ یعنی کچھ خوف مت کر کہ تو غالب ہے اور فتح تیرے نام ہے۔ اور تھوڑے وقت کے بعد معلوم ہوگیا کہ یہ خبر جھوٹی مشہور کی گئی تھی اور اس جھوٹی خبر کا فائدہ یہ ہوا کہ ایک اور پیشگوئی ظہور میں آگئی۔ اور یہ پیشگوئی جیسا کہ بیان کیا گیا تھا کہ مثل مقدمہ عدالت ماتحت میں واپس آئے گی اور نصف قید بشمبرداس کی تخفیف ہوگی مگر دونوں مجرم بری ہرگز نہیں ہوں گے۔ ویسا ہی بعینہٖ ظہور میں آگئی۔ یہ تمام پیشگوئی ہماری کتاب براہین احمدیہ میں عرصہ بیس برس سے مندرج ہوکر لاکھوں انسانوں میں مشتہر ہوچکی ہے۔ دیکھو صفحہ ۲۵۰و ۲۵۱ و ۵۵۰ براہین احمدیہ۔‘‘
(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15صفحہ193تا195)
اے تپ کی آگ ٹھنڈی ہوجا
’’ایک ہندوآریہ ساکن قادیاں ملاوا مل نام تپ دق میں مبتلا ہوگیا اور ایک دن اپنی زندگی سے نومید ہوکر میرے پاس آکر بہت رویا۔ میں نے اُس کے حق میں دعا کی۔ تب الہام ہوا قلنا یا نارکونی بردً ا وّسلامًا۔ یعنی ہم نے کہا کہ اے تپ کی آگ ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی ہوجا۔ یہ الہام اس کو اور کئی آدمیوں کو سنایا گیا اور بیان کیا گیا کہ وہ اِس مرض سے شفا پا جائے گا۔ چنانچہ اس الہام کے بعدایک ہفتہ کے اندر ہی وہ ہندو شفا پاگیا۔‘‘
(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15فحہ195تا196)
دعا کے نتیجہ میں دوائیں بتائی گئیں جن میں برکت ڈالی گئی
’’ایک ابتلا مجھ کو اس شادی کے وقت یہ پیش آیا کہ بباعث اِس کے کہ میرا دل اور دماغ سخت کمزور تھا او رمیں بہت سے امراض کا نشانہ رہ چکا تھا اور دومرضیں یعنی ذیابیطس اور درد سر مع دورانِ سرقدیم سے میرے شاملِ حال تھیں جن کے ساتھ بعض اوقات تشنج قلب بھی تھا۔ اِس لئے میری حالت مردمی کالعدم تھی اور پیرانہ سالی کے رنگ میں میری زندگی تھی… غرض اِس ابتلا کے وقت میں نے جناب الٰہی میں دعا کی اور مجھے اس نے دفع مرض کے لئے اپنے الہام کے ذریعہ سے دوائیں بتلائیں۔ اور میں نے کشفی طور پر دیکھا کہ ایک فرشتہ وہ دوائیں میرے منہ میں ڈال رہا ہے۔ چنانچہ وہ دوا میں نے طیار کی۔ اور ا س میں خدا نے اس قدر برکت ڈال دی کہ میں نے دِلی یقین سے معلوم کیا کہ وہ پُر صحت طاقت جو ایک پورے تندرست انسان کو دنیا میں مل سکتی ہے وہ مجھے دی گئی اور چار لڑکے مجھے عطا کئے گئے۔ اگردنیا اِس بات کو مبالغہ نہ سمجھتی تو میں اِس جگہ اس واقعہ حقّہ کو جو اعجازی رنگ میں ہمیشہ کے لئے مجھے عطا کیا گیا بہ تفصیل بیان کرتا تا معلوم ہوتا کہ ہمارے قادر قیوم کے نشان ہررنگ میں ظہور میں آتے ہیں اور ہر رنگ میں اپنے خاص لوگوں کو وہ خصوصیت عطا کرتا ہے جس میں دنیا کے لوگ شریک نہیں ہوسکتے۔ میں اس زمانہ میں اپنی کمزوری کی وجہ سے ایک بچہ کی طرح تھا اور پھر اپنے تئیں خدا داد طاقت میں پچاس مرد کے قائم مقام دیکھا۔ اس لئے میرا یقین ہے کہ ہمارا خدا ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15صفحہ203تا204)
