نفسانی جوشوں سے مغلوب نہ ہواورپنج وقتہ نمازوں کا التزام کرو
دوسري شرط بيعت(حصہ ششم)
حضرت امير المومنين خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز فرماتے ہيں:
نفسانی جوشوں سے مغلوب نہ ہو(حصہ دوم)
خلاصہ کلام یہ کہ فرمایا ہے کہ شہوات تم پر ہمیشہ غلبہ پانے کی کوشش کریں گی۔ لیکن تم ان سے ہمیشہ بچو، اللہ تعالیٰ سے رحم مانگتے ہوئے ان سے بچو۔ آج کل کے زمانے میں تو اس کے بہت سے اور راستے بھی کھل گئے ہیں اس لیے پہلے سے بڑھ کر دعائیں کرنے کی، اللہ کی طرف جھکنے کی اور اس کا رحم مانگنے کی ضرورت ہے۔
اَلَا لِلّٰہِ الدِّيۡنُ الۡخَالِصُ ؕ وَ الَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوۡلِيَآءَ ۘ مَا نَعۡبُدُہُمۡ اِلَّا لِيُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَي اللّٰہِ زُلۡفٰي ؕ اِنَّ اللّٰہَ يَحۡکُمُ بَيۡنَہُمۡ فِيۡ مَا ہُمۡ فِيۡہِ يَخۡتَلِفُوۡنَ ۬ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا يَہۡدِيۡ مَنۡ ہُوَ کٰذِبٌ کَفَّارٌ(الزمر:آيت4)
خبردار! خالص دین ہی اللہ کے شایانِ شان ہے اور وہ لوگ جنہوں نے اُس کے سوا دوست اپنا لیے ہیں (کہتے ہیںکہ) ہم اس مقصد کے سوا اُن کی عبادت نہیں کرتے کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کرتے ہوئے قرب کے اونچے مقام تک پہنچادیں۔ یقینا ًاللہ اُن کے درمیان اُس کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔ اللہ ہرگز اُسے ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا (اور) سخت ناشکرا ہو۔
حضرت اقدس مسيح موعودعليہ السلام فرماتے ہيں:
‘‘اسی خدا کو مانوجس کے وجود پر توریت اور انجیل اور قرآن تینوں متفق ہیں۔ کوئی ایسا خدا اپنی طرف سے مت بنائو جس کا وجود ان تینوں کتابوں کی متفق علیہ شہادت سے ثابت نہیں ہوتا۔ وہ بات مانو جس پر عقل اور کانشس کی گواہی ہے اور خدا کی کتابیں اس پر اتفاق رکھتی ہیں۔ خدا کو ایسے طورسے نہ مانو جس سے خداکی کتابوں میں پھوٹ پڑ جائے۔ زنا نہ کرو ، جھوٹ نہ بولو اور بدنظری نہ کرو اورہر ایک فسق اور فجور اورظلم اور خیانت اورفساد اور بغاوت کی راہوں سے بچو۔ اور نفسانی جوشوں سے مغلوب مت ہو اور پنج وقت نماز ادا کرو کہ انسانی فطرت پر پنج طورپر ہی انقلاب آتے ہیں۔ اوراپنے نبی کریم کے شکرگزار رہو، اس پر درود بھیجو کیونکہ وہی ہے جس نے تاریکی کے زمانہ کے بعد نئے سرے خداشناسی کی راہ سکھلائی‘‘۔
فرمايا: ’’یہ وہ میرے سلسلہ کے اصول ہیں جو اس سلسلہ کے لیے امتیازی نشان کی طرح ہیں جس انسانی ہمدردی اور ترک ایذاء بنی نوع اور ترک مخالفت حکاّم کی یہ سلسلہ بنیاد ڈالتاہے دوسرے مسلمانوں میں اس کا وجود نہیں۔ان کے اصول اپنی بے شمار غلطیوں کی وجہ سے اور طرز کے ہیں جن کی تفصیل کی حاجت نہیں اور نہ یہ ان کا موقع ہے‘‘۔
(ضميمہ ترياق القلوب۔ روحاني خزائن۔ جلد 15۔ صفحہ 524تا 526)
تيسري شرط بيعت
’’یہ کہ بلا ناغہ پنج وقتہ نماز موافق حکم خدا اوررسول کے ادا کرتا رہے گا۔ اورحتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم ﷺ پردرود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوںکی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا۔ اور دلی محبت سے خداتعالیٰ کے احسانوں کو یاد کرکےاس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہرروزہ ورد بنائے گا ‘‘۔
پنج وقتہ نمازوں کا التزام کرو
