روزہ کی غرض وغایت۔ تقویٰ کا حصول
رمضان کا مقدس و مبارک مہینہ مومنین صالحین کے قلوب پر اپنے بے انتہا فیوض و انوار کی بارشیں برساتا ہوا ہم پر طلوع ہوا ہے۔ ہر طرف رحمت کی نسیم چل رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور مغفرت اور دعائوں کی قبولیت کا فیضان عام جاری ہے ۔
روز ہ کوئی بوجھ نہیں بلکہ جیساکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے روزہ مومنوں پراس لئے فرض کیا گیاہے لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن تاکہ تم متقی ہو جائو۔ چنانچہ مومنین کا فرض ہے کہ وہ روزہ کی اس بنیادی غرض کو ہمیشہ پیش نظررکھیں ورنہ ان کا بھوکا پیاسا رہنا ایک بے فائدہ اور بے ثمر عمل ٹھہرے گا۔
تقویٰ ایک وسیع المعانی لفظ ہے اور قرآن مجید و احادیث نبویہ میں اوراسی طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات و فرمودات میں اس کے مختلف پہلوئوں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔تقویٰ کے لفظ میں بنیادی حروف و، ق اور ی ہیں جس کے معنے بچنے کے ہیں ۔چنانچہ عربی میں اسی مادہ سے ایک لفظ ’’وِقَایَۃ‘‘ ہے جس کے معنے ڈھال کے ہیں جودشمن کے حملہ سے بچائو اور حفاظت کا ایک ذریعہ ہے۔ حضرت نبی اکرم ﷺ نے اپنے ایک ارشاد مبارک میں روزوں کو بھی ڈھال قرار دیاہے کیونکہ روزے انسان کے گناہوں کی بخشش اور نجات کا ایک ذریعہ ہیں ۔
روزہ کا مقصد صرف بھوکا اور پیاسا رہنا نہیں بلکہ خدا کے حکم کے تابع اور اس کی رضا کی خاطر جب انسان بعض حلال چیزوں کو بھی ترک کرتاہے اور عبادت میں شغف اورکثرت دعا اور انابت الی اللہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہوں میں آگے بڑھنے کی سعی کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اپنی بے پایاں رحمت و مغفرت کے ساتھ اُس سے زیادہ شفقت اور رحم کے ساتھ اس پر جھکتاہے یہاں تک کہ وہ اسے اپنی پناہ میں لے لیتاہے۔ اور جو خدا کی پناہ میں آجائے کون ہے جو ایسے شخص کو کسی قسم کی تکلیف یا دکھ پہنچا سکے۔ اور یہی روزے کا مقصود ہے کہ انسان اللہ کا تقویٰ اختیار کرے یعنی خدا کو اپنی سِپَر بنائے اوراس کی حفظ و امان کے سایہ تلے آ جائے ۔ پس روزہ تمام دینی و دنیوی شرورسے حفاظت کاایک ذیعہ ہے ۔
رمضان کے ان بابرکت ایام میں جبکہ خصوصیت سے تلاوت قرآن مجیدبھی کثرت کے ساتھ کرنے کا حکم ہے، ہمارا فرض ہے کہ تلاوت کے دوران جہاں متقین کا ذکر آتاہے اور تقویٰ کا مضمون بیان فرمایا گیاہے اس پرٹھہرکر خاص طورپرغورکریں اوراپنے طورپر جائزہ لیں کہ کیاہم تقویٰ کی راہوں پر گامزن ہیں یا نہیں اور پھر جہاں جہاں ا س پہلو سے کوئی کمی یا نقص دکھائی دے اسے دور کرنے کی طرف متوجہ ہوں۔