مصیبت کے وقت دعا
’’ایک صاحب نواب محمد علی خاں نام جھجر کے نوابوں میں سے لدھیانہ میں رہتے تھے اور انہوں نے لدھیانہ میں اِس غرض سے ایک سرائے بنائی تھی کہ تاجس قدر غلہ باہر سے آتا ہے اس کی اسی سرائے میں خرید و فروخت ہو۔ اور اسی سرائے میں غلہ بیچنے والے اپنا مال اُتاریں۔ پھر ایساہوا کہ ایک اور شخص اِس کام میں ان کا رہزن ہوگیا اور نواب صاحب کی سرائے بیکار ہوگئی جس سے ان کو بہت تکلیف پہنچی۔ اُنہوں نے اِس مصیبت کے وقت دعا کے لئے میری طرف التجا کی اور قبل اس کے جو اُن کا خط قادیان میں پہنچے میرے پر خدا نے ظاہرکردیا کہ اِس مضمون کا خط اُنہوں نے روانہ کیاہے۔ اور خدا تعالیٰ نے مجھے اطلاع دی کہ کچھ عرصہ کے لئے ان کی یہ روک اُٹھا دی جائے گی اور اِس غم سے ان کو نجات دی جائے گی۔ چنانچہ میں نے اِس تمام حال سے قبل از وقت اُن کو خبرکردی۔ اور ان کو یہ سخت تعجب ہوا کہ میرا خط جو بلا توقف روانہ کیا گیا تھااِس کا علم کیونکر ہوگیا؟ اور پھر اس پیشگوئی کے پورا ہونے سے ایک عجیب رنگ کا اعتقاد میری نسبت اس کے دل میں بیٹھ گیا۔ اور وہ ہمیشہ مجھے کہا کرتا تھا کہ میں نے اپنی نوٹ بک میں اس پیشگوئی کو یاد داشت کے لئے لکھ چھوڑا ہے اور ہمیشہ اس کو پڑھ لیا کرتا ہوں اور کئی لوگوں کو اُس نے اپنی یہ کتاب دکھلائی‘‘
(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15صفحہ204تا205)
بے نظیر شفاء کا واقعہ
’’ایک مرتبہ میں سخت بیمار ہوا یہاں تک کہ تین مختلف وقتوں میں میرے وارثوں نے میرا آخری وقت سمجھ کر مسنون طریقہ پر مجھے تین مرتبہ سورہ یٰسین سنائی۔ جب تیسری مرتبہ سورہ یٰسین سنائی گئی تو میں دیکھتاتھا کہ بعض عزیز میرے جو اَب وہ دنیا سے گذر بھی گئے دیواروں کے پیچھے بے اختیار روتے تھے۔ اور مجھے ایک قسم کا سخت قولنج تھا۔ اور بار بار دمبدم حاجت ہوکر خون آتا تھا۔ سولہ ۱۶ دن برابر ایسی حالت رہی۔ اور اسی بیماری میں میرے ساتھ ایک اور شخص بیمار ہوا تھا وہ آٹھویں دن راہی ملک بقا ہوگیا۔ حالانکہ اُس کے مرض کی شدت ایسی نہ تھی جیسی میری۔ جب بیماری کو سولھواں دن چڑھا تو اُس دن بکلّی حالاتِ یاس ظاہر ہوکر تیسری مرتبہ مجھے سورہ یٰسین سنائی گئی۔ اور تمام عزیزوں کے دِل میں یہ پختہ یقین تھا کہ آج شام تک یہ قبر میں ہوگا۔ تب ایسا ہوا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے مصائب سے نجات پانے کے لئے بعض اپنے نبیوں کو دعائیں سکھلائی تھیں مجھے بھی خدا نے الہام کرکے ایک دعا سکھلائی او ر وہ یہ ہے۔ سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم اللّٰھم صلّ علٰی محمّد واٰل محمّد۔ اور میرے دل میں خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا کہ دریا کے پانی میں جس کے ساتھ ریت بھی ہو ہاتھ ڈال اور یہ کلمات طیبہ پڑھ اور اپنے سینہ اور پشت سینہ اور دونوں ہاتھوں اور منہ پر اس کو پھیر کہ اِس سے تو شفا پائے گا۔ چنانچہ جلدی سے دریا کا پانی مع ریت منگوایا گیا او رمیں نے اسی طرح عمل کرنا شروع کیا جیسا کہ مجھے تعلیم دی تھی۔ اور اس وقت حالت یہ تھی کہ میرے ایک ایک بال سے آگ نکلتی تھی اور تمام بدن میں دردناک جلن تھی اور بے اختیار طبیعت اس بات کی طرف مائل تھی کہ اگر موت بھی ہو تو بہتر تا اِس حالت سے نجات ہو۔مگر جب وہ عمل شروع کیا تو مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ہر ایک دفعہ ان کلمات طیبہ کے پڑھنے اور پانی کو بدن پر پھیرنے سے میں محسوس کرتا تھا کہ وہ آگ اندر سے نکلتی جاتی ہے اور بجائے اس کے ٹھنڈک اور آرام پیدا ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ابھی اس پیالہ کا پانی ختم نہ ہوا تھا کہ میں نے دیکھا کہ بیماری بکلّی مجھے چھوڑ گئی۔ اور میں سولہ دن کے بعد رات کو تندرستی کے خواب سے سویا۔ جب صبح ہوئی تو مجھے یہ الہام ہوا
وان کنتم فی ریب ممّا نزّلنا علٰی عبدنا فأتوا بشفاء من مثلہ۔
یعنی اگر تمہیں اِس نشان میں شک ہو جو شفا دے کر ہم نے دکھلایا تو تم اس کی نظیر کوئی اور شفا پیش کرو۔ یہ واقعہ ہے جس کی پچاس آدمی سے زیادہ لوگوں کو خبر ہے۔‘‘
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15صفحہ208تا209)
ساری دعائیں قبول کروں گا مگر شرکاء کے بارے میں نہیں
’’اعظم بیگ نام ایک شخص لاہور کا باشندہ تھا جوا کسٹرا اسسٹنٹ تھا۔ اُس نے اپنی حیلہ سازی سے ہمارے بعض بیدخل شرکا ء کو جو ملکیت قادیاں کے کاغذات سرکاری کے رُو سے حصہ دار تھے مگر ملکیت سے بالکل بے تعلق تھے اور مقدمات قادیاں کے ہزارہا روپیہ کے خرچ و حرج میں کسی کام میں شریک نہیں ہوئے تھے اُٹھایااور کہا کہ اپنے حصّے میرے پاس فروخت کردو اور میں مقدمہ کروں گا۔ چنانچہ اُن کو کچھ تھوڑا روپیہ دے کر خوش کردیا اور ان سے ملکیت قادیاں کے مقدمے کرائے اور آپ ان کو مدد دی۔ میرا بھائی مرزا غلام قادر مرحوم جن کو اپنی فتح یابی پر بہت یقین تھا سرگرمی سے جواب دہی میں مشغول ہوئے اور چونکہ میں نے سنا ہوا تھا کہ میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم نے ان دیہات پر ہزارہا روپیہ خرچ کیا ہوا ہے اور شرکاء اس خرچ میں کبھی شریک نہیں ہوئے۔ اس لئے میں نے بھی ان کی فتح یابی کے لئے دعا کی۔ اور دعا کے بعد یہ الہام ہوا۔ اجیب کل دعائک اِلّا فی شرکائک۔ یعنی میں تیری ساری دعائیں قبول کروں گا مگر شرکاء کے بارے میں نہیں۔ تب میں گھر گیا اور تمام عزیزوں کو اکٹھا کیا اور اپنے بزرگ بھائی کو بھی بلا لیا اور یہ خدا تعالیٰ کا الہام سنایا۔ لیکن افسوس کہ انہوں نے جواب دیا کہ اگر ہمیں اس الہام سے پہلے سے اطلاع ہوتی تو ہم اس مقدمہ کو شروع ہی نہ کرتے۔ اب کیا کریں کہ مقدمات کے پیچ میں ہم مبتلا ہیں۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ ابھی وہ وقت نہیں تھا کہ وہ میرے منہ کی باتوں پر پورا یقین کرسکتے۔ انجام یہ ہوا کہ گو ابتدائی عدالتوں میں انہوں نے فتح پائی مگر آخر چیف کورٹ میں فاش شکست ہوئی۔ اور شرکاء اپنے اپنے حصوں کے مالک ٹھہرائے گئے۔ اور قریباً سات ہزار روپیہ کی اُن کو زیر باری ہوئی۔ اِس پیشگوئی کے قادیاں میں بہت سے آدمی موافقوں اور مخالفوں میں سے گواہ ہیں جو حلف دینے پر اِس میرے بیان کو تصدیق کرسکتے ہیں۔‘‘
(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15صفحہ209تا210)
کیا ایسی حالت میں دعا قبول ہوتی ہے؟
’’ایک مرتبہ مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ میرا بھائی مرزا غلام قادر مرحوم سخت بیمار ہے چنانچہ میں نے وہ خواب کئی لوگوں کے پاس بیان کئے جن میں سے اب تک بعض زندہ موجود ہیں۔ بعد اس کے ایسا اتفاق ہوا کہ وہ برادر مرحوم سخت بیمار ہوئے تب میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے عزیزوں میں سے ایک بزرگ جو فوت ہوچکے تھے میرےبھائی کو اپنی طرف بلاتے ہیں۔ چنانچہ وہ اُن کی طرف چلے گئے۔ اور ان کے مکان کے اندر داخل ہوگئے۔ اس کی تعبیر یہ تھی کہ وہ فوت ہو جائیں گے۔ اِس اثنا میں ان کی بیماری بڑھتی گئی یہاں تک کہ وہ مُشتِ استخوان رہ گئے۔ چونکہ میں اُن سے محبت رکھتا تھا۔ مجھے اُن کی حالت کی نسبت سخت قلق ہوا تب میں نے اُن کی شفا کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کی اور اس توجہ سے میرے تین مقصد تھے۔ اوّل میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ ایسی حالت میں میری دعا جنابِ الٰہی میں قبول ہوتی ہے۔ یا نہیں (۲) دوسرے یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا خدا کے قانون قدرت میں ہے کہ ایسے سخت بیمار کو بھی اچھا کردے۔ (۳) تیسری یہ کہ کیا ایسی منذرخواب جو ان کی موت پر دلالت کرتی تھی ردّ ہوسکتی ہے یا نہیں۔ سو جب میں دعا میں مشغول ہوا۔ تو تھوڑے ہی دن ابھی دعا کرتے گذرے تھے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرا بھائی مرحوم پورے تندرست کی طرح بغیر سہارے کسی اور چیز کے اپنے مکان میں چل رہا ہے اور اِسی بارے میں ایک الہام بھی تھا جس کے الفاظ مجھے یاد نہیں رہے۔ غرض اس خواب اور الہام کے مطابق جو میری دعا کے قبول ہونے پر دلالت کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے ان کو شفا بخشی۔ اور اس کے بعد پندرہ برس تک پوری تندرستی کے ساتھ وہ زندہ رہے اور پھر قضاء الٰہی سے فوت ہوگئے۔‘‘
(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15صفحہ210تا211)
قادر ہے وہ بارگہ
’’ایک مرتبہ میرے ایک مخلص دوست جو ہمارے سلسلہ کے نہایت درجہ حامی اور صادق الاخلاص ہیں۔ جنہوں نے اپنے نفس پر فرض کر رکھا ہے کہ ایک سو روپیہ ماہواری اِس سلسلہ کی امداد کے لئے بھیجا کریں جن کا نام سیٹھ عبد الرحمٰن حاجی اللہ رکھا ہے جو تاجر مدراس ہیں۔ کسی اپنی تشویش میں دعا کے خواستگار ہوئے اور ان کی نسبت مجھے یہ الہام ہوا۔