اس شرط میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان میں نمبر ایک تو یہی ہے کہ اللہ اوررسول کے حکم کے مطابق پانچ وقت نمازیں بلا ناغہ ادا کرے گا۔ اللہ اوررسول کا حکم ہے مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے ۔ اور ان بچوں کے لئے بھی جو دس سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں کہ نماز وقت پر ادا کرو ۔ مردوں کے لئے یہ حکم ہے کہ نماز باجماعت کی ادائیگی کا اہتمام کرو۔ مسجدوں میں جائو ، ان کو آباد کرو، اس کے فضل تلاش کرو۔ پنج وقتہ نماز کے بارہ میں کوئی چھوٹ نہیں ۔ اورسفر میں بھی کچھ رعایت تو ہے یا بیماری میں بھی رعایت ہے۔ یا جیسے یہ ہے کہ جمع کرلو ،قصر کرلو۔اور اگر بیماری میں مسجد نہ جانے کی چھوٹ ہے تو ان باتوں سے اندازہ ہو جانا چاہئے کہ نماز باجماعت کی کتنی اہمیت ہے۔اس کی اہمیت کے بارہ میں اب میں مزید کچھ اقتباسات پڑھتاہوں لیکن یہ عرض کرنا چاہتاہوں کہ ہر بیعت کنندہ کو اپنا جائزہ لیناچاہئے کہ ہم اپنے آپ کو بیچنے کاعہد کررہے ہیں لیکن کیا اس واضح قرآنی حکم کی پابندی بھی کررہے ہیں ۔ ہر احمدی اپنے نفس کے لئے خود مذکر ہے، خود اپنا جائزہ لیں ، خود دیکھیں۔ اگرہم خود ہی اپنے آپ کو ،اپنے نفس کو ٹٹولنے لگیں تو ایک عظیم انقلاب برپا ہوسکتاہے۔
قرآن شريف ميں اللہ تعالٰی فرماتاہے :
وَ اَقِيۡمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوةَ وَ اَطِيۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ(النور:آيت 57)۔
اور نماز کو قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کيا جائے۔
پھر سورة طٰہٰ آيت 15ميں ہے۔
اِنَّنِيۡۤ اَنَا اللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدۡنِيۡ ۙ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِکۡرِيۡ۔
يقيناً مَيں ہی اللہ ہوں۔ ميرے سوا کوئی معبود نہيں ۔پس ميری عباد ت کرو اور ميرے ذکرکے لئے نماز کو قائم کرو۔
اوراس طرح بے شمار دفعہ قرآن مجيد ميں نماز کے بارہ ميں احکامات آئے ہيں۔ ايک حديث مَيں پيش کرتاہوں۔ حضرت جابرؓ بيان کرتے ہيں کہ مَيں نے آنحضرتﷺ کو يہ فرماتے ہوئے سناکہ نماز کو چھوڑنا انسان کو شرک اورکفرکے قريب کر ديتاہے۔
(مسلم کتاب الايمان ۔ باب بيان اطلاق اسم الکفر علي من ترک الصلوٰة)
آنحضرت ﷺنے فرماياکہ ميری آنکھوں کي ٹھنڈک نماز ميں ہے۔
(سنن النسائی۔ کتاب عِشرةالنّساء۔ باب حُبّ النّساء)
حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا :قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کابندوں سے حساب لیا جائے گا وہ نمازہے۔اگریہ حساب ٹھیک رہا تو وہ کامیاب ہوگیا اوراس نے نجات پالی۔ اگر یہ حساب خراب ہوا تووہ ناکام ہو گیا اورگھاٹے میں رہا۔ اگراس کے فرضوں میں کوئی کمی ہوئی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ دیکھو! میرے بندے کے کچھ نوافل بھی ہیں ۔ اگر نوافل ہوئے تو فرضوں کی کمی ان نوافل کے ذریعہ پوری کردی جائے گی ۔اسی طرح اس کے باقی اعمال کا معائنہ ہوگا اوران کا جائزہ لیاجائے گا۔
(سنن ترمذي۔ کتاب الصلوٰة۔ باب انّ اوّل ما يحاسب بہ العبد)
پھر حدیث میں آتا ہے: حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرتﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر کسی کے دروازے کے پاس سے نہر گزر رہی ہو اور وہ اس میں دن میں پانچ بار نہائے تو اس کے جسم پر کوئی میل رہ جائے گی؟ صحابہؓ نے عرض کیا: رسول اللہؐ ! کوئی میل نہیں رہے گی۔ آپؐ نے فرمایا۔ یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے ، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ گناہ معاف کرتا ہے اور کمزوریاں دُور کردیتا ہے۔
(صحيح بخاری۔ کتاب مواقيت الصلوٰة۔ باب الصلوٰة الخمس کفارة للخطاء)
(باقي آئندہ)