قرآن مجید میں جب بھی تقویٰ اختیارکرنے کا حکم دیا گیاہے تو سب سے اوّل اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کا حکم ہے۔ تقویٰ کے ایک معنی ڈھال یا بچاؤ کے ذریعہ کے بھی ہیں۔ چنانچہ تقویٰ اللہ اختیار کرنے کے حکم کاایک پہلو یہ ہے کہ تم اللہ کو اپنی ڈھال بنائو۔ ہر قسم کے خطرات، ہر قسم کے ظاہری وباطنی شر اور فساد اورنقصان سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ میں آؤ۔ کیونکہ صرف وہی ایک ایسی ذات ہے جو ہرلمحہ اور ہر آن ہر قسم کے شر اور نقصان سے تمہاری حفاظت کرسکتی ہے ۔ وہی ہے جس کی امان میں آ کر تم ہر قسم کی راحت اور سرور حاصل کر سکتے ہو۔ ورنہ تمہاری صحتیں، تمہاری طاقتیں، تمہاری صلاحیتیں، تمہارے ازواج و اولاد، تمہارے اموال، تمہاری جائیدادیں، تمہارے دوست احباب یا تعلق والے، تمہارے قبیلے، تمہاری اقوام، تمہاری حکومتیں، تمہاری چالاکیاں یا کسی قسم کی تدبیریں خدا کے مقابل پر تمہارے کسی کام نہیں آ سکتیں اور نہ تمہیں حقیقی خوشی پہنچا سکتی ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’اگرتم خدا کے ہو جائوگے تو یقیناً سمجھو کہ خدا تمہارا ہی ہے ۔تم سوئے ہوئے ہوگے اور خداتعالیٰ تمہارے لئے جاگے گا۔ تم دشمن سے غافل ہوگے اور خدا اسے دیکھے گا اور اس کے منصوبے کو توڑ دے گا۔ … خدا ایک پیارا خزانہ ہے اس کی قدر کرو کہ وہ تمہارے ہر ایک قدم میں تمہارا مدد گار ہے۔ تم بغیر اس کے کچھ بھی نہیں اور نہ تمہارے اسباب اور تدبیر یں کچھ چیز ہیں‘‘۔
(کشتی نوح،روحانی خزائن جلد 19صفحہ22)
اس لیے اگر تم سچی خوشی اور دائمی خوش حالی اور ابدی سکون اور اطمینان قلب کے متمنی ہو تو اللہ کی حفاظت میں آجائو۔ اس کو اپنی ڈھال بنالو۔ اس میں نہاں ہوجائو، یہی ہر مذہب کی بنیادی تعلیم ہے۔ تمام انبیا کرام اسی کی طرف لوگوں کو بلاتے رہے۔ چنانچہ جنہوں نے اس آواز پر لبیک کہا، اللہ نے ان کی نصرت فرمائی اور ان کے دشمنوں کو ناکام و نامراد کیا ۔ قرآ ن مجید ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔
پھر قرآن مجید اور احادیث رسولﷺ سے معلوم ہوتا ہے کہ تقویٰ ہر نیکی کی جڑ بھی ہے اور تقویٰ کی جڑ سے نشوونما پانے والے نیک اعمال ہی انسانوں کو تقویٰ کے بلند تر مراتب تک پہنچا نے کا موجب بنتے ہیں۔ تقویٰ کے یقیناً بہت سے مراتب ہیں۔ انبیا علیہم السلام اور ان کے متبعین کے تقوی میں بہت فرق ہوتاہے اوراس میں کچھ شک نہیں کہ سید المرسلین حضرت محمد مصطفیﷺسب سے زیادہ متقی تھے۔ خود آپؐ نے ایک موقعہ پر اللہ کی اس نعمت کے اظہار کے لئے فرمایا کہ مَیں’’اَتْقٰی‘‘ یعنی تم میں سے سب سے زیادہ متقی ہوں۔ پس تقویٰ کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ حضرت رسول مقبول ﷺکے اسوے پر قدم مارے جائیں۔ آپؐ نے تقویٰ کی راہوں پر خود چل کرکے امت کے لیے جو نمونہ قائم فرمایاہے وہی راہیں ہیں جن پرچلنے سے انسان تقویٰ کو پا سکتاہے۔