قادر ہے وہ بارگہ ٹوٹا کام بناوے
بنا بنایا تو ڑ دے کوئی اُس کا بھید نہ پاوے
یہ ایک بشارت اُن کا غم دور کرنے کے بارے میں تھی۔ چنانچہ چند ہفتہ کے بعد ہی خدا تعالیٰ نے ان کو اُس پیش آمدہ غم سے رہائی بخشی۔‘‘
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15صفحہ212)
نعم البدل کے لیے دعا
’’ایک لُدھیانہ کے متعصب مگر سخت جاہل سعد اللہ نام نے جو ہندوئوں میں سے نیامسلمان ہوا تھا میرے پر یہ اعتراض کیا تھا کہ امرتسر کے مباحثہ میں جو عیسائیوں کے ساتھ ۱۸۹۳ء میں ہوا تھا اِس کا نتیجہ بعد میں یہ ہوا کہ اخویم حبّی فی اللّٰہ مولوی حکیم نور دین صاحب کا شیرخوار لڑکا بقضاء الٰہی فوت ہوگیا۔ اِس قابلِ شرم اعتراض سے اصل غرض اُس بے حیا کمینہ طبع کی جو اکابر اسلام کے بچوں کے مرنے سے خوش ہوتا ہے یہ تھی کہ دین اسلام جھوٹا ہے او ر عیسائی مذہب سچا۔ اِس لئے میں نے دعا کی کہ خدا اِس شریر کو اِس نکتہ چینی میں بھی ذلیل اور رسوا کرے اور مولوی صاحب کو نعم البدل لڑکا عطا فرمائے سو اس وقت کہ میں نے اس نااہل کاجواب لکھا اور دعا سے فارغ ہوا فی الفور مجھ پر نیند غالب ہوگئی اور خواب میں مَیں نے دیکھا کہ مولوی صاحب موصوف کی گود میں ایک لڑکا کھیلتا ہے جو اُنہی کا ہے اور پچھلے بچوں کی نسبت رنگ اور طاقت میں اس قدر فرق رکھتا ہے کہ میں نے گمان کیا کہ شاید کسی اور بیوی سے یہ لڑکا ہے اور اُسی وقت اِس خواب کی تائید میں مجھے الہام بھی ہواکہ لڑکا پیدا ہوگا۔ پھر پانچ سال بعد اِس پیشگوئی کے مطابق مولوی صاحب موصوف کے گھر میں صاحبزادہ پیدا ہوا۔ جس کا نام عبد الحی رکھا گیا تا خدا تعالیٰ ایسے دشمنِ دین کو شرمندہ کرے جس نے پادریوں کا حامی بن کر اسلام پر حملہ کیا۔‘‘
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15صفحہ212تا213)
جنابِ الٰہی میں تضرع کے ہاتھ اُٹھائے
’’میرے چوتھے لڑکے کے متعلق ایک اور پیشگوئی کانشان ہے۔ جوانشاء اللہ ناظرین کے لئے موجب زیادت علم و ایمان و یقین ہوگا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ الہام جس کو میں نے کتاب انجام آتھم کے صفحہ ۱۸۲ و ۱۸۳۔ اور ضمیمہ انجام آتھم کے صفحہ ۵۸ میں لکھا ہے جس میں چوتھا لڑکا پیدا ہونے کے بارے میں پیشگوئی ہے جو جنوری ۱۸۹۷ء میں بذریعہ کتاب مذکور یعنی انجام آتھم اور ضمیمہ انجام آتھم کے لاکھوں انسانوں میں شائع کی گئی جس کو آج کی تاریخ تک جو ۲۰ ؍ اگست ۹۹ ء ہے پونے تین برس سے کچھ زیادہ دن گذر گئے ہیں۔ اِس تھوڑی سی مدت کو مخالفوں نے ایک زمانہ دراز خیال کرکے یہ نکتہ چینی شروع کردی کہ وہ الہام کہاں گیا جو انجام آتھم کے صفحہ ۱۸۲ اور ۱۸۳۔ اور اس کے ضمیمہ کے صفحہ ۵۸ میں درج کرکے شائع کیا گیا تھا۔ اور لڑکا اب تک پیدا نہیں ہوا۔ اِس لئے پھر میرے دل میں دعا کی خواہش پیدا ہوئی۔ گو میں جانتا ہوں کہ نامنصف دشمن کسی طرح راضی نہیں ہوتے۔