قرآن مجید میں سورۃ البقرہ کی آیت 184 جس میں مومنوں پر روزوں کوفرض قرار دیا گیاہے اور اس کی غرض تقویٰ بتائی گئی ہے اس سے یہ بھی استنباط ہوتا ہے کہ خود روزہ بھی تقویٰ کی راہوں میں سے ایک راہ ہے اور حصول تقویٰ کاایک ذریعہ ہے۔ چنانچہ حدیث نبوی میں روزہ کو ڈھال قراردیا گیاہے۔ اور زمانے کی تکلیفوں اورہلاکتوں سے اورخدا کے عذاب سے بچانے کا ذریعہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے یعنی اسے اپنی ڈھال بنانے اوراس کی حفظ و امان میں جگہ پانے کے لیے روز ہ ایک بہت ہی اہم طریق ہے۔ روزہ سے انسان کواپنے نفس پرقابو حاصل ہوتاہے۔ روزہ کی حالت میں انسان بہت سی جائز چیزوں سے بھی باوجود سامانوں کے مہیا ہونے کے اور ضرورت کے محض اس لیے رکا رہتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزہ کی حالت میں ان کے استعمال سے منع فرمایاہے۔ حالانکہ اگر وہ چاہے تو شدت پیاس یا بھوک کے وقت کوئی مشروب پی سکتاہے یا دیگر کھانے پینے کی اشیا استعمال کر سکتاہے اور اگر اسے لوگوں کاخوف ہو تو ان کی نظروں سے چھپ کر بھی وہ ایسا کرسکتاہے۔لیکن روزہ دار ایسا نہیں کرتا۔ کیوں؟ اس لیے کہ سچا روزہ دارریا کے خیالات سے پاک ہوتاہے۔ وہ خدا کی محبت میں اس کی خاطر روزہ رکھتاہے۔ وہ جانتاہے کہ مَیں نے جس کی خاطر روزہ رکھا ہے اس کی نظروں سے کوئی چھپ نہیں سکتا۔ اور اس کی طرف سے روزہ کی حالت میں ان باتوں کی اجازت نہیں۔ غرضیکہ روزہ دار جب ان تمام جائز اورحلال باتوں سے بھی باوجود سامانوں کے مہیا ہونے کے اور باوجود ضرورت کے اور کسی قسم کی روک کے نہ ہونے کے صرف اس لیے رکتاہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی اجازت نہیں تو ایسے شخص سے صریح حرام اور ناجائز امور کے ارتکاب کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔
اس وقت ہم جس دَور سے گزر رہے ہیں یہ دَور بہت ہی پُرفتن اور پرُآشوب ہے۔ دجالیت کے عنکبوتی تاروں نے معاشرہ کو اپنے شکنجوں میں جکڑ رکھاہے۔ دہریت اورالحاد کی زہریلی ہوائیں ہرطرف چل رہی ہیں۔ قسمہا قسم کی فحشاء اوربدیوں اور طرح طرح کے مکروفریب نے ا س خطہء زمین کا امن اٹھا دیاہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکارممکن نہیں۔ پس نفس امّارہ کے اندرونی حملوں اور شیطان کے بیرونی مفاسد سے بچنے کی ایک اور صرف ایک ہی صورت ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف رجوع کیاجائے اوروہ اپنے فضل اور رحم کے ساتھ ہماری دستگیری فرمائے اور اپنی پناہ میں لے لے۔
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’… پس کیاہی بدقسمت وہ شخص ہے جو اس مختصر زندگی پر بھروسہ کر کے بکلی خدا سے منہ پھیر لیتاہے اورخدا کے حرام کو ایسی بے باکی سے استعمال کرتاہے کہ گویاوہ حرام اس کے لئے حلال ہے۔ غصہ کی حالت میں دیوانوں کی طرح کسی کو گالی، کسی کوزخمی اورکسی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو جاتاہے۔ اورشہوات کے جوش میں بے حیائی کے طریقوں کو انتہا تک پہنچا دیتاہے۔ سو وہ سچی خوشحالی کو نہیں پائے گا یہاں تک کہ مرے گا۔ اے عزیزو! تم تھوڑے دنوں کے لئے اس دنیا میں آئے ہو اوروہ بھی بہت گزر چکے۔ سواپنے مولا کوناراض مت کرو۔ ایک انسانی گورنمنٹ جوتم سے زبردست ہو اگر تم سے ناراض ہو تووہ تمہیں تباہ کر سکتی ہے۔ پس تم سوچ لو کہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے کیونکر بچ سکتے ہو۔
اگر تم خدا کی آنکھوں کے آگے متقی ٹھہرجائوتو تمہیں کوئی تباہ نہیں کر سکتا اوروہ خود تمہاری حفاظت کرے گااوردشمن جو تمہاری جان کے درپے ہے تم پرقابو نہیں پائے گا ۔ ورنہ تمہاری جان کا کوئی حافظ نہیں اورتم دشمنوں سے ڈرکر یا اور آفات میں مبتلا ہوکربے قراری سے زندگی بسرکروگے اورتمہاری عمر کے آخری دن بڑے غم اورغصہ کے ساتھ گزریں گے۔ خدا ان لوگوں کی پناہ ہو جاتاہے جو اس کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔ سوخدا کی طرف آؤ اور ہر ایک مخالفت اس کی چھوڑ دو اور اس کے فرائض میں سستی نہ کرو اور اس کے بندوں پر زبان سے یاہاتھ سے ظلم مت کرو اورآسمانی قہر سے ڈرتے رہو کہ یہی راہ نجات ہے‘‘۔
(کشتی نوح روحانی خزائن جلد19صفحہ71تا72)
رمضا ن کا مہینہ گویا ایک تربیتی عرصہ ہے جس میں مومنوں کو یہ مشق کروائی جاتی ہے کہ وہ باوجود سامانوں کے مہیا ہونے کے اورضرورت کے ان چیزوں سے رکتے ہیں جن سے رکے رہنے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے اوران امور کو بجا لاتے ہیں جن کے کرنے کو اس نے پسند فرمایاہے اوران کے کرنے کا حکم دیاہے۔ گویا تمام امور میں اللہ کی اطاعت اوراس کی رضا کو مقدم کرنے کا بنیادی سبق ہے جو ہمیں روزوں میں ملتاہے۔ اور یہی تقویٰ کی پہلی منزل ہے کہ انسان اپنے تمام امور میں خواہ وہ دینی ہوں یا دنیاوی اللہ کی فرمانبرداری اوراس کی رضا کو مقدم رکھے اورکوئی ایسا کام نہ کرے جو اس کی مرضی کے خلاف ہو بلکہ ’’مرضی ٔ مولیٰ از ہمہ اولیٰ‘‘ کا زریں اصول اس کی زندگی کا معمول بن جائے۔ اگر ایسا ہو تویہی وہ تقویٰ کابنیادی معیارہے جو مومن کی تمام زندگی کوحسین سے حسین تربناتا چلا جائے گا اور اس کے نیک اعمال کے پاکیزہ درخت کو اللہ کے حکم سے نئی رفعتیں عطاہونگی اورنئے اور تازہ بتازہ شیریں پھل نصیب ہونگے ۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’یقیناً یادرکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے ہرایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہوگی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہوگا‘‘۔
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ15)
خدا کرے کہ ہم روزوں کی اس بنیادی غرض یعنی ’’تقویٰ‘‘ کو حاصل کرنے والے ہوں اور یہ تقویٰ ایک دفعہ ہمیں حاصل ہو تو پھر کبھی ہما را ساتھ نہ چھوڑے بلکہ ہمیں ہمیشہ تقویٰ کے اعلیٰ مراتب تک لے جانے کا باعث بنتا چلا جائے تا آنکہ ہم پورے طورپر اس محبوب حقیقی کی حفظ وامان میں آ جائیں کہ جس کے سوا کوئی معبود اور محبوب اورمقصود نہیں اور ’’ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ‘‘ کے اقرار پرہماری زندگیاں ایک عملی گواہ بن جائیں۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ الْھُدٰی وَالتُّقٰی وَالْعَفَافَ وَالْغِنٰی۔
آمین یا ارحم الراحمین ۔
٭…٭…٭