…الغرض میں نے بار بار ان نکتہ چینیوں کو سن کر کہ چوتھا لڑکا پیدا ہونے میں دیر ہوگئی ہے جنابِ الٰہی میں تضرع کے ہاتھ اُٹھائے اور مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میری دعا اور میری متواتر توجہ کی وجہ سے ۱۳؍ اپریل ۱۸۹۹ء کو یہ الہام ہوا۔ اصبر ملیًّا سأَھب لک غلامًا ذکیًّا۔ یعنی کچھ تھوڑا عرصہ صبر کر کہ میں تجھے ایک پاک لڑکا عنقر یب عطا کروں گا اور یہ پنجشنبہ کا دن تھا اور ذی الحج ۱۳۱۶ ھ کی دُوسری تاریخ تھی جبکہ یہ الہام ہوا۔ اور اس الہام کے ساتھ ہی یہ الہام ہوا۔ رب اصحّ زوجتی ھذہ یعنی اے میرے خدا میری اِس بیوی کو بیمار ہونے سے بچا۔ اور بیماری سے تندرست کر۔ یہ اِس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس بچہ کے پیدا ہونے کے وقت کسی بیماری کا اندیشہ ہے…اور پھر بعد اس کے ۱۴؍جون ۱۸۹۹ء کو وہ پیدا ہوا۔‘‘
حاشیہ میں حضورؑتحریر فرماتے ہیں: ‘‘بچہ پیدا ہونے کے بعد جیسا کہ الہام کا منشاء تھا میری بیوی بیمار ہوگئی چنانچہ اب تک بعض عوارض مرض موجود ہیں اور اعراض شدیدہ سے بفضلہ تعالیٰ صحت ہوگئی ہے۔ منہ‘‘
(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15صفحہ215تا217)
حضورؑ مخالفین کو چیلنج دیتے ہوئے مندرجہ بالادعا کی قبولیت اور نشان کے پورا ہونے کے متعلق مزید تحریر فرماتے ہیں:
’’اور پھر یہ پیشگوئی ضمیمہ انجام آتھم کے صفحہ ۵۸ میں اِس شرط کے ساتھ کی گئی کہ عبد الحق غزنوی جو امرتسر میں مولوی عبد الجبار غزنوی کی جماعت میں رہتا ہے نہیں مرے گا جب تک یہ چوتھا(۴) بیٹا پیدا نہ ہولے۔ اور اس صفحہ ۵۸ میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ اگر عبد الحق غزنوی ہماری مخالفت میں حق پر ہے او رجناب الٰہی میں قبولیت رکھتا ہے تو اِس پیشگوئی کو دعا کرکے ٹال دے۔ اور پھر یہ پیشگوئی ضمیمہ انجام آتھم کے صفحہ ۱۵ میں کی گئی۔ سو خدا تعالیٰ نے میری تصدیق کے لئے اور تمام مخالفوں کی تکذیب کے لئے اور عبد الحق غزنوی کو متنبہ کرنے کے لئے اِس پسر چہارم کی پیشگوئی کو ۱۴؍ جون ۱۸۹۹ء میں جو مطابق ۴؍ صفر ۱۳۱۷ھ تھی بروزچار شنبہ پورا کردیا یعنی وہ مولود مسعود چوتھا(۴)لڑکا تاریخ مذکورہ میں پیدا ہوگیا۔‘‘
(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15صفحہ221)
حضرت اقدس مسیح موعودؑکو چاروں بیٹوں کی پیدائش کی بشارت قبل ازوقت دے دی گئی تھی، آپؑ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’کیا ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ مفتری کی ایسی مسلسل طور پر مدد کرتا جائے کہ ۱۸۸۶ء سے لغایت سن ۱۸۹۹ء چودہ(۱۴) سال تک برابر وہ مدد جاری رہے۔ کیا کبھی مفتری کی تائید خدا نے ایسی کی یا صفحہ دنیا میں اس کی کوئی نظیر بھی ہے ؟ دیکھو ایک وہ زمانہ تھا کہ ان چار لڑکوں میں سے کوئی بھی نہ تھا اور اِس وقت ایک بڈھا کمزور دائم المرض آدمی جس کا ہر ایک دم موت کی خطرناک حالت میں ہے پیشگوئی کرتاہے کہ ضرور ہے کہ چار لڑکے میرے گھر میں پیدا ہوں اور پھر جب ایک لڑکے کے پیدا ہونے کا زمانہ کسی قدر قریب آتاہے تو الہام کے ذریعہ سے اس کے پیدا ہونے کی بشارت دیتا ہے۔ اور ایسا ہی پھر الہام کے ذریعہ سے دوسرے لڑکے کے پیدا ہونے کی خبردیتا ہے۔ پھر ایسا ہی تیسرے لڑکے کے پیدا ہونے سے پہلے اس کے پیداہونے کی پیشگوئی شائع کرتا ہے۔ پھر قبل اس کے کہ جو چوتھا لڑکا پیدا ہو بڑے دعوے اور زور شور سے اِس کے پیدا ہونے کی خبر دیتا ہے یہاں تک کہ کہتا ہے کہ فلاں شخص نہیں مرے گا جب تک وہ پسر چہارم پیدا نہ ہولے۔ پس اس کے قول کے مطابق پسر چہارم بھی پیدا ہوجاتاہے۔ اب سوچ کر دیکھو کہ کیا یہ انسان کی کارروائیاں ہیں؟ اور کیا آسمان کے نیچے یہ قوت کسی کو دی گئی ہے کہ اِس زور شور کی مسلسل پیشگوئیاں میدان میں کھڑا ہوکر شائع کرے اور پھر وہ برابر پوری ہو جائیں۔‘‘
(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15صفحہ222)
ان کے دِل پر اس واقعہ کی بہت تاثیر ہوئی
’’جب میں نے کتاب براہین احمدیہ تالیف کی تو اس وقت مجھے چھپوانے کی استطاعت نہ تھی میں نے جناب الٰہی میں دعا کی تو اِن الفاظ سے جواب آیا۔ کہ بالفعل نہیں۔ چنانچہ ایک مُدّت تک باوجود ہر ایک طور کی کوششوں کے کچھ بھی سرمایہ طبع کتاب میسر نہ ہوسکا اور لوگوں کو باوجود تحریک اور شائع کرنے اشتہارات کے دیر تک کچھ توجہ نہ ہوئی۔ غرض اسی طرح الہام پورا ہوا جس طرح کہ بتلایا گیا تھا یہاں تک کہ لوگوں کی عدم توجہی نے اِس الہام پر اطلاع رکھنے والوں کو تعجب میں ڈالا اور جن لوگوں کے پاس یہ پیشگوئی بیان کی گئی تھی ان کے دِل پر اس واقعہ کی بہت تاثیر ہوئی۔‘‘
(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15صفحہ228)
اضطراب کی حالت میں دعا ۔بارش کی طرح روپیہ برسنے لگا
’’جب اس الہام پر جو ابھی میں نے نمبر ۲۷ میں ذکر کیا ہے کچھ دیر گذر گئی اور براہین احمدیہ کے طبع کرانے کا شوق حد سے بڑھا اور کسی کی طرف سے مالی امداد نہ ہوئی تو میرے دِل پر صدمہ پہنچنا شروع ہوا۔ تب میں نے اسی اضطراب کی حالت میں دعا کی اس پر خداوند قدیر اور کریم کی طرف سے یہ الہام ہوا۔ ھزّ الیک بجذع النخلۃ تساقط علیک رُطَبًا جنیا۔ یعنی کھجور کا پیڑ یا اس کی شاخوں میں سے کوئی شاخ ہلا تب تروتازہ کھجوریں تیرے پر گریں گی۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ اس الہام کی خبر میں نے مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب کو بھی دی تھی اور اس ضلع کے ایک اکسٹرا اسسٹنٹ کو بھی جس کا نام حافظ ہدایت علی تھا اور کئی اور لوگوں کو بھی اِطلاع دی اور قادیاں کے وہ دونوں ہندو یعنی شرمپت اور ملاوا مل جن کا ذکر کئی مرتبہ اِس رسالہ میں آیا ہے ان کو بھی میں نے اِس الہام سے اِطلا ع دے دی۔ غرض قبل اس کے کہ الہام کے پورا ہونے کے آثار ظاہرہوں۔ خوب اس کو مشتہر کیا۔ اور پھر اس الہام کے بعددوبارہ بذریعہ اشتہار لوگوں میں تحریک کی۔ مگر اب کی دفعہ کسی انسان پر نظر نہ تھی اور پوری نومیدی ہوچکی تھی اور صرف الہام الٰہی کی تعمیل مدنظر تھی۔ سو قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اشتہارات کے شائع ہوتے ہی بارش کی طرح روپیہ برسنے لگا اور کتاب چھپنی شروع ہوگئی یہاں تک کہ چار حصّے کتاب براہین احمدیہ کے چھپ کر شائع ہوگئے اور لاکھوں انسانوں میں اس کتاب کی شہرت ہوگئی۔‘‘
(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15صفحہ228تا229)
جس دعا کے لیے توفیق دی جائے وہ قبول ہوتی ہے
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام حضرت عیسیٰ ؑکی صلیبی موت سے بچنے کے لیے دعاؤں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑکی دعائیں قبول ہوئیں اور یہ کہنا کہ وہ صلیبی موت سے نہیں بچے،ان کی دعائیں قبول نہیں ہوئیں درست نہیں۔ یہ بات قبولیت دعا کے فلسفہ کے ہی خلاف ہے۔ چنانچہ آپؑ تحریر فرماتے ہیں:
’’اور یہ غیرممکن ہے کہ جس نیک انسان کو یہ توفیق دی جائے کہ تمام رات دردِ دل سے کسی بات کے ہوجانے کے لئے دعا کرے اور اُس دعا کے لئے اس کو پورا جوش عطا کیاجائے اور پھر وہ دعا نامنظور اور نامقبول ہو۔ جب سے کہ دنیا کی بنیاد پڑی اُس وقت سے آج تک اِس کی نظیر نہیں ملی۔اور خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں میں بالاتفاق یہ گواہی پائی جاتی ہے کہ راستبازوں کی دعا قبول ہوتی ہے اور اُن کے کھٹکھٹانے پر ضرور کھولا جاتا ہے۔‘‘
حضورؑ مزید تحریر فرماتے ہیں:
’’ہم دیکھتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ ہماری کوئی دعا قبول کرنا نہیں چاہتا تو جلد ہمیں اِطلاع بخشتا ہے او ر اُس دردناک حالت تک ہمیں نہیں پہنچاتاجس میں اس کا قانونِ قدرت یہی واقع ہے کہ اس درجہ پر وفادار بندوں کی دعا پہنچ کر ضرور قبول ہوجایا کرتی ہے۔‘‘
پھرحضرت عیسیٰ ؑکی دعا کا تذکرہ کرتے ہوئے آپؑ تحریر فرماتے ہیں:
’’جس دعا میں رات کے چار پہر برابر سوزو گداز اور گریہ وزاری اور سجدات اور جانکا ہی میں گذریں کبھی ممکن نہیں کہ خدائے کریم ورحیم ایسی دعا کو نامنظور کرے۔ خاص کر وہ دعا جو ایک مقبول کے منہ سے نکلی ہو۔ پس اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کی دعا قبول ہوگئی تھی اور اِسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح کی نجات کے لئے ایسے اسباب پیدا کر دیئے تھے جو اُس کی رہائی کے لئے قطعی اسباب تھے۔‘‘
(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15صفحہ241تا242)
بارگاہ ایزدی سے تو نہ یوں مایوس ہو
مشکلیں کیا چیز ہیں مشکل کشا کے سامنے
٭…٭…٭